Sunday, April 28, 2024
Home Blog Page 100

جدہ ایئرپورٹ پر کیا کیا لطیفے ہوتے ہیں

انسانوں کی جنریشن ایکس

0

انسانوں کی جنریشن ایکس

(سیدعبدالوہاب شیرازی)

آپ نے ٹیکنالوجی کی چیزوں مثلا لیپ ٹاپ موبائل وغیرہ میں جنریشن کا لفظ استعمال ہوتے دیکھا ہوگا۔ جیسے آئی تھری فورتھ جنریشن۔ آئی سیون نائن جنریشن وغیرہ۔ بالکل اسی طرح انسانوں کی تقسیم بھی مختلف جنریشن میں کی جاتی ہے۔ چنانچہ جو  لوگ انیس سو اکسٹھ(1961) سے انیس سو اکیاسی(1981) کے درمیان پیدا ہوئے  ہیں انھیں جنریشن ایکس کہا جاتا ہے،کہتے ہیں کہ دنیا میں سب سے بڑی اور سب سے زیادہ تبدیلیاں جنریشن ایکس نے ہی دیکھی ہیں ، کیونکہ جنریش ایکس کے دور میں زمانے اتنا زیادہ اور اتنی تیزی سے بدلا ہے کہ پچھلے زمانے کا کوئی انسان آج آجائے تو چکرا کر رہ جائے گا۔ جنریش ایکس اس انسانی تاریخ کی سب سے بڑی تبدیلی اور سائنس کی ترقی کے عین موقع پر پیدا ہونے والے لوگوں کو کہا جاتا ہے۔ جنہوں نے ان چیزوں کو بھی دیکھا جو صدیوں سے انسانوں کے زیر استعمال تھیں اور ان کو بھی دیکھا جو اچانک سے ایجاد ہوئیں اور چھا گئیں۔

مہمان کے آنے پر مرغی کو بھگا بھگا کر پکڑنے سے لے کر فارمی مرغی کے پھٹے پر ٹھک ٹھکا ٹھک تک۔سارا دور اس جنریشن نے دیکھا۔

Nukta Colum 003 1

پردہ سکرین سے لے کر ہولوگرام اور وی آر ٹیکنالوجی تک۔ ٹانگے سے لے کر میٹرو ٹرین تک۔ تجوریوں سے لے کر ماسٹر کارڈ تک۔تار مارنے ، فیکس کرنے سے لے کر ایس ایم ایس اور وٹس اپ تک۔ پرانے ریکارڈر سے یوایس بی سٹک تک۔بلیک اینڈ وائٹ ٹی وی سے لے کر سمارٹ ایل سی ڈی تک۔ڈائل گھمانے والے فون سے لے کر ٹچ سکرین اور وائس ڈائل سمارٹ فونز تک۔پتنگ اڑانے سے ڈرون اڑانے تک۔ صدیق دی ہٹی سےلے کر ایمازون اور دراز پی کے تک۔پیتل کی تار سے لے کر وائی فائی تک۔ چور پکڑنے والے کتوں سے لے کر سی سی ٹی وی کیمروں تک۔عشاء کے بعد دادی جان کی کہانیوں سے لے کر فیس بک اور سوشل میڈیا میں گم ہونے تک۔ ڈسپرین کے فضائل سے لے کر ڈسپرین کے نقصاندہ قرار دیے جانے تک۔سڑک کنارے لگی مداری دیکھنے سے لے کر  سوشل میڈیا کی لائیو سٹریم تک۔ سپیرے کی پٹاری میں چھپے عجیب سانپ کو دیکھنے کی جستجو سے لے کر یوٹیوب پر جدید چیزوں کی اَن باکسنگ دیکھنے تک۔دلہن کی ڈولی سے لے کرپھولوں سے سجی  لیموزین کارتک۔ شکر ، دیسی گھی  ملے سفید چاولوں کے ولیمے سے لے کر میرج ہال کی بے شمار ڈشوں تک۔کلینڈر سے لے کر ٹکٹنگ آفیسر تک۔ پھیری والے بابوں سے لے کرایم بی اے کیے ہوئے  مارکیٹنگ کے بابووں تک۔ہاتھ والے پنکھوں سے لے کر سولر اے سی تک۔ لالٹین اور دیے جلانے سے ایل ای ڈی تک۔جندر سے لے کر فلور مل تک۔ سحری و افطاری کے وقت ڈاکٹر اسرار احمد کے دروس قرآن سے لے عامر لیاقت کی فنکاریوں تک۔ صدرپاکستان ایوب خان کے امریکا میں تاریخی استقبال سے لے کر وزرائے اعظم کے جوتے اتارنے تک۔ علاقے کی پنچائیتوں اور جرگوں  سے لے کر سپریم کورٹ کے از خود نوٹس تک۔سدھائے ہوئے کتےاور بندروں  سے لے کر آرٹیفیشل انٹیلی جنس(اے آئی ٹیکنالوجی) تک،اپنے سینوں میں عروج و زوال ، تغیر و تبدیلی کی ہزاروں داستانیں چھپائے ہوئے ہیں۔

 انسانوں کی یہ جنریشن بڑی قیمتی ہے،کبھی جنریشن ایکس سے تعلق رکھنے والے کسی انسان کے پاس بیٹھ کر ماضی کی یادیں ، حالات کی تبدیلیاں اور وقت کے تغیرات کریدنا شروع کریں، مجھے یقین ہے کہ آپ کو بہت کچھ سننے کو ملے گا۔بعض ممالک میں  ان کے پاسپورٹ پہ بھی باقاعدہ ایکس جنریشن درج ہوتا ہے۔جنریش ایک 1961 سے 1981 کے دورا ن پیدا ہونے والوں کو جبکہ جنریشن وائی 1982 سے 1995 تک پیدا ہونے والوں کو۔ اور جنریشن زیڈ 1995 سے 2012 کے دوران پیدا ہونے والوں کو کہا جاتا ہے۔ جنریشن ایکس چونکہ پچھلے اور اگلے یعنی پرانے اور جدید دور اور ان کی چیزوں کو دیکھ چکی ہے اس لیے اگلے پندرہ بیس سال بعد جب دنیا مکمل طور پر تبدیل ہو جائے گی، اور یہ جنریشن دادا ابو اور دادی جان کی سیٹ پر بیٹھ جائے گی، تب پوتے پوتیاں اور نئی نسل کے نوجوان ان کی پرانی اور اپنے بچپن کے زمانے کے حالات، کہانیوں اور روز مرہ کی زندگی کی چیزوں کے بارے سن کر حیرت زدہ بھی ہوں گے اور شاید یقین بھی نہ آئے۔

عمران خان کی ریاست مدینہ

ریاست مدینہ

(سید عبدالوہاب شیرازی)

دعوے

وزیر اعظم جناب عمران خان صاحب نے الیکشن سے قبل بھی اور خاص طور پر الیکشن جیتنے کے بعد کئی بار پاکستان کو ”ریاست مدینہ“ بنانے کے عزم کا اظہار کیا۔ اور ریاست مدینہ کے کچھ کارناموں کا ذکر بھی کیا۔ لیکن ایک عام پاکستانی شہری بالخصوص ایک عام مسلمان کے ذہن میں یہ سوال ابھرتا ہے کہ ریاست مدینہ کیا ہے۔ اتنی بات تو ہر مسلمان جانتا ہے کہ ریاست مدینہ سے مراد حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی قائم کردہ وہ حکومت تھی جو مدینہ میں قائم ہوئی اور پھر پھیلتی چلی گئی۔ جسے خلافت راشدہ بھی کہا جاتا ہے۔ لیکن اس ریاست مدینہ میں کیا کیا خوبیاں تھیں اسے بہت کم لوگ جانتے ہیں۔ اس لیے پاکستانی عوام کو یہ بتانا اور ایجوکیٹ کرنا نہایت ضروری ہے کہ ریاست مدینہ کیا تھی اور اس ریاست نے اس معاشرے میں کیا کیا اصلاحات کیں اور ان کے کیا اثرات اور نتائج مرتب ہوئے۔

آپ اکثر سیرت کے جلسوں میں قران پاک کی یہ آیت کریمہ سنتے ہوں گے:

Nukta Colum 003 3

لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوة حسنة(سورہ احزاب)

تمہارے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں نمونہ ہے۔ جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی تمام انسانوں کے لیے نمونہ ہے، بالکل اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ریاست تمام دنیا کی ریاستوں کے لیے نمونہ ہے۔

انسانی زندگی کے چھ گوشے

اس بات کو سمجھنے کے لیے پہلے ہمیں یہ بات سمجھنی چاہیے کہ انسانی زندگی کے چھ گوشے ہیں۔ یعنی ہر انسان کا اپنی زندگی میں ان چھ گوشوں کے ساتھ کسی نہ کسی طرح تعلق ضرور رہتا ہے، اور یہی چھ گوشے مل کر ایک مکمل انسانی زندگی کا نمونہ دکھاتے ہیں۔ ۱۔عقائد، ۲۔عبادات، ۳۔رسومات، ۴معاشرت، ۵۔معیشت، ۶۔سیاست۔

دنیا کا ہر انسان کسی نہ کسی حد تک اپنی زندگی میں ان چھ گوشوں کے ساتھ زندگی گزار رہا ہوتا ہے۔ ہر آدمی کا کوئی نہ کوئی عقیدہ ہوتا ہے، قطع نظر اس کے کہ وہ صحیح ہے یا غلط۔ ہر آدمی کی زندگی میں کوئی نہ کوئی طریقہ عبودیت ہوتا ہے۔ ہر آدمی کچھ نہ کچھ رسومات رکھتا ہے۔ ہرآدمی اجتماعی زندگی میں معاشرے کا حصہ ہوتا ہے اور اس کا کسی نہ کسی طور پر معیشت اور سیاست کے ساتھ بھی تعلق واسطہ ہوتا ہے۔

ریاست مدینہ کی یہی واحد خوبی تھی کہ اس نے انسانی زندگی کے ان چھ گوشوں میں ایسی ایسی اصلاحات کیں کہ نہ اس سے پہلے کوئی کرسکا اور نہ اس کے بعد۔

            1۔عقائد

حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب نبوت ملی تو آپ نے سب سے پہلا کام لوگوں کے عقائد ونظریات کی درستگی کا کیا، اور عرب کے اس جاہل معاشرے میں نظریہ توحید کی داغ بیل ڈالی۔ عرب کے اس معاشرے میں لوگوں کے مختلف عقائد تھے۔ کوئی ایک خدا مانتا تھا تو کوئی تین، کوئی لاکھوں خدا مانتا تھا تو کوئی بالکل بھی نہیں۔لوگ اپنا خدا اپنے ہاتھوں سے بناتے اور پھر اس کے سامنے جھک جاتے۔ درباروں، مندروں اور آستانوں پر چڑھاوے دیے جاتے جس سے ان کو ہر گناہ کرنے کی آزادی مل جاتی۔ لیکن ریاست مدینہ کے بانی نے سب سے پہلے عقیدہ کا نعرہ مستانہ بلند کیا ۔ کیونکہ عقیدہ ہی وہ پہلا پتھر ہے جو درست ہو جائے تو زندگی کا دھارا بدل جاتا ہے۔ ایک شخص نہ کسی خدا کو مانتا ہو اور نہ کسی حساب کتاب کو ، تو پھر وہ اپنے پیٹ کا پُتر ہوتا ہے، اس کی ساری تگ و دو، ہر محنت کوشش، کامحور اپنا پیٹ، اپنے بچے، اور اپنا گھر ہوتا ہے۔نہ اسے حلال و حرام کی تمیز ہوگی اور نہ صحیح اور غلط کی۔ لیکن اگر اس کا عقیدہ بدل دیا جائے، تو صرف عقیدے کے بدلنے سے اس کی زندگی میں اتنی بڑی تبدیلی آجائے گی کہ وہ کوئی بھی کام کرنے سے پہلے سوچے گا کہ آیا یہ درست ہے یا غلط۔ حرام ہے یا حلال۔نہ اس کی نگرانی کی ضرورت ہوگی اور نہ ڈنڈے کی۔ لہٰذا آج بھی اگر کوئی ریاست مدینہ بنانا چاہتا ہے تو اسے ریاست کے باسیوں کے عقائد اور نظریات کو درست کرنے کی فکر کرنی ہوگی، اور لوگوں کو ایک اللہ کا بندہ اور آخرت میں حساب کتاب اور جوابدہ ہونے کا احساس دلانا ہوگا۔

            2۔عبادات

آپ حضرات میں سے جس جس نے وزیر اعظم عمران خان کی تقریب حلف برداری دیکھی ہے تو انہیں یاد ہوگا کہ اس تقریب کے آغاز میں جو تلاوت ہوئی تھی اس میں سورہ حج کی آیت نمبر 41 پڑھی گئی تھی۔

الذین ان مکنٰھم فی الارض اقاموا الصلوة واٰتوا الزکوة وامروا بالمعروف ونھوا عن المنکر۔ وللہ عاقبة الامور (حج)

اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کا یہ وصف بیان کیا ہے کہ اگر ہم انہیں حکمرانی عطاءکریں تو یہ پوری پابندی سے نماز قائم کریں، زکوة دیں اور نیکیوں کا حکم کریں اور برائیوں سے منع کریں۔ اس ایک آیت کریمہ میں حکمرانی کرنے کا پورا طریقہ بتا دیا گیا ہے۔

 ریاست مدینہ

چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ ریاست مدینہ میں سب سے پہلا کام یہی کیا گیا۔ ریاست کا آغاز ہی مسجد نبوی کی تعمیر سے ہوا۔ جس سے پتا چلتا ہے کہ ریاست مدینہ کی پہلی ترجیح مساجد کی تعمیر تھی، نہ کہ مساجد ڈھانا۔ پھر صرف تعمیر پر اکتفاءنہیں کیا گیا بلکہ مسجد کو اس کا حقیقی مقام بھی دیا گیا۔ امور مملکت کے اہم فیصلے مسجد میں ہوا کرتے تھے، ریاست مدینہ کی مقننہ مسجد میں ہی تھی۔ ریاست مدینہ کا جی ایچ کیو بھی مسجد تھا، ریاست مدینہ کی سپریم کورٹ بھی مسجد میں ہی تھی۔ الغرض ریاست مدینہ کے تمام امور مسجد میں طے ہوتے تھے، ریاست مدینہ کے لشکر فوجی ہوں یا سفارتی سب مسجد سے روانہ ہوتے تھے۔اور خاص طور پر خارجہ امور اور باقی ممالک کے سفارتی وفود سے مذاکرات اور ملاقاتیں مسجد میں ہوتی تھیں۔ریاست مدینہ نے اپنی نیشنل یونیورسٹی کا درجہ بھی مسجد کو ہی دیا ہوا تھا۔

سورہ حج کی آیت کریمہ کی روشنی میں ریاست مدینہ میں نظام صلوة اور نظام زکوة اس نہج پر قائم کیا ہوا تھا کہ کسی کو اس بات کی جرات و ہمت نہیں ہوتی تھی کہ وہ نماز یا زکوة چھوڑ سکے۔ چنانچہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں۔ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں کوئی اس بات کی ہمت نہیں کرسکتا تھا کہ وہ نماز اپنے گھر میں پڑھے تمام لوگ جماعت کے ساتھ نماز پڑھتے تھے۔ جو بیمار ہوتا تھا اسے بھی دو آدمیوں کے سہارے لاکر مسجد کی صف میں بٹھا دیا جاتا تھا۔ ہم تو یہ دیکھتے تھے جو کھلم کھلا منافق ہوتا تھا اس کی کبھی کبھی(نوٹ کریں کبھی کبھی) جماعت کی نماز چھوٹ جاتی تھی ورنہ کسی عام منافق کو بھی جماعت چھوڑنے کی جرات نہیں ہوتی تھی۔ دوسری طرف ایک غلط فہمی کی وجہ سے ایک قبیلے کے بارے پتا چلا کہ انہوں نے زکوة دینے سے انکار کردیا ہے تو اس کے خلاف لشکر کشی کی تیاری شروع ہوچکی تھی۔ جبکہ صدیق اکبررضی اللہ عنہ کے دور میں ریاست مدینہ نے مانعین زکوة کے بارے جو پالیسی اختیار کی وہ سب کے سامنے ہے۔

            3۔رسومات

قرآن حکیم کی سورہ اعراف میں اللہ تعالیٰ نے ریاست مدینہ کے بانی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ وصف بیان کیا ہے:

ویضع عنھم اصرہم والاغلال اللتی کانت علیہم (اعراف157)

اور ان پر سے وہ بوجھ اتارتا ہے جو ان پر لدے ہوئے تھے اور وہ بندشیں کھولتا ہے جن میں وہ جکڑے ہوئے تھے۔

عرب کے اس معاشرے میں جو جاہلیت کے بوجھوں تلے دبا ہوا تھا اور طرح طرح کی خود ساختہ بندشوں میں جکڑا ہوا تھا، ریاست مدینہ نے ان تمام بوجھوں کو اتارا، اور تمام بندشوں کو کھول کر لوگوں کو آزاد کیا۔ طرح طرح کی من گھڑت رسومات اور رواج ، جن کے نہ سر تھے ، نہ پاوںریاست مدینہ نے سب کو ختم کرکے لوگوں کے بوجھ ہلکے کیے۔لوگوں کو بتایا کیا حلال ہے اور کیا حرام ہے۔ کیا صحیح ہے اور کیا غلط ہے۔ ان غلط رسومات کے خاتمے کے ساتھ ساتھ اصل اور صحیح رسومات کا اجرا بھی کیا۔ رسومات خوشی کے مواقع کی ہوں یا غمی کے مواقع کیں، ان کا صحیح طریقہ بتایا، اور بدعات و خرافات کا مکمل صفایا کیا۔ لہٰذا آج بھی اگر کوئی ریاست مدینہ کی طرز پر ریاست بنانا چاہے تو اسے لوگوں کو ان بوجھوں سے ہلکا اور ان بندشوں سے آزاد کرنا ہوگا جن میں لوگ جکڑے جا چکے ہیں اور نکلنے کی کوئی راہ نہیں پاتے۔جہیز، مہندی، اور لڑکی کے گھر کھانے کی رسومات وہ ناسور ہیں جنہوں نے ہمارے معاشرے کو تباہ کرکے رکھ دیا ہے۔ اسی طرح فوتگی اور اس کے بعد کی رسومات کا معاملہ ہے، کہ مرنے والے کا تیجہ،قل اور خیرات ہوجائے تو وہ بخشا بخشایا ہو جاتا ہے۔ گویا شادی کی رسومات نے لوگوں کی دنیا اور فوتگی کی رسومات نے لوگوں کی آخرت خراب کرکے رکھ دی ہے۔

            4۔معاشرت

ریاست مدینہ نے اپنے معاشرے کو جدید خطوط پر استوار کیا، اور جاہلیت کا وہ سارا گند صاف کیا جس نے عرب معاشرے کو لبیڑا ہوا تھا۔ ریاست مدینہ نے عدل و قسط پر مبنی معاشرہ کھڑا کیا۔ جس میں قانونی مساوات کو رائج کیا۔ قانون سب کے لیے ایک تھا، امیر غریب کا کوئی فرق نہیں تھا۔ ایک فاطمہ نامی عورت جب چوری کے جرم میں گرفتار ہوئی اور اس کے ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا گیا تو اس کے قبیلے والے ہر قسم کی سفارشیں، رشوتیں دینے کے لیے تیار ہو گئے کہ کسی طرح اس عورت کو قانون کے ہاتھوں سے چھڑا دیا جائے۔ لیکن حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر میری بیٹی فاطمہ بھی ہوتی تو میں اس کے ہاتھ بھی کاٹ دیتا۔حضرت علی رضی اللہ عنہ عدالت کے طلب کرنے پر عدالت میں پیش ہوئے اور حضرت عمررضی اللہ عنہ نے مصر کے گورنر کے بیٹے کو سرعام کوڑے مارے اور یہ ثابت کیا کہ ریاست مدینہ میں قانون سب کے لیے برابر ہے۔ معاشرے کی تعمیر و ترقی کے لیے یہ بات نہایت ضروری ہے کہ قانون کی بالادستی ہو اور قانون میں امیر غریب، چھوٹے بڑے طبقے کا فرق مٹا دیا جائے۔

ریاست مدینہ نے معاشرے کی سطح پر دوسرا بڑا کارنامہ فحاشی اور عریانی کو مٹانے کے حوالے سے کیا۔ اور لوگوں میں پردے کا نظام رائج کیا۔ محرم اور غیر محرم کا فرق لوگوں کے ذہن میں بٹھایا۔

ریاست مدینہ نے معاشرے کی سطح پر تیسرا بڑا کارنامہ خواتین کے حقوق بالخصوص شادی میں زبردستی، وراثت میں محروم رکھنا، یتیم کا مال ہڑپ کرنا۔ اور عورتوں کے حق ملکیت کو ثابت کرنے کے حوالے سے سرانجام دیا۔ اور لوگوں کو بتایا عورت مال نہیں انسان ہے، اور حق ملکیت بھی رکھتی ہے۔ کوئی کسی عورت سے زبردستی شادی نہیں کرسکتا۔کوئی عورت کے حق وراثت کو دبا نہیں سکتا۔ مردعورت دونوں کے حقوق برابر ہیں ، البتہ دائرہ کار علیحدہ علیحدہ ہے۔

