Wednesday, April 24, 2024
Home Blog Page 91

خطیبوں کی پھیلائی ہوئی غیرمستند احادیث‎

ملک خداد پاکستان میں ساری دنیا سے زیادہ مذہبی اور دینی پروگرام ہوتے ہیں۔ لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ ان دینی پروگراموں میں لوگ علمی  اور قابل اعتبار شخصیات کے بجائے لچھے دار تقریریںکرنے والوں کو ترجیح دیتے ہیں۔ جس کا نقصان یہ ہورہا ہے کہ ان لوگوں نے کئی من گھڑت روایات کو حدیث بنا کر پیش کیا اور اب عوام تو کیا عام علماء بھی انہیں حدیث ہی سمجھ رہے ہیں۔ چنانچہ اب ایک ایسی ایپلی کیشن تیار کرلی گئی ہے جو آپ کو ایسی تمام روایات کے بارے بتائے گی جو عوام و خواص میں بطور حدیث مشہور تو ہیں لیکن حقیقت میں وہ حدیث نہیںبلکہ کسی کا قول یا من گھڑت روایات ہیں۔

ایپلی کیشن کا لنک یہ ہے۔

غیرمستندمشہور احادیث‎
Logo Ghair Mustanad Ahadees 1 1

نظر کی کمزوری

نظر کی کمزوری

نظر کی کمزوری کی وجوہات کیا ہیں. ایسی کون سی دوائی ہے جو 6نمبر عینک پر بھی اتار دیتی ہے.

حادثات سے بچنے کا تعویذ

خون پیدا کرنے والی غذائیں

جسم میں خون کی کمی یا انیمیا درحقیقت جسم میں خون کے سرخ خلیات کی کمی کو کہا جاتا ہے جو آکسیجن کی فراہمی کا کام کرتے ہیں۔
اس مرض میں خون کے صحت مند سرخ خلیات میں ہیمو گلوبن کی کمی ہوجاتی ہے جو جسم کے مختلف حصوں میں آکسیجن پہنچاتے ہیں، ہیموگلوبن وہ جز ہے جو خون کو سرخ رنگ دیتا ہے۔
یعنی جسم کو خون کی کمی سے بچانے کے لیے ضروری ہے کہ ہیموگلوبن کی سطح کو مناسب حد تک برقرار رکھا جاسکے، کیونکہ اس کی کمی شدید تھکاوٹ اور کمزوری کے ساتھ ساتھ اینمیا کا شکار بنا سکتی ہے۔
اور یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ ہیموگلوبن کی کمی سے بچنے کے لیے آئرن سے بھرپور غذاﺅں کا استعمال بہت ضروری ہے جو کہ ہیموگلوبن کی پیداوار کے ساتھ خون کے سرخ خلیات کے لیے اہم کردار ادا کرنے والا جز ہے۔
خون کی کمی ایسا مسئلہ ہے جس کا سامنا ہر 10 میں سے 8 افراد کو ہوتا ہے۔
عالمی ادارہ صحت کے ایک تخمینے کے مطابق دنیا کی 80 فیصد آبادی کو آئرن کی کمی کا سامنا ہوتا ہے خصوصاً حاملہ خواتین میں یہ خطرہ بہت زیادہ ہوتا ہے۔
بالغ افراد کے لیے اس حوالے سے روزانہ آئرن کی مقدار بھی تجویز کی گئی ہے جیسے مردوں کے لیے 8 ملی گرام جبکہ خواتین کے لیے 18 ملی گرام، تاہم 50 سال کی عمر کے بعد خواتین میں بھی یہ مقدار 8 ملی گرام ہوجاتی ہے۔
مگر کیا آپ کو معلوم ہے کہ خون کی کمی کے اکثر کیسز میں غذائی تبدیلیاں لاکر اس پر قابو پانا ممکن ہوتا ہے۔
یہاں ایسے ہی پھلوں اور ان کے بنے مشروبات کے بارے میں جانیں جو خون کے سرخ خلیات کو بڑھانے میں مدد دیتا ہے۔

