Monday, April 29, 2024
Home Blog Page 88

زیادہ پانی پینے کا نقصان

زیادہ پانی پینے کا نقصان

زیادہ پانی پینے کا نقصان زیادہ پانی پینا مفید ہے یا نقصاندہ؟ پانی کب پینا چاہیےاور کب نہیں پینا چاہیے، زیادہ پانی پینے کے نظریے کا مدلل ابطال۔

آٹزم کی علامات،علاج،اور رہنمائی

آٹزم ایک نشونمائی معذوری ہے جو کسی شخص کی دوسرے لوگوں کے ساتھ بات چیت اور تعلقات پر اثر انداز ہوتی ہے۔ اس کی خصوصیات میں سماجی تعلقات میں مشکل پیش آنا، گفتگو میں دقت، محدود اور بار بار ایک عمل دہرانا شامل ہیں۔ آٹزم کئی مختلف طریقوں سے اثر انداز ہو سکتی ہے۔
اس بیماری میں مبتال کچھ لوگ اپنی روز مر ہ زندگی کے تمام امور آسانی سے انجام دے سکتے ہیں لیکن اس بیماری میں مبتال کچھ لوگوں کو پڑھنے اور سیکھنے میں مشکالت کا سامنا کرنا پڑ سکتاہے جس کی وجہ سے ان لوگوں کو زندگی بھر کے لیے ان امراض کے ماہر افراد کی ضرورت پڑسکتی ہے آٹزم کی شرح مردوں میں خواتین کی نسبت زیادہ ہوتی ہے.
آٹزم کی عام علامات کیا ہیں
آٹزم کی عالمات کی زیادتی کم یا زیادہ ہو سکتی ہیں۔عمومی طور پر اس کی تین طرح کی عالمات ہوتی ہیں۔
1: سماجی معذوری
اس بیماری میں مبتال افراد دوسرے افراد سے نظر مال کر بات کرنے سے یا دوسرے افراد کی مسکراہٹ اور دوسرے جذبات پر توجہ دینے سے قاصر ہوتے ہیں۔ ایسے افراد دوسرے لوگوں کی طرف کم دیکھتے ہیں اوراپنا نام لیے جانے پر کوئی اظہار نہیں کرتے
وہ دوسروں کے ساتھ بات چیت، اشتراک میں پہل کرنا پسند نہ کرتے۔ وہ سماجی طور پر غیر مناسب ہو سکتے ہیں.

یہ بھی پڑھیں: آٹزم کیا ہے

2 )بات چیت میں مشکلات
ان کی بولنے کی صلاحیت میں‌عام طور پر تاخیر ہوتی ہے کچھ افراد کے لیے اپنے جذبات اور احساسات کا اظہار مشکل عمل ہوتا ہے ایسے افراد اگر گفتگو کرتے بھی تو کم سے کم الفاظ کا سہارا لیتے ہیں ان میں‌دوسروں کے ساتھ بات چیت کرنے کا کم رجحان ہے یا ان کا بات چیت کا انداز مختلف ہے. ایسے افراد اجتماعی طور پر کم معاون ہوتے ہیں اور کم گھلتے ملتے ہیں، کچھ میں‌سنے ہوئے الفاظ کا فوری اعادہ کی تاخیر ہو سکتی ہے.
بات چیت عمومی طور پر کوئی درخواست کرنے تک محدود رہتی ہے. ان افراد میں‌تصور کرنے کی صلاحیت کم ہوتی ہے اور یہ صلاحیت عمر گزرنے کے ساتھ خراب سے خراب تر ہوتی جاتی ہے.
3. محدود یا باربار ایک ہی عمل دہرنا
ایک ہی کام میں کھوئے رہنا مثالً ایک ہی کھیل یا کھلونے کے ساتھ کھیلنے میں مصروف رہنا روزمرہ کے کام کرنے میں کوئی جدت نہ الناجیسے کہ ایک ہی راستے سے سکول جانا اور کسی قسم کی تبدیلی کو پسند نہ کرنا۔ ایسے لوگ ٹوکے جانے پر بہت برا مناتے ہیں۔
ایک عمل کا بار بار دہرانا جیسے کہ سر ، ہاتھ اور جسم کے دوسرے حصوں کو بار بار ہالنا ایسے افراد مختلف آوازوں، چھوئے جانا، مختلف ذائقوں، مختلف بو، روشنیوں اور رنگوں کوضرورت سے زیادہ یا کم محسوس کر سکتے ہیں۔
کچھ افراد بہت جذبانی اور سیکھنے کی مشکالت سے بھی دو چار رہتے ہیں جب کہ کچھ افراد ضرورت سے زیادہ فعالیت، بے دھیانی اپنے آپ کو نقصان پہنچانا، سونے میں مشکالت اور جارہانہ مزاج کا بھی مظاہرہ کر سکتے ہیں
آٹزم کے اسباب کیا ہیں.؟
آٹزم کی بنیادی وجوہات پر تحقیق کی جا رہی ہے ۔ تاہم تحقیق ثابت کرتی ہے کہ مختلف وجوہات جیسے کہ جینیاتی اور ماحولیاتی عوامل دماغ کی نشوو نما پر اثر انداز ہو سکتے ہیں ۔ آٹزم کی بنیادی وجہ ایک انسان کی

