Thursday, May 16, 2024
Home Blog Page 87

کارو کاری یا طور طورہ

کارو کاری یا طور طورہ

(سید عبدالوہاب شیرازی)
ہرسال دنیا کے 50 سے زائد ممالک میں ہزاروں عورتوں کو ان ہی کے عزیز و اقارب کی جانب سے خاندان کی عزت و آبرو کے تحفظ کے نام پر قتل کیا جاتا ہے۔ قاتلوں کا خیال ہوتا ہے کہ ان کی شناخت خاندان کے نام و شہرت سے جڑی ہے۔چنانچہ جب بھی خاندان کو بدنامی کا اندیشہ ہوتا ہے، رشتے دار قاتل بن جاتے ہیں۔ وہ قتل ہی کو صورت حال کا واحد حل تصور کرتے ہیں۔ یہ رسم پاکستان،بھارت سمیت عرب ممالک میں بھی پائی جاتی ہے۔ اسی طرح غیر مسلم ممالک، یورپی ممالک اور امریکا میں بھی ہر سال ہزاروں عورتوں کو قتل کردیا جاتا ہے۔ صرف امریکا میں ہرسال تین ہزار عورتیں گرل فرینڈ،بوائے فرینڈ کے چکر میں قتل ہوجاتی ہیں۔پاکستان کے چاروں صوبوں یہ رسم پائی جاتی ہے۔ یہاں کے قبائل کے خیال میں اس طرح کا قتل نہ صرف جائز بلکہ اچھا عمل سمجھا جاتا ہے۔
Nukta Colum 003 1
سیاہ کاری ،کاروکاری یا غیرت کے نام پر قتل کرنے کا دستور بہت قدیم ہے۔مذکورہ نام ایک دوسرے کے مترادف ہیں جو مختلف علاقوں میں بولی جانیوالی زبانوں کے مطابق بنائے گئے ہیں۔بلوچستان میں اسے ’’سیاہ کاری‘‘ کہا جاتاہے جس کا معنی بدکاری ،گنہگار ہے۔ سندھ میں اسے ’’کاروکاری‘‘ کہا جاتا ہے کاروکامطلب سیاہ مرد اور کاری کا مطلب سیاہ عورت ہے۔ پنجاب میں’’ کالا کالی‘‘ اور خیبرپختون خواہ میں ’’طور طورہ‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ کالے رنگ کے مفہوم کی حامل یہ اصطلاحات زناکاری اوراس کے مرتکب ٹھہرائے گئے افراد کے لیے استعمال ہوتی ہیں۔سیاہ اس شخص کو کہتے ہیں جس پر نکا ح کے بغیر جنسی تعلق رکھنے کا الزام لگایا گیا ہو۔ یا اپنے نکاح والے شوہر کے علاوہ کسی اور سے جنسی تعلق رکھنے والی عورت کو سیاہ یا سیاہ کار کہتے ہیں۔اور ایسے مجرم کو قتل کرنے کے عمل’’ کو قتلِ غیرت ‘‘ اور انگریزی میں ’’Honour Killings‘‘کہتے ہیں۔کاروکاری اور قتل غیرت میں معمولی سا فرق بھی ہے۔ وہ یہ کہ کاروکاری میں قبیلے یا خاندان کے بڑے جمع ہوکر ایک جرگے کی صورت میں قتل کا فیصلہ سناتے ہیں اور پھر قتل کیا جاتا ہے۔ جبکہ قتل غیرت میں خاندان کا کوئی فرد از خود غیرت میں آکر بغیر کسی جرگے کے قتل کردیتا ہے۔
یہاں یہ نکتہ بتانا بھی نہایت ضروری ہے کہ غیرت کے نام پر جب بھی کوئی قتل ہوتا ہے تو الیکٹرانک میڈیا اور اس کے صحافی قتل کے فریق قبائلیوں،ودیڑوں،اور اس رسم کو اپنی ہزاروں سال پرانی تہذیب کہنے والوں کو اپنے پروگرام میں مدعو نہیں کرتے بلکہ اس موقع کو غنیمت سمجھتے ہوئے اسلام کو بدنام کرنے کے لئے فورا اپنے پروگرام میں کسی ایسے مولوی کو بلا لیا جاتا ہے، جس بیچارے کو شاید کاروکاری کا معنی بھی نہ آتا ہو۔ سوچنے کی بات ہے قتل بلوچستان کے کسی دور دراز علاقے میں قبائلی جرگے کے حکم پر ہوا اور میڈیا کے کرائم رپورٹر تفتیش راولپنڈی کے کسی محلے کے امام مسجد سے کررہے ہوتے ہیں۔ بات تو تب بنے کہ یہ رپورٹ اور اینکر ذرا بلوچستان کے اس قبیلے میں جاکر ان سے پوچھیں کہ قتل کیوں کیا؟تمہارے پاس قتل کا کیا جواز ہے؟پھر پتا چلے کہ اینکر میں کتنا دم خم ہے۔ ساری بھڑاس بیچارے بیوقوف مولوی پر نکال لی جاتی ہے جو ٹی وی پر آنے کے شوق میں ایسے پروگراموں میں پہنچ جاتا ہے۔
اس رسم کا غلط استعمال بھی بہت عام ہے۔ لوگ اپنے کسی دشمن کو تنہا پا کر مار دیتے ہیں اور پھر اپنے ہی خاندان کی کسی عورت کو جو بڑھیا یا بچی بھی ہو سکتی ہے، کو مار کر دشمن کی لاش کے نزدیک ڈال دیتے ہیں اور بیان دیتے تھے کہ انہیں غلط کام کرتے دیکھا گیا تھا اس لیے غیرت میں آ کران دونوں کو مار دیا گیا۔ عورتوں کے قتل کے جتنے واقعات ہوتے ہیں ضروری نہیں کہ ہر قتل، قتلِ غیرت ہی ہوکبھی خاندانی دشمنی،تقسیم میراث وغیرہ دیگر وجوہات بھی ہوتی ہیں، لیکن ہمارے ملک میں موجود مغرب کی پروردہ ’’این جی اوز‘‘ ہر قتل کو قتل غیرت قرار دینے پر اصرار کرتی ہیں، اور پھر اس سانحہ کو خوب بیچا جاتا اور اس کی آڑ میں مغرب سے فنڈ وصول کیے جاتے ہیں۔پھر ہمارے معاشرے میں جتنے قتل ہوتے ہیں ان کا اگر موازنہ کیا جائے تو مردوں کے قتل کے مقابلے میں عورتوں کا قتل نصف سے بھی کم ہے۔مرد بھی آئے روز غیرت کے نام پر قتل ہوتے رہتے ہیں لیکن ان کے قتل کو قتل غیرت شمار نہیں کیا جاتا، چونکہ مردوں کے قتل پر فنڈ نہیں ملتے اس لئے مردوں کے قتل کو کوئی اور رُخ دے دیا جاتا ہے۔ مثلا مردوں کی اچھی خاصی تعداد اس لئے قتل ہوتی ہے کہ انہوں نے کسی عورت یا لڑکی کو چھڑا تھا اور پھر عورت کے رشتہ دار نے غیرت میں آکر اس چھیڑنے والے لڑکے کو قتل کردیا۔ایسے قتل آئے روز ہوتے رہتے ہیں، خصوصا قبائلی علاقوں میں تو 80فیصد مرد ہی غیرت کے نام پر قتل ہوتے ہیں لیکن این جی اوز انہیں قتل غیرت نہیں شمار کرتیں۔ایسے کتنے ہی واقعات رپورٹ ہوچکے ہیں کہ قتل ہونے والا مرد کسی خاندانی یا ذاتی دشمنی میں قتل کیا گیا لیکن اصل بات پر پردہ ڈالنے کے لئے قاتل نے اسی لمحے اپنی بیوہ بہن جو بھائی کے گھر میں رہتی تھی کو قتل کرکے اس کی لاش مقتول مرد کی لاش کے ساتھ پھینک دی۔
ابھی ایک ماہ قبل مانسہرہ میں میرے گاوں کے ساتھ والے ایک گاوں میں شادی کے تین چار دن بعد شوہر اور اس کی والدہ نے نئی نویلی دلہن کو صرف چار پانچ ہزار روپے کے چکر میں رات کے وقت گلا دبا کر قتل کیا اور پھر اس کی لاش قریب فصلوں میں پھینک کر پاس کھانے پینے کی چیزیں بھی رکھ دیں تاکہ یہ ظاہر ہو کہ یہ یہاں اپنے آشنا کے ساتھ رنگ رلیاں منا رہی تھی۔لیکن گرفتاری کے فورا بعد شوہر نے اس بات کا اقرار کرلیا کہ میں نے اپنی والدہ کے ساتھ مل کر قتل کیا ہے۔
غیرت کے نام پر قتل کے حوالے سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا بہت جامع فرمان احادیث میں موجود ہے:جیسا کہ اسلامی تعلیمات کی رو سے کسی پر زنا کا الزام اس وقت ثابت ہوتا ہے جب تک چار ایسے گواہ جنہوں نے اپنی آنکھوں سے زنا ہوتے دیکھا گواہی نہ دے دیں۔چنانچہ اس اسلامی حکم کے تناظر میں حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے سوال کیا یارسول اللہ اگر ہم اپنی بیوی سے کسی کو زنا کرتے دیکھیں تو کیا ایسے موقع پر ہم گواہ ڈھونڈنے نکل کھڑے ہوں؟تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم تعجب کرتے ہو سعد کی غیرت پر، مگر میں اس سے زیادہ غیرت مند ہوں اور اللہ تعالیٰ مجھ سے زیادہ غیرت مند ہے۔یعنی جس اللہ نے یہ قانون بنایا ہے وہ زیادہ غیرت مند ہے لہٰذا اب گواہی کے بغیر کسی پر زنا کو ثابت کردینا اپنے آپ کو اللہ سے زیادہ غیرت مند بنانے کے مترادف ہے۔ غیرت کا مطلب یہ نہیں کہ انسان جذبات آکر انسانی جان ضائع کردے۔
غیرت کے نام پر قتل کے خاتمے کے لئے چند ضروری اقدامات کرلیے جائیں تو یہ قبیح رسم ختم ہوسکتی ہے۔
(۱) اولاد کے ولی اپنی اولاد پر ہمیشہ نظر رکھیں کیونکہ قتل تو ایک لمحے میں اچانک ہوجاتا ہے لیکن قتل کا سبب یعنی زنا تو اچانک نہیں ہوتا اس کے پیچھے طویل دوستیاں آشنایاں،بے حجابی،مخلوط ماحول یہ ساری چیزیں ہوتی ہیں، جب ان چیزوں کا سدد باب نہیں کیا جاتا تو پھر نتیجہ قتل کی صورت میں نکلتا ہے۔
(۲) پاکستان کے قوانین میں بھی کئی سقم پائے جاتے ہیں جو اس قبیح رسم کے ختم ہونے میں رکاوٹ ہیں، مثلا ایسا قتل ، قتلِ عمد نہیں سمجھا جاتا بلکہ قتلِ خطا شمار کیا جاتا ہے۔ ایسے قتل کا مقدمہ خاندان ہی کے کسی فرد کی مدعیت میں درج کیا جاتا ہے اور پھر وہی مدعی(مثلا باپ) مقتول (مثلا بیٹی)کا وارث ہونے کے ناطے قاتل(مثلا بیٹے) کو معاف کردیتا ہے۔ اگر ایسا مقدمہ سرکار کی مدعیت میں درج کیا جائے تو معافی کا سلسلہ ختم ہوسکتا ہے جو اس رسم کے خاتمے کا ذریعہ بنے گا۔
(۳)کاروکاری کے خلاف شعور اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے قبائلی معاشرے میںآج 2016 میں بھی عورت کو اپنی ملکیت اور جائیداد سمجھا جاتا ہے چنانچہ اس کے خلاف شعور کا اجاگر کیا جائے۔
(۴) یہ شعور بھی اجاگر کرنے کی ضرورت ہے کہ قانون کو نافذ کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے، کوئی شخص خود قانون کو نافذ نہیں کرسکتا۔ اس سلسلے میں مذکورہ بالا حدیث ہماری رہنمائی کرتی ہے۔
(۵)میڈیا پر بھی کئی طرح کی پابندیاں عائد کرنے کی ضرورت ہے، ایسے کئی واقعات کا ذمہ دار میڈیا بھی، میڈیا پر دکھائے جانے والے پروگرام، فحاشی کو عام کرنے میں میڈیا کو کھلی چھوٹ بھی ایسے واقعات میں اضافے کا سبب ہے۔ حالیہ رونما ہونے والے قندیل بلوچ کے واقعہ میں میڈیا کا بھی بہت بڑا کردار ہے، قندیل بلوچ پچھلے دس سال سے اس کردار میں موجود تھی اور اس کے گھر والے اس کی کمائی کھا رہے تھے، لیکن اچانک میڈیا اس کے بھائیوں تک پہنچا، پھر اس کے دو عدد خاوند برآمد کرلیے، اس کے بچے بھی برآمد ہوگئے اور پھر قندیل قتل بھی ہوگئی۔
(۶) اسلامی تعلیمات، اور اسلامی عائلی قوانین کو درست حالت میں نافذ کرنا بھی ضروری ہے، اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کو بھی پارلیمنٹ سے منظوری لے کر نافذ کیا جائے ۔
(۷) سب باتوں کا خلاصہ یہی ہے کہ کسی بھی چیز کا موجد اور خالق اس چیز کو استعمال کرنے کی ہدایات والا کتابچہ جو ساتھ بھیجتا ہے اگر اس کے مطابق اس چیز کو استعمال کیا جائے تو وہ چیز بھی ٹھیک رہتی ہے اور دوسروں کو فائدہ بھی دیتی ہے۔ باالکل اسی طرح اس کائنات اور انسانوں کے خالق نے بھی ایک کتاب قرآن کی شکل بھی بھیجی ہے اگر اس کے قانون اور اصولوں کے مطابق ہم معاشرے کو ڈیل کریں گے تو ساری برائیاں ختم ہوجائیں گی۔

