قسط36 علم نجوم وغیرہ کا شرعی حکم

0
466

علم الاعداد، علم نجوم، علم رمل، علم جفر ان علوم کا شرعی حکم

علم نجوم

علم نجوم، رمل اور جفر کے نام سے تین علوم بہت مشہور ہیں، لیکن تینوں خیال آرائیوں اور تخمینوں پر مبنی ہیں۔علم نجوم میں ستاروں کے طلوع و غروب اور انسانی قسمت پر ستاروں کی تاثیر مانی جاتی ہے اور پیشن گوئیاں کی جاتی ہیں۔

امام بخاری رحمہ اللہ اپنی کتاب میں رقم طراز ہیں کہ:

قتادہ رحمہ اللہ نے کہا: اللہ تعالی نے تاروں کو تین مقاصد کیلیے پیدا فرمایا ہے: آسمان کی زینت، شیاطین کو مارنے کیلیے اور رہنمائی حاصل کرنے کیلیے بطور علامات، لہذا اگر کوئی شخص تاروں کا کوئی اور مقصد بیان کرتا ہے تو وہ غلطی پہ ہے اور اپنے وقت کو ضائع کر رہا ہے اور وہ ایسی چیز کے بارے میں تکلف کر رہا ہے جس کا اسے علم نہیں ہے” صحیح بخاری، باب فی النجوم (2/420)

علم نجوم کی دو قسمیں ہیں:

اول: علم تاثیر۔ دوم: علم رہنمائی۔ علم تاثیر کی پھر آگے تین اقسام ہیں:

1- یہ نظریہ رکھا جائے کہ تارے بذات خود اثر انداز ہوتے ہیں، یعنی مطلب یہ ہے کہ ان کے بارے میں یہ کہنا کہ تارے خود ہی حادثات اور نقصانات پیدا کرتے ہیں، تو یہ شرک اکبر ہے؛ کیونکہ جو شخص اس چیز کا مدعی ہو کہ اللہ کے ساتھ کوئی اور بھی خالق اور پیدا کرنے والا ہے تو وہ شخص شرک اکبر کا مرتکب ہے؛ کیونکہ اس شخص نے ایک مخلوق کو جو اللہ کے تابع ہے اسے بذات خود خالق اور مسخر کرنے والا بنا دیا ہے۔

2- ان تاروں کو انسان علم غیب جاننے کا ذریعہ بنائے، چنانچہ تاروں کی نقل و حرکت اور ان کے آنے جانے سے یہ کشید کرے کہ اب فلاں فلاں کام رونما ہو گا؛ کیونکہ فلاں فلاں تارا فلاں منزل میں داخل ہو گیا ہے۔ مثال کے طور کوئی نجومی کہے: فلاں شخص کی زندگی کٹھن ہو گی؛ کیونکہ اس کی پیدائش فلاں تارے کے وقت ہوئی، اسی طرح کہے: فلاں شخص کی زندگی خوشحال ہو گی؛ کیونکہ اس کی پیدائش فلاں تارے کے وقت ہوئی۔ تو ایسا شخص حقیقت میں تاروں کو علم غیب جاننے کا وسیلہ اور ذریعہ بنا رہا ہے، حالانکہ علم غیب کا دعوی کرنا کفر ہے ، اس سے انسان دائرہ اسلام سے بھی خارج ہو جاتا ہے؛ کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:

قل لَا یَعلَممَن فی السَّمَاوَاتِ وَالاَرضِ الغَیبَ ِلَّا اللّہ

ترجمہ: آپ کہہ دیں: آسمانوں اور زمین میں اللہ کے سوا کوئی غیب جاننے والا نہیں۔ (النمل: 65) تو قرآن مجید کی اس آیت میں حصر اور تخصیص کے سب سے قوی ترین اسلوب اپنایا گیا ہے کہ اس میں نفی اور استثنا دونوں استعمال ہوئے ہیں[تو مطلب یہ ہوا کہ کوئی بھی آسمانوں اور زمین میں علم غیب جاننے والا نہیں ہے]؛ لہذا اگر کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ اسے غیب کا علم ہے تو وہ قرآن کو جھٹلا رہا ہے۔

3- تاروں کو خیر و شر کے رونما ہونے کا سبب قرار دے، تو یہ شرک اصغر ہے، مطلب یہ ہے کہ جب بھی کوئی چیز رونما ہو تو جھٹ سے اسے تاروں کی جانب منسوب کر دے، یہ بھی واضح رہے کہ تاروں کی جانب ان کی نسبت خیر و شر کے رونما ہونے کے بعد ہی کرے، پہلے نہیں۔ اس بارے میں یہ قاعدہ ہے کہ جو شخص کسی چیز کو کسی کا م کا سبب قرار دے حالانکہ اللہ تعالی نے اس چیز کو اس کام کا سبب نہ بنایا ہو تو وہ شخص اللہ تعالی پر زیادتی کر رہا ہے؛ کیونکہ مسبب الاسباب تو صرف اللہ ہے۔ مثلاً کوئی شخص کسی دھاگے کو باندھ کر شفایابی کی امید لگائے اور یہ کہے کہ میرا ماننا یہ ہے کہ شفا تو اللہ کے ہاتھ میں ہے، لیکن یہ دھاگا صرف سبب ہے، تو ہم اسے کہیں گے: تم شرک اکبر سے تو بچ گئے ہو لیکن شرک اصغر میں پھنس گئے ہوئے؛ کیونکہ اللہ تعالی نے اس دھاگے کو شفا یابی کا ذریعہ بنایا ہی نہیں ہے، اور تم نے اپنے اس عمل سے مقام ربوبیت کو ٹھیس پہنچائی ہے کہ تم نے اس دھاگے کو شفا یابی کا سبب بنا دیا ہے حالانکہ اللہ تعالی نے اس دھاگے کو شفا یابی کا سبب نہیں بنایا۔

بالکل اسی طرح اس کا حکم ہے جو شخص تاروں کو بارش ہونے کا سبب قرار دیتا ہے ؛ کیونکہ حقیقت میں بارش کا تاروں کے ساتھ کوئی تعلق نہیں، اس کی دلیل صحیح بخاری : (801) مسلم: (104) میںیہ روایت ہے:

صَلَّی لَنَا رَسُولُ اللَّہِ صَلاةَ الصُّبحِ بِالحُدَیبِیَةِ ِثرِ سَمَائٍ کَانَتمِنَ اللَّیلِ، فَلَمَّا انصَرَفَ اَقبَلَ عَلَی النَّاسِ فَقَالَ: ہَلتَدرُونَ مَاذَا قَالَ رَبُّکُمقَالُوا: اللَّہُ وَرَسُولُہُ اَعلَمُ، قَالَ: اَصبَحَ مِنعِبَادِی مُمِنبِی وَکَافِر فَاَمَّا مَنقَالَ مُطِرنَا بِفَضلِ اللَّہِ وَبِرَحمَتِہِ فَذَلِکَ مُمِنبِی کَافِربِالکَوکَبِ، وَاَمَّا مَنقَالَ مُطِرنَا بِنَوئِ کَذَا وَکَذَا فَذَلِکَ کَافِر بِی مُمِن بِالکَوکَبِ.

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حدیبیہ میں ہمیں صلاةِ فجر بارش کے بعد پڑھا ئی جو رات میں ہوئی تھی تو جب آپ فارغ ہوگئے اور لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے توفرمایا: کیا تم جانتے ہو کہ تمہارے رب نے کیا کہا؟ لوگوں نے عرض کیا: اللہ اور اس کے رسول زیادہ جا نتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اس نے کہا: میرے بندوں میں سے کچھ نے آج مومن ہو کر صبح کی اور کچھ نے کافر ہو کر۔ جس نے یہ کہا کہ بارش اللہ کے فضل اور اس کی رحمت سے ہوئی وہ میرے اوپر ایمان رکھنے والا ہوا اور ستا روں کا منکر ہوا اور جس نے کہا کہ ہم فلاں اور فلاں نچھتر کے سبب بر سائے گئے تو وہ میرا منکر ہوا اور ستاروں پر یقین کرنے والا ہوا۔تو اس حدیث میں بارش کی تاروں کی جانب سببی نسبت کرنے والوں پر حکم لگایا گیا ہے۔

 سنن ابن ماجہ میں ہے:

”حَدَّثَنَا اَبُو بَکرٍ قَالَ: حَدَّثَنَا یَحیَی بنُ سَعِیدٍ، عَنعُبَیدِ اللَّہِ بنِ الاَخنَسِ، عَنِ الوَلِیدِ بنِ عَبدِ اللَّہِ، عَنیُوسُفَ بنِ مَاہَکَ، عَنِ ابنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیہِ وَسَلَّمَ: مَنِ اقتَبَسَ عِلمًا مِنَ النُّجُومِ، اقتَبَسَ شُعبَةً مِنَ السِّحرِ زَادَ مَا زَادَ”. (سنن ابن ماجہ، کِتَابُ الاَدَبِ، بَابُ تَعَلُّمِ النُّجُومِ۔

ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جس نے علم نجوم میں سے کچھ حاصل کیا، اس نے سحر (جادو) کا ایک حصہ حاصل کرلیا، اب جتنا زیادہ حاصل کرے گا گویا اُتنا ہی زیادہ جادو حاصل کرے گا“۔

دوم: علم رہنمائی

اس کی پھر آگے دو قسمیں ہیں:

1- تاروں کے چلنے سے دینی رہنمائی حاصل کرے تو یہ شرعی طور پر مطلوب بھی ہے، اور اگر تاروں سے واجب نوعیت کے امور میں رہنمائی ملے تو پھر ایسے میں تاروں کا علم سیکھنا واجب ہو گا؛ مثلاً تاروں سے قبلہ سمت معلوم ہو۔

2- تاروں کی نقل و حرکت سے دنیاوی امور میں رہنمائی ملے، تو اس کے سیکھنے میں کوئی حرج نہیں اس کی بھی دو قسمیں ہیں:

اول: تاروں سے جہتوں کا تعین ہو، مثلاً: جدی تارے سے قطب شمالی کا پتہ لگائیں؛ کیونکہ جدی شمال کے قریب ہی ہوتا ہے اور شمال کے آس پاس ہی گھومتا ہے، تو یہ جائز ہے، اسی کے بارے میں اللہ تعالی نے فرمایا:

 وَعَلَامَاتٍ وَبِالنَّجم ھم یھتَدونَ

اور ہم نے انہیں علامتیں بنایا اور وہ تاروں سے رہنمائی پاتے ہیں۔(النحل: 16)

دوم: تاروں سے موسموں کا تعین کیا جائے ، یعنی چاند کی منزلوں کے بارے میں علم حاصل کیا جائے تو اسے بعض سلف نے مکروہ سمجھا ہے اور دیگر نے اسے مباح کہا ہے، جبکہ صحیح موقف یہ ہے کہ یہ جائز ہے، اس میں کسی قسم کی کوئی کراہت نہیں ہے؛ کیونکہ اس میں شرک نہیں پایا جاتا۔

علوم باطلہ سے متعلق تفصیلی بحث

قارئین کرام یہاں علم نجوم، رمل جفر سے متعلق مختلف تفاسیر اور کتب احادیث و فقہ سے ماخوذ تفصیلی بحث نقل کی جاتی ہے تاکہ ان علوم کی حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہو جائے ۔

ہَل اُنَبِّئُکُم عَلٰی مَن تَنَزَّلُ الشَّیٰطِینُ۔ تَنَزَّلُ عَلٰی کُلِّ اَفَّاکٍ اَثِیم

ترجمہ:کیا میں تمہیں ان کی خبر دوں جن پر شیاطین نازل ہوتے ہیں۔ ہر جھوٹے گناہ گار پر اترتے ہیں۔

