معرکہ عین جالوت

0
318

معرکہ عین جالوت

ناظرین پچھلی ویڈیو میں ہم نے آپ سے وعدہ کیا تھا کہ عین جالوت کی جنگ کے بارے آپ کو بتائیں گے، چنانچہ آج کی ویڈیو اسی عین جالوت کی جنگ کے بارے ہے۔

عین جالوت کی جنگ کی اہمیت اور شہرت اس لیے زیادہ ہے کہ جب منگولوں نے پوری دنیا میں تباہی پھیر دی تھی، اور ان کا سیلاب رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا، عالم اسلام کا شاید آخری ملک مصر منگولوں سے بچا ہوا تھا ، جب منگولوں نے اس کی طرف رخ کیا تو عین جالوت کا معرکہ ہوا۔

تاریخ میں کئی واقعات ایسے ہیں کہ جن کے رونماء ہونے کے سبب کچھ ایسا منظر نامہ بنا جس نے یکایک تاریخ کا دھارا موڑ دیا۔ ۹۷ ؁ھ میں دمشق میں سلیمان بن عبدالمالک کا مسند خلافت سنبھالنا اور اس کے نتیجے میں قتیبہ بن مسلم کا چین کی سرحدوں سے ،طارق بن زیاد کا فرانس سے اور محمد بن قاسم کا فتح سندھ کے بعد پلٹ جانا اس کی ایک مثال ہے۔بعد میں اگرچہ ترک اور افغان فاتحین کے ذریعے ہندوستان میں تو اسلام پہنچ گیا مگر چین اور فرانس کی سرحدوں سے واپسی کے بعد عالم اسلام کی سرحدیں چودہ سو سال کے بعد بھی کاشغر(مشرقی ترکستان) سے آگے نہ بڑھ سکیں اور نہ ہی یورپ عالم اسلام میں شامل ہوسکا۔
اس کے علاوہ 1402 ؁ء میں جنگ انقرہ میں امیر تیمور کے ہاتھوں عثمانی سلطان بایزید یلدرم کی افسوس ناک شکست اور گرفتاری بھی ایک ایسا ہی واقعہ تھا کہ جس نے یکایک تاریخ کا رخ موڑ دیا اور اس کے نتیجے میں پورے یورپ کی تسخیر کی خواہش عثمانی ترکوں کا خواب بن کر رہ گئی۔
اسی طرح کہا جاتا ہے کہ اگر 1815 ؁ء میں واٹر لو کے میدان میں نپولین کو شکست نہ ہوتی تو شاید دنیا کو جنگ عظیم اول اور دوم کی تباہ کاری کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔
آج ہمارا موضوع ایک ایسی ہی معرکہ آرائی کا تذکرہ ہے جو 25رمضان المبارک 658ہجری  بمطابق1260 ؁ء کو مصر اور شام کے درمیان واقع عین جالوت کے مقام پر پیش آئی اور جس کے نتیجے میں عالم اسلام جو بظاہر تباہی کے دہانے پر پہنچ گیا تھا وہ مکمل بربادی سے بچ گیا،عامتہ الناس کو تو چھوڑیں ہمارا تعلیم یافتہ طبقہ بھی ’’معرکہ عین جالوت‘‘ اور اس کے ہیرو ’’سلطان رکن الدین بیبرس‘‘ کے بارے میں بہت کم واقفیت رکھتا ہے ۔حالانکہ اس معرکہ آرائی کے نتیجے میں نہ صرف عالم اسلام کو سیاسی طور پر نئی زندگی ملی بلکہ حرمین شریفین کی حرمت کو لاحق شدید ترین خطرہ بھی ٹل گیا ۔
تیرھویں صدی عیسوی کا سیاسی منظر نامہ
معرکہ عین جالوت کی اہمیت کو سمجھنے کیلئے تیرویں صدی عیسوی کے سیاسی منظر نامہ کو دیکھنا پڑے گا ۔یہ صدی عالم اسلام کے لئے نہایت پر آشوب تھی اور اس صدی میں جتنے مسلمان شہید ہوئے اتنے شاید نہ اس سے پہلے شہید ہوئے نہ اس کے بعد آج تک (دور جدید میں اکیسوی صدی عیسوی کا آغاز اگر چہ اب تک مسلمانوں کے لیے کچھ ایسی ہی صورت حال لیے ہوئے ہے۔) بہر حال تیرھویں صدی عیسوی میں1219 ؁ء میں منگولیا سے اٹھنے والا طوفان بلاخیز ایک کروڑ مسلمانوں کو بہا کر لے گیا ۔ چنگیز خان نے پہلے تو چین کی عظیم تاریخی سلطنت کو برباد کیا پھر اس نے ماوراء ا لنہر کے علاقوں کا رُخ کرتے ہوئے سمرقند، بخارا،تاشقندوخراسان کے علاقے ہرات تک اور نیشا پور سے لے کر دریائے سندھ کے ساحلی علاقوں تک تباہی اور بربادی کی داستانیں رقم کیں ۔ وسطی ایشیا اور چین کے بعد مشرقی یورپ اور روس کے علاقے چنگیز خان کا شکار بنے۔