یہ بھی پڑھیں: آٹزم کا سبب کیا ہے

پرورش اور سماجی حاالت نہیں ہوتے اور اس میں مبتال افراد کا اتنا کوئی قصورنہیں ہوتا
آٹزم کا علاج کیا ہے.؟
آٹزم کا کوئی علاج نہیں ہے۔ مختلف علاج اور رویوں کی بہتری کے لیے مخصوص طریقہ کار اس بیماری کی علامات کو ٹھیک کر سکتے ہیں اور خاطر خواہ فائدہ بھی پہنچا سکتے ہیں۔ مثالی اور بہترین علاج مختلف طریقوں کو منظم کرتا ہے جو کہ انفرادی ضروریات کو پور ا کر دیتا ہے اورزندگی میں زیادہ سے زیادہ خو د انحصاری کو فروغ دیتا ہے۔ آٹزم سے متاثرہ افراد کے والدین اورانکے بھائی بہن کے ساتھ بیماری سے متعلقہ مشاورت ان کو آٹزم سے متاثرہ فرد کے ساتھ مناسب طریقے سے نمٹنے میں مدد دیتی ہے۔
ادویات:
آٹزم سے منسلک علامات کے علاج کے لیے ڈاکٹر )ماہر طب( مختلف ادویات مہیا کر سکتے ہیں۔ جیسے کہ تشویش ، اداسی /مایوسی یا وسوسی اضطراب جیسی علامات، نفسیات سے متعلق ادویات شدید رویے کے مسائل کا علاج کرنے کے لیے استعمال کی جا سکتی ہیں۔ جھٹکوں کا علاج بھی ایک یا ایک سے زیادہ ادویات سے کیا جا سکتا ہے۔ ایسی ادویات جو کہ توجہ کی کمی کا ڈس آرڈر کے لیے استعمال کی جاتی ہیں وہ ایسے لوگوں میں جلد بازی اور بیش فعالی کی علامات کو کم کرنے میں بہت مدد کرتی ہیں۔
بہت سے بچوں میں علامات علاج اور عمر بڑھنے کے ساتھ بہتر ہو جاتی ہیں۔ بلوغت کے دور میں آٹزم سے متاثرہ کچھ بچے مایوسی کا شکار ہو سکتے ہیں یا رویوں میں خرابی کی طرف مائل ہو سکتے ہیں اور ان کے علاج کے لیے کچھ تبدیلیاں کرنی پڑتی ہیں جب وہ بلوغت میں داخل ہو رہے
ہوں۔ آٹزم سے متاثرہ لوگوں کو مختلف سہولیات اور مدد کی ضرورت پڑتی رہتی ہے جیسے وہ بڑے ہو رہے ہوتے ہیں لیکن بہت سے لوگ اپنے کام کامیابی سے ادا کرتے ہیں اور آزادانہ طور پر یا ایک معاون ماحول میں اچھے طریقے سے رہتے ہیں

کمردرد سے نجات میں مددگار گھریلو ٹوٹکے

آپ بیٹھتے ہیں تو آپ کے کمر کے نچلے حصے میں درد ہوتا ہے، کھڑے ہونے پر بھی تکلیف محسوس ہوتی ہے جبکہ لیٹنے پر بھی کوئی سکون نہیں ملتا۔
تو آپ کو کمر کے نچلے حصے میں درد یا ٹیل بون پین کا سامنا ہے جو کہ انتہائی تکلیف دہ تجربہ ہوتا ہے۔
اگر آپ کو اس تکلیف کا سامنا کافی عرصے سے ہے تو اس سے بچنے کے لیے درج ذیل گھریلو ٹوٹکے مددگار ثابت ہوسکتے ہیں۔

گرم یا ٹھنڈے سے مدد لیں
اس کے لیے آپ کو گرم پانی کی بوتل یا ایک آئس پیک کی ضرورت ہوگی، پانی کی بوتل یا آئس پیک کو متاثرہ حصے پر 20 منٹ کے لیے رکھ دیں، اس عمل کو دن میں 3 سے 4 بار دہرائیں۔ یہ ٹوٹکا کمر کے نچلے حصے میں درد سے نجات کے لیے بہت زیادہ عام استعمال ہوتا ہے اور مختلف طبی تحقیقی رپورٹس میں بھی یہ بات سامنے آچکی ہے کہ اس طریقہ کار سے کمر کے درد میں کمی لانے میں مدد مل سکتی ہے۔ اس سے ورم بھی کم ہوتا ہے۔
مالش بھی فائدہ مند
سرسوں، ناریل یا کسی بھی قسم کے مالش کے لیے استعمال ہونے والے تیل سے متاثرہ حصے پر 10 سے 15 منٹ تک نرمی سے دباﺅ ڈالتے ہوئے مساج کریں۔ اس طریقہ کار کو دن میں 2 بار آزمانا کمردرد میں کمی لاتا ہے، چند دن تک اسے آزمانے سے آپ اس درد سے ہمیشہ کے لیے نجات پاسکتے ہیں۔
وٹامنز کا استعمال
کمر کے نچلے حصے میں درد اکثر وٹامن ڈی، بی 6 اور بی 12 کی کمی کا نتیجہ ہوتی ہے، وٹامن ڈی ہڈیوں کی صحت مستحکم رکھنے کے لیے ضروری ہے اور اس کی کمی ہڈیوں کے تکلیف دہ عارضے کا باعث بنتی ہے۔ وٹامن ڈی کیلشیئم کے ساتھ مل کر ہڈیوں کو مضبوط بناتا ہے جبکہ بی وٹامن ہڈیوں کی صحت کے لیے حفاظت کا کام کرتے ہیں۔ اگر آپ اکثر کمردرد کے شکار رہتے ہیں تو دن کی روشنی میں زیادہ گھومیں اور سی فوڈ، انڈے، پنیر، مٹر، چکن اور دالیں وغیرہ زیادہ کھائیں۔
کیسٹر آئل
چند قطرے کیسٹر آئل کو معمولی گرم کرکے اسے متاثرہ حصے پر لگائیں اور پھر بینڈیج سے کور کرلیں، یہ کام ہر رات سونے سے پہلے کریں، یہ کمردرد سے نجات کا بہترین ٹوٹکا ہے، کیسٹر آئل ورم کش خصوصیات کا حامل ہوتا ہے جو کمردرد سے فوری ریکوری میں مدد دیتا ہے۔

