قسط 26 ٹیلی پیتھی

0
436

ٹیلی پیتھی سیکھنے سے انسان پاگل کیوں ہوجاتا ہے؟

”دولت شہرت اور کامیابی کے موضوع پر ڈاکٹرصاحب کے لاجواب ‘حیرت انگیز لیکچرز جو آپ کی تقدیر بدل سکتے ہیں۔ سائنسی ‘ نفسیاتی اور روحانی طریقے سے دولت ‘شہرت اورکامیابی کے خواہشمند سنجیدہ لوگوں کے لئے انمول تحفہ تفصیلات کے لئے جوابی لفافہ ارسال کیجئے۔“

یہ اس اشتہار کے مضمون کا ایک نمونہ ہے جو اکثر اخبارات میں شائع ہوتاہے۔ جس پر نمایاں حروف میں لکھاہوتاہے کہ ”جن قابوکیجئے“اس اشتہار میں پرکشش اور دلفریب الفاظ کے ذریعے بے روزگار‘ پریشان حال‘ معصوم لوگوں کو پوشیدہ صلاحیتیں حاصل کرنے کی ترغیب دی جاتی ہے۔ اس قسم کے انسٹی ٹیوٹ اوراداروں میں نوجوانوں کو نہایت آسان طریقوں کے ذریعے کامیابی و کامرانی کی منزل تک رسائی کے سنہرے خواب دکھلا کردونوں ہاتھوں سے لوٹا جاتاہے۔قابل رشک شخصیت بننے اورلامحدود صلاحیتوں کے بے مقصد ‘پرحماقت اور فضول شوق میں مبتلا لوگوں کی کثیر تعداد نہ صرف اپنا قیمتی وقت اور سرمایہ برباد کرتی ہے بلکہ پرلطف زندگی کوخود اپنے ہاتھوں سے مصائب میں مبتلا کرکے سکون اورچین سے محروم ہوجاتے ہیں اور تمام ترکوششوں کے باوجود نتیجہ میں ان کے ہاتھ سوائے پچھتاوے کے کچھ نہیں آتا۔

یہ بھی پڑھیں: قسط نمبر24: عملیات سے توبہ کرنے والے کی کہانی

حقیقت یہ ہے کہ ٹیلی پیتھی وغیرہ پراسرار علوم کی ایک قسم ہے۔ حالانکہ اس عمل کوکرنے کے دوران نہ توکوئی شرکیہ کلمات ادا کرنے پڑتے ہیں اور نہ ہی کوئی موکل حاضر ہوتاہے۔ اس کے باوجود اس عمل کوکرنے والے دس فیصد لوگ نا تجربہ کاری یااستاد کی لاپرواہی کے سبب اپنی جان سے ہاتھ دھوبیٹھتے ہیں جبکہ 80فیصد کا ذہنی توازن خراب ہوجاتاہے۔ صرف دس فیصد ایسے بدنصیب ہیں جو اس عمل میں کامیابی حاصل کرکے ظاہری نمودو نمائش اورعارضی دنیا وی کامیابی سے ہمکنار ہوجاتے ہیں لیکن اپنی عاقبت تباہ کردیتے ہیں۔ اکثر لوگوں میں یہ غلطی فہمی پائی جاتی ہے کہ ٹیلی پیتھی علم نفسیات کی ایک شاخ سے تعلق رکھتاہے لیکن میں اپنے تجربہ کی بنا پرکہتاہوں کہ اس عمل کا شمار شیطانی علوم میں توکیا جاسکتاہے لیکن اس کونفسیات کی ایک شاخ قرار دینا صریحاً دھوکا دینے کے مترادف ہے۔اسی طرح ڈاکٹر صاحب نے علوم کے جوفوائد گنوائے ہیں‘ ان کا حقیقت سے دور کا تعلق بھی نہیں۔ جو لوگ اس قسم کے مذموم دھندوں کے ذریعے لوگوں کی زندگیوں سے کھیل رہے ہیں‘ انہیں روز قیامت اللہ کے حضور جواب دہی کے لئے تیار رہنا چاہئے۔ بعض عامل حضرات یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ انہوں نے سخت محنت کے ذریعے اس علم(ہپناٹزم وغیرہ) کو حاصل کیاہے۔ وہ جھوٹ بولتے ہیں۔ ان پیشہ ورعاملوں نے اس کا باقاعدہ عمل کیاہوتاہے۔ لیکن عام لوگوں کو سچ بات بتانے کی بجائے حقیقت کے برعکس بے سروپااورجھوٹی معلومات کے ذریعے اصل حقیقت کو ظاہر نہیں کرتے۔ یہ اوروہ تمام عملیات جو عام بازاری کتب میں کثرت کے ساتھ ملتے ہیں‘ کبھی بھول کر ان کتب سے عملیات میں مدد نہیں لینی چاہئے۔میں ایک نوسرباز کوجانتاہوں جس کا تعلق گوجرانوالہ سے ہے۔ اس نے یہ عمل کیاہواتھا۔میرے ایک جاننے والے بھی اس کی کرامت سے متاثرہوکر اس کے گرویدہ ہوئے۔بعدمیں اس کا انجام کیا ہوا‘ اس کی تفصیل وہ خود بیان کرتے ہیں۔

”میرانام شیخ امجدصدیق ہے۔ میرابڑا بھائی جس کی اس وقت عمر31سال ہے‘ اس کو وہم کی بیماری ہوگئی۔ہم تقریباً 8سال سے اس کا علاج کرارہے ہیں۔ اس عرصہ میں علاج کی غرض سے تقریباً30کے قریب دم درود کرنے والوں سے رابطہ کیا۔ ان میں عیسائی‘ پیر‘مولوی‘شیعہ‘سنی‘دیوبندی یعنی ہرجگہ گیاہوں۔ان کے ایک مرتبہ گھرآنے کی فیس200سے500روپے تک بھی ادا کرتا رہاہوں۔ ہرپیرکا علیحدہ طریقہ علاج اور مختلف تشخیص تھی۔ تمام تر کوششوں کے باوجود آج بھی میرے بھائی کی حالت ویسے ہی ہے۔ ان تمام لوگوں سے مل کر جو تجربہ مجھے حاصل ہوا ہے‘ اس کی بنا پر میں کہہ سکتاہوں کہ پیشہ ور عاملوں کی اکثریت دھوکہ بازی سے مجبور لوگوں کی جیبوں پرہاتھ صاف کرتی ہے۔مجھے سب سے زیادہ جس بات کا افسوس ہے‘ وہ یہ ہے کہ مہرنواز سے ہماراتعارف انہوں نے کرایاجوہمارے پیرتھے اور ہمارا ساراخاندان ان کا عقیدت مند تھا۔ یہ ان دنوں کا قصہ ہے جب میرا بڑا بھائی زاہدصدیق گھر کے ماحول سے تنگ آکر ہمارے پیروں کے دربار پر رہنے کے لئے چلا گیاکہ شاید مجھے آرام آجائے۔جب 15دن بعد میں اس کی خبر گیری کے لئے وہاں گیا‘ بھائی کی وہی کیفیت تھی۔ جب میں نے بھائی سے حال احوال دریافت کیا تواس نے بھی کہا کہ مجھے کوئی فرق نہیں پڑا۔ ابھی ہم باتیں کررہے تھے کہ پیر صاحب کا بھتیجا وہاں آگیا۔میں نے اس سے درخواست کی کہ کہیں سے اس کاعلاج کرادیں۔ ہم بہت پریشان ہیں۔ وہ مجھے کہنے لگا کہ ایک پیر صاحب میری نظر میں ہیں۔ ایک مرتبہ ہمارے دربار کے درختوں میں اچانک آگ بھڑک اٹھی تھی۔ ہم سب پانی ڈال ڈال کر بے بس ہوگئے لیکن آگ بجھنے کانام نہیں لیتی تھی۔ پھر ہمارے والد صاحب کا ایک مرید جو خودبھی پیر ہے‘ اس نے اپنے علم کے زور پر اس آگ کو قابوکیا۔