 1227 ؁ ء میں چنگیز خان کی وفات کے بعد اوکتائی خان اس کا جانشین بنا۔ 1246 ؁ء میں اوکتائی خان کا بیٹا گیوک خان تیسرا خاقان اعظم منتخب ہوا اور 1251 ؁ء میں منگو خان جو تولی خان کا بیٹا تھا وہ چوتھا خاقان بنا۔ خاقان کی تبدیلیوں کے باوجود بھی منگول سلطنت کے حملے ارد گرد کے علاقوں میں جاری رہے اور اب ان کا نشانہ مسلمانوں کے علاوہ دوسری قومیں بھی بننے لگیں جن میں یورپی اور روسی قومیں بھی شامل تھیں۔
1258 ؁ء میں ہلاکو خان نے منگوخان کے گورنر کی حیثیت سے بغداد پر حملہ کرکے خلافت عباسیہ کا خاتمہ کردیا۔ بغداد کے ساتھ ساتھ موصل حلب اور دمشق بھی ہلاکو خان کے ہاتھوں فتح ہوگئے۔ دمشق کے وہاں کے حاکم نے ہلاکو خان سے معاہدہ کرلیا تھا۔ اس لیے دمشق کے سوا عراق اور شام کے اکثر شہروں کو بغداد جیسی قتل و غارت گری کا نشانہ بنایا گیا۔ اس طرح تاتاری یلغار وسطی ایشیا سے نکل کر ایران، افغانستان، چین، روس اور ہندوستان کے اکثر علاقوں ، مشرقی یورپ، شام ، فلسطین، اور عراق کو نگل کر مصر کے دروازے تک پہنچ گئی۔

 1241 ؁ء میں منگولوں نے لاہور پر حملہ کرتے ہوئے اس شہر کو بھی تخت و تاراج کردیا۔

 1237 ؁ء میں باتو خان بلغاریہ پر قبضہ کرچکا تھا اور 1241 ؁ء میں اس نے جرمنوں کو شکست سے دوچار کیا۔ اسی سال منگولوں نے شاہ ہنگری کو بھی شکست دے دی۔ مختصر یہ کہ تیرہویں صدی عیسوی کے وسط میں منگول وسطی ایشیا سے نکل کر چاروں طرف پھیل گئے تھے اور ہر طرف ان کی قتل و غارت گری اور فتوحات جاری تھیں۔ منگول سلطنت چار حصوں میں تقسیم ہوگئی تھی مگر منگولیا کا خان اب بھی پوری سلطنت کا حکمران سمجھا جاتا تھا۔
یہ تو ہوا اس وقت کا سیاسی منظر نامہ جس میں آپ کو ہر طرف منگول ہی منگول نظر آئیں گے جن کے سامنے باقی دنیا کے انسان کیڑوں مکوڑوں سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتے تھے۔