ر سالت سے تکلیف کن لوگوں کوہے۔ فرقہ واریت کیا چیز ہے

فرقہ واریت کیا چیز ہے

سید عبدالوہاب شیرازی
اس امت میں جتنے فتنے اٹھے ہیں وہ سارے انکار سنت ہی کی بدولت اٹھے ہیں، چنانچہ پہلافتنہ مسیلمہ کذاب کا اٹھا، جن کا نعرہ تھا: کفاناہدایۃ القرآن۔ یعنی ہمارے لیے قرآن کی ہدایت کافی ہے۔اس خوبصورت نعرے میں ساری انکار سنت موجود ہے۔ اس کے بعد خوارج کا فتنہ کھڑا ہوا، ان کا نعرہ تھا: حسبنا کتاب اللہ، ہمارے لئے اللہ کی کتاب کافی ہے۔ اسی طرح منافقین کا بھی یہی مسئلہ تھا، وہ کہتے تھے ہم اللہ کو مانتے ہیں، آخرت پر یقین ہے، ہم محمد کی شخصی اطاعت کیوں کریں، لیکن سورہ نساء میں سارا زور ہی اسی بات پر دیا گیا ہے کہ جب تک تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصی اطاعت نہ کروتمہارا ایمان معتبر ہے ہی نہیں۔یہ انکار رسالت کا فتنہ ہر دور میں رہا، یہاں تک کہ ابھی قریب کے زمانے میں غلام احمد پرویز آیاجس نے قرآن سے رسالت کا تعلق توڑنے کی بھرپور کوشش کی لیکن ناکام رہا، البتہ اس کا اثر کافی لوگوں پر ہوا ہے۔چنانچہ اب موجودہ زمانے میں اس شیطانی کام کا جھنڈا جاوید احمد غامدی نے تھاما ہوا ہے، اور دجالی میڈیا اور ہمارے بعض چینلز جیونیوز،دنیا نیوز وغیرہ اس نئے فرقے کو خوب پروموٹ کررہے ہیں۔
Nukta Colum 003 5
اس ضمن میں ہمیں یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ قرآن مجید کے ساتھ سنت کا تعلق کیا ہے؟ قرآن نے جس چیز کو بینہ قرار دیا ہے یعنی وہ روشن چیز جو حق وباطل میں تمیز کرے وہ اللہ کے رسول ہیں جو صحیفے پڑھتے ہوئے آئے۔ رسول کو پہلے ذکر کیا جبکہ کتابوں کو بعد میں ذکرکیا۔ اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی جب کوہِ صفا پر کھڑے ہوکر اعلان کیا تھا، اس وقت تو یہ پورا قرآن نہ تو موجود تھا اور نہ ہی آپ نے قرآن کی طرف دعوت دی بلکہ وہاں دلیل کے طور پر اپنی ذات کو پیش کیا اور کہا میں نے تمہارے درمیان چالیس سال گزارے ہیں، میں تمہیں کہوں پہاڑی کے پیچھے لشکر ہے تو مانو گے یا نہیں۔ پھر ہماری زیادہ تر فقہ قرآن میں بعد میں آئی ہے لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر پہلے سے عمل کروانا شروع کردیا تھا کیونکہ وماینطق عن الہوا ان ہوا الا وحی یوحی، آپ جو بھی بولتے تھے وہ سارا وحی ہی ہوتا تھا۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں: کان خلقہ القرآن۔ یعنی حضور کی سیرت واخلاق قرآن ہی تھی۔ اوراللہ تعالیٰ نے قرآن کی حفاظت کا ذمہ اٹھایا ہے، جس کا مطلب ہے آپ کی پوری سیرت اور سنت کی حفاظت کا ذمہ بھی اللہ ہی نے اٹھایا ہوا ہے اور آپ کی ساری سیرت اور سنت بالکل محفوظ ہے۔
اب اس بات کو دیکھتے ہیں کہ فرقہ واریت کیا چیزہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری امت میں تہتر فرقے بنیں گے، بہتر جہنمی ہوں گے صرف ایک جنتی ہوگا، پوچھا گیا وہ کون سا ہوگا؟ تو فرمایا: ماانا علیہ واصحابی۔ یعنی وہ فرقہ جو اس راستے پر ہوگا جس پر میں اور میرے صحابہ ہیں۔ اس سے سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ بہتر فرقے کون سے ہیں؟ کیا ہمارے ہاں مختلف مسالک جو بنے ہوئے ہیں وہ فرقے ہیں؟ یا ہمارے ہاں مختلف مذہبی تنظیمیں جیسے تنظیم اسلامی، جماعت اسلامی، تبلیغی جماعت،جمعیت علمائے اسلام وغیرہ یہ فرقے ہیں؟ اس حوالے سے اچھی طرح جان لیجئے ان میں سے کوئی بھی فرقہ نہیں ہے۔ یہ سب ماانا علیہ واصحابی پر ہی ہیں۔ فرقہ واریت کی جامع مانع تعریف یہ ہے کہ جس چیز کی دین میں گنجائش ہی نہ رکھی گئی ہو، یا جہاں دین میں اختلاف کرنے کی گنجائش نہ رکھی گئی ہو وہاں اختلاف کرنا یہ فرقہ واریت ہے۔ مثلا دن میں پانچ نمازیں فرض ہیں۔ اس میں کوئی اختلاف نہیں اور نہ ہی اختلاف کرنے کی گنجائش ہے، اب یہاں جو کہے نماز فرض نہیں یا نمازیں پانچ نہیں تین ہیں تو یہ فرقہ واریت ہے کیونکہ اس بات میں اختلاف کی گنجائش ہی نہیں رکھی گئی۔ جبکہ نماز پڑھنی کیسے ہے اس میں اختلاف کی گنجائش ہے لہٰذا اس اختلاف کو فرقہ واریت نہیں کہہ سکتے۔ پھر اسی طرح جہاں اللہ نے اختلاف کی گنجائش چھوڑی ہو وہاں اختلاف کی گنجائش نہ چھوڑنا یہ بھی فرقہ واریت ہے۔مثلا اللہ کے نبی نے ایک مرتبہ حکم دیا کہ جلدی سے فلاں جگہ پہنچو اور عصر کی نماز وہاں پڑھنا، اب راستے میں عصر کا ٹائم نکل رہا تھا تو کچھ صحابہ نے راستے میں ہی نماز پڑھ لی اور کچھ نے کہا نہیں ہم تو وہاں پہنچ کر نماز پڑھیں گے، بعد میں اللہ کے نبی سے پوچھا گیا تو آپ نے کہا دونوں نے ٹھیک کیا۔ اسی طرح ایک حدیث میں آیا داڑھی لمبی رکھو جبکہ ایک حدیث میں داڑھی کے کچھ حساب کتاب کا ذکر بھی ہے ، اب کوئی شخص کہے کہ کسی نے داڑھی کو قینچی لگائی تو وہ بدعتی ہے تو گویا اس نے اختلاف کی گنجائش ہونے کے باوجود نہ چھوڑی تو یہ بھی ایک نوعیت کی فرقہ واریت ہے۔
ایک مرتبہ آپ نے فرمایا میرے بعد تم بہت اختلاف دیکھو گے، اس وقت تم پر لازم ہے کہ تم میری اور میرے ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کی سنت کو لازم پکڑو۔ پھر ان خلفاء کی تشریح شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ نے کی ہے کہ حضور کی تین خلافتیں ہیں۔ایک آپ کی سیاسی خلافت ہے، ایک آپ کی علمی خلافت ہے اور ایک آپ کی باطنی خلافت ہے۔ یہاں سیاسی خلافت کے لئے تو ہم جدجہد کررہے ہیں کیونکہ وہ ابھی موجود نہیں ہے البتہ خاص طور پر آپ کی علمی خلافت جس کے لئے ہمارے لئے رہنماء کے طورپر چاروں ائمہ(امام ابوحنیفہ،امام شافعی،امام مالک،امام احمدبن حنبل)ہیں جنہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی علمی خلافت کا حق ادا کیا ہے اس کے ساتھ وابستگی اور اس خلافت کے ساتھ چمٹنے کا حکم ہے۔اس وقت جو طرح طرح کے فتنے کھڑے ہورہے ہیں ان حالات میں ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم اس دائرے میں اپنے آپ کو پابند کریں۔جیسا کہ کہا گیا کہ درخت کی جڑوں کے ساتھ چمٹ جاو، تو وہ یہ شجرہ طیبہ ہے جس کے ساتھ چمٹنے کا حکم دیا جارہا ہے۔اگر روشن خیالی کے طوفان سے ہم بچنا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے آپ کو اس دائرے میں بند کرنا ہوگا۔اس سے معلوم ہوا اصل فرقہ واریت فتنہ انکار حدیث ہے، اصل فرقہ واریت سیکولرازم ( ہمہ مذہبیت ، لادینیت ) ہے۔چنانچہ ہمارا میڈیا اس فرقہ واریت کو خوب پھیلا رہا ہے اور الزام دینی طبقات پر لگایا جارہا ہے کہ وہ فرقہ واریت پھیلا رہے ہیں

