نزلہ زکام وبائی

0
516


نزلہ زکام وبائی

پیش لفظ
اَلْحَمْدُلِلَّہِ رَبِّ العٰلمین و سلام علیٰ رحمۃ اللعٰلمین ہ امّا بعد!
حکیمِ مطلق اورقادرِقدرت کا ہزارہزار شکر ہے کہ اس نے اپنی کروڑ درکروڑ نعمتوں اور رحمتوں سے انسان کو نوازااور پھر علم و حکمت سے سرفراز فرمایا۔

قرآنِ حکیم میں ارشادِ ربانی ہوتا ہے۔

فِطّرَۃَالَلَّہِ الیٰ فِطّرَالنّاس علیھا لا تبدیلا خلق اللہ۔
اللہ تعالی کی فطرت وہ ہے جس پر انسان کو پیدا کیاہے اور اس کی تخلیق میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوتی۔

قانونِ فطرت پر انسان کوپیدا کرکے اس کو اس کمال پرپہنچایا کہ اس کادرجہ ملائکہ سے بڑھا دیا۔

لقد خلقنا الانسان فی احسنِ تقویم۔
تحقیق ہم نے انسان کوبہترین تخلیق بنایا۔

جب اللہ تعالیٰ نے انسان کوقانونِ فطرت کے مطابق نہ صرف پیداکیابلکہ اس کو اپنی بہترین مخلوق قرار دیاہے پھر اس کواس کمال تک پہنچادیاہے کہ فرشتےاس کو سجدہ کریں۔ تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ یہ کائنات اور اس کا ہر ذرہ بغیر کسی قانون کے پیدا کیاگیا ہواور بغیر کسی قانون کے حرکت و گردش میں ہو، جو لوگ ایسا سمجھتے ہیں وہ غلط فہمی میں گرفتار ہیں دنیا کو سمجھنے کا صحیح اصول یہ ہے کہ قانونِ فطرت کا علم حاصل کیا جائےیہی سنت اللہ بھی ہے۔

قانونِ فطرت
حقیقت یہ ہے کہ کائنات کا ہر ذرہ قانونِ فطرت پر پیدا کیا گیا ہے اور اس کا تعلق ، کائنات میں زمین سے لے کر آسمان تک تمام دیگر ذرات کے ساتھ قانون فطرت کے مطابق ہے اس لئے ان ذرات کی حرکت وگردش نہ صرف قانونِ فطرت کے مطابق ہے بلکہ باہمی نظم و ضبط اور اصول کے تحت ہے۔ اگر زندگی ، کائنات اور نفس و آفاق کے کسی ایک ذرہ یا جز میں حرکت ہوتی ہے تو دیگر ذرات قانون فطرت اور اصولی تعلق کی وجہ سے اپنا نظم و ضبط قائم رکھتے ہوئے ضرور متاثر ہوتے ہیں۔ اس کائنات و آفاق اور زندگی و نفس کی تدوین، انہی ذرات سے قائم ہے اور موالید ثلاثہ میں یہی ذرات پنہاں نظر آتے ہیں اور انسان بھی انہی کا مجموعہ ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ جمادات و نباتات، حیوانات، بن مانس، انسان اور نبوت تک ہرایک میں احساس و شعور، ادراک کی شدت، غوروخوض، تدبر و تصدیق کی کمی بیشی پائی جاتی ہے۔ جس قدربھی احساس و ادراک اور تصدیق یعنی علم و عقل اور حکمت بڑھتا جائے گا۔اس کا شعور کائنات و آفاق طبیعات و مابعد الطبیعات بڑھتا جائے گا اور وہ اعلیٰ مقام پر فائز ہوتا جائے گا۔ کائنات کے ذرات کو طب قدیم کے قانون کے مطابق ارکان کہتے ہیں ، جو چار ہیں جن کوبسیط تسلیم کیاگیاہے اور وہ غیر منقسم ہیں یا فرنگی طب کی تحقیقات میں عناصر جو تقریباً ایک سو ہیں جو قابل تقسیم ہیں یعنی ہر عنصر(Element) اپنے اندر سالمات(Molecule) اور مرکزی ذرہ (Atom) رکھتا ہے اور پھر یہ ذرات برقیات (Electron) میں تقسیم ہوجاتے ہیں۔ کچھ بھی تسلیم کرلیں موالید ثلاثہ اور انسان میں مشترک طورپرپائے جاتے ہیں۔ گویا برقی ذرات کاایک سمندرہے جو مختلف اجسام میں بند بھی ہے اور ان کا آپس میں تعلق بھی ہے۔ البتہ یہ حقیقت پردہ را ز میں ہے کہ ان اجسام میں احساس و ادراک اور تصدیق کی قوت اور ان کاکمال کیسے پیداہوتا ہے۔ جن کی وجہ سے جمادات و نباتات، حیوان و انسان، آدمیت و بشریت اور نبوت کا فرق نمایا ں ہوتا ہے۔

بہرحال یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ زمین سے آسمان تک ہر ذرہ منظم و منضبط اور مقرراصولوں کے مطابق قانون فطرت میں رواں دواں ہے۔ اس لئے اس دنیا میں جو افعال سرزد ہوتے ہیں جن میں وبائیں و سیلاب اور جنگ و زلزلے وہ سب بغیر قانون و اصول اور نظم و ضبط کے نہیں آتے اور موجودہ دورکاعلم موسمیات بھی اس کی بہت حد تک تصدیق کرتا ہے اس لئے وباؤں کو ہنگامی امراض نہیں خیال کرنا چاہیے بلکہ کائنات و زندگی اور نفس وآفاق کو قائم رکھتے ہوئے وباؤں کو بھی ان کےتحت قوانین اور اصول میں فٹ کرنا چاہیے تاکہ وباؤں اور آفات کے حادثات کا صحیح علم اور اس کی حکمت کا پتا چل جائے۔ قانون فطرت کوسمجھنے کے بعد یہ جانناضروری ہےکہ اس کی خلاف ورزی عمداً یا جہلاًکرنے کےبعد اس کے نظم و ضبط میں خرابی واقع ہوتی ہے جس کے نتیجہ میں فطرت میں ایک ردعمل ہوتا ہے اور یہ ردعمل اس طاقت کی طرف سے عمل میں آتا ہے جو اس قانون فطرت کو چلارہی ہے جس کومدبر عالم یا روح عالم کہتے ہیں بالکل اسی طرح جیسے طبیعت مدبرہ بدن یا نفس جسم انسانی کو ایک قانون کے تحت نظم و ضبط میں رکھتاہے جس کوطبی روح کہتے ہیں۔ جب انسانی جسم کے نظام میں کوئی خرابی واقع ہوتی ہے تو مدبرہ بدن اس کی اصلاح کرتی ہے۔ اسی انسانی روح کو آیورویدک میں آتما اور روح عالم مہاتما کہاجاتا ہے۔ ان دونوں کا آپس میں ایسا ہی گہراتعلق ہے جیسے نفس وآفاق کا تعلق ہے۔جس طرح جسم انسان کے افعال میں فطرت کے خلاف صورتیں واقع ہوتی ہیں تو امراض پیداہوتے ہیں جس کے لئے مدبرہ بدن یا نفس حرکت میں آتا ہے بالکل اسی طرح جب کائنات میں خرابی واقع ہوتی ہے تو روح عالم یاآفاق میں حرکت پیداہوتی ہے اگر جسم افعال کی خرابی کو ہم امراض کہتے ہیں تو کائنات کے بگاڑ کوہم وبائیں کہہ سکتے ہیں۔ جسم و کائنات کے بعد بگاڑ تو ایسے معمولی ہوتے ہیں کہ ان کی مدبرہ بدن اور مدبر عالم اصلاح کرتے رہتے ہیں مگرجب جسم یا کائنات میں فساد اور تعفن واقع ہوجاتا ہے تو اس کی اصلاح کے لئے شدید جدوجہد کرنی پڑتی ہے وہ فساد اور تعفن جسم اور کائنات میں غیر معمولی نقصان کاباعث ہوتا ہے۔ یہی فطرت کاعمداً یا جہلاً خلاف ورزی ہی گنا ہ ہے جس کا کفارہ فوراً قانون فطرت کی طرف لوٹنا ہے۔

جاننا چاہیے کہ قانون فطرت کی خرابی صرف قوانین صحت تک محدود نہیں ہے بلکہ قانون اخلاق، تدبیر منزل اور اصول سیاست میں خرابیاں بھی قانون فطرت میں خرابی کا باعث ہوجاتی ہیں کیونکہ فطرت انسانی کے ہر شعبہ حیات میں کارفرما ہے اور یہ تمام شعبے آپس میں اس طرح ترتیب پاتے ہیں کہ ان کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔ اس لئے ہر شعبہ میں عمل اور ردعمل کا مدنظر رکھنا نہایت اہم ہے۔

شعور
قانون فطرت کو مختصراً ذہن نشین کرنے کےبعد دوسری شے انسانی شعور ہے جو اس قانون فطرت کو سمجھتا ہے تاکہ انسان اس کو سمجھ کراس پر قائم رہ سکے۔ جیسے ریل گاڑی اپنی پٹری پر قائم رہتی ہے اور جب وہ اتر جاتی ہے توجب تک اس کو پھر پٹری پر قائم نہ کیا جائے، نہیں چل سکتی۔یہ شعور تین قسم کا ہوتا ہے۔(1)۔شعور۔(2)۔تحت شعور ۔(3)۔ شعور مطلق، اس کو نفس بھی کہتے ہیں۔ اسی طرح نفس بھی تین اقسام میں منقسم ہوتا ہے۔(1)۔ نفس امارہ۔(2)۔ نفس لوامہ۔(3)۔ نفس مطمئنہ۔لفظ ضمیر بھی شعور اور نفس کے معنی میں استعمال کرتے ہیں۔اس کی ان کی طرح تین صورتیں ہیں جن سےذہن انسانی بہت حد تک متعارف ہے اور بہت حد تک شعور و نفس اور ضمیرکا مطلب سمجھ میں آسکتا ہے۔(1) احساس۔(2)۔ادراک۔(3)۔عقل۔ چونکہ ان صورتوں کو بھی ہر شخص نہیں سمجھ سکتا۔ اس لئے جو لوگ اس کو سمجھنا چاہیں وہ میرا مضمون “ثقافت کا نفسیاتی تجربہ” کا مطالعہ کریں۔اسی شعور کے تحت انسان علوم وفنون اور قوانین فطرت کوآسانی سے سمجھ سکتا ہے اور انہی کی مدد سے کلیات سے جزئیات او جزئیات سے کلیات کو ترتیب دے سکتا ہے انہی کی مدد سے تصور و تصدیق اور استنباط و استخراج کرسکتا ہے۔

یقین
علوم و فنون کی ترقی و ارتقاء اور انسانی کمالات کے لئے تیسری حقیقت یقین ہے جب انسانی علوم و فنون میں یقین کے مقام پر نہ پہنچے اس وقت حق کونہیں پاسکتا۔ یقین کی بھی تین صورتیں ہیں۔(1)علم الیقین۔(2)۔عین الیقین۔(3)حق الیقین۔اور یہ منزلیں بھی یکے بعد دیگرے آتی ہیں اس وقت تک یقین کا مقام پختہ نہیں ہوتا جب تک قانون فطرت کی سچائی پر ایمان نہ ہو اور اس کا یقین پختہ نہ ہوگیاہو۔ یہی وجہ ہے عوام ہراس بات کو مان کر عمل کرنا شروع کردیتےہیں جو ان کے جذبات اورخواہشات کوبھی بھلی لگتی ہے۔ فرنگی طب کی تحقیقات کا تعلق بھی سطحی جذبات اور ضروریات سے ہے۔ نزلہ زکام وبائی بھی انہی حقائق کے تحت تحقیقات کی گئی ہے اس لئے جو اہل علم اور صاحب فن اس کا مطالعہ کریں۔ وہ ان حقائق کو مدنظر رکھیں۔ جن دوستوں نے میری کتب مبادیات طب، تحقیقات دق سل(ٹی بی)، تحقیقات نزلہ زکام کا مطالعہ کیا ہے وہ تحقیقات نزلہ زکام وبائی سے بھی پورے طورپر مستفید ہوں گے۔

ہم چاہتے ہیں کہ نزلہ زکام کا ہر حیثیت سے احاطہ کرلیاجائے تاکہ کوئی پہلو تشنہ کام نہ رہ جائےاگر چہ ہم نزلہ زکام پرپوری طرح سے روشنی ڈال چکے ہیں اور ایسے حقائق پیش کرتے ہیں جن کا اس سے قبل پایاجاناناممکن ہےمگر اس کی ایک صورت باقی ہےاور وہ ہے عوارضات نزلہ زکام۔ جن میں سےبڑھاپا خاص طورپر قبل از وقت بڑھاپا، قبل از وقت بالوں کا سفیدہونا، ضعف اعصاب خصوصاً ضعف باہ، ضعف بصارت اور ثقل سماعت وغیرہ کے متعلق جو مشکلات سامنے آتی ہیں ان کا ازالہ نہایت ضروری ہےکیونکہ یہ تمام عوارضات جس قدر زیادہ تکلیف دہ ہیں اسی قدر عسرالعلاج بھی ہیں۔ طبی کتب میں ان پر روشنی تو ضرور ڈالی گئی ہے مگر ان کے حقائق ابھی تک اندھیرے میں ہیں۔اس لئے ان کے علاج میں تاحال کامیابی نہیں ہے۔ جہاں تک فرنگی طب کا تعلق ہے وہ نہ صرف نامکمل بلکہ اصولاً غلط ہے اس میں اول تو ان عوارضات پر کچھ زیادہ لکھا نہیں گیا اور جو کچھ لکھا گیا ہے وہ کسی قانون کے تحت نہیں لکھا گیا۔

بڑھاپا اور اس کے عوارضات کو تقریباً ہر زمانے میں زیرغورلایاگیاہے۔ اگرچہ ظاہر میں بڑھاپا ایک فطری قانون معلوم ہوتاہے یعنی بچپن کے بعدجوانی اور جوانی کے بعد بڑھاپا۔ مگر پھر بھی ہمیشہ یہ کوشش کی گئی ہے کہ بڑھاپے کو روکا جائے یا کم ازکم بہت دیر میں آئےاور اس کے عوارضات باعث تکلیف نہ ہوں لیکن اس وقت تک بڑھاپے کے جو اسباب بیان کئے گئے ہیں وہ اکثر مختلف بلکہ متضاد اور اکثر غیر یقینی ہیں اس لئے بڑھاپے کو روکنے یااس کے عوارضات سے بچنے کے لئے کوئی صحیح راہ متعین نہیں کی گئی ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ اپنی تحقیقات کی روشنی میں کم ازکم ایسی راہیں متعین کر سکیں جن سے بڑھاپے کو بہت حد تک روکاجاسکتا ہے اور اس کے عوارضات سے نجات حاصل کی جاسکتی ہے اس کے لئے ایک جدا نمبر کی ضرورت ہے۔

رسالہ رجسٹریشن فرنٹ نے اس دو تین سال کی قلیل مدت میں جو علمی اور تحقیقاتی خدمات انجام دی ہیں وہ ممبران خریداران اور قارئین کے سامنے ہیں۔ ہمارا سب سےبڑا مشن تجدید طب اور احیاء فن ہے۔ یہ حقیقت ہےکہ صدیوں سے اس میں تجدید مفقود ہے۔ اس لئے اس کی زندگی خطرے میں پڑ گئی ہے۔ جہاں تک فرنگی طب کا تعلق ہے اس نے اس کو ہڈیوں کا ڈھانچہ سمجھ کر ہلاک کرنےاور دفنانے کی بے حد کوشش کی ہے اور اس فن کی بدقسمتی سے ہر ملک کی حکومت نے اس کا ساتھ دیاہے لیکن طب یونانی کی بنیاد ایسے فطری قوانین پرہے کہ لاکھ کوششوں کے بعد بھی فرنگی طب اس کو ختم نہ کرسکی۔ اب ہمارا یہ دعویٰ ہے کہ اس زمانےمیں ہم تجدید طب اور احیائے فن کے داعی ہیں تاکہ ان ہڈیوں پر پھر گوشت پوست اور چربی چڑھ جائے اور خون اس کی رگوں میں دوڑنا شروع ہوجائے اور اس وقت نہ صرف پاک و ہند بلکہ دنیا بھر میں تجدید طب اور احیائے فن کا کام نہیں ہو رہا ہے اگر ہو رہا ہے تو ہم ان کا ساتھ دینے کو تیار ہیں اور اگر نہیں ہورہا تو نہ صرف پاک وہند بلکہ دنیا بھر کے اطباء بلکہ حق پرست ڈاکٹروں اور ہومیوپیتھ کاکام ہے کہ وہ ہمارے ساتھ شریک ہوجائیں تاکہ ہم جلد اپنی منزل تک پہنچ جائیں اور اس امر کو بھی نظرانداز نہ کریں کہ طبی رجسٹریشن کے مسئلے میں بھی جس جرات اور بے باکی سے فن کو تباہ ہونے سے بچایا ہے وہ عزت بھی اللہ تعالیٰ نے ہمارے نام کی ہے۔

ان خدمات کے علاوہ آلو بطور غذا کے سلسلہ میں ماہنامہ خوراک میں امریکہ والوں سےبحث و تمحیث جاری رہی ہے جن کا ہم نے ان کو جواب دیا ہے اور چیلنج کیا ہے کہ امریکہ و یورپ میں کوئی سائنس دان خوراک کے مسئلہ یا غذا اور دوا کے سلسلہ میں برتری کا دعویٰ کرتا ہے توہم ان کو مقابلہ کے لئے للکارتے ہیں۔ یہ بحث بھی انشاء اللہ کتابی صورت میں عنقریب شائع کریں گے۔ ہماری ان خدمات فن اور تجدید کی جدوجہد میں اب اہل علم اور صاحب فن اور حکماء و اطباء کا کام ہے کہ وہ فوراً ہم سے تعاون کریں اور ہمارے گرد جمع ہوجائیں تاکہ ہم بہت جلد اس علم و فن طب کو اس مقام پر پہنچانے کی کوشش کریں۔

اطباء و حکماء اور وہ اہل علم و صاحب فن جو چاہتے ہیں کہ علم و فن طب اپنے صحیح انداز میں دنیا کے سامنے آئے وہ اس امر کو ذہن نشین کرلیں کہ جس روش پر پاک و ہند کی طبی دنیا گزشتہ پچاس سالوں پر کام کرتی رہی ہے اور طبی کتب اور رسائل شائع ہوتے رہتے ہیں ، خصوصاً طبی درسگائیں قائم ہوئی ہیں یہ سب کچھ تجدید طب اور فن نہیں تھابلکہ فن طب کی تذلیل اور اس کو فنا کی طرف لے جانا تھا۔ کیونکہ پچاس سالوں سے یہ سمجھ لیا گیاہے کہ فرنگی طب علمی(Scientific) اور طب قدیم کی ترقی یافتہ صورت ہےجس کے نتیجہ میں حکماء واطباء ، اہل کمال و صاحب فن نے اس کو اپنانا شروع کردیا۔ آج بھی ہماری طبی کتب و طبی رسائل ، طبیہ کالج اور مطب اس امر کی گواہی دے رہے ہیں کہ ان میں نوے فیصد فرنگی طب رچی ہوئی ہے اور دس فیصد جو طب قدیم داخل ہے وہ بھی اس نوے فیصد فرنگی طب کی تقلید میں زیرعمل ہے۔ اس لئے جس وقت تک فرنگی طب کو طب قدیم سے الگ نہیں کر دیاجائے گا اور خالصتاً طب قدیم کو اپنی فطری قدروں پر قائم نہیں کیاجائے گا، کامیابی نہیں ہوگی۔اس غلط روش کا نتیجہ یہ ہے کہ تعلیم یافتہ خصوصاً انگریزی تعلیم یافتہ طبقہ اس غلط فہمی میں گرفتار ہے کہ فرنگی سائنس نے بہت زبردست ترقی کی ہے، خصوصاً میڈیکل سائنس نے اس میں بہت کمالات دکھائے ہیں۔ جب ایسے طبقہ سے سوال کیاجائے کہ آپ طب قدیم کے متعلق کچھ جانتے ہیں، کس حد تک ماہیت امراض ،علم علاج اور خواص الادویہ سے واقف ہیں تو وہ آئیں بائیں شائیں کرنے لگتے ہیں اور جب ان سے کہاجاتا ہےکہ فرنگی طب کا آپ کو کچھ علم ہے، جراثیم امراض کیسے پیداکرتے ہیں، ادویات جراثیم کو کیسے ہلاک کرتی ہیں اور غذا میں وٹامن کا تناسب کیا ہونا چاہیے تو وہ جواب دینے کی بجائے منہ تکتے ہیں اور ان کا علم صفر سے آگے نہیں بڑھتا تو پھر ایسے طبقہ کو کیا حق حاصل ہے کہ طب قدیم کی بُرائیاں اورفرنگی طب کی حمایت کرے۔

بہرحال ہماری کوشش ہے کہ ہم تجدید طب اور اطباء فن کے ساتھ ساتھ تعلیم یافتہ طبقہ کے سامنے بھی فرنگی طب کی غلطیاں اور غیر فطری ہونا ثابت کرتے جائیں تاکہ وہ اس کو علمی (Scientific) اور اصولی (Systematic) کہنا چھوڑدے اور بہت جلدپاک و ہند میں صحیح طبی نظام جاری ہوجائے۔آخر میں اتنا کہے بغیر نہیں رہ سکتے۔ کہ کسی کو تعاون کے لئے مجبور نہیں کرتے۔ ہم صرف اپنا کام پیش کرتے ہیں۔ بہرحال ہم نے کام جاری رکھنا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی مہربانی اور مخلص لوگوں کی سرپرستی سے تحریک اس مقام پر پہنچ گئی ہے کہ وہ جاری رہ سکے۔ ہم نے جو خاص نمبر جاری کئے ہیں وہ ہمارے خدمت فن کے بہترین نمونے ہیں ۔ آئندہ بھی جو لوگ تعاون کرتے رہیں گے وہ نہ صرف خودمستفید ہوں گے بلکہ علم وفن طب کی خدمت کرسکیں گے۔ و ما علینا الاالبلاغ،