            5۔ معیشت

ایک وقت وہ تھا جب لوگوں نے بھوک کی شدت کم کرنے کے لئے پیٹ پر پتھر باندھے ہوتے تھے، اور پھر چند سال بعد ایسا دور بھی آیا کہ ریاست مدینہ میں زکوة دینے والے تو تھے لیکن زکوة لینے والا کوئی نہیں ملتا تھا۔یہ سب کچھ ریاست مدینہ کی ان شاندار پالیسیوں کے نتیجے میں ممکن ہوا جو اس ریاست نے اختیار کیں۔ ان میں سب اہم چیز سود پر مکمل پابندی تھی، جس کی وجہ سے غریب کو سر اٹھانے کا موقع ملا اور امیر کے منہ میں لگام ڈال دی گئی۔یہی وہ بنیادی پتھر تھا جسے اٹھاتے ساتھ ہی ریاست کی معیشت ترقی کرنا شروع ہوئی۔ ریاست مدینہ نے ارتکاز دولت پر بھی پابندی لگا دی۔ اور ایسی ایسی پالیسیاں جاری کیں کہ دولت چند ہاتھوں تک سمٹ کر نہ رہ جائے بلکہ دولت ہر وقت حرکت میں رہے۔اس مقصد کے حصول کے لیے سود حرام اور زکوة فرض قرار دی گئی۔یعنی ناجائز طریقے سے کوئی دولت اکھٹی نہیں کرسکتا، اور جائز طریقے سے اکھٹی کی گئی دولت بھی ایک حد کے بعد ایک خاص مقدار زکوة کی صورت لٹا دی جائے گی۔

اس کے علاوہ ریاست مدینہ امیروں پر زکوة تو فرض کی لیکن غریبوں پر کسی قسم کا کوئی ٹیکس نہیں لگایا۔ آج ریاست پاکستان امیروں کو تو طرح طرح کی چھوٹ دیتی ہے، لیکن غریب سے ایک سوئی سے لےکر کھانے پینے کی بنیادی چیزوں یہاں تک کہ بچے کی تعلیم کے لیے خریدے گئے بال پن اور بستر مرگ پر لیٹے بیمار کی گولی تک ہر چیز پر ٹیکس وصول کرتی ہے۔کئی چیزیں تو ایسی ہیں کہ جتنی ان کی اصل قیمت ہے اس کے قریب قریب ہی اس پر ٹیکس لگادیا گیا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ کوئی بھی دل جمعی، خلوص،اور محنت سے کام نہیں کرتا بلکہ لوٹ مار،دھوکہ، فراڈ، اور غلط ذرائع سے دولت جمع کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

ریاست مدینہ شہریوں کو لوٹنے کے بجائے ان کی کفالت کرتی تھی۔ ریاست مدینہ شہریوں کی خوراک، صحت اور تعلیم کا خاص خیال رکھتی تھی۔ اس کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ ریاست مدینہ نے ریاست کے خلاف لڑنے والے سزائے موت کے مستحق دہشت گردوں کو صرف اس شرط پر رہا کردیا تھا کہ آپ ہمارے بچوں کو لکھنا پڑھنا سکھا دیں۔ چنانچہ ایسے دہشت گردوں کو شرط پوری کرنے پر ریاست مدینہ نے بطور صلہ تختہ دار سے رہائی بھی دی۔ریاست مدینہ نے اپنی نیشنل یونیورسٹی میں پڑھنے والے طالبعلموں سے کبھی فیس نہیں لی، بلکہ لوگوں کو ترغیب کے ان کے ساتھ بڑھ چڑھ کر تعاون کیا جائے۔صحت کے میدان میں ریاست مدینہ بچے جننے والی ماوں کواس درد و الم کی گھڑی میں لوٹتی نہیں بلکہ اس نے پیدا ہونے والے بچوں کے وظائف جاری کیے۔

            6۔سیاست

ریاست مدینہ کی سیاست کے دو بنیادی نکتے تھے۔ ایک یہ کہ مقتدر اعلیٰ اورحاکمیت اعلیٰ اللہ تعالیٰ کی ذات بابرکات ہے۔ دوم یہ کہ دعوت حق کا فروغ کیا جانا چاہیے۔ چنانچہ ریاست مدینہ کی ساری سیاست اسی نکتے کے گرد گھومتی تھی۔ کوئی لشکر روانہ کرنا ہو یا مذاکرات، خارجہ پالیسی ہو یا عسکری پالیسی انہیں دو نکتوں کو مدنظر رکھ کر بنائی جاتی تھی۔ چنانچہ ایک وقت وہ تھا کہ ریاست مدینہ کے بانی صلی اللہ علیہ وسلم کو غار میں پناہ لینا پڑی، اپنا گھر بار چھوڑنا پڑا، لیکن چند سال بعد وہ وقت آیا کہ آپ نے اس وقت کی سپر پاور طاقتوں روم و ایران کے بادشاہوں کو اسلام میں داخل ہونے کے خطوط لکھے اور دعوت حق کے فروغ کو عرب سے نکل کر عجم میں پھیلانا شروع کردیا۔

یہ تھی وہ ریاست مدینہ جس کے نام کو استعمال کرکے الیکشن کمپئین بھی چلی اور اب اسی نام پر حکومت بھی چل رہی ہے۔ ہم عمران خان کے خلوص میں شک تو نہیں کرتے کہ دل چیر کر دیکھا نہیں جا سکتا، لیکن امید اور دعا ضرور کرتے ہیں کہ انہوں نے اگر سچا ارادہ کیا ہے تو اللہ انہیں بھی اور ہم سب کو ریاست مدینہ کی طرز پر پاکستان کی ریاست کو ڈھالنے کی توفیق عطاءفرمائے۔ آمین ثم آمین

فرد اور اجتماعیت

فرد اور اجتماعیت

(سیدعبدالوہاب شیرازی)
پہلی بات:
*۔۔۔زمین اپنے محور کے گرد گھومتی ہے،(یعنی اپنا کام کررہی ہے) زمین اپنی اس گردش کے دوران سورج کے گرد بھی گھومتی ہے۔
*۔۔۔زمین اپنی اس انفرادی حیثیت کے ساتھ ساتھ ایک اجتماعی نظام ’’نظام شمسی‘‘ کا بھی حصہ ہے۔ اور وہ پورا نظام شمسی بھی (اپنے سیاروں اور چاندوں سمیت)رواں دواں ہے، پھر وہ بھی اپنے سے بڑی ایک اور اجتماعیت ’’کہکشاں ‘‘ کا حصہ ہے۔پھر یہ کہکشائیں بھی اپنے سے بڑی ایک اور اجتماعیت ’’گلیکسی‘‘ کا حصہ ہیں۔الغرض ہر کرہ حرکت میں بھی ہے اور کسی اجتماعیت کا حصہ بھی ہے۔
اسی طرح دنیا کی ہر چیز اپنی انفرادی حیثیت کے ساتھ ساتھ کسی اجتماعیت کا حصہ بھی ہے۔ چاہے وہ درخت ہوں یا پھل پھول پودے۔ درند، چرند، پرند ہوں یا خشکی تری کے جاندار وغیرہ۔ ہر کوئی کسی نا کسی اجتماعیت کا حصہ ہے۔اس سے معلوم ہوا کائنات کا مزاج اجتماعیت والا ہے۔
Nukta Colum 003 5
دوسری بات:
قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:
یاایہاالذین آمنوا اتقواللہ وکونوا مع الصادقین۔
اے ایمان والو اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور سچوں کے ساتھ جڑ جاو۔ اس آیت کریمہ میں دو باتوں کا حکم ہے:
۱۔ انفرادی سطح پر تقویٰ اور خدا خوفی پیدا کرو۔ ۲۔ اس کے ساتھ ساتھ سچے اور نیک لوگوں کے ساتھ جڑ جاو۔
یعنی اپنی ذات میں تقوے والی زندگی (جس میں فرائض، واجبات اور اللہ رسول کی اطاعت ۔ اور حرام اور نافرمانی سے بچتے ہوئے)گزارو۔
لیکن بات یہیں ختم نہیں ہوتی بلکہ اس کے ساتھ ساتھ سچے اور نیک لوگوں کے ساتھ جڑنا بھی شروع کرو، اکیلے نہ رہو۔

تیسری بات:
آخرت کا منظر اور سین: قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:
وکلہم آتیہ یوم القیامۃ فردا۔
اور وہ سب کے سب قیامت والے دن اکیلے اکیلے آئیں گے۔
یعنی قیامت والے دن اللہ کے حضور پیشی انفرادی ہوگی، ایک ایک فرد کو اکیلے اللہ کے سامنے کھڑے ہوکر حساب کتاب دینا ہوگا، وہاں پیشی قوموں، قبیلوں، جماعتوں کی شکل میں نہیں ہوگی، کوئی کسی کی مدد نہیں کرسکے گا ۔وہاں اپنے ہی اعمال کام آئیں گے، کوئی دوسرا کسی کے کام نہیں آئے گا، نہ اپنی ذمہ داری کسی دوسرے پر ڈالی جاسکے گی۔یہاں تک کہ شیطان پر بھی ذمہ داری نہیں ڈالی جاسکے گی حالانکہ دنیا میں وہ بہکاتا بھی رہا۔
لیکن اس کے ساتھ ساتھ قرآن و حدیث میں یہ بات بھی واضح کردی گئی ہے کہ انسان کو اعمال صالحہ کی حفاظت اور پابندی کے لیے پاکیزہ اجتماعیت کا حصہ بننا بھی ضروری ہے۔ کیونکہ اکیلا ہمیشہ خطرے میں رہتا ہے۔ جیسے اکیلے کو چور ڈاکو آسانی سے لوٹ سکتے ہیں اور آٹھ دس کو لوٹنا مشکل ہوتا ہے۔ اسی طرح دین ایمان کے ڈاکو شیاطین اور انسان نما شیاطین بھی اکیلے آدمی کا دین ایمان آسانی سے لوٹ لیتے ہیں جبکہ جہاں’’ کونوا مع الصادقین‘‘ کے حکم پر عمل کرتے ہوئے چند سچے اور نیک لوگ اپنی اجتماعیت قائم کردیں ان کو لوٹنا یا گمراہ کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔لہٰذا فرد اور اجتماعیت کے اپنے اپنے دائرے ہیں۔
اجتماعیت کی اہمیت
*۔۔۔علیکم باالجماعۃ، وایاکم والفُرقۃ، فان الشیطان مع الواحد، وھو من الاثنین اَبعدُ۔
تم جماعت کو لازم پکڑو، اور فرقہ فرقہ ہونے سے بچو۔ کیونکہ شیطان اکیلے کے ساتھ اور دو سے دور ہوتا ہے۔
*۔۔۔یداللہ علی الجماعۃ، ومَن شَذَّ شُذَّ الی النار۔
اجتماعیت اور جماعت کے ساتھ اللہ کی مدد ہوتی ہے، اور جو جماعت سے کٹا وہ جہنم میں داخل کردیا جائے گا۔
*۔۔۔انہ لا اسلام الا باالجماعۃ، ولا جماعۃً الا بِاَمارۃٍ، ولا امارۃ الا بطاعۃٍ۔
جماعت کے بغیر کوئی اسلام نہیں۔ اور امیر کے بغیر کوئی جماعت نہیں۔ اور اطاعت امیر کے بغیر کوئی امارت نہیں۔
*۔۔۔مَن مات ولیس فی عنقہٖ بیعۃٌ مات میتۃً جاھلیۃً۔
جو اس حال میں مرا کہ اس کی گردن میں (امیر جماعت کی)بیعت کا قلادہ نہ ہوا تو وہ جاہلیت کی موت مرا۔
یعنی بغیر جماعت اور بغیر بیعت امیر کے زندگی گزارنا اسلام سے پہلے جاہلیت کے دور کی باتیں ہیں، اسلام نے اپنا ایک نظام دیا ہے جس میں ہر فرد اجتماعیت کی لڑی میں پرویا ہوا اور امیر کی بیعت میں بندھا ہوا ہے، شتر بے مہارکی طرح کوئی نہیں۔

*۔۔۔عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں: قرآن میں ’’حبل اللہ‘‘ سے مراد جماعت اور اجتماعیت ہے

*۔۔۔یہ بات مسلمہ حقیقت ہے کہ انسان فطرتاً اجتماعیت پسند ہے۔ چنانچہ حضرت آدم علیہ السلام جنت میں بھی اکیلے اداس اداس تھے لیکن جب حضرت حوا کو پیدا کیا گیا تو تب ان کی اداسی ختم ہوئی کیونکہ اب دو افراد کی چھوٹی سی اجتماعیت قائم ہوگئی۔ اس سے یہ بھی پتا چلا کے اجتماعیت پسند فطرت انسانی میں رکھی ہوئی ہے۔
*۔۔۔انسان گروہوں، قبیلوں، اور جماعتوں کی شکل میں رہنا پسند کرتا ہے۔چنانچہ تاریخ انسانی ہمیں یہی بتاتی ہے کہ انسان ہمیشہ مل جل کر رہتے رہے ہیں۔
*۔۔۔ماہرین نفسیات بھی کہتے ہیں: ایک طرف انسان میں ’’انا‘‘ خودی اور انفرادیت ہے تو دوسری طرف اجتماعیت کا حصہ بننا بھی پسند کرتا ہے۔
*۔۔۔اسلام میں ایک طرف اپنی ذات اور اعمال کا ذمہ دار انسان کو خود قرار دیا گیا ہے تو دوسری طرف اجتماعیت کے ساتھ جڑے رہنے کا حکم بھی اسلام نے ہی دیا ہے۔

حاصل سبق
اگر کوئی فرد بہت متحرک ہو لیکن کسی اجتماعیت کا حصہ نہ بنے تو یہ مطلوب نہیں، کیونکہ یہ فطرت کے خلاف بھی ہے اور اسلام کے خلاف بھی۔
اگر کوئی فرد ساکت ہولیکن ساتھ ہی کسی اجتماعیت کا حصہ بن جائے تو یہ بھی پسندیدہ نہیں کیونکہ اپنی ذات اور اعمال کا وہ خود ذمہ دار ہے۔
ایک فرد اپنی ذات میں کتنا ہی متقی کیوں ہو لیکن قرآن اسے سچوں کے ساتھ جڑنے کا حکم دیتا ہے تاکہ یہ انفرادی نیکی کسی بڑے اجتماعی نظام کے قیام میں حصہ ڈال سکے۔
ایک فرد نافرمان ہو، بدی کے راستے پر چل رہا ہو، لیکن ساتھ وہ کسی اجتماعیت کا حصہ بن کر یہ سمجھے کہ یہ اجتماعیت مجھے آخرت میں بچا لے گی تو یہ بھی اس کی بھول ہے۔

فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں

موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں

اجتماعیت مضبوط کیسے ہوتی ہے؟
ان اللہ یحب الذین یقاتلون فی سبیلہ صفاً کأنہ بنیانٌ مرصوص۔
بے شک اللہ کو وہ لوگ محبوب ہیں جو اس کی راہ میں صف بنا کر ایسے قتال کریں جیسے سیسہ پلائی ہوئی دیوار۔
یہ بہت جامع آیت ہے جس میں کئی سبق مضمر ہیں:
۱۔یقاتلون:۔۔۔۔۔۔ اللہ کو اپنے بندوں میں سے وہ بندے محبوت ہیں جو اس کی خاطر اس کی راہ میں جان کی بازی لگانے اور خطرات مول لینے کے لیے تیار بیٹھے ہوں۔
۲۔فی سبیل اللہ۔۔۔۔۔۔ وہ بندے شعوری طور پر سوچ سمجھ کر اس کی راہ (فی سبیل اللہ) میں قتال کریں۔ نہ کہ کسی اور راہ یا کسی اور مقصد کے لیے۔
۳۔صفا۔۔۔۔۔۔ یعنی وہ بدنظمی اور انتشار کا شکار نہ ہوں بلکہ مضبوط تنظیم کے ساتھ صف بستہ ہو کر لڑیں۔ یعنی وہ منظم اجتماعیت میں پروئے ہوئے ہوں۔صرف بھیڑ یا رش نہ ہو بلکہ انتہائی منظم اور ڈسپلن کی پابند اجتماعیت والے ہوں۔
۴۔بنیان مرصوص۔۔۔۔۔۔ کوئی بھی اجتماعیت اس وقت تک سیسہ پلائی ہوئی دیوار نہیں بن سکتی جب تک چار صفات پیدا نہ ہوں:
۱۔عقیدے اور نصب العین میں مکمل اتفاق: اگر اس میں اختلاف ہوگا تو مضبوطی قائم نہیں رہ سکتی لہٰذا ایک عقیدے پر جمع ہونا اور ایک مقصد پر فوکس کرنا ضروری ہے۔
۲۔ایک دوسرے پر اعتماد: ایک دوسرے کے خلوص پر اعتماد کرنا، نہ کہ شک کیا جائے۔ اگر اعتماد نہیں ہوگا تو یہ اجتماعیت سیسہ پلائی ہوئی دیوار نہیں بن سکتی ۔
۳۔اخلاق اور احترام کا اعلیٰ معیار:اگر یہ نہیں ہوگا تو نہ ایک دوسرے کی محبت پیدا ہوگی اور نہ عزت و احترام۔ نتیجۃً آپس میں ہی تصادم کا خطرہ ہے۔
۴۔اپنے مقصد اور نصب العین کے ساتھ عشق اور ایسا جذباتی لگاو جو سب کچھ قربان کرنے کے لیے آمادہ کردے۔
یہ وہ اوصاف تھے جو صحابہ کرام کی جماعت میں پیدا ہوئے تو دنیا کی بڑی بڑی طاقتیں ان سے ٹکرا کر پاش پاش ہوگئیں۔
یہ وہ اوصاف تھے جو اجتماعیت کو مضبوط بناتے ہیں۔ البتہ جہاں تک تعلق ہے اجتماعیت کو قائم رکھنے والی بنیادوں کا تو وہ مندرجہ ذیل ہیں:

اجتماعیت کو قائم رکھنے والی بنیادیں۔
1۔ بیعت
بیعت کا معنی ہے عہد وپیمان۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیعت لیتے تھے۔عام عہد باہمی رضامندی سے منسوخ ہو سکتے ہیں لیکن بیعت شرعی منسوخ نہیں ہوسکتی۔ چنانچہ ایک دیہاتی نے بیعت کی اور مدینہ میں آباد ہوگیا، پھر آب وہوا موافق نہ آئی تو جاتے ہوئے بیعت کو منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا لیکن حضورﷺ نے یہ مطالبہ رد فرمادیا، اس نے باربار بیعت کی منسوخی کا مطالبہ کیا لیکن حضور ﷺ نے قبول نہیں فرمایا۔
2۔ سمع و طاعت
اطاعت فی المعروف واجب ہے۔علامہ ابن عبدالبر فرماتے ہیں: اگر امیر خود تو فاسق و فاجر ہو لیکن معروف کا حکم کرے، یہاں تک کہ معروف مباح کا حکم بھی کرے تو اس کی اطاعت واجب ہے۔
حضور ﷺ نے فرمایا: اگر تمہارا امیر ’’حبشی‘‘ ’’غلام‘‘ ’’کان ناک کٹا‘‘ ہو تو بھی اطاعت کی جائے۔ (مسلم)
چنانچہ آپ ﷺ نے امیر کی اطاعت کو اطاعت الٰہی قرار دیا۔
3۔ نصح و خیر خواہی
یہ دونوں طرف سے ضروری ہے۔ مامور اطاعت سے ہاتھ نہ کھینچے اور امیر زیادتی اور ظلم نہ کرے۔ چنانچہ جہاں ایک طرف مامور کو ہر حال میں اطاعت امیر کا حکم دیا گیا ہے وہی امیر کو بھی وعیدیں سنائی گئی ہیں۔ فرمایا:
جس امیر نے رعیت کے ساتھ دھوکہ کیا اس پر جنت حرام ہوگی۔(مسلم)
جس امیر نے رعیت کو مشقت میں ڈالا اللہ اسے مشقت میں ڈالے گا اور جس نے نرمی برتی اللہ اس سے نرمی برتے گا۔(مسلم)
*۔۔۔اگر امیر میں کمزوریاں ہوں توشرعی حدود اور ادب واحترام کے دائرے میں رہتے ہوئے ان کو دور کرنے کی اسی طرح کوشش کرے جیسے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بتادیا، چنانچہ فرمایا:
جو شخص کسی امیر یا صاحب منصب کو نصیحت کرنا چاہے تو اعلانیہ نہ کرے، بلکہ اس کا ہاتھ پکڑے اور تنہائی میں(ون ٹوون ملاقات، یا متعلقہ فورم پر) کرے۔ اگر تو وہ قبول کرلے تو ٹھیک، ورنہ نصیحت کرنے والے نے اپنا فرض ادا کرلیا۔
4۔عدل وانصاف
کسی بھی اجتماعیت کو قائم رکھنے کے لیے ’’عدل‘‘ بنیادی پتھر ہے۔اس کے بغیر اجتماعیت بکھر جاتی ہے۔ اسی لیے فرمایا:
ان اللہ یأمرباالعدل والاحسان
یعنی اللہ عدل و احسان کا حکم دیتا ہے۔
احادیث میں عادل حکمران کے بارے فرمایا: یوم محشر وہ عرش کے سائے تلے ہوگا۔
عمربن عبدالعزیز ؒ نے کعب القرطی سے پوچھا عدل کیا ہے؟ تو انہوں نے فرمایا:
تم چھوٹوں کے حق میں باپ بن جاو، اور بڑوں کے حق میں بیٹا بن جاواور ہمسروں کے حق میں بھائی بھائی بن جاو۔
5۔مشاورت
یعنی دوسروں سے رائے لینا۔ اس سے دوسروں میں احساس ذمہ داری پیدا ہوتا ہے۔ غووفکر اور تبادلہ خیال کا طریقہ آتا ہے۔ خوداعتمادی پیدا ہوتی ہے۔ مشاورت میں اپنی رائے خلوص اور دلائل کے ساتھ دینے کے بعد دوسروں کی رائے کا احترام بھی ضرور ی ہے۔
6۔ تنقید و احتساب
کسی بھی اجتماعیت میں تنقید برائے اصلاح بہت اہم ہوتی ہے۔ لہٰذا ایسی تنقید جو برائے اصلاح ہو اس کی حوصلہ افزائی لازما کرنی چاہیے۔ کیونکہ اجتماعیت میں کمزوریوں کا پیدا ہونا کوئی حیرت انگیز یا عجیب بات نہیں، بلکہ ایسا تو ہوتا رہتا ہے۔
*۔۔۔تنقید کی بھی کچھ حدود ہیں۔ اگر تنقید مناسب وقت، مناسب انداز، مناسب ماحول میں مناسب طریقہ کار سے کی جائے تو فائدہ مند ہوتی ہے۔ اور اگر ایسا نہ ہو تو نقصادہ ثابت ہوتی ہے۔
*۔۔۔مخلصانہ تنقید سے کسی کو بھی بالاتر نہیں ہونا چاہیے۔ بلکہ جو جتنا بڑا ذمہ دار ہے اسے اتنی ہی زیادہ تنقید کو برداشت کرنے کا حوصلہ رکھنا چاہیے۔
*۔۔۔تنقید کرنے والے کو بھی بڑے چھوٹے کے آداب اور مراتب کا خیال رکھتے ہوئے تنقید کرنی چاہیے، کیونکہ :
جراحات السنان لہاالتیام ولا یلتام ماجرح بہ اللسان
تلواروں کے زخم تو بھر جاتے ہیں لیکن زبان کے زخم نہیں بھرتے۔
چھری کا، تیرکا، تلوار کا گھاوبھرا
لگا جو زخم زبان کا رہا ہمیشہ ہرا۔
*۔۔۔اگر کوئی غلط انداز سے تنقید کررہا ہو تو اس کی اصلاح کرنا بھی ضروری ہے ورنہ مسلسل غلط انداز سے تنقید، اجتماعیت کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔
*۔۔۔غلط تنقید کرنے والوں کو بھی اس نکتے پر غور کرنا چاہیے کہ: ان کی بیجا اور حدود سے نکلی ہوئی تنقید ان لوگوں کی قدرومنزلت میں بے جا اضافہ کررہی ہے جو ہر وقت تعریف وتحسین کرتے رہتے ہیں۔
*۔۔۔ہر فرد کو اپنی اصلاح ’’بے دردی‘‘ سے کرنی چاہیے۔ جبکہ دوسروں کی اصلاح میں نرمی برتنی چاہیے۔