سنگرہنی

سنگرہنی

سنگرہنی یعنی کھانے فوران بعد پیشاب کی حاجت، پیٹ میں مروڑ کی وجوہات اور آسان علاج۔

وہ غذائیں جو ذیابیطس کا شکار بنادیں

عام طور پر سوچا جاتا ہے کہ زیادہ میٹھا کھانا بلڈ شوگر کی سطح بڑھا کر ذیابیطس ٹائپ ٹو کا شکار بنا دیتا ہے مگر اس سے ہٹ کر لوگوں کی پسندیدہ غذا بھی انہیں اس جان لیوا مرض کا شکار بنا سکتا ہے۔
ذیابیطس ٹائپ ٹو ایسا مرض ہے جس کے دوران لبلبہ انسولین کی مناسب مقدار بنا نہیں پاتا یا جسمانی خلیات انسولین پر ردعمل ظاہر نہیں کرپاتے ، جس کے نتیجے میں مسلز کا حجم کم ہونے لگتا ہے جبکہ خون میں شوگر کی سطح بہت زیادہ رہتی ہے اور توانائی میں تبدیل نہیں ہوتی۔
ایسی ہی چند چیزیں جو اس جان لیوا مرض کا خطرہ بڑھا سکتی ہیں۔
چکن اور سرخ گوشت
سنگاپور میں 63 ہزار افراد پر ہونے والی تحقیق کے دوران سرخ گوشت اور مرغی کے گوشت کے استعمال اور ذیابیطس کے درمیان تعلق پایا گیا۔تحقیق کے مطابق جو لوگ بہت زیادہ سرخ گوشت کھانے کے عادی ہوتے ہیں، ان میں ذیابیطس ٹائپ ٹو کا خطرہ 23 فیصد تک بڑھ جاتا ہے۔اسی طرح چکن کے زیادہ شوقین افراد میں یہ خطرہ 15 فیصد تک بڑھ جاتا ہے۔
آلو
جاپان کے اوساکا سینٹر فار کینسر کارڈیووسکولر ڈیزیز پریوینٹیشن کی تحقیق میں بتایا گیا کہ آلوﺅں کا بہت زیادہ استعمال ذیابیطس ٹائپ ٹو کا خطرہ بڑھا دیتا ہے۔تحقیق کے مطابق ہفتے میں سات یا اس سے زائد مرتبہ آلوﺅں کو غذا میں استعمال کرنا ذیابیطس کا خطرہ 33 فیصد تک بڑھا دیتا ہے۔ یہاں تک کہ دو سے چار مرتبہ بھی ان کے استعمال سے یہ خطرہ سات فیصد تک بڑھ جاتا ہے۔ تحقیق کے مطابق آلوﺅں کے چپس یا فرنچ فرائز ہی ذیابیطس کا خطرہ بڑھانے میں سب سے آگے ہیں۔
نمک
سوئیڈن کے کیرولینسکا انسٹیٹوٹ کی تحقیق میں بتایا گیا کہ زیادہ نمک کھانا ذیابیطس کے شکار ہونے کا خطرہ دوگنا بڑھا دیتا ہے اور ان افراد میں یہ امکان چار گنا زیادہ ہوتا ہے جو جینیاتی طور پر اس مرض کے لیے آسان شکار ثابت ہوتے ہیں۔ تحقیق میں بتایا گیا کہ دن بھر میں صرف آدھا چائے کا چمچ اضافی نمک کھانا ذیابیطس ٹائپ ٹو کا خطرہ 65 فیصد تک بڑھا دیتا ہے۔ اسی طرح تحقیق کے مطابق زیادہ نمک کھانا ذیابیطس ٹائپ ون کا خطرہ 82 فیصد زیادہ بڑھا دیتا ہے۔

مزید پڑھیں : کمردرد سے نجات میں مددگار گھریلو ٹوٹکے
بریک فاسٹ سیریلز
اگر آپ ناشتے میں کارن فلیکس یا سیریل کھانے کے شوقین ہیں تو یہ عادت ذیابیطس کا مریض بنا دینے کے لیے کافی ہے۔ اسٹینفورڈ یونیورسٹی کی تحقیق میں بتایا گیا کہ صبح کے وقت ناشتے میں سیریل کا استعمال بلڈ شوگر کو بہت زیادہ بڑھا دینے کا باعث بنتا ہے۔ اس تحقیق میں انکشاف کیا گیا کہ صحت مند افراد بھی اگر ناشتے میں اس غذاء کا انتخاب کرتے ہیں تو خون میں گلوکوز کی سطح دن بھر نمایاں حد تک بڑھی رہتی ہے۔نتائج سے معلوم ہوا کہ اکثر افراد کو یہ اندازہ ہی نہیں کہ خون میں گلوکوز کی سطح بڑھنا خون کی شریانوں سے جڑے امراض کا خطرہ بڑھا سکتا ہے۔
وٹامن واٹر
وٹامن واٹر بنیادی طور پر ایسا پانی ہوتا ہے جس میں وٹامنز اور منرلز کو شامل کیا جاتا ہے اور دنیا بھر میں حالیہ برسوں میں کافی مقبول ہوچکا ہے، مگر یہ اتنا بھی صحت مند نہیں جتنا انہیں بنانے والی کمپنیاں بتاتی ہیں، درحقیقت ایک بوتل وٹامن واٹر میں 32 گرام چینی اور 120 کیلوریز ہوتی ہیں اور یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ چینی کا بہت زیادہ استعمال ذیابیطس کا شکار بناسکتا ہے۔
کیچپ
کیچپ تو بیشتر افراد کو بہت زیادہ پسند ہوتا ہے مگر کیا کبھی سوچا کہ اس کا ذائقہ اتنا اچھا کیوں ہوتا ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ کیچپ میں بہت زیادہ چینی اور نمک موجود ہوتا ہے، چینی اور نمک کا یہ امتزاج متوازن رکھا جاتا ہے تاکہ لوگوں میں اس کی طلب ہمیشہ برقرار رہے، ایک کھانے کے چمچ کیچپ میں 4 گرام چینی ہوتی ہے اور یہ تو واضح ہے کہ ایک چمچ کیچپ سے کسی کا دل نہیں بھرتا۔
شوگر فری مصنوعات
شوگر فری مصنوعات کا بہت زیادہ استعمال نظام ہاضمہ کے مسائل کا باعث بنتے ہیں جس سے میٹابولزم سست ہوتا ہے اور جسمانی وزن بڑھتا ہے، اور موٹاپا ذیابیطس کا شکار بنانے والے سب سے بڑا عنصر قرار دیا جاتا ہے۔
سفید ڈبل روٹی
ناشتے میں ڈبلی روٹی کا استعمال تو بہت زیادہ ہوتا ہے مگر اس میں کاربوہائیڈریٹس کی مقدار کافی زیادہ ہوتی ہے جو جسم میں بہت تیزی سے جذب بھی ہوجاتا ہے جس سے بلڈ شوگر اور انسولین لیول تیزی سے اوپر جاتا ہے، روزانہ اسے کھانا ذیابیطس کے مرض میں مبتلا ہونے کا خطرہ بڑھاتا ہے۔