از حکیمِ انقلاب: حکیم صابر ملتاؔنی۔۔1960 – 11 – 09



وبائی امراض کی تعریف

وبائی امراض کی تعریف اس سے بہترنہیں کی جاسکتی کہ بیک وقت بے شمار اشخاص یا دیگر جاندار گرفتار ِ مرض ہوجائیں اور اگر وباشدت اختیار کرجائے توکثرت سے اموات واقع ہوں۔ اگر اموات کی تعداد حد سے بڑھ جائے یعنی سینکڑوں سے ہزاروں تک روزانہ پہنچ جائے تو لوگ اپنے مردے چھوڑ کر جنگلوں کی طرف بھاگ جائیں۔ وبا کے مفہوم میں اس کی شدت اور پھیلاؤ اور عمومیت کے اظہار کے ساتھ ساتھ خوف و ہراس اور نا امیدی بھی پائی جائے۔ موت کا خوفناک اور خونی پنجہ ہر وقت آنکھوں کے سامنے نظر آئے۔یہ صورتیں زمانہ قدیم سے مشاہدہ میں آچکی ہیں جن پر تاریخی کتب گواہ ہیں کہ بعض بیماریاں ایسی ہوتی ہیں کہ اچانک دیکھتے ہی دیکھتے اس کثرت سے پھیل جاتی ہیں جو گھروں کے گھر اور شہروں کے شہر دنوں میں تباہ کرڈالتی ہیں اور ہزاروں مخلوق ِ خدا کو بغیر امتیاز شخصیت و عمر اور غریبی و امیری کے خاک میں ملا دیتی ہیں اور اکثر انسان بے بس کھڑا منہ دیکھتا رہ جاتاہے۔

صورت وقوع وبا
بعض ایسی صورتیں ہیں جو موسموں کے تغیر میں پائی جاتی ہیں بعض ایسی ہیں جو قحط کے زمانہ میں پھوٹ پڑتی ہیں، بعض ایسی ہیں جو جنگوں کے بعد نمودار ہوتی ہیں۔اسی طرح بعض زلزلوں اور سیلابوں کے بعد ظاہر ہوتی ہیں ان میں بعض ایسی ہیں جن کا تعلق خاص اقوام اور ممالک کے ساتھ ہے جہاں پروہ وقتاً فوقتاً آگ کی طرح سلگ اٹھتی ہیں۔

وبائی امراض کی حقیقت سے فرنگی کی لاعلمی
وبااور عام امراض میں اکثرفرق کیاجاتاہے اور یہ سمجھا جاتا ہے کہ ان کا عام امراض کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ اکثر یہ کوشش کی جاتی ہے کہ ہرنئی وباکی تشخیص کی جائے اور حقیقت معلوم کی جائے۔ہزاروں سالوں سےوبائیں آرہی ہیں اور جارہی ہیں مگر فرنگی ڈاکٹروں کو آج تک ان کی حقیقت کا علم نہیں ہوا۔ ہر نئی وبا جب بھی آتی ہے وہ مدتوں یہ معلوم نہیں کرپاتےکہ یا کیا مرض ہے؟ کس مرض کےساتھ اس کاتعلق ہے اور خاص طورپرکس عضو کے ساتھ تعلق رکھتی ہے؟ اور جب ان کوکچھ کیمیائی طورپر پتا چلتا ہے اس وقت بے شمار انسان مر چکے ہوتے ہیں یا وہ اس وبا کودیگر شہروں اور ممالک میں پھیلانے کاموجب بن چکے ہوتے ہیں۔ گویا اس میں شدت پیداہوچکی ہوتی ہے اور بہت حدتک وہ اپنا کام کرچکی ہوتی ہے۔

وبا اور عام مرض میں فرق
جانناچاہیے کہ وبا اور عام امراض میں سوائے شدت و عمومیت اور ایک وسیع پھیلاؤ کے اور کچھ فرق نہیں ہوتا۔ چونکہ عوام کےسامنے مرض کی شدت کے نمونے روزانہ نہیں آتے اس لئے اس شدت میں فوری تبدیلی اور موت دیکھ کر وہ خوف و ہراس اور ناامیدی سے گھبرا جاتے ہیں اور اس کو اللہ تعالیٰ کا کوئی نیا قہر خیال کرنے لگتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ظالم نہیں ہیں ان کا قہر صرف ان معنوں میں ہے کہ انسان قانون قدرت سے ناواقف اور اصول فطرت سے ناآگاہ ہونے کی وجہ سے دکھ اٹھاتا ہے ورنہ لکل داءٍ دواءٌ۔ جب زندگی اور کائنات کے قوانین فطری مقرر کر دیتے ہیں پھر ان حوادث اور کا علم کیوں نہ ہونا چاہیے۔ وہ آسمانی ہوں یا زمینی یا انسانی اعمال کا نتیجہ ہوں اور وبا و آفت اور بلا کی صورت میں سامنے آجائے اور انسان کو اس کی سزا بھگتنی پڑتی ہے۔

فرنگی سائنسدانوں کی خداکےتصور سے دوری
فرنگی سائنسدانوں نے جہاں قانون فطرت اور اسرار قدرت کے بحرناپیداکنار کے چند قطروں کی جھلک دیکھی ہے۔ بقول نیوٹن ” کہ میں نے تو سائنس اور علم کی دنیا کے سمندر کے کنارے صرف چند کنکریاں چنی ہیں” لیکن سائنسدانوں کا یہ حال ہے کہ خداتعالیٰ کے تصور سے دور ہوگیاہے بلکہ اکثریت سائنسدانوں کی یہ ہے کہ اللہ علیم حکیم کے تصورکوبھی غیر ضروری اور وہم خیال کرنے لگ گئے ہیں اور چاہتے یہ ہیں کہ

اِنَّ اللَّہ عَلیٰ کُلِ شَئً قَدَیْر
کا تصور ہی ختم ہوجائے تاکہ آئندہ سائنس کی دنیا میں کسی ایسی ہستی کا ذکر نہ آئے کہ کوئی ایسی ہستی بھی ہے جس نے زمین آسمان اور اس کی تمام مخلوق پیداکی ہے اور اس کا نظام خود چلا رہاہے۔ اسی تصور کے تحت وباؤں کے متعلق بھی ایسا ہی خیال کیاجاتا ہےکہ یہ خداوند جبروت کی طرف سے نہیں ہیں بلکہ ان کو مذاق اورتوہم کہاجاتاہے اور فرنگی تہذیب زدہ اور انگریزی تعلیم یافتہ تو اس سائنسدان سے کہیں آگے ہے اور وہ خداجل شانہ پر تمسخر اڑاتا ہے اور اپنے گندے جذبات کی تسکین میں پوری جدوجہد کرتا ہے۔ خداوندقہار کی نفی اس لئے کرتا ہے کہ اس کا ضمیراس کو بُرائی سے نہ روکےاوروہ نفس کی تسکین کے لئے گناہ پر گناہ کرتا جائے اور دوسروں کو اپنے گندے جذبات کا شکار بناتا رہے۔ انہی قسم کے خیالات کا ایک ٹکڑا درج ذیل ہے۔

“قدیم زمانے میں کیا عوام کیا فلاسفرجمہور انام وباؤں کو خدا تعالیٰ کے جبروت و قہر مان کا اظہار سمجھتے تھے۔ اگر کوئی اتفاقی امربڑے پیمانے پر اس قسم کاواقع ہوجاتا ہےجس کو رائے عامہ گنا ہ عظیم قرار دےتو وبا کا حملہ اس گنا ہ کی سزا گنی جاتی تھی۔ اس قسم کے اعتقادوں کی تصدیق بھی عجیب عجیب واقعات سے ہوا کرتی تھی۔ عنقریب آنے والی وبائی آفات کی اطلاع سماوی اور افلاکی حادثات دیتی تھیں یا تو دو منحوس ستاروں کا اثر ہوتا یا دوسعید ستارے ہبوط اور زوال میں متصل ہوجاتے ، کبھی شہاب ثاقب ٹوٹتے، بھونچال آتے، بجلیاں گرتیں، چنانچہ غریب مریخ اور زحل کو ان بدبختیوں اورآفات کا خاص طورپر ذمہ دار قرار دیا گیا”۔

اتنا کچھ لکھنے کے بعد اور مذاق سے آگے لکھتے ہیں اور ثابت کرتے ہیں کہ سب کچھ جہالت کے سوا کچھ نہ تھا جس کو اس طرح بیان فرماتے ہیں۔

“رفتہ رفتہ جب زمانے نے طفولیت سے سنبھل کر بلوغت کی سیڑھی پرقدم رکھا تو لوگوں کو خیال پیداہونے لگا کہ اگرچہ موت و حیات ایسے اسرار ہیں جن کی حقیقت انسان کے ادراک سے ماورا ہے مگر تاہم بلا وجہ باپ کو بیٹے سے جدا ، خاوند کو بیوی کےکنار محبت سے تا دوام جداکردینا، بادشاہوں کو بلاقصور تخت پرسے اتار تختہ تابوت پر بیٹھا دینا، لاکھوں خلقت خداکوتباہ برباد کردینا، غفار اور رحیم خداکاکام نہیں ہوسکتا بلکہ اس قسم کے خیالات دل میں لاناخدا کی محبت اور رحم پرالزام لگانا ہے۔ فی زمانہ علماء نےرفتہ رفتہ ان بچپن کے خیالات کو چھوڑا۔ اس قسم کے خیالات علمی ترقی اور تحقیقات کے لئے سدراہ ہوا کرتے ہیں کیونکہ اگر یہ مان لیا جائے کہ وبائیں خداکی طرف سے ہوتی ہیں تو پھر ان کی روک تھام کی تدابیر کرنااور چارہ جوئی بے سود ہوجاتی ہے اور یہ کہہ کرہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جانا کافی ہوتا”۔(ازعلم وعمل طب)

کہ بامن ہر چہ کرد آں آشنا کرد من از بیگانگاں ہر گز نہ نالم
اس قسم کے خیالات فرنگی تعلیم یافتہ لوگوں میں کثرت سے پائے جاتے ہیں جو فرنگی سائنسدانوں کی بے بصیرتی اور جہل مرکب کا نتیجہ ہے وہ سمجھتے ہیں کہ ان کی نگاہیں گہری ہیں اور وہ ایک تحقیقاتی علم (سائنس) سے دوچار ہیں۔ انہوں نے حقیقت کو پالیا ہے۔ اس تجرباتی اور مشاہداتی علم میں کسی خدا کے دخل اور مذہب کے اثر کی ضرورت نہیں ہے۔ مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ان عقل کے اندھوں کو نہ قانون قدرت کا علم ہے اور نہ اصول فطرت سے واقفیت ہے اور نہ ہی سنت الہیہ اور نہ ہی مشیت ایزدی کو سمجھنے کی کوشش کی ہے اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ان سائنسدانوں نے خداوند حکیم کی قدرت اور قانون فطرت کے تعلق کو جاننے کی کبھی کوشش نہیں کی۔ اگر سائنسدانوں کے نظریات کے مطابق یہ کائنات اور زندگی کسی کی پیداکی ہوئی نہیں ہے۔ یہ ایک واقعاتی کیمیائی صورت ہے بلکہ ایک اتفاقی اور حادثاتی واقعہ ہے۔

ہم بھی یہی تسلیم کرتے ہیں کہ خداوندکریم نے اپنے اوپررحم فرض کرلیاہواہے۔وہ ظالم نہیں ہیں۔ان کا قہروجبروت ہمیشہ کسی ظلم اورجہالت کے مقابل ہوتا ہے وہ سزا نہیں ہوتی بلکہ اصلاح ہوتی ہے۔ اسی مسلمہ حقیقت کےتحت ہم یہ یقین رکھتے ہیں کہ یہ وبائیں اورقحط، یہ زلزلے اور سیلاب یقیناً اللہ قہار و جبروت کی طرف سے آتے ہیں مگران کی وجہ قانون قدرت اور اصول فطرت سے لاعلمی اور سنت الہیہ اور مشیت ایزدی سے دوری ہے۔ جو قانون قدرت خدادند حکیم نے اصول ِ فطرت مقرر کردئیے ہیں جن کا ذکر مذہبی کتب میں درج ہے اور علم و فلسفہ اس کی تائید کرتے ہیں جب بھی کوئی ان قوانین کوتوڑے گایا فطرت کےاصولوں پر زندگی نہیں چلائے گا نتیجۃ قانون قدرت اور اصول فطرت کا ردعمل ہوگا۔ یہ ردعمل زندگی تک محدود نہیں ہوگا بلکہ کائنات کے عوامل پر بھی اثرانداز ہوگا۔یہ کیسے سمجھ لیا جائے کہ زندگی کا تعلق اس کائنات و آفاق اور سماوی دنیا سے نہیں ہے جب ہے تو یقیناً زندگی پر ان کااثر ہے اور اسی طرح ان پرزندگی کا اثر ہونا بھی چاہیے۔ یہ اثر ات نفس و آفاق کے اعمال کے افعال سے صادر ہوتے ہیں۔ آج بھی ہم دیکھتے ہیں اور ریڈیو کی آوازیں اور روشنی کی لہریں ان امور کی تصدیق کرتی ہیں کہ انسانی آواز اس فضا میں نہ صرف غیر معمولی تیزی کے ساتھ اثر کرتی ہے بلکہ اتار چڑھاؤ کے ساتھ محفوظ رہتی ہے اور انہی الفاظ کی بندش کے ساتھ دنیا کے ہر حصہ پر سنی جاسکتی ہے بلکہ ہم اپنی تصویر تک بغیر کسی ظاہری تعلق کے ہزاروں میلوں تک منتقل کر سکتے ہیں تو پھر کیسے سمجھ لیاجائے کہ ہماری زندگی کا کائنات پر اور نفس کا آفاق پر کچھ اثر نہیں ہے۔ انہی قوانین قدرت کے تحت ہمارے گناہ ہمارے لئے وبائیں اور آفات لاتےہیں۔گناہ کیا ہیں ؟ گنا ہ اور کچھ نہیں ہیں صرف قانون قدرت اور سنت الہیہ کو تسلیم نہ کرنا، اصول فطرت اور مشیت ایزدی سے انکار کرنا، ان کے مطابق عمل نہ کرنا، جس کا رد عمل ایک سزا کی صورت(Adjustment) میں ہے ۔ اس کا دوسرا نام دین ہے۔ بہرحال اس امر سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ وبا وقحط اور زلزلہ و سیلاب میں ہمارے ایسے اعمال کا اثر ضرورہے جو قانون قدرت اور اصول فطرت، سنت الہیہ اورمشیت ایزدی کے خلاف ہوں گے۔ اگر ہم ایسا تسلیم نہ کریں تو یہ دنیا بے معنی بن کر رہ جاتی ہے۔ اس صورت میں انسان نہ اپنی زندگی کا مواخذہ کرسکتا ہے اور نہ ہی انسان کو انسان سمجھ سکتا ہے وہ صرف حیوان ِ مطلق بن کر رہ جاتا ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ علم سائنس کا دعویٰ صحیح ہے کہ یہ علم تجرباتی اور مشاہداتی ہے۔ لیکن دیکھنا یہ ہے کہ اس سائنس کے صحیح ہونے کا ثبوت کیا ہے؟آج تک بے شمار سائنس کے مسائل غلط ہوچکے ہیں۔ ہر نیا سائنسدان گزشتہ سائنٹیفک مسائل کو غلط قرار دیتا ہے۔ بعض سائنسدان تو ایسے آئے ہیں جنہوں نے گزشتہ تمام سائنس کو بالکل غلط قرار دے دیا ہے جیسے حکیم آئن سٹائن۔ اس کی وجہ کیا ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ سائنس ہمیشہ شاخوں کی تحقیق میں لگی رہتی ہے اور جڑ کی طرف نہیں آتی جس کو اصول کہاجاتا ہے۔ اگر جزئیات کی تحقیق کرے بھی تو ان سے کلیات ضرور تیار کرنے چاہئیں تاکہ جزو کل کا تعلق قائم رہے۔ یہ تعلق صرف فلسفہ سے قائم رہ سکتا ہے۔ آج جدید سائنس دان اس امر کو اچھی طرح محسوس کررہےہیں کہ صرف تجربہ اورمشاہدہ کوئی شے نہیں ہے اس کے ساتھ کلیات بھی ہونے چاہئیں اور جزوی تجربات و مشاہدات کی کلیات کے ساتھ تطبیق ہونی چاہیے نیز ہرقسم کے تجربات و مشاہدات اورکلیات کا تعلق قانون فطرت سے ہونا چاہیے۔ جب تک کسی تجربہ و مشاہدہ بلکہ عقل بھی قابل اعتماد نہیں ہے کیونکہ ہر شخص اپنا اپنا تجربہ و مشاہدہ اور عقل رکھتاہے اور یہ حقیقت ہے کہ تمام شخص عقل و ذہن کی حیثیت سے ایک مقام نہیں رکھتے ان میں بے وقوفوں کو چھوڑ دیں تو بھی کم عقل و ذہن والے بھی ہیں اور انتہائی ذہین اور عقلمند بھی پائے جاتے ہیں اوران سب سے بڑھ کرمقام نبوت ہے جس کا عقل و ذہن یقیناً وجدان کی بلندیاں طے کرچکا ہوتا ہے اور اس پر الہام اور وحی کی بارش ہوتی ہے۔ اس لئے انتہائی عقل و ذہن کے مذہب کی تعلیم اور فیصلے کی طرف رجوع کرنا پڑتا ہے۔

اگر یورپ و امریکہ اور روس کو ہم اتنا بڑا حق شناس ، حقیقت پسند فرض بھی کرلیں تو بھی ہم دیکھتے ہیں کہ جہاں تک اخلاقیات و اقتصادیات اورسیاست و مذہب کا تعلق ہےوہ بالکل ناکام ہیں۔ ان کے اخلاقی افلاس کا یہ حال ہے کہ عریانی و نفسانی زندگی کے ساتھ ساتھ حیوان بنے پھرتے ہیں۔ پیٹ کی بھوک کے ساتھ ساتھ جنسی بھوک ختم نہیں ہوتی، دوسرے کا حق چھیننا، چوری ڈاکہ ، بزنس میں بددیانتی، بلیک مارکیٹنگ اور لوٹ کھسوٹ روزانہ کے کام ہیں۔ اجتماعی بُرائیاں اور حکومتوں کی سامراجیت کو وہ چالاکی اور ذہانت کہتے ہیں۔ اقتصادیات کی بدحالی کا یہ حال ہے کہ عوام کی ضروریات کو مدنظرنہیں رکھا جاتا ہے۔ غریب کو بھوکا ماراجاتا ہے۔ڈیمانڈ بڑھائی جاتی ہے، عمل تقسیم کو روک دیاجاتا ہے اور پروڈکشن کو یاچھپادیا جاتا ہے یا برباد کردیاجاتاہے تاکہ مال زیادہ سے زیادہ مہنگافروخت کیاجائے۔ ان بُرائیوں کا نام اقتصادیات(Economics) رکھا ہے گویا ایک بڑاطبقہ بالکل غریب ہوکربھوکا مرے۔ اورایک قلیل طبقہ دولت سے مالا مال ہوکرعیاشی کرتا پھرے اور اگر اس کی اس عیاشی میں رکاوٹ ہوتو قتل و غارت گری پر اتر آئے۔ کیا یہی ماڈرن سائنس اور جدید علم کی روشنی ہے؟جہا ں تک سیاست کاتعلق ہے ۔ جمہوریت اور عوامی حکومتوں کے نام دے کران کو بدنام کیا گیاہے کہ حکومت ہمیشہ عوام کے چناؤ سے ، عوام کے ذریعے سے اورعوام پر کی جائے۔ مگر عوام کا چناؤ ہمیشہ زروزمین اورزن سے خریدلیاجاتاہے۔ اس طرح عوام ختم ہوجاتاہے اور سرمایہ دار ہمیشہ برسراقتدار رہتا ہے۔ اگر کوئی عوام میں سے خود برسراقتدار آجاتا ہے تو وہ قتل کردیاجاتاہے۔ دنیا بھر کی تجارت سرمایہ دارکی کنیز بن کر رہتی ہے یا وہ حکومت کے نام پرتجارت کرتا ہے۔ سرمایہ دار اور حکومت کرنے والا طبقہ خاص خاص درس گاہوں میں خاص نظریات کے مطابق تعلیم حاصل کرتاہے تاکہ وہ سرمایہ دار اور حکومت کی خانہ پری کرتا رہے اور محکوم ہمیشہ محکوم رہے۔

مذہب یورپ و امریکہ اور روس تینو ں جگہوں پر ختم ہوچکاہے۔ یورپ اور امریکہ میں حکومت کی بنیادوں کو قائم رکھنے کے لئے ان کو حکومت کے عجائب خانوں (گرجوں) کو بڑی حفاظت اور احترام سے رکھ دیاگیا ہے۔ جہاں یہ حکومت کے تنخواہ یافتہ پادری اس کو ایک قدیم یادگار کے طورپر دکھاتے رہتےہیں پھراس کو بڑے تقدس سے لپیٹ کررکھ چھوڑتے ہیں یا ان کے ادیب اپنے ادب میں اس مذہب کا تقدس اور احترام کا مذاق اڑاتے رہتے ہیں اور ہر ایک کو کھلی چھٹی ہے کہ وہ مذہب کے ساتھ جو سلوک چاہے کرے۔ان پر خدااور آخرت کی کوئی بندش نہیں ہے حکومت مذہب کے معاملے میں آزادی دینا اپنا فرض اورعوام کا حق خیال کرتی ہے۔ جب یورپ و امریکہ اور روس کے اخلاقیات و اقتصادیات اور سیاست و مذہب کا یہ حال ہے جہاں احترام انسانیت نہیں ہے اور حیوانی تقدس اور حیوانیت کو مقدم کردیا گیاہے کیا کوئی صحیح معنوں میں اخلاقی قدروں کو سمجھنے والا یا وہ صاحب دل و دماغ جس نے دنیاوی معاشرہ کی بنیاد انسانیت پر اور س کی واحدنی(First Unit) صرف انسان کو قرار دیاہو وہ کیسے ان کی سائنس و علم اور تحقیقات کو صحیح قرار دے سکتا ہے۔ کیا عریانی و جنسی بھوک اور غریب مار اور انسانیت کی تباہی کو یورپ و امریکہ کی عقلمندی اور ذہانت کہا جاسکتاہے؟کیا اس گندی تہذیب و تمدن اور ثقافت کو نمونہ بنا کر اس کی پیروی کی جاسکتی ہے؟۔ ایک صاحب عقل و اہل علم اور مالک وجدان کے لئے یقیناً محل نظر ہے۔

اسباب وبائی امراض
وبائی امراض کی پیدائش کے اسباب میں طب قدیم اور فرنگی طب میں بہت کچھ نظریاتی اختلاف ہے اور اس اختلاف کی وجہ سے علاج میں بھی بہت کچھ اختلاف ہے۔اگرچہ فرنگی طب(ماڈرن میڈیکل سائنس) کا دعویٰ ہے کہ اس نے علم الوبا(Epidemiology) کی بنیاد رکھی ہے۔ مگر ہماری تحقیقات یہ ہے کہ فرنگی طب علم الوبا خصوصاً وبائی امراض کی پیدائش سے قطعاً واقف نہیں ہے اور جس قدر بھی اس کے پاس علم ہے۔ اول تو عطائی قسم کا ہے دوسرے بہت ساحصہ عربی طب اور ہندی کی نامکمل پیروی ہے۔ تیسرےان کا تمام علم الوبا اور وبائی امراض علم الجراثیم کے گرد گھومتاہے۔ جہاں سےوہ گمراہی میں گرفتار ہوئی ہے۔ معلومات کےلئے فرنگی طب کے علم الوبا کا مختصر خلاصۃ پیش کرتے ہیں تاکہ ہماری تحقیقات پوری طرح ذہن نشین ہوسکے۔