مزید پڑھیں: چائے پینے کے فوائد
کھجور
کھجور کھانا سنت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہے، کھجور بے وقت کھانے کی لت پر قابو پانے میں مدد دینے والا موثر ذریعہ ہے جبکہ یہ آئرن کی سطح بھی بڑھاتی ہے، جس سے خون کی کمی جلد دور کرنے میں مدد ملتی ہے۔ تاہم کھجور کے استعمال کے حوالے سے بھی ذیابیطس کے مریضوں کو احتیاط کی ضرورت ہے۔
انار
انار خون کی کمی دور کرنے کے لیے بہترین پھلوں میں سے ایک ہے جس میں آئرن، وٹامن اے، سی اور ای موجود ہوتے ہیں، اس میں موجود ایسکوریبک ایسڈ جسم میں آئرن کو بڑھا کر خون کی کمی دور کرتا ہے، روزانہ اس پھل کے جوس کا ایک گلاس پینا اس سمئلے کا بہترین حل ثابت ہوسکتا ہے۔
کیلے
کیلے آئرن سے بھرپور ہوتے ہیں جو کہ خون میں ہیموگلوبن بننے کے عمل کو حرکت میں لاتا ہے، آئرن کے ساتھ یہ فولک ایسڈ کے حصول کا بھی اچھا ذریعہ ہے جو خون کے سرخ خلیات بننے کے عمل کے ضروری ہوتا ہے۔
سیب
کہا جاتا ہے کہ ایک سیب روزانہ ڈاکٹر کو دور رکھے، اس میں کتنی حقیقت ہے، اس سے قطع نظر یہ پھل آئرن سے بھرپور ضرور ہوتا ہے جو ہیموگلوبن بننے کے عمل کو تیز کرتا ہے، روزانہ ایک سیب کھانا خون کی کمی سے بچنے یا دور کرنے میں مدد دیتا ہے۔
خشک آلوبخارے
خشک آلو بخارے بھی خون کی کمی دور کرنے میں انتہائی موثر ثابت ہوتے ہیں، یہ وٹامن سی اور آئرن سے بھرپور ہوتے ہیں جو ہیموگلوبن کو بڑھانے میں مدد دیتے ہیں، اس کے ساتھ ساتھ ان میں موجود میگنیشم بھی اس حوالے سے مدد دیتا ہے، میگنیشم جسم میں آکسیجن کی ترسیل میں مدد دیتا ہے۔
مالٹے
آئرن جسم میں وٹامن سی کی مدد کے بغیر مکمل طور پر جذب نہیں ہوپاتا اور یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ مالٹے اس وٹامن سے بھرپور ہوتے ہیں، تو اس موسم میں روزانہ ایک مالٹا کھانا اس کمی کو دور کرنے میں بہترین ٹوٹکا ثابت ہوسکتا ہے۔
کیلے اور سیب کا مشروب
سیب اور کیلے سے بننے والا ایک مشروب ایسا ہے جو کہ موٹاپے پر کنٹرول کرنے کے ساتھ ساتھ جسم میں آئرن کی سطح بڑھانے میں مدد دیتا ہے۔ اس کے لیے ایک کیلا، ایک سیب، ایک کھانے کا چمچ شہد اور آدھا گلاس دودھ لیں، کیلا کا چھلکا اتار کر اسے کاٹ لیں، جس کے بعد سیب کو چھلکوں کے ساتھ ہی ٹکڑوں میں کاٹیں۔ اب انہیں جوسر میں ڈال کر ایک چمچ شہد کا اضافہ کردیں اور پھر دودھ کو بھی ڈال کر سب اجزاءکو اچھی طرح بلینڈ کرلیں۔ اگر تو آپ کو یہ مشروب گاڑھا لگے تو اس میں مزید دودھ کو ڈال کر اسے بلینڈ کریں۔ بس پھر گلاس میں نکال کر پی لیں، اس مشروب کا استعمال بہت کم وقت میں خون کی کمی کے مسئلے سے نمٹنے میں مدد دے سکتا ہے۔

آٹزم کا سبب کیا ہے؟

آٹزم کا سبب کیا ہے؟

گوہر تاج
آٹزم کی کوئی ایک واحد وجہ نہیں ہوتی، اس کا سبب دماغ کی ساخت یا اس کے کام میں بے قاعدگی ہوتی ہے اور اس کا اندازہ آٹزم میں مبتلا افراد کے دماغ کی اندرونی مشینی تصویر سے ہوا۔ تحقیق دان اس وقت بہت ساری ممکنہ وجوہات پر روشنی ڈال رہے ہیں اور موروثیت، جینیاتی تبدیلی اور دوسری طبی وجوہات سے اس کا ربط ڈھونڈنے کی کوشش کررہے ہیں۔ گو ابھی تک کسی واحد جینیاتی مادے کی شناخت نہیں ہوئی ہے تاہم تحقیق دان ایسے جینیاتی مادوں کے مجموعہ کی تلاش میں ہیں کہ جو ان بچوں نے موروثی طور پر حاصلکیے ہوں۔ یہ بھی لگتا ہے کہ کچھ بچے غالباً کسی محرک کے اثر سے زود حس ہیں مگر ابھی تک سائنسدان کوئی ایسا اُکسانے والا سبب تلاش نہیں کرپائے ہیں۔
کچھ دوسرے تحقیق دانوں نے اس امکان پر بھی تحقیق کی ہے کہ کچھ حالات میں کچھ چیزوں کا مجموعہ دماغ کی نشوونما میں مداخلت کرکے آٹزم کا سبب بن سکتا ہے۔ اس کے علاوہ ایک ریسرچ کے مطابق اس کی وجہ زمانہ حمل یا زچگی کے دوران مسائل کے علاوہ ماحولیاتی عوامل مثلاً وائرس انفیکشن یا ماحول میں موجود کیمیکل کی موجودگی بھی ہوسکتی ہے۔ اس کے علاوہ آٹزم کا وقوع پذیر ہونا ان افراد میں نسبتاً زیادہ ہے کہ جو پہلے ہی کسی طبی مسئلہ میں مبتلا ہیں، مثلاً:
Fragile tuberous sclerosis congenital rubella syndrome
X syndrome اور Untreated phenyl ketoneuria
آٹزم سے مدافعتی ٹیکوں کا تعلق بھی زیربحث رہا ہے۔ گو 2001ء کی ریسرچ کے مطابق اس امکان کو مسترد کیا گیا ہے کہ MMR ویکسین اور آٹزم کا تعلق ہے تاہم اسے حتمی مسترد بھی نہیں کیا گیا ہے اور اس پر مزید کام کی ضرورت ہے۔ بہرحال وجہ جو بھی ہو، آٹزم بچوں کی غلط تربیت کا ہرگز نتیجہ نہیں، یہ کوئی ذہنی بیماری نہیں، ایسے بچے اپنی بدتمیزی کا انتخاب خود نہیں کرتے ہیں اور یہ بھی ہے کہ ابھی تک کوئی نفسیاتی عوامل بھی ایسے نہیں ملے کہ جو بچوں میں آٹزم کا سبب بنیں۔

یہ بھی پڑھیں: آٹزم کیا ہے.