سر درد کا آسان اور سستا علاج

سر درد کا آسان اور سستا علاج

سر درد کی اقسام اور ان کا زبردست علاج۔ حکیم محمد اقبال، ماہر قانون مفرد اعضاء

سیاسی فرقہ واریت

(سید عبدالوہاب شیرازی)
”سیاسی فرقہ واریت “ یہ عنوان شاید آپ کو عجیب سا لگے، ممکن ہے یہ لفظ آپ نے پہلے کبھی سنا بھی نہ ہو، لیکن یہ حقیقت ہے کہ سیاسی فرقہ واریت کی تاریخ نہ صرف بہت پرانی ہے بلکہ یہ عنوان سیاہ ترین تاریخ رکھتا ہے۔ سیاسی تفرقہ باز ہمیشہ اپنے کالے کرتوں پر پردہ ڈالنے کے لئے مذہبی تفرقہ بازی کا واویلا کرتے رہے ہیں۔سیاسی تفرقہ بازی کے مختلف لیول ہیں، ایک انٹرنیشنل سطح کی سیاسی تفرقہ بازی ہے اور ایک ملکی سطح کی تفرقہ بازی۔
جس طرح تمام شعبوں میں سیاست کو تفوق حاصل ہے، باقی دنیا جہان کے شعبے سیاست کے ماتحت ہی ہیں اسی طرح فرقہ واریت میں بھی سیاسی فرقہ واریت کو باقی تمام فرقہ واریتوں پر برتری حاصل ہے، اگر یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ مذہبی فرقہ واریت کی خفیہ سرپرستی اور قیادت درحقیقت سیاسی لوگ ہی کرتے آئے ہیں، یعنی مذہبی فرقہ واریت میں اتنا دم خم نہیں کہ وہ سیاستدانوں کی پشت پناہی کے بغیر چل سکے۔اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ سیاستدان ایسا کیوں کرتے ہیں، تو اس کا سادہ سا جواب ہے کہ اپنے سیاسی مفادات کے حصول کے لئے مذہبی لوگوں کو استعمال کرنا صدیوں پرانی بات ہے۔
فرقہ واریت اور تفرقہ بازی کوئی بھی ہو، چاہے مذہبی ہو یا سیاسی، لسانی ہو یا علاقائی ہر ایک انتہائی بُری اور بیانک نتائج رکھتی ہے۔لیکن سیاسی تفرقہ بازی کی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو کلیجہ منہ کو آجاتا ہے۔ہم نے جب سے ہوش سنبھالا ہے ہمیشہ یہی سنتے آئے ہیںکہ مذہبی فرقہ واریت معاشرے کے لئے ناسور ہے۔ جی! یقینا یہ بات بالکل سچ ہے۔ لیکن اس سے بھی بڑا سچ یہ ہے کہ سیاسی فرقہ واریت اور تفرقہ بازی صرف معاشرے ہی نہیں بلکہ پوری انسایت کے لئے ناسور ہے۔