تفسیر: افاک اور اثیم کے معنی

الشعرائ: ۲۲۱ میں فرمایا: کیا میں تم کو ان کی خبر دوں جن پر شیاطین نازل ہوتے ہیں‘ وہ ہر افاک اثیم پر نازل ہوتے ہیں۔افاک کا لفظ افک سے بنا ہے‘ علامہ راغب اصفہانی افک کا معنی کا بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

ہر وہ چیز جس کا منہ اس کی اصل جانب سے پھیر دیا گیا ہو اس کو افک کہتے ہیں‘ جھوٹ اور بہتان میں بھی کسی چیز کو اس کی اصل صورت سے پھیر دیا جاتا ہے اس لئے اس کو افک کہتے ہیں‘ وہ ہوائیں جو مخالف جانب اور الٹی چل رہی ہوں ان کو موتفکہ کہتے ہیں:اور افاک مبالغہ کا صیغہ ہے جو شخص بہت زیادہ بہتان تراشتا ہوا اور جھوٹ بولتا ہوا اس کو افاک کہتے ہیں۔

اثم ان افعال کو کہتے ہیں جو ثواب سے مانع ہوں‘ جو افعال گناہ کبیرہ ہوں ان کو بھی اثم کہا جاتا ہے۔ اثم کا مقابل بِر ہے‘(نیکی) حدیث میں ہے البر وہ کام ہے جس پر دل مطمئن ہو‘ اور الا ثم وہ کام ہے جو تمہارے دل میں خلش اور کھٹک پیدا کرے۔(مسند احمد، سنن الدارمی) اثم کا لفظ عدوان سے زیادہ عام ہے۔

کاہن کا معنی‘ کاہن کے متعلق احادیث اور ان کی تشریح

قتادہ نے کہا اس آیت میں افاک اثیم سے مراد کاہن ہیں۔علامہ ابن اثیر الجزری کا ہن کا معنی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

کاہن اس شخص کو کہتے ہیں جو زمانہ مستقبل میں ہونے والے واقعات کی خبر دیتا ہے اور معرفت اسرار کا مدعی ہوتا ہے‘ شق اور سطیح نام کے عرب میں کاہن تھے‘ بعض کاہنوں کا یہ گمان ہوتا ہے کہ ان کے تابع جنات ہوتے ہیں‘ جو ان کو غیب کی خبریں آکر بتاتے ہیں‘ اور بعض کاہنوں کا یہ زعم ہوتا ہے کہ جو شخص ان سے سوال کرتا ہے وہ اس کے فعل یا اس کے حال سے اس کے متعلق ہونے والے مستقبل کے امور کو جان لیتے ہیں‘ ان کو عراف کہتے ہیں ان کا یہ دعویٰ ہوتا ہے کہ وہ کسی چوری ہوجانے والی چیز یا کسی گمشدہ چیز کو جان لیتے ہیں۔ حدیث میں ہے:

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو شخص کسی کاہن کے پاس گیا اور اس کے قول کی تصدیق کی‘ یا جس شخص نے اپنی بیوی سے حالت حیض میں جماع کیا‘ یا جس شخص نے اپنی بیوی سے اس کی سرین میں جماع (عمل معکوس) کیا وہ اس دین سے بری ہوگیا جو (سیدنا) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل کیا گیا ہے۔(سنن ابوداﺅد، سنن الترمذی ،سنن ابن ماجہ)یہ حدیث کا ہن عراف اور نجومی سب کو شامل ہے۔ (النہایہ جلد4ص681بیروت )

حضرت ابو مسعود انصاری (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کتے کی قیمت‘ فاحشہ کی اجرت اور کاہن کی مٹھائی سے منع فرمایا ہے۔(صحیح البخاری رقم الحدیث:7322‘ صحیح مسلم رقم الحدیث: 7651‘ سنن ابو داﺅد رقم الحدیث: 8243‘ سنن الترمذی ,سنن النسائی ، سنن ابن ماجہ)

حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ لوگوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کاہنوں کے متعلق سوال کیا۔ آپ نے فرمایا: یہ کوئی چیز نہیں ہے‘ لوگوں نے کہا یا رسول اللہ! وہ بعض اوقات ہمیں کوئی بات بتاتے ہیں اور وہ سچ نکلتی ہے‘ تب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا یہ سچی بات وہ ہے جو ان کے پاس جن پہنچاتا ہے‘ جن ان کے کان میں وہ بات ڈال دیتا ہے‘ جس کے ساتھ وہ کئی جھوٹ ملادیتے ہیں۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث:2675، مسند احمد رقم الحدیث:7752،عالم الکتب‘ صحیح ابن حبان رقم الحدیث: 6316)

کاہنوں کی اقسام

امام مازری فرماتے ہیں کاہن وہ لوگ ہیں جن کے متعلق مشرکین یہ زعم رکھتے تھے یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں کوئی چیز ڈالی جاتی ہے جس کی وجہ سے وہ غیب دان ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اور جو شخص علم غیب کا دعویٰ کرے اس کو شارع (علیہ السلام) نے کاذب قراردیا ہے اور اس کی تصدیق سے منع فرمایا ہے۔

قاضی عیاض بن موسیٰ مالکی لکھتے ہیں کاہنوں کی چار قسمیں ہیں:

(1) کاہن کے پاس کوئی نیک انسان ہو جو جن کا دوست ہو اور وہ جن اس کو بتائے کہ اس نے آسمان سے کون سی خبر چرا کر سنی ہے‘ اور یہ قسم اس وقت سے باطل ہوگئی جب سے اللہ تعالیٰ نے سید نا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مبعوث فرمایا ہے‘ قرآن مجید میں ہے‘ جنات نے کہا:

وانا لمسنا السمآءفوجد نھا ملئت حرسا شدیدا و شھبا۔ وانا کنا نقعد منھا مقا عد للسمع ط فمن یستمع الان یجد لہ شھابارصدا۔ (الجن)

اور ہم نے آسمان کو چھو کر دیکھا تو اسے شدید مخافظوں اور سخت شعلوں سے بھرا ہوا پایا۔ اور ہم اس سے پہلے باتیں سننے کے لیے آسمان پر مختلف جگہوں پر بیٹھ جایا کرتے تھے‘ پس اب جو بھی چپکے سے سننا چاہتا ہے تو وہ ایک شعلہ اپنے تعاقب میں پاتا ہے۔

وحفظا من کل شیطن مارد۔ لایسمعون الی الملا الاعلی و یقذفون من کل جانب۔ دھوراولہم عذاب واصب۔ الا من خطف الخطفة فاتبعہ شھاب ثاقب۔ (الصفت)

 اور (ہم نے آسمان کو) ہر سرکش شیطان سے محفوظ کردیا ہے۔ وہ عالم بالا کی باتوں کو کان لگا رک نہیں سن سکتے‘ ان کو ہر جانب سے مارا جاتا ہے۔ وہ بھگانے کے لیے اور ان کے لیے دائمی عذاب ہے۔ مگر جو ایک آدھ بات اچک لے تو فوراً اس کے تعاقب میں دہکتا ہوا شعلہ چل پڑتا ہے۔

(2)کاہنوں کی دوسری قسم۔ جنات زمین کے اطراف میں گھوم پھر کر قریب اور بعید کے حالات کا مشاہدہ کر کے اپنے دوستوں کو اس کی خبریں پہنچادیتے ہیں۔

(3) تیسری قسم وہ جو تمین اور اندازوں سے اور اٹکل پچو سے غیب کی خبریں بتاتے ہیں اللہ تعالیٰ بعض لوگوں میں ایسی قوت درا کہ رکھتا ہے جس سے وہ مستقبل کے امور کے متعلق قیاس اور اندازے سے باتیں بتاتے ہیں جو کبھی اتفاقاً سچ نکلتی ہیں اور اکثر جھوٹ ہوتی ہیں۔

(4) کاہن کی ایک قسم عراف ہے‘ یہ وہ شخص ہے جو علامات‘ اسباب اور مقدمات سے ان کے نتائج اور مسببات پر استدلال کر کے آئندہ کی باتیں بتاتا ہے اورمستقبل کو جاننے کا دعویٰ کرتا ہے‘ یہ لوگ ستاروں اور دیگر اسباب سے استفادہ کرتے ہیں۔ علامہ ھروی نے کہا اعراف نجومی کو کہتے ہیں جو غیب جاننے کا دعویٰ کرتا ہے‘ حالانکہ غیب کا علم اللہ کے ساتھ خاص ہے۔

نجومیوں سے سوال کرنے کی ممانعت

نافع بعض ازواج مطہرات سے روایت کرتے ہیں کہ جو شخص کسی عراف کے پاس جا کر اس سے کسی چیز کے متعلق سوال کرے اس کی چالیس روز کی نمازیں قبول نہیں ہوتیں (صحیح مسلم)

جہاں تک نمازوں کے قبول نہ ہونے کا تعلق ہے‘ تو اہل سنت کا مذہب یہ ہے کہ نیکیاں صرف کفر سے باطل ہوتی ہیں اور یہاں نمازیں قبول نہ ہونے سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ان نمازوں سے راضی نہیں ہوتا اور ان کا اجرنہیں دیتا،ورنہ اس سے فرضیت ساقط ہوجاتی ہے اور اس کے ذمہ نمازیں نہیں رہتیں۔ باقی یہ ہے کہ اس حدیث میں ہے کہ اس کی چالیس روز کی نمازیں قبول نہیں ہوتیں تو اس طرح اور ابھی احادیث ہیں‘ حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ جس نے شراب پی اس کی چالیس روز کی نمازیں قبول نہیں ہوتیں۔ (سنن الترمذی )

شہاب ثاقب کے متعلق حدیث اور اس کی تشریح

حضرت عبداللہ بن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصحاب میں سے ایک انصاری نوجوان نے مجھے بتایا کہ ایک رات ہم نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک ستارہ پھینکا گیا جس سے روشنی ہوگئی‘ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے اصحاب سے فرمایا: جب اس طرح کا ستارہ پھینکا جائے تو تم اس کو زمانہ جاہلیت میں کیا کہتے تھے؟ آپ کے اصحاب نے کہا اس کی حقیقت کو اللہ اور اس کا رسول ہی زیادہ جانتے ہیں۔ ہم یہ کہتے تھے کہ آج رات کوئی بڑا آدمی پیدا ہوا ہے یا آج رات کوئی بڑا آدمی مرگیا ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا: ان ستاروں کو کسی کی موت کی وجہ سے پھینکا جاتا ہے نہ کسی کی حیات کی وجہ سے‘ لیکن جب اللہ تعالیٰ کسی کام کا فیصلہ فرماتا ہے تو حاملین عرش سبحان اللہ کہتے ہیں‘ پھر ان کے قریب کے آسمان والے سبحان اللہ کہتے ہیں‘ حتی کہ آسمان دنیا تک ان کے سبحان اللہ کہنے کی آواز پہنچتی ہے‘ پھر حاملین عرش کے قریب والے فرشتے حاملین عرش سے پوچھتے ہیں تمہارے رب نے کیا فیصلہ کیا تو وہ ان کو اس کی خبر دیتے ہیں‘ پھر بعض آسمان والے دوسرے بعض کو اس اس کی خبر دیتے ہیں حتی کہ آسمان دنیا تک اس کی خبر پہنچ جاتی ہے‘ پھر جنات یہ خبر کان لگا کر سنتے ہیں اور اپنے دوستوں تک پہنچادیتے ہیں‘ پھر جو خبر بعینہ وہی ہو وہ برحق ہے لیکن جنات اس میں کچھ الٹ پلٹ کردیتے ہیں اور اپنی طرف سے کچھ ملادیتے ہیں۔ (صحیح مسلم ،سنن الترمذی ، السنن الکبری للنسائی )