فرنگی علم الوبا
میڈیکل سائنس (فرنگی طب) وبائی امراض کو بھی دیگر متعدی امراض کی طرح متعدی تسلیم کرتی ہے۔ فرق صرف یہ کیاجاتاہے کہ عام متعدی امراض بالواسطہ اثرانداز ہوتے ہیں مگر وبائی امراض بلاواسطہ پیداہوجاتے ہیں۔ اس نئے متعدی امراض کے اثرات کو دوصورتوں سے تسلیم کیا گیاہے۔

بلاواسطہ چھوت
چھوت بالواسطہ براہ راست ایک مریض انسان سے تندرست انسان پر اثرانداز ہوتی ہے۔ یہ ضروری نہیں ہےکہ کوئی انسان مریض کےبہت نزدیک ہو۔ بلکہ بذریعہ ہوائے تنفس و فضلات اور بول و براز، مریض کے لباس و بستر، ظروف و سامان، مکان و گاڑی جن میں مریض رہاہوان کا اثر بھی تندرست انسانوں تک پہنچ جاتا ہے۔ گویامریض کے فضلات جسمانی مثلاً اسہال و قے، نزلہ زکام، ریشہ و پسینہ، خون و ریم وغیرہ تمام کو خاص طورپرمرض کی حالت میں جراثیمی مواد خیال کرنا چاہیے کیونکہ ان سب سے متعدد امراض پھیل سکتےہیں۔ اس کے علاوہ گھریلو جانور اور پرندوں کے ذریعے بھی یہ متعدی امراض اثرانداز ہوجاتے ہیں۔ جس گھر میں متعدی امراض کے مریض ہوں اس گھر کے جانوروں کوپرندوں کے قریب بھی نہیں رہنا چاہیے اور سب سے زیادہ خطرناک وہ معالج و تیمارداراور دیگر وہ لوگ ہیں جو مریض کے قریب رہتے ہیں وہ متعدی امراض کے جراثیم اٹھائے پھرتے ہیں۔

بالواسطہ چھوت
یہ چھوت بالواسطہ ہمیشہ کسی توسل سے پھیلتی ہے۔ یہی صورت وبائی ہے جس کی تین صورتیں ہیں۔(1)۔ ہوایا موسم میں متعدی اثر پیداہوجائے پھر وہ جسم انسان میں جاکر زہریلا اثر پیداکردے۔(2)۔ مریض کے فضلات یا مستعملہ اشیاء جب غلطی سے کسی تالاب یا جوہڑ یا کنویں میں چلا جائے تو اکثر متعدی امراض پھوٹ پڑتے ہیں۔(3)۔ کسی کرم نما جانور کے ذریعے جسم انسان میں متعدی امراض کے زہریلے جراثیم داخل ہوجائیں مثلاً ملیریا میں مچھر کے ذریعے اور پسو مرض طاعون کےجراثیم لے کر تندرست کے جسم میں پہنچتا ہے۔ اسی طرح دیگر کرم جُوں، کھٹمل، مکھیاں اکثر وبائی امراض کے پھیلانے کا باعث ہوتی ہیں۔ کرم نما جاندار امراض کی پیدائش اور وبا پھیلانے میں تین طریق پر کام کرتے ہیں۔

اول (زہربردار)
ایسے کرم نما جاندار زہریلے و متعفن اور گندے مواد کو ایک مقام سے اٹھاکر دوسرے مقام پرلے جاتے ہیں۔ان کو انگریزی میں (Carrier) کہتے ہیں جیسے مکھی جوعام طورپر زہریلے و متعفن اورغلیظ وناپاک گندگی کے ڈھیروں اور بول و براز پر بیٹھتی ہے اور پھرانسانی اغذیہ اور زخموں پر بیٹھ کران کو متعدی بنادیتی ہے۔ جن سے مختلف امراض پیداہوجاتے ہیں اور وبائیں پھیلتی ہیں۔ بعض دفعہ انسان خود زہر بردار بن جاتے ہیں جو مکھی کی طرح یہی مواد ایک مقام سے دوسرے مقام تک پہنچا دیتے ہیں۔ اس طرح جراثیم ایک مقام سے دوسرے مقام تک پہنچ جاتے ہیں۔

دوم (زہربردار)
اکثر جراثیم کرم نما جاندار کے جسم میں داخل ہوکراپنی نسل اور پود بڑھاتےہیں پھر ان جراثیم یا جراثیمی مواد کو انسان کے خون میں یا جسم میں داخل کرکے اکثر متعدی امراض کا باعث بنتے ہیں جیسے مچھر وغیرہ۔ ایسے کرم نما جاندار دراصل انسان کا خون چوستے ہیں اور اس طرح امراض کا زہر اور جراثیم جسم انسان میں داخل کردیتے ہیں۔

سوم (زہربردار)
ایسے کرم نما جو خود اپنے اندر خاص قسم کا زہر رکھتے ہیں جو اپنے گزند سے امراض پیدا کردیتے ہیں اور ایسے امراض بھی متعدی صورتیں اختیار کرسکتے ہیں۔ ایسے کرم نما جانداروں کی مثال ریتلی مکھی، جُوں، کٹھمل ، پسو اور چچڑی وغیرہ ہیں۔

از: حکیم وڈاکٹر جناب دوست محمد صابر ملتانی صاحب

یہ بھی پڑھیں: قسط ۔9 تحقیقات اعادہ شباب

وبا کا پھیلنا
جب جراثیم کسی جسمانی ساخت میں داخل ہوتے ہیں تو جسم ان سےمتاثر ہوکراپنےافعال میں اعتدال قائم نہیں رکھ سکتا اس حالت کا نام مرض ہے۔ جراثیم کے ضرر سے جو امراض پیداہوتے ہیں ان کومتعدیہ کہا جاتا ہے اور اس عمل کوجس کے ذریعہ جراثیم امراض پھیلاتے ہیں چھوت(Infection) کہتے ہیں اور جو جراثیم امراض پیداکرتے ہیں ان کو (Bacteria) کہتے ہیں۔ یہی چھوت دار جراثیم جب اپنے حملے میں کثرت اور تیزی اختیارکر لیں اور عمومی صورت پیداہوجائے بس اس کو وبا کہتے ہیں۔

فرنگی طب میں وبا کا تصور
فرنگی طب چونکہ اکثر امراض بلکہ ہرمرض کا باعث جراثیم ہی کو قرار دیتی ہے۔ اگرچہ بہت سے امراض کے جراثیم کا ان کو علم نہیں ہے لیکن وبائی امراض کو وہ یقیناً جراثیمی اور چھوت دارامراض قرار دیتی ہے، چاہے یہ وباموسم کی خرابی، آب و ہوا کی بے اعتدالی اور زلزلہ و سیلاب ، تباہ خیزی ہی کیوں نہ جسم انسان کےاعتدال کوبگاڑ دیں۔ وبا کے زمانے میں فرنگی طب کا یہی حربہ کام کرے گا کہ وہ جراثیم اور چھوت دار مواد کو تباہ کریں، چاہے وہ انسان کے جسم میں ہویا جسم انسان سے باہر کہیں نظر آئے یا کسی جگہ پر اس کے ہونے کاامکان پایا جائے۔ اس کے علاوہ کسی اور صورت پر زور نہیں دیں گے۔ مثلاًغذاکی بے قاعدگی، آب و ہوا کی بے اعتدالی، موسم کی خرابی اور زلزلہ و سیلاب کے خطرناک اثرات کو ہمیشہ نظرانداز کرتی رہے گی۔ اگر ان کی طرف بھی کچھ توجہ ہوگی تو وہ صرف جراثیم اور چھوت دار موادکا دورکرنا مقصد ہوگا۔حالانکہ مندرجہ بالا تمام صورتیں قدرت کی دسترس ہیں اور فطرت کے ایسے اعمال ہیں جن پر انسان کا عمل دخل کچھ نہیں ہے۔ ایسی صورتوں میں دیگر تغیرات ذاتی کو بھی مدنظر رکھنا ضروری ہوتا ہے اگر ان پرانسان کی دسترس نہ ہوتو جسم انسان کو غیر معمولی تغیرات سے بھی روکنے اور بچانے کی ضرورت ہوتی ہے اس لئے صرف جراثیم کش اور دافع تعفن ادویات و اعمال کے علاوہ دیگر صورتیں بھی کام میں لانی چاہئیں جن سے اعتدال جسم و نفس قائم رہ سکے اور وبا کی پوری روک تھام ہوسکے بلکہ قبل از وقت وبا کو روکا جاسکتا ہے اور عوام کی زندگیوں کو بچایا جاسکتا ہے۔

علم الوبا طب قدیم
طب قدیم میں علم وبا بہت وسیع ہے۔ مختصر طورپر یوں کہا جاسکتاہےکہ وباؤں کے اسباب ، ارضی و سماوی دو صورتوں میں تسلیم کرتی ہے۔ جب ارضی و سماوی کی تشریح کی جاتی ہے تو پھر اس کا پھیلاؤ کا صحیح پتا چلتاہے۔ چونکہ انسانی نفس اور زندگی کا تعلق اسی آفاق اور کائنات سےہے جو زمین و آسمان سے مل کر بنی ہوئی ہے۔ اس لئے طب قدیم میں ابتدائی قوانین طبیہ بیان کرنے میں ان تمام امور کوسامنے رکھا ہے۔ جس میں نفس و آفاق اور زندگی و کائنات دونوں شریک ہوں ۔ گویا دونوں کا گہرا تعلق اور چولی دامن کا ساتھ ہے اور ایک دوسرے پر اثر انداز ہوتے ہیں۔یعنی جب زمین و آسمان میں کوئی تغیر پیداہوگا اس کا اثر زندگی اور نفس پر ضرور پڑے گا۔ اسی طرح جب زندگی اور نفس میں تغیرات پیداہوں گے کائنات و آفاق پر بھی اثراندز ہوں گے۔ بالکل اسی طرح جیسے جسم اور نفس دونوں ایک دوسرے سے جداجدا ہستی بھی رکھتے ہیں۔ان میں سے ایک مادی اور دوسرا غیر مادی ہے۔ مگر حالت یہ ہےکہ ایک دوسرے کے بغیر رہ بھی نہیں سکتا بلکہ انسان انسان نہیں رہ سکتا بلکہ انسان قائم نہیں رہ سکتا۔ ایک نفسیات و منافع الاعضاء کا ماہر دونوں کے تعلقات کو پوری طرح سمجھ سکتاہے۔ یہی صورت آفاق کی بھی ہے وہ نفس کے ساتھ متعلق ہے۔ یہی تعلق کائنات اور زندگی کا بھی ہے اگر اس کائنات اور آفاق میں زندگی اور نفس ختم ہوجائیں تو اول الذکر کا قیام مشکل ہوجائے کیونکہ ثانی الذکران کے اجزاء لا جزاء ہیں بالکل اسی طرح جیسے نفس اور جسم کو الگ اور جدا نہیں کیا جاسکتا۔

وبا اور امور طبعیہ
وبا اور اس کی وسعت اور اس کے اثرات کائنات زندگی پر ، سمجھنے کے لئے امور طبعیہ کا ذہن نشین رکھنا بے حد ضروری ہے۔ کیونکہ امور طبعیہ چند ایسے امور ہیں جن پر انسانی زندگی کا قیام ہے اور اگر ان میں سے ایک بھی نفی کردیا جائے تو زندگی کاقیام ناممکن ہوجاتا ہے۔اسی طرح اگر غورکیاجائے تو پتا چلتا ہے کہ جس طرح امور طبعیہ کا تعلق ایک طرف انسانی زندگی کے ساتھ ہے تو دوسری طرف کل کائنات کے ساتھ ہے۔جاننا چاہیے امور طبعیہ سات ہیں۔(1)۔ارکان(2)۔ مزاج(3)۔اخلاط (4)۔ اعضاء (5)۔ ارواح (6)۔قویٰ (7)۔ افعال۔ جن کی تشریحات طبی و طبعی و فلسفہ کی کتب میں تفصیل سے درج ہے اور ہر اہل فن اور صاحب علم جانتا ہے۔ ہم یہاں پرصرف زندگی اور کائنات کس طرح آپس میں منسلک اور وابستہ ہیں۔جاننا چاہیے کہ امور طبعیہ میں اعضاء ایک درمیانی شے یا بنیاد زندگی ہیں ۔ ان کی تشکیل ارکان مزاج اور اخلاط سے وجود میں آئی ہے اور ان کارواں دواں ہونا، ارواح و قوی اور افعال کے زیر اثر ہے اور تنظیم پاتے ہیں۔ اس امر سے ثابت ہوا کہ اعضاء دونوں صورتوں میں مجبور محض ہیں یعنی اول صورت میں یعنی تشکیل میں جن تین امور کے ساتھ تعلق ہے اس کی ابتدا اگر اخلاط سے ہے جس سے وہ غذائیت حاصل کرتے ہیں لیکن اس کی انتہا ارکان اور ان کے مزاج پر ہے اور ارکان اور ان کے مزاج کا تعلق کائنات سے ہے۔ گویا جوکچھ بھی کائنات میں وارد ہوگا یا جو کچھ بھی اس کا مزاج ہوگا وہی مزاج و اخلاط کا ہوگا جن سے اعضاء غذا حاصل کرتے ہیں۔ اس لئے حکماء اور اطباء نے اعضاء کے افعال کی خرابی کے اسباب میں کیفیات اور مزاج کو شریک رکھا ہے۔ بالکل یہی صورت وباؤں میں بھی وارد آتی ہے بلکہ ان میں نمایاں طورپروارد ہوتی ہے۔ کیونکہ وباؤں میں کوئی ایک انسانی کیفیت خراب نہیں ہوتی بلکہ کائنات کی کیفیات اور مزاج میں شدید تغیر پیداہوجاتا ہے۔ جہاں پراعضاء بالکل مجبور ہوکررہ جاتے ہیں اور مقابلہ کی تاب نہ لاکرختم ہوجاتے ہیں۔ وباؤں کے مقابلے اور قیام اعضاء کے لئے جو جدوجہد کی جاتی ہےاسی کا نام علم الوبا ہے

دوسری طرف یہی اعضاء پوری طرح ارواح قویٰ اور افعال کے ماتحت ہیں ارواح سے مراد لطیف اخلاطی بخارات ہیں جو حامل خون ہیں اور قویٰ نفس انسانی وہ ہیں جوجسم میں افعال ظاہری اور باطنی کے لئے تحریکات پیداکرتے رہتے ہیں۔ گویا یہاں بھی اعضاء اور ان کے افعال نفس کے ماتحت ہیں اور نفس کاتعلق افاق کے ساتھ ہے ان امور طبعیہ کے علم سے ثابت ہوا کہ زندگی اور نفس کائنات اور آفاق ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ کائنات کا پھیلاؤ ارضی و آفاق کا پھیلاؤ سماوی ہے گویا اعضاء انسانی ارضی و سماوی کے جہاں پر ایک جزو ہیں وہاں پر اس کے جزو بھی ہیں۔ اس لئے ہر مرض خاص طورپر وبائی امراض میں اعضاء کی حفاظت اور اصلاح کے لئے ارضی و سماوی تعلق کو مدنظر رکھنا ایک اہم حقیقت ہے ۔صرف اسی قدر ہی کافی نہیں ہے کہ فرنگی کے جراثیم کا علم حاصل کرلیاجائے اور علم الوبا حاصل ہوجائے گا اور ہم وبا سے محفوظ ہوجائیں گے۔ حیرت کی بات یہ ہےکہ فرنگی میڈیکل سائنس اس امر پر فخر کرتی ہے کہ یہ تحقیق صرف انہی کی ہے کہ وبائیں جو پیداہوتی ہیں صرف جراثیم کی خرابی کانتیجہ ہیں اور حقیقت ہے یہ علم اور تحقیق علم الوبا میں باعث شرم اور جہالت کی دلیل ہے۔

ہماری تحقیق
ہماری تحقیق یہ ہے کہ انسان بھی کائنات اور آفاق کاایک جزو ہے جس طرح ایک بال بھی ہمارے جسم کا جزوہے۔ سو اس جزو ہونے کی وجہ سے جو مزاج ارضی وسماوی حرکات اور کائنات و آفاق کے اثرات کے تحت ظاہر ہوگا۔ انسان بھی اس میں شریک ہے بالکل جس طرح ہرموسم میں انسانی مزاج میں تغیرپیداہوجاتاہے اور جب تک انسانی مزاج اپنے ماحول کے مزاج اور کیفیات کو برداشت کرسکتاہے، زندہ رہتاہے اور جب اس کی برداشت سے باہر ہوجاتاہےاس کی زندگی ختم ہوجاتی ہےاور فرنگی سائنس کا یہ کہنا کہ جب تک جراثیم انسانی جسم پرحملہ نہ کریں نہ اس کے اعضاء میں خرابی واقع ہوتی نہ ہی وہ مریض ہوتا ہے اور نہ ہی وہ مرتا ہے۔ کیا عقل سلیم اس کو تسلیم کر سکتی ہے۔ اب اہل علم اور صاحب فن کا کام ہے کہ وہ ہماری تحقیق اور فرنگی تحقیق کا مقابلہ کرلیں اور حق کی داد دیں اور اس امرکو ذہن نشین کرلیں کہ جراثیم بھی مخلوق ہیں۔

اسباب ضروریہ اور ممرضہ
طب قدیم نے قوانین میں امور طبعیہ کو بیان کرنے کے بعد جب اسباب کی بحث کی ہے تو اس میں دو قسم کے اسباب بیان کئے ہیں۔اول: اسباب ضروریہ: جن پر انسانی صحت کا دارومدار ہے اگر ان میں سے کسی ایک پر بھی عمل نہ کیاجائے تو صحت قائم نہیں رہ سکتی جو چھ ہیں اس لئے ان کو اسباب ستہ ضروریہ بھی کہتے ہیں۔(1)۔ہوا۔(2)۔ماکولات و مشروبات۔(3)۔حرکت سکون بدنی۔(4)۔ حرکت و سکون نفسانی۔(5)۔نیند و بیداری۔(6)۔ استفراغ و احتباس۔ ان اسباب ستہ ضروریہ میں بھی ارکان اور نفس دونوں شریک ہیں۔ گویا انسانی صحت کا دارومدار اس امر پر ہے کہ وہ کائنات و آفاق یا ارضی وسماوی اثرات کے ساتھ اپنا تعاون قائم رکھےاور اپنے کواس کے مطابق ڈھالتا رہے ہاں اگر وہ کوشش کرے تو ارضی و سماوی اثرات کو بہت حد تک بدل سکتاہے۔ یعنی وہ قانون قدرت کے مطابق صحیح فطرت کواختیارکرتا رہے گویا اپنے ماحول اور فضا کو مختلف اعمال اور ادویات کے جلانے سے غیر فطرت میں بہت حد تک تبدیلی ہوسکتی ہےجن کی تفصیل آئندہ کی جائے گی۔دوسرے اسباب ممرضہ ہیں جو ایسے اسباب ہیں جن کے افراط وتفریط سے امراض پیداہوتے ہیں۔(1)۔ بادیہ۔(2)۔ سابقہ۔(3)۔واصلہ۔بادیہ کا تعلق کیفیات سے ہے، سابقہ کا تعلق مزاج سے ہے اور واصلہ کا تعلق نفس اور اعضاء سے ہے۔ غرضیکہ اسباب ممرضہ میں بھی ارضی و سماوی اور کائناتی و آفاقی اثرات غالب ہیں۔ اس لئے انسانی امرض خصوصاً وباؤں میں صحت کی حفاظت اور صحت کی درستی کے لئے امور طبعیہ ضرور مدنظر رہنے چاہئیں۔ ان میں ہر قسم کے اسباب اور اثرات شامل ہیں۔ اور پوری طرح اعضاء کے تغیرافعال کوظاہر کرتے ہیں۔

وباکی پیدائش سے قبل علامات کا ظہور
طب قدیم کا کمال یہ ہے کہ وبا کے ظہور سے بہت مدت پہلے پیش گوئی کردیتی ہے کہ وبا کا ظہورہونے والا ہے اس کا تدارک کرلیا جائے یہ شرف صرف طب قدیم کو حاصل ہے، فرنگی طب میں ایسا کوئی علم نہیں ہے اور نہ کوئی ایسا آلہ ہے جس سے عوام کو آگاہ کردے کہ وہ اس کے مقابلے کے لئے تیار ہوجائیں یا حکومتیں عوام کی خیر خواہی کے لئے کوئی بندوبست و انتظام اور پیش بندی کرلیں بلکہ اس کے ہاں دستور یہ ہے کہ جب وبا پھیل جاتی ہےتو اس وقت وبائی مادہ کا تجزیہ کرکے پہلے سےمعلوم کرتےہیں کہ کس مرض کے جراثیم ہیں یا کوئی نئی بیماری پیداہوگئی ہےپھر اس کا علاج تجویز ہوتا ہےپھر اس کے تجربات کئے جاتے ہیں اورتحفظ اور علاج عمل میں آتا ہے مگر اس وقت تک وبا اپنا کام کرچکی ہوتی ہے۔ا س کے برعکس طب قدیم نے ایسی علامات لکھی ہیں جن کے ظہور سے وبا کی آمد کا پتا چل جاتا ہےجیسے ٹھنڈی ہوا کی آمد بارش کی اطلاع دیتی ہے یا شمالی گھٹائیں ظاہر کرتی ہیں کہ فوراً شدید قسم کی بارش ہونے والی ہے یا کالی گھٹائیں شدید طوفانی بارش کا پیش خیمہ ثابت ہوتی ہیں۔ جو لوگ ان علامات کو ذہن نشین رکھتے ہیں ، خاص طورپر دیہاتوں کے کسان تو بارش کے نقصانات سے محفوظ اورمامون رہتے ہیں۔یہی صورت وباؤں کی پیش از وقت پیدہونے والی علامات میں بھی ہے جولوگ اس سے آگا ہ رہتے ہیں وہ وباؤں کی آمد سے واقف ہوتےہیں اور پیش بندی کے طورپرحفظ صحت کے اصولوں کی نہ صرف شدت سے پابندی کرلیتے ہیں بلکہ وباؤں میں جن اغذیہ اور ادویہ کی ضرورت ہوتی ہے ان کا انتظام کرلیتے ہیں یا قبل از وباایسے علاقوں میں نکل جاتے ہیں جہاں پر قبل از وقت وبا علامات نہیں پائی جاتیں لیکن یہ امر یاد رکھنا چاہیے کہ ایام وبا میں نقل مکانی نہیں کرنی چاہیے اگر ایسا کرنے کی ضرورت لاحق ہوتو بالکل کسی دوسرے گاؤں، شہر یا ملک میں نہیں جانا چاہیے بلکہ گھنے جنگلات میں جاکرعارضی طورپر آباد ہوجانا چاہیے تا کہ وہاں لوگ اس مصیبت میں مبتلا نہ ہوں کیونکہ وبا کے اثرات جانے والے کے ضرور ہمراہ جاتے ہیں۔

