باصلاحیت علماء

0
270
حامد حسن
حامد حسن
بہت سارے دینی مدارس کے مدرسین, آئمہ مساجد انتہائی باصلاحیت اور قابل ترین ہونے کے باوجود مختصر سے معاوضے پر خدمات سرانجام دیتے ہیں۔۔۔ ساری عمر قناعت اور تنگی پر خاموشی سے گزر بسر کرتے ہیں۔۔۔ ایک طالب علم جب پہلے سال مدرسے میں داخل ہوتا ہے تو اس کی ذہن سازی کی جاتی ہے کہ دینی علوم ہم اپنی دنیا اور آخرت سنوارنے کے لئے حاصل کر رہے ہیں۔۔۔ بے شک دین ہمارا اصل مقصد ہے دین میں ہی ہماری نجات اور خیر و بھلائی ہے۔۔۔
لیکن قانون فطرت ہے کہ انسان کو بنایا تو انسان کے ساتھ ضروریات بھی لگائی ہیں۔۔۔ انبیاء علیہ السلام, صحابہ کرام, اولیاء اللہ, صالحین, شیوخ نے صرف دین پر ہی قناعت کی یا ضروریات زندگی کے لئے دنیاوی کام بھی کئے۔۔۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اسلامی حکومت میں دینی علوم کے ماہرین کو دوسروں کی بنسبت زیادہ بہتر وظیفہ دیا جاتا۔۔۔ علماء آئمہ مساجد کو بہترین مراعات دی جاتی تاکہ مزید بہتر اور خوش اسلوبی سے خدمات سرانجام دیتے۔۔۔
حکومتوں سے تو گلا کرنے کا تک ہی نہیں بنتا کیوں کہ یہ حکومتیں اپنے آپ کو نہیں سنبھال سکتی تو اس طبقہ کو خاک سنبھالے گی۔۔۔
یہ حق بنتا ہے دینی اداروں اور ذمہ دران کا۔۔۔
ایک مدرس کا ادارے کو 30,30 40,40 سال دینے کے باوجود مستقبل تاریک ہے۔۔۔ کوئی پنشن اور ریٹائرمنٹ کا ضابطہ نہیں۔۔۔ ان کی اولاد اور اہل خانہ کے لئے کوئی قانون نہیں۔۔۔ مدرسین کی کوئی یونین اور تنظیم نہیں کہ قانونی چارہ جوئی کی جائے۔۔۔ جب ادارے پر مشکل وقت آیا تو آسان حل یہ نکالا کہ اساتذہ کو فارغ کر دیا جائے تاکہ تنخواہیں بچا لیں۔۔۔ مہتمم صاحب یا ادارے کے صدر, ناظم صاحب کو ناراض کر دیا تو ادارہ معزرت کا حکمِ شاہی صادر فرما دیتا ہے۔۔۔ واللہ العظیم اداروں میں مہتمم کے صاحب زادے, ناظمین تھوڑی تھوڑی بات پر اپنے باپ کی عمر کے استاد کو بے عزت کردیتے ہیں, کسی غلطی کوتاہی پر اپنی پیدائش سے پہلے کے مدرس کی عزت کا کچرا کر دیتے ہیں۔۔۔ مہتمم صاحب کا صاحبزادہ جو کہ پیدا ہوتے ہی نائب صدر تسلیم کر دیا جاتا ہے جب وہ عالم بن کر اسی ادارے کا نائب صدر بنتا ہے تو اپنے ہی اساتذہ اور باپ سے بڑی عمر کے مدرسین کو اپنی مسند کے سامنے دوزانو بٹھا کر انتہائی تلخ اور تضحیک آمیز انداز سے مخاطب ہوتا ہے۔۔۔ مدرسین بچارے بھی بچوں کی روزی روٹی کی خاطر ان رزق رساؤں کے سامنے خاموشی اختیار کر جاتے ہیں کہ چلو کوئی بات نہیں کیوں کہ جس کا رزق کھایا جاتا ہے اس کا احسان مند رہنا چاہئے۔۔۔