ایسے میں ہلاکو خان تین لاکھ کے ٹڈی دل لشکر کے ہمراہ عراق، شام، فلسطین کے شہروں کو فتح کرکے مصر پر حملہ آور ہوگیا ۔ مصر کے بعد اب براہ راست منگول خطرہ حجاز کی مقدس سرزمین کے سامنے آگیا تھا جس میں مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے شہر آباد تھے۔ یعنی اگر ہلاکو خان مصر کو بھی فتح کرلیتا تو اس کے بعد حجاز کے مقدس مقامات تک اس کی راہ میں کوئی قابل ذکر حکومت نہیں تھی۔1260 ؁ء بمطابق 658 ؁ھ کے رمضان المبارک میں مصر اور شام کے سرحدی علاقے ’’عین جالوت‘‘ کے مقام کو ہلاکو خان کی تین لاکھ فوج مصر کے مملوک سلطان کے بیس ہزار کے مختصر سے دستے کے سامنے کھڑی تھی!
مصر کے مملوک سلطان
تیرہویں صدی عیسوی کے سیاسی منظر نامے کے بعد آئیں اب ذرا مملوک سلطنت کا کچھ تعارف حاصل کرتے ہیں جو نہ صرف بغداد کی خلافت ختم ہونے کے بعد قاہرہ کی عباسی خلافت کی شکل میں عالم اسلام کا مرکز قرار پائی بلکہ تین سو سال تک صلیبی حملہ آواروں کے سامنے بیت المقدس کا دفاع کرتی رہی۔
اسلامی تاریخ کی خاصیت ہے کہ مسلمانوں نے غلاموں کے ساتھ کبھی بھی وہ سلوک روا نہیں رکھا جو رومیوں کے زمانے سے لے کر پچھلی صدی تک مغربی ممالک میں کیا گیا۔ اسلامی معاشرے میں غلاموں کو برابری کا درجہ دینے کے نتیجے میں غلام دینی اور دنیاوی سطح پر ترقی کے بلندترین مقام تک پہنچے۔ چنانچے ایسے ہی غلاموں میں سے ایک غلام رکن الدین بیبرس بھی تھا۔جسے بچپن میں منگولوں نے غلام بنا کر ایک بازار میں فروخت کردیا تھا، جسے ایک تاجر نے خریدا اور مختلف ہاتھوں سے ہوتا ہوا یہ غلام مصر کی فوج میں بھرتی ہوگیا۔ اپنی ذہانت ، قابلیت اور خداداد جنگی صلاحیتوں کی بدولت یہ غلام بہت جلد فوج میں کمانڈر بن گیا۔
25رمضان658 ؁ھ
مصر شام اور فلسطین کے سرحدی علاقوں پر مشتمل عین جالوت کا میدان ایک تاریخی حیثیت رکھتا ہے۔ اس میدان کو عین جالوت اس لیے کہتے ہیں کہ یہاں حضرت داؤد ؑ نے جالوت نامی ایک ظالم اورجابر بادشاہ کو شکست دی تھی۔ اس معرکہ آرائی کو اللہ تعالیٰ نے سورۃ البقرۃ بیان کیا ہے،
ترجمہ:’’ اور قتل کیا داؤد نے جالوت کو اور اللہ نے اسے سلطنت اور حکمت عطا فرمائی اور جو چاہا اسے سکھایا۔‘‘
(البقرۃ : آیت نمبر:251)
عین جالوت کے معنی ’’جالوت کا چشمہ‘‘کے ہیں اور اس علاقے میں اب 658 ؁ھ میں ہلاکو خان تین لاکھ کے لشکر کے ساتھ مصر پر حملہ آور تھا۔ اس وقت مصر کا حاکم مملوک سلطان سیف الدین تھا اور رکن الدین بیبرس اس کا سپہ سالار ۔ سلطان کی فوج کسی بھی طرح تین لاکھ کے لشکر جرار کا مقابلہ کرنے کے قابل نہ تھی اور اب مصر کی شکست کا مطلب تھا کہ ہلاکو خان کی رسائی حجاز مقدس کے شہروں اور حرمین شرفین تک ہوجاتی اور پھر مراکش، شمالی افریقہ کے مسلم علاقے اور پھر اندلس!
مگر اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے عالم اسلام کو بچالیا۔ ایک معجزہ رونما ہوا اور ہلاکو خان کو اپنی فوج کا ایک بڑا حصہ لے کر قراقرم واپس جانا پڑا ۔ قراقرام کے چوتھے خاقان اعظم منگو خان کا انتقال ہوگیا اور دنیا بھر سے تاتاری شہزادے قراقرم کے مرکزی جرگے جسے قرولتائی کہا جاتا تھا اس میں شرکت کرنے کیلئے قرقرم روانہ ہوگئے۔ ہلاکو خان نے اپنے نائب کتبغا خان کو بیس ہزار کا لشکر سونپ کر واپس قراقرم کی راہ اختیار کی۔
یہاں اس دھمکی آمیز خط کا ذکر ضروری ہے جو تاتاریوں کی طرف سے مصر کے سلطان کو لکھا گیا تھا۔خط میں لکھا تھا:
’’یہ اس کا فرمان ہے جو ساری دنیا کا آقا ہے کہ اپنی پناہ گاہیں منہدم کردو، اطاعت قبول کرلو، اگر تم نے یہ بات نہ مانی تو پھر تم کو جو کچھ پیش آئے گا وہ بلندو بالا اور جاودانی آسمان کے علاوہ کوئی نہیں جانتا۔‘‘