Nukta Colum 003 7

اگرملکی سطح کی سیاسی فرقہ واریت کا جائزہ لیا جائے تو ہمیں نظر آئے گا کہ ایک پاکستانی قوم کو سینکڑوں سیاسی پارٹیوں میں تقسیم کرکے ایک دوسرے کا ایسا دشمن بنا دیا گیا ہے کہ اب سیاسی پارٹیوں نے اپنے اپنے عسکری ونگ بھی بنالئے ہیں۔ہمارے ملک میں تین چار بڑے سیاسی فرقے ہیں، باقی چھوٹی چھوٹی فرقیاں تو بے حساب ہیں۔ ان فرقوں کے نمائندے روزانہ شام سات بجے سے رات گیارہ بجے تک مختلف چینلز پر آکر اپنے اپنے فرقے کی مدح سرائی اور مخالف فرقے کی خرابیوں کو بیان کرنا جہاد سمجھتے ہیں۔سیاسی فرقہ بازوں میں ایک کمال یہ بھی ہے کہ یہ کسی بھی وقت اپنا فرقہ تبدیل کرلیتے ہیں چنانچہ کل کا یزید آج کا حسین بن جاتا ہے۔
مذہبی فرقہ واریت سے جو نقصان ہوتا ہے وہ بھی درحقیقت سیاسی فرقہ واریت کا ہی نتیجہ ہوتا ہے لیکن آئیے دیکھتے ہیں کہ خالصتا سیاسی فرقہ واریت نے اس دنیا کو کیا دیا:
٭پچھلے چند سالوں میں صرف کراچی شہر میں سیاسی فرقہ واریت کے نتیجے میں 25ہزار لوگ قتل ہوئے۔ ٭مقبوضہ کشمیر میںسیاسی اختلاف کی بنیاد پر ایک لاکھ کشمیریوں کو قتل کیا جاچکا ہے۔ ٭برما میں ہزاروں مسلمانوں کو بدھ متوں نے قتل اور دو لاکھ کو ملک بدر کیا۔ ٭2001سے اب تک امریکا افغانستان میں15لاکھ مسلمانوں کو قتل کرچکا ہے۔ ٭80ءکی دہائی میں روس نے افغانستان میں15لاکھ مسلمانوں کو قتل کیا،50لاکھ ہجرت کرکے دربدر ہوئے۔ ٭90ءکی دہائی میں امریکا نے عراق پر حملہ کرکے15لاکھ انسانوں کو قتل کیا اور بعد میں ”سوری“ کرکے فرشتہ بن گیا۔ ٭1992ءبوسنیا میں ایک لاکھ مسلمانوں کو قتل کیا گیا،20لاکھ ہجرت کرکے دربدر ہوئے،20ہزار عورتوں کی عصمت دری کی گئی۔ ٭1994ءمیں روانڈا (عیسائی ملک) میں صرف اور صرف100دنوں میں ”10 لاکھ“ انسانوں کو قتل اور5لاکھ خواتین کی عصمت دری کی گئی۔ ٭1975ءکمبوڈیا میں صرف4سالوں میں20لاکھ انسانوں کو قتل کیا گیا۔ ٭امریکا نے پچھلے 200سال میں دنیا کے70ملکوں میں1ارب30کروڑ انسانوں کو قتل کیا۔
1948 سے اب تک اسرائیل 51لاکھ فلسطینیوں کو شہید کرچکا ہے۔ ٭1945ءامریکا نے ایک منٹ میں بم گرا کر80ہزار جاپانیوں کو سیاسی تفرقہ بازی میں قتل کیا۔ ٭1943ءبرطانوی حکمران چرچل نے بنگلہ دیش میں مصنوعی قحط پیدا کرکے 70لاکھ بنگالیوں کو قتل کیا۔ ٭1942میں اسٹالن نے کریمیا کے اڑھائی لاکھ شہریوں کو صرف30منٹ میں شہر سے نکلنے کا حکم دیا اور پھرزبردستی اٹھا اٹھا کر سمندر میں پھینک دیا۔ ٭پہلی جنگ عظیم میں2کروڑ انسان قتل کیے گئے۔ ٭دوسری جنگ عظیم میں6کروڑ انسان قتل ہوئے۔ ٭ہٹلر نے اپنے دور حکومت میں ڈیڑھ کروڑ انسانوں کو قتل کیا۔ ٭لینن روسی حکمران نے اپنے دور حکومت میں2کروڑ انسانوں کو قتل کیا۔ ٭اسٹالن نے اپنے دور حکومت میں6کروڑ انسانوں کو قتل کیا۔ ٭نپولین(عیسائی لیڈر) نے 50لاکھ انسانوں کوقتل کیا۔ ٭سری لنکا میں سیاسی اختلافات کی بنیاد پر حکومت اور باغیوں کی لڑائی میں ایک لاکھ انسان قتل ہوئے۔ ٭یگوڈا (کمیونسٹ پولیس آفیسر) نے 10لاکھ انسانوں کو تشدد کرکے قتل کیا۔ ٭جنرل لوتھر وون نے لمیبیا میں ایک لاکھ انسانوں کو قتل کیا۔ ٭شاکازولو افریقہ کا حکمران، جس نے 20لاکھ انسانوں کو قتل کیا۔ ٭ماوزے تنگ چین کے کمیونسٹ حکمران نے 5کروڑ انسانوں کو سیاسی بنیادوں پر قتل کیا۔ ٭روس نے اٹھارویں صدی کے آخر میں قفقاز کے15لاکھ مسلمانوں کو قتل کیا،نقل مکانی کرنے والے اس سے الگ ہیں۔ ٭گیارہویں صدی میں سیاسی فرقہ واریت کے نتیجے میں25000000 اڑھائی کروڑ انسانوں کو قتل کیا گیا۔ ٭سکندر اعظم (عیسائی حکمران) نے 10لاکھ انسانوں کو قتل کیا۔ ٭چنگیز خان نے ایک گھنٹے میں17لاکھ 48ہزار انسانوں کو قتل کرنے کا ریکارڈ بنایا، کل 4کروڑ انسان قتل کیے۔
یہ ساری تاریخ نہیں بلکہ چند ایک نمونے ہیں۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ سیاسی فرقہ واریت کو ختم کرکے پورے ملک کی عوام کو ایک امت بنایا جائے۔ اور یہ تبھی ممکن ہے جب ہم قرآن وسنت کی رہنمائی میں اسلام کے درخشندہ اصولوںکے مطابق اپنا سیاسی نظام وضع کریں۔