ظہور سے قبل وباکی علامات
1۔ جوہر ہوا میں فساد پیداہوجاتا ہے، ہوا کے ذائقہ اور خوشبو میں تبدیلی پیداہوجاتی ہے۔ جیسے عام طورپربارش کے موسم کے بعد جب گرمی پڑتی ہے تو زمینی انجرات سے فضا میں نمی پیداہوجاتی ہے جو جسم میں اندر اور باہر نمی ہی نمی کردیتی ہے۔2۔ پانی کاذائقہ بگڑ جاتاہے اس میں بدبواور سڑاند کے اثرات ظاہرہوتےہیں جیسے بارش کے موسم میں اکثر پانی اور ہوا میں تعفن کےاثرات ظاہرہوتےہیں۔3۔ بارش کی انتہائی زیادتی۔4۔ بارش کی انتہائی کمی کے ساتھ خشکی ۔5۔ انتہائی بارش کے بعد شدید گرمی ۔6۔ جب بارش کے آثار زیادہ ہوں مگر بارش نہ ہو۔7۔ موسم ربیع میں سرد بارش ہو۔ 8۔ جنوبی ہوائیں زیادہ چلیں خاص طورپر ان میں پراگندگی ہو، جلد جلدچلیں اور کافی مدت تک رہیں۔9۔ سردی کے مہینوں میں ہوا زیادہ سرد ہوجائے خاص طورپرصبح کے وقت اس میں زیادہ شدت ہوجائے۔10۔ شہاب، ٹوٹنے والے ستاروں اور دمدار ستاروں کی کثرت ہوجائے خصوصاً گرمی کے آخر اور خریف کےاول میں ایسی صورتیں ظاہر ہوں ۔11۔ حشرات اور مینڈک زیادہ ہوجائیں۔12۔ ذکی الحس حیوانات مثلاً جونک اور چوہے اپنے مقام اور بلوں سے بھاگ جائیں ۔ خلاصہ یہ ہے کہ ایک موسم میں دوسرا موسم پیداہوجائے۔ اس میں طوالت اور شدت ظاہرہو، اکثر وباؤں کے ظہور کی علامت ہوتی ہے جیسے عام طورپردیکھا گیاہے کہ اگر بارش کا موسم طویل ہوجائے اور اس کے بعد گرمی نہ پڑے تو اکثر نزلہ زکام وبائی اور خون کی کثرت ہوجاتی ہے۔ اسی طرح کثرت بارش یا سیلاب کے بعد اگر گرمی شدید شروع ہوجائے تو ملیریا وبائی صورت اختیار کرلیتا ہے۔ سردی کا موسم طویل ہوجائے تو پھوڑے پھنسی اور طاعون کی وبا پھیل جاتی ہے۔ غرض موسموں کے تغیر چاہے ان کے اسباب ارضی ہوں یا سماوی وباؤں کے ظہورکی بہت بڑی علامت بن جاتے ہیں ، معالج کا ان باتوں کو جاننا نہایت اہم ہے۔

شناخت اسباب وبا
ان امورکا پتا چلانا اوردریافت کرنا کہ وبا کی ابتدا کن کن اسباب سے ہوتی ہے یعنی ابتدا میں ہوا کے اندر فساد پیداہوگیا ہے یا پانی میں فساد کاباعث ہواہے یا تعفن مردار، خرابی غلہ جات اور اشجار و فواکہ کے گل سڑجانے سے وبا کی صورت اختیار ہوگئی ہے یا بوجہ تاثیر سیارگان و اجرام علوی وباپرحکمران ہیں سویہ امورحالات وجودہ کے لحاظ سے علم و حکمت اور فراست و تجربہ سے دریافت ہوسکتے ہیں۔ عوام کو ان امور کا ادراک و شعور ذرا مشکل سے ہوگا۔ مگر ارباب فہم و فراست کے نزدیک ان علامات کا ادراک و احساس کچھ دشوار نہیں ہے۔ جب سبب وبا کا مفہوم واضح ہوجائے گا تو باذن اللہ اس کا تدارک عقلاً و امکاناً احسن طریق پر انجام پاجائےگا۔

نظریہ مفرد اعضاء کے تحت وبا کی تقسیم
جاننا چاہیےکہ وباؤں کا ظہور غیر منظم طورپرعمل میں نہیں آتا جیساکہ فرنگی طب کی تحقیقات ہیں اس لئے وہ ہر بارہر وبائی مرض کی نئے سرے سے تحقیقات کراتے ہیں بلکہ جس قدر وبائیں آتی ہیں وہ سب قانون قدرت کے تحت منظم طورپر فطرت کے عمل و ردعمل کے طورپر وارد ہوتی ہیں۔ جیسے کہ ہم روزانہ دیکھتے ہیں کہ صبح و دوپہر شام اور رات ہوتی ہے۔ اسی طرح گرمی ، سردی، بہار اور خزاں کے موسم آتےہیں۔ یہ کبھی نہیں ہوا کہ صبح کے بعد رات ہوجائے، شام بالکل نہ ہویا گرمی کے بعد سردی آجائے درمیان میں بہارکاموسم غائب ہوجائے۔ قدرت نے جو قوانین فطرت بنا دئیے ہیں انہی کے تحت یہ کائنات اور زندگی رواں دواں ہے۔ اس لئے وبائیں قانون قدرت کے تحت عین فطرت کے مطابق منظم طورپر آتی ہیں اور جب آتی ہیں تو کائنات میں اس کے اثرات و علامات کا اصولی طورپراظہار ہوتا ہے اور پھر ان کا ظہور عمل میں آتا ہے جیساکہ ہم گزشتہ صفحات میں لکھ چکے ہیں تاکہ ان کا قبل از وقت کچھ تدارک کیا جاسکے۔

از حکیمِ انقلاب: حکیم صابر ملتاؔنی۔۔1960ء

وبائیں – آب و ہوا اور موسم
وباؤں کو سمجھنے کے لئےموسم و آب و ہوا (Climate) کا علم ہونا ضروری ہے۔ کیونکہ انسان بلکہ موالید ثلاثہ ہر وقت آب و ہوا میں گھرے ہوئے ہوتے ہیں اور آب و ہوا کا تعلق ارضی و سماوی دونوں سےگہرا تعلق رکھتاہے۔ جہاں پر ایک طرف جغرافیائی اثرات مثلاً میدانی و ریگستانی علاقہ پر اپنا ایک خاص اثر رکھتے ہیں وہاں پرسمندر و دریا اور پہاڑ و جنگل بھی اپنے اثرات ڈالتے رہتےہیں۔ اس طرح موسموں کا بدلنا جو کلیتاً ستاروں کی گردش پر منحصر ہے اپنے اندر سماوی اثرات رکھتے ہیں۔ اس لئے موسم اور آب و ہوا کے بگڑنے سے دریاؤں کی صورتیں پیداہوتی رہتی ہیں۔ چونکہ موسموں کا اثر بھی آب و ہوا پر پڑتا ہے اور آب و ہوا ہی ہمارا ماحول ہے اس لئے جب فضا بگڑتی ہے تو گویا آب وہوا ہی متاثر ہوکر بگڑ جاتے ہیں۔ اس لئے جن علاقوں میں جب وبائیں آتی ہیں تو پہلے وہاں کے آب وہوا میں خرابی ہوتی ہے اور پھر وہی آب و ہوا انسان او ردیگر موالید ثلاثہ پر اثراندازہوکر ان کا مزاج اور صحت بگاڑ دیتے ہیں اور یہی صورت جب فضا اختیارکرلے تو اس کو وباکا نام دیتے ہیں۔ گویا وبافضاکابیمارہوجاناہے۔

آب و ہوا کی حقیقت
جاننا چاہیے کہ آب وہوا کا تعلق صرف ہوا اور پانی سے نہیں ہے بلکہ ان میں گرمی بھی شریک ہے جو ہمیشہ آب وہوا کو پاک و صاف اور صحت مند و معتدل رکھتی ہے لیکن کبھی کبھی گرمی کی زیادتی خودبھی باعث وبا اور امراض بن جاتی ہے۔ اس لئے امراض وبائیہ کو ذہن نشین کرنے کےلئے ہوا و پانی اور گرمی اور ان کےتعلقات کے متعلق جاننا نہایت ضروری ہے کہ ان کی پیدائش ، کمی بیشی اور اعتدال کس طرح قائم رہتا ہے اور جب ان میں بگاڑ و فساد ہوتا ہے توکیسے پیداہوتا ہے تاکہ ہم حتی الامکان اس کی اصلاح کرسکیں اور اس کو صحت مند بنا سکیں ۔ یہی علم الوبا ہے۔

فضا اور آب و ہوا
اس کائنات میں ہر علاقہ کی ایک مخصوص آب و ہوا ہے بلکہ اگر آسمان کی طرف بھی پرواز کریں تو بھی وہاں فاصلے فاصلے پرجدا جدا آب وہوا پائی جاتی ہے۔ گویا ہر علاقہ اپنی ایک خاص آب و ہوا رکھتاہے اورہر موسم میں آب وہوا تبدیل ہوتی ہے۔ گویا آب وہوا اپنا ایک دائرہ رکھتی ہے جو بُعد ثلاثہ میں پھیلاہوا ہے جس کو ہم فضا کہہ سکتے ہیں۔ ویسے تو اس فضاکااطلاق تمام کائنات تک ہوسکتاہے مگرعام طورپر تاحد نگاہ ہی ہماری فضاہے۔ اس لئے جو کچھ بھی تبدیلی و تغیر اور فساد پیداہوتاہے وہ چونکہ مقامی و علاقائی آب وہوا میں ہوتاہے اس لئے خرابی بھی مقامی اور علاقائی فضامیں پیداہوتی ہے اس لئے اصلاح بھی اسی فضاتک محدود ہوگی۔فضا کو کائنات کاجسم تصورکرلیں جس کے مختلف علاقے اس کے اعضاء ہیں جس علاقے میں خرابی واقعہ ہوگی بہت حد تک اسی فضا میں محدود رہے گی۔ لیکن کبھی کبھی اسی فضا سے دیگر علاقوں میں بھی پھیل جاتی ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے جسم ِ ا نسان کے کسی عضو میں مرض ہواور پھر اس کا اثر خون کے ذریعے کسی دوسرے عضو تک چلاجائے۔

اس فضامیں ہواو پانی اور گرمی تینوں اس طرح ملے رہتے ہیں جس طرح خون ہوا و پانی اور گرمی کا مرکب ہے۔ گویا ہواو پانی اور گرمی تینوں کا مرکب فضا کے لئے خون کا قائم مقام ہے آب و ہوا کا لفظ اسی مرکب کے لئے بولاجاتاہے جس مقام اور علاقے کی آب وہوا میں تغیر وتبدل اور خرابی پیداہوجائے گی۔ اس مقام اور علاقے میں وبا نمودار ہوجائے گی۔ گویا فضاکا وہ عضو بیمار ہوگیاہے جیسے انسان کا کوئی عضو دردناک ہوجاتاہے۔فضا کے لئے یہ امرذہن نشین کرلیں کہ وہ محض ایک جسم ہے جس کو ہم ایثر(Ether)کہتے ہیں ۔ اس کو سما کہنا زیادہ مناسب ہے۔ اس کا ایک طرف تعلق ارضی موالید ثلاثہ ہے اور دوسری طرف اس کا تعلق سماوی اجرام سے ہے۔ جب فضا کے کسی حصہ(جسم) میں تغیر و تبدل اور فساد پیداہوتاہےتو فضاکی روح جسے روح عالم اور روح مدبر عالم کہنا چاہیے فوراً اس مقام پر صحیح و صالح اثرات پہنچنے شروع ہوجاتے ہیں اور اعتدال قائم ہونا شروع ہوجاتاہے۔ اس طرح مقامی آب و ہوا کا مزاج اصلاح پذیراور صحت مند ہونا شروع ہوجاتاہے۔ اگر مقامی علاقہ کی طرف سے بھی اصلاح اور درستی کی کوشش کی جائے تو فوراً اعتدال قائم ہوکر وبائی امراض دور ہوجاتے ہیں ۔ اس لئے وبائی ایام میں اگر امراض کے علاج کے ساتھ ساتھ فضا کی درستی کی بھی کوشش کی جائے تو وبائیں بہت جلد دورہوتی ہیں۔

وباؤں کی تقسیم
جس طرح وبائیں منظم اور فطرت کے اصولوں کے مطابق آتی ہیں اسی طرح وہ اقسام میں نازل ہوتی ہیں ۔ یہ کبھی نہیں ہوتا کہ وبائیں ہمیشہ بدل بدل کرآئیں جن کا انسان کو علم بھی نہ ہو جیساکہ فرنگی طب کی تحقیقات ہیں۔ جاننا چاہیے کہ وبائیں تین اقسام کی ہوتی ہیں۔(1)۔ کسی علاقہ کی فضا یا آب و ہوا (پانی و ہوا اور گرمی کا مرکب) میں کیفیاتی طوپر مزاجاً خرابی واقع ہوجائے یہ خرابی اکثر ارضی ہواکرتی ہے۔(2)۔ کسی علاقہ کی فضا یا آب و ہوا میں تغیرو تبدل پیداہوجائے یعنی ایک موسم میں دوسرا موسم پیداہوجائے۔یہ خرابی اکثر سماوی اثرات کی وجہ سے نمودار ہوا کرتی ہے۔ (3)۔ کسی علاقہ کی آب و ہوایا فضا میں فساد واقع ہوجائے یعنی اس میں تعفن پیداہوجائے جس کے نتیجہ میں اس کے اندر جراثیم یا جراثیمی مواد اور زہر بھی پیدا ہوجاتا ہے۔ ان تینوں صورتوں میں سے ہمیشہ ایک نہ ایک صورت پیداہوتی ہے۔ چوتھی کوئی صورت پیدا نہیں ہوسکتی۔ اگر کوئی سائنس یا فرنگی طب ان کے علاوہ کوئی صورت ثابت کردے توہم اس کو چیلنج کرتے ہیں۔

اسباب وبا
چونکہ علاقائی فضا یا آب وہوا تین چیزوں پانی و ہوا اور گرمی سے مرکب ہوتی ہے اس لئے اصل خرابی پانی و ہوا اور گرمی میں پیداہوتی ہے۔ لیکن ان کی خرابی سبب بادیہ (سماوی) اور سبب سابقہ(ارضی) ہوتی ہے، سبب واصلہ نہیں ہوتی۔ کیونکہ سبب واصلہ وہ خرابی ہے جو مقامی فضا میں پیداہوجاتی ہے۔ یعنی کسی علاقائی خرابی کو جب فضا درست اور اعتدال پر قائم نہیں رکھ سکتی اور سبب بادیہ اور بادیہ غالب آجاتے ہیں تو سبب واصلہ اس امر پر مجبورہوجاتے ہیں کہ وہاں کی آب و ہوا (پانی، ہوا اور گرمی کا مرکب) میں خرابی واقع ہوکروباکی صورت پیداکردے۔ بس اس طرح وبائیں پیداہوتی ہیں۔

تفصیل اسباب
ظاہرمیں تو یہ محسوس ہوتاہے کہ ہرقسم کے اسباب اول ہوا پر اثرانداز ہوتے ہیں اور پھر یہی خراب یا مسموم ہوا انسان یا حیوان کو مبتلائے مرض کردیتی ہے۔ اس حد تک تو یہ صحیح ہے کہ ہوا پانی اورگرمی کا جومرکب اس فضا میں تیار ہوتاہے اس کی بنیاد ہواہی ہے اور کبھی اس میں ہوا کی خنکی بڑھ جاتی ہے۔ کبی اس میں پانی کی رطوبت زیادہ ہوجاتی ہے اور کبھی اس کے اندر گرمی کا اضافہ ہوجاتاہے جو سانس کے ساتھ جسم انسان میں جاکر باعث مرض بن جائیں یا انہی کا فساد ہوامیں شریک ہوکر وباؤں کی صورت میں نمودار ہوجائے۔لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ گندے تالابوں، خراب کنوؤں اور غیرمحفوظ چشموں بلکہ چھوٹے ندی نالوں اور محفوظ پانیوں میں خرابی واقع ہوجائے اور پھر وہی پانی مجبوراً اور بے علمی سے استعمال کیا جائے تو اس طرح بھی وبائیں پھوٹ پڑتی ہیں۔ اسی طرح بعض اوقات آفتاب کی گرمی میں اس قدر شدت پیداہوجاتی ہے کہ اس کی حرارت قابل ِ برداشت نہیں رہتی۔ ایک دم ضعف قلب پیداہوجاتا ہے۔ کثرت سے پسینہ آجاتا ہے، دل گھٹ جاتا ہےاور انسان گرپڑتا ہے۔ اس سے یک لخت موت واقع ہوجاتی ہے۔اسی طرح بعض وقت ایک ساتھ دو قئیں آجاتی ہیں۔ اس صورت سے موت جلد واقع ہوجاتی ہے۔ اس کو ہارٹ فیل(Heart Failure)ہونا کہتے ہیں۔اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ آفتاب کی شدت سے انسان کا بیرونی جسم جل اٹھتا ہے۔ طبعیت مدبرہ بدن اس کو ٹھنڈا کرنے کے لئے خون کی ایک بہت بڑی مقدار اس طرف بھیج دیتی ہے مگر بیرون جسم کی حرارت کا مقابلہ نہیں ہوسکتا۔دوسرے اندرون جسم میں خون کی کمی واقع ہوجاتی ہے جو قلب کے واسطے کافی نہیں ہوتا اور جوخون اس کو پہنچتاہے وہ ضرورت سے زیادہ گرم ہوتاہے جس کو قلب برداشت نہیں کرسکتا جس کا اخراج وہ پسینہ اور قے سے کرتا ہے ۔ اس طرح جسم میں خون کی مقررہ مقدار اور اس کے عناصر بہت حد تک کم ہوجاتے ہیں جن سے دل ودماغ اور جگر کا توازن ختم ہوجاتاہے بس فوراً موت واقع ہوجاتی ہے۔ انتہائی گرم علاقوں یا گرمی کے اچانک بڑھ جانے یا کسی علاقہ سے گرمی کی لہر آجانے پر اکثر ایسی وبائیں پیداہوجاتی ہیں۔ ایسی وبائیں اس قدر خطرناک ہوتی ہیں کہ ان کا مداوا اور تدبیراکثر دوا نہیں ہوسکتی۔ اول مریض دوا سے قبل ہی ختم ہوجاتاہے اور اگر دوا دے بھی دی جائے تو مریض بچ نہیں سکتا کیونکہ گرمی اپنا اثر کرچکی ہوتی ہے۔اس کو انگریزی میں (Sun Stroke) کہتے ہیں۔اس کا بہترین مداوا یہ ہے کہ موسم میں تغیروتبدل پیداکیاجائے اگر فوری ممکن ہوتو بالائی منزل یا باغات اور نہروں کے کنارے فوراً رہائش اختیار کی جائے۔ یاشدت حرارت کو زیادہ سے زیادہ کم کیا جائے۔

بعض اوقات ایسا ہوتاہے کہ گندے سڑے پھل سبزیاں اور گوشت مچھلی وغیرہ کے استعمال سے کوئی ایک یا چند لوگ ان کے زہریلے اثرات سے مریض ہوگئے، مگر ان کے جسم سے جو قے و اسہال و تھوک اور پسینہ کی صورت میں خارج ہوئے ان سے بے احیتاطی برتی گئی وہ کسی دوسروں کےکھانے پینے میں پڑگئے۔ اس طرح وہ بھی انہی امراض میں مبتلا ہوگئے اور یہ سلسلہ آگے بڑھا تو وباکی صورت اختیار کرگیا۔ اگر ایسے واقعات کسی تالاب و چشمہ اور ندی نالوں یا کسی غذائی مرکزمثلاً پھل سبزی اور گوشت و مچھلی کی منڈی یا ہوٹلوں کے قرب و جوار میں واقع ہوتو وبائیں پھیل جاتی ہیں۔ ایسی صورتوں کا صحیح تدارک یہ ہے کہ کبھی بھی ایسے غذائی مراکز یا ہوٹل نشیبی علاقوں میں نہ بنائے جائیں اور نہ ہی وہاں پر قریب گندگی کے ڈھیر ہوں اور جب کوئی شخص وہاں سے ضروریات زندگی خریدنے جائے تو وہ اپنے حواس خمسہ اور ذوق سلیم سے کام لے۔ اگر ایسے علاقہ میں گندگی نظر آئے اور وہاں پر گندگی و تعفن کااحساس ہوتو فوراً وہاں سے واپس ہوجائے کبھی وہاں سے ضروریات زندگی نہ خریدے کیونکہ بدبو اور تعفن کی ہوابھی ان اشیاء پر اثر کرجاتی ہے۔