امام مازری نے کہا رہا علم نجوم تو بہ کثرت فلاسفہ نے یہ کہا ہے کہ ہر فلک اپنے ماتحت افلاک میں تاثیر کرتا ہے حتیٰ کہ آسمان دنیا تمام حیوانات میں‘ معدنیات میں اور نباتات میں تاثیر کرتا ہے اور اس تاثیر میں اللہ عزو جل کا کوئی دخل نہیں ہے اور یہ قول اسلام سے خروج ہے۔

ستاروں کی تاثیر کی نفی ہے متعلق احادیث اور ان کی تشریح

حضرت زیاد بن خالد جہنی (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں حدیبیہ میں صبح کی نماز پڑھائی اور آسمان پر رات کی بارش کے آثار تھے‘ جب آپ لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے تو آپ نے فرمایا: کیا تم جانتے ہو کہ تمہارے رب نے کیا فرمایا: صحابہ نے کہا اللہ اور اس کا رسول ہی زیادہ جانتا ہے‘ آپ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: میرے بندوں نے صبح کی بعض مجھ پر ایمان لانے والے تھے اور بعض کفر کرنے والے تھے‘ جنہوں نے یہ کہا کہ اللہ کے فضل اور اس کی رحمت سے بارش ہوئی ہے وہ مجھ پر ایمان لانے والے تھے اور ستاروں کا کفر کرنے والے تھے اور جنہوں نے کہا فلاں‘ فلاں ستارے کی وجہ سے بارش ہوئی ہے وہ میرا کفر کرنے والے تھے اور ستاروں پر ایمان لانے والے تھے۔صحیح البخاری، صحیح مسلم، سنن ابوداﺅ،سنن النسائی،)

قاضی عیاض بن موسیٰ مالکی لکھتے ہیں:یہ احادیث تغلیظ پر محمول ہیں‘ کیونکہ عرب یہ گمان کرتے تھے کہ بارش ستاروں کی تاثیر سے ہوتی ہے اور اس کو اللہ تعالیٰ کا فعل نہیں گردانتے تھے‘ لیکن جو شخ صبارش نازل کرنے کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کرے اور ستاروں کو علامات قراردے جیسے رات اور دن اوقات کی علامات ہیں تو اس میں گنجائش ہے‘ جیسے حضرت ابوہریرہ (رض) نے کہا ہمیں اللہ نے پانی پلایا ہے اور ستاروں نے پانی نہیں پلایا‘ اور جو شخص ستاروں کو موثر مانے وہ کافر ہے۔ (اکمال المعلم بفوائد مسلم ج7 ص 261‘ مطبوعہ دارالوفاءبیروت)

علامہ یحییٰ بن شرف نواوی لکھتے ہیں:جس شخص نے بارش کو نازل کرنے میں ستاروں کو موثر حقیقی جانا اس کے کفر میں کوئی شک نہیں ہے اور جس شخص کا یہ اعتقاد ہے کہ بارش اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمت سے ہوئی ہے اور ستارے بارش نازل ہونے کی علامت اور اس کا وقت ہیں اور اس کو وہ سب عادی جانتا ہو جیسا کہ وہ یوں کہے کہ فلاں وقت ہم پر بارش نازل ہوئی ہے تو یہ کفر نہیں ہے تاہم یہ مکروہ تنزیہی ہے کیونکہ اس قسم کا کلام کافر اور دہریے کرتے ہیں اور یہ زمانہ جاہلیت کے اقوال کے مشابہ ہے۔(صحیح مسلم بشرح النواوی )

ربیع نے کہا اللہ کی قسم! اللہ نے کسی تارے میں کسی کی زندگی رکھی ہے نہ کسی کی موت اور نہ کسی کا رزق‘ نجومی اللہ پر جھوٹ اور بہتان باندھتے ہیں اور ستاروں کو علت قرار دیتے ہیں۔ (مشکوة المصابیح)

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو شخص کا ہن (نجومی) کے پاس گیا اور اس کے قول کی تصدیق کی یا جس شخص نے حائضہ عورت کے ساتھ مباشرت کی یا جس شخص نے اپنی عورت کی پچھلی طرف مباشرت کی وہ اس دین سے بری ہوگیا جو (سیدنا) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل کیا گیا ہے۔(سنن ابو داﺅد،سنن الترمذی، سنن ابن ماجہ)

علم نجوم کا لغوی معنی

ان احادیث میں چونکہ ستاروں کی تاثیرکا ذکر آگیا ہے اس لیے ہم یہاں علم نجوم اور علم جفر کا لغوی اور اصطلاحی اور ان کا شرعی حکم بیان کرنا چاہتے ہیں‘ علم نجوم کا لغوی معنی یہ ہے:سیاروں کی تاثیرات یعنی سعادت و نحوست اور واقعات آئندہ کی حسب گردش پیش گوئی یا معاملات تقدیر اور اچھے برے موسم کی خبردینے کا علم۔ (اردولغت )

علم نجوم کے اصول اور مبادی

علم نجوم کی بنیاد اس اصول پر ہے کہ عالم تحت القمر یا ”عالم الکون والفساد“ میں جتنی تبدیلیال واقع ہوتی ہیں ان سب کا اجرام سماوی کے مخصوص طبائع اور حرکات سے قریبی تعلق ہے۔ انسان‘ جو عالم اصغر ہونے کی حیثیت سے پورے عالم اکبر کے ساتھ گہرا تعلق رکھتا ہے‘ بالخصوص ستاروں کی تاثیرات کے تابع ہے‘ اس میں خواہ ہم بطلمیوس کی پیروی میں واضح طور پر اس عملی نظریے کو تسلیم کریں کہ اجرام فلکی سے نکلی ہوئی شعاعوں سے ایسی قوتیں یا اثرات خارج ہوتے ہیں جو معمول (قابل) کی طبیعت کو عامل (فاعل) کی طبیعت کے مطابق بنا دینے کی صلاحیت رکھتے ہوں یار اسخ العقیدہ مسلمانوں کا ہم خیال ہونے کی غرض سے اجرام سماوی کو آئندہ ہونے والے واقعات کا اصل فاعل نہ مانتے ہوئے محض ان واقعات کی نشانیاں (دلائل) تصور کریں۔ ستاروں کا اثر ان کی انفرادی نوعیت پر‘ نیز زمین یا دوسرے ستاروں کے لحاظ سے ان کے مقام پر منحصر ہے‘ لہٰذا عالم کون و فساد کے واقعات اور انسانی زندگی کے نشیب و فراز ہمیشہ لاتعداد اور نہایت متنوع بلکہ متنا قض سماوی اثرات کے نہایت ہی پیچیدہ اور متغیرہ امتزاج کے تابع ہوتے ہیں۔ ان اثرات کو جاننا اور ان کو ایک دوسرے کے ساتھ نظریں رکھ کر دیکھنا نجومی کا محنت طلب کام ہے۔

علم نجوم کا اصطلاحی معنی اور اس کا شرعی حکم

علامہ مصطفیٰ آفندی بن عبداللہ آفندی قسطنطنی لکھتے ہیں:

یہ ان قواعد کا علم ہے جس سے تشکلات فلکیہ یعنی افلاک اور کواکب کی اوضاع مخصوصہ مثلاً مقارنت‘ اور مقابلت‘ وغیرہ سے دنیا کے حوادث ان کے مرنے اور جینے‘ بننے اور بگڑنے اور دیگر احوال کی معرفت پر استدلال کیا جاتا ہے۔رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو شخص ستاروں پر ایمان لایا وہ کافر ہوگیا لیکن اس کا محمل یہ ہے جب نجومی کا اعتقاد یہ ہو کہ ستارے عالم کی تدبیر میں مستقل ہیں۔

علم نجوم کی توجیہ میں یہ کہا جاتا ہے کہ ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ عادت جاری کردی ہو کہ بعض حوادث بعض دوسرے حوادث کا سبب ہوں‘ لیکن اس پر کوئی دلیل نہیں ہے کہ سیارے نحوست (اور اسی طرح سعادت) کے لیے عادة اسباب اور علت ہیں‘ نہ اس پر کوئی حسی دلیل ہے نہ سمعی او نہ عقلی‘ حسی دلیل کا نہ ہونا تو بالکل ظاہر ہے اور عقلی دلیل اس لیے نہیں ہے کہ سیاروں کے متعلق ان کے اقوال متضاد ہیں وہ کہتے ہیں کہ یہ عناصر سے مرکب نہیں ہیں بلکہ ان کی طبیعت کا خاصہ ہے پھر کہتے ہیں کہ زحل سردخشک ہے اور مشتری گرم تر ہے اس طرح انہوں نے عناصر کے خواص کو کواکب کے لیے ثابت کیا۔ اور شرعاً اس لیے صحیح نہیں ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو شخص ستاروں کے کاہن کے پاس گیا یا عراف کے پاس گیا یا منجم کے پاس گیا اور اس کی تصدیق کی تو اس نے اس دین کا کفر کیا جو (سیدنا) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل کیا گیا۔

دیگر احادیث اس طرح ہیں:

حضرت ابن مسعود (رض) نے فرمایا جو شخص عراف یا ساحر یاکاہن کے پاس گیا‘ اس سے سوال کیا اور اس کے قول کی تصدیق کی تو اس نے اس دین کا کفر کیا جو (سیدنا) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل کیا گیا۔(مسند ابو یعلی)

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو شخص کاہن یا عراف کے پاس گیا اور اس کے قول کی تصدیق کی تو اس نے اس دین کا کفر کیا جو (سیدنا) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل کیا گیا۔(مسند احمد )

خصوصیت کے ساتھ نجومیوں کے متلعق یہ حدیث ہے۔حضرت ابن عباس (رضی اللہ عنہما) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس نے ستاروں کے علم سے اقتباس کیا اس نے جادو سے اقتباس کیا۔ (سنن ابو داﺅد ، سنن ابن ماجہ، مسند احمد)

علم نجوم کے بطلان پر یہ دلیل کافی ہے کہ انبیاء(علیہم السلام) نے خود کسی ترکیب‘ کسی صنعت اور کسی طریقہ سے غیب کا علم حاصل کیا نہ امت کو اس کی تعلیم دی‘ انبیاء(علیہم السلام) کو صرف وحی سے اور اللہ تعالیٰ کے عطا سے علم غیب حاصل ہوتا تھا۔(کشف الظنون)

علم نجوم کے متلعق فقہاءاسلام کی آراء

امام محد بن محمد غزالی فرماتے ہیں:علم نجوم کے احکام کا حاصل یہ ہے کہ وہ اسباب سے حوادث پر استدلال کرتے ہیں لیکن شریعت میں یہ علم مذموم ہے حدیث میں ہے:

حضرت ثوبان (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب میرے اصحاب کا ذکر کیا جائے تو بحث نہ کرو‘ اور جب ستاروں کا ذکر کیا جائے تو خاموش رہو اور جب تقدیر کا ذکر کیا جائے تو رک جاﺅ۔(المعجم الکبیر ،یہ حدیث حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) سے بھی مروی ہے‘ المعجم الکبیر،حلیة الاولیائ، مجمع الزوائد )

حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مجھے اپنے بعد امت پر پانچ چیزوں کا خطرہ ہے۔ تقدیر کی تکذیب کرنا اور ستاروں کی تصدیق کرنا۔ (ابو یعلیٰ نے صرف دو کا ذکر کیا ہے)(مسند ابو یعلی ، مجمع الزوائد،المطالب العالیہ )