اولو الامر کو نصیحت کرنے کے آداب

0

اولو الامر (امیر، صاحب منصب، علماء) کو نصیحت کرنے کے آداب

بسم اللہ الرحمن الرحیم

تحریر سید عبدالوہاب شیرازی

قرآن حکیم میں اللہ ، رسول کی اطاعت کے ساتھ ساتھ اولوالامر کی اطاعت کا حکم بھی دیا ہے۔ اولوالامر لغت میں ان لوگوں کو کہا جاتا ہے جن کے ہاتھ میں کسی چیز کا نظام وانتظام ہو۔
اولوالامر سے کیا مراد ہے، اس میں مفسرین اور محدثین کے بے شمار اقوال ہیں، جن کا خلاصہ یہی نکلتا ہے کہ اولوالامر کا مصداق ہر درجہ کے حاکموں پر ہوتا، چنانچہ خلیفہ وقت جس کو حکومت عامہ حاصل ہے بدرجہ اولی اس لفظ کا مصداق ہے، بلکہ جب بھی اولی الامر بولا جائے گا تو اس کے متبادل معنی خلیفہ ہی ہوں گے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہر لیول کے حاکموں یہاں تک کہ علماء اور فقہاء کے لیے بھی یہ لفظ ایک خاص اعتبار سے بولا جاتا ہے۔
چونکہ ہم سب انسان ہیں اس لیے انسانوں سے غلطیاں بھی ہوتی رہتی ہیں، اور سب کی عقلیں ایک جیسی نہیں ہیں اس لیے اختلافات بھی ہوسکتے ہیں۔ مسئلہ اس وقت خراب ہوتا ہے جب ہم غلطی کی اصلاح کرتے ہوئے خود کئی غلطیوں کا ارتکاب کر بیٹھتے ہیں۔ یا اختلافات کو حل کرتے کرتے تفرقے کا باعث بن جاتے ہیں۔ جب تک مسلمانوں کے سروں پر خلافت کی چھتری قائم تھی اس وقت تک اگرچہ کسی بھی شخص کو دلائل کے ساتھ اختلاف کرنے کی گنجائش تو تھی لیکن کسی کو امیر کی اطاعت سے ہاتھ کھینچنے کی اجازت نہیں ہوتی تھی۔ اس معاملے میں اتنی سختی تھی کہ کوئی شخص مسلمانی کا دعویٰ کرے اور صدیق اکبر، یا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کا نا کرے اس کا تصور کرنا ممکن نہیں تھا، یہی وجہ تھی کہ مسلمانوں متحد بھی تھے اور مضبوط بھی۔ جب کوئی امیر کے ہاتھ پر بیعت کرنے سے انکار کرتا تھا تو اسی بات پر جنگ ہوجایا کرتی تھی۔
Nukta Colum 003 7
اب چونکہ خلافت کی چھتری ہمارے سروں پر نہیں اس لیے اگرچہ ہمارے ہاں دینی جماعتوں اور تنظیموں کی وہ حیثیت تو نہیں کہ کوئی کسی جماعت یا تنظیم کی بیعت یا جماعت کے سربراہ سے وفاداری کا حلف توڑ نہیں سکتا، یاجماعت کو چھوڑ نہیں سکتا، لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ اختلاف کرنے، یا دینی قائدین کے آداب و احترام کے پیمانے بھی بدل گئے ہیں، یا ہم اب اختلاف کرنے یا کسی کو نصیحت کرنے میں سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور آثار صحابہ و اسلاف کے منہج کے پابند نہیں رہے۔ جب ہم نے کلمہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پڑھا ہے ، اور صحابہ کی راہوں پر چلنے میں اپنی کامیابی کا یقین بھی ہے، اور اسلاف واکابر امت پر فخر بھی ہے تو ہمیں اس منہج کو بھی کسی صورت ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہم تک پہنچا، جسے صحابہ نے اختیار کیااور ہمارے اسلاف جس کی تبلیغ کرتے رہے۔
ہماری یہ بہت بڑی بدقسمتی اور افسوس کا مقام ہے کہ ہماری مروجہ سیاسی جماعتوں میں جس طرح ایک دوسرے پر الزامات، بہتان تراشی اور دوسروں کو رسوا کرنے کا جو سلسلہ پہلے کم پیمانے پر ہوتا تھا اب کچھ نئی جماعتوں کی انٹری کے بعد اور سوشل میڈیا تک ہر بندے کی رسائی کے بعد یہ سلسلہ بڑے پیمانے پر شروع ہو چکا ہے۔چنانچہ یہ بات نہ صرف مشاہدے بلکہ عملی تجربے میں بھی آئی ہے کہ فیس بک پر انتہائی خاموش طبع انسان بھی کچھ نہ کچھ غلط صحیح پوسٹ کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ جو غلط زبان اور مخالفین کو ذلیل کرنے کی روش پہلے صرف مروجہ سیاسی جماعتوں میں پائی جاتی تھی، اب وہ مذہبی اور دینی جماعتوں اور ان کے کارکنوں میں بھی پیدا ہوچکی ہے۔چنانچہ فیس بک پر ہر وقت ایک جنگ کا سماں ہوتا ہے۔نہ کسی کی عزت محفوظ رہتی ہے اور نہ کسی کا مقام، پگڑیاں اچھالی جاتی ہیں، اور خاص اختلافات کو ہر غیر متعلقہ لوگوں کے سامنے کھول کر رکھ دیا جاتا ہے۔
بحیثیت مسلمان اور امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرد ہونے کے ناطے ہمارے لیے یہ ضروری ہے کہ ہم اس معاملے میں بھی سنت رسول، اور منہج رسول و صحابہ کو نہ چھوڑیں، جو غلطیاں ہوچکی ان پر اللہ سے معافی مانگیں اور آئندہ ایسا نہ کرنے کا عزم کریں۔ زیر نظر مضمون میں اس حوالے ہم یہ جاننے کی کوشش کریں گے کہ اسلام اس معاملے میں ہماری کیا رہنمائی کرتا ہے اور ہمارے اکابرین امت کا کیا طریقہ تھا۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
ادع الی سبیل ربک باالحکمۃ والموعظۃالحسنۃ وجادلھم باللتی ہی احسن
اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت کے ساتھ دعوت دو، اور اچھے وعظ کے ساتھ دعوت دو، اور بحث کی ضرورت ہو تو وہ بھی عمدہ اور باوقار طریقے سے کرو۔
بیعت کے مقتضیات میں یہ بات شامل ہے کہ اولی الامر اور صاحب منصب لوگوں کو نصیحت کی جاتی رہے۔چنانچہ تمیم داری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں:
وعن تمیم الداری رضی اللہ عنہ ان النبی ﷺ قال: الدین النصیحۃ۔ قلنا: لمن، قال: ولکتابہ ولرسولہ والأئمۃ المسلمین وعامتہم۔ (رواہ مسلم)
فرمایا: دین سرا سر خیرخواہی ہے۔ ہم نے کہا کس کے لیے۔ تو فرمایا: اللہ کی کتاب، اس کے رسول، مسلمانوں کے ائمہ اور عام مسلمانوں کے لیے۔
ابن عبدالبر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
مناصحۃ ولاۃ الأمر فلم یختلف العلماء فی وجوبہا اذا کان السلطان یسمعھا ویقبلھا (الاستذکار8/579)
امراء اور لیڈروں کو نصیحت کرنا واجب ہے اس میں علماء کا کوئی اختلاف نہیں ہے جبکہ صاحب منصب اسے سنے اور قبول کرے۔
امام نووی رحمہ اللہ شرح مسلم میں فرماتے ہیں مسلمانوں کے ائمہ کو نصیحت کرنی چاہیے، اور حق بات میں ان کے ساتھ تعاون کرنا چاہیے، اور ان کی اطاعت کرنی چاہیے اوررفق و لطف (انتہائی نرمی) کے ساتھ انہیں تنبیہ اور نصیحت کرنی چاہیے۔
صحیح مسلم میں جناب ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
ان اللہ یرضی لکم ثلاثاً ویسخط لکم ثلاثا یرضی لکم ان تعبدوہ ولا تشرکوا بہ شیئاًوان تعتصمو ابحبل اللہ جمیعا ولا تفرقو ا وان تنا صحوا من ولاہ اللہ امرکم ویسخط لکم ثلاثا قیل و قال و کثرۃ السوال واضاعۃ المال
اللہ تعالیٰ تمہارے لیے تین باتوں کو پسند کرتا ہے اور تین باتوں کو ناپسند کرتا ہے۔ وہ پسند کرتا ہے کہ تم اس کی عبادت کرو اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک مت کرو اور سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھو آپس میں تفرقہ مت پیدا کرو اور اللہ نے جسے تمہارا حکمران بنا دیا ہے اس سے خیر خواہی کرو۔ تین چیزیں تمہارے لئے ناپسند کرتا ہے۔ قیل و قال یعنی بلا مقصد بحث اور ہر مسئلہ میں بال کی کھال اتارنا۔ بہت زیادہ سوال کرنا اور مال ضائع کرنا (اسراف اور فضول خرچی سے منع کرتا ہے)

حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں:
لیس منا من لم یرحم صغیرنا وَیَعْرِفْ شَرفَ کَبیرنا۔(ابوداود)
وہ شخص ہم میں سے نہیں جو چھوٹوں پر رحم نہ کرے اور بڑوں کا احترام نہ کرے۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں:
أنزولوا الناس منازلھم۔(ابوداود)
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لوگوں کو ان کا مقام دو۔ یعنی جو جس مقام اور مرتبے کا ہے اسے اس کا مقام دینا چاہیے، سب کو ایک ہی لاٹھی سے نہیں ہانکنا چاہیے۔
امیر یا صاحب منصب کو نصیحت کرنے کا طریقہ:
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اولوالامر (امیر،صاحب منصب، علماء وغیرہ) کو نصیحت کرنے کا طریقہ اپنے ارشاد مبارک میں واضح اور دوٹوک الفاظ میں بیان فرمایا ہے، جسے عیاض بن غنم رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
عن عیاض بن غنم رضی اللہ عنہ قال: قال رسول اللہﷺ: مَنْ أرَادَ أنْ یَّنْصِحَ لِسُلْطَانٍ بأمرٍ فَلا یُبْدِلَہُ عَلَا نِیَۃً، وَ لٰکِنْ لِیَاأخُذْ بِیَدِہ،فَیَخْلُوْ بِہِ، فَإنْ قَبِلَ مِنْہُ فَذَاکَ، وَاِلَّا کَانَ قَدْ اَدَّی الَّذِیْ عَلَیْہِ لَہُ۔ (اخرجہ احمد فی مسندہ، والطبرانی فی مسند الشامیین، والحکام فی المستدرک، والبیھقی فی السنن الکبری، والطبرانی فی المعجم الکبیر)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص کسی امیر یا صاحب منصب کو نصیحت کرنا چاہتا ہو تو اعلانیہ (اور تشہیر کرکے) نہ کرے۔ بلکہ اس کا ہاتھ پکڑے ( یعنی اس کے قریب تر ہوکرون ٹو ون ملاقات کی صورت میں کرے) اگر تو وہ نصیحت کو قبول کرلے تو فبہا، ورنہ نصیحت کرنے والے نے اپنا فرض ادا کرلیا۔

صحابہ کرام کا اسوہ:

  • حضرت اسامہ بن زیدرضی اللہ کا عمل
    آپ حضرات کے علم میں ہوگا کہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے آخری دور میں جو فتنہ کھڑا ہوا تھا جو بعد میں بہت بڑے سانحے پر منتج ہوا، اور پھر ختم نہیں ہوسکا، اس وقت کی بات ہے کہ کسی نے حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے کہا کہ آپ حضرت عثمان سے بات کیوں نہیں کرتے؟(یعنی آپ ان کو کیوں نہیں سمجھاتے کہ وہ اپنی یہ یہ غلطیاں دور کریں) تو انہوں نے کہا
    اَتَروْن اَنی لَا اُکلمُہُ الا اَسْمِعُکُم؟ واللہ لقد کَلَّمْتُہُ فیما بَینی وبَینہُ، ما دونَ اَن اَفتَتِحَ اَمراً لَا اُحِبُّ اَن اَکونَ اَوَّلَ مَن فَتَحَہُ، ولا اَقولُ لِاَحَدٍ، یکونُ عَلَیَّ اَمیراً:
    آپ کا خیال ہے میں تمہارے سامنے ان سے بات کروں گا، اللہ کی قسم میں نے ان سے تنہائی میں آداب کا خیال رکھتے ہوئے جو بات کرنی تھی کرلی ہے ،میں اسے کھولنا نہیں چاہتا تاکہ میں کہیں ایسی بات کا سبب نہ بن جاوں کہ جس کی ابتداء کرنے والا میں نہیں بننا چاہتا۔ (بخاری،مسلم)
    اس حدیث کی تشریح میں امام نووی، عیاض اور امام البانی نے کہا کہ : اسامہ بن زید کی مراد یہ تھی کہ وہ امام(امیر) کی مخالفت کھلم کھلا نہیں کرنا چاہتے تھے بلکہ نرمی اور خفیہ طریقے سے جو نصیحت کرنی تھی وہ کرلی ہے۔(فتح الباری، وغیرہ)
    حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا فرمان:
    عن سعید بن جبیر رحمہ اللہ قال: قال رجل لابن عباس رضی اللہ عنہما: آمر امیری بالمعروف؟ قال: اِن خفتَ اَن یقتلک، فلا تؤنب الامام، فان کنت لا بد فاعلا فیما بینک وبینہ۔ (رواہ ابن ابی شیبۃ)
    ایک شخص نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہا کیا میں اپنے امیر کو معروف کا حکم کروں؟ تو ابن عباس نے فرمایا اگر تجھے قتل کا خوف ہو تو نہ کرو اور تم ضرور کرنا ہی چاہتے ہو توایسی رازداری سے کرو جو صرف تمہیں اور اس امیر کو پتا ہو۔
    ان دو روایات سے ہمیں صحابہ کرام کا طریقہ پتا چلا کہ اگر امیر سے اختلاف ہو، یا کسی غلطی پر متنبہ کرنا ہو تو یہ کام رازداری میں کرنا چاہیے، آداب کا خیال رکھنا چاہیے، اور ایسا چرچا نہیں کرنا چاہیے کہ ہر متعلقہ اور غیر متعلقہ لوگوں میں اس کا چرچا ہو۔
    اولوالامر(امیر وغیرہ) کو نصیحت کرنے کی چار صورتیں ہیں:
  • ایک: یہ کہ امیر کو اس طرح چھپ کر نصیحت کی جائے کہ صرف نصیحت کرنے والے اور امیر کو ہی پتا ہو۔
  • دوم: یہ کہ امیر کو لوگوں کے سامنے کھلم کھلا نصیحت کی جائے باوجود اس کے کہ خفیہ بھی کی جاسکتی تھی۔
  • سوم: یہ کہ امیر کو نصیحت تو خفیہ کی جائے لیکن پھر بعد میں اس کا لوگوں میں چرچا کیا جائے اور اسے پھیلایا جائے۔
  • چہارم: امیر کا رد اس کی پیٹھ پیچھے یعنی لوگوں کی مجلسوں، مواعظ ، خطبات، اور دروس میں کیا جائے۔

اب ان چاروں صورتوں کا ہم جائزہ لیں گے۔

پہلی صورت:

یعنی امیر کو اس طرح چھپ کر نصیحت کی جائے کہ صرف نصیحت کرنے والے اور امیر کو ہی پتا ہو۔
اس طریقے سے امیر کو نصیحت کرنا یا اختلاف کرنا یہ اصل اور بہترین طریقہ ہے، اور یہی شریعت کا حکم اور ہمارے اسلاف کا منہج ہے جنہوں نے ہمیشہ اہل بدعت اور خوارج کی مخالفت اختیار کی۔ اور اسی طریقے کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ارشاد فرمایا:
عن عیاض بن غنم رضی اللہ عنہ قال: قال رسول اللہﷺ: مَنْ أرَادَ أنْ یَّنْصِحَ لِسُلْطَانٍ بأمرٍ فَلا یُبْدِلَہُ عَلَا نِیَۃً، وَ لٰکِنْ لِیَاأخُذْ بِیَدِہ،فَیَخْلُوْ بِہِ، فَإنْ قَبِلَ مِنْہُ فَذَاکَ، وَاِلَّا کَانَ قَدْ اَدَّی الَّذِیْ عَلَیْہِ لَہُ۔ (اخرجہ احمد فی مسندہ، والطبرانی فی مسند الشامیین، والحکام فی المستدرک، والبیھقی فی السنن الکبری، والطبرانی فی المعجم الکبیر)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص کسی امیر یا صاحب منصب کو نصیحت کرنا چاہتا ہو تو اعلانیہ (اور تشہیر کرکے) نہ کرے۔ بلکہ اس کا ہاتھ پکڑے ( یعنی اس کے قریب تر ہوکرون ٹو ون ملاقات کی صورت میں کرے) اگر تو وہ نصیحت کو قبول کرلے تو فبہا، ورنہ نصیحت کرنے والے نے اپنا فرض ادا کرلیا۔
اس حدیث پاک میں نصیحت کرنے کا شرعی طریقہ بتایا گیا ہے کہ اعلانیہ اور برسربازار نصیحت نہ کی جائے بلکہ تخلیے میں نرمی کے ساتھ نصیحت کی جائے جیسا کہ اسامہ بن زید نے لوگوں کو جواب دیا تھا۔اس طرح کھلم کھلا نصیحت کرنا امرمنکر ہے اور فتنہ پر منتج ہوتا ہے، جبکہ خفیہ طریقے سے نصیحت کرنا اصل طریقہ ہے جو خیرخواہی ہے اور فتنے کا سدباب ہے۔

شیخ ابن باز اسامہ بن زید والی روایت پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
لما فتحوا الشر فی زمن عثمان رضی اللہ عنہ، وانکروا علی عثمان رضی اللہ عنہ، جھرۃ تمت الفتنۃ والقتال والفساد الذی لا یزال الناس فی آثارہ الی الیوم حتی حصلت الفتنۃ بین علی و معاویۃ وقتل عثمان و علی بأسباب ذلک وقتل جم کثیر من الصحابۃ و غیرہم باسباب الانکار العلنی وذکر العیوب علنا حتا أبغض الناس ولی امرھم وحتی قتلوہ، نسأل اللہ العافیۃ۔
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے آخری زمانے میں جب لوگوں نے کھلم کھلا اور اعلانیہ ان پر تنقید کرنا شروع کی تو اسی سے فتنہ پیدا ہوا اور یہی فتنہ حضرت عثمان اور حضرت علی سمیت بے شمارصحابہ اور دیگر لوگوں کے قتل کا ذریعہ بنا، کیونکہ جب امراء پر اعلانیہ تنقید ہونے لگی، اور اعلانیہ ان کے عیوب بیان کیے جانے لگے تو لوگ غضبناک ہوئے اور معاملہ بڑھتے بڑھتے جنگ تک پہنچ گیا۔ ہم اللہ تعالیٰ سے عافیت طلب کرتے ہیں( المعلوم23)