احساس ذمہ داری اور غیرفعالیت

سیدعبدالوہاب شیرازی
احساس ذمہ داری
ذمہ داری کا احساس یا احساس ذمہ داری ایک خاص ذہنی کیفیت کا نام ہے۔ یہ کیفیت جس وقت کسی انسانی پر سوار ہوتی ہے تو وہ شخص اس کام کے بارے سخت بے چینی محسوس کرتا ہے، ہر وقت اسی کام کے بارے سوچتا رہتا ہے، اپنی توجہ کسی دوسری طرف کرنا محال ہوجاتا ہے، یہ کیفیت اس وقت تک رہتی ہے جب تک وہ کام مکمل نہ ہوجائے، جب کام ہوجاتا ہے تو تب انسان سکون کا سانس لیتا ہے۔چنانچہ جب یہ کیفیت طاری ہوتی ہے اس وقت انسانی ذہن چند باتیں مسلسل سوچ رہا ہوتا ہے۔ یہ کام کیسے ہو، یہ کام جلداز جلد ہو، یہ کام ضرور ہو، یہ کام سب کریں وغیرہ۔
Nukta Colum 003 3
شدید بے چینی کی اس کیفیت میں ہمارے ذہن پر صرف تین باتیں سوار رہتی ہیں۔یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ ضروری نہیں کہ ہمیشہ کسی کام میں تاخیر احسان ذمہ داری کے فقدان سے ہی ہوگی، کبھی کبھی اس کے کچھ دیگر عوام بھی ہوتے ہیں، مثلا: اگر کوئی شخص وہمی قسم کا ہے تو وہ ہروقت سوچتا ہی رہے گا، اسے کام ہونے کے بعد اطمینان نہیں ہوگا وہ پھر کرے گا، پھر اطمینا نہیں ہوگا تو پھر کرے گا اور اس طرح سارا وقت برباد کربیٹھے گا۔اسی طرح اگر کوئی شخص ریاکار یا شیخی باز ہے تو وہ بھی کام نہیں کرسکے گا کیونکہ وہ دکھلاوے کے لئے ہرکام اپنے ذمہ لے لے گا اور پھر کرنہیں سکے گا۔ اسی طرح بعض لوگ حد اعتدال سے زیادہ فرماں برداری کرتے ہیں وہ بھی کام کے بگاڑ کا باعث بن جاتے ہیں، یعنی جب انہیں کوئی کام سپرد کیا جاتا ہے تو فورا قبول کرلیتے ہیں یہ نہیں دیکھتے کہ آیا یہ کام میری طاقت کے بقدر ہے یا نہیں، یا کبھی کبھی ہرکام لیتے رہتے ہیں کبھی ناں نہیں کرتے اور اتنا زیادہ کام لے لیتے ہیں کہ پھر اسے کرنا محال ہوجاتا ہے۔
قیادت
انسان کی بہت سی ضرورتوں میں ایک اہم ضرورت اجتماعیت ہے، اس میں اللہ نے برکت رکھی ہے اور اس میں اس کی مدد بھی شامل حال رہتی ہے۔ اللہ کے رسول ﷺکا ارشاد ہے: ید اللہ علی الجماعة (ترمذی) جماعت پر اللہ کا ہاتھ ہے۔ اس لیے اجتماعیت سے الگ ہوکر زندگی گزارنا پسندیدہ نہیں ہے۔ایسی حالت میں خاتمے کو میتہ الجاہلیہ (جاہلیت کی سی موت) سے تعبیر کیا گیا۔ اجتماعیت ہوگی تو لازما اس کا ایک امیر اور سربراہ ہوگا جو اس کی قیادت کا فریضہ انجام دے گااور عوام اس کی راہ نمائی میں اپنا سفر حیات جاری رکھتے ہوئے منزل کی طرف کام یابی کے ساتھ گامزن ہوں گے۔ قیادت وسربراہی کی اس ضرورت کا احساس دلاتے ہوئے آپﷺکا ارشاد ہے: اذاکان ثلاثة فی سفر فلیومراحدہم(ابوداود) جب تین آدمی سفرمیں ہوں تو ان میں ایک کو امیربنالیناچاہیے۔
ذمہ داری کا احساس
قوم کا سربراہ اس کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ قوم کی خیر خواہی کرنا ،ہر طرح کی ضرویات کا خیال رکھنا اور اس کی بہتری کی فکر کرنا ،اس کی ذمہ داری ہی نہیں بلکہ عین فرض منصبی ہے۔ اسے اس کا احساس ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: والذین ہم لامانٰتہم وعہدہم راعون (مومنون)
امانتیں اللہ کی ہوں یا لوگوں کی، اسی طرح عہد اللہ کے ہوں یا لوگوں کے ان کا خیال رکھنا مومن کا وصف ہے۔ ذمہ داری قبول کرنا بھی اللہ اور لوگوں سے عہد ہوتا ہے۔ چنانچہ آپ ﷺ کا ارشاد ہے: لا ایمان لمن لا امانة لہ، ولا دین لمن لا عہد لہ (ابن ماجہ) اس شخص میں ایمان نہیں جس میں امانت داری نہ ہو اور اس شخص میں دین کا پاس ولحاظ نہیں جس کے اندر عہد کی پاس داری نہ ہو۔
ہم نے کلمہ پڑھ کا اللہ اور اس کے رسول سے کچھ عہد کرلیا ہے اس کلمے کی برکت سے ہمارے کاندھوں پر بہت بھاری ذمہ داری آن پڑھی ہے اور وہ ذمہ داری وہی ہے جو پہلے انبیائے کرام کی ہوتی تھی لیکن اب اللہ نے اس امت کو اس ذمہ داری کے لئے چن لیا ہے، چنانچہ کلمہ پڑھنے کا مطلب صرف یہ نہیں کہ ہم مسلمان ہو گئے اور بس۔ بلکہ کلمہ پڑھ کر ہم نے عہد کرلیا کہ ہم نبیوں والا کام کریں گے ، اگر ہمیں اس کا احساس نہیں تو یہ بہت گھاٹے کا سودا ہے۔
آپﷺ کا ارشاد ہے: الاکلکم راع وکلکم مسﺅل عن رعیتہ۔(متفق علیہ) تم میں کا ہرشخص ذمہ دار ہے، ہرایک سے اس کی رعیت کے بارے باز پرس ہوگی۔
ایک روایت میں ہے جس شخص کو اللہ تعالیٰ نے کسی رعایا کا نگران بنایا پھر اس نے اس کی خیر خواہی کا خیال نہ رکھا اللہ اس پر جنت کو حرام کردیگا۔(بخاری جلد2)
ایک روایت میں ہے جو نگران اپنے ماتحتوں سے خیانت کرے وہ جہنم میں جائے گا۔(مسند احمد)
ایک روایت میں ہے جو آدمی دس آدمیوں پر بھی نگران بنادیا گیا قیامت کے دن اس طرح پیش کیا جائے گا کہ اس کے ہاتھ گردن پر بندھے ہوں گے پھر اس کا عدل اسے چھڑائے گا یا اس کا ظلم اسے عذاب شدید میں ڈال دے گا۔ (السنن الکبریٰ بیہقی)
احساس جوابدہی کا یہی وہ محرک تھا جس نے صحابہ کرامؓ کو ذمہ دارشخصیت بنادیا، جو دنیاوالوں کے لیے نمونہ بنے۔ پھر دنیا نے آپﷺکے تربیت یافتہ خلفائے راشدین کا دور بھی دیکھا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ جب امیر بنے تو ان کے احساس ذمہ داری کا یہ عالم تھا کہ وہ رعایا کے احوال سے نہ صرف باخبر رہتے تھے بلکہ ان کی ضروریات پوری کرنے کے لیے خود پیٹھ پر غلوں کا بوجھ اٹھالیتے تھے۔ کیوں کہ انھوں نے اپنے قائد سرور عالم کو بدست خودخندق کھودتے دیکھا تھا۔
1۔یہی احساس حضرت عمررضی اللہ عنہ کو رات سونے نہیں دیتا تھا، چنانچہ وہ رات کو گشت کرتے تھے، ایک دن ایک گھر سے بچوں کے رونے کی آواز آئی، گھر والوں سے پوچھا تو پتا چلا بچے بھوکے ہیں اور گھر میں کچھ کھلانے کے لئے نہیں، ماں نے بچوں کو بہلانے کے لئے خالی دیکچی چولہے پر رکھی ہوئی ہے کہ کھانا پک رہا ہے۔ چنانچہ حضرت عمر فورا واپس آئے اور غلے کی ایک بوری اپنے کندھوں پر اٹھائی، خادم نے کہا میں اٹھاتا ہوں تو فرمایا قیامت والے دن سوال مجھ سے ہوگا تم سے نہیں اس لئے میں خود ہی اٹھاوں گا۔ بوری اس گھر میں پہنچائی، پھر جتنی دیر ان کی ماں کھانا تیار کرتی رہی اتنی دیر بچوں کے سامنے ایسے بیٹھ گئے جیسے کوئی جانور بیٹھتا ہے، کھانا تیار ہوا، بچوں نے کھایا اور پھر جب تک بچے ہنسی خوشی کھیلنے نہیں لگے وہیں رکے رہے۔
2۔ حضرت عمررضی اللہ عنہ اپنے زخمی اونٹ کا زخم دھورہے تھے اور فرمارہے تھے کہ میں ڈرتا ہوں قیامت والے دن مجھ سے اس زم کی پوچھ نہ ہو۔(تاریخ الخلفا110)
3۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں ایک باغ میں گیا وہاں کیا دیکھتا ہوں کہ حضرت عمررضی اللہ عنہ کہہ رہے ہیں کہ:
عمر۔۔۔خطاب کا بیٹا۔۔۔امیرالمومنین کا منصب۔۔۔واہ کیا خوب۔۔۔اے عمر اللہ سے ڈر ورنہ سخت عذاب ہوگا تجھے۔(تاریخ الخلفا102)
یہ وہی عمر ہیں جن کے بارے حضور نے فرمایا: اللہ نے عمر کے دل اور زبان پر حق جاری کردیا ہے(ترمذی)
4۔ ایک بار آپ رضی اللہ عنہ کی بیوی ے کہا کچھ نصیحت فرمائیں۔ تو فرمایا: سنو جب میں نے دیکھا میرے کاندھوں پر بھاری ذمہ داری ڈال دی گئی ہے تو مجھے دور دراز کے بھوکوں ضرورت مندوں اور مفلسوں کا خیال آیا، اور میرے دل میں یہ احساس پیدا ہوا کہ قیامت والے دن اللہ مجھ سے میری رعایہ کے بارے پوچھے گا۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ان مفلوک الحا ل لوگوں کے حق میں میرے خلاف بیان دیں گے۔ یہ سوچ کر میرے دل میں خوف طاری ہوگیا کہ اللہ میرا کوئی عذنہیں قبول کرے گا۔ پھر یہ سوچ کر مجھے خود پر ترس آیا اور آنکھوں میں آنسو آگئے۔ اب میں اس حقیقت کو جتنا یاد کرتا ہوں اتنا ہی احساس ذمہ داری بڑھتا چلا جاتا ہے۔( تاریخ الخلفا 189)
جب ایک ذمہ دار شخص کا احساس ذمہ داری ختم ہوتا ہے تو اس کے اثرات بہت دور تک جاتے ہیں، مامورین اس سے شدید متاثر ہوتے ہیں، غیر فعالیت پیدا ہوتی ہے۔ اس اعتبار سے ہم میں سے ہر ایک کو اپنا جائزہ لینا ہوگاکہ آیا ہماری قربانی اللہ کے لئے ہے یا نہیں۔
سوچنے کی تین باتیں
دین کے کاموں میں ایک فعال اور متحرک مسلمان کے لئے مایوسی کے ان اندھیروں میں امید کی تین کرنیں روشن ہیں۔
1۔ ہرفعال اور متحرک مسلمان دوسرے انسانوں کی ہدایت، اور اخروی نجات کا ذریعہ بن کر اپنے لئے صدقہ جاریہ کا سامان بنا لیتا ہے۔
2۔ ہرفعال اور متحرک مسلمان اپنے دوسرے رفقاءکے لئے حوصلہ افزائی کا باعث بنتا ہے۔ اس کے ایثار وقربانی سے دوسرے رفقاءکو بھی قربانی کا جذبہ پیدا ہوتا ہے اور نیکی کے کاموں میں مسابقت اور مقابلے کی فضا قائم ہوتی ہے۔
3۔ چونکہ محاسبہ اخروی انفرادی ہوگا،(وکلہم آتیہ یوم القیامة فردا۔مریم) اس لئے ایک فعال اور متحرک مسلمان اللہ کہ سامنے کہہ سکے گا کہ اے اللہ میں نے اپنے حصے کا کام پورا کیا تھا۔
اس کے مقابلے میں وہ مسلمان جو حقیقی عذر کے بغیر غیر فعال ہیں انہیں بھی تین باتیں سوچنا چاہیے کہ:
1۔ اللہ نے اس پر کتنا بڑا احسان کیا کہ اسے مسلمان بنایا، قرآن وسنت کی روشنی میں فرائض دینی کے ایسے تصور کا فہم دیا جو قرآن وسنت کی واضح تعلیمات پر مبنی ہے، پھر توفیق عطا فرمائی کہ ان فرائض کی ادائیگی کے لئے تنظیم میں شامل ہو۔ اس کے بعد اب غیر فعال ہونا اللہ کے احسانات کی ناشکری ہے، اور اللہ کا فرمان ہے: لئن شکرتم لازیدنکم ولئن کفرتم فان عذابی لشدید۔
2۔ غیر فعال ساتھی فرائض دینی میں کوتاہی کرکے نہ صرف خود گناہ گار ہوتا ہے بلکہ دوسرے ساتھیوں کو بھی مایوس کرتا ہے۔ایسا نہ ہو کہ تنظیم میں تو حصول ثواب کے لئے آئے تھے لیکن اب اپنی ذمہ داری سے کوتاہی اور دوسرے ساتھیوں کی حوصلہ شکنی کرکے وبال لپیٹ رہے ہوں۔؟
3۔ مسلسل کوتاہی بھی بہت بڑی محرومیوں کا باعث بن سکتی ہے۔
تین ہی بڑی محرومیاں
1۔یاایہاالذین امنوا استجیبوا للہ وللرسول اذا دعاکم لما یحییکم، واعلموا اَن اللہ یحول بین المرء وقلبہ وانہ الیہ تحشرون(انفال24)۔
ترجمہ: اے لوگو جو ایمان لائے ہو لبیک کہو اللہ اور اس کے رسول کی پکار پر جبکہ وہ اللہ تمہیں پکارے تاکہ اس کے ذریعے سے وہ تمہیں زندگی دے، جان لو کہ اللہ حائل ہو جایا کرتا ہے بندے اور اس کے دل کے درمیان اور اسی کی طرف تم سب جمع کیے جاو گے۔
2۔واللہ الغنی وانتم الفقراءواِن تتولوا یستبدل قوما غیرکم، ثم لایکونوا امثالکم(محمد38)۔
ترجمہ: اور اللہ غنی ہے اور تم فقیر ہو اور اگر تم نے پیٹھ دکھائی تو وہ بدل کر لے آئے گا تمہارے سوا کسی اور قوم کو اور وہ تمہاری طرح نہیں ہوگی۔
3۔رب لولااخرتنی الی اجل قریب فاصدق واکن من الصالحین(منافقون10)۔
ترجمہ: اے میرے پروردیگار مجھے تھوڑی سی مہلت کیوں نہیں دے دیتا کہ میں صدقہ کرلوں اور ہو جاوں بالکل نیک۔لیکن پھر مہلت نہیں ملے گی۔