آٹزم کی تشخیص:
بہت سے دوسرے امراض کے برخلاف آٹزم کے کوئی طبی لیب ٹیسٹ مروج نہیں۔ اس کی تشخیص خالصتاً افراد کے رویے کا مشاہداتی تجزیہ ہے جس میں اس کے سماجی رویہ اور ذہنی نشوونما کا تفصیلی جائزہ لیا جاتا ہے، لیکن چونکہ اور بہت سے دوسرے امراض کی علامات بھی آٹزم سے ملتی جلتی ہیں لہٰذا ضروری سمجھا جاتا ہے کہ بہت سے طبی ٹیسٹ کروا کے پہلے دیگر امراض کی موجودگی کے امکان کو مسترد کیا جائے۔
صحیح تشخیص کے لئے بچے کی نشوونما کی تفصیلی تاریخ کو بہت اہمیت حاصل ہے، اس ضمن میں والدین سب سے اہم کردار ادا کرتے ہیں، جو مشاہداتی ٹیم بچے کے رویے کا جائزہ لیتی ہے اس میں نفسیات دان، بچوں کا وہ ڈاکٹر کہ جس کو Autism کی صحیح معلومات ہوں، ایک تعلیم دان، سکول سوشل ورکر اور اسپیچ اور لینگوئج پتھالوجسٹ شامل ہیں۔ ہر مرحلہ پر والدین کی فراہم کی ہوئی معلومات ایک کلیدی حیثیت رکھتی ہیں۔

یہ بھی  پڑھیں: آٹزم کی علامات،علاج،اور رہنمائی

بچے کی تشخیص کو مثبت ثابت کرنے کے لئے آٹزم کی تقریباً 12 علامات میں سے 6 کا پایا جانا ضروری ہے اور ان علامات کا کم عمری سے ہونا ضروری ہے، ہوسکتا ہے کہ پیدائش کے وقت بچہ بالکل دوسرے بچوں کی طرح نظر آئے لیکن اس کی علامتوں کا ظہور بتدریج وقت کے ساتھ ساتھ ہوتا رہتا ہے۔ یہ علامتیں اگر بچہ پہلا ہو تو واضح طور پر نوٹ نہیں کی جاتیں لیکن جس وقت دوسرا بچہ ہوتا ہے تو دونوں کے رویوں میں فرق سے آٹزم واضح ہوتا ہے۔
اس وقت یہ بات توجہ طلب ہے کہ لڑکیوں کے مقابلے میں لڑکوں میں اس کے ہونے کے امکانات چار گنا زیادہ ہیں اور اس کے ہونے کا تناسب ہر سال 10.17 فیصد بڑھ رہا ہے۔ اس حساب سے اگلے 10 عشرے میں صرف امریکہ میں چار ملین انسانوں میں آٹزم کی علامات ہوں گی۔ سینٹر آف ڈیزیز کنٹرول اینڈ پروینشن 2001ء کے مطابق اس وقت 0.21 سال کے افراد میں سے تخمیناً 7.30.000 افراد آٹزم اسپیکٹرم ڈس آرڈر میں مبتلا ہیں۔
تحقیق دانوں نے ایسے ٹیسٹوں کو دریافت کرنے کی کوشش کی ہے کہ جو کم سے کم عمر میں بچوں پرکیے جاسکیں تاکہ جلد سے جلد ایسے بچوں کا علاج شروع ہوسکے۔ ذہنی عدم توازن کے لئے مروجہ آئی کیو ٹیسٹنگ اکثر ماں باپ کو پریشان کردیتی ہے۔ ان کے بچے میں اگر کسی صلاحیت کے اظہار میں دیر لگتی ہے تو وہ اس خوش خیالی میں مبتلا ہوتے ہیں کہ یہ وقت کے ساتھ ساتھ بہتر ہوجائے گا لیکن اس ٹیسٹنگ سے یہ پتہ چلتا ہے کہ بچہ دراصل اس وقت کس ذہنی سطح پر ہے، جلد از جلد تشخیص کا ہونا یوں بھی ضروری ہے کہ بچے میں سب سے زیادہ ذہنی نشوونما زندگی کے ابتدائی چند سالوں میں ہوتی ہے اور اگر شروع میں ہی اس کا علم ہوجائے تو ممکنہ علاج کی جلد ابتدا ہوسکتی ہے اور والدین کو یہ پتہ ہوسکتا ہے کہ اگر ان کا بچہ آٹزم کا شکار ہے تو وہ کونسی دوسری صلاحیتیں ہیں کہ جن کو استعمال کرکے ان کی کمزوریوں کا کسی حد تک سدباب ہوسکتا ہے۔