*۔۔۔حضرت عبداللہ بن اوفی رضی اللہ عنہ کا فرمان:
وعن سعید بن جمہان قال: اَتیتُ عبداللہ بن ابی اوفی وھو محجوب البصر، فَسَلَّمْتُ علیہ، قالَ لی: مَن انتَ؟ فقلتُ: انا سعید بن جُمہان، قال: فَما فَعلَ وَالِدُکَ؟ قال: قلتُ: قَتَلَتْہُ الْاَزَارِقَۃُ، قال: لَعنَ اللہُ الاَزارقۃَ، لعن اللہ الازارقۃَ، حدثنا رسول اللہ ﷺ اَنَّھُمْ کِلابُ النار، قال: قُلتُ: اَلْاَزَارِقَۃُ وَحْدھُم اَمِ الْخَوارجُ کُلُّھَا؟ قال: بل الخوارجُ کُلَّھَا۔ قال: قلتُ: فَاِنَّ السُّلْطَانَ یَظْلِمُ النَّاسَ، وَیٰفْعَلُ بِھِم، قال: فَتَنَاوَلَ یَدِی فَغَمَزَھَا بِیَدِہِ غَمْزَۃً شَدِیْدَۃً، ثم قال: وِیْحَکَ یاابن جُمھانَ عَلَیْکَ بِالسَّوَادِ الْاَعْظَمِ، عَلَیْکَ بِالسَّوَادِ الْاَعْظَمِ،اِن کان السلطانُ یَسْمَعُ مِنکَ، فَأتِہِ فِی بَیتِہِ، فَأخْبِرْہُ بِمَا تَعلمُ، فَان قَبِلَ مِنکَ، وَالا فَدَعْہُ، فانک لَسْتَ بِأعْلَمَ مِنہُ (مسند احمد بن حنبل)

امام احمد نے اپنی مسند میں سعید بن جمہان سے روایت کی ہے کہ وہ فرماتے ہیں میں عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ سے ملا، اور وہ نابینا ہو چکے تھے، میں نے ان کو سلام کیا، تو انہوں نے کہا کون ہو تم؟ میں نے کہا سعید بن جمہان، تو انہوں نے کہا تمہارے والد کے ساتھ کیا ہوا؟ تو میں نے کہا ان کو ازارقہ نے قتل کردیا، تو انہوں نے فرمایا: اللہ کی لعنت ہو ازارقہ پر، اللہ کی لعنت ہو ازارقہ پر، ہمیں رسول اللہ ﷺ نے بیان کیا کہ وہ جہنم کے کتے ہیں، تو میں نے کہا ازارقہ اکیلا ہی یا سارے خوارج؟ تو انہوں نے کہا سارے خوارج۔ میں نے ان سے کہا: بے شک امیر لوگوں پر ظلم کرتا ہے اور ایسا ایسا کرتا ہے۔ تو انہوں نے میرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں پکڑ کر زور سے دبایا اور فرمایا: ویحک یا ابن جمھان۔ تم پر لازم ہے کہ سواد اعظم کو پکڑو، تم پر لازم ہے کہ سواد اعظم کو پکڑو، اگر امیر تیری بات سنتا ہے تو’’ اس کے گھر میں جاکر اسے اطلاع دے‘‘ اگر تیری بات مان لے تو ٹھیک ورنہ چھوڑ دے تو اس سے زیادہ نہیں جانتا۔
اس روایت میں ایک جلیل القدر صحابی رضی اللہ عنہ نے کس طرح یہ بات سمجھائی کہ امیر کو نصیحت خفیہ کرنی چاہیے نہ کہ اعلانیہ۔اور اس میں کوئی شک نہیں کہ صحابہ کرام حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت یافتہ جماعت تھی، ان کا قول و فعل ہمارے لیے مشعل راہ ہے۔

*۔۔۔ابن نحاس رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
یختار الکلام مع السلطان فی الخلوۃ علی الکلام معہ علی رؤوس الأشھاد۔
امیر یا صاحب منصب کو خلوت میں جاکر سمجھانا زیادہ بہتر ہے اس سے کہ سب کے سامنے سمجھایا جائے۔(تنبیہ الغافلین)

*۔۔۔امام شوکانی فرماتے ہیں:
ینبغی لمن ظہر لہ غلط الامام فی بعض المسائل أن یناصحہ ولا یظھر الشناعۃ علیہ ولی رؤوس الأشھاد بل کما ورد فی الحدیث أنہ یأخذ بیدہ ویخلو بہ ویبذل لہ النصیحۃ ولا یذل سلطان اللہ۔
جس شخص کو امیر کی کوئی غلطی نظر آئے تو وہ اسے تنہائی میں سمجھائے اور اس کی برائی کو سب کے سامنے نہ اچھالے جیسا کہ حدیث(اوپر عیاض والی حدیث) میں طریقہ بتایا گیا ہے، اور امیر کو ذلیل نہ کرے۔(السیل4/556)
ہمارے اسلاف سے یہی منقول ہے کہ صاحب منصب اور امراء سے جو گناہ سرزد ہوتے ہیں ان سے کفر اور ان کے خلاف خروج لازم نہیں آتا، بلکہ ان کو شرعی طریقے سے نصیحت کرنا ہی واجب ہے جو انتہائی نرمی سے ہواور مجالس اور لوگوں کے مجموں میں تذکرے نہ کیے جائیں۔(نصیحۃ مھمۃ30)

*۔۔۔علامہ سعدی فرماتے ہیں:
وقال العلامۃ السعدی رحمہ اللہ: علی من رأی منہم ما لا یحل أن ینبھھم سراً لا علناً بلطف وعبارۃ تلیق بالمقام۔ (الریاض الناضرۃ50)
جو شخص کوئی ناگوار بات دیکھے تو خفیہ طریقے سے تنبیہ کرے نہ کہ اعلانیہ۔ نرمی کے ساتھ اور اس کے شایان شان کلمات کے ساتھ نصیحت کرے۔

*۔۔۔شیخ ابن باز فرماتے ہیں:
الطریقۃ المتبعۃ عند السلف النصیحۃ فیما بینھم وبین السلطان والکتابۃ الیہ او الاتصال بالعلماء الذین یتصلون بہ حتی یوجہ الی الخیر۔ وانکار المنکر یکون من دون ذکر الفاعل فینکر الزنی وینکر الخمر وینکر الربا مِن دون ذکر مَن فعلہ ویکفی انکار المعاصی والتحذیر منہا مِن غیر ذکر اَن فلاناً یفعلھا لا حاکم ولا غیر حاکم (المعلوم22)
امیر یا صاحب منصب کو نصیحت کرنے کا جو طریقہ ہمارے اسلاف سے منقول ہے وہ یہ ہے کہ ان کے ساتھ خط کتابت کی جائے، یا جو علماء امیر کے مقربین ہیں ان کے واسطے سے نصیحت کی جائے کہ وہ خیر کی طرف امیر کو متوجہ کریں۔اور کسی منکر کا انکار فاعل کا ذکر کیے بغیر ہی ہونا چاہیے۔ لہٰذا زنا، شراب، سود پر رد اس انداز سے کیا جائے کہ نہی عن المنکر اور اللہ کا ڈراوا تو ہو لیکن فاعل کا تذکرہ نہ کیا جائے۔

دوسری صورت:

امیر کو لوگوں کے سامنے کھلم کھلا نصیحت کی جائے باوجود اس کے کہ خفیہ بھی کی جاسکتی تھی۔
یہ صورت حرام ہے کیونکہ:
1۔ عیاض بن غنم رضی اللہ عنہ والی حدیث کے خلاف ہے جس میں خلوت کا حکم اور اعلانیہ کی ممانعت ہے۔
2۔ اثار صحابہ اور اسلاف کے طریقے کے خلاف ہے جیسے اسامہ بن زید اور عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہما وغیرہ کا فرمان اور عمل تھا۔
3۔ اس وجہ سے بھی حرام ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: من اھان سلطان اللہ فی الارض اھانہ اللہ (ترمذی) جس نے امیر کی اہانت کی اللہ اسے ذلیل کرے گا۔

*۔۔۔شیخ صالح بن عبدالعزیز بن عثیمین ، مقاصد اسلام میں لکھتے ہیں:
جب امراء کے پیچھے باتیں ہونی شروع ہوجائیں، اور کھلم کھلا نصیحتیں کی جانے لگیں اور اس کی تشہیر کی جانے لگے اور ان کو ذلیل کیا جانے لگے تو اللہ کا وعدہ ہے کہ اللہ اس طرح کرنے والوں کو ذلیل کرے گا۔

*۔۔۔شیخ محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
اذا صدر المنکر مِن امیر او غیرہ ینصح برفق خفیۃ ما یستشرف ای مایطلع علیہ احدٌ فان وافق والا استلحق علیہ رجلا یقبل منہ بخفیۃ ۔(نصیحۃ مہمۃ33)
جب کسی امیر وغیرہ سے کوئی منکر سرزد ہوجائے تو نرمی اور چھپ کر نصیحت کرنی چاہیے۔ اگر مان جائے تو ٹھیک ورنہ کسی شخص کے واسطے سے خفیہ نصیحت کرے۔

تیسری صورت

امیر کو نصیحت تو خفیہ کی جائے لیکن پھر بعد میں اس کا لوگوں میں چرچا کیا جائے اور اسے پھیلایا جائے۔
یہ صورت حرام ہے کیونکہ:
1۔ یہ عیاض بن غنم رضی اللہ عنہ والی حدیث کے خلاف ہے جس میں خلوت کا حکم اور اعلانیہ کی ممانعت ہے۔
2۔یہ اثار صحابہ اور اسلاف کے طریقے کے خلاف ہے جیسے اسامہ بن زید اور عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہما وغیرہ کا فرمان اور عمل تھا۔
3۔یہ ریا کاری ہے اور اخلاص کی کمی ہے۔
4۔ یہ فتنہ ہے، اور جماعت میں تفرقہ اور پھوٹ ڈالنے کی کوشش ہے۔
5۔ امیر کی اہانت ہے جس پر اللہ کی طرف سے سخت وعید آئی ہے (جیسا کہ اوپر حدیث گزر چکی ہے)

*۔۔۔صالح بن عبدالعزیز عثمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
جب امیر یا صاحب منصب کے بارے اس کی پیٹھ پیچھے بات کی جائے، یا علی الاعلان اور تشہیر کی صورت میں نصیحت کی جائے تو یہ اس کی اہانت ہے جس پر اللہ کی طرف سے وعید آئی ہے لہٰذا اس حوالے سے ان باتوں کی رعایت کرنا ضروری ہے جس کا ذکر ہم نے اوپر کرلیا ہے (مقاصد اسلام393)
چوتھی صورت
امیر کا ’’رد‘‘ اس کی پیٹھ پیچھے یعنی لوگوں کی مجلسوں، مواعظ ، خطبات، اور دروس(یعنی پبلک پلیس) میں کیا جائے۔
یہ صورت بھی حرام ہے کیونکہ:
1۔یہ غیبت ہے اور بہتان ہے۔ اور ان دونوں چیزوں سے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے۔
2۔یہ اس لیے بھی جائز نہیں کہ اس طرح لوگوں میں چرچا کرنے سے فتنہ و فساد کھڑا ہوتا ہے
حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ألا أُنَبِّءُکُمْ مَاالْعَضْہُ؟ ہِیَ النَّمِیْمَۃُ: القَالَۃُ بَینَ الناس۔
کیا میں تمہیں بتاوں العضہ کیا ہے؟ وہ چغلی ہے یعنی لوگوں میں چرچا کرنا۔ (مسلم)
عن انس بن مالک رضی اللہ عنہ عن النبی ﷺ انہ قال: أتدرون مَالْعَضْہُ؟ قالوا اللہ ورسولہ اعلم۔ قال: نَقل الحدیثِ مِن معضِ الناس الی بعضٍ لِیُفسِد بَینھم۔

انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کیا تم جانتے ہو ’’العضہ‘‘ کیا ہے؟ ہم نے کہا اللہ اور اس کے رسول ہی جانتے ہیں۔ تو فرمایا: کچھ لوگوں کی باتوں کو دوسرے لوگوں تک اس لیے پہنچانا کہ فساد پیدا ہو۔
(ہوسکتا ہے کوئی اس نیت سے نہ پہنچا رہا ہو لیکن اس کے عمل سے فساد اور تفرقہ اور ایک دوسرے سے بغض و عداوت اور نفرت پیدا ہوتی ہو تو بھی اس سے بچنا چاہیے)

3۔ یہ چوتھی صورت بھی عیاض بن غنم کی اس حدیث کے خلاف ہے جو اوپر گزر چکی ہے۔
4۔ آثار صحابہ اور اسلاف کے طریقے کے خلاف ہے۔
5۔ امیر کی اہانت ہے جس کی ممانعت کی گئی ہے۔
6۔ یہ اس لیے بھی جائز نہیں کہ یہی چیز بڑھتے بڑھتے لڑائی جھگڑے اور گالم گلوچ ، اور قتل قتال تک پہنچا دیتی ہے۔ (جیسا کہ اکثر ہم مشاہدہ کرتے رہتے ہیں کہ ہم خیال اور ایک ہی نظریے کہ لوگ اس طرح کی حرکتوں سے آپس میں لڑ پڑتے ہیں)۔

*۔۔۔عبداللہ بن عکیم الجھنی
ابن سعد نے عبداللہ بن عکیم الجھنی کا یہ قول نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا:
لاأعین علی دم خلیفۃ ابدا بعد عثمان۔ فقیل لہ: یا ابا معبد أَوَ أعَنْتَ علی دَمِہِ؟ فیقول انی أعد ذکر مساویہ عوناً علی دمِہِ۔
میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قتل کے بعد آئندہ کسی خلیفہ کے قتل میں مدد نہیں کروں گا۔ تو کسی نے حیرانگی سے پوچھا کیا آپ نے عثمان کے قتل میں مدد کی؟ تو انہوں نے کہا میں صرف باتیں کرنے کو بھی قتل کے مساوی سمجھتا ہوں۔
لہٰذا ہمیں یہاں رک کر ذرا سوچنا چاہیے کہ کسی کے قتل میں اعانت بات سے بھی ہوتی ہے۔
امراء اور صاحب مناصب لوگ محض معاصی کے ارتکاب سے کافر اور دائرہ اسلام سے خارج نہیں ہوجاتے، بلکہ ایسی صورت میں شرعی اور ماثور طریقے سے نصیحت کرنا ہی بہتر ہوتا ہے، اور وہ نصیحت ایسی ہو جس میں خیرخواہی ہو،نرمی اور لطف و کرم والا معاملہ ہو، نہ کہ لوگوں کے مجموں میں یا ایسے پلیٹ فارم پر جہاں ایک بار بات کہہ دی جائے تو واپس لوٹانا مشکل ہوجاتا ہے، جیسے سوشل میڈیا وغیرہ کیونکہ اس سے لوگوں میں ایک دوسرے کے خلاف نفرت اور بغض پیدا ہوتا ہے۔
کیا امیر کے خلاف خروج کرنا یا خروج کی دعوت دینا صرف تلوار کے ساتھ ہی ہوتا ہے؟

*۔۔۔علامہ عبدالعزیز الراجحی فرماتے ہیں:
وَسُءِلَ العلامۃ عبدالعزیز الراجحی: ھل الخروج علی الحکام یکون بالسیف فقط أم یکون باللسان أیضاً کمن ینتقدم الظلم مثلا أو من یطالب بتغییرالمنکرات علانیۃً عن طریق الاعلام والقنوات الفضائیۃ۔
فأجاب: نعم الخروج علی الولاۃ یکون بالقتال وبالسیف ویکون ایضا بذکرالمعیب ونشرھا فی الصحف، او فوق المنابر، اوفی الانترنت، فی الشبکۃ او غیرھا، لأن ذکرالمعایب ھذہ تبغِّض الناس فی االحکام ثم تکون سببا فی الخروج علیہم۔ امیر المومنین عثمان رضی اللہ عنہ لما خرج علیہ (الثوار) نشروا معایبہ أولاً بین الناس وقالوا: انہ خالف الشیخین الذین قبلہ ابوبکروعمر، وخالفھما فی التکبیر وأخذ الزکاۃ علی الخیل وأتم الصلاۃ فی السفر وقرب أولیاء ھوأعطاھم الولایات۔ فجعلوا ینشرونھا فاجتمع(الثوار) ثم أحاطوا ببیتہ وقتلوہ۔
فلا یجوز للانسان أن ینشرالمعایب ھذا نوع من الخروج، فإذانُشرت المعیب۔ معایب الحکام والولاۃ علی المنابر، وفی الصحف، والمجلات، وفی الشبکۃ المعلوماتیۃ أبغض الناس الولاۃ وألَّبوھم علیہم فخرج الناس علیہم۔(شرح المختار فی اصول السنۃ للراجحی 289)
عالم عرب کے مشور عالم علامہ عبدالعزیز الراجحی سے پوچھا گیا کہ کیا حکام کے خلاف خروج صرف تلوار کے ساتھ ہی ہوتا ہے یا کسی اور طریقے سے بھی؟
تو انہوں نے فرمایا: جی ہاں امراء کے خلاف خروج جنگ وجدال اور تلوار کے ساتھ بھی ہوتا ہے اور ان کے عیوب کو بیان کرنے اور ان کی تشہیر کرنے سے بھی چاہے وہ تشہیر پرنٹ میڈیا پر ہو یا الیکٹرانک میڈیا پر، چاہے وہ منبر ومحراب پر ہو یا انٹرنیٹ پر۔ کیونکہ اسی سے لوگوں میں غصہ پیدا ہوتا ہے اور پھر نوبت خروج تک پہنچ جاتی ہے۔

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہوا ، پہلے ان کے خلاف پروپیگنڈا کیا گیا اور ان کے خلاف لوگوں میں خوب چرچا کیا گیا اور کہا گیا کہ حضرت عثمان نے وہ راستہ چھوڑ دیا ہے جو حضرت ابوبکر اور عمر کا تھا، اب یہ گھوڑوں پر بھی زکو? وصول کررہے ہیں، سفر میں پوری نماز پڑھتے ہیں، رشتہ داروں کو نوازتے ہیں، اور ان کو حکومتی مناصب پر بٹھا رہے ہیں۔ چنانچہ اس قسم کی باتوں کو پہلے خوب پھیلایا گیا اور پھر ان کے گھر کا گھیراو کیا گیا اور ان کو شہید کردیا گیا۔ (شرح المختار فی اصول السنۃ للراجحی 289)

*۔۔۔علامہ احمد النجمی فرماتے ہیں:
وقال العلامۃ احمدالنجمی رحمہ اللہ: والخروجُ علیہم ینقسم الی قسمین:
۱۔ خروج فعلی بالسیف وما فی معناہ۔
۲۔خروج قولی: أن یتکلم الانسانُ فی ولاۃ الامر، ویقدح فیھم، ویذمھم، دعوۃ الی الخروج علیہم۔(فتح الرب الغنی بتوضیح شرح السنۃ للمزنی51)
امیر کے خلاف خروج دو طرح کا ہوتا ہے۔
1۔ایک تلوار کے ساتھ۔
2۔ خروج قولی، یعنی انسان امیر کے بارے کلام شروع کردے اور اس کی مذمت شروع کردے تو یہ دراصل خروج کی طرف دوسروں کو دعوت دینا ہے۔
یہ بات بالکل درست ہے کیونکہ اکثر خروج اور قتل قتال اور لڑائی جھگڑے کی نوبت بعد میں آتی ہے پہلے زبان سے ہی آغاز ہوتا ہے۔

*۔۔۔علامہ محقق ابن عثیمین فرماتے ہیں:
لایمکن خروج بالسیف الا وقد سبقہ خروج باللسان
خروج باالسیف اس وقت تک ممکن ہی نہیں جب تک خروج باللسان نہ ہو۔ کیونکہ لوگ اس وقت تک لڑنے بھڑنے کے لیے تیار ہی نہیں ہوتے جب تک کہ ان کو ابھارا نہ جائے۔

*۔۔۔علامہ صالح الفوزان سے پوچھا گیا کہ
کیا خروج باللسان بھی خروج باالسیف ہی کی طرح ہے؟
الخروج علی الحاکم بالقول قد یکون اشد من الخروج بالسیف، بل الخروج بالسیف مترتب علی الخروج بالقول۔
تو انہوں نے فرمایا: خروج بالقول زیادہ سخت ہے خروج بالسیف سے، بلکہ خروج بالسیف دراصل خروج بالقول ہی کی وجہ سے ہوتا ہے۔

*۔۔۔علامہ مجاہد ربیع بن ہادی سے یہی سوال پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا:
بدایۃُ الخروج بالکلام، الکلام فی تھییج الناس وتثویرھم وشحنہم والقاء البغضاء بین الناس، ھذہ فتنۃ قد تکون اشد من السیفہا یکون السیف
خروج کا آغاز ہی کلام سے ہوتا ہے۔ کیونکہ کلام ہی لوگوں کو ابھارتا بھی ہے اور ان کے دلوں میں امیر سے بغض پیدا کرتا ہے، کلام کا فتنہ سیف کے فتنے سے زیادہ سخت ہے۔