غزوہ ہند کیا ہے

پاک بھارت حالیہ کشیدگی اس اعتبار سے بہت اہم ہے کہ اس بار انڈین میڈیاپر بھی ٹاک شو میں غزوہ ہند کا چرچا بہت زیادہ رہا ۔ پاکستان اور سوشل میڈیا پر تو غزوہ ہندکا تذکرہ ہوتا ہی رہتا ہے۔ لیکن پھر بھی بہت سارے لوگ اس بارے جاننا چاہتے ہیں کہ غزوہ ہند کیا ہے۔
غزوہ ہند کے بارے میں مروی احادیث میں سے چند ایک درج ذیل ہیں:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ وَعَدَنَا رَسُولُ اﷲِ صلیٰ الله عليه وآله وسلم فِي غَزْوَةِ الْهِنْدِ فَإِنْ اسْتُشْهِدْتُ کُنْتُ مِنْ خَيْرِ الشُّهَدَاءِ وَإِنْ رَجَعْتُ فَأَنَا أَبُوهُرَيْرَةَ الْمُحَرَّرُ.
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہم سے غزوہ ہند کے بارے میں وعدہ فرمایا تھا، سو اگر میں شہید ہو گیا تو بہترین شہیدوں میں سے ہوں گا۔ اگر واپس آ گیا تو میں آزاد ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہوں گا‘‘۔
1. احمد بن حنبل، المسند، 2: 228، رقم: 7128، مؤسسة قرطبة، مصر
2. حاکم، المستدرک علی الصحيحين، 3: 588، رقم: 6177، دار الکتب العلمية، بيروت
عَنْ أَبِيْ هُرَيْرَةَ قَالَ وَعَدْنَا رَسُوْلُ اﷲِ صلیٰ الله عليه وآله وسلم غَزْوَةُ الْهِنْدِ فَاِنْ اَدْرَکْتُهَا أَنْفِقُ فِيْهَا نَفْسِي وَمَالِي فَاِنْ اُقْتَلُ کُنْتُ مِنْ أَفْضَلِ الشُّهَدَآءِ وَاِنْ أَرْجِعُ فَأَنَا اَبُوْهُرَيْرَةَ الْمُحَرَّرُ.
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہم سے وعدہ فرمایا تھا کہ مسلمان ہندوستان میں جہاد کریں گے، اگر وہ جہاد میری موجودگی میں ہوا تو میں اپنی جان اور مال اﷲ تعالیٰ کی راہ میں قربان کروں گا۔ اگر میں شہید ہو جاؤں تو میں سب سے افضل ترین شہداء میں سے ہوں گا۔ اگر میں زندہ رہا تو میں وہ ابو ہرہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) ہوں گا جو عذاب جہنم سے آزاد کر دیا گیا ہے‘‘۔
1. نسائي، السنن، 3: 28، رقم: 4382، دار الکتب العلمية بيروت
2. بيهقي، السنن الکبری، 9: 176، رقم: 18380، مکتبة دار الباز مکة المکرمة
عَنْ ثَوْبَانَ مَوْلَی رَسُولِ اﷲِ صلیٰ الله عليه وآله وسلم عَنِ النَّبِيِّ صلیٰ الله عليه وآله وسلم قَالَ عِصَابَتَانِ مِنْ أُمَّتِي أَحْرَزَهُمَا اﷲُ مِنْ النَّارِ عِصَابَةٌ تَغْزُو الْهِنْدَ وَعِصَابَةٌ تَکُونُ مَعَ عِيسَی ابْنِ مَرْيَمَ عَلَيْهِ السَّلَام.
’’حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ جو کہ رسول اﷲ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے غلام تھے، سے روایت ہے کہ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میری امت کے دو گروہوں کو اﷲ تعالیٰ دوزخ کے عذاب سے بچائے گا ان میں سے ایک ہندوستان میں جہاد کرے گا اور دوسرا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ ہوگا‘‘۔
1. احمد بن حنبل، المسند، 5: 278، رقم: 22449
2. نسائي، السنن، 3: 28، رقم: 4384
3. بيهقي، السنن الکبری، 9: 176، رقم: 18381
4. طبراني، المعجم الاوسط، 7: 2423، رقم: 6741، دار الحرمين القاهرة