مجھے مچھلی منڈی جانے سے اکثر تجربہ ہوا ہے کہ جولوگ مچھلی خریدنے آتے ہیں وہ صرف یہ دیکھتے ہیں کہ مچھلی ارزاں مل جائے تو وہ فوراً خرید لیتے ہیں وہ کبھی یہ نہیں دیکھتے کہ مچھلی تازہ ہے یانہیں ۔ میں نے بارہا دیکھا ہے کہ سخت بدبودار مچھلی بھی لوگ خرید لیتے ہیں ۔ میں نے کئی لوگوں سے دریافت کیا۔ کہ آپ بدبودار مچھلی کیوں خرید لیتے ہیں تو وہ اکثر جواب دیتے ہیں کہ مچھلی ہواور بُونہ ہو۔ آپ یہ کیسی باتیں کرتے ہیں۔ میں جواب دیتا ہوں کہ تازہ مچھلی میں بدبو نہیں ہوتی۔ تو وہ جواب دیتے ہیں کہ آپ کو مغالطہ ہوگیاہوگا ورنہ تازہ مچھلی میں بھی بدبو ہوتی ہے۔ بعض جواب دیتے ہیں کہ جناب یہ بدبو فوراً آٹا اور نمک کے ساتھ دھونے سے نکل جاتی ہے۔ ہمیں اس بدبو کا کوئی فکر نہیں رہتا۔ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ تازہ اور باسی مچھلی کے گوشت میں لذت کے لحاظ سے بہت فرق ہوتاہے دوسرے باسی مچھلی نقصان دے جاتی ہے تووہ جواب میں کہتے ہیں کہ جناب ہمیں تو ذائقہ میں کوئی فرق معلوم نہیں ہوتا اور نہ ہی کبھی نقصان ہوا ہے۔ جب میں کبھی مچھلی منڈی میں مچھلی خریدتا ہو ں تو اول مچھلی کو دیکھتاہوں کہ و ہ ظاہرہ تازہ نظر آتی ہے یا نہیں۔ جب تازہ نظر آئے تو اس کوپیٹ کے پاس سے سونگھتاہوں کہ اس میں بدبو یا تعفن تو نہیں ہے پھر خریدتا ہوں مگر مچھلی فروش ہمیشہ یہی کہتا رہتا ہے کہ بابوجی! تم نے نہ مچھلی خریدنی ہے، نہ کھانی ہے”مچھلی کو ہاتھ مت لگاؤ” میں پوچھتاہوں کہ بھائی! میں نے کیوں نہیں خریدنی اور کیوں نہیں کھانی؟ وہ جواب دیتا ہے کہ جس شخص نے مچھلی کی بو سو نگھی ، بس سمجھ لو کہ وہ مچھلی کھانے والا نہیں ہے، اس لئے کہ وہ مچھلی نہیں خریدے گا۔ایک مچھلی کا ذکر نہیں ہے بلکہ ہر قسم کے گوشت و سبزیاں اور پھل جب بدبودار اور متعفن ہوجائیں تو کھانے کے لائق نہیں ہیں۔ ان سے صرف کھانے والا ہی بیمار نہیں ہوتا بلکہ وبائیں پھیلتی ہیں۔ مچھلی کا ذکر اس لئے کیا ہے کہ اس میں بہت جلد بدبواور تعفن پیداہوجاتاہے اور اس کا زہر بھی شدید ہوتاہے۔

وباؤں میں ہوا کا عمل دخل
چونکہ ہم کو وبا کے متعلق بہت سے مراتب اور احکام اور وہ امور کہ جو بغرض تحفظ صحت وبا کے زمانہ میں عمل میں لانا ضروری ہیں اور نیز اُن تدبیر ات جزئیہ کی توضیح کہ جو امراض وبائیہ میں مبتلا ہونے کے وقت ہمارے ملک اور ہمارے مزاجوں اور ہماری حالتوں کے لئے مناسب ہیں نہایت اہتمام کے ساتھ اس طرح سے بیان کرنا مقصود ہے کہ اس سے قبل ہمارے پیشواؤں نے نہیں بیان فرمائے اور چونکہ وبا کا ظہور اور واسطہ عروض (ظاہر ہونے کا سبب)غالب امر میں بالآخر یہی ہوا ہے کہ جو ہمارے اور تمہارے اور جملہ اجسام سے ہر وقت ملاتی رہتی ہے۔ لہذا ہم کو مناسب معلوم ہوتا ہے کہ وبا کے بیان اور اس سے حفظ کے تدبیر ات کی تشریح کے قبل بطور مقدمہ ہوا(Air)کی ضرورتوں اور اس کی صلاحیت اور عدم صلاحیت کی توضیح و تشریح کریں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی مدد کے اعتماد پر بیان کی جاتی ہے۔

واضح ہو کہ غذا اور پانی اور خواب و بیداری و حرکت و سکوں وغیرہ جن کی صراحت قبل اس کے عمدہ طور سے کی گئی ہے۔ انسان کے لئے عالم زندگی میں ضروری چیزیں ہیں مگر ان سب سے ہوا اشد ضروری ہے۔ محالات سے ہے کہ انسان و حیوان بلکہ ہر ذی روح ایک گھنٹہ میں ہوا سے مہجور اور ممنوع ہو کر زندہ رہے بلکہ اکثر اجسام جمادات کی طبعی حالت قائم رہنے کے لئے بھی ہوا کی مدد ضروری اور لا بدی ہے۔ چنانچہ یہ امور محتاج دلیل نہیں ہیں۔ با لجملہ تمام اجسام کے لئے خواہ وہ اجسام حیوانی ہوں یا اجسام نباتی یا اجسام جمادی ہوا کا مربی ہونا ایک بد یہی امر ہے۔ چونکہ ہوا کا مزاج گرم تر ہے اس لئے اس میں تغیرات کا ورود ہوتا رہتا ہے۔ وہ جلد جلد تحلیل بھی ہوتی رہتی ہے اور فوراً اس میں فسادات اور نقصانات بھی پیدا ہوتے رہتے ہیں جیسا کہ روزمرہ اس کے انقلاب اور اس کی تاثیر ات مختلف ہم کو اور آپ کو محسوس ہوتی رہتی ہیں، ان وجوہ سے ہوا کا مسئلہ بقائے صحت اور بقائے زندگی کے لئے نہایت درجہ اہتمام طلب اور قابل نگہداشت ہے۔ غرضیکہ یہ تغیرات جو ہوا میں عارض ہوتی ہیں ان کے لئے مختلف زمانے اور مختلف امور اتفاقیہ باعث ہوتے ہیں مگر جو تغیرات بالتسنبۃ احیتاج بدن انسان کے اس میں ہر وقت لاحق ہوتے رہتے ہیں ان کی تفصیل کی جاتی ہے۔ واضح ہو کہ سانس کی آمد و بر آمد سے بھی ہوا میں تغیرات پیدا ہوتے رہتے ہیں۔ بد یں غرض طبیعت تحلیل شدہ اور تغیر پذیر ہو اکی تبدیلی اور تردید کی محتاج رہتی ہے۔ وہ حرارت غریزی بدن انسان و حیوان کو ٹھنڈک پہنچاتی رہے اگر یہ تبدیل و تردید ہوا کی نہ ہوتی رہتی تو کچھ شک نہیں کہ روح و حرارت غریزی بدن انسان وغیرہ اپنی آگ میں خود جل کر بجھ کر خاک سیاہ ہو جاتی اور حضرت انسان کی ہنگامہ آرائیاں اور شور و غوغا عالم دنیا میں ایک دم سے خاموش ہو جائے گو ہوا کا مزاج گرم ہے مگر حکیم مطلق نے بکمال دانائی ضرورتاً روح کا مزاج نہایت ہی گرم پیدا کیا ہے حتیٰ کہ اس نرم گرم ہوا سے روح و حرارت مذکور کو راحت ملتی ہے۔ بالجملہ ہمارے ناک کے نتھنوں سے ہمارے تمام بدن کی جلد کے مسامات سے ذریعہ پھیپھڑا اور بدن کے شریانوں کی قوت جاذبہ کے ذریعہ سے ہوا روح و حرارت مذکور کو پہنچتی رہتی ہے اور جب ٹھنڈک پہنچا کر خود گرم ہو جاتی ہے اور صلاحیت ترویح (ٹھنڈک پہنچانے کی) معدوم ہو جاتی ہے تو وہ روح کے فضلات دخانی لئے ہوئے راستہ ہائے مذکورہ بالا سے واپس آ جاتی ہے اور پھر تازہ بتازہ ہوا کا تبادلہ ہوتا رہتا ہے یعنی اوپر کے سانس کے ذریعہ سے تازہ ہوا جاتی ہے اور نیچے کے سانس کی مدد سے وہی ہوا بیکار ہو کر واپس آتی ہے اور اسی طرح سے ہوا کی آمد و رفت شریانوں کے ذریعہ سے ہوتی رہتی ہے۔ القصہ جب تک یہ ہوا حرارت و برودت میں اعتدالیہ حالت پر رہتی ہے اور صفائی و پاکیزگی میں بھی اپنے رتبہ پر قائم رہتی ہے اس وقت مطالبہ مذکورہ کی عملی وجہ الکمال (پوری طرح) تکمیل ہوتی رہتی ہے اور جب حرارت و برودت و رطوبت و یبوست اور صفائی و پاکیزگی میں تغیرات واقع ہو جاتے ہیں تو اغراض مذکورہ بھی غیر مکمل رہ جاتے ہیں۔ بدیں وجہ صحت کا قائم رہنا ایک اضطراری حالت میں آ جاتا ہے یا موت غیر طبعی پر معاملہ ختم ہوتا ہے۔

ہوا کے غیر معتدل ہونے کی تشریح
اجمالاً تو ہم نے بیان کر دیا کہ صحت قائم رکھنے کی غرض سے ہوائے معتدل اور مصفیٰ کی ضرورت ہے۔ پس اب سمجھ لو کہ ہوائے معتدل کا عدمی مفہوم ہوائے غیر معتدل و غیر مصفیٰ ہے پس اگر ہوا میں اعتدال سے زیادہ سردی کا غلبہ ہو گا تو وہ ہوا مضر صحت ہو گی جیسا کہ زمانہ سردی میں یا معمورہ جات (آباد یاں ) سرد میں بوجہ تدارک ضرر سردی ہو، لباس گرم و اغذیہ گرم و مکان گرم کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر ہوا کی سردی کے دفع کا اہتمام نہ کیا جائے تو صحت کا قائم رہنا دشوار ہو گا۔ علی ٰ ہذ االقیاس اگر ہوائے گرم اور معمورہ گرم میں ہوائے گرم سے حفاظت نہ کی جائے یا ہوا کی کیفیت حرارت تدبیرات سے کم نہ کی جائے گی تو صحت کے لئے ایک افتاد کو خوفناک ہو گی یا ہوا پر اعتدال سے زیادہ تری کا اثر ہو گا تو اس وقت میں بھی تندرستی کی حالت میں نقصان آجائے گا۔ بشرطیکہ اس کا تدارک نہ کیا جائے۔ مثلاً برسات کے موسم میں یا ان معموروں میں کہ جو دریاؤں کے جوار میں آباد ہیں یعنی وہاں کی زمین نم ناک ہے یہ تغیرات مذکورہ تو ہوا کی کیفیات سے متعلق ہیں اب رہا یہ امر کہ ہوا کے جوہر کے فاسد ہونے کے کیا اسباب ہیں اور کیا حالت ہے۔ سو اس کی تفصیل سنیئے کہ ہوا ایک عنصر بسیط ہے لہذا وہ خود بنفسہ تو متغیر نہیں ہو سکتی ہے مگر بوجہ اسباب خار جی کے مثلاً بعض اجزاء منافی (خلاف) روح و حیات کے شدت امتزاج (آمیزش) کی وجہ سے مجازاً اطلاق ہوتا ہے کہ جوہر ہوا کا فساد پذیر ہو گیا ہے کہ جس کی وجہ سے یہ ہوا مضر تندرستی و مضر حیات ہو جاتی ہے۔

ہوا کے فاسد اور مضر حیات ہونے کے اسباب
ہوا کےفاسد ہونے کے اسباب یا تو وہ اسباب ہیں کہ جو ہماری قدرت و اختیار سے باہر ہیں یا ہمارے طریقہ بود و باش اور طرز عمل جاہلانہ سے پیدا ہو جاتے ہیں جن کی تشریح کچھ یوں ہے۔ مثلاً عین متصل آبادی ایسی زراعت کا کاشت کرنا جو طویل القامت ہو مثلاً جوار ، باجرہ ، مکئی یا گنا وغیرہ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسی زراعت کیوں کر ہوا کے جوہر کو فاسد کرتی ہے۔ سو اس سوال کا جواب اور اس اجمال کی تفصیل پڑھئیے۔ ایسی زراعت کی جڑوں سے زمینی بخارات اور دخان جو نکلتے ہیں اور نکلتے رہتے ہیں۔ چونکہ زراعت کے طویل القامت ہونے کی وجہ سے وہاں آزادانہ ہوا کا گزر نہیں ہوتا ہے لہذا نجارات و دخان مذکورہ اسی حدود کے اندر محصور اور مقید رہتے ہیں اور باوجود اس حبس بیجا کے ان بخارات و دخان پر آفتاب کی شعاع بھی بہت کم پہنچتی ہے اس وجہ سے وہ تحلیل بھی نہیں ہوتے ہیں ۔لہذا اس طول قیام اور علامات مفید کی وجہ سے ان میں مادہ فاسد ہ پیدا ہو جاتا ہے۔ پس جبکہ یہ بخارات و دخان فاسدہ وقتاً فوقتاً ہوا میں ملتے رہیں گے۔ تو اس میں کچھ شک نہیں ہے کہ ہوا کے جوہر کو فاسد کر دیں گے اور نتیجہ اس ہوا کا اس نتیجہ کے بالکل خلاف ہوگا کہ جو ہوائے غیر فاسدہ سے حاصل ہوتا ہے کہ جس کی صراحت اس بحث کے شروع میں کی گئی ہے یا ایسے تالاب یا وسیع گڑھوں کی موجودگی کہ جس میں ساکن پانی موجود ہو اور جن کے کناروں پر درختوں کا ہجوم ہو اور ان کی شاخ و برگ و پھول اور ثمرہ اس پانی میں گرکے متعفن ہوتے رہتے ہیں۔ پس ایسے پانی سے آفتاب حرارت کے ذریعہ سے بخارات گرم و کثیف سمی الجواہر(زہریلے) برانگیختہ کرے گا چونکہ در ختان مذکور کی مزاحمت سے بخارات مقیدہ تحلیل نہیں ہوں گے لہذا وہ بخارات پھر اسی پانی میں عود کریں گے۔ اسی طرح سے سلسلہ صعود اور نزول (چڑھنے اور اترنے) بخارات کا ہوتا رہے گا اور پانی کے جوہر کی روا رت اور سمیت(خرابی و زہریلا پن) میں اضافہ ہوتا رہے گا۔ پس یہ بخارات جب کہ ہوا میں مخلوط ہوں گے تو بلاشبہ ایسی ہو ا سراسر مغائیر اس غرض کی ہو جائے گی کہ جو صحت کے لئے درکار ہے اور علی ہذا لقیاس۔ جو پانی محض بوجہ طول قیام فاسد ہو گیا ہے اس کے بخارات بھی ہوا کے ساتھ وہی سلوک کریں گے کی جس کا بیان ابھی ہو چکا ہے۔

یا مردہ اجسام متعضنہ یا دیگر سڑی ہوئی بد بو دار اشیاء سے ہوا کی ملاقات ہوتی ہو کہ جس کی وجہ سے ہوا نے کیفیت متعضنہ حاصل کر لی ہے کہ جو بالاخر قلب و روح انسانی کے مزاج کی ضد ہو جائے۔ پس جس قدر ایسے اجسام یا اشیائے متعضنہ کی کثرت ہو گی اسی قدر ہوا کا فساد قوی ہو گا۔ یا بقولات و دیہ کی کاشت اور درختان ردی اور فاسد الجوہر کا وجود ہونا مثلاً گوبھی اور کرنب کلا و بینگن و درختان انجیر وغیرہ کہ یہ اشیاء نہایت درجہ مفسدہوا ہیں۔ یا ہوا میں گردوغبار و دخان اس درجہ مخلوط ہوجائے کہ جس کی وجہ سے وہ شریان کے ذریعہ سے قلب وغیرہ میں نافذ نہ ہوسکے یا قلب خود بوجہ نفرت و کراہت جذب نہ کرے بلکہ اس ہوا کی مدافعت کرے۔یاانسان و حیوان کا ایک مقام پر بکثرت مجمع ہوجانا علی المخصوص جب کہ اکثر ان میں کثیر الجسم اور کثیف اللباس ہوں یا حیوانات کثیف اللطبائع ہوں جیسا کہ ہمارے ملک میں میلوں وغیرہ میں مجمع ہوتاہے اس لئے کہ ایسی کثافت سے بحیثیت مجموعی ہوا میں ان وسائل سے نقصان و فساد ہوجانا قریباً یقینی ہے کہ جن کا ابھی مذکور ہوا ہے۔ بایں ہمہ اسے مجمع میں ان دخانات اور فضلات جسمانیہ کے خروج کا سلسلہ متواتر جاری رہتا ہے کہ جو تنفس و مسامات میں سے خارج ہوتے ہیں اور ہوا میں مخلوط ہوتے رہتے ہیں جس کی وجہ سےہوا کاجوہر خراب اور ناقص ہوجاتا ہے۔ بس ایسی ہوا کے مضر صحت ہونےمیں کیا کلام رہا۔ یا ہواکاسکونی حالت میں رہنا یعنی سلسلہ آمدو برآمد تازہ ہوا کا دشوار ہوجانا جیساکہ ہمارے ملک میں بعض تنگ و تاریک مکانات میں ہوا اور شعاع آفتاب کا مرور(گزر) و درآمد و برآمد دشواری سے ہوتاہے۔ خاصتہً ایسے مکانات کی ہوا اس وقت میں مفسد ہوجائے گی جبکہ وہاں آدمی یا کسی ذی روح کا مجمع ہو۔ بالجملہ یہ امور باعث فساد ہوا جوبیان کئے گئے ہیں انہیں امور پرفساد کا حصر نہیں ہے بلکہ اور اسباب جزئیہ مخفیہ باعث فساد ہوا ہوں گے۔یا بارش کابروقت نہ ہونا جس سے ہوا کا اعتدال خراب ہوجائے۔ اسی طرح بارش کی کثرت بھی ہوا کو خراب کردیتی ہے۔

وبا کن کن اسباب سے پیداہوتی ہے
منجملہ دیگر اسباب مذکورہ الذیل ایک سبب غالب ظہوروباکاجوہر ہوا کاکلیۃً اسباب مصرحہ صدر سے فاسد ہوجاناہوتا ہے۔ لفظ کلیۃً کی قید اس لئے لگائی گئی ہے کہ اگرجوہر ہوا کا کلیۃً فاسد نہ ہوگا بلکہ بوجہ فساد بوجہ ما (کسی قدر) عارض ہوگا تو یہ ہوا مضر صحت تو ضرور ہوگی مگر وبا کے پیدا کرنے کی قابلیت نہیں رکھے گی اور گاہے سبب اول وبا کاپانی کے جوہر کے فساد کی وجہ سے ہوتا ہے۔ کیا معنی پانی کا جوہر اس شدت سے اور اس نوع سے فاسد ہوجائے کہ باعث وبا ہو۔ پانی کے جوہر کی خرابی بوجہ مخلوط ہوجانے بعض اجزائے ردیہ ناقصہ متعفنہ(ناقص ، خراب اور بدبودار) کے ہوتی ہے۔ عام اس سے کہ اجزائے مذکورہ باطن یعنی داخل زمین سے ہی پانی میں مخلوط ہوجائیں یا خارج زمین سے جذب ہوکر پانی میں مخلوط ہوجائیں اور یہ فاسد پانی کھانے اور پینے میں استعمال کیاجائے۔ دونوں مذکورہ وجہوں سےظہور وبا بیشتر برسات کی فصل میں ہوتا ہے اس لئے کہ اس موسم میں داخل و خارج رہین میں لوازم عفونت و فساد ہواوپانی کے بیشتر موجود ہوجاتے ہیں مگر یہ فساد پانی کا رفتہ رفتہ یا ایک بار ہوا سے بھی متعلق ہوجاتاہے اس لئے کہ پانی کا استحالہ (تبدیل) ہوا کی جانب اور ہوا کا استحالہ(تبدیل) پانی کی طرف ہی ہوا کرتاہے۔ پس فساد ہی سے پانی کا فاسد ہوجانا بھی کوئی مشکل امر نہیں ہے۔ مگر صورت مذکورہ میں تعلق وبا کاہوا کے ساتھ نہایت ہی ضعیف ہوگایعنی اگر اس پانی کوحسب طریقہ مذکورہ اصلاح کرکے استعمال میں لایاجائے تو محض فساد ہواکی وجہ سے کہ اس پانی کے استحالہ سے پیداہواہے کوئی انسان بجز شاذونادر صورتوں میں مبتلائے وبا نہ ہوگایا عوارض وبا بہت ہی خفیف ظاہر ہوں گے۔ایسا ہی حال اس پانی کا خیال کرو کہ جو ناقص ہوا سے مستحیل(تبدیل) ہوا ہے یعنی یہ پانی ناقص تو ضرور ہوگا مگر اس کا نقصان ایسا قوی نہیں ہوگا جیسا کہ وہ خود فساد پذیر ہوجاتا۔ پس ہوا کے فساد کے دو مرتبے اس تحریر سے دریافت ہوتے ہیں۔اور گاہے بوجہ فساد مزاج بعض غلہ جات ماکولہ کے کہ جو کسی سبب سے فصل میں عارض ہوجائے اور وہ غلہ عامہ خلائق کے کھانے کے استعمال میں آئے۔ وبا عام طورسے پھیل جاتی ہے۔

اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ جس طرح سے انسان وحیوان کو امراض خلقت و امراض ترکیب یا امراض متعلقہ سوء مزاجات (خرابی مزاج) وغیرہ عارض ہوکر ان کےاجسام میں کیفیات ردیہ ناقصہ پیداکرتے ہیں بلکہ گاہے کیفیات مذکورہ حالت سمیہ کی حد تک پہنچتی ہے اس طرح سے قیاساً ممکن ہے کہ غلوں کو بھی بوجہ اسباب جزیہ مخصوصہ امراض مذکورہ لاحق ہوکران کے اجسام میں کیفیت ردیہ سمیہ (خراب و زہریلی) پیداکریں اس لئے کہ غلہ جات جسم مرکب بناتی ہیں اورہر جسم مرکب بناتی ہیں۔قوت ِ غاذبہ و نامیہ وغیرہ قوائے طبعیہ موجود ہیں ۔درجن اقسام ہیں قوائے مذکورہ موجود ہوں گے ان میں حوادث اور فساد قبول کرلینے کی کی استعداد زیادہ ہوگی لہذا کھانے والوں کو وبا کی صورت کے امراض لاحق ہونا امکانی حالت ہے۔ حتیٰ کہ یہ فساد بھی فساد ہواکی جانب اس درجہ تک ہوجائے گا یا ہوسکتاہے کہ جووبا کاباعث ہو۔ چنانچہ خاکسار کے اس قیاس کا تجربہ چند واقعات سے بلاشبہ ہوچکاہے۔ غلہ جات کی حالت پر میوہ جات اور ثمرہ اور ترکاریوں وغیرہ نباتات کے حالات قیاس کرلو کہ ان اجسام میں بھی وہی فسادات، وہی کیفیات سمیہ ، وہی صورت مزاجات لاحق ہوسکتے ہیں کہ جو غلوں کو عارض ہوسکتے ہیں اور یہ فساد اشیاء مذکورہ اس فساد کے علاوہ ہے کہ جو غلوں کو کھاتوں وغیرہ میں بند کرنے یا دیگر وجوہ سے ان کے جوہر کے تعفن ہونے سے پیداہوجاتاہے اور ایسا ہی جو فساد سے کہ جو موسم برسات میں طبعی طورسے اکثرپھل و میوہ جات وغیرہ و ترکاریاں و بقولات ناقص الجواہر ہوتی ہیں جس کی وجہ سےہوا فاسد ہوجاتی ہے، جداگانہ ہے۔ اگر فساد مذکورہ بواسطہ مذکورہ جوہوا کو عاض ہوگا وہ بہت قوی نہ ہوگا۔ اگر آفات واستمار ومیوہ جات مذکورہ سے احتراز کیاجائے تو ہوائے مذکورہ کی تاثیر سے کمترکوئی شخص مبتلاہوگا یا بہت ہی خفیف اعراض مرض وبائی ظاہرہوں گے اور گاہے تاثیرات مخفیہ سیارگان واجرام آسمانی کے ہوا میں ایک نفروفساد عارض ہوکروبا کا باعث ہوتاہے اور گاہے بوجہ بعض دیگر امور مخفیہ کے وبا عالم میں شائع ہوتی ہے جس کا علم بجز عالم الغیب کے اور کسی کو نہیں ہوسکتاہے اور گاہے اسباب مذکورہ سے دویا تین یا کل امور باعث وبا ہوتے ہیں۔ ایسی وبا عالم میں اسبابوں پر اموات کا ایک طوفان برپاکردیتی ہے۔(القانون)