آپ کی ملاقات اس سے کراوں گا۔ اگرآپ کے بھائی پر جنات کا سایہ ہوا تو وہ منٹوں میں تمام جنات نکال دے گا۔ اللہ کی قدرت کہ ہماری گفتگو کے دوران پیر صاحب تشریف لے آئے۔ شاہ صاحب فرمانے لگے کہ لوجی جن کی بات کررہا تھا‘ وہ آگئے۔ اس پیرکانام مہرنواز اور گوجرانوالہ سے اس کا تعلق تھا۔انہوں نے مجھ سے گھر کے حالات دریافت کئے اور بھائی کے متعلق تفصیل سے گفتگو کی۔

مہرنوازکہنے لگا کہ آپ مجھے اپنے گھرلے جائیں۔ میں پیر صاحب کے بھتیجے ‘پیرمہرنواز اور اپنے بھائی کو ساتھ لے کر گھرآگیا۔ مہر نوازنے ہم سے ایک خالی بوتل منگوائی۔ اس میں سرسوں کا تیل ڈال کر اس کو ترپائی پررکھا اورایک کپڑا اس پر ڈال کر منہ میں کچھ پڑھا اور بوتل غائب کردی۔ ہم سب گھروالے یہ دیکھ کر حیران رہ گئے۔ ہمارے دل میں خیال تھاکہ یہ شخص ضرورہمیں پریشانیوںسے نجات دلائے گا۔ ابھی ہم یہ سوچ ہی رہے تھے کہ وہ بوتل تیزی کے ساتھ اوپر سے نیچے تر پائی پر گری لیکن ٹوٹی نہیں۔ ہم اس سے بہت متاثر ہوئے کہ یہ توعلم میں ہمارے پیروں سے بھی آگے ہے۔ اب ہماری تمام مشکلیں حل ہوجائیں گی۔ مہرنواز نے ہم سے چینی اور سبزالائچی منگوا کر اس پردم کیا اور تیل کی مالش سارے جسم پر کرنے کی تاکید کی اور کہا کہ آپ فکر نہ کریں۔ آپ کا مریض بالکل ٹھیک ہوجائے گا۔ مگر ایک شرط ہے کہ آپ کو صدقہ دینا پڑے گا۔ اس نے کہا کہ گھر کے غیر شادی شدہ افراد کو نکال کرباقی اہل خانہ کا فی کس ساڑھے 22کلو بکرے کا گوشت صدقہ کرناہے۔ یہ تقریباً رات کا وقت تھا۔ میں نے کہا کہ مہرصاحب اس وقت فوراً اتنا گوشت نہیں ملے گا تووہ کہنے لگا کہ آپ مجھے اتنی رقم میں ادائیگی کریں۔ میں گوشت خرید کر جانوروں کو ڈال دوں گا۔ ہم اس سے اتنا متاثر ہوچکے تھے کہ ہمیں انکار کرنے کی جرات ہی نہیں ہوئی۔ اس وقت ہمارے اہل خانہ کی تعداد کے حساب سے ساڑھے بائیس کلو گوشت کی قیمت مبلغ16750روپے بنی تومیں نے پیروں کے بھتیجے کو ایک طرف علیحدہ کرکے کہا کہ شاہ صاحب آپ کو ہمارے گھر کے حالات کا علم ہے۔ ہم فوراً اتنی رقم ادانہیں کرسکتے۔توانہوں نے فرمایا کہ دعوے سے کہتاہوں کہ آپ کے بھائی کو آرام آجائے گا۔ آپ میری ضمانت پررقم اداکریں۔ اس وقت گھر میں صرف پانچ ہزار روپے موجود تھے۔ میں نے وہ دے دئیے اور کہا کہ باقی رقم آرام آنے کے بعد اداکردوں گا۔ مہرنواز نے پانچ ہزار روپے اپنے پاس رکھے اورکہنے لگے کہ مجھے معلوم ہے آپ کے حالات ٹھیک نہیں لیکن میں صدقہ کی رقم اکٹھی وصول کرتاہوں۔ میرے والدین نے ہمسایوں سے دوہزار ادھار مانگ کر ان کی خدمت میں پیش کیا اورکہا کہ بس ہمارے پاس یہی کچھ تھا لیکن اس نے وہ رقم قبول کرنے کی بجائے مجھے مخاطب کرکے کہا کہ آپ کو بھائی کی زندگی عزیز ہے یادولت تومیں نے جوابدیا کہ مہرصاحب جو کچھ ہمارے پاس تھا‘ہم نے آپ کی خدمت میںپیش کردیاتومہر نواز کہنے لگا کہ میرے پاس ایساعلم ہے جس کے ذریعے گھر کے بارے میں مکمل معلومات حاصل کرلیتاہوں۔ تمہارے پاس رقم موجودہے اور تم نے اسے تجوری میں رکھاہواہے۔ اگر تم وہ رقم نہ لے کرآئے تومیں وہاں سے رقم غائب کردوں گا۔ یہ بات سن کر میرارنگ اڑ گیا کیونکہ تجوری میں واقعی رقم موجودتھی۔ میں نے اس ڈر سے کہ کہیں یہ رقم وہاں سے غائب نہ کردے رقم لاکر اس کے حوالے کردی تو مہر نواز خوش ہوکر کہنے لگاکہ امجد تمہارے حالات ٹھیک نہیں۔ تمہیں ایک تحفہ دے کرجاتاہوں۔تم بھی کیایاد کروگے۔ ہمارے گھر میں ایک چھوٹا میزتھا۔ اس نے اس پرہاتھ رکھ کر اوپرکپڑا ڈال کر کچھ پڑھا۔ جب کپڑا ہٹایا تونیچے سوروپے والا انعامی بانڈ موجود تھا۔ اس نے وہ بانڈ مجھے دے دیا اور اس کا نمبرنوٹ کر کے کہنے لگا کہ اسے تم اپنے پاس رکھ لو میں اپنے موکلوں کے ذریعے یہ بانڈ نمبرقرعہ اندازی میں شامل کرادوں گا اورتمہاراکوئی نہ کوئی انعام ضرورنکل آئے گا۔ ہم نے جورقم جمع کی۔ وہ کل8200روپے ہوئے۔جانے سے پہلے مہرنواز نے وہ رقم رومال میں لپیٹ کر اوپر دھاگے کے ساتھ باندھ کر اس کو اسی میز پر رکھ کر اوپر ہاتھ رکھا اور اس پرکپڑا ڈال کر کچھ پڑھا۔ جب اس نے کپڑا ہٹایا تورقم وہاں سے غائب تھی۔ جب میں نے حیرت سے پوچھا کہ رقم کہاں گئی؟ تووہ کہنے لگا کہ آپ کا صدقہ قبول ہوگیا۔ رقم اوپر پہنچ گئی ہے۔ اب آپ کا بھائی صحت یاب ہوجائے گا۔ مہرنواز نے باقی رقم 8550روپے کے لئے ہمیں سات دن کی مہلت دی۔ مہلت گزرنے کے بعد جناب گھر تشریف لائے اور بتایاکہ آپ کے بھائی کے خون میں کیڑے پڑگئے ہیں۔آپ کے تمام اہل خانہ پر جادو کیا گیاہے اورکاروبار پر بھی بندش لگی ہوئی ہے۔ وہ کہنے لگے کہ جادو اورکاروبار کی بندش تومیںآج ہی ختم کردوں گالیکن خون کی صفائی دوتین دن بعد آکر کروں گا۔آپ دو تین بوتل خون کا انتظام کر کے رکھیں۔ اس کے بعد اس نے ہم سے ایک بڑی پرات منگوائی۔ ہاتھ کو اس پر ات کے اوپر فضا میں رکھ کر اوپرکپڑاڈالا اور کچھ پڑھا تو پرات میں بہت زور سے کسی کے گرنے کی آواز آئی۔ جب کپڑاہٹایا گیا تو اس میںایک پرانی قسم کازنگ آلود تالا‘ چار عدد کھلونانما کپڑے کی گڑیاں جن میں کامن پنیں لگی ہوئی تھیں اور بوسیدہ مٹی تھی۔ بہرحال اس نے ہمارے سامنے گڑیوں سے پنیں نکال لیں اور کہا کہ آج کے بعد تم جادو سے آزاد ہوگئے ہو۔ اس کے بعد اس نے زنگ آلود تالا کھولا اورکہا کہ کاروبار پربندش بھی ختم کردی ہے۔ ہم اس سے اتنے متاثر ہوچکے تھے کہ وہ جوبات بھی کرتا‘ ہم اسے من وعن تسلیم کرلیتے۔ ان کاموں سے فارغ ہوکر وہ کہنے لگا کہ آپ کا75فیصد کام ہوگیا ہے جبکہ 25فیصد کام دودن بعد آکر کردوں گا۔ ہم نے اسی وقت بقایارقم8550روپے بنتی تھی‘ اپنے پیروں کے بھتیجے کے حوالہ کی جو ان کے ساتھ ہی آیا تھا۔ حامد شاہ صاحب نے وہ رقم گن کر مہرنواز کو پکڑا دی لیکن مہرنواز نے رقم گنے بغیر اپنی جیب میں ڈال لی۔ تھوڑی دیر گزرنے کے بعداس پرکپکپی کی کیفیت طاری ہوگئی۔مہرنواز نے رقم نکال کرگننا شروع کردی اور اس میں سے150روپے مجھے واپس کردئیے کہ یہ رقم آپ نے غلطی سے زائد ادا کردی ہے کیونکہ میرے موکلوں نے مجھے بتایا ہے کہ حرام نہیں کھانا اور ان کی اضافی رقم واپس کردو۔ میں حیران تھا کہ ہم نے دومرتبہ گن کر رقم پوری اداکی ہے لیکن میں نے خاموشی سے150روپے اپنے پاس رکھ لیے۔ اس کے بعد اس نے ہم سے اجازت لی اور جاتے ہوئے وہ گڑیاں ‘تالا اور مٹی اپنی گاڑی میں رکھ لی۔ اس کے پاس پرانے رنگ کی پرانی 14نمبر آسمانی رنگ کی گاڑی تھی اور یہ کہہ کر رخصت ہوا کہ دو دن بعد دوبارہ آوں گا اور میرے پیروں کو بھی تاکید کی کہ آپ نے اس دن ضرور آنا ہے تاکہ ان کا کام مکمل کرکے ان سے دعائیں لیں۔ میرے پیر صاحب توآگئے لیکن مہرنواز نہ آیا۔مہرنواز جاتے ہوئے مجھے اپنے گھر کا موبائل فون نمبر دے گیاتھا۔ میں نے فون پررابطہ کرنے کی کوشش کی۔موبائل فون نمبر تو کسی نے اٹینڈ نہیں کیا لیکن گھرکا نمبرمل گیا۔ گھر سے اہلیہ نے جواب دیا کہ مہرصاحب اسلام آباد کسی میجر کاکام کرنے گئے ہیں۔ دودن بعد آپ کے پاس پہنچ جائیں گے۔ جب یہ دودن بھی گزرگئے اوروہ نہ آئے تومیرے دل میں وسوسے پیداہونے شروع ہوگئے کہ اتنی رقم بھی دے دی ہے لیکن بھائی کی صحت بھی ابھی تک ٹھیک نہیں ہوئی۔ اب پیرصاحب کو ساتھ لے کر گوجرانوالہ اس کے گھر پہنچا۔ہمارے بار بار دستک دینے پر اس کی بیوی باہر آئی اور کہنے لگی کہ مہرصاحب ابھی تک اسلام آباد سے واپس نہیں آئے۔ ہم پیغام دے کر واپس آگئے۔