mfi ghazwa hind 5

مذکورہ بالا احادیث مبارکہ میں حضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اسلام کے پیغام کو دنیا کے کونے کونے تک پہنچانے کے لیے اپنی تمام تر کاوشوں کو بروئے کار لانے کا اعلان فرما رہے ہیں، اور اس کے لیے اپنی جان تک قربان کرنے کو تیار ہیں۔ اس دعوتِ اسلام کا ایک پڑاؤ ہندوستان ہے جس میں اسلام کے ابلاغ اور اس کے پھیلاؤ کی ترغیب دینے کا ایک مؤثر طریقہ رسول اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے استعمال فرماتے ہوئے اس کاوش کو غزوہ یعنی ’انتہائی کوشش‘ کا نام دیا۔ اس غزوہ سے مراد صرف ایک جنگ نہیں بلکہ اسلام کے پیغام کے فروغ کی ہر ممکن طریقے سے جدوجہد ہے۔
چونکہ اسلام میں جنگ برائے جنگ نہیں ہوتی بلکہ اللہ کے دین اور کلمے کی سربلندی کے لیے بامرمجبوری جنگ کرنا پڑتی ہے، اور جو جنگ جتنی زیادہ مشکل ہو اس پر اجر بھی اتنا ہی زیادہ ملتا ہے۔ چنانچہ بعض روایات میں ہندوستان کے خلاف اسلام کی سربلندی کے لیے لڑی جانے والی جنگ کو جنگ بدر کے مشابہ بھی قرار دیا گیا ہے۔ اس جنگ کی اتنی بڑی فضیلت کی اصل وجہ موجودہ صورتحال میں کیا ہےاسے ہم مضمون کے آخر میں بیان کریں گے۔
.
ان احادیث کا مصداق کیا ہے اس میں علماء کی بہت سی آراء ہیں۔ چنانچہ ایک رائے یہ ہے کہ ان احادیث کا مصداق وہ تمام جنگیں ہیں جو مسلمانوں کی ہندوستان سے آج تک ہوئی ہیں یا آئندہ ہوں گیں۔ جس میں اسلام کی پندرہ سوسالہ تاریخ، پاکستان کی ستر سالہ تاریخ اور جنگیں، مسئلہ کشمیر وغیرہ سب شامل ہیں۔
احادیث شریفہ میں ہندوستان کی فتح کی بشارت کا ذکر بہت تاکید کے ساتھ ہوا ہے، اس لیے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے دور سے ہی غزوہ ہند کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔ بلاذری کی تحقیق کے مطابق ہندوستان پر مہم جوئی کا آغاز امیرالمؤمنین حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں ہو چکا تھا۔
ایک رائے یہ ہے کہ ابھی ان روایات کا مصداق پیش نہیں آیا بلکہ حضرت امام مہدی اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں اس معرکہ آرائی کا تحقق ہوگا اس رائے کے قائلین ان روایتوں کو پیش کرتے ہیں جو علامہ بن نعیم بن حماد نے اپنی کتاب ’’الفتن‘‘ میں پیش کی ہیں، جس میں یہ ذکر ہے کہ ’’ایک جماعت ہندوستان میں جہاد کرے گی اور اس کو فتح نصیب ہوگی اور جب وہ مال غنیمت لے کر واپس لوٹیں گے تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ملک شام میں نزول ہوچکا ہوگا‘‘۔
غزوہ ہند سے متعلق اگر تمام روایات کا جائزہ لیا جائے تو مندرجہ ذیل چیزیں واضح ہوتی ہیں۔
1۔ وہ جنگ آخری دور میں لڑی جائیگی۔
2۔ اس وقت مسلمانوں کی طاقت کا مرکز حجاز میں نہیں بلکہ خراسان میں ہوگا جس میں پاکستان، انڈیا، افغانستان، روس اور ایران تک کے علاقے شامل ہیں۔
3۔ طاقت کے اس مرکز میں موجود عجمیوں کا لشکر بہتر ہتھیاروں سے لیس اور بہترین شاہسواروں ( جنگجووں )پر مشتمل ہوگا۔
4۔ اس وقت بیت المقدس میں یہودیوں کا اجتماع ہوچکا ہوگا۔
5۔ شام میں خرابی ہو چکی ہوگی۔
6۔ اس لشکر کو بیک وقت یہود و ہنود سے دشمنی اور جنگ درپیش ہوگی۔
ان تمام باتوں کو دیکھا جائے تو پتا چلتا ہے کہ موجودہ دور وہی دور ہے جب مسلمانوں کی طاقت کا مرکز خراساں میں پاکستان کی ایٹمی طاقت اور جدید تربیت یافتہ فوج کی شکل میں قائم ہو چکا ہے۔ اور یہی وہ ملک ہے جسے یہود اور ہنود سے بیک وقت خطرہ لگا رہتا ہے۔شام میں خرابی پیدا ہو چکی ہے۔اور اسرائیل کی شکل میں یہودیوں کا اجتماع بھی ہو چکا ہے۔
……………..
غزوہ ہند کی فضیلت کی وجہ
1۔ مشرکین کی اس وقت دنیا میں سب سے بڑی ریاست انڈیا کے لیے پاکستان بدترین دشمن اور رکاؤٹ ہے۔
2۔ اسرائیل کے لیے مدینہ کی طرف پیش قدمی کو پاکستان نامی اسلامی ایٹمی قوت سے مستقل خطرہ درپیش ہے جسکا مزہ وہ 67ء اور 73ء کی عرب اسرائیل جنگوں میں چکھ چکا ہے۔
3۔ امریکہ کی عالمی اجارہ داری کے راستے میں جو اکلوتا کانٹا حائل ہے وہ بھی پاکستان ہے۔ اس کو صرف اس تناظر میں نہ دیکھئے کہ بقول ٹرمپ ” پاکستان ہی افغانستان میں امریکہ کے خلاف جہاد کر رہا ہے” بلکہ سی پیک اور گوادر پر روس اور چین کے انحصار کے حوالے سے بھی دیکھئے۔
4۔ اسلامی دنیا کی دو اہم ترین طاقتوں ایران اور سعودی عرب میں جنگ کو روکے رکھنے میں پاکستان کا کردار نہایت اہم ہے۔ صرف پاکستان کی سعودی عرب میں علامتی موجودگی نے ایران کو سعودی عرب پر چڑھائی سے روک رکھا ہے۔ اگر ان میں جنگ ہوتی ہے تو پورے عالم اسلام میں زلزلہ آئیگا۔
5۔ جنگ جتنی سخت اور مشکل ہو اجر اتنا بڑا ہوتا ہے۔ اگر پاکستان اور انڈیا کی جنگ ہوتی ہے تو پاکستان کو بیک وقت کئی محاذوں پر یہ جنگ لڑنی پڑے گی جس میں طاقت کا توازن بری طرح سے پاکستان کے خلاف ہوگا۔ یہ جنگ مندرجہ ذیل وجوہات کی بنا پر سخت ترین جنگ ہوگی۔

الف ۔۔۔ ایٹمی جنگ کے خطرات کے ساتھ ساتھ پاک فوج کو بیک وقت انڈیا اور افغانستان میں موجود امریکی کٹھ پتلی فوج کے علاوہ ان لشکروں سے بھی لڑنا پڑے گا جن کو اسلام اور قومیت کے مختلف نعرے دے کر پاکستان کے خلاف جنگ کے لیے تیار کیا گیا ہے یا کیا جا رہا ہے۔ جن میں ایران سرفہرست ہے۔

ب ۔۔۔ دشمن کے مقابلے میں افرادی قوت بہت کم ہوگی۔ 65ء کی طرح ایک اور پانچ کا تناسب ہوگا۔
ج ۔۔۔ انڈیا دنیا میں اسلحے کا سب سے بڑا خریدار ہے جو ہتھیاروں کے انبار لگا چکا ہے۔ جبکہ افغانستان کو امریکہ اور اسرائیل ہر قسم کے وسائل فراہم کرنے کے لیے تیار ہیں۔ ان مقابلے میں پاک فوج کے پاس یقیناً بہت کم ہتھیار ہیں۔
د ۔۔۔ پاک فوج عوام کے ایک بڑے طبقے کی حمایت سے محروم ہوگی جس پر پورے ملک میں شد و مد سے کام جاری ہے۔ آپ نوٹ کیجیے بیک وقت اسلام پسندوں، لبرلز اور قوم پرستوں کو پاک فوج سے متنفر کیا جا رہا ہے۔
امریکہ کبھی پاکستان سے براہ راست جنگ کا خطرہ مول نہیں لے گا بلکہ انڈیا کو ہی استعمال کرے گا اور اگر اس جنگ میں پاکستان کو شکست ہوتی ہے تو پورا عالم اسلام اتنی تیزی سے گرے گا جس کا تصور ہی خوفزدہ کردینے والا ہے۔
لیکن دوسری طرف اس جنگ کی فتح نہ صرف امریکہ و اسرائیل ( یہود و نصاری ) کو اس خطے میں اپنے سب سے بڑے حلیف سے محروم کر دے گی بلکہ پاکستان، انڈیا، بنگلہ دیش اور کشمیر میں موجود کم از کم پچاس کروڑ مسلمانوں کو مستقل طور پر ایک جابر ریاست سے نجات مل جائیگی۔
جس کے بعد یہاں موجود لشکر انڈیا کی مدد و حمایت سے محروم اسرائیل کی طرف مارچ کر سکیں گے۔
ان حالات کے پیش نظر پاکستان اور انڈیا میں ممکنہ جنگ کی وہی فضلیت ہونی چاہئے جن کا تذکرہ احادیث میں ملتا ہے۔ غزوہ بدر کی طرح۔

جگر کا کینسر، علامات،وجوہات،علاج

جگر کا کینسر، علامات،وجوہات،علاج

جگر کا کینسر اور اس کی علامات، تشخیص، اور آسان سستا علاج۔ حکیم محمد اقبال ماہر قانون مفرد اعضاء۔

 