بحریہ ٹاون کی جانب سے 402 ارب کی پیشکش. سپریم کورٹ نے رد کردی

پاکستان کی عدالت عظمیٰ نے نجی ہاؤسنگ سوسائٹی بحریہ ٹاون کی انتظامیہ کی طرف سے کراچی میں 16 ہزار ایکڑ اراضی کو قانونی دائرے میں لانے کے لیے چار کھرب روپے جمع کرنے کی پیشکش مسترد کر دی ہے۔
سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ اس زمین کی موجودہ قیمت اور ملکی کرنسی کی قدر و قمیت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
بحریہ ٹاؤن کی انتظامیہ نے اپنی پیشکش میں یہ موقف اختیار کیا تھا کہ وہ 405 ارب روپے کی رقم 12 سالوں میں ادا کریں گے۔ اس پیشکش کے مطابق بحریہ ٹاون کی انتظامیہ پہلے چھ سالوں میں ہر ماہ دو ارب روپے کی رقم جمع کروائے گی جبکہ باقی ماندہ چھ سالوں میں ہر ماہ تین ارب روپے کی رقم جمع کراوئی جائے گی۔
اس سے پہلے بحریہ ٹاؤن کی انتظامیہ کی طرف سے اس زمین کو جائز قرار دینے سے متعلق سپریم کورٹ کو 358 ارب روپے دینے کی پیشکش کی گئی تھی جسے عدالت عظمیٰ نے مسترد کر دیا تھا۔
جسٹس عظمت سعید شیخ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے جمعرات کو بحریہ ٹاؤن عمل درآمد مقدمے کی سماعت کی۔
بینچ کے سربراہ نے بحریہ ٹاؤن کے وکیل علی ظفر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اُن کے موکل نے اس عدالت میں قبضے کرنے کا اعتراف کیا اور شرمندہ بھی نہیں ہوئے۔ اُنھوں نے کہا کہ سرکاری اراضی کے ایک انچ پر بھی قبضہ برداشت نہیں کیا جائے گا۔
جسٹس عظمت سعید نے بحریہ ٹاؤن کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اُنھوں نے کراچی منصوبے کا آغاز سنہ 2013 اور 2014 میں کیا تھا اور پانچ سالوں کے دوران اُنھیں بہت زیادہ رقم مل جائے گی۔
بحریہ ٹاؤن کے وکیل کا کہنا تھا کہ لوگوں سے حاصل کی جانے والی اس رقم سے بہت سارے ترقیاتی کام بھی کرنے ہیں۔
بینچ کے سربراہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ بات بنتی نظر نہیں آ رہی اور عدالت زمین کی اصل قیمت سے آنکھیں بند نہیں کر سکتی۔ عدالت نے بحریہ ٹاؤن کے وکیل سے کہا کہ رقم کی قسطوں کا معاملہ بحریہ ٹاؤن کی انتظامیہ کو خود ہی دیکھنا ہوگا۔
عدالتی استفسار پر نیب کے حکام نے بتایا کہ بحریہ ٹاون کے معاملے میں ایک ریفرنس کراچی میں دائر کیا جائے گا جبکہ اس کے علاوہ چار اور ریفرنس بھی دائر کیے جائیں گے۔
بینچ کے سربراہ نے بحریہ ٹاؤن کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ عدالت نیب کو اپنی کارروائیاں کرنے سے نہیں روکے گی۔
عدالت نے نامکمل تفصیلات جمع کروانے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مارکیٹنگ کمپنیوں نے عدالت سے تعاون نہیں کیا۔
بینچ کے سربراہ نے نجی کمپنیوں کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اگر اُنھوں نے تعاون نہیں کرنا تو پھر عدالت یہ معاملہ نیب کو بھجوا دیتی ہے۔
عدالت نے اس مقدمے کی سماعت28 فروری تک ملتوی کردی۔
واضح رہے کہ سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے بحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض کو یہ پیشکش کی تھی کہ اگر وہ کم ازکم پانچ سو ارب ادا کر دیں تو ان کے خلاف تمام مقدمات کو ختم کر دیا جائے گا لیکن بحریہ ٹاؤن کے مالک نے اس آفر کو قبول نہیں کیا تھا۔

اپنے بچوں کو سوشل سائنس پڑھائیں

بچوں کو سوشل سائنس پڑھائیں

(سیدعبدالوہاب شیرازی)

کامیاب ترین لوگ کیا پڑھتے ہیں

دنیا کے کامیاب ترین لوگ کیا پڑھتے ہیں؟ یا دنیا پر حکمرانی کرنے والے لوگ کیا پڑھتے ہیں؟ یہ وہ سوال ہے جس کا جواب اور اس پر کچھ تبصرہ آج کا میرا موضوع ہے۔دنیا میں کامیاب ترین رہنماوں کی 55فیصد تعداد ایسے لوگوں کی ہے جنہوں نے سائنسی علوم نہیں حاصل کیے، بلکہ ان کی کامیابی کا راز غیر سائنسی علوم تھے۔یہ بات میں اپنی طرف سے نہیں کہہ رہا بلکہ برٹش کونسل کی ایک تحقیق اور سروے کی رپورٹ ہے جو اس نے 30سے زائد ممالک کے 1700افراد پر کی۔تحقیق سے پتا چلا کہ نصف سے زائد 55 فیصد رہنماوں نے سوشل سائنس اور ہیو مینٹیز کا مطالعہ کیا تھا۔ ان میں سے 44 فیصد نے سوشل سائنس اور 11 فیصد نے ہیو مینیٹیز میں ڈگری حاصل کی تھی جبکہ جو لوگ سرکاری ملازمتوں پر فائز تھے، ان میں سوشل سائنس کے مطالعے کے امکانات زیادہ تھے، اسی طرح غیر منافع بخش تنظیموں سے وابستہ افراد ہیو مینٹیز کا پس منظر رکھتے تھے۔