حضرت جابر بن سمرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرماتے ہوئے سنا ہے کہ مجھے اپنی امت پر تین چیزوں کا خطرہ ہے ستاروں سے بارش و طلب کرنا‘ سلطان کا ظلم کرنا او تقدیر کی تکذیب کرنا۔(مسند احمد )

حضرت ابو امامہ (رض) بیان رکتے ہیں کہ آخر زمانہ میں مجھے اپنی امت پر جس چیز کا سب سے زیادہ خطرہ ہے وہ ستارے ہیں‘ تقدیر کو جھٹلانا ہے اور سلطان کا ظلم کرنا ہے۔(المعجم الکبیر،مجمع الزوائد)

امام غزالی فرماتے ہیں نجوم کے احکام محض شن‘ تخمین اور اندازوں پر مبنی ہیں‘ اور ان کے متعلق کوئی شخص یقین یا ظن غالب سے کوئی حکم نہیں لگا سکتا‘ لہٰذا اس پر حکم لگانا جہل پر حکم لگانا ہے‘ سو نجوم کے احکام اس لیے مذموم ہیں کہ یہ جہل ہیں نہ اس حیثیت سے کہ یہ علم ہیں‘ یہ علم حضرت ادریس (علیہ السلام) کا معجزہ تھا (نوٹ:دراصل وہ علم رمل تھا یعنی لکیروں سے زائچہ بنانے کا علم وہ نجوم کا علم نہیں تھا) اب یہ علم مٹ چکا ہے‘ اور کبھی کبھار نجومی کی جو بات سچ نکلتی ہے وہ بہت نادر ہے اور محض اتفاق ہے‘ کیونکہ وہ کبھی بعض اسباب پر مطلع ہوجاتا ہے اور ان اسباب کے بعد مسبب اسی وقت حاصل ہوتا ہے جب بہت ساری شروط پائی جائیں جن کے حقائق پر مطلع ہونا بشر کی قدرت میں نہیں ہے‘ جیسے انسان کبھی بادل دیکھ کر بارش کا گمان کرتا ہے حالانکہ بارش کے اور بھی اسباب ہوتے ہیں جن پر وہ مطلع نہیں ہوتا‘ اور جس طرح ہواﺅں کا رخ دیکھ کر ملاح کشتی کو سلامتی سے لے جانے کا گمان کرتا ہے حالانکہ سلامتی کے اور بھی اسباب ہیں جن پر وہ مطلع نہیں ہوتا اور اس کا اندازہ کبھی صحیح ہوتا ہے اور کبھی غلط۔(احیاءعلوم )

امام محمد بن اسماعیل بخاری فرماتے ہیں:

ولقد زینا السمآءالدنیا بمصابیح۔ (الملک)

 بیشک ہم آسمان دنیا کو چراغوں (ستاروں) سے مزین فرمایا ہے۔

قتادہ نے کہا اللہ تعالیٰ نے ان ستاروں کو تین کاموں کے لیے پیدا فرمایا ہے‘ ان ستاروں کو آسمان کی زینت بنایا اور ان کو شیاطین پر رجم کرنے کے لیے بنایا اور ان کو راستوں کی ہدایت کی علامات بنایا‘ اور جس نے ان ستاروں کا کوئی اور مقصد قرار دیا اس نے خطا کی اور اپنا حصہ ضائع کیا اور جس چیز کا علم نہیں تھا اس میں تکلف کیا۔ رزین نے یہ اضافہ کیا ہے کہ انبیاءاور فرشتے اس علم سے عاجز نہ تھے۔ (کتاب بدءالخلق،مشکوة )

علامہ شرف الدین حسین بن محمد الطیبی اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:

امام قشیری نے نجومیوں کے مذاہب تفصیل سے ذکر کر کے ان کو باطل کیا ہے‘ اور لکھا ہے کہ نجومیوں کا صحت کے قریب ترین قول یہ ہے کہ ان حوادث کو ابتداءاللہ تعالیٰ اپنی قدرت اور اپنے اختیار سے پیدا فرماتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی عادت جاریہ یہ ہے کہ وہ ان حوادث کو اس وقت پیدا فرماتا ہے جب یہ سیارے بروج مخصوصہ میں ہوتے ہیں‘ اور یہ سیارے اپنی رفتار‘ اپنے اتصال اور اپنی شعاﺅں کے گرنے میں مختلف ہوتے ہیں اور یہ بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے عادت جاریہ ہے‘ جیسے اللہ تعالیٰ نے یہ عادت جاری کردی ہے کہ نر اور مادہ کے اختلاط کے بعد بچہ پیدا ہوجاتا ہے اور کھانے کے بعد پیٹ بھر جاتا ہے‘ علامہ قشیری نے کہا یہ چیز اللہ تعالیٰ کی قدرت میں جائز ہے لیکن اس پر کوئی دلیل نہیں ہے‘ بلکہ اس کے خلاف پر دلیل ہے کیونکہ جو کام بہ طور عادت جاریہ ہو‘ اس میں استمرار ہوتا ہے اور کم از کم درجہ یہ ہے کہ اس میں تکرار ہوتا ہے اور ان کے نزدیک ایک وقت ایک مخصوص طریقہ سے بار بار نہیں ہوتا‘ کیونکہ ایک سال میں سورج کسی برج کے ایک درجہ میں ہوگا تو دوسرے سال اس برج کے اس درجہ میں نہیں ہوگا‘ اور قرائن‘ مقابلات اور کواکب کی طرف نظر کے اعتبار سے احکام مختلف ہوتے رہتے ہیں۔(شرح الطیبی)

ستاروں کی تاثیرات دائمی یا اکثری نہیں ہیں اس کو آسان اور عام فہم طریقہ سے یوں سمجھا جاسکتا ہے کہ اگر کسی خاص صفت کے ساتھ کسی ستارے کا کسی مخصوص برج میں ہونا برکت یا نحوست یا فائدہ نقصان کا موجب ہے تو ہمیشہ یا اکثر اوقات میں اس ساعت میں برکت یا نحوست یا فائدہ نقصان کے اثرات ہونے چاہئیں حالانکہ ایسا نہیں ہوتا‘ اگر بارش کا ہونا‘ طوفانوں کا اٹھنا اور زلزلوں کا آنا ستاروں کے کسی مخصوص برج میں ہونے کی وجہ سے ہوت و جب بھی وہ ستاروہ اس مخصوص برج میں ہو تو یہ آثار صادر ہونے چاہئیں‘ یہ ہمارا مشاہدہ ہے کہ سعادت‘ نحوست‘ اور نفع اور نقصان کے آثار جن اوقات میں مرتب ہوتے ہیں ان مخصوص اوقات میں ان کا ترتب دائمی یا اکثری نہیں ہے اور مسبب کا دائمی اور اکثری نہ ہونا سبب کے دائمی اور اکثری نہ ہونے کی دلیل ہے‘ اس سے یہ واضح ہوگیا کہ جن اوقات میں ستارے مخصوص برج میں ہوتے ہیں ان اوقات میں دائمی یا اکثری طور پر ان مخصوص حوادث کا صدور نہیں ہوتا اس لئے یہ کہنا صحیح نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ کی یہ عادت جاریہ ہے کہ جب یہ ستارے مخوص برج مخصوص صفت کے ساتھ ہوتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان مخصوص حوادث کو صادر کردیتا ہے لہٰذا ستاروں کا مخصوص برج میں ہونا نہ حوادث کے صدور کی علت ہے نہ ان کے صدور کا دائمی یا اکثری سبب ہے۔

امام عبد اللہ بن محمد بن عبداللہ الخطیب تبریزی بیان کرتے ہیں:

حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا: جس شخص نے اللہ کی ذکر کی ہوئی چیز کے سوا کسی اور چیز کے لیے ستاروں کا علم حاصل کیا اس نے جادو کا ایک حصہ حاصل کیا‘ نجومی کا ہن ہے اور کاہن جادوگر ہے اور جادو گر کافر ہے۔ اس حدیث کو رزین نے روایت کیا ہے۔ (مشکوة المصابیح )

اللہ کی ذکر کی ہوئی چیزوں سے مراد ستاروں سے آسمان کی زینت ان کا رجوم شیاطین (شہباب ثاقب) ہونا اور ان سے راستوں کی ہدایت حاصل کرنا ہے۔ سو جس شخص نے ان کے علاوہ کسی اور چیز کے لیے ستاروں کا علم حاصل کیا (مثلاً غیب جاننے کے لیے اور آئندہ کی پیش گوئی کے لیے) تو اس نے جادو کا ایک حصہ حاصل کیا۔

ملاعلی بن سلطان محمد القاری اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:

پس کاہن اور نجومی دونوں کافر ہیں۔حضرت ابو سعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اگر اللہ پانچ سال تک اپنے بندوں سے بارش کو روک لے اس کے بعد بارش نازل فرمائے تو لوگوں میں سے کافروں کی ایک جماعت یہ کہے گی کہ فلاں ستارے کی وجہ سے ہم پر بارش ہوئی ہے۔ (سنن النسائی ، مشکوة )

ملاعلی قاری لکھتے ہیں: اب ان کافروں سے یہ کہا جائے گا کہ پانچ سال تک وہ ستارہ کہاں تھا جس کی وجہ سے ایک سال میں سینکڑوں بار بار شیں ہوتی تھیں‘ اس سے معلوم ہوا کہ ستارے دائمی سبب ہیں نہ اکثری سبب ہیں اور نہ بارش کے لیے ان کا مخصوص برج میں ہونا سبب ہے یہ اللہ تعالیٰ کی عادت جاریہ ہے اور نہ بارش کی علامت ہے‘ یہ سب کفار کی بےدلیل باتیں اور خرافات ہیں۔ (مرقات المفاتیح )

سید محمد امین ابن عابد شامی لکھتے ہیں:

علامہ علاءالدین الحصکقی نے علم نجوم اور علم رمل وغیرہ کو حرام کہا ہے۔ (درمختار )

علامہ شامی فرماتے ہیں علم نجوم کی تعریف ہے: حوادث سفلیہ پر تشکلات فلکیہ سے استدلال کی معرفت جس علم سے حاصل ہو وہ علم نجوم ہے۔

صاحب ہدایہ نے مختار ات نوازل میں لکھا ہے کہ فی نفسہ علم نجوم اچھا علم ہے مذموم نہیں ہے‘ ایک علم حسابی ہے اور یہ برحق ہے۔ قرآن مجید میں ہے:

الشمس والقمر بحسبان۔ (الرحمن: )

 سورج اور چاند مقررہ حساب سے (گردش کررہے) ہیں۔

یعنی ان کی رفتار اور ان کا گردش کرنا حساب سے ہے‘ اور اس کی دوسری قسم استدلال ہے‘ یعنی وہ ستاروں کی رفتار اور افلاک کی حرکت سے اللہ تعالیٰ کی قضا اور قدر پر استدلال کرتے ہیں‘ اور یہ جائز ہے جیسے طبیب نبض کی رفتار سے صحت اور مرض پر استدلال کرتا ہے‘ اور اگر وہ اللہ تعالیٰ کی قضا اور قدر پر استدلال نہ کرے بلکہ خود غیب جاننے کا دعوی کرے تو اس کو کافر قرار دیا جائے گا‘ پھر اگر علم نجوم سے صرف نمازوں کے اوقات اور قبلہ کی سمت پر استدلال کیا جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ الخ۔