بچوں کا بستر پر پیشاب کرنا

بچوں کا بستر پر پیشاب کرنا

بچوں کے بستر پر پیشاب کی کرنے کی وجوہات اور علاج۔

پاکستانی سانپ

اسلامی تحریکوں کے کارکن

سیدعبدالوہاب شیرازی
میری یہ تحریر ان لوگوں کے لئے ہے جو دینی اور مذہبی جماعتوں یا اسلامی تحریکوں سے وابستہ ہیں۔
عامر: تبلیغی جماعت دین کا بہت بڑا کام کررہی ہے ، وہ جو کام کررہی ہے کوئی جماعت نہیں کررہی۔
جاوید: مجھے آپ کی اس بات سے باالکل اتفاق نہیں کیونکہ تبلیغی جماعت فلاں فلاں کام نہیں کرتی، وہ دین کی پوری فکر لوگوں کو نہیں دیتی، وہ تو بس میٹھی میٹھی باتیں کرتے ہیں۔دین کا بہت بڑا حصہ ان کا موضوع ہی نہیں اور نہ ہی وہ اس طرف آرہی ہے۔
عامر: بھائی آپ کو آدھا گلاس خالی ہی دکھتا ہے، آدھا بھرا ہوا کیوں نہیں دکھتا۔ آدھا گلاس خالی ہی دکھنا منفی سوچ ہے، آپ اس منفی سوچ سے باہر نکلیں اور مثبت سوچیں۔
جاوید: میں یہ کہہ رہا…………….
Nukta Colum 003 728
عامر: ایک منٹ مجھے بات مکمل کرنے دیں اب مجھے تھوڑا سا بولنے دیں۔ جس طرح آپ سوچ رہے ہیں کہ تبلیغی جماعت یا آپ کی جماعت کے علاوہ کوئی بھی دوسری جماعت فلاں فلاںکام نہیں کررہی یہی اعتراض آپ پر بھی ہوسکتا ہے کہ آپ بھی تو دین کے سارے شعبوں میں کام نہیں کررہے۔ آپ نے بھی ایک ہی شعبے کو اختیار کیا ہوا ہے اور بیسیوں سال گزر گئے صرف وہی ایک کام کرتے جارہے ہیں۔
دیکھیں ہمارے معاشرے میں چوڑے چمار بھی ہیں، کیا وہ انسان نہیں، کیا وہ کتے بلیاں ہیں؟ کیا ان کا حق نہیں کہ وہ بھی اللہ رسول کی طرف آئیں، عمل کریں اور جنت کے مستحق ٹھہریں۔ ان کا صرف اتنا ہی قصور ہے کہ ان کا دادا یہ کام کرتا تھا، پھر باپ کرتا تھا اور اب وہ بھی یہی کام کررہے ہیں ان کی یہی ساری دنیا ہے، انہیں کون جاکر بتائے گا کہ بھائی یہی ساری زندگی نہیں، یہ آپ کا فن یہ ذریعہ روزگار ہے اصل زندگی کچھ اور ہے۔ تبلیغی جماعت کے علاوہ کون سی جماعت ہے جو معاشرے کے ایسے نچلے اور پسے ہوئے طبقات کو احساس ذمہ داری دلاتی ہے۔ آپ غور کریں کبھی آپ یا آپ کی جماعت کا کوئی وفد ایسے لوگوں سے ملا؟ ان کو دعوت دین دی؟ یا کم از کم اپنی میٹنگ میں ہی ان کا تذکرہ کیا؟ ۔ یقینانہیں۔ ہاں جب گٹر بند ہوا ہوگا تو لازما فون کرکے بلایا ہوگا اور پھر سو پچاس دے کر فارغ کردیا ہوگا۔ اگر ایسا ہی ہے تو پھر تبلیغی جماعت کے اس مثبت کام پرنظر رکھیں اور خود بھی مثبت سوچیں۔
کیا آپ کی جماعت نے کبھی اس بارے مشورہ کیا کہ ہمارے معاشرے میں ہزاروں کی تعداد میں ہیجڑے بھی ہیں، وہ بھی انسان ہیں اور اللہ کے احکامات کے اسی طرح مکلف ہیں جس طرح 22گریڈ کا افسریا اونچے سٹیٹس ،مرسڈیزگاڑی،کاٹن کے سفید سوٹ میں ملبوس شخص۔؟ کتنے ہیجڑوں کو آپ راہ راست پر لائے؟ آپ کی جماعت کے رجسٹر ممبران میں کتنے ہیجڑے ہیں جو آپ کی تحریک سے وابستہ ہیں۔؟ کیا ان کا حق نہیں کہ وہ بھی اللہ کے دین کا وہ کام کریں جو آپ کرکے شاید اللہ پر احسان کررہے ہیں۔ تبلیغی جماعت نے ہزاروں ہیجڑوں پر محنت کی انہیں ٹھیک کیا اور اب وہ اپنے غلط کام چھوڑ کر ایک عام مسلمان کی طرح زندگی بھی گزار رہے ہیں اور اپنے باقی ساتھیوں پر بھی محنت کررہے ہیں۔
کیا کبھی آپ نے یاآپ کی جماعت کے وفد نے لاہور اور ملتان کی ہیرا منڈی کا دورہ کیا۔؟ وہاں کی عورتوں سے ملاقات کی۔؟ آپ کی نظر میں تو وہ بازاری عورت ہے، اس کا کیا کام کہ وہ توبہ کرے، وہ غلط کام چھوڑے، وہ نماز پڑھے، وہ پردہ کرے؟ ۔ ہاں آپ نے دو چار کتبے ضرور لکھے ہوں گے فحاشی بندکرو، اخباری بیان اور جلسے کی تقریر میں ضرور انہیں بُرا بھلا کہا ہوگا۔ ان کا صرف اتنا قصور ہے کہ سینکڑوں سال سے وہ اس پیشے سے وابستہ ہیں۔ ان کے آباءواجداد سے نسل در نسل یہی ان کا پیشہ ہے۔انہیں کسی نے بتایا ہی نہیں کہ زندگی صرف یہی نہیں بلکہ اصل زندگی کچھ اور ہے۔ جی ہاں تبلیغی جماعت نے بے شمار طوائفوں کے سر پر شفقت کی چادر رکھی، ان کو یہ احساس دلایاکہ یہ اصل زندگی نہیں، ان سے توبہ کروائی، انہیں قرآن پڑھنے پر لگایا، انہیں نمازی بنایا، انہیں باعزت زندگی عطاءکی، ان کی شادیاں کروا کررخصت کیا۔
کیا آپ گونگوں ،بہروں اور نابینوں کو انسان سمجھتے ہیں یا نہیں۔؟ کیا وہ صرف اس لئے ہیں کہ ان کے شناختی کارڈ پر معذوری کا نشان ڈال دیا جائے اور معذوروں کی کیٹگری میں شمار کیا جائے۔؟ عبداللہ بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ بھی پیدائشی نابینا تھے، لیکن صحابہ نے ان سے یہ کام لیا کہ جنگوں میں لشکر کا علم ان کے ہاتھ میں پکڑا ہوتا تھا اور قادسیہ کی جنگ میںمیدان جنگ میں شہادت کا رتبہ پایا۔ آپ کی جماعت میں کتنے نابینا، کتنے گونگے وہ دین کا کام کررہے ہیںجو آپ نے امیروں، اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں کے لئے سنبھال کررکھا ہوا ہے۔ تبلیغی جماعت میں سینکڑوں نابینا، گونگے بہرے دین کی محنت کررہے ہیں، ان کا الگ اجتماع ہوتا ہے، ان کی جماعتیں نکلتی ہیں، جو دوسرے گونگوں کو اپنی مخصوص اشاروں والی زبان میں دین سکھاتی ہیں۔
ہمارے معاشرے میں مسلمانوں کی ایک بہت بڑی تعداد جو کروڑوں میں ہے، جو اَن پڑھ ہیں، یا انتہائی کم تعلیم یافتہ ہیں، مزدور ہیں، جو اپنی مادری زبان کے علاوہ کوئی دوسری زبان نہیں سمجھتے، ہمارے نزدیک ان کی حیثیت بس یہی ہے کہ ہم سے پیسے لے کر ہمارے کام کریں، ہماری گاڑی صاف کریں، ہمارے پودوں کو پانی لگائیں، ہمارا فرش دھوئیں، ہمارے دروازے پر پہرہ دیں اورہمارے بچوں کو بیکن ہاوس چھوڑ آئیں۔لیکن ان لوگوں کے دل میں ایمانی چنگاری جب بھڑکتی ہے تو پھر یہ آپ کے گھر کا سارا کام نمٹا کر عصر کے بعد محلے کی مسجد میں پندرہ بیس منٹ تعلیم وگشت کی مجلس میں شرکت کرتے ہیں،سورة اخلاص اور التحیات کے تلفظ درست کرتے ہیں، کیونکہ وہاں پر ان کی ذہنی قابلیت کے برابر دین کی بات سمجھائی جاتی ہے، انہیں عزت دی جاتی ہے۔ جبکہ عین اسی وقت آپ شیشے کے محل میں، سرخ کالینوںپر، سرینا ہوٹل کے بڑے ہال میں کیمروں کے جھرمٹ میں تقریر کررہے ہوتے ہیں کہ اسلامی نظام ایسے ایسے آئے گا، پھر تکبیر کے نعرے لگتے ہیں، ٹی وی پر خبر چلتی ہے اور آپ اپنے بیڈ پر چائے کی چسکی لیتے ہوئے اپنے بچوں کو کہہ رہے ہوتے ہیںکہ ذرا دوسرا چینل لگاو انہوں نے خبر دی یا نہیں۔؟
جی ہاں تبلیغی جماعت یہ سب کررہی ہے۔ وہ جو نہیں کررہی تو وہ آپ کررہے ہیں ، یااگر نہیں کررہے تو کرناشروع کردیں۔تبلیغی جماعت کبھی آپ سے یہ مطالبہ نہیں کرتی کہ آپ اپنا کام چھوڑ کر ان کے ساتھ چلیں۔
یہاں تک دین کا صرف ایک شعبہ بیان ہوا ہے۔ دین کا ایک شعبہ دین اسلام کی علمی میراث بھی ہے جو سینکڑوں سال سے سینہ بہ سینہ اور کتابوں کی شکل میں منتقل ہوتی آرہی ہے۔اللہ تعالیٰ نے اپنے کچھ بندوں کو اس کام پر لگایا ہوا ہے، یہ لوگ دنیا جہاں کی رنگینیوں سے بے خبریہ خدمات سرانجام دے رہے ہیں، ان کا اپنا طریقہ ہے، وہ اپنے کام کو بحسن خوبی سرانجام دے رہے ہیں۔ انہوں نے کبھی تنخواہوں میں اضافے کے لئے احتجاج نہیں کیا، آپ نے کبھی نہیں سنا ہوگا کہ آج ظہر کی نماز نہیں ہوگی کیوں کہ ہڑتال ہے۔ وہ ینگ ڈاکٹرز کی طرح تڑپتے لاشے چھوڑ کر او پی ڈی بند نہیں کرتے۔ وہ اگر کسی دینی مطالبے کے لئے ہڑتال کرتے بھی ہیں تو ان کے کام اسی طرح چل رہے ہوتے ہیں۔ وہ ہر سال ایک لاکھ حافظ قرآن پیدا کرتے ہیں، ہر سال تیس سے چالیس ہزار کے لگ بھگ علماءپیدا کررہے ہیںجن میں60فیصد خواتین اور40فیصد مرد ہوتے ہیں۔
دین کا ایک شعبہ سیاست بھی ہے۔ پھر سیاست کے مختلف پہلو ہیں۔ موجودہ دور میں جب کہ دین مغلوب ہے، مسلمان اس پوزیشن میں نہیں کہ وہ کفر کے سامنے ایک طرف دیوار سے لگ جائیں۔ چنانچہ کچھ لوگ سفارتکاری کرتے ہوئے ان طاغوتوں سے اٹھتے بیٹھتے ہیں ، مسلمانوں اور ان کی تحریکوں کے لئے بیچ بچاو کرانے میں لگے رہتے ہیں اور ساتھ ساتھ جتنا ممکن ہو ان کو غلط کاموں سے روکنے کی حتی المقدور کوششیں کررہے ہیں۔ اسی طرح کچھ لوگ ان ہی کفریہ طاغوتوں کے کھلے چھوڑے راستوں پر دینی محنت کررہے ہیں۔
جبکہ کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو ان تمام سے ہٹ کر لوگوں کو سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے انقلابی مراحل سے گزار کر جماعت تشکیل دینے کی کوشش کررہے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصد بعثت قرآن میں تین بار ایک ہی الفاظ کے ساتھ یہ بیان ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو قرآن اور شریعت دے کر دین اسلام غالب کرنے کے لئے بھیجا اور آپ نے اپنی زندگی میں اسے جزیرة العرب کی حد تک غالب کرکے دکھایا، پھر صحابہ کرام نے بائیس لاکھ مربع میل تک غالب کیا اور پھر آہستہ آہستہ مغلوب ہوتے ہوتے مکمل مغلوب ہوگیا۔ اس لئے بحیثیت مسلمان غلبہ دین بھی بہت بڑا فریضہ ہے جسے سیکھنا،سکھانا،سمجھنا،سمجھانا اور اس کے لئے جدجہد کرنا بھی فرض ہے۔
تبلیغی جماعت سمیت کوئی بھی جماعت،تحریک یاتنظیم ، دین کے سارے شعبوں میں کام نہیں کررہیں۔ اور نہ ہی کوئی جماعت دین کے سارے شعبوں میں کام کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے، یہ قدرتی طور پر خدائی نظام ہے کہ دین کے سارے شعبوں میں کام ہورہا ہے، ہرمیدان آباد ہے ۔ یہ مختلف موتی ہیں، جب اللہ کو منظور ہوگا یہ سب ایک لڑی میں پرو دیے جائیں گے۔ اہل حق کی کسی بھی جماعت میں حق اس طرح بند نہیں کہ کہیں اور موجود نہ ہو۔ اس لئے اللہ نے آپ کو جو صلاحیت دی ہے آپ اس صلاحیت کے مطابق ان تمام اسلامی تحریکوں،جماعتوں اور تنظیموں میں سے کسی ایک کا انتخاب کریں، اس کے ساتھ کام کریں اور باقی تحریکوں کے کام کی قدر دانی کریں، حتی المقدور ان کے ساتھ بھی تعاون کریں، خاص طور پر تبلیغی جماعت جو اسلام کی نرسری ہے، اسی نرسری سے پودے مختلف باغوں میں جاتے ہیں اور پھر پھل دیتے ہیں۔بس بات اتنی سی ہے جو اس نرسری کے خلاف جتنی نفرت پھیلاتاہے اسے اتنے ہی کم پودے یہاں سے ملتے ہیں۔ جن جن باغبانوں کا اس نرسری سے اچھے تعلقات ہیں انہیں اتنے ہی زیادہ پودے اپنے باغ کے لئے یہاں سے مل جاتے ہیں۔