*۔۔۔عبداللہ بن عکیم فرماتے ہیں:
لاأُعینُ علی دَمِ خلیفۃ أبدا بعد عثمانَ: قال فیقالُ لہ: یاأبا معبدٍ أَوَ أَعَنتَ علی دَمِہِ؟ فقال: إنی لأَعُدُّذِکْرَ مَسَاوِیہِ عَوْناً عَلَی دَمِہِ۔(رواہ ابن سعد فی الطبقات6/115، واخرجہ ابن ابی شیبۃ فی مصنفہ6/362 وغیرہما)
عبداللہ بن عکیم کہتے ہیں: میں نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے خون کے بعد کسی خلیفہ کے خون کرنے پر معاونت نہیں کی۔ ان سے کہا گیا اے ابو معبد! کیا آپ نے ان کے قتل کرنے پر معاونت کی تھی؟ انہوں نے جواب دیا کہ: میں ان کی کوتاہیاں بیان کرنے کو گویا کہ ان کے قتل پر معاونت شمار کرتا ہوں۔( یعنی میں ان کی کوتاہیاں بیان کیا کرتا تھا، اور یہی قتل پر معاونت ہے)۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ امیر کے خلاف باتیں کرنا اور ان کے خلاف لوگوں میں چرچا کرنا، چاہے منبر ومحراب کے ذریعے یا میڈیا کے ذریعے یہ درست عمل نہیں ہے کیونکہ اس سے لوگوں میں امیر کی اہانت اور عدم اطاعت پیدا ہوتی ہے جو فتنے اور تفرقے کا ذریعہ بنتی ہے۔
ایک شبہ اور اس کا ازالہ:
جب لوگوں سے کہا جاتا ہے کہ امیر یا صاحب منصب کے خلاف اس طرح محاذ نہیں قائم کرنا چاہیے تو وہ دلیل کے طور پر ترمذی کی وہ حدیث پیش کرتے ہیں جس میں فرمایا گیا ہے:
عن ابی سعید الخدری ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال: إن مِن أعظم الجہاد کلمۃَ عدلٍ عِندَ سُلطانٍ جائرٍ۔
ظالم حکمران کے سامنے کلمہ حق کہنا بہت بڑا جہاد ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ فرمان رسول برحق ہے، لیکن اصل مسئلہ اس حدیث کو سمجھنے کا ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ اس حدیث میں عندسلطان کا لفظ ہے، عند یعنی پاس،سامنے۔
دوسری بات یہ کہ یہ حدیث اعلان پر دلالت نہیں کرتی۔ بلکہ ہمیں اس حدیث کو عیاض بن غنم کی اس حدیث کے ساتھ ملاکر سمجھنا چاہیے جس میں اعلانیہ رد اور نصیحت سے منع کیا گیا ہے۔

*۔۔۔امام احمد فرماتے ہیں:
نصیحت کرنے میں دو چیزیں ہونی چاہیے: 1۔ نرمی، 2۔حاضری، یعنی آمنے سامنے نہ کہ لوگوں میں چرچے۔

*۔۔۔امام نووی فرماتے ہیں:
تنبیہ اور نصیحت نہایت نرمی سے ہونی چاہیے۔(شرح مسلم)

*۔۔۔علامہ ابن قیم فرماتے ہیں:
روساء کو ان کلمات اور اس طریقے سے مخاطب کرنا چاہیے جو شرعا، عقلا اور عرفا مطلوب ہے۔(بدائع الفوائد)

*۔۔۔عبداللہ بن مبارک فرماتے ہیں:
ان الجماعۃ حبل اللہ فاعتصموا منہ بعروتہ الوثقی۔
جماعت اللہ کی رسی ہے، اس کو مضبوط کڑے کی طرح پکڑلو۔(آداب الشریعہ)

*۔۔۔ابن رجب الحنبلی فرماتے ہیں:
ائمۃ المسلمین کی اصلاح کرنا، ان کی رہنمائی کرنا ان کو انصاف پر قائم رکھنا، حق پر ان کی مدد کرنا اور منکر پر ان کو نصیحت اور تنبیہ کرنا ضروری ہے لیکن نہایت نرمی اور شفقت کے ساتھ، اور علیحدگی میں۔(جامع العلوم والحکم)۔

*۔۔۔مشہور محدث امام یحی بن معین فرماتے ہیں:
میں جب کسی کی کوئی خطا دیکھتا ہوں تو پردہ پوشی کرتا ہوں، اور اس کی طرف غلط طریقے سے متوجہ نہیں ہوتا بلکہ تنہائی میں اسے سمجھاتا ہوں اگر مان جائے تو ٹھیک ورنہ چھوڑ دیتا ہوں۔(سیر اعلام النبلاء )

*۔۔۔حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
ایک شخص نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے لوگوں کے سامنے کہا:
یاأمیرالمؤمنین: إنک أخطأت فی کذا وکذا، وأنصحُکَ بِکذا وبکذا
یاامیرالمومنین آپ نے یہ اور یہ غلطی کی ہے، اور میں آپ کو یہ اور یہ نصیحت کرتا ہوں۔
تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
إذا نصحتَنی فانصھنی بینی وبینک، فإنی لا آمن علیکم ولا علی نفسی حین تنصحنی علناً بین الناس۔
جب تو مجھے نصیحت کرنا چاہے تو تنہائی میں کیا کر۔ کیونکہ اس طرح برسرعام نصیحت کرنے سے شاید میں اپنے آپ پر قابو نہ پاسکوں اور تو مجھ سے محفوظ نہ رہ سکے۔

*۔۔۔حافظ ابن رجب رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وکان السلف إذا أرادوا نصیحۃ أحدٍ، وعظوہ سراً، حتی قال بعضہم: مَن وعظ أخاہ فیما بینہ وبینہ، فہی نصیحۃ، ومن وعظہ علی رؤوس الناس فإنما وَبخہ۔
ہمارے اسلاف جب کسی کو نصیحت کرنا چاہتے تو خفیہ نصیحت کرتے تھے۔ بعض لوگوں نے تو یہاں تک کہا ہے کہ: جس نے اپنے بھائی کو تنہائی میں نصیحت کی تو یہ نصیحت ہے، اور جس نے سب کے سامنے کی تو یہ ملامت کرنا اور ذلیل کرنا ہے۔

*۔۔۔فضیل بن عیاض رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
المؤمن یستر و ینصح، والفاجر یھتک ویعیر
مومن ستر رکھتا اور نصیحت کرتا ہے، جبکہ فاجر ہتک کرتا اور عار دلاتا ہے۔(جامع العلوم77)
فضیل بن عیاض کے اس قول پر تبصرہ کرتے ہوئے حافظ ابن رجب کہتے ہیں:
فہذا الذی ذکرہ الفضیل من علامات النصح، وھو ان النصح یقترن بہ الستر، والتعییر یقترن بہ الإعلان۔
یہ جو فضیل نے کہا یہ اصل نصیحت ہے، نصیحت میں پردہ پوشی ہوتی ہے جبکہ اعلان میں ہتک اور عار ہوتی ہے۔(الفرق بین النصیۃ والتعییر36)۔

*۔۔۔امام ابو حاتم بن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
نصیحت ’’سراً ‘‘ کرنا ہی ضروری ہے۔ کیونکہ جو اپنے بھائی کو اعلانیہ نصیحت کررہا ہوتاہے وہ اس کی برائی کررہا ہوتا ہے(یا اس کو مزید برا کررہا ہوتا ہے) اور جو خفیہ نصیحت کرتا ہے وہ اسے مزید مزین کررہا ہوتا ہے(یا مزید اچھا کررہا ہوتا ہے۔ (روضۃ العقلاء 196)۔

*۔۔۔عبدالعزیز بن ابی داود رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
پہلے لوگ جب نصیحت کرتے تھے تو نرمی سے کرتے تھے، چنانچہ ان کو اس امربالمعروف اور نہی عن المنکر پر اجر ملتا تھا۔ اور اب، اب تو جلاتے ہیں، غصہ دلاتے ہیں، ہتک کرتے ہیں۔(جامع العلوم 77)

*۔۔۔امام ابن حزم فرماتے ہیں:
إذا نصحت فانصح سراً، لاجھراً، أو بتعریضٍ لابتصریحٍ، إلالمن لایفہم، فلا بُدَّ مِن التصریح لہ۔
جب تو نصیحت کرے تو خفیہ کر نہ کھلم کھلا، یا اشاروں کنایوں میں کر نہ کہ صراحت کے ساتھ۔ سوائے اس کے کہ وہ اگر اشارے کو نہ سمجھ سکے تو پھر صراحت ضروری ہے۔(رسائل ابن حزم)
اور مزید فرماتے ہیں: اگر تیری نصیحت میں خشونت ہوگی تو یہ تنفیر کا باعث بنے گی، اللہ تعالیٰ تو فرماتے ہیں۔ فقولا لہ قولا لینا(طہ) اے موسی و ہارون تم فرعون سے نرمی کے ساتھ بات کرنا۔اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فرمایا:
یسروا ولا تعسروا وبشروا ولا تنفروا
آسانی کرو مشکل نہ کرو، بشارت دو، متنفر نہ کرو (متفق علیہ)

*۔۔۔امام شوکانی فرماتے ہیں:
اگر امام یا امیر کی بعض مسائل میں غلطیاں نظر آئیں تو اسے نصیحت کی جائے اور لوگوں کے سامنے اس کی برائی نہ بیان کی جائے جیسا کہ حدیث میں ہے کہ اس کا ہاتھ پکڑ کر تنہائی (ون ٹو ون ملاقات) میں نصیحت کرواور امیر کو ذلیل نہ کرو۔ (السیل الجرار)

*۔۔۔شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب فرماتے ہیں:
إذا صدر المنکر من أمیر أو غیرہ أن ینصح برفق خفیۃ ما یشرف علیہ أحد فإن وافق، والا استلحق علیہ رجلاً یقبل منہ بخفیۃ۔
جب امیر یا کسی اور سے کوئی منکر صادر ہوجائے تو اسے نرمی اور ایسے خفیہ طریقے سے نصیحت کی جائے کہ کسی اور کو پتا نہ چلے، اگر تو مان لے تو ٹھیک ورنہ کسی دوسرے ذریعے اور شخص کے ذریعے خفیہ نصیحت کی جائے۔(الدرر السنیۃ)۔

*۔۔۔شیخ عبدالعزیز بن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
لیس من منہج السلف التشہیر بعیوب الولاۃ وذکر ذلک علی المنابر، لان ذلک یفضی الی الانقلابات، وعدم السمع والطاعۃ فی المعروف، ویفضی الی الخروج الذی یضر ولا ینفع، ولکن الطریقۃ المتبعۃ عندالسلف النصیحۃ فیما بینھم وبین السلطان، والکتابۃ الیہ، اوالاتصال بالعلماء الذین یتصلون بہ حتی یوجہ الی الخیر وانکار المنکر یکون من دون ذکر الفاعل، فینکر الزنی وینکر الخمر وینکر الربا من دون ذکر من فعلہ، ویکفی انکار المعاصی والتحذیر منہا من غیر ان فلانا یفعلھا، لاحاکم ولا غیر حاکم، ولما وقعت الفتنۃ فی عہد عثمان، قال بعض الناس لاسامۃ بن زید رضی اللہ عنہ: ألا تنکرعلی عثمان، قال: أنکر علی عندالناس لکن أنکر علیہ بینی وبینہ، ولا افتح باب شرعلی الناس، ولما فتحوا الشر فی زمن عثمان رضی اللہ عنہ وانکروا علی عثمان جھرۃ تمت الفتنۃ القتال والفساد الذی لا یزال الناس فی آثارہ الی الیوم حتی حصلت الفتنۃ بین علی ومعاویۃ وقتل عثمان وعلی باسباب ذلک۔ وقتل جمع کثیر من الصحابۃ وغیرہم باسباب الانکار العلنی وذکر العیوب علنا، حتی أبغض الناس ولی امرھم وحتی قتلوہ، نسأل اللہ العافیۃ( نصیحۃ الامۃ فی جواب عشرۃ أسئلۃ مہمۃ)
ہمارے اسلاف کا یہ طریقہ نہیں تھا کہ اولوالامر اور صاحب منصب لوگوں کے عیوب کی منبروں(میڈیا) پر تشہیر کی جائے، کیونکہ یہ چیز لوگوں کو سمع و طاعت فی المعروف سے بھی دور کردیتی ہے، اور ایسی بغاوت پر ابھارتی ہے جس کا نقصان ہے فائدہ کوئی نہیں۔ ہمارے اسلاف سے اصل طریقہ جو منقول ہے وہ تنہائی ( ون ٹو ون ملاقات کی شکل ) میں نصیحت کرنا ہے، اور خط وکتابت کرنا ہے، یا ان کے مقربین علماء4 وغیرہ کے ذریعے ان کو سمجھانے کی کوشش کرنا ہے۔اور یہ اصلاح کی کوشش ایسے کرنی چاہیے جس میں گناہ کا ذکر تو ہو لیکن فاعل کا ذکر نہ ہو۔ یہی وہ طریقہ تھا جس کی خلاف ورزی کرنے کی وجہ سے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دور میں ایسا فتنہ برپا ہوا جو حضرت عثمان، حضرت علی ، اور بے شمار صحابہ کرام کی شہادت کی وجہ بنا اور آج تک ختم نہیں ہوسکا۔کیونکہ وہاں بھی کچھ لوگوں نے علی الاعلان عیوب کو بیان کرنا شروع کردیا تھا، جس سے لوگ متنفر ہوئے اور امیرالمومنین کو قتل کرنے کے لیے تیار ہوگئے۔

*۔۔۔امام محمد بن صالح فرماتے ہیں:
النصح لولاۃ الأمور امر مہم وھو أھم من النصح لعامتھم ولکن کیف یکون ذلک۔ لا بد من سلوک الحکمۃ فی النصیحۃ لھم۔ فمن النصیحۃ لأمراء:

اولا: أن تعتقد وجوب طاعتھم فی غیر معصیۃ اللہ ھذا من النصیحۃ لھم لأنک إذا لم تعتقد ذلک فلن تطیعہ۔ ومن الذی أوجبھا اللہ عزوجل فی قولہ تعالیٰ: یاأیھاالذین آمنوا أطیعوا اللہ والرسول وأولی الأمر منکم۔ وفی قول النبیﷺ وأطیعوا وفی مبایعۃ الصحابۃ لہ علی ذلک کما فی حدیث عبادۃ بن الصامت: بایعنا رسول اللہﷺ علی السمع والطاعۃ فی منشطنا ومکرھنا ویسرنا وعسرنا علی أثرۃ علینا۔

ثانیاً: أن نطیع أوامرھم الا فی معصیۃ اللہ۔ وان عصوا یعنی لوکانوا فسَّاقاً یشربون الخمر۔ ویعاقرون النساء۔ ویلعبون القمار یجب علینا طاعتھم۔ حتی فی ھذہ الحال وان عصوا۔ لکن ان أُمروا بالمعصیۃ۔ ولو کانت أدنیٰ معصیۃ۔ ولو لم تکن کبیرۃ۔ فانہ لا یجب أن نطیعھم۔ ولکن ھل نُنابذ أو أن نقول لا نستطیع أن نفعل۔ ونقابلھم بھدؤ لعلھم یرجعون۔ یتعین لثانی۔ لأن منابذتھم قد تؤدی الی أن یرکبوا رؤوسھم۔ وأن یُلزِموک ویُکرھوکَ علی الشیء۔ لکن اذا أتیت بھدؤ ونصیحۃ۔ وقلت: ربنا وربک اللہ۔ واللہ عزوجل نھی عن ھذا۔ والذی أوجب علینا طاعتکم ھواللہ عزوجل۔ لکن فی غیر المعصیۃ۔ وتُھادؤہ۔ فإن اھتدی فھذا ھوالمطلوب۔ وإن لم یھتدی وأجبر فأنت معذور لأنک مُکرہ۔

ثالثا: إبداءُ خطأھم فیما خالفوا فیہ الشرع بمعنی أن لا نسکت ولکن علی وجہ الحکمۃ والا خفاء ولھذا أمرالنبی علیہ الصلاۃ والسلام اذا رأی الانسان من الامیر شیئا أن یمسک بیدہ ذکر النصیحۃ أن تمسک بیدہ وأن تکلمہ فیما بینک وبینہ لاأن تقوم فی الناس وتنشر معایبہ لان ھذا یحصل بہ فتنۃ عظیمۃ السکوت عن الباطل لا شک أنہ خطا، لکن الکلام فی الباطل الذی یؤدی الی ما ھو أشد ھذا خطا ایضا، فالطریق السلیم الذی ھو النصیحۃ وھو من دین اللہ عزوجل ھو ان یاخذ الانسان بیدہ، ویکلمہ سراً، ویکاتبہ سراً، فان أمکن أن یوصلہ ایاہ فھذا المطلوب والا فھناک قنوات، الانسان البصیر یعرف کیف یوصل ھذا النصیحۃ الی الامیر بالطریق المعروف۔

خامساً: احترامہ الاحترام اللائق بہ، ولیس احترام ولی الامر کاحترام عامۃ الناس، ربما یاتیک فاسق من عامۃ الناس لا تبالی بہ، ولا تلتفت الیہ، ولا تکلمہ، ولکن ولی الامر علی خلاف ذلک، ولا سیما اذا کا امام الناس، لأنک اذا أظھرت أنک غیر مبالٍ بہ، فإن ھذا ینقص من قدرہ أمام الناس، ونقصان قدر الامیر أمام الناس لہ سلبیات خطیرۃ جدا، ولا سیما اذا کثرت البلبلۃ وکثر الکلام فانہ یؤدی الی مفاسد عظیمۃ، وکما یتبین لمن کان منکم متأمّلاً احوال الناس الیوم۔(خطبۃ مسجلۃ)
امراء کو نصیحت کرنا ایک مشکل ترین کام ہے، اور یہ عام لوگوں کو نصیحت کرنے کی نسبت زیادہ اہم بھی ہے، لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ کیسے کیا جائے؟ لہٰذا یہ ضروری ہے کہ یہ کام حکمت و بصیرت سے کیا جائے۔ جس کے لیے مندرجہ ذیل امور نہایت ضروری ہیں:

اول*۔۔۔:
یہ کہ امیر کی اطاعت فی المعروف واجب ہے، یہ ان کے لیے خیرخواہی ہے، کیونکہ جب آپ یہ بنیادی بات ہی نہیں سمجھیں گے تو اطاعت کیسے کریں گے۔ اور یہ اطاعت کس نے واجب کی ہے؟ اللہ عزوجل نے واجب کی ہے جیسا کہ فرمایا: اے ایمان والو اطاعت کرو اللہ کی اور رسول کی اور اولی الامر کی۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سنو اور اطاعت کرو۔ اور صحابہ کرام سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جو بیعت لی اس میں یہ بات شامل تھی، جیسا کہ عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کی بیعت ہے: کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بات پر بیعت کی کہ سنیں گے، اور اطاعت کریں گے، تنگی میں بھی آسانی میں بھی، دل مانے یا نہ مانے اور تب بھی جب ہم پر کسی اور کو ترجیح دی جائے، اور امرا سے جھگڑا نہیں کریں گے یہاں سوائے اس وقت کے جب ان سے کھلم کھلا کفر سرزد نہ ہوجائے۔

دوم*۔۔۔:
ہمیں امراء کی اطاعت فی المعروف کرنی چاہیے، اگرچہ ان سے کوئی گناہ سرزد ہوجائے۔ یعنی اگر امراء فساق ہوں شراب پیتے ہوں، جوا کھیلتے ہوں تب بھی اطاعت فی المعروف واجب ہے۔ہاں اگر وہ کسی معصیت کا حکم کریں تو پھر اطاعت نہیں، اگرچہ وہ معمولی سی معصیت کیوں نہ ہو۔

سوم*۔۔۔:
نصیحت ایسی ہونی چاہیے کہ اس میں لوگوں کو بغاوت پر نہ ابھارا گیا ہو۔ اور بغاوت پر ابھارنا صرف یہ نہیں ہوتا کہ لوگوں سے کہا جائے بغاوت کرو۔ بلکہ بغاوت پر ابھارنا یہ بھی ہے کہ امیر کی خوبیوں کو چھپایا جائے اور خامیوں کا چرچا کیا جائے۔ کیونکہ انسان بشر ہے، جب اس کے سامنے کسی کی خامیاں بیان کی جاتی ہیں اور خوبیاں چھپائی جاتی ہیں تو انسان کے دل میں اس آدمی سے بغض پیدا ہوجاتا ہے۔ (اور یہی بغض بغاوت، سرکشی، عدم اطاعت اوراجتماعیت کو توڑ کر افتراق کا سبب بنتا ہے)۔

