قسط49 عملیات اور شریعت اسلام

0
341
عملیات اور شریعت اسلام
عملیات اور شریعت اسلام

عملیات اور شریعت اسلام

عملیات اور شریعت

ایک مسلمان کوئی بھی کام کرنے سے پہلے یہ ضرور دیکھتا ہے کہ کیا میرا دین اسلام مجھے اس کام کی اجازت دیتا ہے یا نہیں؟ اگر اسلام اجازت نہ دے تو مسلمان وہاں ہی رک جاتا ہے، اور آگے بڑھنے کا سوچ بھی نہیں سکتا، جبکہ جس نے برائے نام اسلام قبول کیا ہو، اصل میں وہ دنیا پرست ہو تو ایسے شخص کے سامنے شریعت کے اصول و ضوابط، یا حدود و قیود کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔ یہاں پر چند شرعی اصول و ضوابط بیان کیے جارہے ہیں، جن کی پابندی ایک مسلمان کے لیے ضروری ہے:

عملیات کا معنی

عملیات عمل کی جمع ہے، اور عمل کسی بھی کام کو کہا جاتا ہے۔ فیروز اللغات میں عملیات کا معنی (افسوں، منتر، رسومات) لکھا ہوا ہے۔ لیکن ہمارے معاشرے میں عملیات کا لفظ آہستہ آہستہ ان اعمال پر بولا جانے لگا جن کے ذریعے غیر طبی طریقہ سے کسی کی جسمانی بیماری کا علاج، یا کسی پریشانی، مشکلات کا حل نکالا جائے۔ چنانچہ دم، تعویذگنڈے، جھاڑ پھونک، ٹونے ٹوٹکے، جنتر منتر تنتر، کہانت، عرافیت، علم نجوم، رمل، جفر، جادو ٹونہ وغیرہ کام کرنے والوں کو عامل کہا جاتا ہے۔

خلاصے کے طور پر ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ بظاہر عملیات کی حیثیت محض ایک علاج کی ہے، اور علاج کرنے میں کوئی ممانعت نہیں بلکہ مستحسن کام ہے، لیکن دیگر عوارض کی وجہ سے کچھ عملیات محض مباح ہیں اور کچھ مکروہ اور کچھ حرام و ناجائز اور کچھ شرک و کفر کے درجہ کو پہنچی ہوئی ہیں۔ اس لیے جائز و ناجائز کو الگ کرنے کے لیے ہمیں شریعت کے کچھ اصولوں کو مد نظر رکھنا ضروری ہے۔

عملیات کے بارے شرعی اصول

٭عملیات کا پہلا اصول:

کسی چیز کا مفیدہونا، یا نتیجہ خیز ہونا، یا باعث صحت و شفاء ہونا اس کے جائز ہونے کی دلیل نہیں ہوتا۔ یعنی کسی بھی قسم کا دم، جھاڑ پھونک، تعویذ، نقش یا منتر اگر فائدہ دیتا ہو، یا اس سے مقصود حاصل ہوتا ہو تو یہ بات اس کے جواز کی دلیل نہیں بن سکتی۔ کیونکہ جائز و ناجائز ہونے کا فیصلہ شریعت قرآن و سنت کی روشنی میں کرتی ہے۔ جیسا کہ قرآن نے باجود اس کے کہ شراب میں فوائد بھی ہیں اسے حرام قرار دیا ہے۔ اس حوالے سے ایک مشہور حدیث میں یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے:

عن عبداللہ قال: سمعتُ رسولَ اللہ ﷺ یقول: إِنَّ الرُّقَی وَالتَّمَاءِمَ وَالتِّوَلَۃَ شِرْکٌ۔ قالت: قلتُ: لِمَ تَقُوْلُ ھٰذا؟ وَاللّٰہ لقد کانتْ عَینی تَقْذِفُ و کنتُ أختلفُ إلی فُلانِ الیَھُوْدِیِّ یَرْقِیْنِیْ، فإذ رَقَانِیْ سَکَنَت۔ فقال عبداللہ: إنما ذاکَ عملُ الشَّیطانِ کان یَنخسُھا بیدِہ، فإذا رقَاھا کَفَّ عنھا، إنما کانَ یَکْفِیْکِ أن تقولی کما کان رسول اللہﷺ یقول: أَذْھِبِ الْبَأْسَ رَبَّ النَّاسِ، إِشْفِ أَنْتَ الشَّافِیْ، لَا شِفَاءَ إِلَّا شِفَاءُکَ، شِفَاءً لَا یُغَادِرُ شَقَمًا۔