علماء کے اختلاف کا حکمرانوں پر اثر

علماء کے اختلاف کا حکمرانوں پر اثر

سیدعبدالوہاب شیرازی
علماء حق انبیاء کے وارث ہوتے ہیں، ان کے کاندھوں پر وہی ذمہ داری ہوتی ہے جو انبیاء پوری کرتے آئے ہیں، چنانچہ صحیح علماء میں وہی اوصاف ہوتے ہیں جو حضرت نوح، حضرت شعیب، حضرت موسیٰ، حضرت صالح، حضرت ابراہیم، اور حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم و علیہم الصلوۃ و السلام کے قرآن میں بیان ہوئے ہیں۔ علماء کاکام انذار وتبشیر ہوتا ہے، علماء عوام کو تذکیر کراتے اور رہنمائی کرتے ہیں۔پھر سب سے بڑھ کریہ کہ علماء خود نمونہ ہوتے ہیں، جیسے تمام انبیاء اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عملی نمونہ بن کر تبلیغ کی۔ جب تک علماء اس روش پر قائم رہے پوری امت مجموعی لحاظ سے صحیح ڈگر پر چلتی رہی، لیکن جیسے جیسے علماء میں خرابی پیدا ہوئی ساتھی ہی امت میں خرابی پیدا ہونا شروع ہوگئی۔ علماء کی مثال امت کے جسم میں دل کی سی ہے، جیسا کے حدیث میں ہے جسم میں ایک ٹکڑا ہے جب وہ صحیح ہوتا ہے تو پورا جسم ٹھیک ہوتا ہے اور جب وہ خراب ہوتا ہے تو پورا جسم خراب ہوجاتا ہے اور وہ دل ہے۔ باالکل یہی معاملہ علماء کا ہے جب علماء ٹھیک ہوتے ہیں پوری امت ٹھیک ہوتی ہے جب علماء خراب ہوتے ہیں پوری امت خراب ہوجاتی ہے۔
Nukta Colum 003 9
آج کے اس مضمون ایک واقعہ کی روشنی میں اس بات کو ملاحظہ فرمائیں کہ علماء کی خرابی کا اثر حکمرانوں پر کیسے پڑتا ہے اور اس دل کی خرابی سے کتنی بڑی خرابی وجود میں آتی ہے اور پھر اللہ تعالیٰ اس بیماری کو ختم کرنے کے لئے سمر قند وترکستان سے کیسے خواجہ باقی بااللہ کو ہندوستان بھیج کر اصلاح کی کوششوں کو نئی زندگی بخشتے ہیں۔
منتخب التواریخ علامہ عبدالقادر بدایونی کی مشہور کتاب ہے ۔موصوف شہنشاہ اکبر کے ہم عصر ہیں ۔ اور اس کے دربارمیں رہے ہیں ۔ وہ اکبر کے بارے میں لکھتے ہیں کہ وہ ایک بادشاہ تھا جو حق کا طالب تھا اور اپنے اندر نفیس جوہر رکھتا تھا ۔ اکبر اپنی ابتدائی زندگی میں بڑا دیندار اور عبادت گزار تھا ۔ اس نے سات عالم صرف نماز کی امامت کے لئے مقرر کر رکھے تھے جن میں ایک خود ملا عبدالقادر بدایونی تھے ۔ وہ کہتے ہیں کہ اکبر کی دربار میں پانچوں وقت جماعت کے ساتھ نماز ہوتی تھی جس میں بادشاہ خود شریک ہوتا تھا۔ اکبر جب سفر کے لیے نکلتا تو اس کے ساتھ ایک خاص خیمہ نماز کا ہوتا تھا جس میں بادشاہ جماعت کے ساتھ نماز ادا کرتا تھا ۔شہنشاہ اکبر کے اس دیندارانہ مزاج کا یہ قدرتی نتیجہ ہوا کہ اس کے دربار میں علماء جمع ہونے لگے ۔ اکبر کو حدیثیں سننے اور مسائل دین پر گفتگو کرنے سے خاص دلچسپی تھی ۔ اس مقصد کے لئے وہ علماء کی صحبتوں میں دیر دیر تک بیٹھتا تھا ، ملا بدایونی نے لکھا ہے کہ اکبر کے گرد جمع علماء کی تعداد ایک سو سے بھی اوپر تک پہنچ گء تھی ۔ بادشاہ کے گرد جمع ہونے والے یہ علماء قدرتی طور پر بادشاہ کی عنایتوں میں حصہ پانے لگے ۔ بس یہیں سے وہ حالات پیداہوئے جس نے ایک دیندار بادشاہ کو بے دین بنا ڈالا ۔
ظاہر ہے کہ سو آدمی بیک وقت بادشاہ کے قریب نہیں بیٹھ سکتے تھے ۔ چنانچہ پہلا جھگڑا نشست گاہوں پر شروع ہوا ۔ہر ایک اس کوشش میں رہتا کہ وہ بادشاہ کے قریب بیٹھے ۔اب جس کو قریب جگہ نہ ملتی وہ جلن میں مبتلا ہوتا ۔ اسی طرح بادشاہ کے انعامات میں جس کو کم حصہ ملتا وہ اس سے حسد کرنے لگتا جس کو اتفاق سے زیادہ انعام مل گیا ہو ۔
علماء کا حال یہ ہوا کہ وہ ایک دوسرے کو گرانے کے لئے ایک دوسرے کی برائیاں کرنے لگے ۔ ملا بدایونی کے الفاظ میں علماء کے گروہ سے بہت سی بیہودگی ظاہر ہوئی ایک نے دوسرے کے خلاف زبان کی تلوار نکالی، ایک دوسرے کی نفی کی اور تردید میں لگ گیا ۔ ان کا اختلاف یہاں تک بڑھا کہ ایک نے دوسرے کو گمراہ ثابت کیا ۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ شاہی دربار میں ان علماء کی گردنوں کی رگیں پھول آئیں ، آوازیں بلند ہوئیں اور زبردست شور برپا ہوا ۔علماء کی ان نازیبا حرکتوں سے بادشاہ کا متاثر ہونا فطری تھا ۔ اس کو سخت گراں گزرا اس کے بعد بادشاہ نے پہلی کارروائی یہ کی کہ ملا بدایونی کو حکم دیا کہ اس قسم کے نا معقول عالموں کو آئندہ بادشاہ کی مجلس میں آنے نہ دیں ۔ اس کے باوجود علماء کی حرکتیں بند نہ ہوئیں ۔ ان کی باتیں بادشاہ کے لئے ایمانی قوت کے بجائے بدگمانی اور برگشتگی میں اضافہ کا سبب بنتی رہیں ۔ علماء کا یہ حال تھا کہ ایک دوسرے کے ضد میں کوئی عالم ایک چیز کو حرام کہتا اور دوسرا اس کو حلال بتاتا ۔ ان چیزوں نے بادشاہ کو شک میں ڈال دیا ۔ اس کی حیرانی بڑھتی چلی گئی ، یہاں تک کہ اصل مقصد ہی سامنے سے جاتا رہا ۔
درباری علماء میں سے ایک ملا عبداللہ سلطان پوری تھے ۔ ان کا سرکاری لقب مخدوم الملک تھا ۔ انہوں نے مختلف طریقوں سے جو دولت جمع کی تھی اس کا حال ملا بدایونی نے ان الفاظ میں لکھا ہے ” ان کا انتقال ہوا تو بادشاہ کے حکم سے ان کے مکان کا جائزہ لیا گیا جو لاہور میں تھا ۔ اتنے خزانے اور دفینے ظاہر ہوئے کہ ان خزانوں کے تالوں کو دہم کی کنجیوں سے بھی کھولنا ممکن نہ تھا ،حتی کے سونے سے بھرے ہوئے چند صندوق مخدوم الملک کے خاندانی قبرستان سے برآمد ہوئے جنہیں مردوں کے بہانے سے زمین میں دفن کیا گیا تھا “۔شاہ عبدالقدوس گنگوہی کے پوتے ملا عبدالنبی تھے جو اکبر کے زمانہ کے سب سے بڑے عالم سمجھے جاتے تھے۔ پورے ملک کے خطباء اور ائمہ کے درمیان جاگیر تقسیم کرنے کا انہیں اختیار تھا ۔ شہنشاہ اکبر ان کا اتنا زیادہ احترام کرتا تھا کہ ان کی جوتیاں سیدھی کرتا تھا ، مگر مذکورہ مخدوم الملک اور ملا عبدالنبی کے درمیان رقیبانہ کش مکش شروع ہوئی ۔ ایک نے دوسرے کو جاہل اور گمراہ ثابت کرنے کے لئے رسالے لکھے ۔ ایک نے دوسرے کے بابت لکھا کہ چونکہ انہیں بواسیر ہے اس لئے ان کے پیچھے نماز نا جائز ہے ۔ دوسرے نے لکھا کہ تم اپنے باپ کے عاق کئے ہوئے بیٹے ہو اس لئے تمہارے پیچھے نماز جائز نہیں ۔ اس قسم کی لا یعنی بحثوں سے شاہی کیمپ صبح و شام گونجتا رہتا تھا ۔
شہنشاہ اکبر ابتدامیں نہایت دین دار تھا اور دینی شخصیتوں سے بڑی عقیدت رکھتا تھا ۔ مگر دین کے نمائندوں کی خرافات کو مسلسل دیکھنے کے بعد وہ دین سے بیزار ہو گیا اور دینی شخصیتوں سے بھی ۔ علماء کا یہ حال تھا کہ جانوروں کی طرح آپس میں لڑتے ۔ ایک عالم ایک فعل کو حرام بتاتا اور دوسرا عالم اسی فعل کو حلال قرار دیتا ۔
ملا بدایونی لکھتے ہیں :
اکبر اپنے زمانہ کے علماء کو غزالی اور رازی سے بہتر سمجھتا تھا ۔جب اس نے ان کی پست حرکتوں کو دیکھا تو حال پر ماضی کو قیاس کر کے سب کا منکر ہو گیا ۔اس کے بعد اکبر کے دربار میں علماء کا وقار ختم ہو گیا ۔ ابو الفضل اور فیضی جیسے لوگ دربار شاہی میں اہمیت اختیار کر گئے۔ اکبر کو علماء کی باتوں کی کوئی پرواہ نہیں رہی ۔ ابوالفضل اکبر کے سامنے علماء کا مذاق اڑاتا اور اکبر اس کو سن کر خوش ہوتا ۔ ملا بدایونی کے الفاظ میں : کسی بحث کے درمیان اگر ائمہ مجتہدین کی کوئی بات پیش کی جاتی تو ابوالفضل اس کو نظر انداز کرتے ہوئے کہتا کہ فلاں حلوائی ، فلاں کفش دوز اور فلاں چرم ساز کے قول سے تم میرے اوپر حجت قائم کرنا چاہتے ہو۔(اسباق تاریخ از مولانا عبدالقادر بدایوانی)۔
چنانچہ ابوالفضل اور فیضی جیسے لوگوں کے کہنے پر ہی ایک نئے دین’’دین الٰہی یا دین اکبری‘‘ کوبنایا گیا جس نے ہندوستان میں اسلام کی بنیادوں کو ہلاکررکھ دیا اور پھر علمائے حق جن میں مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی سرفہرست ہیں کی کوششوں سے اس گمراہی کو مٹایا گیا۔
اس واقعے سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ علماء کی آپس کی لڑائیوں،ضد،ہٹ دھرمی نے کتنا بڑا فتنہ کھڑا کیا۔