از: حکیم وڈاکٹر جناب دوست محمد صابر ملتانی صاحب

طب قدیم میں پانی کی حقیقت
خالق دوجہاں پروردگار ِ زمین و آسماں ، قادر مطلق واحد حقیقی نے پانی بھی اپنی جملہ نعمتوں میں ایک انمول اور بے بہا بہترین نعمت بنائی ہے۔اس کو اردو میں پانی، ہندی میں جل، فارسی میں آب،انگریزی میں Water، اور عربی میں ماء کہتے ہیں۔ خالق ِ مخلوقات نے انسانی زندگی کا انحصار چہار اشیاء پر رکھا ہے۔ پانی، ہوا، آگ ، مٹی۔ اگر ان چاروں میں سے ایک چیز بھی جدا کرلی جائےتو پھر زندگی قائم نہیں رہ سکتی۔ لہذاثابت ہوا کہ پانی بھی انسانی زندگی کاایک جزو ہے اور جس طرح بغیر ہوا کے انسان زندہ نہیں رہ سکتا اسی طرح بغیر پانی کے بھی انسان کی زندگی قائم نہیں رہ سکتی ہے۔ زندگی کے لئے ہوا کے بعد پانی سب سے ضروری ہے ۔ چوں کہ فطرت کا منشا زندگی کو برقرار رکھنا ہے اس لئے پانی افراط سے مہیا کیا گیاہے۔ زمین کی سطح کے سات حصوں میں سے پانچ پر پانی ہے۔ فطرت کے زبردست عوامل حرارت اور ہوا وغیرہ اسے زمین کے مختلف حصوں پر پہنچانے میں مصروف ہیں۔ جسم کی ساخت میں دوتہائی سے زیادہ پانی ہوتا ہے۔ یہ غذا میں بدرقہ کا کام دیتاہے یعنی غذا کو بدن کے تمام حصوں میں لے جاتا اور قابل ِ ہضم بناتا ہے۔ یہ اندازہ کیا گیاہے کہ کل انسان کے جسم کادوتہائی وزن پانی کے باعث ہوتا ہے۔ اوسطاً تقریباً 4.50 پوائینٹ پانی کی ضرورت اور ہوتی ہے مگر جسم میں پانی کی ضرورت کا انحصار بہت سی باتوں سے تعلق رکھتا ہے۔ مثلاً حرارت جسمانی آب وہوا اور غذاکی کثرت یا قلت، ورزش آرام وغیرہ۔ جب پروٹین (کمی غذا)مثل گوشت، کباب، قیمہ ، بھناہوا گوشت، تیز مصالحہ دار اشیاء جب بکثرت کھانے میں آتی ہیں۔ توپانی کی جسم کو بہت زیادہ ضرورت ہوتی ہے اور بہت شدت سے پیاس لگتی ہے کیونکہ اس قسم کی غذا سے یوریا، فضلات خون کی مقدار زیادہ بنتی ہے جس کو تحلیل کرکے خارج کرنے کے لئے پانی کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے مگر فقط میوہ جات اور بقولات کھانےسے جسم میں پانی کی کافی مقدار جمع رہتی ہے۔بدن میں خون کی ایک مقررہ مقدار جسم کے اندازہ کے مطابق ہوتی ہے جب پانی کی مقدار جسم میں کم پہنچے توخون اعشاء عضلات و دیگر جسمانی ساختوں سے پانی کو جذب کرکے اپنی مقدار کو پورا کرلیتاہے اور اگر پانی زیادہ پیا جائے تو وزن کوپورا رکھنے کے لئے فالتو پانی گردوں یا جلد کے راستے جلد اخراج پاتا رہتاہے۔ ان کیفیات سے معلوم ہوتاہے کہ جسم کی ساخت اور احشاء اندرونی میں پانی کاذخیرہ رہتاہے جو ضرورت کے وقت خون میں شامل ہوسکتاہے۔ ڈراپسی آندی ٹشوزیعنی استسقائے لحمی میں جو بوجہ امراض قلب یا کلیہ ہوجاتی ہے۔ اگر پانی کی مقدار کم پی جائے تو اس کمی کو پورا کرنے کےلئےخون احشاء سے پانی کوجذب کرتا رہتا ہے برخلاف اس کے جب خون گاڑھا اور غلیظ ہوتا ہے تو نازک عروق شعریہ سے اس کے گزرنے کے لئے قلب کو زیادہ محنت اٹھانی پڑتی ہے۔ امراض قلب میں اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے۔پانی تمام احشائے اندرونی کو دھوکر صاف کرتا رہتا ہے اور بہت سےفاسد مادے اور زہریلی رطوبات کواپنے ہمراہ جسم سے خارج کرتا رہتا ہے۔ جس میں اس کا یہ فعل ازحد مفید ہے۔ معدنی چشموں کے پانی اس کام کے لئے بطور دوائی اسی اصول کے مطابق فی زمانہ بکثرت استعمال ہوتے ہیں۔ علاوہ احشائے اندرونی کے تمام خرج کنندہ اعضاء مثلاً گردہ، مثانہ نائیزہ کو پانی خوب دھوکر پاک و صاف کرتا رہتا ہے۔ پس امراض گردہ، مرض نقرس اور شدید پتِوں میں پانی کا بکثرت پینا ازحد مفید ہے اور جناب حکیم جالینوس نے حمیات میں مریض کوپانی دینا جائز قرار دیاہے۔

خواص
پانی بے ذائقہ، بے بو اور بے رنگ سیال ہے۔ زیادہ گہرائی میں دیکھنے سے یہ نیلگوں نظر آتا ہے ۔ یہ صفر درجہ پر جم جاتا ہے اور 100 درجہ پرجوش کھانے لگتا ہے۔ پانی کی تین حالتیں ہیں۔ ٹھوس یعنی برف۔ سیال یعنی پانی۔ گیس یعنی بھاپ۔ پانی سب سے بڑا محلول ہے اس لئے اس کو محلل کل بھی کہتے ہیں۔

فوائد
انسانی جسم میں ستر فیصد پانی ہوتا ہے۔ ہر روز ایک بالغ فرد کے لئے بدن سے بول براز ، پسینہ اور سانس کے ذریعے تقریباً تین سیر پانی خارج ہوتا ہے۔ اس کمی کو پورا کرنے کے لئے پانی کا استعمال ناگزیر ہے۔ جسم انسانی کے تمام کیمیائی اعمال کے لئے پانی ضروری ہے۔ غذا کے لئے جزو بدن بننے کے لئے اس کا تحلیل ہونا ضروری ہے پانی غذا تحلیل کرتاہے۔ فضلات کا بدن سےاخراج کرتاہے۔ بدن کا درجہ حرارت یکساں رکھتا ہے۔ خون میں پانی کی مقدار تقریباً 80 فیصد ہے۔ کھانے، غسل اور صفائی وغیرہ میں کام آتا ہے۔

ذرائع
پانی حاصل کرنے کے ذرائع مندرجہ ذیل ہیں۔

سمندر
سمندر کا پانی سب سے زیادہ کثیف اور غیر خالص ہوتا ہے۔دریا اپنی تمام کثافتیں بہا کرسمندر میں لے جاتے ہیں۔ عمل تبخیر کے ذریعے سمندر سے خالص پانی کا اخراج ہوتا رہتا ہے اور کثافتوں کا تناسب بڑھتا رہتا ہے۔ سمندر کے پانی میں نمک طعام کا تناسب اوسطاً 2.6 فیصدی ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ پوٹاسیم، کیلسیم اور ہرمیگنیشیم کے اجزاء بھی متعدبہ ہوتے ہیں۔ سمندر کے پانی سے نمک حاصل کیا جاتا ہے۔ کثافتوں کی وجہ سے سمندری پانی پیا نہیں جا سکتا اور اسے پینے سے پہلے کشید کرنا پڑتا ہے۔

بارش
یہ سمندر کی تبخیر کا نتیجہ ہے اس لئے اسے بھی کشیدکردہ پانی کی طرح صاف ہونا چاہیے لیکن جب بارش کا پانی ہوا میں سے گزرتا ہے تو ہوا کی کئی اشیاء اس میں حل ہوجاتی ہیں مثلاً تیزاب، شورہ، امونیا، آکسیجن، کاربن ڈائی آکسائیڈ، مرکبات گندھک، گردوغبار اور جراثیم وغیرہ ۔ البتہ جب کچھ دیر تک بارش ہوچکے تو یہ پانی کافی حدتک صاف ہوتا ہے۔ بارش کے پانی میں معدنیات شامل نہیں ہوتے اس لئے یہ خوش ذائقہ اور ہاضم نہیں ہوتا۔

دریا
دریا کاپانی بارش، پہاڑوں کی برف، جھیلوں ، چشموں اور ندی نالوں کے پانی کا مجموعہ ہوتا ہے۔ ان سب کثافتوں کے علاوہ جس رستے سے بہتا ہے اس کی غلاظتیں اور کثافتیں بھی اس میں شامل ہوجاتی ہیں۔ یہ بعض قدرتی ذرائع سے صاف بھی ہوتا رہتا ہے۔ پانی زیادہ ہونے کی وجہ سے کثافتوں کا تناسب کم ہو جاتا ہے۔ ہوا کی آکسیجن پانی میں مل کر بہت سی کثافتیں دور کردیتی ہے۔ بعض معلق کثافتیں تہ میں بیٹھ جاتی ہیں۔ دھوپ سے بھی کثافتیں دور ہوتی ہیں۔ مچھلیاں ، آبی حیوانات و نباتات بہت سی کثافتیں ختم کردیتے ہیں۔ بالعموم دریاکا پانی پینے کے قابل نہیں ہوتا اور اسے پینے سے پہلے ابال لینا چاہیے۔

ندی و نہراور جھیلیں
ندیاور نہروں کا پانی دریا سے کہیں زیادہ کثیف اور پینے کے قابل نہیں ہوتا۔ جھیلوں میں بارش اور ندی وغیرہ کا پانی ہوتا ہے۔ عموماً یہ صاف اور پینے کے قابل ہوتاہے۔ گاہے وادیوں یا نشیب میں بند باندھ کرمصنوعی جھیل بنائی جاتی ہے۔

تالاب، جوہڑ اور چشمے
نہانے ، دھونے اور مویشیوں کو پانی پلانے کی وجہ سے تالاب کا پانی کثیف اور ناقابل استعمال ہوتا ہے۔ جہاں آب رسانی کادارومدار تالاب پر ہو وہاں ان امور کی مخالفت کر دینی چاہیے۔ جوہڑ کاپانی کثیف اور ناقابل استعمال ہوتاہے۔ چشموں میں بارش کے پانی کا اوسطاً تہائی حصہ زمین میں جذب ہوجاتا ہے یہ جس زمین میں جذب ہوتا ہے اس کی بہت سی اشیاء بھی اس میں جذب ہوجاتی ہیں۔ اگر یہ کسی ایسے غیر پذیر طبقہ میں جمع ہوجائے جس کی بالائی سطح مسامدار ہوتو یہ پانی چشمے کی صورت میں پھوٹ پڑتا ہے ۔ عموماً یہ پانی عمدہ اور پینے کے قابل ہوتا ہے۔ اگر اس میں چونا وغیر ہ معدنیات ہوں تو اسےابال کرپینا چاہیے۔

اوتھلا یا سطحی یا سطحی کنواں
ایسے کنوئیں زمین کی پہلی غیر نفوذ تہ تک کھودے جاتے ہیں۔ ان میں قریب کی بیرونی سطح سے جذب ہوکرپانی آتارہتا ہے۔ کنوؤں کے قریب آبادی اور گندی نالیاں ہوتی ہیں اس لئے ان کا پانی رس رس کر کنوئیں میں آتا رہتا ہے اور اس کے پانی کوغلیظ بنا دیتا ہے۔

گہرا یا عمیق کنواں
یہ زمین کی دوسری غیر نفوذ پذیر تہ تک کھودے جاتے ہیں ان میں پانی پانی چھن کر آتا ہے اور نامیاتی کثافتوں سے صاف ہوتا ہے۔ گاہے یہ معدنی اجزاء کی شمولیت سے بھاری ہوجاتا ہے۔

معیاری کنواں
اسے گہراؤ اور نشیب ، دلدل یا قبرستان سے دور ہونا چاہیے۔ اس کی دیواروں پر سیمنٹ کا پلستر اور منڈیر زمین سےدو تین فٹ اونچی ہونی چاہیے۔ چار پانچ فٹ تک چاروں طرف زمین ڈھلوان اور پختہ ہو۔ پانی بہنے کے لئے ایک پختہ نالی ہو، کنوئیں کا منہ بند ہواور اس میں صرف پانی نکالنے کا راستہ ہو جوپانی نکالنے کے بعد بند کردیا جائے۔ کنوئیں سے دو سو فٹ تک بیت الخلا، غلاظت کا ڈھیر یا گڑھا نہ ہو۔ کنوئین سے پچاس گز کے فاصلے تک نہانے دھونے اور مویشیوں کو پانی نہ پلایا جائے۔ کنوئیں سے پانی نکالنے کے لئے لوہے کا ڈھول اور زنجیر استعمال کی جائے۔ سال میں ایک دفعہ کنوئیں کو صاف کیا جائے۔

نل کا پانی
شہروں میں نلوں کے ذریعے پانی پہنچایا جاتا ہے۔ یہ پانی دریا جھیل یا گہرے کنوؤں سے حاصل کیا جاتا ہے۔ بالعموم یہ پانی تقسیم سے قبل مقطر کیا جاتا ہے۔ نل کا پانی صاف اور پینے کے لئے عمدہ ہوتا ہے لیکن اگر نل زنگ آلود ہوجائے اور شکستہ ہوجائیں تو یہ پانی غلیظ اور مضر صحت ہوجاتا ہے۔

پانی کی کثافتیں
یہ کثافتیں دو قسم کی ہوتی ہیں۔ 1۔ محلول۔2۔ معلق

1۔ محلول کی کثافتیں: ان میں معدنیات اور گیسیں شامل ہیں یہ کم مقدار میں مضر نہیں لیکن زیادہ ہوں تو پانی ضرر رساں ہوتا ہے۔2۔ معلق کثافتیں: ان میں نباتاتی اور حیوانی کثافتیں، ریت کے ذرات وغیرہ کے ذرات کیڑوں کے تخم اور جراثیم شامل ہیں۔

پانی کی اقسام
پانی کی دو اقسام ہیں۔ 1۔ ہلکا پانی ۔2۔ بھاری پانی۔ 1۔ ہلکاپانی: عام پانی ہے اس میں صابن اچھی طرح جھاگ دیتا ہے۔ 2۔ بھاری پانی: اس میں چونے اور میگنیشیم کے نمکیات حل ہوتے ہیں۔ جب اس پانی میں صابن ملایا جاتاہے تویہ نمکیات صابن سے مل کرناقابل حل مادہ بنا دیتے ہیں اور جھاگ کی بجائے پھٹکیاں سی بن جاتی ہیں۔ یہ پانی دھونے یا پکانے کے قابل نہیں ہوتا اور اس میں غذانہیں گلتی۔ لیکن اسے پینے میں کوئی حرج نہیں ہوتا۔بھاری پانی کی مزید دو اقسام ہیں۔ 1۔ عارضی بھاری پانی۔2۔ مستقل بھاری پانی۔1۔ عارضی بھاری پانی: اس میں چونے اور میگنیشیم کے بائی کاربونیٹیس شامل ہوتے ہیں۔ اس پانی کوجوش دینے سے یہ محلول مرکبات کی صورت اختیار کر لیتے ہیں اور پانی چھاننے سے علیحدہ ہو جاتے ہیں۔2۔ مستقل بھاری پانی: اس میں چونے اور میگنیشیم کے نمکیات حل ہوتے ہیں جوش دینے سے ان میں فرق نہیں پڑتا۔ البتہ کپڑے دھونے کا سوڈا شامل کرنے سے یہ جاتے رہتے ہیں۔

معدنی پانی
اگر پانی میں معدنی محلول کی مقدار زیادہ ہوتو اسے معدنی پانی کہتے ہیں۔ بالعموم اسے ان معدنیات سے منسوب کیا جاتا ہے جو اس میں نمایاں ہو مثلاً اگر گندھک یا اس کے مرکبات زیادہ ہوں تو اسے گندھک کا پانی کہتے ہیں۔ اس کے چشمے کراچی میانوالی، ہزارہ، نتھیا گلی وغیرہ میں ہیں ۔ ان کا پانی خارش اور دیگر جلدی امراض میں مفید ہوتا ہے۔ جن چشموں کے پانی میں لوہے کے نمکیات حل ہوں اسے آہنی پانی کہا جاتا ہے۔ اگر پانی میں کڑوے نمکیات ، ایپشم سالٹ (Magnesium Sulphate) محلول ہوں تو اسے کڑوا پانی کہاجاتا ہے۔ یہ پانی مسہل ہوتا ہے اور گنٹھیا وغیرہ کے لئے سودمند ہوتا ہے۔ناقص پانی کے امراض : کڑوا پانی پینے سے اسہال آتے ہیں، میگنیشیم کے نمکیات سے اپھارہ ہوجاتاہے۔ پانی میں طفیلی اجسام اور ان کے تخم ہوں تو بدہضمی اور درد اپھارہ ہوجاتاہے۔ ہیضہ پیچش وغیرہ کے جراثیم پانی میں ہوں تو یہ امراض پیداہوجاتے ہیں۔پینے کا پانی صاف، بے بو اور بے رنگ ہونا چاہیے۔ معلق یا محلول کثافتوں سے پاک ہو البتہ معدنی نمکیات کم مقدار میں نہ صرف بے ضرر بلکہ مفید ہوتے ہیں۔ اس میں امراض کے جراثیم نہ ہوں۔

پانی کی صفائی
پانی کی کثافتیں دور کرنے اور اسے صاف کرنے کے تین طریقے ہیں۔1۔ طبعی طریق(Physical Method) اس کے بھی دو طریق ہیں۔1۔ عمل کشید(Distillation): اس عمل میں پانی کو بخارات بنا کرعرق کی طرح کشید کرلیاجاتا ہے اس سے پانی کی کثافتیں دور ہوجاتی ہیں اور وہ صاف ہو جاتا ہے لیکن یہ طریقہ بہت گراں ہے۔ بحری جہازوں میں اس طرح سمندر کے پانی کو قابل استعمال بنایاجاتا ہے۔2۔ جوش دینا (Boiling Method): پانی ابالنے سے اس کی تمام نباتی و حیوانی کثافتیں دور ہوجاتی ہیں۔ امراض کے جراثیم ہلاک ہوجاتے ہیں ۔ چونے اور میگنیشیم کے نمکیات تہ میں بیٹھ جاتے ہیں۔ مضر گیسیں نکل جاتی ہیں۔ کشید کرنے یا ابالنے سے پانی کی ہوا خارج ہوجاتی ہے اور یہ خوش ذائقہ نہیں رہتا۔ یہ نقص دور کرنے کے لئے پانی کو چند بار کسی قدر فاصلے سے الٹ پلٹ کرلینا چاہیے اس طرح پانی میں ہوا حل ہوجاتی ہے اور یہ خوش ذائقہ ہوجاتاہے۔2۔ کیمیائی طریق: رسوب کرنا ۔ پانی میں بعض کیمیائی اشیاء پھٹکڑی اور چونا شامل کرنے سے جراثیم ہلاک ہوجاتے ہیں اور پانی کے محلولی مادے اور نامیاتی کثافتیں بیتھ جاتی ہیں ۔ ایک گیلن پانی میں تقریباً ایک رتی پھٹکڑی ملائی جاتی ہے۔۔2۔ جراثیم کش ادویات: پانی میں جراثیم کش ادویات شامل کرنے سے پانی صاف ہوجاتا ہے اس غرض کے لئے عموماً بلیچنگ پاؤڈر اور پوٹاسیم پرمیگنیٹ استعمال کیا جاتا ہے۔ بلیچنگ پاؤڈر: اس دوا میں سے چائے کا آدھا چمچ ، دس چھٹانک پانی میں حل کریں ، اس محلول میں سے ایک چائے کا چمچ دس گیلن پانی صاف کرسکتا ہے۔2۔ پوٹاسیم پرمیگنیٹ کنوؤں اور تالابوں کا پانی صاف کرنے کے لئے بہت مفید ہے۔ اسے اتنی مقدار میں ملانا چاہیے کہ پانی کا رنگ ارغوانی ہوجائے۔ کنوئیں کے حجم کے اعتبار سے ایک چھٹانک سے چار چھٹانک تک پوٹاسیم پرمیگنیٹ اس میں ڈالیں۔ اگر اسے رات کو کنوئیں میں ڈالا جائے تو صبح تک پانی قابل استعمال ہوجاتا ہے۔3۔ آلاتی طریق (عمل تقطیر، پانی چھاننا): اس طریق میں پانی کو مخصوص آلات کے ذریعے صاف کیا جاتا ہے لیکن اس سے صرف نامیاتی کثافتیں دور ہوجاتی ہیں۔ اس لئے یہ قابل استعمال نہیں ہوتا ۔ بہتر یہ ہے کہ پانی میں بلیچنگ پاؤڈر ملایاجائے پھر مقطر کیاجائے۔ عمل تقطیرکے دو طریقے ہیں۔1۔ حوض: شہروں میں پانی صاف کرنے کے لئے خاص حوض بنائے جاتے ہیں ان حوضوں میں دریا کنوئیں کاپانی چوبیس گھنٹے تک رہتا ہے جس کی وجہ سے پانی کی تمام کثافتیں تہ نشین ہوجاتی ہیں۔ یہ پانی نلوں کے ذریعے دوسرے حوضوں میں منتقل کرکے مقطر کیا جاتا ہے۔2۔ آلات تقطیر(Filter): خانگی ضروریات کے لئے استعمال کئے جاتے ہیں۔ ان میں پاسچر چمبرلین فلٹر عمدہ ترین ہوتا ہے۔ 3۔ تین گھڑوں کا فلٹر: تین مٹی کے گھڑے اوپر نیچے رکھ کر پانی مقطر کرنے کا پرانا طریقہ مضر ہوتا ہے۔ (غذائے انسانی)