حکمرانی کرنے والے

Nukta Colum 003 5
پولٹیکل سائنس اور سوشل سائنس یعنی سماجی علوم یا معاشرتی علوم وہ علوم ہیں جن میں ہم لوگ زیادہ دلچسپی نہیں لیتے۔ یہی وہ علوم ہیں جن کو پڑھ کر یا مہارت حاصل کرکے کچھ لوگ دنیا پر حکمرانی کررہے ہیں، چونکہ ان کو ان علوم کی اہمیت کا خود اندازہ ہے اسی لئے وہ اپنے بچوں کو بھی یہی علوم پڑھاتے ہیں۔ چنانچہ یہ بات حیرت سے کم نہ ہوگی کہ یورپ وغیرہ میں ڈاکٹری،انجینئرنگ وغیرہ سیکھنے یا پڑھنے کا اتنا زیادہ رجحان نہیں یہی وجہ ہے کہ پاکستان اور اس جیسے دوسرے ممالک کے ڈاکٹر اور انجینئرز دھڑا دھڑ یورپ ایکسپورٹ ہورہے ہیں۔ یورپ والوں کی نظر میں میڈیکل سائنس، الیکٹریکل سائنس، کمپیوٹر سائنس وغیرہ عام سے کام ہیں اسی لئے ان کاموں کے لئے وہ دوسرے محکوم ممالک سے لوگوں کو بلاکر ملازم رکھ لیتے ہیں۔ ان کے نزدیک ڈاکٹری ایک پیشہ ہے لہٰذا وہ اس پیشے والے کو تنخواہ پر رکھ لیتے ہیں جبکہ اپنے بچوں کو وہ سوشل سائنس،پولٹیکل سائنس پڑھاتے ہیں تاکہ ہمارے بچے حکمرانی کریں اور باقی لوگ ڈاکٹر،انجینئرز وغیرہ ہمارے ملازم ہوں اور ہمارے ماتحت رہ کر ہماری خدمت کریں۔ ہم اکثر سنتے رہتے ہیں کہ پنجاب یونیورسٹی سے فراغت حاصل کرکے پہلی تین پوزیشن حاصل کرنے والے لڑکوں کو بھاری تنخواہوں اور مراعات کی لالچ دے کر امریکا لے گیا۔ میرا ایک جاننے والا سپین میں رہتا ہے ایک دن فون پر بات ہورہی تھی اس نے کہا میرے دانت میں درد ہے آج ڈاکٹر کے پاس گیا تھا اس نے ٹوکن دے دیا ہے اب پندرہ دن بعد میری باری آئے گی پھر وہ چیک کرے گا اور دوا دے گا، اس نے بتایا یہاں ڈاکٹر بہت کم ہیں اس لئے چیک اپ کروانے کے لئے کئی کئی دن انتظار کرنا پڑتا ہے۔ جبکہ ہمارے پاکستان میں ہسپتالوں میں مریضوں کی لائنیں لگی ہوتی ہیں، اگر کسی مریض کو دس منٹ بھی انتظار کرنا پڑے تو منہ چڑھا لیتا ہے۔ہرسال ہزاروں پاکستانی میڈیکل،انجینئرنگ اور دیگر فنون میں اعلیٰ تعلیم سے فراغت کے بعد بڑی آسانی سے یورپ میں سیٹ ہوجاتے ہیں کیونکہ وہاں ان کی بہت ڈیمانڈ ہے وہاں کے مقامی لوگ ان چیزوں میں خود دلچسپی نہیں رکھتے وہ یہ کام دوسرے لوگوں سے لیتے ہیں، خود نگرانی اور ایڈمنسٹریشن کرتے ہیں۔ہمارے ملک میں بھی جو چند خاندان پچھلے ساٹھ ستر سال سے سیاست کرتے آرہے ہیں وہ بھی اپنے بچوں کو سوشل سائنس اور پولٹیکل سائنس ہی پڑھاتے ہیں کیونکہ ان کو بھی اس کی اہمیت کا اندازہ ہے۔
یہ علوم اصل میں تو ایک مسلمان کے لئے ضروری تھے، کیونکہ اللہ نے اسے زمین پر اپنا خلیفہ منتخب کیا تھا، نبی اللہ کے خلیفہ ہوتے تھے،اللہ کا آخری خلیفہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم تھے، پھر ان کے بعد نائبین تھے۔ لیکن مسلمانوں نے نبی کا نائب بننے میں دلچسپی لینا چھوڑ دی چنانچہ آج غیرمسلم اقوام دنیا پر حکمرانی کررہی ہیں اور مسلمان ان کی غلامی میں ان کی خدمت اور محکومی کی زندگی گزار رہے ہیں۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کوئی نبی ایسا نہیں ہوا جس نے بکریاں نہ چَرائی ہوں، صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ آپ نے بھی بکریاں چَرائی ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جی ہاں میں نے بھی بکریاں چرائی ہیں، میں قریش کی بکریاں چرایا کرتا تھا چند قیراط پر(مشکوة)۔ علماءنے اس کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ نبی نے آگے جاکر قوم کی قیادت کرنی ہوتی ہے، قوم کو لے کر چلنا ہوتا ہے، اس لئے اللہ تعالیٰ بچپن میں نبی سے بکریاں چروا کر اس کی تربیت فرماتے ہیں ، کیونکہ ایک چرواہا سینکڑوں بکریوں کو کنٹرول کرتا ہے کبھی کوئی بکری ایک طرف بھاگتی ہے کبھی دوسری طرف اسے بھاگ بھاگ کر ان کو کنٹرول کرنا ہوتا ہے اس طرح اس کی تربیت ہوتی ہے کہ انسانوں کے بے لگام ہجوم کو کس طرح اپنے کنٹرول میں رکھنا ہے۔