اس کے پندرہ دن بعد اس نے فون کیا‘ اپنی مجبوریاں بیان کیں اورپانچ سات دن بعد آنے کا وعدہ کیا۔ جب اس نے مسلسل وعدہ خلافی کی توایک دن میں نے اس کے گھرفون کیا تواس کی بیوی نے فون اٹھایا۔میرے اور اس کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا۔ میں نے اسے دھمکی دی کہ اگر مہرنواز نے کام نہیں کرنا تو ہماری رقم واپس کردے۔نہیں تومیں آپ کے محلے میں آکر معززین کو اکٹھا کروں گا۔ اس کے دوسرے ہی روز مہرنواز کا فون آگیا کہ تم نے میری بیوی کے ساتھ بدتمیزی کی ہے۔ اب میں نے آپ کے بھائی کا علاج نہیں کرنا اور نہ ہی رقم واپس کرنی ہے تم جو کرسکتے ہو کرلو۔ یہ کہہ کر اس نے فون بند کردیا۔ وہ شاید اسی بہانے کی تلاش میں تھا۔اب مجھے احساس ہوا کہ ہمارے ساتھ فراڈ ہوگیاہے۔میں نے اپنے پیروں کو تمام صورتحال سے آگاہ کیا تووہ کہنے لگے کہ چنددن انتظار کر لو۔ اگروہ نہ آئے تو ہمارے آستانے پرآجانا۔ہم تمہارے ساتھ اس کے پاس جائیں گے۔جب چند دن بعد میں دربار پہنچا توانہوں نے بھی ٹال مٹول سے کام لیا۔(بعد میں مجھے مہرنواز نے بتایا کہ تمہارے پیروں نے آدھی رقم کا حصہ وصول کرلیا تھا۔ اس لئے وہ میرے پاس نہیں آسکتے تھے)میں نے دربار کے چکروں سے تنگ آکرخود ہی مہرنواز سے رقم وصول کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ میں نے اس کے گھر کے بہت چکر لگائے۔ بارہویں چکر میں میرااس کا آمناسامنا ہوگیا۔ اب پہلے والی عقیدت ختم ہوچکی تھی۔ اس نے مجھے صاف کہا کہ میرے پاس کچھ نہیں۔ میں توبس فراڈ کے ذریعے اپناکام نکالتاہوں۔ اگر میرے پاس جن ہوتے تومیں کشمیر نہ آزادکرالیتا۔ جب اس کی اصلیت کھل کر میرے سامنے آگئی تو میں نے اپنے دوستوں کو اکٹھا کرکے اس کے گھر کے بار بار چکر لگائے۔ جب کسی طرح نہ بنی تو ہم گوجرانوالہ کے ایک سابق ایم این اے کے بھتیجے ضیاءاللہ بٹ کے پاس کسی کی معرفت پہنچے۔ اس کا اپنے علاقے میں کافی اثرو رسوخ تھا۔ وہ ہمارے ساتھ اس کے گھر گئے تومجبوراً مہرنواز نے رقم ادا کرنے کی حامی بھری اور ساتھ کہا کہ میں نے تمہیں ایک پائی بھی واپس نہیں کرنی تھی لیکن اب تم انہیں ساتھ لے کرآئے ہو۔ تمہاری قسمت اچھی ہے۔ اس کے بعد اس نے قسطوں میں مجھے آدھی رقم اداکی اور آدھی یہ کہہ کر دبالی کہ آدھی رقم کامطالبہ پیروں سے کروں کیونکہ انہوں نے حصہ وصول کیاہے۔ جب میں نے اپنے پیروں سے بقیہ رقم کاتقاضاکیا تو انہوں نے انکار کردیا کہ وہ جھوٹا ہے۔ہم نے کوئی حصہ وصول نہیں کیا۔ مجھے افسوس صرف اس بات کا ہے اگر ہمارے پیروں کو یہ علم تھا کہ یہ جھوٹا وار فراڈیاہے تومجھے اس سے آگاہ کرتے۔ میں تواپنے پیروںپراعتماد کرکے لٹ گیا۔

Leave a Reply