 اس عبارت سے معلوم ہوا کہ اتنی مقدار سے زائد علم نجوم حاصل کرنے میں حرج ہے‘ بلکہ الفصول میں مذکور ہے کہ مطلقاً علم نجوم کو حاصل کرنا حرام ہے جیسا کہ درمختار میں ہے‘ اور اس سے مراد علم نجوم کی وہ قسم ہے جس میں ستاروں کی رفتار اور حرکت افلاک سے اللہ تعالیٰ کی قضاءو قدر پر استدلال کیا جاتا ہے‘ اسی وجہ سے احیاءالعلوم میں مذکور ہے کہ فی نفسہ علم نجوم مذموم نہیں ہے۔ اور حضرت عمر نے فرمایا ستاروں سے وہ علم حاصل کرو جس سے تم بحرو بر میں راستوں کی ہدایت حاصل کرسکو‘ پھر رک جاﺅ‘ حضرت عمر نے اس کے ماسوا کو تین وجوہ سے منع فرمایا: (1) یہ علم اکثر مخلوق کے لیے مضر ہے‘ کیونکہ عوام جب یہ علم سیکھیں گے تو وہ ستاروں کو موثر اعتقاد کریں گے۔ (2) ستاروں کے احکام محض اندازوں پر مبنی ہوتے ہیں۔ (3) اس علم کا کوئی فائد نہیں ہے‘ کیونکہ جو چیز مقدر کردی گئی ہے وہ بہر حال ہونی ہے اس کو کوئی ٹال نہیں سکتا۔

علم رمل

علم رمل وہ علم ہے جو قواعد سے لکیروں اور نقطوں کی مختلف اشکال پر مبنی ہے‘ اور ان شکلوں سے مستقبل میں پیش ہونے والے امور معلوم ہوجاتے ہیں اور تم کو معلوم ہے کہ یہ علم حرام قطعی ہے‘ اس کی اصل حضرت ادریس (علیہ السلام) ہیں اور یہ شریعت منسوخ ہوچکی ہے۔ علامہ ابن حجر مکی نے اپنے فتاویٰ میں لکھا ہے کہ اس علم کا سیکھنا اور سکھانا حرام قطعی ہے‘ کیونکہ اس سے عوام کو یہ وہم ہوگا کہ اس علم کا جاننے والا غیب کے علم میں اللہ کا شریک ہے (فتاویٰ حدیثیہ)

نیز علامہ شامی فرماتے ہیں حدیث میں ہے: حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا: جو شخص کا ہن کے پاس گیا اور اس کے قول کی تصدیق کی یا جس شخص نے حائضہ عورت کے ساتھ مباشرت کی یا جس شخص نے اپنی بیوی کی پچھلی طرف مباشرت کی تو وہ اس دین سے بری ہوگیا جو (سیدنا) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل کیا گیا ہے۔(سنن ابو داﺅد،سنن الترمذی، سنن ابن ماجہ)

 اس حدیث میں کاہن کا لفظ عراف اور منجم دونوں کو شامل ہے اور عرب ہر اس شخص کو کاہن کہتے تھے جو علم دقیق کا حامل ہو اور بعض عرب منجم اور طبیب کو بھی کاہن کہتے تھے۔ (ردالمختار)

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا فاضل بریلوی قدس سرہ العزیز لکھتے ہیں:

نجوم کے دو ٹکڑے ہیں1۔ علم وفن۔ 2۔ تاثیر

اول کی طرف تو قرآن عظیم میں ارشاد ہے:

 الشمس والقمر بحسبان۔ والشمس تجری لمستقر لھا ذلک تقدیر العزیز العلیم۔ والقمر قدر نہ منازل حتی عاد کا لعرجون القدیم۔ لا الشمس ینبغی لھا ان تدرک القمر ولا اللیل سابق النھار وکل فی فلک یسبحون۔ وجعلنا اللیل والنھار ایتین فمحونا ایة اللیل وجعلنا ایة النھار مبصرة لتبتغو افضلا من ربکم ولتعلموا عدد السنین والحساب وکل شیءفصلنہ تفصیلا۔ والسماءذات البروج۔ تبارک الذی جعل فی السماءبروجا۔ فلا اقسم بالخنس۔ الجوار الکنس۔ ویتفکر ون فی خلق السموات والارض ربنا ماخلقت ھذا باطلا سبحنک فقنا عذاب النار۔ الم ترالٰی ربک کیف مدالظل ولو شاءلجعلہ ساکنا ثم جعلنا الشمس علیہ دلیلا۔ ثم قبضنہ الینا قبضا یسیرا۔ الی غیر ذلک من ایات کثیرة ۔

اور اس کا فن تاثیر باطل ہے۔ تدبیر عالم سے کو اکب کے متعلق کچھ نہیں کیا گیا نہ ان کے لیے کوئی تاثیر ہے ۔(فتاویٰ رضویہ )

مزید فرماتے ہیں: امور غیب پر احکام لگانا، سعد ونحس کے خرخشے اٹھانا، زائچے کی راہ چلنا اوتاد اربعہ، طالع رابع عاشر سابع پر نظر رکھنا، زائلہ مائلہ کو جانچنا پرکھنا شرعا ناجائز ہے اور اعتقاد کے ساتھ ہو تو قطعا کفر ہے والعیاذ بااللہ رب العالمین(فتاویٰ رضویہ ج1ص463)

مفتی منیب الرحمن مدظلہ فرماتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان کہ ستاروں کی کوئی اصل نہیں اس کا معنی یہ ہے کہ نجومیوں کے یہ نظریات کے ستاروں کی چالیں انسانی زندگی پر اثر انداز ہوتی ہیں یہ باتیں شریعت کی نظر میں باطل ہیں۔

مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ نے بہشتی زیور، تعلیم الدین میں ستاروں کی تاثیر کا عقیدہ رکھنے کو کفروشرک میں شمار کیا ہے۔

علامہ اقبال مرحوم فرماتے ہیں:

ستارہ کیا تیری تقدیر کی خبر دے گا۔۔۔وہ خود فراخی افلاک میں ہے خوار وزبوں

شاہ ولی اللہ محدث دہلوی لکھتے ہیں:

باقی ستارے رہے تو یہ بات بعید نہیں ہے کہ ان کی بھی کچھ اصل ہو کیونکہ شرع نے صرف ان کے اندر مشغول رہنے سے نہی فرمائی ہے۔ ان کی حقیقت کی نفی با لکلیہ نہیں کی ہے اور اسی طرح سلف صالح سے ان چیزوں میں مشغول نہ ہونا اور مشتغلین کی مذمت اور ان کی تاثیرات کا قبول نہ کرنا تو برابر چلا آیا ہے مگر ان سے ان چیزوں کا معدوم ہونا ثابت نہیں ہوتا۔ علاوہ بریں ان میں سے بعض اشیاءایسی ہیں اور یقین کے درجہ میں بدیہات اولیٰ کے درجہ کو پہنچ چکی ہیں مثلاً شمس و قمر کے حالات مختلف ہونے سے فصلوں کا مختلف ہونا و علیٰ ہذا القیاس‘ اور بعض باتیں فکر یا تجربہ یا رسد سے ثابت ہوتی ہیں جس طرح تجربہ وغیرہ سے سونتھ کی حرارت اور کافرو کی برودت ثابت ہوتی ہے اور غالباً ان کی تاثیر دو طریقے سے ہوتی ہے ایک طریقہ تو طبیعت کے قریب قریب ہے یعنی جس طرح ہر نوع کے لیے طبائع مختلف ہوتی ہیں جو اسی نوع کے ساتھ مختص ہوا کرتی ہیں یعنی حرارت و برودت اور رطوبت اور یبوست اور امراض کے دفع کرنے میں انہیں طبائع سے کام لیا جاتا ہے۔ اسی طرح افلاک اور کواکب کے لیے بھی طبائع خاص اور جدا جدا خواص ہیں مثلاً آفتاب کے لیے حرارت اور چاند کے لیے رطوبت اور جب ان کو اکب کا اپنے اپنے محل میں گذر ہوتا ہے‘ زمین پر ان کی قوت کا ظہور ہوتا ہے۔ دیکھو کہ عورتوں کے لیے جو عادات اور اخلاق مخصوص ہیں ان کا منشاءعورتوں کی طبیعت ہی ہوا کرتی ہے اگرچہ اس کا ادراک ظاہر طور پر نہ ہو سکے اور مرد کے ساتھ جو اوصاف مختص ہیں مثلاً جرات آواز کا بھاری ہونا اس کا منشا بھی اس کی کیفیت مزاجی ہوا کرتی ہے پس تم اس بات سے انکار مت کرو کہ جس طرح ان طبائع خفیہ کا اثر ہوتا ہے اسی طرح زہرہ اور مریخ وغیرہ کے قویٰ زمین میں حلول کر کے اپنا اثر ظاہر کریں اور دوسرا طریقہ قوت روحانیہ اور طبیعت کے باہم ترکیب کے قریب قریب ہے۔ اس کی مثال ہے کہ جس طرح جنین کے اندر ماں اور باپ کی طرف سے قوت نفسانی حاصل ہوتی ہے اور آسمان و زمین کے ساتھ ان عناصر ثلاثہ کا حال ایسا ہی ہے جو ماں باپ کے ساتھ جنین کا حال ہوا کرتا ہے پس یہی قوت جہان کو اولاً صورت حیوانیہ بعد ازاں صورت انسانیہ کے قبول کرنے کے قابل بناتی ہے اور اتصالات فلکی کے اعتبار سے ان قویٰ کا حلول کئی طرح پر ہوتا ہے اور ہر قسم کے خواص مختلف ہوتے ہیں جب کچھ لوگوں نے اس کے اندر غور کرنا شروع کیا تو ان ستاروں کا علم یعنی علم نجوم حاصل ہوگیا‘ اور اس کے ذریعہ سے آئندہ واقعات ان کو معلوم ہونے لگے مگر جب مقتضائے الہٰی اس کے خلاف مقرر ہوجاتی ہے تو ستاروں کی قوت ایک دوسری صورت میں جو اسی صورت کے قریب ہوتی ہے متصور ہوجاتی ہے اور خدا تعالیٰ کا حکم پورا ہو کر رہتا ہے اور کواکب کے خواص کا نظام بھی قائم رہتا ہے اور شروع میں اس نکتہ کو اس طرح پر تعبیر کیا جاتا ہے کہ کواکب کے خواص میں لزوم عقلی نہیں ہے بلکہ عادت الہٰی اس طرح جاری ہے اور خاص بمنزلہ امارات اور علامت کے ہیں مگر جب کثرت سے لوگوں کو اس علم میں توغل ہوگیا اور بہمہ تن اس میں مشغول ہوگئے تو اس واسطے اس میں کفر اور خدا تعالیٰ پر ایمان کے قائم نہ رہنے کا احتمال پیدا ہوا‘ کیونکہ جو شخص اس علم میں مشغول ہو رہا ہے وہ تہ دل سے کیونکر یہ بات کہہ سکتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمت سے یہ مینہ برسا رہے بلکہ وہ تو خواہ مخواہ یہی کہے گا کہ فلاں فلاں تارے کی وجہ سے برسا ہے لہٰذا یہ امر اس کو اس ایمان سے جو نجات کا دارو مدار ہے ضرور مانع ہوگا اور اگر کسی شخص کو اس علم سے ناواقفیت ہے تو اس کی یہ ناواقفیت کچھ مضر نہیں کیونکہ خدا تعالیٰ خود تمام عالم کا مقتضائے حکمت کے موافق انتظام کرتا ہے خواہ کوئی اس سے واقف ہو یا نہ ہو۔ پس ضرور ہوا کہ شرع میں ایسا علم نیست و نابود کردیا جائے اور لوگوں کو اس کے سیکھنے سے ممانعت کی جائے اور یہ بات ظاہر کردی جائے کہ جس نے نجوم سیکھا اس نے جادو کا ایک شعبہ حاصل کیا جس قدر زیادہ سیکھے اسی قدر اس کا وبال ہوگا۔ اس کا حال توریت و انجیل کا سا حال ہے کہ انحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے نہیں فرمائی یہ جو کچھ ہم نے بیان کیا ہماری رائے ہے اور ہمارے تفحص کا نتیجہ ہے۔ پس اگر سنت سے اس کے خلاف کچھ ثابت ہو تو جو سنت سے ثابت ہو وہی بات ٹھیک ہے۔ (ترجمہ حجة اللہ البالغة )