از: حکیم وڈاکٹر جناب دوست محمد صابر ملتانی صاحب

وبائی امراض کی تقسیم
چونکہ وبائیں قانون فطرت کے مطابق اور منظم طریق پر آتی ہیں۔ اس لئے ان سے پیدا ہونے والی بیماریاں بھی اپنےاندر ایک خاص اصول اور ضبط رکھتی ہیں۔ جیسا کہ ہم گزشتہ صفحات میں تحریر کر چکے ہیں کہ مقامی فضا یا آب وہوا (پانی ہوا کا قوام )میں کمی بیشی و تغیرو تبدل اور فساد و خرابی ہی سے وباؤںکا ظہور ہوتا ہے اور ان سے پیداہونے والی بیماریاں بھی اسی نظم و ضبط کے ساتھ نمودار ہوتی ہیں۔ جاننا چاہیے کہ مقامی فضا اور آب و ہوا میں کمی بیشی و تغیر و تبدل اور فساد و خرابی میں کبھی ہوا کا اثر ہوتا ہے اور پانی میں زیادتی اور کبھی حرارت کی افراط ہوتی ہے۔ اس لئے وبائی امراض بھی انہی کی مناسبت سے پیداہوتے ہیں۔ یہ کبھی نہیں دیکھا گیا کہ فضااور آب و ہوا میں حرارت کی افراط کے ساتھ امراض ہوا کی خرابی کےپیدا ہوں یا ہوا کے اثرات میں تیزی ہو اور امراض پانی کے نمودار ہوجائیں ۔ اسی طرح اگر فساد پانی میں پیدا ہو اور امراض حرارت کے ظاہر ہو جائیں ۔ ایسا ہرگز نہیں ہوگا۔ بلکہ نظم و ضبط ہر جگہ اور ہر صورت میں قائم رہے گا۔ بعض اہل فن اور صاحب علم یہ اعتراض کر سکتے ہیں کہ جب فضا اور آب و ہوا میں تعفن اور فساد پیدا ہوجائے ۔خصوصاً جراثیمی زہروں کی صورت میں تو یہ نظم و ضبط قائم نہ رہ سکے۔نہیں! ایسا ہر گز نہیں ہوگا۔ یہاں بھی یہی نظم و ضبط قائم رہے گا۔ کیونکہ قانون فطرت ہر جگہ ایک ہی صورت میں کام کرتا ہے۔اس میں ذرا بھر تبدیلی نہ ہوگی جو خرابی حرارت میں پیداہوگی اس میں حرارت کا اثر غالب رہے گا۔ البتہ حرارت میں تعفن اور فساد کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ جو فساد پانی میں پیدا ہوگا بالکل اسی کی مناسبت سے اس میں زہریا جراثیمی اثرات ظاہر ہوں گے۔ اسی طرح جو تعفن ہوا میں نمودار ہوگا بالکل اسی مناسبت سے زہر یا جراثیمی مادے اپنا اثر کریں گے۔ اس کی مثال بالکل ایٹم بم کی ہے۔جس قسم کا ایٹم (ابتدائی کائناتی عنصر) پھٹے گا اسی قسم کا اثرات فضا اور آب و ہوا میں پیداکرے گا۔اگرچہ تباہی کرنے میں سارے برابر ہوں گے مگر ہائیڈروجن بم (پانی کے ابتدائی عناصر) کے پھٹنے سے جو اثرات ظاہر ہوں گےوہ دیگر اقسام کے ایٹم بم کے پھٹنے سے ظاہر نہیں ہوں گے۔ اس لئے جب اس ایٹم زدہ فضا یا آب و ہوا اور ذی حیات کا مداوا کیاجائے گا تو لازمی امر ہے کہ ایٹم کے ابتدائی عناصر کو ضرور سامنے رکھا جائے گا ورنہ مداوا بالکل ناممکن ہوجائے گا۔ یہاں پر یہ نکتہ بھی ذہن نشین رکھ لیں کہ ایٹم کی تباہی سے جو ہلاکت خیزی پیداہوتی ہے وہ جراثیمی نہیں ہوتی اگرچہ بعد میں سوزش سے جراثیمی زہر قبول کرلے۔ مگر ابتداً ان سے جو ہلاکت پیداہوتی ہےوہ جسم و روح بلکہ زندگی کو تو جلا دینے تک محدود ہوتی ہے۔ مقصد یہ ہے کہ ہر تباہی و ہلاکت صرف جراثیم تک محدود نہیں ہے بلکہ مقامی فضا اور آب و ہوا کے مزاج کے بگڑ جانے سے بھی زندگی اور ذی حیات ختم ہو جاتے ہیں بلکہ موالید ثلاثہ تک جل بھن کر راکھ ہوجاتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ زندگی اور حیات بلکہ غیر ذی حیات بھی جن کا مدار ہوا پانی پر ہے اس کے بغیر کیسے قائم رہ سکتی ہیں۔ صرف جراثیم تک وبائی امراض کو محدود کرلینا فرنگی طب کی غلط فہمی اور کوتاہ نظری ہے۔ حیقیت یہ ہے کہ جب ایٹم کی تباہی میں ہر قسم کی نباتاتی و حیوانی زندگی ختم ہو تی ہے بلکہ عمارات بھی جل جاتی ہے تو جراثیم کیسے زندہ رہ سکتے ہیں۔

آگ ہوا پانی کے اثرات
یہ تو مسلمہ حقیقت ہے کہ آگ و ہوا پانی کے جسم انسان پر اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ کبھی معمولی اور کبھی شدت کے ساتھ ہوتے ہیں لیکن ان کے اثرات انسان کے مفرد اعضاء پر کیا ہوتے ہیں اور کس قسم کے ہوتے ہیں۔ اس کے متعلق فی الحال فرنگی سائنس بے خبر اور ناواقف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ وبائی امراض کی حقیقت کا صحیح اور یقینی علم نہیں رکھتی اور اندھیرے میں عطایانہ تیر چلاتی ہے۔یہ تو یقینی امرہے کہ آگ ہواپانی کے اثرات جسم انسان پر ایک ہی جیسے نہیں ہوتے ، آگ کا اثر جدا ہےاور ہوا پانی کے اثرات الگ اور علیحدہ ہیں۔ لازمی صورت ہے کہ یہ اثرات جسم انسان کے مختلف اعضاء خصوصاً اس کے مفرد اعضاء پر جداجدا قسم کے ہوتے ہیں اور الگ الگ علامات ظاہر کرتے ہیں۔ جب تک ہم آگ ہوا پانی کے اثرات کو ان کے جدا جدا مفرد اعضاء پر علیحدہ علیحدہ نہ سمجھ لیں ہم آگ ہوا پانی کے غیر معمولی اثرات سے پیداہونے والے امراض کو کبھی پورے طورپر نہیں سمجھ سکتے ۔ ان کا پورے طورپر ذہن نشین کرنا ہی وبائی امراض کی حقیقت کو پالینا ہے۔

مفرد اعضاء کی تقسیم
انسان کی پیدائش ایک کیسہ(Cell) سے ہے جو ایک حیوانی ذرہ کہلاتا ہے۔ جسم کی تقسیم در تقسیم سے اپنی بافت اور ساخت سے انسان کا مکمل جسم تیار کرتے ہیں۔ یہ کیسے ساخت و بافت کے لحاظ سے چار قسم کے ہوتے ہیں۔1۔ عصبی بافت(Neural Tissues)۔ 2۔عضلاتی بافت(Muscular Tissues)۔3۔ قشری بافت(Glandular Tissues)۔ عصبی بافت سے تمام جسم کے اعصاب تیارہوتے ہیں جن کا مرکز دماغ ہے۔ عضلاتی بافت سے تمام جسم کا گوشت اور مچھلیاں تیار ہوتے ہیں جن کا مرکز دل ہے۔ قشری بافت سے تمام جسم اندرونی او ر بیرونی پوست و جلد اور غدد بنتے ہیں جن کا مرکز جگر ہے اور الحاقی بافت سے تمام جسم کی ہڈیاں ، رباط اور اوتار تیار ہوتے ہیں اور تمام جسم کا بھراؤ بھی اسی الحاقی بافت سے ہوتا ہے بلکہ خون میں بھی اسی کا اثر غالب ہے۔ گویا الحاقی بافت بنیاد کاکام کرتے ہیں۔

جاننا چاہیے کہ خون کے علاوہ اعضاء دو قسم کے ہوتے ہیں۔ اول بنیادی اعضاء : جن میں ہڈیاں ، رباط، اوتار اور جسم کا بھراؤ ہوتا ہے، شامل ہیں۔ دوسرے حیاتی اعضاء : جن میں اعصاب ، عضلات اور غدد شریک ہیں۔ جن کے مراکز علی الترتیب دماغ، دل اور جگر ہیں ۔ انہی سے انسانی زندگی قائم ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ دل و دماغ اور جگر تینوں اپنی بناوٹ و شکل اور افعال کے لحاظ سے ایک دوسرےسے بالکل مختلف ہیں۔ ان سے ان کی اغذیہ بھی مختلف ہیں اور ان پر مختلف اقسام کے اثرات ہوتے ہیں جن کا جدا جدا جاننا ہی ان کو صحیح طریق پر ذہن نشین کرنا ہے۔

مفرد اعضاء پر آگ پانی اور ہوا کے اثرات
چونکہ مفرد اعضاء اپنی بناوٹ و شکل اور افعال کے لحاظ سے بالکل جداجدا ہیں اور آگ ہوا پانی بھی اپنے اثرات میں بالکل الگ الگ ہیں بلکہ ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کائنات صغیر (زندگی) کا کائنا ت سے تعلق کیا ہے؟ دوسرے یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ نفس کا آفاق سے کیا تعلق ہے؟ تاکہ زندگی اور کائنات کو سمجھ لینے کے بعد ہم ان کے اچھے وبرے اثرات کو ایک دوسرے پر پوری طرح جان سکیں۔

جاننا چاہیے کہ جسم انسان میں جب پانی اپنا اثر کرتا ہے تو رطوبت اور بلغم کی تعداد بڑھ جاتی اور حرارت کم ہوجاتی ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ جب اعصاب میں تحریک پیداہوتی ہے تو بھی جسم انسان میں بلغم اور رطوبت کی مقدار بڑھ جاتی ہے۔ طب قدیم میں اعصاب کی غذا بلغم تسلیم کیا گیا ہے۔ فرنگی سائنس میں بھی اعصاب کی غذا کےلئے گلیسرین اور فاسفورس ضروری ہے۔ ثابت ہوا کہ پانی کا اثر اعصاب کے فعل میں تیزی پیداکرتا ہے اور اس کی کمی اس کے فعل میں سستی پیداکردیتی ہے۔اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ جب انسان میں ہوا کا اثر زیادہ ہوجاتا ہے تو خون میں جوش اور خشکی بڑھنی شروع ہوجاتی ہے۔ جب عضلات میں تحریک ہوتی ہے تو اس سے انقباض پیداہوتا ہے دل کا فعل تیز ہوجاتا ہے اور حرارت کی پیدائش بڑھ جاتی ہے۔ طب قدیم عضلات کی غذا کےلئے خون کو پیداکرنے والی اشیاء تسلیم کرتی ہے اور فرنگی طب میں عضلات کی غذا میں اجزاء لحمیہ اور سرخ ذرات کو خون تسلیم کیا گیا ہے ان سب میں ہوا کےاجزا بہت زیادہ نہیں ہیں۔یہاں تک فولاد اور ایسی اغذیہ اور ادویہ جن میں فولاد کےاجزاء زیادہ ہیں جسم میں ہوا کی مقدار کو بڑھا دیتے ہیں۔ ان حقائق سے ثابت ہوا کہ ہوا کا اثر عضلات پر زیادہ ہے اور وہ عضلات کے فعل کو تیز کردیتی ہے او ر اس کی کمی عضلات اور دل کے فعل میں سستی پیداکردیتی ہے۔

پانی اورہوا کے بعد ہم دیکھتے ہیں کہ جسم انسان میں جب حرارت کے اثرات زیادہ ہوجاتے ہیں تو رطوبت اور خشکی کی بجائے حرارت کی زیادتی اور صفرا کی مقدار بڑھ جاتی ہے۔ یہی صورت اس وقت بھی سامنے آتی ہے جب جگر (غدد) کے فعل کو تیز کردیا جاتا ہے۔ طب قدیم نے جگر کی غذاصفرا تسلیم کیا ہے اور فرنگی طب بھی جگر کی غذا میں گندھک کی ضرورت کو نمایاں تسلیم کرتی ہے۔ ان حقائق سے ثابت ہوا کہ جگر(غدد) پر حرارت اور گرمی کا زیادہ اثر ہوتا ہے اور وہ اس کے فعل میں تیزی پیداکر دیتی ہے اور جب اس میں کمی واقع ہوتی ہے تو جگر کا فعل سست ہوجاتا ہے۔

وبائی امراض کا مفرد اعضاء سے تعلق
طب قدیم دل ، دماغ اور جگر کو اعضائے رئیسہ تسلیم کرتی ہے اور فرنگی طب اعصاب و عضلات اور غدد کے بنیادی اعضاء ، ٹشوز (بافتیں) کو حیاتی اعضاء مانتی ہے اور انہی پر زندگی اور حیات رواں دواں ہے۔ انہی کے صحیح حالت میں رہنے سے صحت قائم رہتی ہے اور انہی کے افعال میں خرابی پیدا ہونےسے امراض نمودار ہوجاتے ہیں اور ان میں سے اگر کسی ایک کا فعل بالکل باطل ہوجائے تو موت واقع ہوجاتی ہے۔ ہم ثابت کرچکے ہیں کہ ان پر گرمی و ہوا اور پانی کے جداجدا اثرات ہوتے ہیں اور جب کوئی وبا ظاہر ہوتی ہے تو اس میں بھی کبھی گرمی کی زیادتی ہوتی ہے تو کبھی ہوا اور پانی کے اثرات زیادہ ہوتے ہیں اس لئے یہ تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ جب بھی کوئی وبا نمودار ہوتی ہے تو وہ اپنے اثرات کے مطابق نظم و ضبط کے ساتھ ایک خاص قسم کے امراض پیداکردیتی ہے وہ امراض زہریلے ہوں یا غیر زہریلے یہ وبا کی نوعیت پر منحصر ہوتے ہیں۔

جاننا چاہیے کہ جب وبا میں پانی کے اثرات زیادہ ہوں تو اعصاب میں تیزی پیداہوجاتی ہے جس سے ایسے امراض پیدا ہوتے ہیں جن میں رطوبات و بلغم کی زیادتی اور حرارت میں کمی واقع ہوجائے مثلاً نزلہ زکام، محرقہ دماغی، بلغمی کھانسی، قے، اسہال اور ہیضہ وغیرہ۔ اور جب یہ مزمن صورتیں اختیار کر لیں تو ان سے طاعون اور آتشک جیسے امراض بھی پیدا ہوجاتے ہیں۔جب وبا میں ہوا کے اندر تیزی پیدا ہوجائے تو سرسام، نمو نیا، محرقہ بدنی اور ہارت فیلور جیسے امراض ظاہر ہوجاتے ہیں۔ جب وبا میں گرمی کے اندر تیزی آجائے تو نزلہ حار، پسلی کو درد (پلورسی) ملیریا اور زرد بخار جیسے امراض نمودار ہوجاتے ہیں یا ایسے امراض پیدا ہوتے ہیں جن کا ان سے تعلق ہوتا ہے۔

یہ ہیں وہ حقائق ، جو ہماری تحقیق ہے اور طب قدیم کی روشنی میں کی گئی ہے جن کا فرنگی طب کا کوئی علم نہیں ہے اگر کوئی یہ ثابت کردے کہ یہ تحقیقات طب میں پہلے ہو چکی ہیں تو ہم ان کو چیلنج کرتے ہیں اور ثابت کرنے والے کو ایک ہزار روپے انعام دیں گے۔ یہ سب تحقیقات مزاج اور اخلاط اور مفرد اعضاء کے تحت کی گئی ہیں ۔ اس وقت فرنگی طب مفرد اعضاء کے نظریہ سے واقف نہیں ہے اور وہ مزاج اور اخلاط کے حقائق سے انکار کرچکی ہے۔ ہم ان کو اپنی کتاب مبادیات طب میں چیلنج سے ثابت کرچکے ہیں اور ان کے ہر گھڑی بحث کرنے کو تیار ہیں۔ ان کو حقائق کی روشنی میں تسلیم کرنا پڑے گا کہ فرنگی طب غلط ہے۔

ماہیت
نزلہ زکام وبائی بالکل عام نزلہ زکام کی طرح ایک صورت ہے۔ اس سے کوئی جدا اور الگ حیثیت نہیں رکھتا۔ جیسا کہ ہم اپنی کتاب “تحقیقات نزلہ زکام اور بے خطا یقینی علاج” میں لکھ چکے ہیں۔

فرق
وبائی اور غیر و بائی نزلہ زکام میں حسب ذیل فرق ہے۔(1)۔ حملہ شدید اور علامات میں تیزی ہوتی ہے یعنی فوراً ہی اس کی تیزی کے اثرات ظاہر ہوجاتے ہیں اور علامات فوراً بڑھنی شروع ہوجاتی ہیں۔ جسم اور روح دونوں ہی کمزور ہوتی معلوم ہوتی ہیں۔ دل و دماغ میں خوف و ہراس اور لرزہ کی سی حالت طاری ہوجاتی ہے۔ زندگی کے خطرے کا احساس شدید ہوجاتا ہے۔(2)۔ حملہ عالمگیر ہوتاہے یعنی اس میں ایک فردیا چند افراد گرفتار نہیں ہوتے بلکہ اکثر افراد بیک وقت اس کا شکار ہوجاتے ہیں، اکثر کوئی گھر خالی نظر نہیں آتابلکہ ہر شخص کچھ نہ کچھ اس کااثر محسوس کرتا ہے۔ انتہا یہ ہے کہ ہر تندرست انسان میں بھی اس کا خوف پایا جاتا ہے۔ یہی اس کی وبائی صورت کاسب سے بڑا ثبوت ہے۔ (3)۔ نتیجہ خطرناک نظر آتا ہے ۔ عام طور پر اس کا نتیجہ خطرناک ہوتا ہے۔ خاص طور پراس وقت جبکہ ابتداً اس کے حملہ کے بعد علاج کی طرف فوراً رجوع نہ کیاجائے، اموات اکثر ہوتی ہیں۔

موسمی نزلہ اور وبائی نزلہ کا فرق
موسمی نزلہ زکام میں بھی عمومی صورت پائی جاتی ہے مگر اس میں شدت اور علامات میں تیزی نہیں ہوتی وہ عالمگیر صورت اختیار نہیں کرتا اور نہ ہی اس کا نتیجہ اس قدر خطرناک ہوتاہے۔ وبائی نزلہ زکام کو بالکل اس طرح خیال کریں کہ جیسےہائیڈروجن بم چلادیاگیاہو اور اس سے فضا اور آب و ہواجل گئی ہو۔

فرنگی طب کی غلط فہمی
اس امر کو ذہن سے نکال دیں کہ نزلہ زکام وبائی ایک انسان سے دوسرے انسان میں اثرانداز ہوتا ہےبلکہ فضا اور آب وہوا میں اس قدر تعفن ہوتا ہے جس میں سانس لینے سے افراد اس کو شکار ہوجاتے ہیں جس کی مثال ہائیڈروجن بم سے دی گئی ہے۔ ہائیڈروجن کے معنی پانی کے ہیں۔ نزلہ زکام وبائی میں پانی کے اندر شدید فساد پیداہوکراس میں ہلاکت کے اثرات پیداہوجاتے ہیں۔ البتہ غیر وبائی نزلہ زکام کے تنفس اور دیگر مواد کا اثر دوسرے پر ہوسکتا ہے بشرطیکہ وہ نزلہ زکام بھی تعفن اور زہریلے مواد کاحامل ہو۔ نزلہ زکام وبائی کے مریض کے تنفس کے اثرات کی نسبت معتدل ہوتے ہیں۔ کیونکہ طبیعت مدبرہ بدن نے اس مواد کو اعتدال پرلانے کی کوشش کی ہے اس لئے ایسے مریضوں کے علاج اور تیمارداری سے گریز نہیں کرنا چاہیے۔ بلکہ ایک حد تک وہ تنفس مفید ثابت ہوتا ہے اور جسم میں قوت مدافعت پیداہوکرتا ہےاور فضائی زہریلے اثرات کوضائع کرتاہے، ایک طرف فرنگی طب میں تیمارداری(Nursing)کی تربیت (Training) دی جاتی ہےاور دوسری طرف عوام کو جراثیم سے ڈرایا جاتا ہے۔ کیا ہسپتالوں میں نرسیں روزانہ جراثیم کاشکارہوکرمرتی ہیں یا کوئی ایسا واقعہ کبھی رونما ہواہے کہ وبا کے ایام میں مریضوں کے ساتھ ساتھ نرسیں بھی مرنا شروع ہوگئیں ہوں۔ تاریخ اس کی کوئی شہادت پیش نہیں کرسکتی ۔ اس لئے مریضوں کی تیمارداری سے خوفزدہ ہوکربھاگنا نہیں چاہیے بلکہ اس سے دل کی کمزوری پیداہوتی ہےجوخود موت کاباعث ہے۔

وبائی نزلہ زکام کے حملہ کی وسعت
وبائی صورت میں اکثرپہلے زکام ہوتا ہے پھر فوراًنزلہ کی صورت پیداہوجاتی ہے اس کے بعدجلد ہی گلہ ، حنجرہ، مری سے گزر کرپھیپھڑوں کو معدہ تک کو اپنے زیراثر کر لیتا ہے اس کے بعد دل ودماغ پر قابوپالیتا ہے۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ حملہ ہونے کے ساتھ ہی سرسےلے کرمقعد تک غشائے مخاطی(Mucus Membrane) سوزش ناک ، متورم اور سرخ ہوجاتی ہے، بعض وقت خون بھی آجاتا ہے۔

