شداد کی جنت

0
721

سید عبدالوہاب شیرازی

شداد کی جنت

تفسیر فتح العزیز میں لکھا ہے کہ : اللہ تعالیٰ نے ملک الموت سے پوچھا تجھے کسی کی روح قبض کرتے ہوئے رحم آیا؟ تو ملک الموت نے کہا ہاں، دو آدمیوں کی روح قبض کرتے وقت مجھے بہت ترس آیا،اگر تیرا حکم نہ ہوتا تو میں ہرگز ان کی روح قبض نہ کرتا۔
یہ دو آدمی کون تھے ان کا ذکر اور اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ کے ارشاد کا ذکرتھوڑا سا آگے جاکرکروں گا،پہلے ایک عجیب واقعہ ملاحظہ فرمائیں:
سمندر میں ایک جہاز نہایت سکون کے ساتھ اپنی منزل کی طرف رواں دواں تھا،اور مسافر بھی پرسکون تھے، ان مسافروں میں ایک ایسی عورت بھی موجود تھی جس کے ہاں بچے کی پیدائش ہونے والی تھی، چاروں طرف دور دور تک زمین نظر نہیں آرہی تھی، پرسکون سمندر کی لہریں آہستہ آہستہ تیزہوتی جارہی تھیں اور ساتھ ہی ہوا بھی تیز ہوتی جارہی تھی،وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سمندر کی لہروں اور ہوا میں کافی تیزی آگئی اور مسافروں سے بھرا یہ جہاز ڈولنے لگا، مسافروں میں بے چینی کی کیفیت بڑھتی جارہی تھی، دیکھتے ہی دیکھتے یہ لہریں اور ایک سخت طوفان میں تبدیل ہوگئیں اور جہاز ان لہروں سے ٹکرا ٹکرا کر الگ الگ ٹکڑوں میں تقسیم ہوگیا۔ کچھ لوگ پانی میں گِر گئے اور کچھ ان ٹکڑوں کے اوپر پڑے اپنی جان بچانے کی کوششوں میں مصروف تھے، وہ عورت جس کے ہاں بچے کی پیدائش ہونے والی تھی وہ بھی ایک تختے کے اوپر بے ہوش پڑی تھی اور تختہ لہروں کے رحم وکرم ایک سمت بہتا ہوا جارہا تھا، اسی بے ہوشی کی حالت میں اس عورت کے ہاں بچے کی پیدائش ہوئی، بچے کی پیدائش کے فوراً بعد اللہ کی طرف سے ملک الموت کو حکم ہوا کہ اس عورت کی روح قبض کر لی جائے۔ملک الموت نے فورا اس کی روح قبض کرلی، جبکہ بچہ اس تختے پر اسی طرح پڑا رہا، سمندری لہریں اس تختے کو بہاتے بہاتے خشکی تک لے گئیں۔
جس وقت تختہ کنارے پر پہنچا تو وہاں موجود ایک آدمی نے اسے پکڑلیا، عورت کو تو ایک گڑھا کھود کر دفنا دیا البتہ بچہ جو کہ ابھی زندہ تھا اسے اپنے ساتھ گھر لے گیا، چونکہ اس آدمی کی اولاد نہیں تھی اس لئے اس کے ساتھ ساتھ اس کی بیوی بھی بہت خوش تھی، میاں بیوی نے اس بچے کا نام’’ شداد‘‘ رکھا۔
جب شداد سات برس کا تھا ایک روز گاؤں کے باہر شداد بچوں کے ساتھ کھیل رہا تھا کہ اچانک ہی شور اٹھا کہ بادشاہ کی سواری آرہی ہے۔یہ سنتے ہی سارے بچے بادشاہ کے ڈر سے بھاگئے لیکن شداد قریب کے ایک ٹیلے میں چھپ کر بادشاہ کی سواری اور شاہی لشکر کا نظارہ دیکھنے لگا۔ یہاں تک کہ تمام لشکر گزر گیا اور بادشاہ کی سواری گزرنے کے بعد کچھ پیارے، گری پڑی ہوئی چیزوں کی خبر گیری کے واسطے لشکر کے پیچھے پیچھے آئے۔ ان پیادوں میں سے ایک پیادے نے راستے میں ایک پوٹلی پڑی ہوئی پائی۔ اس نے جب پوٹلی کو کھولکر دیکھا تو اس میں ایک سرمے دانی تھی۔ وہ پیادا اپنے ساتھیوں سے بولا:’’میں نے سرمہ پایا ہے۔۔۔ اگر تمہاری اجازت ہو تو میں اسے اپنی آنکھوں میں لگاؤں کیونکہ میری بنائی بھی کچھ کمزور ہو گئی ہے شاید اس سے کچھ فائدہ ہو جائے۔اس کے ساتھیوں نے جواب دیا بغیر آزمائے ہوئے آنکھوں میں ہر گز مت لگانا کبھی فائدے کے اور نقصان نہ ہوجائے۔ پہلے کسی اور کی آنکھوں میں لگا کر دیکھ۔یہ سن کر پیادے نے ادھر اْدھر دیکھا تو اسے شداد ایک ٹیلے کی اوٹ میں کھڑا نظر آیا۔ پیادے نے اسے بڑے پیار سے بلایا اور کہا۔ آبیٹا ! ہم تیری آنکھوں میں سرمہ لگادیں تاکہ تیری آنکھیں اچھی لگیں۔

شدادنے پیادے سے سرمے دانی اور سلائی لیکر اپنی آنکھوں میں سرمہ لگایا۔ سرمہ لگاتے ہی شداد کے چودہ طبق روش ہوگئے اور اسے زمین کے اندر چھپے ہوئے تمام خزانے بالکل اسی طرح سے نظر آنے لگے جیسے صاف شفاف پانی میں چیزیں نظر آتی ہیں۔ شداد حد سے زیادہ چالاک تو تھا ہی لہٰذا اپنی چالاکی اور عقل مندی سے چلایا۔۔۔ اے ظالموں !۔۔۔ تم نے میری آنکھیں پھوڑ دیں۔۔۔ ہائے میں اندھا ہو گیا۔۔۔ یہ میری آنکھ میں کیسا زہر لگوا دیا ۔۔۔ ہائے اب میں بادشاہ کے پاس جاکر فریاد کروں گا اور تم کو سزا دلواؤنگا۔پیادوں نے جو یہ سنا تو مارے خوف کے سرمہ وہیں چھوڑ کربھاگ کھڑے ہوئے اورشداد اپنی چالاکی اور پیادوں کی بزدلی پر خوب ہنسا اورسرمہ دانی لیکر اپنے گھر آگیا اور اپنے باپ سے ساراواقعہ بیان کر دیا۔اس کا باپ اپنے بیٹے کی ہوشیاری سے بہت خوش ہوا اور بولا۔ ’’رات کو جب سب لوگ سو جائیں گے تو ہم اپنے بھروسے کے مزدوروں کے ساتھ پھاؤڑے وغیرہ لیکر چلیں گے اور جہاں بھی تجھ کو خزانے نظر آئیں گے ہم وہاں سے کھود کر نکال لیں گے۔اور اپنے گدھوں اور خچروں پر لاد کر خزانہ لے آئیں گے۔اس طرح شداد نے بہت سا مال و دولت اورجواہر اکٹھے کر لئے تھے۔ اور سب گاؤں والوں کو آئے دن دعوتیں کر کر کے اپنا ہم دردو رفیق بنا لیا تھا۔ کچھ عرصے بعد شداد نے اس گاؤں کے سردار کو قتل کر کے اس کی جگہ پر خود سردار بن بیٹھا۔شداد نے اپنی ایک فوج تیار کر لی اور ان حاکموں فوجداروں سے مقابلہ کیا اور اپنی ذہانت اور بہادوری سے سب حاکموں کو ایک ایک کر کے ہلاک کر دیا اور اس طرح سے بڑھتے بڑھتے شداد بادشاہ بن بیٹھا۔
بے پناہ خزانوں اور مال و دولت ، وسیع و عریض سلطنت ، عظیم الشان لاؤ لشکر اور اپنی ذہانت و طاقت کی وجہ سے شداد اب غرور اور تکبر میں مبتلا ہو گیاتھا،اور اس نے دعویٰ خدائی کر ڈالا۔عالموں اور واعظوں(یا اس وقت کے نبیوں) نے اس ملعون کو حق تعالیٰ کے خوف اور اس کی عبادت کی طرف رغبت دلانے کی بہت کوششیں کیں لیکن شداد کا کہنا تھا کہ دولت و حکومت جاہ ثروت، عزت وشہرت اور حشمت سب کچھ میرے پاس موجود ہے تو مجھے کیا ضرورت کہ میں کسی خدا کی اطاعت کروں۔