چہارم*۔۔۔:
نصیحت میں حکمت و بصیرت سے کام لینا چاہیے۔ یعنی امیر کو نصیحت کرتے ہوئے پہلے ان امور کی طرف متوجہ کرنا چاہیے جو شریعت(قرآن و سنت ناکہ کسی انسان کے موقف) کی خلاف ورزی میں آتے ہیں۔ اور اس میں بھی اخفاء سے کام لینا چاہیے جیسا کہ حدیث میں ہے کہ جب امیر یا صاحب منصب کو نصیحت کرنی ہو تو اس کا ہاتھ پکڑ کر تنہائی (ون ٹو ون ملاقات) میں سمجھائے، نا کہ لوگوں کے مجمے میں کھڑا ہو کر تشہیر کرے، کیونکہ اس سے فتنہ پیدا ہوتا ہے۔ لہٰذا سلامتی والا راستہ یہی ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کے بتائے ہوئے طریقے پر عمل کیا جائے، انسان کو اللہ تعالیٰ نے عقل و بصیرت سے نوازا ہے وہ اچھی طرح جانتا ہے کہ تشہیر اور چرچے کے بغیر کون کون سے چینلز کو استعمال کرتے ہوئے نصیحت کی جاسکتی ہے۔

پنجم*۔۔۔:
امیر کو نصیحت کرتے ہوئے اس احترام کو ملحوظ رکھا جائے جس کا وہ حقدار ہے۔ امیر کا احترام عام لوگوں کے احترام کی طرح نہیں ہوتا۔ کئی بار ایسا ہوتا ہے کہ آپ کے پاس ایک عام فاسق آدمی آتا ہے آپ اس کی پرواہ بھی نہیں کرتے، نہ اس کی طرف متوجہ ہوتے ہیں، اور نہ اس سے کلام کرتے ہیں۔ لیکن امیر کا معاملہ برعکس ہے، امیر کو لوگوں کے سامنے ذلیل کرنا اور اس کے عیوب کا (میڈیا) پر چرچا کرنا بہت نقصان دہ ہے اور کئی مفاسد کا پیش خیمہ ہے۔(خطبہ مسجلۃ)

*۔۔۔علامہ صالح الفوزان ایک استفتاء کے جواب میں فرماتے ہیں:
سوال: نصیحت کرنے کاخاص طور پر حکام کونصیحت کرنے کا اصل منہج کیا ہے؟ کیا ان کا افعال منکرہ کی تشہیر کرنی چاہیے؟ یا تنہائی میں سمجھانا چاہیے؟ امید ہے آپ اس مسئلے میں اصل منہج کی طرف رہنمائی فرمائیں گے۔
جواب: کوئی بھی شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح معصوم نہیں ہے۔ مسلمانوں کے امیر اور حکام بشر اور خطا کار ہیں، اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ معصومین نہیں ہیں۔لیکن ہمارے لیے یہ جائز نہیں کہ ہم کھلم کھلا تشہیر کے انداز میں ان کی خطاوں کا چرچا کرنے لگ جائیں اور ان کی اطاعت سے ہاتھ کھینچ لیں، اگرچہ وہ ظلم و زیادتی بھی کریں، اگرچہ وہ معصیت کا ارتکاب بھی کریں، یہاں تک کہ جب وہ کفر بواح یعنی کھلم کھلا کفر کریں تو تب ہم اپنا ہاتھ کھینچ سکتے ہیں، جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا حکم دیا۔ امراء اگر گناہ گار ہوں، ظلم و زیادتی کرنے والے ہوں تو بھی صبر ہی بہتر ہے اور یہی کلمے کو جمع رکھ سکتا ہے اور مسلمانوں کی وحدت کا پاسبان ہے۔ جبکہ ان کی کھلم کھلا مخالفت اور انکار میں بڑے بڑے مفاسد ہیں۔ ان کے کسی منکر کا ارتکاب کرنے سے اتنا نقصان نہیں ہوتا جتنا نقصان تفرقے اور پھوٹ ڈالنے سے ہوتا ہے۔ سوائے اس کے کہ وہ شرک اور کفر کا ارتکاب کرنے لگ جائیں تو وہ علیحدہ بات ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ ان کے منکر پر خاموشی اختیار کی جائے بلکہ اس کا علاج کرنا چاہیے، لیکن وہ علاج سلامتی والے طریقے سے ہو، تنہائی اور خط و کتابت کی شکل وغیرہ میں ہو۔ اور پھر یہ خط و کتابت بھی ایسی نہیں ہونی چاہیے کہ آپ اسے(ان خطوط اور تحریروں کو) لوگوں کو دکھاتے پھریں، بلکہ یہ بھی خفیہ ہی ہونی چاہیے۔ جبکہ ایسی خط و کتابت یا تحریر و تصویراور اس کی لوگوں میں تقسیم(پرنٹ کرکے یا میڈیا پر) یہ عمل جائز نہیں ہے، کیونکہ یہ تشہیر ہے، اور یہ سرعام بات کرنے کی طرح ہے، بلکہ اس سے بھی زیادہ سخت ہے کیونکہ ویسے کی ہوئی بات ممکن ہے لوگ بھول جائیں لیکن خط اور تحریر(یعنی پرنٹڈ مواد یا ریکارڈ شدہ ویڈیو،آڈیو) لوگوں کے پاس سالوں سال باقی رہے گی۔لہٰذا یہ حق نہیں ہے۔(الاجوبۃ المفیدۃ 27)

*۔۔۔ایک اور سوال کے جواب میں الشیخ فوزان فرماتے ہیں:
بل تعالج ولکن تعالج بالطریقہ السلیمۃ بالمناصحۃ لھم سرا والکتابۃ لہم سرا ولیست بالکتابۃ التی تکتب بالانترنیت او غیرہ ویوقع علیھا جمع کثیر وتوزع علی الناس فھذا لایجوز لانہ تشہیر۔۔۔۔۔۔۔الخ
خط وکتاب خفیہ ہو، ایسی خط و کتاب نہ ہو کہ آپ انٹر نیٹ وغیرہ(سوشل میڈیا) پر اس کی تشہیر کرتے پھریں اور لوگوں میں شائع اور تقسیم کریں یہ جائز نہیں ہے۔یہ لوگوں میں ویسے تقریر کرنے سے بھی زیادہ سخت ہے کیونکہ ویسے کی ہوئی بات لوگوں کو کسی وقت بھول بھی جائے گی لیکن میڈیا پر شائع شدہ بات لوگوں کے پاس باقی رہے گی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دین خیرخواہی کا نام ہے۔ دین خیرخواہی کا نام ہے۔ دین خیرخواہی کا نام ہے۔تو صحابہ نے پوچھا کس کے لیے تو فرمایا: اللہ کے لیے اس کی کتاب کے لیے اس کے رسول کے لیے اور عام مسلمانوں اور ان کے حکام کے لیے۔(مسلم) جبکہ ایک اور حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ تین چیزوں سے راضی ہوتا ہے ۔ یہ کہ صرف اسی کی عبادت کی جائے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کیا جائے، اور یہ کہ اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑا جائے، اور یہ کی اولوالامر کو نصیحت کی جائے۔
اولوالامر کو ایسے طریقے سے نصیحت کرنا کہ ان کی خطاوں کی تشہیر ہو، اگرچہ اس نیت اچھی ہو لیکن یہ اصل منہج نہیں ہے، کیونکہ نہی عن المنکر کرنے کا طریقہ بھی ہمیں شریعت نے بتایا ہے، اور شریعت کے راستے سے ہٹ کر نہی عن المنکر کرنا خود ایک منکر ہے۔
خلاصہ کلام:
کسی بھی شخص کو چاہے وہ اولوالامر میں سے ہو یا عام شخص، نصیحت یا تبلیغ کرتے ہوئے، ان آداب اور تعلیمات کا خیال رکھنا نہایت ضروری ہے جو ہمیں اللہ کی کتاب قران حکیم، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت، صحابہ کرام اور اسلاف کے منہج میں ہم تک پہنچیں ہیں۔

*۔۔۔عقلا بھی تقاضا یہی ہے کہ اگر آپ اپنے موقف میں مخلص ہیں اور یہ چاہتے ہیں کہ اگلا شخص آپ کی بات کو قبول کرے تو اپنی بات منوانے کے لیے خلوص کے ساتھ ساتھ حکمت و بصیرت کا سہارا بھی لینا چاہیے، کیونکہ رازداری کے سمجھانے اور ساری پبلک میں شور شرابا کرنے میں زمین آسمان کا فرق ہے، اس طرح کرنے سے ضد تو پیدا ہوتی ہے محبت نہیں۔

*۔۔۔تبلیغ کی کوئی لمٹ نہیں ہے، حضرت نوح علیہ السلام نے 950 سال تبلیغ کی اور صرف ستر بہتر لوگوں نے قبول کیا لیکن وہ خود کامیاب ہوگئے۔ اصل کامیابی اپنی اخروی نجات ہے، فوکس اس پر ہونا چاہیے کہ میری کامیابی کیا ہے اور کیا نہیں ہے، نا کہ اس پر کہ میرا موقف میری سانسیں ختم ہونے سے پہلے غلبہ پاجائے۔ جب نظریہ یہ بن جاتا ہے کہ میرا موقف یا میرا نظریہ غالب کیوں نہیں آرہا تو مایوسی چھا جاتی ہے، اور یہ وہ مرحلہ ہوتا ہے جب انسان سب سے زیادہ کمزور ہوجاتا ہے اورکمزوری کے اس لمحے میں نہ صرف شیاطین بلکہ انسان نما شیاطین بھی بڑی آسانی سے اسے شکار کرلیتے ہیں۔ اس لیے مایوسی کا شکار ہو کر کبھی بھی اپنے آپ کو اتنا کمزور نہیں کرنا چاہیے کہ کوئی بھی شخص آپ کی نکیل پکڑ کر کبھی ادھر کرے اور کبھی اُدھر کرے۔

*۔۔۔ایک فرد کا کام بس اتنا ہے کہ وہ اپنے حصے کا کام کرتا چلا جائے اور کرتا چلا جائے۔ نتیجے کا فورا ظاہر کرنا نہ کسی کے بس میں ہے اور نہ کسی کی ذمہ داری ہے۔ البتہ کام کرنے میں اخلاقی لحاظ سے کبھی بھی اس منہج کو ترک نہ کرے جو اسلام نے ہمیں دیا ہے۔

*۔۔۔مروجہ سیاسی جماعتوں کے جھگڑوں کی طرح الزام تراشی، بہتان بازی، میڈیا ٹاک جسے ہر متعلقہ اور غیر متعلقہ سنے اور دیکھے، اور پھر اس میں بھی انہیں مروجہ سیاسی جماعتوں کے طریقہ کار کی طرح اپنے تئیں ثبوت لالاکر دکھانا اور پیش کرنا کسی بھی صورت دینی جماعتوں، اور ان کے کارکنان اور رفقاء کے شایان شان نہیں، کیونکہ یہ طریقہ مخالف فریق کا تو ہوسکتا ہے، دین کے مبلغ اور داعی کا نہیں۔

*۔۔۔ داعی کا مزاج خیرخواہانہ ہوتا ہے نہ کہ دوسرے کو نیچا دکھانے اور رسوا کرنے والا۔جبکہ مروجہ سیاسی جماعتوں میں فریق مخالف کو نیچا دکھا کر ووٹ توڑنے کی کوشش کی جاتی ہے، اور چند ایک ووٹ توڑ کراپنے ساتھ ملانے سے آگے ان کا اور کوئی مقصد نہیں ہوتا۔چنانچہ سیاسی جماعتوں میں دوسروں کے ووٹ توڑ کر اپنے ساتھ ملانے کی کوشش میں ہر جائز و ناجائز حربہ آزمایا جاتاہے۔ جبکہ داعی کا معاملہ ایسا نہیں ہوتا ، داعی کا ایک راستہ بند ہو تو وہ جواز کے دائرے میں رہتے ہوئے کوئی دوسراراستہ تلاش کرلیتا ہے۔ ایک مورچہ چھوٹے تو دوسرے میں بیٹھ جاتا ہے۔

*۔۔۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں قرآن و سنت کی تعلیمات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

قرآن کیوں نازل ہوا۔؟

قرآن کیوں نازل ہوا

(سیدعبدالوہاب شاہ)

سورہ بقرہ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:

شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِيْ اُنْزِلَ فِيْهِ الْقُرْاٰنُ هُدًی لِّلنَّاسِ وَبَيِّنٰتٍ مِّنَ الْهُدٰی وَالْفُرْقَانِ.

’’رمضان کا مہینہ (وہ ہے) جس میں قرآن اتارا گیا ہے جو لوگوں کے لیے ہدایت ہے اور (جس میں) رہنمائی کرنے والی اور (حق و باطل میں) امتیاز کرنے والی واضح نشانیاں ہیں‘‘۔البقرة، 2: 185

اللہ تعالیٰ نے رمضان کا تعارف قرآن کے ساتھ کرایا ہے، یعنی رمضان کی عظمت اور فضیلت اس وجہ سے ہے کہ اس میں قرآن نازل ہوا، ورنہ رمضان بھی باقی مہینوں کی طرح ایک مہینہ ہے۔اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ جس چیز نے رمضان کے مہینے کو عظیم بنا دیا وہ قرآن ہے تو قرآن کیا ہے۔؟ چنانچہ آگے کے چند الفاظ میں قرآن کا تعارف یوں کروایا کہ وہ انسانوں کو ہدایت دینے والی کتاب ہے۔

Nukta Colum 003 9

یعنی اللہ تعالیٰ قرآن کا تعارف ہدایت کے ساتھ کروارہے ہیں کہ یہ ہدایت کی کتاب ہے۔ قرآن کا یہ تعارف یعنی ہدایت کی کتاب ہونا صرف اسی مقام پر نہیں بلکہ قرآن کی مختلف سورتوں میں کئی مقامات پر آیا ہے۔

سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا ہمیں قرآن کا یہ تعارف ہے۔؟؟ عام طور پر عوام میں قرآن  کوایصال ثواب کی کتاب سمجھا جاتا ہے۔ یا برکت کی کتاب سمجھا جاتا ہے ، جب کوئی نئی دکان یا مکان بنایا جاتا ہے تو بچوں کو بلا کر ختم شریف پڑھ لیا جاتا ہے تاکہ برکت حاصل ہوجائے، یا کسی کے انتقال کے بعد ختم کرلیا جاتا ہے کہ ایصال ثواب ہوجائے۔یا پھر مختلف سورتوں کے من گھڑت فضائل کہ فلاں سورت کو اتنی بار پڑھنے سے کاروبار تیز ہوجائے گا۔ فلاں سورت کو بوتل میں بند کرکے کچن میں رکھنے سے کچن کبھی خالی نہیں ہوگا وغیرہ وغیرہ باتیں مشہور ہوچکی ہیں۔اور عام عوام میں قران کا یہی تعارف مشہور و معروف ہے اور لوگ قرآن کو اسی طرح کے کاموں کی کتاب سمجھتے ہیں۔حالانکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں قرآن کا یہ تعارف کہیں نہیں کروایا۔

ہمیں سوچنا چاہیے کہ جس سورت کو بوتل میں بند کرکے کچن میں رکھنے سے روزی میں برکت کا عقیدہ ہم اختیار کیے ہوئے ہیں کیا وہ سورت اس وقت نازل ہوئی تھی جب صحابہ کرام اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پیٹ پر کھانا نہ ہونے کی وجہ سے دو دو پتھر باندھے ہوئے تھے۔کیا جب حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اور دیگر اصحابہ صفہ کے طالبعلم بھوک سے بیہوش ہوجائے کرتے تھے، تو اللہ نے کوئی آیت یا کوئی سورت اس بیہوشی کو دور کرنے کے لیے نازل فرمائی کہ اس آیت کو اتنی بار ورد کرو، یا گلے میں لٹکاو تو ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی بیہوشی جسے لوگ مرگی سمجھتے تھے دور ہو جائے گی۔؟

اس آیہ کریمہ میں ’’ہدی للناس‘‘ کے الفاظ ہمیں پکار پکار کر یہ دعوت دے رہے ہیں کہ قرآن کے نزول کا مقصد کیا ہے۔ قرآن ہمیں کیوں عطا کیا گیا اور قرآن کو ہمارے لئے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے محفوظ کیوں کیا گیا۔ قرآن کے پڑھنے کی ہمیں ترغیب کیوں دی گئی۔ قرآن کے ایک ایک حرف کو پڑھنے پر دس نیکیوں کا وعدہ کیوں کیا گیا؟ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

من قرا حرفا من کتاب الله فله به حسنة والحسنة بعشر امثالها ولا اقول الم حرف ولکن الف حرف و لام حرف و ميم حرف.

جس شخص نے قرآن حکیم کا ایک حرف پڑھا اس کے لئے نیکی ہے اور یہ ایک نیکی دس نیکیوں کے برابر ہے میں یہ نہیں کہتا الم ایک حرف ہے بلکہ اس میں الف الگ حرف ہے لام الگ حرف ہے اور میم الگ حرف ہے۔ ہر ایک حرف پر ثواب دس نیکیوں کا ہے۔

(جامع ترمذی، فضائل القرآن)

قرآن کے الفاظ و کلمات کو پڑھنے پر اتنا زیادہ اجر و ثواب عطا کرنے کا وعدہ کیوں کیا گیا۔ ان ساری ترغیبات کی وجہ صرف اور صرف یہ ہے کہ ہم قرآن پڑھنے کی طرف راغب ہوجائیں اور قرآن پڑھتے پڑھتے اس سے ہدایت اخذ کرنے کی طرف متوجہ ہوجائیں۔ قرآن کے ذریعے ہم اپنے دین کو سیکھ لیں۔ قرآن کے ذریعے ہم اپنے مولا کو پالیں اور قرآن کے ذریعے اس کی توحید کی معرفت حاصل کرلیں اور قرآن کے ذریعے ہم اس کی بندگی کی حقیقت کو پالیں۔

یہ معاملہ صرف قرآن کا نہیں بلکہ اللہ کی جتنی بھی کتابیں ہیں ساری کی ساری دراصل ہدایت کے لیے ہی نازل ہوئی ہیں، چنانچہ تورات کے بارے ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَلَقَدْ اٰتَيْنَا مُوْسَی الْکِتٰبَ لَعَلَّهُمْ يَهْتَدُوْنَ.

’’اور بے شک ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو کتاب عطا فرمائی تاکہ وہ لوگ ہدایت پا جائیں‘‘۔المومنون، 23: 49

رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

ترکت فيکم امرين لن تضلوا ماتمسکتم بهما کتاب الله وسنة نبيه. (رواه مالک والحاکم عن ابی هريره رضی الله عنه)

’’میں تمہارے پاس دو چیزیں چھوڑے جارہا ہوں اگر تم انہیں تھامے رکھو گے تو کبھی گمراہ نہ ہوگے۔ ایک اللہ کی کتاب اور دوسری تمہارے نبی کی سنت‘‘۔

یہ حدیث مبارکہ بھی ہمیں اس حقیقت کی طرف متوجہ کرتی ہے کہ کتاب اللہ اور سنت رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تمسک میں ہی ہدایت ہے۔ جس نے کتاب اللہ کو اور سنت رسول  صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سختی سے پکڑ لیا وہ کبھی بھی گمراہ نہ ہوگا۔ وہ ہدایت پر ہی رہے گا۔

 لیکن اب سوال یہ ہے کتاب اللہ یعنی قرآن کا تمسک کیسے کیا جائے، قرآن کو مضبوطی سے کیسے پکڑا جائے۔؟ تو فرمایا:

وان تطيعوه تهتدوا.

’’اگر تم ان کی (رسول کی) اطاعت کرو تو ہدایت پاجاؤ گے‘‘۔النور،24: 54

گویا رسول کی اطاعت میں تمہارے لئے ہدایت کا سامان رکھ دیا گیا ہے۔اب رسول کی اطاعت تمہیں کیسے اختیار کرنی ہے۔ اس اطاعت کی عملی صورت یہ ہے کہ تم رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کہی ہوئی ہر بات کو، ہر حدیث کو، ہر فرمان کو اپنا عمل بنالو۔

رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس سے ہدایت حاصل کرنے کی پہلی صورت اطاعت رسول ہے ۔جبکہ  دوسری صورت کا بھی قرآن ذکر کرتا ہے اور وہ ہے اتباع رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَاتَّبِعُوْهُ لَعَلَّکُمْ تَهْتَدُوْنَ.

’’اور تم انہی کی پیروی کرو تاکہ تم ہدایت پاسکو‘‘۔الاعراف، 7: 158

یعنی جو خودکو اتباع رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پیکر بنائے گا وہ ہدایت یافتہ ہوگا۔

اطاعت اور اتباع میں معمولی سا فرق بھی ملاحظہ فرمالیں۔ اطاعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل پر چلنا ہے۔ جبکہ اتباع رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نقش قدم پر چلنا ہے۔ اطاعت میں عقل کا غلبہ ہوتا ہےاور اتباع میں دل کا غلبہ ہوتا ہے ۔اطاعت، رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قول و فعل  کی وجہ جانتی ہے۔جبکہ اتباع،  رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے قول فعل کی وجہ بھی نہیں جانتی۔

اطاعت میں محبت رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا غلبہ ہوتا ہے اور اتباع میں عشق رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا غلبہ  ہوتا ہے۔ اطاعت، رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شرعی اداؤں کو اختیار کرنے کا نام ہے اور اتباع، رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہر ادا کو اختیار کرنے کا نام ہے۔ اطاعت میں اپنی شخصیت کا احساس رہتا ہے اور اتباع میں رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شخصیت ہی باقی رہ جاتی ہے۔ اطاعت میں اپنے وجود کا خیال رہتا ہے۔ اتباع میں اپنا وجود بھی وجود مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم میں فنا کردیا جاتا ہے۔

رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع ہی انسان کو ’’لعلکم تهتدون‘‘ کا اعزاز بھی دیتی ہے اور ’’يحببکم الله‘‘ کا  بلند مقام بھی دیتی ہے۔ اس لئے ارشاد فرمایا:

قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اﷲَ فَاتَّبِعُوْنِيْ يُحْبِبْکُمُ اﷲُ وَيَغْفِرْلَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ.

