شوہر کو خوش کرنے کی نصیحت

0
700

شوہر کو خوش کرنے کی نصیحت

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہترین عورت کی صفت یہ بیان فرمائی کہ جب شوہر کی اس پرنظر پڑے تو وہ اس کو خوش کر دے ، یہ ایسی خوبی ہے جس کے ذریعہ ایک ایمان دار پرہیز گار عورت خوش حال اور خوش گوار ازدواجی زندگی حاصل کر سکتی ہے اور اپنے شوہر کی محبّ اور محبوب بن سکتی ہے۔
اے میری مسلمان بہن !
عقل مند انسان ، خواہ وہ مرد ہو یا عورت ، یہ تمنا اور خواہش رکھتا ہے کہ اسے اخلاق میں کمال اور برتری حاصل ہو، اسلام آیا ہی اس لیے ہے تاکہ انسان ، روحانی ، عقلی ، جسمانی اور اخلاقی ہر اعتبار سے درجہٴ کمال کو حاصل کرے، بناء بریں آپ کو بھی چاہیے کہ ہر ایسی چیز تلاش کریں جو آپ کے مظہر کی تکمیل کا سبب ہو او ر اس کو حدود خداوندی میں رہتے ہوئے استعمال کریں ، جیسے مہندی لگانا، سرمہ لگانا، سونے چاندی کے زیورات پہننا ، عمدہ لباس زیب تن کرنا وغیرہ، جس کی اللہ تعالیٰ نے اجازت دی ہے۔ بس نیک بیوی وہی ہے جوشوہر کی نظرپڑتے ہی اس کو خوش کردے اور اس کے دِل کو باغ و بہار کر دے۔
غور کیجئے ! مرددنیا کے کام کاج کے لیے گھر سے نکلتا ہے ، اپنے جسم اور ذہن کو تعب اور مشقت میں ڈالتا ہے ، اس سلسلہ میں اس کو طرح طرح کی پریشانیاں اٹھانا پڑتی ہیں اور بے چینی سے منتظر ہوتا ہے کہ کب گھر واپس آکرسُکھ کا سانس لے اور آرام کرے ، پھر وہ ان مشقتوں کو جھیلنے کے بعد گھر آئے اور گھر آکر اپنی بیوی کی طرف سے کوئی خوش کن بات نہ دیکھے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ تعلق زو جیت کے پہلے مرحلہ ہی میں ناکام ہو گئیں۔ اب ذہن میں یہ سوال ابھرتا ہے کہ اس نا کامی کاآخر سبب کیا ہے ؟ حقیقت امر یہ ہے کہ خاوند بسا اوقات کسی پریشانی کا شکار ہوتا ہے ، وہ اپنے قول یا عمل سے کوئی نہ کوئی طریقہ ڈھونڈتا ہے کہ اس پر غضبنا ک ہو، لیکن جب وہ گھر واپس آتا ہے اور اپنی بیو ی کی طرف سے کوئی ایسی بات پاتا ہے جس سے اس کو فرحت وسُروراور شرح صدر(دل کوسکون )حاصل ہو تو وہ بہت جلد اپنی ذہنی پر یشانی اور جسمانی تھکا ن کو بھول جاتاہے۔

یہ بھی پڑھیں:  بیویوں میں عدل کا مطلب  دوسری شادی نہ کرنے کا بہانہ         بیوی کا انتخاب کیسے کریں۔    آٹھ عورتوں سے شادی نہ کریں
معلوم ہو اکہ خاوند کے دِ ل میں بیوی کی محبت کا قوی ترین سبب یہ ہے کہ بیوی خاوند کی نظر پڑتے ہی اس کو خوش کر دے ، محبوب کو اچھی اور عمدہ ہیئت وشکل میں دیکھنا دل میں محبت کے جم جا نے کا قوی سبب ہے ۔ لہٰذا ایک مسلمان عورت کے لائق یہ ہے کہ وہ اس بات کی بھر پوراحتیاط کرے کہ کہیں شوہر کی نظر ایسی چیز پر نہ پڑے جس کو وہ نا پسند کر تا ہو، خواہ وہ نفرت آمیز منظر ہو یا قابلِ کراہت کوئی اور چیز ہو۔ اس سلسلہ میں اسلاف کے عمل سے رہنمائی لینی چاہیے ۔ چنانچہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہا فرماتے ہیں :”میں اپنی بیوی کے لیے اسی طرح آراستہ ہو تا ہوں جس طرح وہ میرے لیے آراستہ ہو تی ہے اور میں یہ پسند نہیں کرتا کہ اپنے تمام حقوق اپنی بیوی سے وصول کروں کیونکہ پھر وہ بھی اس بات کی مستحق ہوگی کہ مجھ سے اپنے تمام حقوق وصول کرے ، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿ولھن مثل الذی علیھن بالمعروف﴾(البقرة ۲۲۸)
”یعنی عورتو ں کے لئے بھی حقو ق ہیں جو کہ مثل ان ہی حقو ق کے ہے جو ان عورتوں پر ہیں قاعدہ (شرعی ) کے موافق۔ “ آپ رضی اللہ عنہ کی مراد ایسی زینت وزیبائش ہے جوگناہ سے خالی ہو ۔ (تعلیق القرطبی فی تفسیر۳۵/ ۸۲)

