موسمی الرجی اور اس کا علاج

0
304

موسمی الرجی اور اس کا علاج

دوسری بیماریوں کی مانند الرجی بھی ایک عام بیماری ہے جس کی متعدد اقسام ہوتی ہیں۔ یہ ایک ایسی بیماری ہے جس کے ردِ عمل انسان مختلف بیماریوں کا شکار بن سکتا ہے۔ الرجی کن وجوہات کی بنا پر ہوتی ہے؟ اس کی کتنی اقسام ہیں؟ یا پھراس کا علاج کیا ہے؟ آئیے ان تمام اہم سوالات کی جوابات جا نتے ہیں۔ در حقیقت الرجی معاشرے موجود ہر طرح کے طبقے سے تعلق رکھنے والے فرد میں پائی جاتی ہے، چاہے وہ شہر کا رہائشی ہو، گاؤں کا ہو یا پھر کسی پہاڑی علاقے کا، کوئی ایسی شے ہمارے جسم سے ٹکرا جائے یا جسم میں داخل ہوجائے جسے ہمارا جسم قبول نہ کرے اور اس کا ردِ عمل ظاہر کرے اسے الرجی کہتے ہیں۔ الرجی میں انسان مختلف بیماریوں کا شکار بن سکتا ہے۔

الرجی کی اقسام

الرجی کئی اقسام ہوتی ہیں، ایک عام الرجی ہوتی ہے جو ہمیں مٹی، دھول اور دھوئیں کی وجہ سے ہوتی ہے۔ یہ الرجی پاکستان سمیت کئی ایشیائی ممالک میں عام ہے جبکہ یورپی ممالک اور امریکہ میں ناپید ہے البتہ ان ممالک الرجی کی دیگر اشکال ضرور موجود ہیں۔ہمارے ہاں جو الرجی سب سے زیادہ ہوتی ہے اور ناک کے راستے نظامِ تنفس میں داخل ہوتی ہے وہ مٹی دھول سے ہونے والی الرجی ہے ۔
مٹی دھول وغیرہ میں دیگر اجزاء کے علاوہ ایک خاص کیڑا بھی پایا جاتا ہے جس کا فضلہ مٹی دھول میں شامل ہو کر ہمارے جسم میں داخل ہوجاتا ہے اور الرجی کا سبب بنتا ہے۔ اس کیڑے کو Dust Mite کہا جاتا ہے ۔یہ عام دھول مٹی میں تو زیادہ موجود نہیں ہوتا لیکن وہ دھول مٹی جو گھر کے اندرونی حصوں میں پائی جاتی ہے مثلاً کوئی ایسا کمرہ جو ایک مدت سے نہ کھولا گیا ہے اس میں موجود مٹی میں اس کیڑے کی آبادی میں اضافہ ہوجاتا ہے۔
اسی طرح اگر کوئی پرانی کتاب جھاڑی جائے تو اس سے نکلنے والی مٹی کے اثرات بھی ہم پر آجاتے ہیں۔کئی لوگوں کو ٹریفک کے دھوئیں سے بھی الرجی ہوتی ہے۔ خصوصاً ڈیزل گاڑیوں سے نکلنے والے دھوئیں سے زیادہ الرجی ہوتی ہے کیونکہ اس دھوئیں میں دھول بھی شامل ہوچکی ہوتی ہے ۔اس کے علاوہ ایسے گھر جو صنعتی علاقوں میں وافع ہوتے ہیں تو ان کے آس پاس موجود فیکٹریوں سے نکلنے والا دھواں بھی وہاں کے رہائشیوں کو متاثر کرتا ہے ۔اکثر لوگوں کو فوڈ الرجی بھی ہوتی ہے، اس الرجی میں کھانے کے ذریعے جسم میں کوئی ایسا پروٹین داخل ہوجاتا ہے جسے جسم قبول نہیں کرتا اور اس کا ردِ عمل ظاہر ہونا شروع ہوجاتا ہے۔
مثال کے طور پر کئی لوگوں کو انڈے سے الرجی ہوتی ہے اور ایسا شخص اگر انڈے کا ٹکڑا بھی کھا لے تو اسے الرجی شروع ہوجاتی ہے۔ ردِ عمل کے طور پر ایسے شخص کو دانے نکلنے لگتے ہیں یا پورے جسم میں سوئیاں چھبتی محسوس ہوتی ہے یا پھر ایسی خارش شروع ہوجاتی ہے جو قابو میں نہیں آتی۔کچھ لوگوں کو سونگھنے سے بھی الرجی ہوتی ہے، یہ لوگ جب کوئی خاص پرفیوم لگاتے ہیں تو اس کی خوشبو ناک میں پہنچتے ہی الرجی شروع ہوجاتی ہے۔ اس صورت میں لوگوں سانس رکنا شروع ہوجاتا ہے ۔