عالموں نے سمجھایا کہ یہ سب ملک و دولت فانی ہے اور اللہ تعالیٰ کی عبادت و اطاعت کرو گے تو وہ تمہیں جنت عطاکرینگے جو اس دنیا سے کروڑہا درجے بہتر ہوگی۔شداد نے پوچھا کہ اس جنت میں کیا خوبی ہے ؟تو عالموں نے جو کچھ بھی خوبیاں اور تعریفیں جنت الفردوس کی تھیں وہ سب اس کے سامنے بیان کر دیں۔ عالموں کی باتیں سنکر شداد نے حقارت سے ہنستے ہوئے جواب دیا۔ ’’مجھے اس جنت کی کوئی پرواہ نہیں اور نہ ہی مجھے وہ جنت چاہئے۔ کیونکہ مجھ میں اتنی طاقت اور قوت ہے کہ میں اس سے بھی اچھی جنت اس دنیا میں بنا سکتا ہوں۔
لہٰذا تمام عالموں واعظوں اور کو دکھلانے کی خاطر شدادنے اپنی جنت بنانے کا فیصلہ کیا۔ سب سے پہلے اس نے اپنے معتبر سرداروں میں سے سو آدمیوں کا انتخاب کر کے انہیں جنت بنانے کے لئے نگراں مقرر کیا اور ہر ایک سردار کے ساتھ ہزار ہزار آدمی متعین کئے،زمین میں دفن تمام خزانے نکلوائے گئے اور معدنوں سے سونا چاندی نکلو ا کر ان کی انیٹیں تیار کروائیں اور کوہ عدن سے متصل ایک شہر مربع کی شکل میں دس کوس لمبا ، دس کوس چوڑا اور چالیس کوس اونچامقام بنانے کا حکم دیا۔اس شہر کی بنیادیں اس قدر کھودیں گئیں کہ پانی کے قریب جا پہنچیں اور پھر ان بنیادوں کو سنگ سلیمانی سے بھروایا گیا جب بنیادیں زمین کے برابر ہو گئیں تو اس پر سونے اور اشرفیوں کی انیٹوں سے دیواریں چننی شروع کی گئیں۔ ان دیواروں کی بلندی اس قدر زیادہ تھی کہ جب آفتاب طلوع ہوتا تھا تو اس کی چمک سے دیواروں کی روشنی پر نگاہ نہیں ٹھہرتی تھی۔شہر کی چہار دیواری کے اندر ہزار ہزار محل تیار کئے گئے اور ہر محل ہزار ستونو ں کا اور ہر ہر ستون ، جو اہرات سے جڑا ہوا تھا اورشہر کے درمیان میں ایک نہر بنائی گئی اور ہر مکان میں حوض بنوائے گئے اور شہر کے ہر ہر مکان تک ایک ایک نہر پہنچائی گئی، حوضوں کے فرش پر یاقوت ، زمرد، مرجان اور نیلم کی تہیں بچھائی گئیں اور ا ن کے کناروں پر درخت بنائے گئے جن کی جڑیں سونے کی اور شاخیں اور پتے زمرد کے اور پھول و پھل انکے موتی اور یاقوت کے اور دیگرجواہرات کے بنوا کر لٹکائے گئے۔
مکانوں کی دیواروں پر زعفران اور عنبرسے گل کاری کی گئی اور یاقوت ودیگر جواہرکے خوب صورت ، خوش آواز جانور بنوا کر درختوں پر بٹھائے گئے اور ہر درخت کے پاس ایک پہرے دار کو تعینات کیا گیا۔
جب اس انداز کا شہر بن کر تیار ہوا تو حکم دیا کہ سارے شہر میں قالین اور فرش پر ریشمی زرلفت بچھادئیے جائیں اور سب مکانوں میں ترتیب سے سونے چاندی کے برتن چنوادئیے گئے اور حوضوں میں دودھ، شراب، شہد اور شربت انواع اقسام کے جاری کرادئیے گئے۔ بازاروں میں دکانوں کو بھی کمخواب زردوزی کے پردوں سے مزین کیا گیا اور ہر پیشہ اور ہنروالے کو حکم دیا گیا کہ وہ اپنے اپنے پیشہ اور ہنرمیں مشغول ہو جائیں اور انواع انواع اقسام کے میوے، طرح طرح کے عمدہ و لذیذ پکوان ہمیشہ ہی سبھی شہر والوں کو پہنچایا کریں۔