’’ اے حبیب!) آپ فرما دیں: اگر تم اﷲ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو تب اﷲ تمہیں (اپنا) محبوب بنا لے گا اور تمہارے لیے تمہارے گناہ معاف فرما دے گا‘‘۔آل عمران، 3: 31

پھر قرآن نے جو دعویٰ اور چیلنج کیا ہے دنیا کی کوئی کتاب نہ اس طرح کا دعویٰ کرسکتی ہے اور نہ اس طرح کا چیلنج کرسکتی ہے۔ قرآن کا اعلان ہے:

اِنَّ هٰذَا الْقُرْاٰنَ يَهْدِيْ لِلَّتِيْ هِيَ اَقْوَمُ.

’’بے شک یہ قرآن درست منزل کی طرف ہدایت کرتا ہے۔بنی اسرائيل،17: 9

چنانچہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تم میرے بعد ہدایت پر ہی رہو گے۔ جب تک تم ایک ہاتھ میں قرآن اور دوسرے ہاتھ میں میری سنت و حدیث کو تھامے رہو گے۔

 قرآن سے تعلق توڑنا ہدایت سے تعلق توڑنا ہے۔ آج کے مسلمانوں نے قرآن کو قلباً اور ذہناً نہیں چھوڑا ہے بلکہ عملاً چھوڑا ہے۔ اسی کا شکوہ قیامت کے روز رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم امت کی بابت اللہ رب العزت کی بارگاہ میں یوں کریں گے۔

وَقَالَ الرَّسُوْلُ يٰـرَبِّ اِنَّ قَوْمِی اتَّخَذُوْا هٰذَا الْقُرْاٰنَ مَهْجُوْرًا.

’’اور رسولِ (اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم) عرض کریں گے: اے رب! بے شک میری قوم نے اس قرآن کو بالکل ہی چھوڑ رکھا تھا‘‘۔فرقان، 25: 30

قرآن سے ہدایت لینے کے لیے مسلسل اس کی تلاوت جاری رکھنا نہایت ضروری ہے اور قرآن ہی اس کا حکم دیتا ہے چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَاتْلُ مَآ اُوْحِيَ اِلَيْکَ مِنْ کِتَابِ رَبِّکَ

اس قرآن کی تلاوت کیا کرو۔’’جو آپ کے رب کی طرف وحی کیا گیا ہے‘‘۔الکهف، 18: 27

قرآن کی تلاوت اس لیے ضروری ہے کہ یہ انسانوں کو ہدایت کی طرف لے جاتی ہے، انسانوں کو بندگی اور اطاعت پر چلاتی ہے، اور اللہ کی طرف سے انعامات کا مستحق بناتی ہے۔ فرمایا:

وَّاُمِرْتُ اَنْ اَکُوْنَ مِنَ الْمُسْلِمِيْنَ. وَ اَنْ اَتْلُوَا الْقُرْاٰنَ ج فَمَنِ اهْتَدٰی فَاِنَّمَا يَهْتَدِيْ لِنَفْسِهِ.

’’اور مجھے (یہ) حکم (بھی) دیا گیا ہے کہ میں (اللہ کے) فرمانبرداروں میں رہوں۔ نیز یہ کہ میں قرآن پڑھ کر سناتا رہوں سو جس شخص نے ہدایت قبول کی تو اس نے اپنے ہی فائدہ کے لیے راہِ راست اختیار کی‘‘۔النحل، 27: 91 تا 92

اسی طرح تلاوت قرآن میں تسلسل بھی ضروری ہے، ایسا نہیں کہ کبھی جوش آیا تو تین سپارے پڑھ لیے اور پھر مہینہ بھر اٹھا کر دیکھا بھی نہیں، تلاوت تسلسل کے ساتھ ہو اگرچہ تھوڑی مقدار میں ہو، اسی لیے فرمایا:

فَاقْرَءُ وْا مَا تَيَسَّرَ مِنَ الْقُرْاٰنِ.

’’پس جتنا آسانی سے ہو سکے قرآن پڑھ لیا کرو‘‘۔المزمل، 73: 20

پھر اس تلاوت کا مقصد بھی محض تلاوت ہی نہیں ہونا چاہیے، بلکہ تلاوت کا مقصد حصول ہدایت اور احکامات کو سمجھ کر عمل کرنا ہونا چاہیے، اس بات کو سمجھانے کے لیے فرمایا:

اِنَّآ اَنْزَلْنٰهُ قُرْئٰنًا عَرَبِيًّا لَّعَلَّکُمْ تَعْقِلُوْنَ.

’’بے شک ہم نے اس کتاب کو قرآن کی صورت میں بزبانِ عربی اتارا تاکہ تم (اسے براہِ راست) سمجھ سکو۔‘‘يوسف، 12: 2

قرآن کی تلاوت اور قرآن کا مقصد بھی یہی ہے کہ لعلمکم تعقلون کہ قرآن کو سمجھا جائے۔

 دوسرے مقام پر فرمایا یہ قرآن اس لئے ہے تاکہ اس کے ذریعے لقوم يعلمون (حم السجده/ فصلت41/ 3) علم حاصل کیا جائے۔ اس قرآن کے ذریعے نئے نئے حقائق جانے جائیں۔

جولوگ اس قرآن کو بار بار پڑھتے ہیں اور اس قرآن کی کثرت کے ساتھ تلاوت کرتے ہیں ہم نے ان لوگوں کے لئے قرآن سے نصیحت حاصل کرنا  آسان کردیا ہے۔ ارشاد فرمایا:

وَ لَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ لِلذِّکْرِ فَهَلْ مِنْ مُّدَّکِرٍ.

’’اور بے شک ہم نے قرآن کو نصیحت کے لیے آسان کر دیا ہے سو کیا کوئی نصیحت حاصل کرنے والا ہے؟‘‘۔القمر، 54: 22

یہ قرآن ہماری انفرادی اجتماعی اور بین الاقوامی زندگی کے لئے بھی تذکرہ و نصیحت ہے۔

 انفرادی زندگی کے لئے اس طرح کہ ان ھذہ تذکرۃ (المزمل:19) یہ قرآن نصیحت ہے۔

 اور اجتماعی  زندگی کے لئےاس طرح کہ انہ لذکر لک ولقومک۔ یہ قرآن آپ کے لئے اور آپ کی پوری قوم کے لئے بھی نصیحت ہے ۔

اور بین الاقوامی زندگی کے لئے اس طرح کہ ان هوا الا ذکر للعلمين (انعام: 91) یہ قرآن تمام عالم کے لئے نصیحت و ہدایت ہے۔

قرآن محض تلاوت (بغیر سمجھے) کے بجائے تفکر اور تدبر پر زور دیتا ہے اور جھنجھوڑتے ہوئے یوں بیان کرتا ہے:

اَفَـلَا يَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ اَمْ عَلٰی قُلُوْبٍ اَقْفَالُهَا.

’’کیا یہ لوگ قرآن میں غور نہیں کرتے یا ان کے دلوں پر تالے (لگے ہوئے) ہیں‘‘۔محمد، 47: 24

 قرآن اپنے ماننے والوں کو جھنجھوڑتا ہے کہ قرآن کو سمجھنا ہے تو تفکر فی القرآن کا عمل اختیار کرو۔ قرآن کو جاننا ہے تو تدبر فی القرآن کا وظیفہ اپناو، قرآن میں فہم حاصل کرنا ہے تو تذکیر بالقرآن پر عمل کرو، قرآن سے ہدایت لینی ہے تو تمسک بالقرآن پر کاربند ہوجاو۔ قرآن سے قول و فعل اور خلق و سیرت کی خیرات اور روشنی لینی ہے تو تلاوت بالقرآن کو اپنا معمول بناو۔ اقوامِ عالم میں عزت اور رفعت کے ساتھ جینا ہے تو ہدیات بالقرآن کو اپنا قومی وملی شعار بناو۔

قرآن یہ سبق بھی دیتا ہے کہ تم کلمہ پڑھنے کے بعد بھی قرآن کے بغیر کچھ نہیں، ۔ تم سے پہلے یہود و نصاریٰ کی بھی ساری عظمتیں تورات اور انجیل پر عمل کرنے سے وابستہ تھیں۔ اس حقیقت کو قرآن میں یوں فرمایا گیا:

قُلْ يٰـاَهْلَ الْکِتٰبِ لَسْتُمْ عَلٰی شَئٍ حَتّٰی تُقِيْمُوا التَّوْرٰةَ وَالْاِنْجِيْلَ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَيْکُمْ مِّنْ رَّبِّکُمْ.

’’فرما دیجیے: اے اہلِ کتاب! تم (دین میں سے) کسی شے پر بھی نہیں ہو، یہاں تک کہ تم تورات اور انجیل اور جو کچھ تمہاری طرف تمہارے رب کی جانب سے نازل کیا گیا ہے (نافذ اور) قائم کر دو‘‘۔المائدة، 5: 68

اس لئے تمہاری ساری عزتیں ، تمہاری ساری عظمتیں ، تمہاری ساری رفعتیں، تمہاری ساری فضیلتیں اور بلندیاں قرآن سے ہیں۔

قرآن تمہاری شناخت ، تمہاری پہچان ، تمہارا عمل ، تمہارا قول ، تمہاری سیرت ہے۔ اور قرآن سے تمہاری شخصیت ، تمہاری وحدت ، تمہاری اجتماعیت ،اور تمہاری زندگی ہے ۔قرآن ہی  میں تمہاری انفرادی اور اجتماعی زندگی کی عزت وابستہ ہے بصورت دیگر تمہار اقبال کے اس شعر کا مصداق ہوگا۔

وہ معزز تھے زمانے میں مسلماں ہوکر
اور ہم خوار ہوئے تارک قرآن ہوکر

آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم قرآن کی طرف لوٹنے کا عہد کریں، قرآن سے اپنا  اطہ مضبوط کریں۔ قرآن سے ہی فکر حاصل کریں، قرآن سےہی تزکیہ نفوس کریں، قرآن کو کتاب ہدایت جانیں، قرآن سے اپنی انفرادی زندگی سنواریں اور قرآن سے اپنی اجتماعی زندگی کی اصلاح کریں، قرآن کو رسول اللہ کا زندہ معجزہ جانیں اور قرآن کی زندہ فکر کو اپنائیں۔

آپریشن سے بچوں کی پیدائش کا خطرناک کھیل

آپریشن سے بچوں کی پیدائش کا خطرناک کھیل

(سید عبدالوہاب شیرازی)

حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش مٹی سے ہوئی۔ پہلے ایک پتلا بنایا گیا اور پھر اس میں روح پھونک دی گئی۔ پھر آدم علیہ السلام کی پسلی سے حضرت حواء علیہاالسلام کی پیدائش ہوئی۔ پھر جب دونوں دنیا میں آئے تو ان سے آگے انسانی نسل پھیلی اور بچوں کی پیدائش ایک خاص عمل کے بعد عورت کے رحم سے ہوتی رہی۔ آج سے  دس ہزار سال قبل حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر آج سے تقریبا چندسال قبل تک بچوں کی پیدائش اسی فطری طریقے سے ہوتی رہی جو ہزاروں سال سے نہ صرف انسانوں بلکہ تمام جانداروں،  دوسری مخلوقات اور جانوروں میں جاری و ساری ہے۔

لیکن اب اچانک سے پاک وہند میں یہ تبدیلی آئی اور پھر بہت زیادہ عام ہوگئی کہ ستر فیصد بچوں کی پیدائش آپریشن سے ہورہی ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ باقی تمام مخلوقات مثلا کتا، بلی، بکری، بھینس وغیرہ وغیرہ ہر ایک کے ہاں بچے کی پیدائش اسی فطری طریقے سے ہورہی ہے جیسے پہلے ہورہی تھی ایک واحد انسان ہے جسے قصائی نما ڈاکٹروں نے اپنی پیسے کی ہوس، لالچ اور محبت نے اس غلط راستے پر زبردستی ڈال دیا ہے۔

Nukta Colum 003 11

ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ آج کل کی خوراک اتنی ناقص ہے کہ جس کی وجہ سے زچہ و بچہ کی صحت اس قابل نہیں ہوتی کہ آپریشن کے بغیر پیدائش ہوسکے۔ لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ناقص خوراک کا معاملہ صرف انسانوں کے ساتھ ہی ہے یا جانور بھی ناقص خوراک ہی کھا رہے ہیں، آج کی گائے اور بھینسیں بھی یوریا اور کیمیکلز سے تیار کردہ گھاس کھا رہی ہیں، کتیا اور بلی بھی فارمی مرغیوں کی ہڈیا اور گوشت کھا رہی ہیں لیکن ان کو تو آپریشن کی ضرورت پیش نہیں آتی آخر انسان کوہی کیوں زبردستی آپریشن پر مجبور کیا جارہا ہے۔

ہمارے خیال میں اس سارے معاملے میں سوائے پیسے کی ہوس کے اور کچھ نہیں۔ دراصل آج کا ڈاکٹر ، ڈاکٹر بنا ہی زیادہ پیسہ کمانے کے لئے ہے۔ ذرا سوچیے، والدین اپنے بچے کو کیوں ڈاکٹر بناتے ہیں، کیا ان کے ذہن میں ذرا بھی یہ تصور ہوتا ہے کہ میرا بچہ یا بچی انسانیت کی خدمت کرے گا؟ نہیں بالکل نہیں۔ والدین یہی سوچ کر ڈاکٹر بناتے ہیں کہ پیسہ زیادہ کمائے گا۔ تو پھر ظاہر ہے اس کا نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ وہ کہنے کو تو ڈاکٹر ہوتا ہے لیکن اصل میں انسانیت کو ذبح کرنے والا قصائی۔

آج کوئی بھی خاتون پیدائش کے وقت ہسپتال یا کلینک جاتی ہے تو فورا اسے نفسیاتی طور پر اتنا ہراساں کردیا جاتا ہے کہ وہ آپریشن کروانے پر مجبور ہوجاتی ہے۔چونکہ آپریشن کروانے پر اچھے خاصے پیسے مریض کی جیب سے نکلوائے جاسکتے ہیں اس لیے ڈرا دھمکا کر آپریشن کرنے پر راضی کرلیا جاتا ہے۔

عالمی طور پر آپریشن کروانا اچھا تصور نہیں کیا جاتا۔کیونکہ اس طرح زچہ و بچہ دونوں طرح طرح کی بیماریوں اور عمر بھر کے لئے کئی طرح کے مسائل سے دوچار ہوجاتے ہیں۔

سائنسدانوں نے جدید تحقیق کے بعد بتایا ہے کہ جو بچے آپریشن کے ذریعے پیدا ہوتے ہیں ان کے 5سال کی عمر تک پہنچنے سے پہلے ہی موٹاپے میں مبتلا ہونے کے امکانات نارمل طریقے سے پیدا ہونے والے بچوں کی نسبت 50 فیصد زیادہ ہوتے ہیں۔اس کے علاوہ ان بچوں کو دمہ لاحق ہونے کا امکان بھی زیادہ ہوتا ہے۔رپورٹ کے مطابق سائنسدانوں نے ماں کے آپریشن کے ذریعے بچہ پیدا کرنے کا نقصان بتاتے ہوئے کہا کہ جو خواتین آپریشن کے ذریعے بچہ پیدا کرتی ہیں آئندہ ان کا اسقاط حمل ہونے اور ان کے بانجھ ہونے کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے۔اس تحقیق میں یونیورسٹی آف ایڈنبرا کے سائنسدانوں نے دونوں طریقوں سے پیدا ہونے والے ہزاروں بچوں اور ان کی ماﺅں کی صحت کا ریکارڈ حاصل کرکے اس کا تجزیہ کیا اور نتائج مرتب کیے۔

عالمی ادارہ صحت نے آپریشن کے ذریعے پیدائش کو اس کے نقصان دہ اثرات کے باعث زچگی کا ناپسندیدہ طریقہ قرار دیا ہے۔ اور 10 سے 15 فیصد سالانہ سٹینڈرڈ شرح مقرر کی ہے۔ لاہور میں قائم پنجاب کے سب سے بڑے سرکاری ہسپتال سر گنگا رام میں ہر سال لگ بھگ 24 ہزار بچوں کی پیدائش ہوتی ہے۔ ہسپتال کے اعداد و شمار کے مطابق ان میں سے 50 فیصد بچوں کی پیدائش آپریشن کے ذریعے ہو رہی ہے۔

ڈاکٹروں کے مطابق سی سیکشن محض اس صورت میں کیا جانا چاہیے جب ماں اور بچے کی جان کو خطرہ لاحق ہو کیونکہ جب پیٹ کاٹ دیا گیا تو اس میں انفیکشن ہو سکتا ہے زخم جلدی نہیں بھرتا۔ کبھی خون نہیں رکتا اور کبھی پیٹ میں مستقل درد کی شکایت ہو جاتی ہے۔ پہلی اولاد آپریشن سے ہونے کے باعث امکان بڑھ جاتا ہے کہ ہر بار آپریشن ہی کرنا پڑے گا جس سے ان کی صحت پر انتہائی نقصان دہ اثرات پڑتے ہیں۔ اس کے علاوہ سی سیکشن کے عمل میں بچے اور ماں کی صحت کو تین گنا زیادہ رسک ہوتا ہے۔

پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے سابق جنرل سکریٹری اور معروف گائیناکالوجسٹ ڈاکٹر شیر شاہ سید کا کہنا ہے کہ آپریشن میں اضافے کی ایک وجہ زیادہ سے زیادہ پیسہ کمانا ہے، ” بعض اوقات کوئی انفیکشن ہوجاتا ہے اور ڈاکٹر محسوس کرتا ہے کہ اپریشن پہلے کر دینا زیادہ مناسب ہے تو آپریشن کر دیا جاتا ہے، ایک وجہ یہ بھی ہوتی ہے کہ نارمل ڈیلوری کی جائے تو دس ہزار روپے مل جاتے ہیں لیکن اگر آپریشن کیا جائے تو اس سے تیس ہزار سے ایک لاکھ تک مل جاتے ہیں ، اس لئے بعض ڈاکٹر یہ کام کر ڈالتے ہیں۔ اور بعض آپریشن اس لئے ہوتے ہوں گے کہ جونئیر ڈاکڑز کو سیکھایا جا سکے۔

ڈاکٹر عائشہ خان کہتی ہیں کہ یہ بات درست ہے کہ آپریشن سے بہت سی پیچدگیاں پیدا ہوتی ہیں ، جیسا کہ مختلف قسم کے انفکشن، وقت سے پہلے پیدائش، خواتین کا بانجھ پن، اندرونی زخم، خون کی بیماریاں، بچے کو سانس کی بیماریاں،بچے کا وزن کم ہونا،اور بعض اوقات تو اموات بھی ہوجاتی ہیں۔
ان کے بقول ایک خاتون کا دو سے تین بار آپریشن کے ذریعے بچے کی پیدائش اس کی صحت کے لئے انتہائی مضر ہے۔ ان کا خیال ہے کہ سیزیرئن کیسزمیں اضافے کی بڑی وجہ ملک میں کثیر تعداد میں پرائیویٹ ہسپتال اور زچہ و بچہ کے مراکز ہوسکتے ہیں، جن میں بیشتر اوقات تعینات طبی عملہ ذیادہ پیسے کمانے کی خاطر بچوں کی پیدائش کے لئے آپریشن ہی تجویز کرتا ہے ۔ ڈاکٹر عائشہ سمجھتی ہیں کہ حکومت کو غیر ضروری آپریشنز کے خلاف اقدامات اٹھانے چائیں تاکہ لوگوں کے ساتھ ناانصافی کا خاتمہ ممکن ہو۔

ڈارک ویب کیا ہے؟

ڈارک ویب کیا ہے

(عبدالوہاب شیرازی)

ہم جو انٹر نیٹ استعمال کرتے ہیں اس میں کوئی بھی ویب سائٹ اوپن کرنے کے لئے تین بار WWW لکھناپڑتا ہے۔ جس کا مطلب ہے ورلڈوائڈ ویب، اسے سرفس ویب ، اور لائٹ ویب بھی کہا جاتا ہے۔ لیکن آپ کے لئے سب سے حیرت انگیز بات یہ ہوگی کہ دن رات استعمال کر کرکے بھی جس انٹر نیٹ کو ہم ختم نہیں کرسکتے یہ کل انٹر نیٹ کا صرف چار پانچ فیصد ہے۔ باقی کا 95٪ انٹر نیٹ عام لوگوں کی آنکھوں سے اوجھل ہے۔

اب آپ کے ذہن میں سوالات پیدا ہوئے ہوں گے کہ:

Nukta Colum 003 13

یہ پچانویں فیصد انٹر نیٹ ہماری آنکھوں سے کیوں اوجھل ہے؟ ہم اسے کیوں نہیں دیکھ سکتے؟ اس اوجھل انٹر نیٹ کی عظیم دنیا میں کیا کیا چھپا ہوا ہے؟ عام لوگوں سے اسے کیوں چھپایا ہوا ہے؟ وہاں کیا کیا جاتا ہے؟ تو آج کی اس تحریر میں ان سوالات کے جوابات پر بات ہوگی۔