شوہر بھی اپنی ہیئت کو درست رکھے
مورخین نے ایک واقعہ ذکر کیا ہے کہ ایک مر تبہ حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کی عدالت میں ایک عورت نے اپنے شوہر کے خلاف مقدمہ کر دیا ، جب عدالتِ فاروقی میں وہ اپنے شوہر کے ساتھ حاضر ہو ئی تو شوہر کی ظاہری حالت اچھی نہ تھی ، پراگندہ بال ، غبار آلو د چہرہ ، ہیئت وشکل نفرت آمیز، عورت نے کہا: اے امیر الموٴمنین!میں اس کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی ، میں اس کی بیوی نہیں، یہ میرا شوہر نہیں، حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اُس کی گفتگو سے بھانپ گئے کہ عورت کو اپنے شوہر کی ظاہری شکل و صورت سے کراہت ہے، آپ رضی اللہ عنہ نے اس کے خاوند کو حکم دیا کہ جاوٴ! خو ب صاف ستھر اہو کر اور آراستہ وپیراستہ ہو کرآوٴ ، چنانچہ وہ گیا، اس نے سر کے بال درست کیے ، ناخن تراشے ، اپنی ہیئت وصورت کو اچھا بنایا ، پھر آپ رضی اللہ عنہ کی خد مت میں حاضر ہو گیا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کو اپنی بیوی کے پاس جانے کا حکم دیا، وہ گیا تو عورت نے اس کو اجنبی سمجھا اور اس سے پہلو تہی کرنے لگی ، پھر جب پہچان ہوئی تو اس کو قبول کر لیا اور اپنے دعویٰ سے رجوع کر لیا حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