کھانسی کی اقسام اور علاج

کھانسی کی اقسام

کھانسی کی اقسام، علامات،تشخیص اور آسان علاج۔ حکیم محمد اقبال ماہر قانون مفرد اعضاء۔

اپنڈکس کے مسئلے کا عندیہ دینے والی نشانیاں

اپنڈکس یا ضمیمہ انسانی جسم کا وہ عضو ہے جسے اکثر افراد آپریشن کرکے نکلوا دیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اس کے بغیر بھی ہم ٹھیک ہی رہیں گے۔

ویسے اگر اسے نہ بھی نکلوایا جائے تو اکثر اس میں کسی گڑبڑ کا اندازہ لوگ درد کی شکل میں لگاتے ہیں۔

تاہم بڑی آنت سے جڑا یہ عضو جو کہ معدے کے دائیں جانب نچلے حصے میں ہوتا ہے، کی علامات کچھ ہٹ کر بھی سامنے آسکتی ہیں۔
ویسے تو درد ناف کے قریب سے شروع ہوکر بتدریج اُس جانب پھیلتا ہے جہاں اپنڈکس ہوتا ہے مگر جیسا کہ بتایا جاچکا ہے کہ یہ سب سے عام علامت ہے۔
مگر اس کی کچھ ایسی علامات بھی ہوتی ہیں جن سے لوگ واقف نہیں ہوتے اور ان کو جان لینے سے صرف ادویات سے بھی علاج ممکن ہوجاتا ہے اور سرجری کی ضرورت نہیں رہتی۔
پیٹ میں ایسا درد جس کی وجہ سمجھ نہ آئے
طبی ماہرین کے مطابق معدے میں درد اپنڈکس کی کلاسیک علامات میں سے ایک ہے، اپنڈکس کی نالی چھوٹی آنت سے رابطے میں رہتی ہے اور غذا کو بڑی آنت میں فضلے میں بدلنے میں مدد دیتی ہے۔ جب اپنڈکس کا مسئلہ پیدا ہوتا ہے تو یہ نالی ورم کا شکار ہوجاتی ہے جس سے انتہائی درد محسوس ہوتا ہے کیونکہ ہضم نہ ہونے والے کھانے کے ٹکڑے پھنس جاتے ہیں۔
درد میں وقت کے ساتھ کمی نہ آنا
پیٹ کے مختلف مسائل سے ہٹ کر اپنڈکس کے درد میں کچھ دیر کے بعد کمی کا احساس نہیں ہوتا، یہ مسلسل ہوتا ہے اور اس دوران ایسا لگتا ہے جیسے شکم کو کوئی کھرچ رہا ہو اور وقت کے ساتھ یہ بدتر ہوتا جاتا ہے۔
مخصوص مقام پر درد کا احساس
وقت کے ساتھ اپنڈکس کا درد حرکت کرکے معدے کے نچلے دائیں حصے میں منتقل ہوجاتا ہے، جب اپنڈکس کی نالی تھنگ ہوتی ہے تو وہ شکم کے اندرونی حصے سے ٹکرانے لگتی ہے، جس سے وہ ورم کا شکار ہوکر موٹی جاتی ہے۔
خون کے سفید خلیات کی مقدار بڑھ جانا
اپنڈکس کے مسئلے میں جسم انفیکشن سے لڑنے کے لیے اپنا ردعمل ظاہر کرتا ہے جس کے نتیجے میں خون کے سفید خلیات کی زیادہ مقدار خارج ہوتی ہے، ویسے تو اپنڈکس کے حوالے سے خون کا کوئی مخصوص ٹیسٹ نہیں، تاہم اگر آپ کو شک ہو تو ڈاکٹر سے ایک بلڈٹیسٹ کروائے تاکہ خون کے سفید خلیات کی مقدار معلوم ہوسکے۔
ناف دبانے سے درد ہونا
اپنڈکس کی تشخیص کے لیے طبی ماہرین عام طور پر ناف کے نچلے حصے کو نرمی سے دباتے ہیں، ایسا کرنے پر درد کا احساس ہوتا ہے چاہے ڈاکٹر دباﺅ ختم بھی کردے۔
چلنے پھرنے سے قاصر ہوجانا
جب اپنڈکس کا درد بڑھتا ہے تو یہ اتنا شدید ہوتا ہے کہ متاثرہ فرد بمشکل حرکت کرپاتا ہے، بلکہ حرکت کرنے پر یہ درد مزید بڑھ جاتا ہے، اگر متاثرہ فرد اچھلنے کے قابل ہو تو یہ درد ممکنہ طور پر اپنڈکس کا نہیں ہوگا۔
ادویات سے درد ختم نہ ہونا
کئی بار لوگ اپنڈکس کے درد کو بدہضمی یا کسی اور قسم کا درد سمجھ لیتے ہیں، ایسا عام طور پر اس وقت ہوتا ہے جب درد کی شدت بہت زیادہ نہیں ہوتی، تاہم اس مرحلے پر درد کش ادویات کے استعمال سے بھی کوئی فائدہ نہیں ہوتا بلکہ درد زیادہ بدتر ہوسکتا ہے اور یہ بھی اپنڈکس کی علامت ہوسکتی ہے۔
کھانے کی خواہش ختم ہوجانا
اگر اچانک سے آپ کو بھوک لگنا ختم ہوجائے (چاہے ناشتہ ہو، دوپہر یا رات کا کھانا) تو یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ معدہ کسی گڑبڑ کی جانب نشاندہی کررہا ہے، طبی ماہرین کے مطابق اپنڈکس کے مریضوں میں عام طور پر کھانے کی خواہش ختم ہوجاتی ہے۔
قے آنا
ویسے تو متلی یا قے کی شکایت کئی وجوہات کی بناء پر ہوسکتی ہے تاہم اگر اپنڈکس کے مرض کی علامت ہو تو منہ سے نکلنا والا مواد ہمیشہ جسم میں درد کی لہر بھی دوڑاتا ہے جس پر توجہ دینے کی ضرورت ہوتی ہے۔
قبض یا ہیضہ
غذائی نالی میں انفیکشن یا ورم کے نتیجے میں نظام ہاضمہ متاثر ہوتا ہے جس سے قبض یا ہیضے کا مرض لاحق ہوجاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ اپنڈکس کے شکار اکثر افراد میں یہ دونوں امراض شروع میں سامنے آتے ہیں جنھیں آسانی سے نظرانداز کردیا جاتا ہے، اسی طرح پیٹ پھولنا، گیس یا درد وغیرہ کی شکایت بھی ہوسکتی ہے۔
بخار
بخار عام طور پر یہ بتاتا ہے کہ جسم کو کسی مسئلے کا سامنا ہے، اپنڈکس کے دوران بھی یہ علامت سامنے آتی ہے جو کہتی ہے کہ ہسپتال کا رخ کیا جائے، ماہرین کے مطابق اپنڈکس کے مریضوں میں بخار اس مرض کے آگے بڑھنے کا اشارہ کرتا ہے۔
بے چینی ہونا
معدے کے مسائل سے ہٹ کر اپنڈکس کے شکار افراد میں بے چیی کا احساس عام ہوتا ہے، جیسے میں خود کو بہتر محسوس نہیں کررہا/کررہی وغیرہ، تو اگر ایسی بے چینی ہو اور طبیعت گری گری محسوس ہو تو ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے۔
یہ علامات بہت تیزی سے سامنے آسکتی ہیں
معدے کے دیگر امراض سے ہٹ کر اپنڈکس بہت تیزی سے نمودار ہوتا ہے، طبی ماہرین کے مطابق اپنڈکس کی علامات 24 گھنٹے کے دوران سامنے آسکتی ہیں، ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر آپ کو اچانک شدید درد کا سامنا ہو جو بدتر ہوتا جائے اور ساتھ میں دیگر علامات سامنے آئے تو طبی امداد کے لیے فوری رجوع کرنا چاہئے۔