صدرالشریعة مولانا محمد امجد علی اعظمی (رح) لکھتے ہیں:

قمر در عقرب‘ یعنی چاند جب برج عقرب میں ہوتا ہے تو سفر کرے کو برا جانتے ہیں اور نجومی اسے منحوس بتاتے ہیں اور جب برج اسد میں ہوتا ہے تو کپڑے قطع کرانے اور سلوانے کو برا جانتے ہیں ایسی باتوں کو ہرگز نہ مانا جائے‘ یہ باتیں خلاف شرع اور نجومیوں کے ڈھکو سلے ہیں۔

نجوم کی اس قسم کی باتیں جن میں ستاروں کی تاثیرات بتائی جاتی ہیں کہ فلاں ستارہ طلوع کرے گا تو فلاں بات ہوگی یہ بھی خلاف شرع ہے اس طرح نچھتروں کا حساب کہ فلاں نچھتر سے بارش ہوگی یہ بھی غلط ہے حدیث میں اس پر سختی سے انکار فرمایا۔ (بہار شریعت مطبوعہ ضیاءالقرآن پبلی کیشنز لاہور‘)

مفتی احمد یار خاں نعیمی ؒ لکھتے ہیں:

یعنی فلاں تارہ فلاں برج میں پہنچا لہٰذا بارش ہوئی اس کی تاثیر سے بادل برسا ،یہ کہنا حرام ہے بلکہ بعض معانی سے کفر ہے‘ خیال رہے کہ ستاروں کو فاعل مدبر ماننا کفر ہے انہیں بارش کی علامت ماننا اگرچہ کفر نہیں ہے مگر یہ کہنا بہت برا ہے کہ فلاں تارے سے بارش ہوئی کہ اس میں کفار کے عقیدے کا اظہار ہے۔ بہرحال نجومیوں سے غیب کی خبریں پوچھنا بدترین گناہ ہے۔ (مرءات المنا جیح مطبوعہ گجرات)

مفتی محمد وقار الدین قادری رضویؒ لکھتے ہیں:

نجومی اور کاہن وغیرہ سے تو سوال کرنے کی بھی ممانعت ہے‘ صحیح مسلم میں ہے: جو کاہن (نجومی) کے پاس آئے اور اس سے کچھ دریافت کرے اس کی چالیس دن کی نمازیں قبول نہیں ہوتیں‘ حضرت ربیع سے ایک روایت ہے کہ قسم اللہ کی اللہ تعالیٰ نے کسی ستارے میں کسی کی زندگی نہیں رکھی‘ نہ ہی اس کا رزق اور نہ ہی اس کی موت اور وہ اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھتے ہیں اور وہ ستاروں کو علت قرار دیتے ہیں۔ (مشکوٰة المصابیح کتاب الطب والرقی‘ الکھانت‘ فصل ثالث) مشکوٰة میں ایک اور حدیث ہے‘ حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے‘ جس کسی نے علم نجوم کا کچھ حصہ سیکھا جو اللہ تعالیٰ نے نہیں بیان فرمایا‘ پس تحقیق اس نے ایک حصہ جادو کا حاصل کیا نجومی کا ہن ہے اور کاہن جادو گر ہے اور جادو گر کافر ہے۔ (مشکوٰة حوالہ بالا) غرض علم نجوم اور علم رمل سیکھنا ناجائز ہے اور زائچہ بنوانا بھی ناجائز ہے۔ (وقار الفتاویٰ ، مطبوعہ بزم وقار الدین کراچی)

شیخ تقی الدین احمد بن تیمیہ الحرانی لکھتے ہیں:

اسی طرح نجومی ہیں اور ان کے علم کا مبنیٰ یہ ہے کہ حرکات علویہ حوادث کے حدوث کا سبب ہیں اور سبب کا علم مسبب کے علم کو واجب کرتا ہے ان لوگوں کو کسی چیز کے ایک سبب کا پتا چل جاتا ہے لیکن اس چیز کے باقی اسباب‘ اس کی تمام شروط اور تمام موانع کا علم نہیں ہوتا‘ مثلا ان کو یہ علم ہوتا ہے کہ اگر گرمیوں میں سورج سر پر پہنچ جائے تو فلاں علاقے میں انگور منقی بن جائیں گے‘ لیکن ہوسکتا ہے اس علاقہ میں انگور پیدا نہ ہوئے ہوں یا بارش اور ژالہ باری سے انگور پکنے سے پہلے ہی ضائع ہوگئے ہوں‘ لہٰذا صرف اس بات کے علم سے کہ گرمیو ں میں سورج کی حرارت سے انگور منقی بن جاتے ہیں یہ پیش گوئی نہیں کی جاسکتی کہ کسی علاقے میں فلاں مہینے میں انگور منقی بن گئے ہیں اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ فرمایا جس شخص نے عراف کے پاس جا کر کسی چیز کا سوال کیا اس کی چالیس دن کی نمازیں قبول نہیں ہوتیں (صحیح مسلم ) اور عراف کا لفظ کاہن‘ نجومی اور مال سب کو شامل ہے۔ (فتاویٰ ابن تیمیہ )

پھر ان نجومیوں کا طریقہ کار یہ تھا کہ جب کوئی بچہ پیدا ہوتا تو یہ اس کے نام کا ستارہ معلوم کرتے اور بچہ کا وہ نام رکھتے جو اس ستارے پر دلالت کرتا‘ پھر وہ بچہ جب بڑا ہوجاتا تو پھر وہ اس ستارے کے احوال سے اس بچے کے احوال کو معلوم کرتے‘ اور ان کے اختیارات یہ ہوتے تھے کہ اگر انہوں نے کسی سفر پر جانا ہوتا تو اگر چاند کسی مبارک برج میں ہوتا جو ان کے نزدیک سرطان ہے تو وہ سفر پر جاتے اور اگر چاند کسی منحوس برج میں ہوتا اور وہ ان کے نزدیک عقرب ہے تو پھر وہ سفر پر نہ جاتے۔

جب حضرت علی ابن ابی طالب (رض) نے خوارج سے قتال کے لیے جانے کا ارادہ کیا تو ان کے پاس ایک نجومی آیا اور کہنے لگا: اے امیر المومنین! آپ سفر نہ کریں کیونکہ چاند برج عقرب میں ہے‘ کیونکہ اگر آپ نے اس حال میں سفر کیا جبکہ چاند برج عقرب میں ہے تو آپ کے اصحاب کو شکست ہوجائے گی۔ حضرت علی نے فرمایا بلکہ میں اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے سفر کروں گا‘ اور تمہاری تکذیب کروں گا‘ سو انہوں نے سفر کیا اور ان کا وہ سفر بابرکت رہا‘ حتیٰ کہ بہت سے خوارج مارے گئے‘ اور یہ ان کی بہت بڑی مہم تھی‘ کیونکہ حضرت علی نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم سے خوارج سے قتال کیا تھا۔ اور یہ جو بعض لوگوں نے کہا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد ہے کہ اس حال میں سفر نہ کرو کہ قمر (برج) عقرب میں ہو تو اس پر تمام محدثین کا اتفاق ہے کہ یہ محض جھوٹ ہے۔

اور بعض لوگوں نے یہ کہا ہے کہ علم نجوم حضرت ادریس (علیہ السلام) کا فن ہے‘ تو اول تو یہ قول بلاعلم ہے‘ کیونکہ اس قسم کی بات بغیر نقل صحیح کے معلوم نہیں ہوسکتی‘ اور اس قسم کی کوئی نقل صحیح ثابت نہیں ہے‘ ثانیاً اگر اس قسم کی کوئی پیش گوئی حضرت ادریس سے ثابت ہو تو وہ ان کا معجزہ ہوگا اور یہ وہ علم ہوگا جو ان کو اللہ تعالیٰ نے عطا کیا ہوگا اور وہ علوم نبوت سے ہے‘ اور نجومی اپنے تجربہ اور قیاس سے پیش گوئی کرتے ہیں نہ کہ حضرت ادریس (علیہ السلام) کی دی ہوئی خبر سے‘ ثالثاً نجومیوں کی پیش گوئیاں بہ کثرت جھوٹ ہوتی ہیں اور انبیاء(علیہم السلام) کی خبریں جھوٹ سے معصوم ہوتی ہیں۔ رابعاً ہمیں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول نے خبر دی ہے کہ اہل کتاب نے اپنی کتابوں میں تحریف کردی ہے اور اس میں جھوٹ ملادیا ہے‘ اور ان کی تصدیق کرنے سے منع فرمایا ہے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے جب تمہیں اہل کتاب کوئی خبر دیں تو تم نہ اس کی تصدیق کرو نہ تکذیب کرو بلکہ یوں کہو ہم اللہ پر ایمان لائے اور اس پر جو ہماری طرف نازل کیا گیا اور جو تمہاری طرف نازل کیا گیا‘ ہمارا خدا اور تمہارا خدا ایک ہے‘ ہم اسی پر ایمان لاتے ہیں (صحیح البخاری) سو جب ہم کو اہل کتاب کی آسمانی کتابوں کی تصدیق سے منع کردیا تو ہم اس چیز کی تصدیق کیسے کرسکتے ہیں‘ جس کو بغیر کسی ثبوت کے حضرت ادریس (علیہ السلام) کی طرف منسوب کردیا ہے۔

جن ستاروں کو نجومیوں نے منحوس اور مبارک کہا ہے‘ اگر آپ اس کا الٹ کردیں اور مثلاً جب قمر برج سرطان میں ہو تو اس کو منحوس کہیں اور جب وہ برج عقرب میں ہو تو اس کو مبارک کہیں اور اس بنیاد پر پیش گوئی کریں تب بھی بعض اوقات یہ پیش گوئی صحیح ہوگی اور بعض اوقات یہ پیش گوئی غلط ہوگئی جس طرح ان کے مفروضات کی بنیاد پر کبھی ان کی پیش گوئی صحیح ہوتی ہے اور کبھی ان کی پیش گوئی غلط ہوتی ہے بلکہ زیادہ ترغلط ہوتی ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہ جس بنیاد پر پیش گوئی کرتے ہیں وہ بنیاد محض ان کی من گھڑت اور خود ساختہ ہے اس کی کوئی صحیح بنیاد نہیں ہے اور یہ محض اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مارتے ہیں۔ (فتاویٰ ابن تیمیہ)

یہ تو شیخ ابن تیمیہ کے زمانے کے نجومیوں پر تبصرہ ہے اور ہمارے زمانہ میں جو نجومی ہیں ان کو تو یہ بھی پتا نہیں ہوتا کہ برج کسی چیز کا نام ہے اور کون سا ستارہ کس برج میں کب ہوتا ہے اور اس کو جاننے کا کیا ذریعہ ہے‘ اور یہ کیسے معلوم ہوا کہ کون سا ستارہ مبارک ہے اور کون سا منحوس ہے‘ اور کس شخص کا کون سا ستارہ ہے اس کا علم کس ماخذ سے ہوا۔

جفر کا لغوی معنی

مولانا غلام رسول سعیدی تفسیر تبیان القرآن سورہ الشعراءآیت 221 کے تحت فرماتے ہیں:

علم الجفر ایک علم ہے جس میں اسرار حروف سے بحث ہوتی ہے اور اس کے ماہرین کا دعویٰ ہے کہ وہ اس کی مدد سے آئندہ حالات و واقعات کا پتا لگا سکتے ہیں۔ (المنجد)

غیب کے حالات معلوم کرنے کا علم۔ (قائد اللغات مطبوعہ لاہور)

ایک علم جس سے غیب کا حال بتایا جاتا ہے۔ حضرت امام جعفر سے بھی منسوب کیا جاتا ہے۔ (فیروز اللغات مطبوعہ لاہور)

علم جفر کا تفصیلی تعارف

جفر: (ایک عددی علم‘ جس کی مدد سے واقعات‘ خصوصاً آنے والے واقعات یا ان کی اطلاع کی جاتی ہے۔ باطنی روایت بعض خاص حلقوں میں بڑی مقبول ہوئی۔)

خلافت کے لیے بعض حلقوں کی سرتوڑ کوشش کے دوران (جو ابتدا ہی سے باہمی اختلافات سے کمزور ہوگئے تھے اور بالخصوص المتوکل کے عہد خلافت میں سخت جبر و تشدد کا شکار بنے رہے،) ایک کشفی اور القائی ادب کا آغاز ہوا۔ یہ ادب مختلف شکلوں میں منظر عام پر آیا‘ جس پر بحثییت مجموعی جفر کے اسم کا عام اطلاق ہوتا ہے۔ اکثر اس کے ساتھ اسم ”جامعة“ یا صفت ”جامع“ کا بھی اضافہ کردیا جاتا ہے۔ اس کی نوعیت القائی اور مخفی طور پر کشفی ہے اور موخر الذکر صورت میں اس کا خلاصہ ایک جدول ہے جس میں جفر سے قضاءاور جامعة سے قدر مراد ہے۔

 مبہم فکر کی کئی دوسری صورتوں کے بے جوڑ عناصر کا اس میں اضافہ کردیا گیا ہے‘ مثلاً حروف ابجد اور اسمائے حسنیٰ کے مخفی خصائص: حساب الجمل: کسی ایسے نام کی عددی قدر کا اظہار جسے پوشیدہ رکھنا مقصود ہو: کسی لفظ کے حروف کی ترتیب کا ردو بدل تاکہ کوئی دوسرا لفظ بن جائے: الکسروالبسط‘ یعنی کسی متبرک نام کے حروف تر کیبی کا مطلوب کے نام کے حروف کے ساتھ جوڑنا: قاعدہ اتبش کے مطابق (جس میں تطابق حروف کی ایک جدول بنی ہوتی ہے جس میں عبرانی ابجد کا پہلا حرف آخری حرف کے مطابق ہوتا ہے‘ دوسرا ما قبل آخر کے وقس علی ھذا) کے مطابق کسی لفظ کے ایک حرف کی جگہ کوئی دوسرا حرف لانا: کسی جملے کے الفاظ کے حروف اول کو ملا کر ایک نیا لفظ بنانا: دوسرے الفاظ میں یوں کہیے کہ وہ تمام طریقے جو زمانہ قدیم سے باطنی عقائد کی ترجمانی کرتے رہے ہیں۔ (قب Historire del, ecriture:J.G.Fevrier پیرس )

حروف کی عددی قدروں پر ایسی قیاس آرائیوں کو بعض اہل تصوف نے بھی بڑی اہمیت دی ہے جن میں نہ صرف متبرک ناموں کے حروف ترکیبی کو بلکہ سورة فاتحہ میں نہ پائے جانے والے سات حروف تہجی کو بھی خاص تقدس کا درجہ دیا جاتارہا ہے۔ فرقہ ئر حروفیہ کے ہاں تو فلاطونی اور یہودیوں کی قدیم باطنی روایات بعض صوفیہ کرام کے قیل و قال سے مل کر ایک ایسا مبہم و پر اسرار علم ہمارے سامنے پیش کرتی ہیں ۔ طریق عمل کی یہ بو قلمونی طرق تقسیم میں اختلاف و تباین کے باعث اور بھی پیچیدہ ہوجاتی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ بعض مصنف طویل ترتیب حروف تہجی (الف‘ بائ‘ تائ‘ ثائ‘ وغیرہ) اور بعض ابجدی ترتیب (الف‘ بائ‘ جیم وغیرہ) کی پیروی کرتے ہیں۔ پہلا طربقہ ”الجفر الکبیر“ کہلاتا ہے اور اس میں ایک ہزار مادے ہیں اور دوسرا طریق ”الجفر الصغیر“ کے نام سے موسوم ہے اور یہ صرف سات سو مادوں پر مشمتل ہے۔ ایک اور ”الجفر المتوسط“ بھی ہے‘ جو حروف شمسی اور حروف قمری پر علیحدہ علیحدہ مبنی ہے۔ مصنفین نے اس آخری طریقے کو ترجیح دی ہے اور یہی عام طور پر تعویذوں وغیرہ میں مستعمل ہے۔ (حاجی خلیفہ‘ محل مذکور)

حروف کے اس عددی اور خفی پہلو کے ساتھ ساتھ‘ جو اپنی فنی اور مصنوعی نوعیت کی وجہ سے جفر کو زائجة (رک بان) کی سطح پر لے آتا ہے‘ ان کے نجومی پہلو کو واضح کرنا بھی ضروری ہے۔ بقول ابن خلدون شیعوں نے یعقوب ابن اسحاق الکندی کی احکام النجوم پر مبنی پیش گوئیوں پر مشتمل ایک کتاب کو جفر کا نام دے رکھا تھا۔ یہ غالباً وہی کتاب ہے جس کا ذکر ابن الندیم نے بعنوان الاستدلال بالکسوفات علی الحوادث کیا ہے (فہرست ،قب الرسالة فی القضائ: علی الکسوف‘ مخطوطئہ اسکوریال ‘ تفصیل کے لیے قب Carmathes:De Goeje Memoires sur les‘ باردوم‘ لائڈن ببعد) یہ کتاب‘ جس میں الکندی نے کسوفات کی بناءپر عباسی خلافت کے خاتمے تک اس کے عروج وزوال کے متعلق پیش گوئی کی ہے‘ ابن خلدون کے زمانے میں موجود نہ تھی۔ اس کا خیال تھا کہ یہ عباسیوں کے اس کتب خانے کے ساتھ ہی ضائع ہوگئی ہوگی جسے ہلاکو نے فتح بغداد اور آخری خلیفہ المعتصم (المستعصم) کے قتل کے بعد دریائے دجلہ کی نذر کردیا تھا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس کا ایک حصہ الجفر الصغیر کے نام سے مغرب جا پہنچا‘ جہاں بنو عبد المو من کے حکمران حسب منشا اسے اپنے تصرف میں لے آئے ہوں گے۔

باب العرافة والفراسة علی مذھب الفرس (طبع Inostranzev ذ سینٹ پیٹرزبرگ) کی رو سے‘ جو الجاحظ سے غلط طور پر منسوب کی جاتی ہے‘ جفر کا یہ نجومی پہلو ہندی الاصل ہے۔ اس میں لکھا ہے کہ الجفر سال بھر کے مبارک اور نامبارک دنوں‘ ہواﺅں کے رخ‘ قمری منازل کے ظہور اور ڈھلنے کا علم ہے۔۔۔ کتاب موسوم بہ الجفر سال بھر کی پیشگوئیوں پر مشتمل ہے‘ جو موسموں اور قمری منازل کی رو سے مرتب کی گئی ہیں۔ سات قمری منازل کا ہر مجموعہ‘ جو ربع سال پر مشتمل ہے‘”جفر“ کہلاتا ہے۔ ایرانی اس سے بارشوں‘ ہواﺅں‘ سفروں اور لڑائیوں وغیرہ کے شگون لیتے ہیں۔ خسروان ایران اور ان کی قوم نے یہ تمام علوم ہندوستان سے سیکھے۔

جفر کا آخری اور اہم ترین پہلو کشفی یا القائی ہے۔ صحیح معنوں میں اس کا اصلی پہلو یہی تھا جس بنو امیہ کے عہد میں اچھی خاصی ترقی کرلی تھی اور جسے بنو عباس کے دور حکومت میں غیبی علم کی کتابوں کی صورت میں‘ جو کتب الحدثان کے نام سے مشہور تھیں (قب Carmathes DeGoeja‘) بڑی وسعت حاصل ہوئی۔ ان قیاس آرائیوں کا آغاز کتاب دانیال سے ہوا۔ حضرت دانیال سے منسوب پیش گوئیوں کی کتابیں مصر میں پڑھی جانے لگی تھیں۔ (الطبری)

جفر: غیبی حالات سے آگاہ ہونے کا علم‘ وہ علم جن میں حروف و اعداد کے ذریعہ سے غیبی حالات دریافت کرتے ہیں۔ مذہباً شیعہ ہیں مگر مطالب قرآن بیان فرماتے ہیں تو لوگ حیران رہ جاتے ہیں اس کے علاوہ علم جفر میں کمال رکھتے ہیں (اقبال نامہ ) قدیم کتابوں میں کیمیا‘ نیر نجات‘ علم جفر‘ رمل اور قصص و اخبار کو بھی فنون میں شامل کیا گیا ہے۔ (اردو لغت )

یہ بھی پڑھیں: قسط نمبر27: عملیات اور بازاری کتب

علم جفر کے متعلق فقہاءاسلام کی آراء

حضرت جعفر کی طرف جفر کو منسوب کیا گیا ہے اور یہ سب جھوٹ ہے اور اس پر اہل علم کا اتفاق ہے‘ اور امام جعفر کی طرف رسائل اخوان الصفا بھی منسوب کئے گئے ہیں اور یہ بھی جھوٹ ہے کیونکہ رسائل امام جعفر کی وفات کے دو سو سال سے زیادہ بعد تصنیف کئے گئے ہیں۔ یہ رسائل چوتھی صدی ہجری کے درمیان میں بنو بویہ کے عہد میں تصنیف کئے گئے ہیں۔ ان کو قاہرہ میں ایک جماعت نے تصنیف کیا تھا جن کوزعم تھا کہ انہوں نے شریعت اور فلسفہ میں تطبیق دی دی ہے‘ سو وہ خود بھی گمراہ ہوئے اور انہوں نے دوسروں کو بھی گمراہ کیا۔

امام جعفر صادیق (رض) کے وہ اصحاب جنہوں نے ان سے علم حاصل کیا ہے جیسے امام مالک بن انس‘ سفیان بن عیینہ اور دیگر ائمہ اسلام وہ ان جھوٹی باتوں سے بری ہیں۔ اسی طرح شیخ عبدالرحمن سلمی نے امام جعفر صادق سے کچھ باتیں نقل کی ہیں وہ بھی جھوٹ ہیں۔ اسی طرح رافضیوں نے بہت سے مذاہب باطلہ امام جعفر کی طرف منسوب کردیئے ہیں جن کا جھونا بالکل بدیہی ہے۔جس شخص نے رفض کی ابتداءکی تھی وہ منافق زندیق تھا اس کا نام عبداللہ بن سبا تھا اس نے اس قسم کی خرافات وضع کر کے مسلمانوں کے دین کو فاسد کرنے کا ارادہ کیا تھا۔ (فتاوی ابن تیمیہ )

نیز شیخ ابن تیمیہ لکھتے ہیں:

یہ امور یہود‘ نصاریٰ مشرکین‘ صابئین کے فلسفیوں اور نجومیوں میں پائے جاتے ہیں‘ جو ایسے امور باطلہ پر مشتمل ہیں جن کو اللہ تعالیٰ کے سوا اور کوئی نہیں جانتا۔