”تم بھی ان عورتوں کے لیے زینت اختیار کرو، کیونکہ خدا کی قسم! وہ بھی چاہتی ہیں کہ تم ان کی خاطر زیبائش کرو، جس طرح تم چاہتے ہوکہ وہ تمہارے لیے زینت وآرائش اختیار کریں۔“
معلوم ہوا کہ زیب وزینت شوہر اور بیوی دونوں کے لیے ضروری ہے۔
اے میری مسلمان بہن !شوہر کے آنے سے پہلے اپنے کپڑوں کو دیکھ لیا کرو، اپنے آپ سے یہ سوال کیا کرو کہ میرا شوہر جب مجھے اس ہیئت وشکل میں دیکھے گاتو خوش ہو گا؟
اس میں کو ئی شک نہیں کہ ہر عورت اس کا جواب یقینی طور پر جانتی ہے۔ ہر خوبصورت چیز ہر مرد کی فطرت اور سرشت میں رکھی گئی ہے ہاں ! جس کی فطرت ہی بدل چکی ہو اور ہر قبیح چیز کے پیچھے دوڑتاہو، وہ مستثنیٰ ہے۔
جس وقت مرد اپنے گھر میں داخل ہوتا ہے اور اپنی بیوی کو شان دار اور دِل کش صورت میں دیکھتا ہے تو عورت کو اس کی محبت و میلان کا احساس ہو جاتا ہے اور وہ اس کی تھکان کا اندازہ کر لیتی ہے۔بعض عورتیں اس سلسلہ میں گھر کے کام کاج کا عذر کر تی ہیں کہ کھانا پکا نا ہو تا ہے، کپڑے دھونے ہوتے ہیں اور کئی کام سر پر سوار ہو تے ہیں، لہٰذا ہم کیسے اپنے شوہروں کا استقبال کریں اور ان کو خوش آمد ید کہیں؟
ایسی عورتوں کو چاہیے کہ اپنے تمام کام شوہر کے آنے سے پہلے نمٹادیا کریں ، اگر چہ اس کے لیے مشقت اٹھانا پڑے ، کیونکہ اس کا جو ثمر ہ حاصل ہو تا ہے وہ اس مشقت سے عظیم تر ہے، اس میں قیاس آرائی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
لیکن جب وہ گھر میں پہنچ کر ایسی کوئی بات ، جس سے اس کا دِل شادو آباد ہو، نہیں پاتا تو بڑی تیزی سے پریشان کن شیطانی وساوس اور خیالات اس کو گھیر لیتے ہیں، فوراً اس کی نگاہ دوسری آوارہ عورتوں کی طرف اٹھنے لگتی ہے اور ان میں حسن و جمال کو تلاش کرتی ہے، اور بیوی اس کی نظر میں اچھی نہیں رہتی ۔
یہ مسکراہٹ بڑی عجیب چیز ہے
اے میری مسلمان بہن!
تیرے لبوں پر مسکراہٹ ہمیشہ کھیلتی رہے ، جب بھی تیرا شوہر تجھے دیکھے تو مسکرا رہی ہو۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مسکراہٹ کی یاد مرد کے ذہن میں ہمیشہ باقی رہتی ہے۔ یہ مسکراہٹ ایسی عجیب چیز ہے کہ بسا اوقات سارے گھر میں سعادت وخوشیوں کے پھول بکھیر دیتی ہے، یہ ایسی خوبصورت چیز ہے کہ سارے دن کی تھکان اور مشقت کے بعد مرد اسے اپنی بیوی میں دیکھناچاہتا ہے۔
اے میری مسلمان بہن!
یاد رکھیے ! چہرے کے اچھے یا بُرے آثار ونقوش کو لباس اور زیورات سے بھی زیادہ اہمیت حاصل ہے، خاوند جب اپنی بیوی کے چہرے پر خوشی کے آثار دیکھتا ہے تو زبان سے زیادہ اس کا گہرا اثر پڑتا ہے، اس کے ذہن میں فوراً یہ خیا ل آتاہے کہ اس کی بیوی اس پُر خلوص مسکراہٹ کے ذریعہ مجھے کہتی ہے کہ میں آپ کے آنے پر بے حد خوشی محسوس کر رہی ہوں ، آپ کے دیدار سے مجھے مسرت و فرحت حاصل ہو رہی ہے، بلکہ عین ممکن ہے کہ یہ اظہارِ تبسم آخرت میں بھی نیکی کا ذریعہ بنے، اس لیے کہ تبسم (مسکرانا ) کو بھی صدقات میں شمار کیا گیا ہے جس کا ثواب تمہارے نامہٴ اعمال میں لکھا جائے گا۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فر مان عالی شان غور سے سنو!آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
تبسمک فی وجہ اخیک لک صدقة
” یعنی آپ کا اپنے بھائی کے سامنے مسکرانا بھی آپ کے لیے صدقہ ہے.البخاری :۱۲۸
حکماء نے بھی یہی لکھا ہے کہ عورت اِسی پُر خلوص اور صاف ستھری اور سچی مسکراہٹ کے ذریعہ ہر دل عزیز بن سکتی ہے۔
حضرت عروة بن الز بیر رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
”مجھے معلوم ہوا ہے کہ حکمت کی باتو ں میں سے یہ بھی مرقوم ہے“ کہ ”اے میرے بیٹے! ہر ایک کے ساتھ خندہ پیشانی سے پیش آوٴ اور لوگوں سے اچھی باتیں کرو، لوگوں کی نظر میں سب سے زیادہ محبوب ہو جاوٴ گے اور یہ اس سے بہتر ہے کہ تم ان کو کوئی عطیہ و ہدیہ دو۔“
حبیب بن ابی ثابت رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”آدمی کے حُسن ِ اخلاق میں سے ہے کہ وہ اپنے صاحب سے مسکراتا ہوا بات کر ے۔“
اے میری مسلمان بہن !
تیری زندگی بشاشت سے معمور ہو، تیری خندہ روئی تیرے خاوند کے دِل کو مسرور کر دے اور گھر کے اندر فرحت و سُرور کا سامان پید ا کر دے۔
خوب جان لے کہ اس ابتسام اور بشاشت کا سب سے زیادہ حق دار تیر ا شو ہر ہے۔

مضامین کی فہرست پر واپس جائیں

Leave a Reply