پولن الرجی

بہار کے موسم کی شروعات میں بہت سے لوگوں کو چھینکیں کثرت سے آتی ہے ، گلے میں خراش ہوتی ہے ، نزلہ وزکام جکڑ لیتا ہے اور ان سب کے بعد ہونے والا بخار پولن الرجی کہلاتا ہے۔ پولن الرجی کو موسمی بخار یاFever Hey بھی کہا جاتا ہے۔ بہار کے موسم کا یہ بخار تپ کاہی ، یا allergic rhinitisیا پھر ’’ Hay Fever‘‘ کہلاتا ہے۔ انگلش میں Hay کا مطلب گھاس سے ہے۔
پولن انگریزی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی پھول کا ریزہ یا زرِگل بھی لیا جاتا ہے جو چھوٹے چھوٹے ذرات ہوتے ہیں جو پھولوں کے اندر پائے جاتے ہیں۔یہ ذرات پیلے رنگ کے ہوتے ہیں۔یہ پولن کے ذرات نر پودے سے مادہ پودوں تک اڑنے والے کیڑوں اور ہوا کے ذریعے پہنچتے ہیں لیکن بعض پودوں کے ذرات اتنے چھوٹے ہوتے ہیں جو ہوا سے اڑ کر انسانی ناک کے ذریعے سانس لیتے ہوئے داخل ہو جاتے ہیں اور حساس لوگوں میں الرجی کا سبب بن جاتے ہیں۔
موسم بہار کی آمدکے ساتھ مختلف درختوں پر اگتا ہے۔جیسے جیسے پولن والے پھول نکلتے ہیں، ہلکی پھلکی ہوا لگنے کے ساتھ ہی انکا پاؤڈر نما بورہوا کے ذریعے فضا میں پھیل جاتا ہے اور سانس لینے سے پھیپھڑوں میں داخل ہوکرالرجی کا باعث بنتا ہے۔مریض کادم گھٹنے لگتا ہے اور سانس لینے میں دشواری ہوتی ہے۔ یوں تو کئی درخت ایسے ہیں جو پولن الرجی کا باعث بنتے ہیں لیکن جنگلی شہتوت اس بیماری کا بڑاسبب ہے۔ دیگر وہ درخت جن پر بور یا ریزہ والے پھول اگتے ہیں جیسا کہ چیڑ اور بیری کے درخت، بھنگ کے پودے اور ڈنڈلین کے پھول، بھی الرجی کا باعث بن سکتے ہیں۔یہ درخت اور پودے پولن الرجی پیدا کرکے بعض افراد میں ایسی شدید علامات پید ا کر دیتے ہیں جن سے ان کو سانس لینے میں دشواری پیدا ہوسکتی ہے اور وہ کمزور مدافعتی نظام ہونے کی وجہ سے زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں۔یہ کوئی وبائی مرض نہیں کہ ایک شخص سے دوسرے سخض کو ہوجائے اسلام آباد اور دیگر شہروں میں آباد لوگوں میں صرف ایسے لوگ متاثر ہوتے ہیں جن کا مدافعتی نظام کمزور ہو۔
پولن الرجی کا خطرہ صرف موسم بہار (مارچ، اپریل اور مئی) میں ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ آپ کو الرجی کسی گندی یا خراب چیز کو چھونے، ادویات کے غلط استعمال سے،جسم میں موجود کیمیائی تبدیلیوں سے،بے جا کریموں کے استعمال سے بھی الرجی ہو جاتی ہے۔اس سے بچنے کا واحد طریقہ اپنی حفاظت کرنا ہے۔ اگر اس کا وقت پر علاج نہ کیا جائے تو یہ دمہ کی شکل اختیار کر سکتا ہے اور مزید پیچیدگیاں پیدا ہو جاتی ہیں۔

پولن الرجی کی علامات:

پولن الرجی کو عام طور پر تین اقسام میں تقسیم کیا گیا ہے اور ان تینوں اقسام کی الرجی کی علامات بھی مختلف ہوتی ہیں۔ جیسا کہ جسم پر خارج کا ہونا یا نشانات پڑ جانا ، آنکھوں میں خراش ہونا ، آنکھوں سے پانی کا بہنا اور ناک کا بند ہوجانا معمولی نوعیت کی علامات ہیں۔
جسم پر خارش ہونا ، سانس لینے میں مشکل پیش آنا ، چھینکوں کا آنا اور ناک سے پانی کا بہتے رہنا یہ علامات درمیانی نوعیت کی پولن الرجی کی علامات ہیں۔گلے میں سوجن کا ہونا اور درد رہنا خاص طور پر کسی بھی چیز کو نگلنے میں بہت مشکل پیش آنا۔ پیٹ کے امراض جیسے اینٹھن ،متلی و قے اور اسہال کے ساتھ ساتھ ذہنی ابرتی کی حالت ہوجانا۔ پورے کے پورے جسم پر خارش کا ہوجانا اور اس پر سرخ رنگ کے نشانات پڑ جانا سانس لینے میں دقت پیش آنا اور سانس لینے کے دوران آواز پیدا ہونا ، گلے میں شدید سوجن کا ہوجانا اور اسکے ساتھ ہی ہاتھوں ، پاؤں یا پھر ہونٹوں اور سر کا کانپنا یہ سب شدید نوعیت کی پولن الرجی کی علامات ہیں۔

ہمیشہ یاد رکھیں بیماری چاہے کسی بھی نوعیت کی ہی کیوں نہ ہو اسے ہمیشہ سنجیدگی سے لینا چاہیے اور فوری طور پر اس کا علاج کرواناچاہیے۔

پولن الرجی کا علاج اور حفاظتی تدابیر

کسی بھی قسم کی الرجی سے بچنے کا سب سے بہتر طریقہ یہی ہے کہ جس کسی بھی چیز سے الرجی ہورہی ہو اس سے دور رہیں۔ اگر کسی وجہ سے ایسا نہیں ہوسکتا تو مندرجہ ذیل طریقوں پر عمل کرکے اس سے بچا جاسکتا ہے۔

موسم بہار میں چونکہ پولن الرجی حملہ کرتی ہے لہٰذا اس موسم میں اپنے گھروں کی دروزاے ، کھڑکیاں ، اور گاڑیوں کے دروزاوں کو بند رکھیں۔

ہمیشہ گھر سے باہر نکلتے وقت فیس ماسک کا استعمال ضرور کریں۔
جتنا زیادہ ہو سکیں اپنے گھروں کو کارپٹ سے بچائیں اگر ایسا ممکن نہیں ہو خاص طور پر اپنے بیڈ روم میں جہاں آپ سوتے ہیں وہاں کارپٹ یا کوئی دری وغیرہ ہے تو اسے ہٹا دیں۔
ہمیشہ اپنے کمرے کو گردو غبار سے صاف رکھیں اور گرد آلود چیزوں کو ہٹا دیں۔
اس بیماری کے علاج کیلئے فوری طور پر اپنے معالج سے رابطہ کریں اور اس کا علاج کروائیں۔

زر گل الرجی کے لیے اینٹی الرجی یا ویکسین تیار کی جاتی ہے جو کم مقدار میں انسان کے جسم میں داخل کی جاتی ہے اور اس طرح آہستہ آہستہ جسم میں موجود قوتِ مدافعت زر گل الرجی کے مطابق ہوجاتی ہے ۔زر گل الرجی سے بجنے کے لیے درخت کاٹنے کے بجائے اگر شہد کی مکھیاں پالی جائیں تو زیادہ بہتر ہے۔ یہ شہد کی مکھیاں پھول سے جو رس چوس کر شہد بنائی گئی اس سے زر گل کے پارٹیکلز کم ہوجائیں گے اور یہ شہد جب استعمال کیا جائے گا تو بھی زر گل الرجی سے بچا جاسکتا ہے۔ الرجی کے لیے ضروری ہے کہ اینٹی الرجی کا استعمال کیا جائے یا پھر ایسی چیزوں سے دور رہا جائے جن کی وجہ سے ہمیں الرجی ہوتی ہے، یقیناً مٹی دھول وغیرہ سے ہم نہیں بچ سکتے لیکن باقی چیزوں سے مثلاً فوڈ الرجی سے تو ہم خود کو محفوظ بنا سکتے ہیں۔

آج کل نوزائیدہ بچوں میں بھی الرجی پائی جاتی ہے اور اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ ان کا قوت مدافعت کا نظام ابھی مکمل نہیں ہوتا ہے اور اسی وجہ سے یہ بچے مختلف بیماریوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔
اس کے علاوہ ناک کی الرجی کا علاج ضرور کروائیں کیونکہ ہے دمہ کا مؤجب بن سکتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: خون کی کمی دور کرنے والی غذائیں

التماسِ دعا 🤲🏼

👈 ضروری ہدایات
کوئی بھی دوا اپنے ذاتی معالج یا کسی اچھے ہومیوپیتھک ڈاکٹر کے مشورے کے بغیر ہرگز استعمال مت کریں کیونکہ سیلف میڈیکیشن میں فائدہ کی بجائے نقصان کا احتمال زیادہ ہے۔

Leave a Reply