نیز شیخ ابن تیمیہ نے لکھا ہے کہ نجومی حوادث ارضیہ پر احوال فلکیہ سے استدلال کرتے ہیں اور یہ صفت کتاب‘ سنت اور اجماع امت سے حرام ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس شخص نے علم نجوم کا کوئی حصہ حاصل کیا اس نے جادو کے علم کا حصہ حاصل کیا (سنن ابوداﺅد ) اور حضرت معاویہ بن الحکم سلمی (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! ہماری قوم کاہنوں کے پاس جاتی ہے‘ آپ نے فرمایا ان کے پاس نہ جاﺅ۔ (صحیح مسلم ) اور کاہن کے معنی میں نجومی بھی داخل ہے۔ (فتاویٰ ابن تیمیہ )

نجومی رمال (ہاتھ کی لکیروں سے غیب جاننے کے مدعی) اور علم جفر کے مدعی یہ سب غیب جاننے کا دعویٰ کرتے ہیں اور لوگ ان سے غیب کے متعلق سوال کرتے ہیں حالانکہ غیب کا علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہے‘ یا جس کو اللہ وحی کے ذریعہ امور غیب پر مطلع فرماتا ہے اور یہ وہ لوگ ہیں جن سے اللہ تعالیٰ راضی ہے جو اس کے رسول ہیں‘ اور یا وہ اولیاءکاملین ہیں جس کو اللہ بہ ذریعہ الہام امور غیب پر مطلع فرماتا ہے‘ اور ان کے سوا اور کسی کو غیب کا علم نہیں اور جو شخص ستاروں‘ ہاتھ کی لکیروں‘ زائچوں‘ یا علم جفر کے ذریعہ غیب دانی کا دعویٰ کرتا ہے وہ اپنے دعویٰ میں جھوٹا ہے‘ اللہ کی کتاب‘ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی احادیث اور علماءسلف کا اجماع اس کی تکذیب کرتے ہیں۔ ہم ان کی جہالت‘ گمراہ کن روش اور ان کے شر اور فساد سے اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اور تمام مسلمانوں کو قرآن اور سنت کی تعلیمات پر قائم رکھے اور اسی پر ہمارا خاتمہ فرمائے۔ (آمین)

کسی مخلوق سے غیب کے متعلق سوال کرنا اور کسی مخلوق کا غیب کے متعلق پوچھے گئے سوالات کا جواب دینا اسلام میں جائز نہیں ہے۔ قرآن مجید اور سنت صحیحہ میں اس کا جواز اور گنجائش نہیں ہے۔ اس لئے جو شخص مسلمان ہے اور قرآن اور سنت پر اس کا صحیح ایمان ہے اس کو یہ سلسلہ ترک کردینا چاہیے۔علم جفر کا ثبوت محض بعض صوفیاءکی بعض مبہم اور مشکل عبارات سے ہے اور ہم قرآن‘ سنت اور اجماع پر اعتقاد رکھنے اور ان پر عمل کرنے کے پابند ہیں‘ اور جب قرآن اور سنت میں یہ واضح تصریح ہے کہ عام لوگوں کو غیب کا علم نہیں دیا جاتا تو ہمیں عام لوگوں سے غیب کے متعلق سوال نہیں کرنے چاہئیں اور نہ عام لوگوں کو غیب کی باتیں بتانے کی جرات کرنی چاہیے‘ یہ درست ہے کہ اولیاءاللہ کو الہام کے ذریعہ غیب کا علم دیا جاتا ہے لیکن اولیاءاللہ کا یہ طریقہ نہیں ہے۔ اولیاءاللہ نحوست سیار گان کے اثرات کے قائل نہیں ہوتے۔ اسلام میں کوئی چیز نجس اور نامبارک نہیں ہے‘ اور بد فالی نکالنا اسلام میں منع ہے اور جو شخص سیاروں کی تاثیرات کا قائل ہو وہ ولی اللہ تو کیا ہوگا‘ مسلمان بھی نہیں ہے۔

حساب و کتاب اور سائنسی آلات کے ذریعہ پیش گوئیوں کا شرعی حکم

رہا حسب کتاب کے ذریعہ اور آلات کی مدد سے پیش گوئی کرنا یہ ہمارے نزدیک جائز ہے جیسے چاند گرہن اور سورج گرہن کے متعلق پیش گوئی کی جاتی ہے اور وہ بالعموم درست نکلتی ہے۔ اسی طرح محکمہ موسمیات کی پیش گوئیوں کو بھی ظن کے درجہ میں مان لیناصحیح ہے۔ موسمی پیش گوئیاں بالعموم صحیح ہوتی ہیں اور بعض اوقات غلط بھی نکلتی ہیں۔ اسی طرح الٹرا ساﺅنڈ کے ذریعہ معلوم ہوجاتا ہے کہ ماں کے پیٹ میں کیا ہے۔ نر ہے یا مادہ ہے‘ بچہ صحت مند ہے یا بیمار ہے‘ سو ایسی تمام چیزیں جن کو سائنسی آلات اور حساب و کتاب کے ذریعہ معلوم کرلیا جائے ان کا پیشگی علم اسلام کے کسی اصول سے متصادم نہیں ہے۔ اس لئے ان پیش گوئیوں کو ظن کے درجہ میں مان لینا صحیح ہے۔ البتہ ہاتھ کی لکیروں سے‘ علم نجوم سے یا علم جفر کے ذریعہ سے غیب دانی کا دعوی کرنا اور ان مدعیان علم غیب سے غیب کے متعلق سوال کرنا اسلام میں جائز نہیں ہے۔

تبیان القرآن – سورة نمبر 26 الشعراءآیت نمبر 221

٭…………….٭…………….٭…………….٭

کیا رمل اور جفرحضرت ادریس اور حضرت دانیال علیہما السلام نے لوگوں کو سکھایا؟

علم رمل میں کچھ لکیریں اور خطوط لگا کر حساب کیا جاتا ہے اور لوگوں کے ماضی حال اور مستقبل کے بارے خبر دی جاتی ہے۔

علم رمل (انگریزی: Geomancy) خفیہ علوم میں سے مشہور علم ہے۔ یہ ان خطوط اور نقطوں کی اشکال کا علم ہے جس سے قواعد معلومہ کے تحت حروف نکالے جاتے ہیں(جمع کیے جاتے ہیں)اور پھر ایسا جملہ نکالا جاتا ہے جو امور کے انجام پر دلالت کرتا ہے اسے علم خطوط و نقوط بھی کہا جاتا ہے جس میں اشکال کے ذریعے آئندہ پیش آنے والے حالات و واقعات پر تکے مارے جاتے ہیں۔ رمل کے زائچے میں سولہ اشکال ہوتے ہیں۔ لیکن یہ ضروری نہیں کہ تمام سولہ اشکال ہی زائچے میں آ جائیں بعض اوقات اس میں کئی اشکال ناپید ہوتی ہیں۔ اور کئی مکرر مطلب بار بار آ جاتی ہیں۔

ایک اور حدیث میں ہے

عن معاویة بن الحکم قال قلت یا رسول اللہ منا رجال یخطون خطا۔ قال کان نبی من الانبیاءیخط فمن وافق خطہ فذاک (مسلم

حضرت معاویہ بن حکم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہم میں کچھ ایسے لوگ ہیں جو خط کھینچتے ہیں اور (اس کے ذریعہ سے دور کی اور آئندہ کی باتوں کا حساب لگا کر) بتاتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نبیوں میں سے ایک خاص نبی(کو خط کا علم دیا گیا تھا اور وہ) خط کھیچ کر خبر معلوم کرتے تھے(یعنی اللہ تعالیٰ نے انہیں یہ علم اور معجزہ دیا تھا، اب یہ باقی نہیں رہا بلکہ محض اتکل ہے اور جو لوگ اب ایسا کرتے ہیں، تو جس کا خط اٹکل اور اتفاق سے ان نبی کے کط کے موافق ہو جاتا ہے تو اس کی بات صحیح ہو جاتی ہے۔ لیکن چونکہ اب وہ علم رہا ہی نہیں لہذا اب جو کچھ ہے محض وہمی چیز ہے کبھی صحیح ہوگی اور بہت مربتہ غلط ہو گی۔)

ابن حجر مکی نے لکھا ہے کہ اس علم کا سیکھنا اور سکھانا سخت حرام ہے کیونکہ اس سے عوام کو وہم ہوتا ہے کہ اس کا فاعل اللہ تعالیٰ کے ساتھ علم غیب میں شریک ہے۔ یہ خط یالکیریں کھینچنے سے مراد علم رمل ہے جس میں خطوط کے ذریعہ غیبی بات معلوم کی جاتی ہے جیسے علم جفر میں عددوں سے ،علم رمل حضرت دانیال کا معجزہ تھا اور علم جفر حضرت ادریس علیہ السلام کا جس کو ان بزرگوں کی خطوط یا اعداد سے مناسبت ہوگی،اس کا درست ہوگا ورنہ غلط۔ بعض علما نے اس حدیث سے دلیل پکڑی کہ عمل رمل اور جفر جائز ہے لیکن بغیر کمال اس پر اعتماد نہیں کرسکتے

 امام نووی

 امام نووی رحمہ اللہ تعالٰی نے کتاب الصلٰوة باب تحریم الکلام میں زیر حدیث مذکور فرماتے ہیں :

معناہ من وافق خطہ فھو مباح لہ ولکن لاطریق لنا الی العلم الیقینی بالموافق فلا یباح والمقصود انہ حرام لانہ لایباح الابیقین بالموافق ولیس لنا یقین بھا

حدیث پاک کا مفہو م اور مراد یہ ہے کہ جس آدمی کی لکیریں بعض انبیا کرام کی لکیروں کے موافق ہوجائیں تو اس کے لیے (علم رمل) مباح ہے لیکن حصول موافقت کے لیے ہمارے پاس یقینی علم تک رسائی کاکوئی راستہ نہیں لیکن علم مذکور (ہمارے لیے) مباح نہیں اور مقصد یہ ہے کہ وہ حرام ہے کیونکہ یقینی موافقت کے بغیر وہ مباح نہیں ہو سکتا اور یقینی موافقت کا ہمارے پاس کوئی راستہ نہیں”۔

قطن بن قبیصہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا رمل (لکیریں کھینچ کر غیب کا حال معلوم معلوم کرنا) اور بد شگونی لینا اور فال نکالنے کے لیے پرندے کو اڑانا شیطانی اعمال سے ہیں۔

اعلی حضرت احمد رضا خان بریلوی لکھتے ہیں:

اب اس حدیث سے ٹھہرادینا کہ نبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے رمل پھینکنے کی اجازت دی ہے حالانکہ حدیث صراحتا مفید ممانعت ہے کہ جب حضورا قدس صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا جواز مواقف خط انبیا علیہم السلام سے مشروط فرمایا اور وہ معلوم نہیں تو جواز بھی نہیں۔

اعلی حضرت احمد رضا خان بریلوی نے علم جفر کیوں ترک کردیا تھا؟

فرماتے ہیں:

میں نے جو جداول کثیرہ اس فن کی تکمیل جلیل کے لیے اپنی طبع زاد ایجاد کی تھیں، رخصت کے وقت انہیں (یعنی مولانا سید حسین مدنی صاحبزادہ حضرت مولانا سید عبدالقادر شامی مدنی کو) نذر کردیں کیونکہ خود اس فن کے ترک کا قصد کرلیا تھا۔ جس کی وجہ سوالوں کی کثرت سے لوگوں کا پریشان کرنا تھا۔ (ملفوظات اعلی حضرت حصہ دوم 211)

فہرست پر جانے کے لیے یہاں کلک کریں۔

Leave a Reply