 

خون کی کمی دور کرنے میں مددگار پھل

جسم میں خون کی کمی یا انیمیا درحقیقت جسم میں خون کے سرخ خلیات کی کمی کو کہا جاتا ہے جو آکسیجن کی فراہمی کا کام کرتے ہیں۔
اس مرض میں خون کے صحت مند سرخ خلیات میں ہیمو گلوبن کی کمی ہوجاتی ہے جو جسم کے مختلف حصوں میں آکسیجن پہنچاتے ہیں، ہیموگلوبن وہ جز ہے جو خون کو سرخ رنگ دیتا ہے۔
یعنی جسم کو خون کی کمی سے بچانے کے لیے ضروری ہے کہ ہیموگلوبن کی سطح کو مناسب حد تک برقرار رکھا جاسکے، کیونکہ اس کی کمی شدید تھکاوٹ اور کمزوری کے ساتھ ساتھ اینمیا کا شکار بنا سکتی ہے۔
اور یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ ہیموگلوبن کی کمی سے بچنے کے لیے آئرن سے بھرپور غذاﺅں کا استعمال بہت ضروری ہے جو کہ ہیموگلوبن کی پیداوار کے ساتھ خون کے سرخ خلیات کے لیے اہم کردار ادا کرنے والا جز ہے۔
خون کی کمی ایسا مسئلہ ہے جس کا سامنا ہر 10 میں سے 8 افراد کو ہوتا ہے۔
عالمی ادارہ صحت کے ایک تخمینے کے مطابق دنیا کی 80 فیصد آبادی کو آئرن کی کمی کا سامنا ہوتا ہے خصوصاً حاملہ خواتین میں یہ خطرہ بہت زیادہ ہوتا ہے۔
بالغ افراد کے لیے اس حوالے سے روزانہ آئرن کی مقدار بھی تجویز کی گئی ہے جیسے مردوں کے لیے 8 ملی گرام جبکہ خواتین کے لیے 18 ملی گرام، تاہم 50 سال کی عمر کے بعد خواتین میں بھی یہ مقدار 8 ملی گرام ہوجاتی ہے۔
مگر کیا آپ کو معلوم ہے کہ خون کی کمی کے اکثر کیسز میں غذائی تبدیلیاں لاکر اس پر قابو پانا ممکن ہوتا ہے۔
یہاں ایسے ہی پھلوں اور ان کے بنے مشروبات کے بارے میں جانیں جو خون کے سرخ خلیات کو بڑھانے میں مدد دیتا ہے۔