بہت دردِ دل سے کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے دینی اداروں میں کسی استاد کا مستقبل روشن نہیں۔۔۔ مخالفت یا کوتاہی پر فوراً سے بیشتر فارغ کر دیا جاتا ہے۔۔۔ بار بار احسان جتلایا جاتا ہے اور یہ باور کرایا جاتا ہے کہ جیسے تیسے کر کے گزارہ کرو۔۔۔ ادارے کو اپنی صلاحیتیں اور اوقات دیتے رہو تاکہ ادارہ مزید ترقی کرتا رہے۔۔۔
جب تک ادارے میں ہو احسانوں کے بوجھ تلے دب کر جیتے رہو۔۔۔ مر گئے تو قبر کے لئے چار گز زمین کا ٹکڑا مدرسے کے احاطے میں مل جائے گا جس کی تختی پر سنہری حروف میں مخدوم الطلباء, استاد العلماء, شیخ الحدیث, اور اس ادارے کے مایہ ناز اساتذہ کی لسٹ میں شامل کر دیا جائے گا۔۔۔
———–
بہت سارے لوگ مفتی عبداللہ بن زبیر صاحب, اور مجھ جیسے سرپھروں پر گستاخی اور ملحد تک کے فتوے لگا دیتے ہیں, انباکس میں ہتک آمیز رویہ اختیار کرتے ہیں, نہایت تلخ انداز سے بات کرتے ہیں کہ ہم لوگ مدارس اور علماء کے خلاف ہیں۔۔۔ کہا جاتا ہے کہ آپ کو کس نے مدرسین اور مدارس کا وکیل بنایا ہے جو اس پر آواز اٹھاتے ہو۔۔۔
مطلب یہ ہوا کہ جو بندہ دینی مدارس کے حقوق کی بات کرے, مدرسین کے مسائل کو اجاگر کرے, اس طبقہ کے لئے جدوجہد کرے, بہتری اور خوشحالی کے لئے کوشاں ہو تو وہ گستاخ اور باغی ہوگیا۔۔۔
اس طبقے کا استحصال ہوتا رہے ہمیں کیا۔۔۔ قناعت اور سادگی کی گولی دی جائے ہمیں کیا۔۔۔ مدرسین معاشی پریشانیوں کی وجہ سے شوگر, بلڈپریشر جیسے موذی امراض کا شکار ہوجائیں ہمیں کیا۔۔۔ 30,40 سال خدمات کر کے بوڑھاپے میں مدرسہ بدر کر کے دربدر کر دیا جائے ہمیں کیا۔۔۔ چپ چاپ یہ ظلم و ستم سہتے رہو, کڑوی کسیلی سنتے رہو, بےعزتی اور استحصال کرواتے رہو ہمیں کیا۔۔۔
للہ کے بندو بخوبی جانتے ہو کہ حقوق اللہ تو معاف ہوسکتے ہیں مگر حقوق العباد کبھی معاف نہیں ہوسکتے۔۔۔
ایک وضاحت
ہم باغی نہیں۔۔۔ مدارس اور دینی اداروں کے مخالف نہیں۔۔۔ بلکہ اس سسٹم کے مخالف ہیں۔۔۔ ہم چاہتے ہیں کہ اس سسٹم میں بہتری آئے کوئی پراپر نظام بنایا جائے۔۔۔ جہاں کوئی استاد اپنے آپ کو ملازم نہ سمجھے ٹیم ورک کے کلیہ پر مل جل کر بہتر انداز سے دین کی خدمات سرانجام دی جائیں۔۔۔
ہمیں اس طبقہ اور آنے والی نسل کی فکر ہے اگر ابھی اس کی فکر نہ کی گئی, کوئی مستقل پراپر نظام نہ بنایا گیا تو آج سے آنے والا کل زیادہ سخت اور تاریک ہے۔۔۔ فتنوں کا دور ہے ہر آنے والا کل کسی نئے فتنے کو ساتھ لا رہا ہے۔۔۔ زمانہ مزید تنگ ہوتا جا رہا ہے۔۔۔ آنے والی نوجوان نسل کو سنبھالنا ہے ناکہ تباہی کی طرف دھکیلنا ہے۔۔۔

Leave a Reply