موجودہ دور کی تبدیلی

موجودہ دور میں جس طرح ہر چیز نے ترقی کی ہے اسی طرح بکریاں چروا کر جو تربیت ہوتی تھی وہ بھی اب باقاعدہ ایک علم بن گیا، جو بڑے بڑے تعلیمی اداروں میں پڑھایا جاتا ہے۔اسی علم کو آج سوشل سائنس، پولٹیکل سائنس ،عمرانیات وغیرہ کا نام دیا جاتا ہے۔سمجھدار لوگ ان علوم میں مہارت حاصل کرکے لوگوں کے دل ودماغ اور وجود سے کام لیتے ہیں ۔سوشل سائنس اور سماجی علوم کی کئی شاخیں ہیں، بڑی بڑی کمپنیاں ایسے ماہرین کی خدمات حاصل کرکے اپنے کاروبار چلاتی ہیں، وہ ماہرین لوگوں کی نفسیات کے مطابق پروڈکٹ میں تبدیلیاں لاتے رہتے ہیں، اسی طرح ایڈورٹائزنگ کا شعبہ بھی ایسے ہی لوگ چلاتے ہیں۔ ہمارے ہاں دینی طبقہ جن کے اخلاص للٰہیت اور دینی خدمات میں کوئی شک نہیں، بدقسمتی سے ان علوم سے نابلد رہا۔ بلکہ میں یوں کہوں گا کہ ایک خاص سازش کے تحت اس طبقے کو باقاعدہ منظم منصوبہ بندی سے محروم رکھا گیا، اور اس کام کے لئے علماءکی سادگی سے بھرپور فائدہ اٹھایا گیا۔ جس طرح ایک تین چار سال کا بچہ ضدی ہوتا ہے، کبھی اسے کہیں دودھ پیو تو وہ کہتا ہے میں نہیں پیوں گا۔ پھر اسے کہو یہ دودھ نہیں پینا تو وہ کہتا ہے میں ضرور پیوں گا، اسی طرح علماءکو مرحلہ وار اس سٹیج پر لایا گیا کہ وہ ضد میں آگئے اور انہوں نے جدید علوم کو سیکھنے سکھانے سے انکارکردیا۔ جن لوگوں نے اس سٹیج تک لایا انہوں نے اس بات پر اور پکا کرنے کےلئے کئی حربے آزمائے، الٹے سیدھے کام کرکے علماءکو کہتے کہ یہ پڑھاو ، علماءضد میں آکر کہتے نہیں ہم نہیں پڑھائیں گے۔ چنانچہ اس طرح پچھلی دو صدیوں سے دینی طبقے کو بالکل دیوار سے لگا دیا گیا۔ اب چند سال ہوئے کہ دینی طبقے کو ہوش آیا اور انہوں نے کچھ نہ کچھ اس طرف توجہ کی ہے،لیکن ظاہر ہے اس کے نتائج برآمد ہونے میں چالیس پچاس سال تو لگیں گے، اگر یہ کام پچاس سال پہلے کیا ہوتا تو آج بڑے بڑے دینی ماہرین حکومت،فوج،عدلیہ اور دیگر اداروں میں قیادت کررہے ہوتے۔ان علوم سے ناواقفیت کا ایک نتیجہ یہ بھی ہے کہ علماءکو یہ لوگ اپنے اپنے مقاصد میں استعمال کرتے رہتے ہیں اور اس بات کا احساس تک علماءکو نہیں ہوتا، ویسے تو اس کی کئی مثالیں ہیں لیکن میں ایک مثال دیتا ہوں، چند سال قبل ایک چینل پر ایک طویل ڈرامہ قسط وار چلنا شروع ہوا، اس چینل نے روٹین کے مطابق اس کی ایڈورٹائزنگ کی یعنی ٹی وی، اخبارات وغیرہ میں۔ اس کے ساتھ ساتھ علماءکے ذریعے اس ڈرامے کی ایڈورٹائزنگ کرانے کا فیصلہ ہوا، چنانچہ چند لوگوں کوایسے مختلف علماءکے پاس بھیجاجو خطیب اور مقرر تھے، ان لوگوں نے مختلف شہروں میں علماءسے مل کر انتہائی نیازمندی سے کہاحضرت فلاں چینل پر ایک ڈرامہ شروع ہونے والا ہے، اس ڈرامے میں قرآن پاک کی توہین کی گئی ہے،آپ اس کے خلاف آواز اٹھائیں۔ چنانچہ خطیب صاحبان نے نہ تحقیق کی اور معلومات لیں، بس ایک سنی سنائی بات پر جمعے کی تقریروں میں مسجد کے ممبر ومحراب سے اس ڈرامے کی ایڈورٹائزنگ شروع ہوگئی،کہ فلاں ڈرامے کو بندکیا جائے، حکومت ایکشن لے، اب لوگوں میں بھی تجسس پیدا ہوا اور پورے ملک کی عوام اس ڈرامے کو دیکھنے لگی۔ ظاہر ہے اس ڈرامے میں ایسی کوئی بات نہیں تھی اس لئے حکومت یا عدلیہ کو کسی قسم کا ایکشن لینے کی ضرورت ہی نہیں پڑی۔
اگر ہم ان مفید علوم سے اسی طرح کنارہ کش رہے تو دوسرے لوگ ہمیں اسی طرح اپنے اپنے مقاصد میں استعمال کرتے رہیں گے۔ اگر ہم قوم کی قیادت کرنا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں قیادت کرنے علوم میں مہارت ،تعلیم اور تربیت بھی ضرور حاصل کرنی ہوگی۔ڈاکٹر محمد رفعت پروفیسر جامعہ ملیہ اسلامیہ لکھتے ہیں: مسلمان طلبہ کی ذمہ داری ہے کہ سماجی علوم کی اہمیت کو طبعی علوم سے کم نہ سمجھیں۔ ان علوم کو مغربی دنیا میں جس طرح ترتیب دیا گیا ہے اس کا تنقیدی جائزہ لیں۔ صحیح اور غلط تصور کائنات میں امتیاز کریں اور انسانی وجود اور کائنات کے اندر پھیلی ہوئی ان نشانیوں کا ادراک کریں جو درست تصور کائنات کی تصدیق کرتی ہیں۔ مغربی افکار پر تنقید کے ساتھ ان کی یہ ذمہ داری بھی ہے کہ مبنی برحقیقت تصور انسان و کائنات کے مطابق، معلومات کو ترتیب دیں اور نئی معلومات کی دریافت و تحقیق کا کام اس جذبے کے ساتھ انجام دیں کہ ایک صالح معاشرے کی تعمیر کرنی ہے جو ان عالم گیر قدروں پر استوار ہو جن کو انسان کی فطرت صالحہ پہچانتی ہے اور وحی الٰہی جن کی تصدیق کرتی ہے۔