ترجمہ: حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے فرماتے ہوئے سنا: بیشک دم، تعوذاور تولہ شرک ہے۔ تو آپ کی بیوی حضرت زینب رضی اللہ عنہا نے کہا: تم یہ کیوں کہتے ہو؟ اللہ کی قسم میری آنکھ دکھتی تھی، تو میں فلاں یہودی کے پاس جاتی اور وہ مجھ پر دم کرتا، جب وہ دم کر لیتا تو میری آنکھ ٹھیک ہو جاتی، تو عبداللہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: یہ تو شیطان کی ایک چال ہے جو اپنے ہاتھ سے اس کو جھنجوڑتا ہے، جب وہ دم کرلیتا ہے تو پھر شیطان اس سے رک جاتا ہے۔ آپ کے لیے تو رسول اللہ ﷺ کی بتائی ہوئی دعا کافی ہے: اے اللہ اس تکلیف کو دور فرما، شفاء دے، مجھے تو شفاء دینے والا ہے، آپ کی شفاء کے علاوہ اور کوئی شفاء نہیں، ایسی شفاء جو کسی بیماری کو نہیں چھوڑتی۔

رقی، تمائم، تولہ، کی وضاحت:

رقی: سے مراد پڑھ کر دم کرنے والی چیزیں ہیں۔جسے عرف عام میں دم یا رقیہ کہا جاتا ہے۔

تمائم: سے مراد لکھ کر گلے میں لٹکانے یا باندھنے والی چیزیں ہیں۔جسے عرف عام میں تعویذ کہا جاتا ہے۔

تولہ: سے مراد وہ عملیات ہیں جن کے ذریعہ میاں بیوی، یا مرد عورت میں محبت یا نفرت پیدا کی جاتی ہے۔

نوٹ: تولہ کی شریعت میں کوئی گنجائش نہیں۔ البتہ دم اور تعویذ تین چار شرائط کے ساتھ محض جائز ہیں، یہ شرائط پہلے بھی ذکر کی ہیں یہاں دبارہ ملاحظہ کر لیں:

دم تعویذ کے جواز کی شرائط:

۱۔یہ عقیدہ نہ رکھا جائے کہ یہ دم یا تعویذ بذات خود نفع دینے والی چیز ہے۔

۲۔دم اور تعویذ میں پڑھے یا لکھے جانے والے الفاظ شریعت کے خلاف نہ ہوں، مثلا غیراللہ کو پکارنا، یا غیر اللہ سے مدد طلب کرنا(جیسے ناد علی وغیرہ، یا  تعویذات میں یا جبریل وغیرہ لکھنا، یا مختلف جنات کو پکارنا)

۳۔ دم اور تعویذ میں پڑھے یا لکھے جانے والے الفاظ کا مفہوم معلوم ہو، غیر واضح اور نامعلوم الفاظ کو پڑھنا یا لکھ کر تعویذ بنانا ناجائز ہے۔ جیسا کہ عام طور پر تعویذ میں لکھا جاتا ہے، جسے نہ تعویذ لکھنے والا جانتا ہے اور نہ تعویذ لینے والا۔ مثلا عجیب و غریب قسم کی علامات، نشانات، نمبرنگ وغیرہ۔

٭عملیات کا دوسرا اصول

کسی عمل کے جائز ہونے کے لیے صرف مقصود کا جائز ہونا ہی کافی نہیں،  یعنی کوئی آدمی کسی جائز مقصد کے حصول کے لیے کوئی عمل کرنا چاہے تو اس جائز مقصد کے حصول کے لیے کسی ناجائز عمل کی اجازت نہیں۔ مثلا: کئی لوگ کہتے ہیں میں فلاں لڑکی سے محبت کرتا ہوں، میری نیت صاف ہے، میں شادی کرنا چاہتا ہوں، لہذا اس کو یا اس کے والدین کو قائل کرنے کے لیے وہ کوئی عمل کرتا یا کراتا ہے تو صرف اس کی نیت کا خالص ہونا کافی نہیں بلکہ اس عمل کا شریعت کی روشنی میں جائز ہونا بھی ضروری ہے جو وہ کر رہا ہے یا کروا رہا ہے۔اسی طرح تصویر کا دوسرا رخ یہ بھی ہے کہ عمل تو جائز اور درست ہو لیکن مقصود ناجائز ہو تو یہ بھی ناجائز ہے۔