کھجور
کھجور کھانا سنت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہے، کھجور بے وقت کھانے کی لت پر قابو پانے میں مدد دینے والا موثر ذریعہ ہے جبکہ یہ آئرن کی سطح بھی بڑھاتی ہے، جس سے خون کی کمی جلد دور کرنے میں مدد ملتی ہے۔ تاہم کھجور کے استعمال کے حوالے سے بھی ذیابیطس کے مریضوں کو احتیاط کی ضرورت ہے۔
انار
انار خون کی کمی دور کرنے کے لیے بہترین پھلوں میں سے ایک ہے جس میں آئرن، وٹامن اے، سی اور ای موجود ہوتے ہیں، اس میں موجود ایسکوریبک ایسڈ جسم میں آئرن کو بڑھا کر خون کی کمی دور کرتا ہے، روزانہ اس پھل کے جوس کا ایک گلاس پینا اس سمئلے کا بہترین حل ثابت ہوسکتا ہے۔
کیلے
کیلے آئرن سے بھرپور ہوتے ہیں جو کہ خون میں ہیموگلوبن بننے کے عمل کو حرکت میں لاتا ہے، آئرن کے ساتھ یہ فولک ایسڈ کے حصول کا بھی اچھا ذریعہ ہے جو خون کے سرخ خلیات بننے کے عمل کے ضروری ہوتا ہے۔
سیب
کہا جاتا ہے کہ ایک سیب روزانہ ڈاکٹر کو دور رکھے، اس میں کتنی حقیقت ہے، اس سے قطع نظر یہ پھل آئرن سے بھرپور ضرور ہوتا ہے جو ہیموگلوبن بننے کے عمل کو تیز کرتا ہے، روزانہ ایک سیب کھانا خون کی کمی سے بچنے یا دور کرنے میں مدد دیتا ہے۔
خشک آلوبخارے
خشک آلو بخارے بھی خون کی کمی دور کرنے میں انتہائی موثر ثابت ہوتے ہیں، یہ وٹامن سی اور آئرن سے بھرپور ہوتے ہیں جو ہیموگلوبن کو بڑھانے میں مدد دیتے ہیں، اس کے ساتھ ساتھ ان میں موجود میگنیشم بھی اس حوالے سے مدد دیتا ہے، میگنیشم جسم میں آکسیجن کی ترسیل میں مدد دیتا ہے۔
مالٹے
آئرن جسم میں وٹامن سی کی مدد کے بغیر مکمل طور پر جذب نہیں ہوپاتا اور یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ مالٹے اس وٹامن سے بھرپور ہوتے ہیں، تو اس موسم میں روزانہ ایک مالٹا کھانا اس کمی کو دور کرنے میں بہترین ٹوٹکا ثابت ہوسکتا ہے۔
کیلے اور سیب کا مشروب
سیب اور کیلے سے بننے والا ایک مشروب ایسا ہے جو کہ موٹاپے پر کنٹرول کرنے کے ساتھ ساتھ جسم میں آئرن کی سطح بڑھانے میں مدد دیتا ہے۔ اس کے لیے ایک کیلا، ایک سیب، ایک کھانے کا چمچ شہد اور آدھا گلاس دودھ لیں، کیلا کا چھلکا اتار کر اسے کاٹ لیں، جس کے بعد سیب کو چھلکوں کے ساتھ ہی ٹکڑوں میں کاٹیں۔ اب انہیں جوسر میں ڈال کر ایک چمچ شہد کا اضافہ کردیں اور پھر دودھ کو بھی ڈال کر سب اجزاءکو اچھی طرح بلینڈ کرلیں۔ اگر تو آپ کو یہ مشروب گاڑھا لگے تو اس میں مزید دودھ کو ڈال کر اسے بلینڈ کریں۔ بس پھر گلاس میں نکال کر پی لیں، اس مشروب کا استعمال بہت کم وقت میں خون کی کمی کے مسئلے سے نمٹنے میں مدد دے سکتا ہے۔

سیاسی فرقہ واریت

(سید عبدالوہاب شیرازی)
”سیاسی فرقہ واریت “ یہ عنوان شاید آپ کو عجیب سا لگے، ممکن ہے یہ لفظ آپ نے پہلے کبھی سنا بھی نہ ہو، لیکن یہ حقیقت ہے کہ سیاسی فرقہ واریت کی تاریخ نہ صرف بہت پرانی ہے بلکہ یہ عنوان سیاہ ترین تاریخ رکھتا ہے۔ سیاسی تفرقہ باز ہمیشہ اپنے کالے کرتوں پر پردہ ڈالنے کے لئے مذہبی تفرقہ بازی کا واویلا کرتے رہے ہیں۔سیاسی تفرقہ بازی کے مختلف لیول ہیں، ایک انٹرنیشنل سطح کی سیاسی تفرقہ بازی ہے اور ایک ملکی سطح کی تفرقہ بازی۔
جس طرح تمام شعبوں میں سیاست کو تفوق حاصل ہے، باقی دنیا جہان کے شعبے سیاست کے ماتحت ہی ہیں اسی طرح فرقہ واریت میں بھی سیاسی فرقہ واریت کو باقی تمام فرقہ واریتوں پر برتری حاصل ہے، اگر یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ مذہبی فرقہ واریت کی خفیہ سرپرستی اور قیادت درحقیقت سیاسی لوگ ہی کرتے آئے ہیں، یعنی مذہبی فرقہ واریت میں اتنا دم خم نہیں کہ وہ سیاستدانوں کی پشت پناہی کے بغیر چل سکے۔اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ سیاستدان ایسا کیوں کرتے ہیں، تو اس کا سادہ سا جواب ہے کہ اپنے سیاسی مفادات کے حصول کے لئے مذہبی لوگوں کو استعمال کرنا صدیوں پرانی بات ہے۔