تقسیم میراث کیلکولیٹر

inheritance calculator

ہرانسان نے بالاخر مرنا ہے، مرتے ساتھ ہی اس نے اپنی زندگی میں‌دنیا کا جو مال کمایا یا جمع کیا تھا اس پر وارث قابض ہوجائیں گے. بحیثیت مسلمان اللہ تعالیٰ‌نے ہمیں‌دنیا میں‌زندگی گزارنے کی پوری پوری رہنمائی اور گائیڈنس دی ہے. یہاں تک کہ مرنے والا مر جاتا ہے تو پیچھے رہ جانے والے وارثؤں کو بھی اللہ تعالیٰ نے اس مال میراث کو تقسیم کرنے کی پوری گائیڈنس دی ہے. تقسیم میراث‌کا قانون قرآن میں بیان ہوا ہے. لیکن بدقسمتی سے بہت کم لوگ میراث شریعت کے مطابق تقسیم کرتے ہیں. میراث کو تقسیم کرنے کا ایک خاص‌طریقہ ہوتا ہے جسے سمجھنا ہر کس و ناکس کی بات نہیں ، لیکن اب جدید دور اور جدید ٹیکنالوجی کی مددسے ہر پڑھا لکھا شخص ٹھیک ٹھیک شریعت کے مطابق بالکل درست تقسیم میراث‌کرسکتا ہے. بس اس کے لیے آپ کو کرنا یہ ہے کہ نیچے دیے گئے لنک پر کلک کرکے

Meeras Calculator

میراث کیلکولیٹر انسٹال کرنا ہے. اس کیلکولیٹر میں اردو انگلش دونوں زبانوں میں تقسیم میراث‌صرف دو سے تین منٹ میں‌کی جاسکتی ہے. مکمل طریقہ کار اسی لنک پر موجود ویڈیو میں بھی دیکھا جاسکتا ہے
میراث کیلکولیٹر یہاں سے ڈاون لوڈ کریں

icon 1 7

طریقہ کار کی ویڈیو

طب لقمانی

Download

طب لقمانی عام جڑی بوٹیوں سے علاج

حکیم ونسیاسی لوگوں کے لئے تحفہ

حکیم غلام مصطفی حاصل پوری

tibb e luqmani 9

ایئرفون کی عادت قوت سماعت سے محروم کردیتی ہے

آج کل اسمارٹ فونز کا استعمال بہت عام ہے اور اس کے اور دیگر آڈیو ڈیوائسز کے بہت زیادہ استعمال کے نتیجے میں ایک ارب سے زائد نوجوانوں کو قوت سماعت سے محرومی کے خطرے کا سامنا ہے۔
یہ بات عالمی ادارہ صحت نے اپنی نئی سفارشات میں کہی جس میں ڈیوائسز میں محفوظ والیوم لیول کے معیار کے حوالے تجاویز دی گئیں۔
عالمی ادارہ صحت اور انٹرنیشنل ٹیلی کمیونیکشن یونین نے ڈیوائسز تیار کرنے والی کمپنیوں اور آڈیو ڈیوائسز کے حوالے سے بین الاقوامی معیار کو جاری کیا۔
عالمی ادارے کا کہنا تھا کہ 12 سے 35 سال کے ایک ارب 10 کروڑ سے زائد افراد تیز آواز میں موسیقی یا ساﺅنڈ دیر تک سننے کے نتیجے میں خطرے کی زد میں ہیں۔
عالمی ادارہ صحت کے سربراہ نے کہ کہ دنیا کو پہلے ہی ٹیکنالوجی کے حوالے معلومات ہے کہ کس طرح قوت سماعت سے محروم ہونے سے کیسے بچا جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ متعدد نوجوان ائیرفون کے ذریعے تیز آواز میں موسیقی سن کر اپنی سماعت کو نقصان پہنچا رہے ہیں اور انہیں سمجھنا چاہئے کہ ایک بار جب سننے کی حس ختم ہوجائے گی تو وہ واپس نہیں آئے گی۔
اس وقت دنیا بھر میں 46 کروڑ سے زائد افراد قوت سماعت سے محروم ہیں مگر عالمی ادارے کا کہنا تھا کہ یہ واضح نہیں کہ ان میں سے کتنے آڈیو ڈیوائسز کے نتیجے میں اس کا شکار ہوئے ہیں۔
اس سے قبل نیویارک یونیورسٹی کی ایک تحقیق میں بھی بتایا گیا تھا کہ ائیرفون سننے کی حس سے محروم کرنے کا باعث بن سکتے ہیں۔
تحقیق کے مطابق جب ایئرفون لگائے جاتے ہیں تو یہ کان کے پردے کے کافی قریب ہوتے ہیں اور ان سے آواز کافی زیادہ دباوسے پردے سے ٹکراتی ہے۔
تحقیق میں بتایا گیا کہ اس کے نتیجے میں سننے کی حِس دباو یا تناﺅ کا شکار ہوتی ہے اور اس کو نقصان پہنچنا شروع ہوجاتا ہے۔
یہ بھی سامنے آیا کہ اگر آواز کی رینج کو 3 سے 6 ڈیسی بل تک بڑھایا جائے تو آواز کی شدت کانوں میں دوگنا زیادہ بڑھ جاتی ہے۔
محققین کا ماننا ہے کہ ایئرفونز کے استعمال کے نتیجے میں صرف ایک گھنٹے میں کان اپنی روزانہ کی آواز برداشت کرنے کی صلاحیت کا 60 فیصد حصہ استعمال کرلیتے ہیں