چنانچہ اگر کوئی شخص امت کی تعداد میں اضافے کے لیے عورتوں سے زنا کرتا پھرے اور کہے میری نیت اچھی ہے تو یہ حرام ہے اگرچہ نیت اچھی ہی کیوں نہ ہو۔

اسی طرح اگر کوئی شخص پانی، یا کوئی کولڈ ڈرنک پیتے وقت یہ نیت کرے کہ میں شراب پی رہا ہوں تو یہ بھی ناجائز ہے، اگرچہ وہ حلال پانی پی رہا ہے، مگر اپنی نیت کی خرابی کی وجہ سے وہ گناہ کا مستحق ہوگا۔

٭عملیات کا تیسرا اصول

بعض اعمال مقید ہوتے ہیں اور بعض اعمال مطلق ہوتے ہیں۔ چنانچہ مقید اعمال اپنی قیود کے ساتھ ہی جائز یا ناجائز ہوتے ہیں، اسی طرح مطلق اعمال اپنے اطلاق کے ساتھ ہی جائز یا ناجائز ہوتے ہیں۔ ہم شریعت کے کسی مقید عمل کو مطلق جائز یا ناجائز نہیں کہہ سکتے۔ اور نہ ہی شریعت کے کسی مطلق کو اپنی مرضی سے مقید کر سکتے ہیں۔

ابھی پیچھے ایک حدیث گزری ہے جس میں فرمایا گیا ہے کہ: رقیہ، تعویذ اور تولہ شرک ہے۔ لیکن دوسری احادیث میں ان کے ساتھ قیود بھی بیان ہوئی ہیں، کہ اگر ایسا ایسا ہو تو ناجائز ہے۔ اس سے معلوم ہوا دم، تعویذ ان قیود اور شرائط کے ساتھ جائز ہے جو قرآن و سنت میں ہمیں دی گئی ہیں۔

٭عملیات کا چوتھا اصول:

عملیات کے حوالے سے ہمیں یہ مدنظر رکھنا ضروری ہے کہ قرآن و حدیث کے نزول کا اصل مقصد کیا ہے؟ قرآن و حدیث کے نزول کا اصل مقصد ہدایت حاصل کرنا، اور اپنی زندگی کو اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت کے مطابق زندگی گزارنا ہے۔یعنی قرآن و حدیث عملیات کی کتابیں نہیں ہیں بلکہ ہدایت کی کتابیں ہیں، اگرچہ قرآن میں قرآن کو شفاء بھی کہا گیا ہے لیکن یہاں بھی اصل مقصد باطنی بیماریوں اور اعتقادی گمراہیوں سے شفاء ہے۔ وہ الگ بات ہے کہ اعتقادی گمراہیوں اور باطنی بیماریوں کے ساتھ ساتھ اگر ہم جسمانی بیماریوں سے شفاء کی امید بھی رکھیں تو کوئی حرج والی بات نہیں، لیکن اصل مقصود جسمانی بیماریوں سے شفاء نہیں۔

٭عملیات کا پانچواں اصول

ہمارے معاشرے میں مروج عملیات دین کا حصہ نہیں، یعنی مروج عملیات کوئی ایسی چیز نہیں کہ جو یہ کام نہ کرے وہ گناہ گار ہے اور جو یہ کام کرے تو وہ پیر و مرشد کہلائے۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں جو بھی عملیات، تعویذ گنڈوں اور جھاڑ پھونک کا کام شروع کرتا ہے لوگ اسے پیر صاحب کہنا شروع کر دیتے ہیں، یہ بالکل ناجائز اور بدعت ہے۔ معاشرے میں لوگ ایک متقی پرہیزگار عالم دین، مفتی اور حقیقی پیر و مرشد کی وہ قدر نہیں کرتے جتنی عملیات کرنے والوں کی کرتے ہیں، یہی اصل گمراہی ہے، جس سے بچنا بھی ضروری ہے اور دم تعویذ کرنے والوں کو بھی چاہیے کہ وہ لوگوں کو یہ وضاحت کریں اور سمجھائیں کہ حقیقی پیر و مرشد وہ ہوتا ہے جو انسان کو ایمان و تقوی، توکل و صبر کے راستے چلانے کا کام کرتا ہے، نہ کہ وہ جو لوگوں جنات و جادو سے ڈرائے، اور رشتہ داروں میں پھوٹ پیدا کرے۔

فہرست پر جانے کے لیے یہاں کلک کریں۔

Leave a Reply