Deep Web Dark Web differences 14

ورلڈ وائڈ ویب کو ٹم برنرزلی نے 1989 میں ایجاد کیا اور 6اگست 1991 کو باقاعدہ منظر عام پر لایا۔ پھر یہ ٹیکنالوجی گولی کی رفتار سے ترقی کرتے کرتے یہاں تک پہنچ گئی۔اس طرح پوری دنیا سمٹ کر ایک کمپیوٹر کی سکرین پر اکھٹی ہوگئی۔ویب کے فوائد سے انسانیت مستفید ہونے لگی، بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ اس کی محتاج بن کر رہ گئی۔ ویب کی تیز رفتاری کی وجہ سے دستاویزات کی منتقلی اور خط وکتاب ای میل کی شکل میں تبدیل ہوئی گئی۔ اور کمپنیوں اور اداروں نے اس کا استعمال شروع کردیا۔

ایک طرف پوری دنیا اس نعمت سے مستفید ہورہے تھی تو دوسری طرف ڈیوڈ چام نے ایک مضمون بعنوان Secutity without identification لکھا۔ جس میں انہوں نے خبردار کیا کہ ورلڈ وائڈ ویب کے حد سے زیادہ استعمال کی وجہ سے لوگ اپنی معلومات کی نگرانی سے محروم ہوتے جارہے ہیں۔لوگوں کو یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ ان کی معلومات درست ہیں، یا پرانی ہیں۔ چنانچہ جس خدشے کا اظہار ڈیوڈ چام نے کیا تھا آج ہر کوئی یہ جانتا ہے کہ گوگل، فیس بک سمیت دیگر ویب سائٹس اپنے یوزر کے بارے اتنا کچھ جانتی ہیں کہ اس کے قریبی دوست یا سگے بھائی بھی نہیں جانتے ہوں گے۔ چنانچہ انہی سورسز کو استعمال کرتے ہوئے دنیا کے خفیہ اداروں نے جاسوسی کا جال بھی بچھا دیا۔

یہاں سے انٹر نیٹ کی دنیا میں ایک نیا موڑ آتا ہے، اور حکومتیں یہ سوچنا شروع کردیتی ہیں کہ انٹر نیٹ پر ڈیٹا کے تبادلے کی سیکورٹی کے لئے کوئی نظام ہونا چاہیے تاکہ کوئی اسے چوری نہ کرسکے۔چنانچہ اس مقصد کے لئے امریکی نیوی کے تین ریسرچر نے یہ بیڑا اٹھاتے ہوئے Onion Routing کا نظام پیش کرتے ہیں۔ اس نظام کو اس طرح بنایا گیا تھا کہ کوئی بھی شخص کسی کے ڈیٹا کو چرا نہیں سکتا تھا اور نہ ہی بغیر اجازت کے ویب سائٹ کو اوپن کرسکتا تھا۔ لیکن حیرت انگیز طور پر بڑی تبدیلی اس وقت آئی جب امریکی نیول ریسرچ لیبارٹری نے اس نظام کو اوپن سورس کردیا۔ یعنی ہر کسی کو اس سے مستفید ہونے کی اجازت دے دی۔جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ دنیا بھر کے جرائم پیشہ لوگوں نے اس نظام کو اپنے گھناونے جرائم کے لئے استعمال کرنا شروع کردیا۔اور اسی کا نام ڈارک ویب ہے۔

اس ساری بات کو سمجھانے کے لئے میں آپ کو ایک تصویر دکھاناچاہتا ہوں،

 اس تصویرمیں برف کا ایک پہاڑ سمندر میں کھڑا نظر آرہا ہے، اس کا تھوڑا سا حصہ باہر ہے، اسے آپ ورلڈ وائڈ ویب یعنی وہ انٹر نیٹ سمجھ لیں جسے ہم استعمال کرتے ہیں۔

پھر ایک بڑا حصہ زیر آپ نظر آرہا ہے اسے ڈیپ ویب کہا جاتا۔ پھر اس سے بھی بڑا حصہ مزید نیچے گہرائی میں نظر آرہا ہے، اسے ڈارک ویب کہا جاتا ہے۔ پھر ڈارک ویب میں ریڈ رومز ہوتے ہیں۔بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی بلکہ اس برف کے پہاڑ سے نیچے جو سمندر کی تہہ ہے اسے مریاناز ویب کہا جاتا ہے جس تک رسائی دنیا کے عام ممالک کی حکومتوں کی بھی نہیں ہے۔

اب میں ویب کے ان چاروں حصوں کی تھوڑی تھوڑی تشریح کرکے سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں۔

1۔ ورلڈ وائڈ ویب وہ انٹر نیٹ ہے جسے ہم اپنے کمپیوٹر یا موبائل پر استعمال کرتے ہیں، اوراچھی طرح جانتے ہیں۔

2۔ اس سے نیچے ڈیپ ویب ہے۔ یہ انٹر نیٹ کا وہ حصہ ہوتا ہے جس تک رسائی صرف متعلقہ لوگوں کی ہوتی ہے، اور یہ عام طور پر مختلف کمپنیوں اور اداروں کے استعمال میں ہوتا ہے۔ جیسے بینکوں کا ڈیٹا یا مثلا آپ یوفون کی سم اسلام آباد سے خریدتے ہیں اور پھر کراچی میں جاکر دوبارہ سم نکالنے کے ان کے آفس جاتے ہیں تو وہ اپنا انٹر نیٹ کھول کر آپ کی تفصیلات جان لیتے ہیں کہ آپ واقعی وہی آدمی میں جس کے نام پر یہ سم ہے۔ یہ سارا ڈیٹا ڈیپ ویب پر ہوتا ہے، چنانچہ یوفون والے صرف اپنا یوفون کا ڈیٹا اوپن کرسکتے ہیں کسی اور کا نہیں اسی طرح ہر کمپنی کی رسائی صرف اپنے ڈیٹا تک ہوتی ہے۔

3۔ پھر ڈیپ ویب سے نیچے باری آتی ہے ڈارک ویب کی۔ یہ انٹر نیٹ کا وہ حصہ ہوتا ہے جہاں تک کسی کی رسائی نہیں ہوسکتی ، سوائے اس کے جس کے پاس ڈارک ویب کی ویب سائٹ کا پورا ایڈریس ہو۔ عام طور پر ڈارک ویب کی ویب سائٹس کا ایڈرس مختلف نمبر اور لفظوں پر مشتمل ہوتا ہے اور آخر میں ڈاٹ کام کے بجائے ڈاٹ ٹور، یا ڈاٹ اونین وغیرہ ہوتا ہے۔یہاں جانے کے لئے متعلقہ ویب سائٹ کے ایڈمن سے رابطہ کرنا پڑتا ہے، جو آپ سے رقم وصول کرکے ایک ایڈریس دیتا ہے۔ جب آپ پورا اور ٹھیک ٹھیک ایڈریس ڈالتے ہیں تو یہ ویب سائٹ اوپن ہوتی ہے۔ لیکن یاد رکھیں گوگل یا عام براوزر پر یہ اوپن نہیں ہوتی ، یہ صرف TOR پر ہی اوپن ہوتی ہے۔ اور یہ بھی یاد رکھ لیں کہ ان ویب سائٹ کو اوپن کرنا یا دیکھنا بھی قانونا جرم ہے، اگر آپ کے بارے صرف اتنا پتا چل جائے کہ آپ نے ڈارک ویب پر وزٹ کیا ہے تو اس پر آپ کی گرفتاری اور سزا ہوسکتی ہے۔

پھر ڈارک ویب پر ریڈ رومز ہوتے ہیں۔ یعنی ایسے پیچز ہوتے ہیں جہاں لائیو اور براہ راست قتل و غارت گری اور بچوں کے ساتھ زیادتی دکھائی جاتی ہے، ایسے لوگ جن کے پاس پیسہ زیادہ ہوتا ہے، اور ان کی فطرت مسخ ہوچکی ہوتی ہے وہ اس قسم کے مناظر دیکھنے کے عادی ہوتے ہیں، چنانچہ وہ ان ریڈ رومز میں جاتے ہیں وہاں ہر چیز کی بولی لگتی ہے، مثلا زیادتی دکھانے کے اتنے پیسے، پھر زندہ بچے کا ہاتھ کاٹنے کے اتنے پیسے، اس کا گلا دبا کر مارنے کے اتنے پیسے ، پھر اس کی کھال اتارنے کے اتنے پیسے وغیرہ وغیرہ۔

اس کے علاوہ ہر قسم کی منشیات، اسلحہ اور جو کچھ آپ سوچ سکتے ہیں وہ آپ کو وہاں بآسانی مل جاتا ہے۔ یہاں تک کہ وہاں ریٹ لگے ہوتے ہیں کہ فلاں لیول کے آدمی کو قتل کروانے کے اتنے پیسے مثلا صحافی کے قتل کے اتنے پیسے، وزیر کو قتل کرنے کے اتنے پیسے، سولہ گریٹ کے افسر کو قتل کرنے کے اتنے پیسے وغیرہ۔اسی قسم کی ایک ویب سائٹ سلک روڈ کے نام سے بہت مشہور تھی جسے امریکی انٹیلی جنس نے بڑی مشکل سے ایڑی چوٹی کا زور لگا کر ٹریس کرکے2015 میں بلاک کیا تھا۔

4۔ Marianas web مریاناز ویب۔ یہ انٹرنیٹ کی دنیا کا سب سے گہرا حصہ ہے۔ حقیقی دنیا میں سمندر کا سب سے گہرا حصہ مریاناز ٹرنچ کہلاتا ہے اسی لیے اسی کے نام پر اس ویب کا نام بھی یہی رکھا گیا ہے۔ نیٹ کے اس حصے میں دنیا کی چند طاقتور حکومتوں کے راز رکھے ہوئے ہیں، جیسے امریکا، اسرائیل اور دیگر دجالی قوتیں وغیرہ۔ یہاں انٹری کسی کے بس کی بات نہیں، یہاں کوڈ ورڈ اور کیز کا استعمال ہی ہوتا ہے۔

ایک سب سے اہم بات یہ بھی سن لیں کہ ڈارک ویب پر جتنا کاروبار ہوتا ہے وہ بٹ کوائن میں ہوتا ہے، بٹ کوائن ایک ایسی کرنسی ہے جو کسی قانون اور ضابطے میں نہیں آتی اور نہ ہی ٹریس ہوسکتی ہے، کسی کے بارے یہ نہیں جانا جاسکتا کہ اس کے پاس کتنے بٹ کوائن ہیں۔ ڈارک ویب پر اربوں کھربوں ڈالرز کا یہ غلیظ کاروبار ہوتا ہے۔

اب آخر میں اس سوال کا جواب جو اس سارے معاملے کو پڑھ کر آپ کے ذہن میں پیدا ہوا ہوگا کہ اس ویب پر پابندی ہی کیوں نہیں لگا دی جاتی۔؟ تو بات یہ ہے کہ جیسے پستول یا کلاشن کوف ہم اپنی حفاظت اور سیکورٹی کے لئے بناتے ہیں، چھری سبزی کاٹنے کے لئے بنائی جاتی ہے، اب اگر کوئی اس چھری کو اٹھا کر کسی کے پیٹ میں گھونپ دے تو قصور چھری کا نہیں بلکہ اس کے استعمال کا ہے، چھری پر اگر پابندی لگادی جائے تو تمام انسانوں کا حرج ہوگا لہٰذا اس کا حل یہی ہے کہ جو اس کا غلط استعمال کرے اسے عبرت کا نشان بنا دیا جائے اور باقی لوگوں کو پہلے سے ہی بتا دیا جائے کہ بھائی اس کا غلط استعمال آپ کی دنیا و آخرت برباد کرسکتا ہے۔

علماء کے زیرنگرانی چلنے والے  اداروں کا المیہ

علماء کے زیرنگرانی چلنے والے ادارے پنجاب قران بورڈ کا المیہ

سید عبدالوہاب شیرازی

اسی لئے تو کہا جاتا ہے کہ الیکشن میں اگر ساری سیٹیں بھی علماء جیت جائیں پھر بھی اسلام نہیں آسکتا کیونکہ نظام وہی ہوگا۔ اور الیکشن جیت کر نظام بدلا نہیں جاسکتا کیونکہ الیکشن اس نظام کو چلانے والوں کا انتخاب کرنے کے لئے ہوتے ہیں نہ کہ نظام بدلنے والوں کو منتخب کرنے کے لئے۔ لہٰذا ایسی ہر کوشش بوٹوں تلے روند دی جائے گی۔

موجودہ نظام میں جس طرح ہرادارہ نہایت ابتری اور بدحالی کا شکار ہے اسی طرح پنجاب میں ایک ادارہ پنجاب قرآن بورڈ کے نام سے کئی سالوں سے کام کررہا ہے اور ایک خبر کے مطابق سالانہ کروڑ روپے بجٹ میں اس ادارے کو دیے جاتے ہیں، اس ادارے کو چلانے والے  چندعلماء  ہیں جن میں ہر مسلک کا کوئی نہ کوئی نمائندہ شامل ہے، جس کے چیئرمین قرآن بورڈ پنجاب مولانا غلام محمد سیالوی ہیں۔

punjab Quran Board nukta 17

فہرست یہاں دیکھیں

 یہ ادارہ سالانہ کروڑوں روپے ہڑپ کرجاتا ہے لیکن جس مقصد کے لئے اسے بنایا گیا ہے وہ مقصد ابھی تک حاصل نہیں کیا جاسکا۔ ادارے کا مقصد قرآن مجید کی پرنٹنگ وغیرہ کے امور کی نگرانی کرنا ہے، اور غیرمعیاری کاغذ پر پرنٹنگ کی روک تھام کرنا وغیرہ بہت سارے امور دیکھنا اس ادارے کی ذمہ داری ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ غیر معیاری کاغذ پر قران کی پرنٹنگ کا کام اسی طرح جاری وساری ہے جس طرح پہلے تھا، جس کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ قرآن کا نسخہ جلد بوسیدہ ہوکر خراب ہوجاتا ہے اور بے حرمتی کا خطرہ رہتا ہے۔

دوسری نہایت ہی اہم چیز

جس کی طرف آج میں توجہ دلانا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ سورہ نساء میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

أَلَمْ تَرَ‌ إِلَى الَّذِينَ أُوتُوا نَصِيبًا مِّنَ الْكِتَابِ يُؤْمِنُونَ بِالْجِبْتِ وَالطَّاغُوتِ

کیا آپ نے ان لوگوں کو دیکھا جنہیں کتاب دی گئی ہے وہ ایمان رکھتے ہیں جبت پر اور طاغوت پر۔

اس آیت کی تفسیر میں مفسرین نے “جبت” کے بارے لکھا ہے کہ ہر وہ چیز جو بے اصل اور بے حقیقت ہو، وہمی اور خیالی ہو جیسے، کہانت، فال گیری، ٹونے ٹوٹکے، شگون اور مہورت اور تمام دوسری وہمی وخیالی باتیں  اس میں شامل ہیں۔ چنانچہ حدیث میں آیا ہے:

النیاقۃ والطرق والطیر من الجبت۔ یعنی جانوروں کی آوازوں سے فال لینا ، زمین پر جانوروں کےنشانات قدم سے شگون نکالنا اور فال گیری کے دوسرے طریقے سب جبت  ہیں۔ اسے اردو  “اوہام” اور انگریزی میں Superstitions کہا جاتا ہے۔

تو جس فال گیری کی مذمت قرآن بیان کرتا ہے اسی قرآن کے آخری صفحات میں فال گیری کا ایک صفحہ شامل کرکے قرآن کے حکموں کو قرآن کی جلد کے اندر پامال کیا جارہا ہے اور علماء کے زیر نگرانی چلنے والا قرآن بورڈ ٹس سے مس نہیں ہورہا ہے۔

اور پھر قرآن چھاپنے والے اداروں کی دیدہ دلیری دیکھیں کہ ایک تعویذ نقش قرآنی کی شکل میں بنا کر اس کے نیچے من گھڑت بات بھی لکھ دی کہ یہ والا تعویذ  حضور صلی اللہ علیہ وسلم حسنین کے گلے میں باندھا کرتے تھے۔ اتنی من گھڑت بات قرآن کی جلد کے اندر لکھتے ہوئے بھی ان اداروں کو خوف خدا نہیں ہوتا اور نہ ہی متعلقہ اداروں کو جو انہیں اس کی اجازت دیتے ہیں۔ تاج کمپنی جیسا معروف اور قدیم ادارہ بھی اس فالنامے اور تعویذ کو چھاپ رہا ہے۔اسی طرح اتفاق پبلشر، بسم اللہ پبلشرمیں یہ فالنامہ موجود ہے۔  ایک نسخے میں جسے معصوم کمپنی نے شائع کیا ہے اللہ تعالیٰ کے ناموں میں سے الباعث کا ترجمہ کیا ہے مردے جلانے والا۔

  اس ادارے سمیت ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ ہم قرآن کی اس توہین پر آواز اٹھائیں اور زیادہ سے زیادہ لوگوں تک اس بات کو پہنچائیں  تاکہ لوگوں کو یہ شعور ہو اور وہ اس طرح توہین قرآن میں ملوث کمپنیوں کا بائیکاٹ کریں۔

punjab Quran Board 18

جبت کیا چیز ہے؟ جبت کا مطلب ہوتا ہے: بے حقیقت، بے فائدہ اور بے اصل چیز۔ اسلام کی زبان میں: جادو، کہانت، فال گیری، ٹونے ٹوٹکے، شگون اور وہمی اور خیالی باتیں مثلاًٍ بلی گزر گئی تو یہ ہوجائے گا۔ فلاں ستارہ نظر آگیا تو یہ قسمت بگڑ جائے گی۔ چاند گرہن ہوگیا تو ایسا ہوجائے گا، سورج گرہن ہوگیا تو ویسا ہوجائے گا۔یہ تمام چیزیں جبت میں آتی ہیں۔ اسلام میں ان کی کوئی حقیقت نہیں۔ہمارے ایمان کا بنیادی حصہ یہ ہے کہ سب نفع اور نقصان اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ ہر چیز اس کے اذن سے ہوتی ہے۔ وہ نہ چاہے تو پوری دنیا بھی مل کر آپ کو نقصان نہیں دے سکتی۔ اور اگر وہ نہ چاہے تو پوری دنیا مل کر آپ کو نفع نہیں دے سکتی کسی بھی معاملے میں۔اس لیے ہمیں توہمات سے، خرافات سےاوپر اُٹھایا گیا۔ کیونکہ یہ توہمات میں پڑ کر انسانی صلاحیتوں کو زنگ لگتا ہے۔بہت سے کام جو آپ کرسکتے ہیں، خوف کے مارے آپ نہیں کرتے۔ حالانکہ اس خوف کی کوئی حقیقت ہی نہیں۔

5 Quick Tips for Healthy Living you can start today

Sine sed diffundi proximus. Super minantia praeter temperiemque scythiam. Posset: nix aliis acervo magni acervo temperiemque formaeque. Pinus locis? Liquidum montibus quia dedit sui orba margine reparabat. Evolvit mundum nuper pontus. Liquidum iunctarum regna pontus totidem freta qui hominum frigore. Tumescere quae suis.

Qui quisquis. Omni possedit seductaque sibi. Densior undis habitabilis peragebant passim mea. Fossae et diffundi sive primaque. Nec sidera nondum fixo speciem pluviaque dicere montibus. Induit dixere terras titan solidumque aethere mixta illis. Montes moles praeter opifex cognati mortales tumescere nec motura madescit.

Igni ponderibus nulli ultima. Consistere finxit sua. Eodem securae regio. Mundi terrenae tonitrua tuti consistere illis pontus nunc fulgura. Praebebat hunc perpetuum figuras contraria plagae poena. Cum quoque turba nuper tepescunt fontes quisquis fratrum inclusum. Origo aethere traxit surgere carentem permisit lumina nec.

Retinebat reparabat auroram iapeto gravitate orbis adhuc. Partim valles induit est cum nec. Mentisque tepescunt ita motura tellus nubes. Ut turba temperiemque dicere ligavit: fronde unus. Innabilis aberant caecoque mundo regat animus prima tellus! Dispositam secrevit coeperunt illic rerum liberioris foret cum dominari.

Review: Yogi Pro – Hit or Myth? Know the latest on this hot new fitness app!

Sine sed diffundi proximus. Super minantia praeter temperiemque scythiam. Posset: nix aliis acervo magni acervo temperiemque formaeque. Pinus locis? Liquidum montibus quia dedit sui orba margine reparabat. Evolvit mundum nuper pontus. Liquidum iunctarum regna pontus totidem freta qui hominum frigore. Tumescere quae suis.

Qui quisquis. Omni possedit seductaque sibi. Densior undis habitabilis peragebant passim mea. Fossae et diffundi sive primaque. Nec sidera nondum fixo speciem pluviaque dicere montibus. Induit dixere terras titan solidumque aethere mixta illis. Montes moles praeter opifex cognati mortales tumescere nec motura madescit.

Igni ponderibus nulli ultima. Consistere finxit sua. Eodem securae regio. Mundi terrenae tonitrua tuti consistere illis pontus nunc fulgura. Praebebat hunc perpetuum figuras contraria plagae poena. Cum quoque turba nuper tepescunt fontes quisquis fratrum inclusum. Origo aethere traxit surgere carentem permisit lumina nec.

Retinebat reparabat auroram iapeto gravitate orbis adhuc. Partim valles induit est cum nec. Mentisque tepescunt ita motura tellus nubes. Ut turba temperiemque dicere ligavit: fronde unus. Innabilis aberant caecoque mundo regat animus prima tellus! Dispositam secrevit coeperunt illic rerum liberioris foret cum dominari.