چائے کے فوائد

چائے کے فوائد tea benefits

کیا آپ کو چائے یا کافی پینا پسند ہے ؟ تو اس میں موجود ایک جز آپ کی صحت کے لیے بہت فائدہ مند ہے اور وہ ہے کیفین۔
امریکا کی جون ہوپکنز یونیورسٹی اسکول آف میڈیسین کی تحقیق میں بتایا گیا کہ یہ مشروبات صرف ذہنی طور پر مستعد نہیں کرتے بلکہ چائے اور کافی میں موجود کیفین صحت کے لیے بھی فائدہ مند ہے۔
اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے برٹش میڈیکل جرنل میں شائع ہوئے، یہاں آپ ماضی میں ہونے والی طبی تحقیقی رپورٹس میں سامنے آنے والے ان گرم مشروبات کے فوائد جان سکیں گے۔
کارکردگی کے لیے بہترین
کیفین کھلاڑیوں کو ہی نہیں بلکہ روزمرہ کے کاموں کے لیے بھی جسمانی صلاحیت کو بہتر بناتی ہے، ان مشروبات کے استعمال سے تھکاوٹ کے احساس کو ٹالنے میں مدد ملتی ہے جس کے لیے کیفین ایک کیمیکل adenosine کے ریسیپٹر کو بلاک کرتی ہے، جس کی وجہ سے لوگ عام معمول سے زیادہ وقت تک تھکے بغیر کام کرپاتے ہیں۔
مزید دیکھیں: چائے موت کے علاوہ ہر بیماری کا علاج ہے.
چربی گھلانے میں مددگار
کیفین جسم کے اندر حرارت پیدا کرتی ہے اور کیلوریز کو توانائی میں بدلتی ہے۔ ایک تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ سبز چائے میں موجود کیفین سے چربی تیزی سے گھلتی ہے، جسمانی وزن اور کمر کا گھیراﺅ بھی کم ہوتا ہے۔
جگر کے کینسر کا خطرہ کم کرے
چائے یا کافی کا استعمال جگر کے کینسر کی سب سے عام قسم کا خطرہ کم کرنے میں مدد دے سکتا ہے۔ ساﺅتھ ہیمپٹن یونیورسٹی کی تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ دن بھر میں ایک کپ کافی یا چائے میں موجود کیفین ہیپٹوسیلولر کینسر کا خطرہ 20 فیصد کم کرتی ہے، جبکہ 2 کپ پینے سے یہ خطرہ 35 فیصد تک کم ہوجاتا ہے۔
یاداشت بہتر کرے
جون ہوپکنز یونیورسٹی کی تحقیق میں بتایا گیا کہ کیفین طویل المعیاد یاداشت کو بہتر کرسکتی ہے، تحقیق میں بتایا گیا کہ یہ تو پہلے سے معلوم ہے کہ کیفین دماغی افعال کو بہتر بنانے کا اثر رکھتی ہے مگر پہلی بار جانا گیا ہے کہ یہ یادوں کو بھی مضبوط کرکے انہیں فراموش ہونے سے روکتی ہے۔
پارکنسن کا خطرہ کم کرے
ایک تحقیق میں بتایا گیا کہ کیفین کا استعمال رعشے یا پارکسنس امراض کا خطرہ کم کرتا ہے۔ تحقیق میں بتایا گیا کہ کافی پینے کے شوقین افراد میں پارکنسن امراض کا خطرہ اس مشروب سے دور رہنے والوں کے مقابلے میں 31 فیصد کم ہوتا ہے۔
دل کی صحت کے لیے بھی فائدہ مند
مختلف طبی تحقیقی رپورٹس میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ دل کی بے ترتیب دھڑکن کے شکار افراد اگر کیفین کا استعمال معمول بنائے تو اس مرض کی شدت میں 6 سے 13 فیصد تک کمی آتی ہے۔ اسی تحقیق میں یہ بھی دریافت کیا گیا کہ ایسے افراد جنھیں ہارٹ اٹیک کا سامنا ہوچکا ہو، اگر کیفین کا استعمال کریں، تو ان کی دھڑکن بہتر ہوتی ہے جبکہ دھڑکن کی بے ترتیبی کے مسائل بھی کم ہوجاتے ہیں۔
مزاج پر خوشگوار اثرات
کیفین اعصابی نظام کو متحرک کرتی ہے جس سے مزاج پر بھی خوشگوار اثرات مرتب ہوتے ہیں اور یہاں بھی وہ adensine کے اثر کو بلاک کرنے کا فائدہ ہوتا ہے۔ اس کیمیکل کے اثر کو بلاک کرنے سے کیفین ڈوپامائن وغیرہ کو متحرک کرتی ہے جو انسان کو اچھا محسوس کرنے میں مدد دیتے ہیں۔
ڈپریشن دور کرے
چائے یا کافی کا استعمال ذہنی مایوسی یا ڈپریشن کا خطرہ کم کرتا ہے، یہ دماغی میں ایسے نیوروٹرانسمیٹرز بننے کے عمل کو متحرک کرتی ہے جو مزاج کو خوشگوار کرکے ڈپریشن کا خطرہ کم کرتے ہیں۔
نوٹ: یہ مضمون عام معلومات کے لیے ہے۔ قارئین اس حوالے سے اپنے معالج سے بھی ضرور مشورہ لیں۔

تاریخ طب

Download

تاریخ طب حکیم سید محمد حسان نگرامی

tareekh e tib 11