غالب امکان ہے کہ خط ہلاکو خان نے قراقرم روانگی سے قبل بھیجا تھا جس میں صاف انداز میں اعلان جنگ کیا گیا تھا۔ بہر حال تاتاری سفیر نے رعونت آمیز انداز میں یہ خط سلطان مصر کے سامنے پھینک دیا۔ یہ انداز دیکھ کر سلطان مصر اور رکن الدین بیبرس کی آنکھیں غصے کے عالم میں سرخ ہوگئیں۔ سلطان کو خط کے مندرجات پڑھ کر سنائے گئے تو سلطان نے سفیر سے کہا کہ ہمارا ہلاکو خان سے کوئی جھگڑا نہیں لہٰذا اسے چاہیے کہ ہمیں ہمارے حال پر چھوڑ کر واپس چلا جائے ، اس پر سفیر نے جواب دیا ،
’’تو گویا چاہتے ہو کہ تمہارا بھی وہی حشر کیا جائے جو ہم تمہارے خلیفہ کا کرکے آئے ہیں ۔ جان لو کہ ہمارے آقا کی قوت لامحدود ہے اور دنیا کی کوئی طاقت اس کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔‘‘
تاتاری سفیر کا یہ انداز دیکھ کر سلطان مصر آگ بگولہ ہوگیا اور اس نے کہا۔۔۔،
’’ان تاتاریوں کی زبانیں گدی سے کھینچ کر انہیں قتل کردیا جائے۔ ہمارے طرف سے خط کا جواب یہی ہے۔‘‘
بہر طور15رمضان 658 ؁ھ بمطابق 1260 ؁ء میں عین جالوت کے میدان میں منگول سالار کتبغا خان اپنے لشکر کے ساتھ مقیم تھا کہ سلطان مصر اور امیر رکن الدین بیبرس افواج مصر کے ساتھ آموجود ہوئے۔ ہلاکو خان کی روانگی کے بعد دونوں لشکروں میں عددی توازن تقریباً برابر ہوگیا تھا کیونکہ تاتاری لشکر کا بڑا حصہ ہلاکو خان اپنے ساتھ لے گیا تھا۔ عملی طور پر افواج کی کمان رکن الدین بیبرس کے پاس تھی۔ بیبرس تاتاریوں کے قصے سن کر کہا کرتا تھا کہ ’’وقت آنے دو ہم ان وحشیوں کو بتادیں گے کہ صرف وہ ہی لڑنا نہیں جانتے بلکہ دنیا میں کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو اِن کی گردنیں دبوچ سکتے ہیں۔‘‘ کتبغا خان کو ہلاکو خان کی طرف سے واضح ہدایات تھیں کہ اس کی واپسی تک اسی جگہ قیام کرے اور مصر پر ہرگز حملہ آور نہ ہو۔ امیر رکن الدین بیبرس کو جب ہلاکو خان کی واپسی کی اطلاع ملی تو اس نے سلطان  کو فوراً منگولوں پر حملہ کرنے کا مشورہ دیا۔ اس طرح باقاعدہ طور پر آگے بڑھ کر رکن الدین بیبرس نے منگول لشکر پر حملہ کردیا۔ عین جالوت کی اس تاریخ ساز جنگ میں رکن الدین بیبرس نے تاتاریوں پر ان کا اپنا طریقہ حرب استعمال کیا۔ اس نے اپنے چند دستے ایک گھاٹی میں گھات لگا کر بٹھادیے۔ بیبرس نے ابتدائی طور پر پسپائی کا انداز اختیار کیااور منگول اس کی چال میں آکر گھاٹی میں پھنس گئے۔ گھات لگا کر دشمن کو تنگ جگہ لاکر پھنساناتاتاریوں کا اپنا انداز جنگ تھا جو رکن الدین بیبرس نے خود ان پر استعمال کیا اور ماضی کی فتوحات کے نشے میں سرشار کتبغا خان بیبرس کی چال میں آگیا۔ گھاٹی میں گھات لگائے محفوظ مصری دستے نے منگولوں کو تحس نحس کردیا۔ منگول لشکر میں ابتری پھیل گئی اور وہ دو اطراف سے مسلمانوں میں گھر گئے۔ بیبرس نے منگول فوج کا قتل عام کیا اور انہیں اس بری طرح سے مارا کہ تاریخ میں اس سے پہلے تاتاریوں کے ساتھ پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا تھا۔ کتبغا خان بیبرس کے ہاتھوں گرفتار ہوا اور بیبرس نے اسے قتل کردیا۔ منگول لشکر مکمل طور پر قتل یا گرفتار ہوگیا تھا۔ مقتول سالار کتبغا خان کی لاش کی نمائش قاہرہ کی گلیوں میں تاتاری قیدیوں کے ساتھ کی گئی اور بعد ازاں ان قیدیوں کو بھی قتل کردیا گیا۔
معرکہ عین جالوت کے نتائج
عین جالوت کے میدان میں تاتاریوں کی شکست کی خبریں شام اور فلسطین کی منگول مقبوضات میں آگ کی طرح پھیل گئیں ۔مسلمانوں نے منگول حاکموں کے خلاف بغاوت کردی اور جگہ جگہ سے خبریں آنے لگیں کہ مسلمانوں نے تاتاریوں سے شہر واپس لینے شروع کردیے ہیں۔ اس طرح دیکھتے ہی دیکھتے شام اور فلسطین کی اکثر مقبوضات منگول تسلط سے آزاد ہوگئیں ۔ اس طرح منگولیا سے اٹھنے والی کالی آندھی چالیس سال تک مظلوم مسلمانوں کا خون پی کر 1260 ؁ء میں عین جالوت کے میدان میں رکن الدین بیبرس کے ہاتھوں اپنے انجام کو پہنچ گئی۔ اگرچہ اس کے بعد بھی تاتاریوں نے مسلمانوں کے علاقوں پرکئی حملہ کیے مگر ان کے ناقابل شکست رہنے کا تاثر ختم ہوگیا تھا اور اب مسلمان ہر جگہ ڈٹ کر ان کا مقابلہ کرتے تھے۔ ہندوستان پر مسلسل تاتاری حملے اور خلجیو ں کا کامیاب دفاع اس کی ایک روشن مثال ہے۔
ہلاکو خان کا انجام