غرض کہ بارہ بر س میں یہ شہر بے مثال اس سجاوٹ کے ساتھ تیار ہوا تو تمام سرداروں کوحکم دیاگیا کہ وہ زینت کے ساتھ اس شہر میں جا کر رہیں اور خود بھی اپنی فوج ولشکر کو ساتھ لیکر کمال عذور وتکبر سے شہر کی طرف کوچ کیا اور راستے میں عالموں اور واعظوں کو جلانے کی خاطر کچھ دیر رک کر ان سے تکبر اور حقارت کے ساتھ کہا ’’تم اسی جنت کے واسطے مجھے اس کے سامنے ،جس کو آج تک کسی نے نہیں دیکھا ہو، سر جھکانے اور ذلیل ہونے کے لئے کہتے تھے نا! اب تم کو میری قدرت اور ثروت دیکھنی ہو تو میرے ساتھ چلو! میں نے اس ان دیکھی جنت سے بھی زیادہ حسین و دلکش اور خوبصورت جنت بنوائی ہے جس کو دیکھ کر لینے کے بعد تم اپنے خدا کی جنت کو بھی کم سمجھوگے۔
شداد جب اپنی بنائی ہوئی جنت کے قریب پہنچا تو اس شہر کے باشندوں کے غول اس کے استقبال کے لئے شہر کے دروازے سے باہر آکر اس پرزرو جواہر نچھاور کرنے لگے۔ اس طرح سے جب شداد شہرکے دروازے پر پہنچا تو اس کا ایک قدم دروازے کے باہر اور ایک قدم اندر تھا کہ آسمان سے ایک ایسی سخت کڑک دار آواز آئی جس سے تمام مخلوق ہلاک ہوگئی اور بادشاہ بھی وہیں دروازے پر گر پڑا اور مر گیا۔اس شہر کو دیکھنے کی حسرت کہ کس محنت اور مشقت سے اس کو تیار کیاتھا دل میں لے گیا۔
جس مکالمے کا ذکر شروع میں آیا تھا ، یعنی ملک الموت نے کہا مجھے دو آدمیوں کی روح نکالتے وقت بہت ترس آیا : ایک تو وہ بچہ تھا جس کا واحد سہارا اس کی ماں تھی اور مجھے اس کی روح قبض کرنے کا حکم ہوا ، اور دوسرا وہ بادشاہ تھا جس نے اتنی آرزوں سے شہر تعمیر کیا اور جب وہ اس کو دیکھنے کے لئے پہنچا تو مجھے روح قبض کرنے کا حکم ہو گیا۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا:عزرائیل ! تمہیں ایک ہی شخص پر دوبار رحم آیا ہے! کیونکہ یہ بادشاہ وہی بچہ تھا جس کو ہم نے بغیر ماں باپ کے بناکسی سہارے کے سمندر کی تیز وتندلہروں اور طوفانوں میں بھی محفوظ رکھا اور اس کو حشمت وثروت کی بلندیوں پر پہنچایا اور جب یہ اس مرتبے کو پہنچا تو ہماری تابعداری سے منہ موڑا اور تکبر کرنے لگا اور آخرکار اپنی سزا کو پہنچا۔
پرویز مشرف کو بھی اللہ تعالیٰ نے ایسی حکمرانی نصیب کی تھی جوشاید پاکستان کی تاریخ میں کسی کو نہیں ملی، اسی دور حکمرانی میں پرویز مشرف نے چیک شہزاد میں اپنی جنت تعمیر کرنا شروع کی، جیسے ہی اس جنت کی تعمیر مکمل ہوئی پرویز مشرف ملک سے باہر چلے گئے چار سال باہر رہنے کے بعد پھرواپس اپنی اس جنت میں پہنچے ہی تھے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے جیل بنا دیا اور وہ جنت بجائے سکون کی عذاب بن گئی جہاں نیند حاصل کرنے کے لئے بھی پرویز مشرف کو گولیاں کھانی پڑتی ہیں۔ جو شخص بھی تکبرکرکے اللہ کی کبریائی کو چیلنج کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کا انجام ایسے ہی کرتے ہیں۔

Leave a Reply