Nukta Colum 003 13
فرقہ واریت اور تفرقہ بازی کوئی بھی ہو، چاہے مذہبی ہو یا سیاسی، لسانی ہو یا علاقائی ہر ایک انتہائی بُری اور بیانک نتائج رکھتی ہے۔لیکن سیاسی تفرقہ بازی کی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو کلیجہ منہ کو آجاتا ہے۔ہم نے جب سے ہوش سنبھالا ہے ہمیشہ یہی سنتے آئے ہیںکہ مذہبی فرقہ واریت معاشرے کے لئے ناسور ہے۔ جی! یقینا یہ بات بالکل سچ ہے۔ لیکن اس سے بھی بڑا سچ یہ ہے کہ سیاسی فرقہ واریت اور تفرقہ بازی صرف معاشرے ہی نہیں بلکہ پوری انسایت کے لئے ناسور ہے۔
اگرملکی سطح کی سیاسی فرقہ واریت کا جائزہ لیا جائے تو ہمیں نظر آئے گا کہ ایک پاکستانی قوم کو سینکڑوں سیاسی پارٹیوں میں تقسیم کرکے ایک دوسرے کا ایسا دشمن بنا دیا گیا ہے کہ اب سیاسی پارٹیوں نے اپنے اپنے عسکری ونگ بھی بنالئے ہیں۔ہمارے ملک میں تین چار بڑے سیاسی فرقے ہیں، باقی چھوٹی چھوٹی فرقیاں تو بے حساب ہیں۔ ان فرقوں کے نمائندے روزانہ شام سات بجے سے رات گیارہ بجے تک مختلف چینلز پر آکر اپنے اپنے فرقے کی مدح سرائی اور مخالف فرقے کی خرابیوں کو بیان کرنا جہاد سمجھتے ہیں۔سیاسی فرقہ بازوں میں ایک کمال یہ بھی ہے کہ یہ کسی بھی وقت اپنا فرقہ تبدیل کرلیتے ہیں چنانچہ کل کا یزید آج کا حسین بن جاتا ہے۔
مذہبی فرقہ واریت سے جو نقصان ہوتا ہے وہ بھی درحقیقت سیاسی فرقہ واریت کا ہی نتیجہ ہوتا ہے لیکن آئیے دیکھتے ہیں کہ خالصتا سیاسی فرقہ واریت نے اس دنیا کو کیا دیا:
٭پچھلے چند سالوں میں صرف کراچی شہر میں سیاسی فرقہ واریت کے نتیجے میں 25ہزار لوگ قتل ہوئے۔ ٭مقبوضہ کشمیر میںسیاسی اختلاف کی بنیاد پر ایک لاکھ کشمیریوں کو قتل کیا جاچکا ہے۔ ٭برما میں ہزاروں مسلمانوں کو بدھ متوں نے قتل اور دو لاکھ کو ملک بدر کیا۔ ٭2001سے اب تک امریکا افغانستان میں15لاکھ مسلمانوں کو قتل کرچکا ہے۔ ٭80ءکی دہائی میں روس نے افغانستان میں15لاکھ مسلمانوں کو قتل کیا،50لاکھ ہجرت کرکے دربدر ہوئے۔ ٭90ءکی دہائی میں امریکا نے عراق پر حملہ کرکے15لاکھ انسانوں کو قتل کیا اور بعد میں ”سوری“ کرکے فرشتہ بن گیا۔ ٭1992ءبوسنیا میں ایک لاکھ مسلمانوں کو قتل کیا گیا،20لاکھ ہجرت کرکے دربدر ہوئے،20ہزار عورتوں کی عصمت دری کی گئی۔ ٭1994ءمیں روانڈا (عیسائی ملک) میں صرف اور صرف100دنوں میں ”10 لاکھ“ انسانوں کو قتل اور5لاکھ خواتین کی عصمت دری کی گئی۔ ٭1975ءکمبوڈیا میں صرف4سالوں میں20لاکھ انسانوں کو قتل کیا گیا۔ ٭امریکا نے پچھلے 200سال میں دنیا کے70ملکوں میں1ارب30کروڑ انسانوں کو قتل کیا۔
1948 سے اب تک اسرائیل 51لاکھ فلسطینیوں کو شہید کرچکا ہے۔ ٭1945ءامریکا نے ایک منٹ میں بم گرا کر80ہزار جاپانیوں کو سیاسی تفرقہ بازی میں قتل کیا۔ ٭1943ءبرطانوی حکمران چرچل نے بنگلہ دیش میں مصنوعی قحط پیدا کرکے 70لاکھ بنگالیوں کو قتل کیا۔ ٭1942میں اسٹالن نے کریمیا کے اڑھائی لاکھ شہریوں کو صرف30منٹ میں شہر سے نکلنے کا حکم دیا اور پھرزبردستی اٹھا اٹھا کر سمندر میں پھینک دیا۔ ٭پہلی جنگ عظیم میں2کروڑ انسان قتل کیے گئے۔ ٭دوسری جنگ عظیم میں6کروڑ انسان قتل ہوئے۔ ٭ہٹلر نے اپنے دور حکومت میں ڈیڑھ کروڑ انسانوں کو قتل کیا۔ ٭لینن روسی حکمران نے اپنے دور حکومت میں2کروڑ انسانوں کو قتل کیا۔ ٭اسٹالن نے اپنے دور حکومت میں6کروڑ انسانوں کو قتل کیا۔ ٭نپولین(عیسائی لیڈر) نے 50لاکھ انسانوں کوقتل کیا۔ ٭سری لنکا میں سیاسی اختلافات کی بنیاد پر حکومت اور باغیوں کی لڑائی میں ایک لاکھ انسان قتل ہوئے۔ ٭یگوڈا (کمیونسٹ پولیس آفیسر) نے 10لاکھ انسانوں کو تشدد کرکے قتل کیا۔ ٭جنرل لوتھر وون نے لمیبیا میں ایک لاکھ انسانوں کو قتل کیا۔ ٭شاکازولو افریقہ کا حکمران، جس نے 20لاکھ انسانوں کو قتل کیا۔ ٭ماوزے تنگ چین کے کمیونسٹ حکمران نے 5کروڑ انسانوں کو سیاسی بنیادوں پر قتل کیا۔ ٭روس نے اٹھارویں صدی کے آخر میں قفقاز کے15لاکھ مسلمانوں کو قتل کیا،نقل مکانی کرنے والے اس سے الگ ہیں۔ ٭گیارہویں صدی میں سیاسی فرقہ واریت کے نتیجے میں25000000 اڑھائی کروڑ انسانوں کو قتل کیا گیا۔ ٭سکندر اعظم (عیسائی حکمران) نے 10لاکھ انسانوں کو قتل کیا۔ ٭چنگیز خان نے ایک گھنٹے میں17لاکھ 48ہزار انسانوں کو قتل کرنے کا ریکارڈ بنایا، کل 4کروڑ انسان قتل کیے۔
یہ ساری تاریخ نہیں بلکہ چند ایک نمونے ہیں۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ سیاسی فرقہ واریت کو ختم کرکے پورے ملک کی عوام کو ایک امت بنایا جائے۔ اور یہ تبھی ممکن ہے جب ہم قرآن وسنت کی رہنمائی میں اسلام کے درخشندہ اصولوںکے مطابق اپنا سیاسی نظام وضع کریں۔