ناظریں آپ کو اس بات میں بھی دلچسپی ہو گی کہ ہلاکو خان کا کیا انجام ہوا؟ تو چلیں ہم آپ کو بتاتے ہیں ہلاکو خان کے ساتھ کیا ہوا۔
منگول جرگے سے فارغ ہوکر ہلاکو خان واپس لوٹ آیا۔ وہ سلطان بیبرس سے انتقام لینے کیلئے بے چین تھا۔ دوسری طرف قدرت کا قانون حرکت میں آچکا تھا۔ اس دفعہ تاتاریوں کو ان کے اپنے ہی ہاتھوں سے شکست کھانا تھی۔ بخارا کی خانقاہ کے شیخ سیف الدین ایک صوفی بزرگ تھے اور ان کی کوششوں سے چنگیز خان کا ایک دوسرا پوتا اور جوجی خان کا بیٹا برکی خان مسلمان ہوگیا۔ قبل اس کے کہ ہلاکو خان سلطان بیبرس سے بدلہ لیتا اور حجاز مقدس کی طرف پیش قدمی کرتا برکی خان کی سربراہی میں ایک منگول لشکر اس کے سامنے آگیا ۔ اس طرح چنگیز خان کے دو پوتے آمنے سامنے آگئے اور برکی خان کے ہاتھوں ہلاکو خان کو شکست ہوگئی اور اس شکست کے صدمے سے تاب نہ لاکر وہ ہلاک ہوگیا۔
اس پر علامہ اقبال نے اپنا مشہور زمانہ شعر کہا ؂
ہے عیاں یورش تاتار کے افسانے سے
پاسبان مِل گئے کعبے کو صنم خانے سے

Leave a Reply