نوٹ: اس امر کو یاد رکھیں کہ غشائے مخاطی کی سوزش قشری بافت (Epithelial Tissues) کی سوزش سے نہیں ہوتی بلکہ غشائے مخاطی میں جو عصبی بافتیں(Neural Tissues) ہوتی ہیں ان میں ہوتی ہے۔ اس لئے اس میں اکثر ورم دماغ اور گردن توڑ بخار کی صورت میں پیداہوجاتی ہے۔ یہ جو حقیقت اور اپنی تحقیق پیش کی ہے، فرنگی طب اس علم سے بھی ناواقف ہے۔ یہ تحقیق اس لئے پیش کی ہے کہ تشخیص اور علاج میں غلطی نہ رہ جائے البتہ قشری بافتوں میں تحلیل اور عضلاتی بافتوں میں سکون پیداہونا شروع ہوجاتا ہے۔ اس کی تفصیل نظریہ مفرد اعضاء جاننے والے خوب سمجھتے ہیں۔

اسباب نزلہ زکام وبائی
فضا اور آب و ہوا میں نمی کے اندر تعفن و فساد پیداہوجائے، اس میں تغیرو خرابی ظاہوجائے یا اس موسم میں کمی بیشی واقع ہو جائے، خاص طورپر شدید بارش اور سردی کے موسم میں یا ان کے بعد فوراً حرارت کی زیادتی ہوجائے جس سے انجرات ردیہ کی بکثرت ہوجائے جیساکہ وباؤں کے بیا ن میں ہم لکھ آئے ہیں۔ چاند کے اثرات زمین پر شدید ہوجائیں۔ اس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ سورج اور زمین کے درمیان کوئی ستارہ یا سیارہ آجائے اور سورج کی حرارت کو زمین پر آنے میں رکاوٹ کا باعث ہو وغیرہ۔

فرنگی طب میں اس کا سبب (بے ی لائی) انفلوئنزا بیان کیا گیا ہے ہم جراثیم کے اثرات سے انکار نہیں کرتے مگر اس کو سبب واصلہ تسلیم نہیں کرتے جیساکہ ہم اپنی کتاب “تحقیقات نزلہ زکام اور بے خطا یقینی علاج” میں جراثیم کے اثرات کو تفصیل سے بیان کرچکے ہیں کہ اول تو ان جراثیم کاان کو یقینی علم نہیں ہےکیونکہ یہ جرثومہ نہایت نازک ہے۔ اس کی شکل اس طرح بیان کی جاتی ہے۔ ہر جرثومہ علیحدہ علیحدہ ہوتا ہے۔ گاہے گاہے جوڑا جوڑا اور کبھی کبھی علیحدہ بھی بنے ہوتے ہیں، اس میں تعفن یہ ہے کہ یہ جرثومہ غیر متحرک ہوتا ہے اور اس پر رنگ نہیں چڑھتا۔ یعنی یہ “گریم نیگیٹو” ہوتا ہے۔ علاوہ ان نقائص کے یہ اپنی نزاکت کی وجہ سے فلٹر کی پٹی سے آسانی سے گزر سکتا ہے اور اس کی نسل بذریعہ تخم ریزی سے نہیں بڑھتی اس کو “بلڈاگر” پرلگاکر ملاحظہ کیا جاتاہے۔ لیکن اس جرثومہ کے علاوہ (Sateprative cacao) اور (Nimo cacao) بھی اعضائے تنفس اور مریض کے خون میں پائے جاتے ہیں۔ جوماہر فن “لائی اور کاکائی ” کا فرق سمجھتے ہیں۔ وہ فرنگی طب کی متضاد علمی تحقیقات سے لطف اندوز ہوسکتے ہیں اور اگر وہ نطریہ مفرد اعضاء کو سامنے رکھ کر امراض و اسباب پر غور کریں گے تو ان کو فرنگی طب کے اَن سائنٹیفک و غیر علمی ہونے کا پورا پورا یقین ہوجائے گا۔

اس امر سے ہم انکار نہیں کرتے کہ تعفن سے جراثیم پیدانہیں ہوتے یا جراثیم سے تعفن اور زہر پیدانہیں ہوتا مگر حیرت تو یہ ہے کہ فرنگی طب سے آج تک اس امر کا فیصلہ نہیں ہوسکا کہ نزلہ زکام وبائی کا سبب دراصل کون سا جرثومہ ہے اگر ان کو تیقن ہے اور ان کی تحقیقات صحیح ہیں تو فوراً اس کی صحیح اور اکسیر دوا تیار ہوجانی چاہیے جو اس مرض کی ہر صورت اور ہر درجہ پر یقینی اور بے خطا شفا بخشنے والی ہو۔ اگر ہم یہ ثابت کردیں کہ نزلہ زکام میں کبھی اعصاب میں سوزش ہوگی اور کبھی غدد اور عضلات میں اور ہر ایک کے سوزش پیدا ہونے کی صورت جدا جدا ہے اور یا مختلف اقسام کے اسباب اپنا الگ الگ اثر رکھتے ہیں۔ جیسا کہ ہم اوپر بیان کرچکے ہیں پھر فرنگی طب نزلہ زکام وبائی کے لئے ایک ہی قسم کے جراثیم کو ہر صورت میں یا دوتین اقسام کو صرف نزلہ زکام وبائی کی ایک صورت میں کیسے اثرانداز ہونا ثابت کرسکتے ہیں۔ یقیناً ان کو ایک صورت اختیار کرنی پڑے گی جس کانتیجہ یہ نکلےگا کہ فرنگی طب کی تحقیقات غلط ہیں اور یقینی وہ ایک غیر علمی(Unscientific) طریق علاج ہے۔ جب تک اس کو بدلا نہیں جائے گا علم علاج مکمل نہیں ہوسکتا۔

علامات
فرنگی طب نے اس کی علامات کے تین درجے مقرر کئے ہیں۔اول۔ ابتدائی علامات (دوسرے) شدید علامات جن میں مرض کی ابتدا ہوتی ہے ۔دوسرے ۔ جس میں مرض پوری شدت میں ہوتا ہے اور مریض کو اپنے قابو میں کئے ہوتا ہے۔ تیسرے۔ انتہائی جس میں مرض کا نتیجہ سامنے آجاتا ہے یعنی مریض صحت یاب ہوتا ہے یا ختم ہوجاتا ہے۔ بعض فرنگی ڈاکٹروں نے اس کے تین درجے اس طرح مقرر کئے ہیں۔(1)۔تنفسی: جس میں تمام نظام تنفس ناک سے شش تک ماؤف ہوجاتا ہے۔اس میں گلو، تنگی تنفس، کھانسی، ناک اور آنکھ سے پانی کا بہنا شروع ہوجاتا ہے۔ کھانسی کے ساتھ بلغم یامائل زرد رنگ سرخی مائل خارج ہوتا ہے اور بلغم میں ایسے کثرت سے خارج ہوتے ہیں۔ ایسی حالت میں ذات الجنب اور ذات الریہ بھی پائے جاتے ہیں۔2۔اعصابی: اس میں درد سر اور درد کمر شدید، سخت کسالت محسوس ہوتی ہے۔ اس میں غشائے دماغ، نخاع، ورم دماغ بھی پیداہوجاتا ہے۔3۔ انہضامی: اس میں غثیان، قے، اسہال، درد شکم، قولنج واقع ہوتا ہے۔ان کے ساتھ دیگر عوارضات کی صورت میں حرارت، ضعف قلب، ورم گردہ اور ورم اوردہ بھی پایاجاتا ہے۔ بعض فرنگی ڈاکٹروں نےنزلہ زکام وبائی کی پانچ صورتیں(Five Types) لکھی ہیں۔1۔ (Fertile Type)۔ اس میں حرارت کی شدت کے ساتھ دیگرعلامات پیداہوجاتی ہیں اس کا حملہ دل پر ہوتا ہے۔2۔ (Respiratory Type)۔ اس میں اعضائے تنفس پر حملہ شروع ہوتا ہے۔3۔ (Gastro intestinal Type)۔ اس کا حملہ اعضائے غذائیہ پر ہوتا ہے۔ 4۔ (Nerves Type)۔ اس کا حملہ نظام عصبی پر ہوتا ہے۔5۔(Ligament Type)۔ شدید اور مہلک اس میں فوراً انتہائی ضعف قلب پیداہوتا ہےاور دیگر علامات میں بھی شدت پائی جاتی ہے۔

ہماری تحقیقات
نزلہ زکام وبائی کی تین صورتیں ہیں۔ عصبی ، غدی اور عضلاتی ۔ اس کا اولین حملہ اعصاب پر ہوتا ہے۔ چاہے دماغ سے شروع ہوچاہے اعضائے تنفس سے ابتداکرے، چاہے اعضائے غذائیہ سے اس کی ابتداہویہ اوپر نیچے کا فرق مریض کی حرارت کی کمی بیشی کا نتیجہ ہے۔ اگر جسم میں حرارت کی بالکل کمی ہے تو حملہ دماغ سے شروع ہوگااور اگر حرارت کی زیادتی ہوگی تو اوپر سے نیچےکی طرف جائے گا۔ بہر صورت نزلہ زکام وبائی کی ابتدااعصاب سے شروع ہوگی۔جس کی علامات میں نزلہ زکام، سر بوجھل، منہ میں پانی، بلغمی کھانسی، قے واسہال، پیشاب کی زیادتی وغیرہ میں کسی ایک علامت سے ابتدا ہو گی اور رفتہ رفتہ باقی علامات سامنے آتی جائیں گی۔ دوسرا حملہ غدد پر ہوگا اس میں جگر و گردہ اور معدہ و امعاء کے غدد مبتلا ہوجائیں گے اور غشاء مخاطی سوزش ناک ہوجائے گی۔ اس میں گلا اور سینہ خاص طورپر شریک ہوں گے اور یہ اثر بھی حرارت کی مناسبت سے سر سے پیٹ کی طرف جاری رہے گا۔تیسرا حملہ عضلات پر ہوگا۔ اس میں قلب بھی متاثر ہوگا۔ اس صورت میں درد جسم، دل کا گھٹنا، ڈوبناہے۔ یاد رکھیں ضعف قلب اور اختلاج قلب وغیرہ نہیں ہوگا البتہ قلب کوشش کرے گا کہ اس کی رفتار تیز ہوجائے مگر قلب و عضلات کی رطوبات کی زیادتی ہوگی اس لئے وہ پھولتے جائیں گے اور قلب بوجھل ہوتا جائے گا، اس کی رفتار سست ہوتی جاتی ہے اس لئے مریض کے اندرکمزوری کی زیادتی، خوف اور بے امیدی بڑھتی جاتی ہے، جلد ہی مریض بے ہوش اور غنودگی میں گرفتار ہوجاتا ہے اکثر ورم دماغ پیداہوجاتا ہے۔ ورم غشائے دماغ اور ورم پیدا نہیں ہوتا۔گردن اٹھا نہیں سکتا جیسے گردن ٹوٹ گئی ہو، اکثر موت سے قبل بخار اتر جاتا ہے، کبھی ہوش میں بھی آجاتا ہے۔ مگر ایسی صورت میں زندگی بے حد مشکل ہو جاتی ہے۔ البتہ انتہائی صحیح علاج کے بعد مریض بچ سکتا ہے۔ان علامات پر غور کریں اور دیکھیں فرنگی طب میں کہاں کہاں غلطیاں ہیں اور کیسی شدید اور خوفناک ہیں اور پھر ان کو دعویٰ ہے کہ ان کی طب علمی (Scientific) ہے۔

علاج
ہر قسم کے علاج میں اس امر کوضرور مدنظر رکھیں کہ علاج میں صرف دوا پر بھروسہ نہیں کرلینا چاہیے بلکہ ان باتوں کو ہمیشہ ذہن نشین رکھیں۔ماحول، غذا، ادویہ اوروبائی امراض میں تو ان امور پر زیادہ توجہ دیں کیونکہ وباؤں میں خاص طورپر اعضاء موسم اور آب و ہوا ہی اسباب میں شریک ہوتے ہیں اور اثرانداز ہوتے ہیں۔ ماحول میں مریض کی دیکھ بھال ، درجہ حرارت اور صفائی کا خیال رکھنا بے حد ضروری ہے۔ اگر مریض ایسے مقام پر ہے جہاں اس کے ماحول کی آب وہوا اور موسم وبائی اثرات پیداکرتا ہے یا وہاں کا درجہ حرارت جسم کے درجہ حرارت کو نقصان کا باعث ہے اور صفائی کی بجائے گندگی اور تعفن کے ڈھیر قریب ہیں تو اکسیر ادویات اور بہترین اغذیہ بھی مریض کی صحت کو واپس نہیں لا سکتیں۔ اس لئے غذا اور ادویہ سے قبل ماحول کی درستگی بے حد اہمیت رکھتی ہے۔

علاج میں تین باتیں اہم ہیں۔1۔ امنیت کا بڑھانا۔2۔ زہریلے مواد کو مدنظر رکھنا۔3۔زود اثر اور تیز ادویات کا استعمال۔امنیت جس کو انگریزی میں (Immunity) کہتے ہیں۔ گویا قوت مدافعت اعضاء کو بڑھایا اور مضبوط کیا جائے۔یعنی جس عضو کے فعل میں کمی واقع ہورہی ہے اس کو تیز کیاجائے۔ امنیت کی تفصیل کتاب “تحقیقات نزلہ زکام” میں لکھ چکے ہیں۔ زہریلے مواد کے سلسلہ میں اس کو مدنظر رکھیں کہ وبائی امراض کا علاج بالکل اس طرح کرنا چاہیےجیسے زہروں یا زہریلے جانوروں مثلا سانپ کے ڈس لینے سے کیا جاتا ہےکیونکہ مریض کے جسم میں صرف مواد نہیں ہوتے بلکہ مواد زہریلے بن چکے ہوتے ہیں جو دم بدم جسم اور خون میں پھیل رہاہے جن سے اعضاء کے افعال باطل ہورہے ہیں۔ وبائی امراض میں ادویات ہمیشہ تیز اور زود اثر بلکہ تریاق اوراکسیر کے درجے کی ہونی چاہئیں۔ نئے تجربات نہیں کرنے چاہئیں، دوا کا درمیانی وقفہ گھنٹے نہیں بلکہ منٹ ہونے چاہئیں۔ہر گھڑی مریض کی حالت کی نگرانی ہونی چاہیئےکہ کسی وقت بھی اس کی کوئی علامت بڑھنے نہ لگے۔ اگر کوئی علامت بڑھتی نظر آئے تو سمجھ لیں کہ دوا کم ہے یا غذاکی ضرورت ہے۔فورا اس طرف توجہ کریں، گھبرائیں نہیں، کیونکہ اکثر مریض اوار اس کے لواحقین ہر علامت کو بڑھا چڑھا کر بیان کرتے ہیں، خود مریض کا مطالعہ کریںاور علاج میں کوشش کریں۔

علاج عمومی
ہرکومس کاقول ہے کہ جو شخص۔ 1۔ گائے کا گھی استعمال کرے گا وہ وباکے اثر سے محفوظ رہے گا۔ اس میں شک نہیں کہ روغن گاؤفاد زہر حیوانی ہے اور اس سے بھی وبائی سمیت کااثر باطل ہوجاتا ہے۔(2)۔عود کوجلاکر اس کا دھواں لینا وبائی ہواکی اصلاح کرتا ہے۔(3)۔ کندر کاسونگھنا اور بخور کرنا دونوں مفید عمل ہیں ۔(4)۔ پیازکوسرکہ میں رکھ کرکھانا وباکا دافع ہے اور سرکہ میں ڈالنے یاجوشاندہ بنانے کے بغیر بھی استعمال کیاجائے تو آب وہواکے اختلاف سے جو مضر اثر پیداہوا کرتا ہے اس کا عمدہ تدارک ہے۔ علیٰ ہذا۔(5)۔ لہسن کا کھانا بدنی رطوبتوں کو عفونت کو زائل کرتا اوار صحت کی حفاظت کرتا ہے۔ (6)۔ قسط کا دھواں لینے سے اس وبا کاجو عفونت سے حادث ہوئی ہو، ازالہ ہوجاتا ہے۔(7)۔ مرمکی1ملی گرام پینے سے بھی عفونت دفع ہوجاتی ہے۔(8)۔ قطرن و چڑیل کے کے تیل کا صبح و شام اور رات کے وقت سونگھنا فائدہ بخش ہے۔(9)۔ گل مختوم 5ملی گرام سفوف بناکرکھانا یا پانی میں حل کرکےپینا عمدہ دوا ہے۔(10)۔ معیہ سائلہ 7 ملی گرام، بلسان 2ملی گرام، کافور0.3 ملی گرام، مصطگی رومی 3 ملی گرام، زعفران 7 ملی گرام، شہد 3 گرام، راتینج(رال)6 ملی گرام، مشک 1 ملی گرام۔ یہ سب ادویہ فردا!ً فرداً کھانے اور بخور کرنے سے دافع وباہیں۔

علاج بالادویہ
ادویات کی ضرورت اکثر امراض کی حالت میں ہوتی ہے مگر وبائی ایام میں قانون کے تحت ہرشخص جو مریض نہیں ہے اس کو بھی روزانہ دوا استعمال کرنی چاہیے۔ کیونکہ فضا اور آب وہوا میں غیر معمولی فساد اور تعفن ہے۔ اس کے اثر ہر شخص کے اعضاء اور خون پر مسلسل پڑ رہے ہیں۔ جن سے قوت مدافعت مرض(Immunity) اور قوت مدبرہ بدن کمزور ہوتی رہتی ہے۔ اس لئے ہر شخص کے لئے لازم ہوجاتاہےکہ وہ اپنے بدن اور نفس کی حفاظت کرے اور اس کو تقویت پہنچائے اگر غفلت برتی گئی تو قوی امکان ہے کہ امراض کا حملہ اس شخص پر ہوجائے ۔ ممکن ہے کہ بے حد شدید ہواور زیادہ نقصان کا باعث ہواس لئے ہر شخص کا فرض ہے کہ حفظان صحت کے اصولوں کومدنظر رکھتے ہوئے بھی روزانہ ددافع امراض اور مقوی قلب دوا استعمال کرتا رہے۔اس مقصد کے لئے ذیل کی ادویہ مفید ہوں گی۔

1۔ شہد خالص ایک یا دو تولے روزانہ تین یا چار بار چاٹ لیا کرے۔نیم گرم پانی یا چائے میں ملاکرپی لیا کرے۔2۔ بخار نزلہ زکام وبائی: مرمکی ایک ملی گرام شہد خالص تین حصے ملاکرایک تا چھ گرام تک استعمال کیا جاسکتا ہے۔3۔مقوی قلب: مربہ آملہ 2 گرام،مربہ ہلیلہ 2 گرام، مربہ زنجبیل 1 گرام، طباشیر1 گرام۔ تمام مربہ جات کوکوٹ کر باریک کرلیں پھر طباشیر کاسفوف تیارکرلیں، تین گنا شہد میں معجون بنائیں، طباشیر اس وقت ڈالیں جب معجون کو آگ سے نیچے اتار لیں، خوراک چھ گراستعمال کریں۔4۔ خمیرہ مروارید زعفرانی: زعفران خالص 3 ملی گرام، خمیری مروارید 30 گرام خوب ملالیں۔ایک ملی گرام تا 3 ملی گرام تک استعمال کریں۔5۔ سفوف مفرح: زہر مہرہ خطائی5 گرام، زعفران 6 ملی گرام، نارجیل دریائی 5 گرام، کہربا5 گرام، مشک خالص 1 ملی گرام، کشتہ سیپ ڈھائی گرام، کشتہ سنکھ ڈھائی گرام سب کو باریک کرکے سفوف بنالیں۔ 3 ملی گرام تا 6 ملی گرام تک مفید ہے۔مندرجہ بالا ادویات نزلہ زکام وبائی کی حالت میں بھی حسب ضرورت مفید ہیں۔ اسی طرح زعفرانی چائےبھی ایک مفید مفرح ہے۔یعنی چاہیئے کہ دوم کے وقت ایک گرام بہترین چائے میں ایک ملی گرام خالص زعفران ڈالا جائے۔ ایک لذیذ اور فرحت بخش محافظ نزلہ زکام وبائی ہے۔

مرض کی شدت کی صورت میں پارہ ایک حصہ، گندھک 3حصہ دونوں کو ایک گھنٹہ کھرل کریں بس سفوف تیار ہے۔یہ دوا حسب ضرورت مندرجہ بالا ادویات کے ہمراہ بھی دے سکتے ہیں، اگر قبض ہوتو اس میں ہم وزن مرمکی ملالیں اور خوراک دوچند کرلیں۔اگر حملہ شدید اور خطرناک ہوتواکسیر غدی عضلاتی مرمکی والی حصے میں ایک حصہ جمال گوٹہ شامل کرلیں انشاء اللہ دوا مریض کوموت کے منہ سے چھین لائے گی۔ ہم دعویٰ سے کہتے ہیں کہ انشاء اللہ تعالیٰ اس دوا کا مقابلہ فرنگی طب نہیں کرسکے گی۔اگر قبض شدید ہوتو مسہل عضلاتی ایک ایک گولی ہر نصف گھنٹہ بعد دیں۔ شحم حنظل، مرمکی،مصبر زرد ہم وزن گولیاں بقدر نخود بنالیں۔ اگر کمزوری زیادہ بڑھ گئی ہوتومندرجہ ذیل مقوی و مفرح ادویات میں عنبر اشہب مقدار 0.5 ملی گرام کا اضافہ کرکے استعمال کرائیں۔تحقیقات نزلہ زکام میں جو عضلاتی اور غدی نسخے دئیے گئے ہیں ان کو بھی مدنظر رکھیں اور ضرورت کےوقت استعمال کرائیں۔ جوہر شفا عضلاتی: روغن لونگ ایک گرام، روغن دارچینی ایک گرام، روغن تارپین 2 گرام۔ خوراک: ایک تا 8 بوند، ہر نصف گھنٹے بعد دے سکتے ہیں۔ اس سے ناک ، گلے اور سینے کی جلن بہت جلد ختم ہوسکتی ہے۔ تندرستی کی حالت میں اس کی روزانہ ایک بوند وبائی اثرات سے محفوظ رکھتی ہے۔ ہم نے تمام دعویٰ کی ادویات پیش کردی ہیں۔ انشاء اللہ تعالیٰ یقینی کامیابی ہوگی۔

از: حکیم وڈاکٹر جناب دوست محمد صابر ملتانی صاحب

نزلہ زکام میں غذاکے احکام
ایک غلط فہمی
عام طور پر مشہور ہے کہ وبا کے ایام میں خالی پیٹ نہیں رہنا چاہیئے۔ دوسرے اگر کھانا چاہیئے تو لطیف اور زود ہضم اغذیہ کھانی چاہئیں اور تیسرے لطیف اور زود ہضم غذابھی چوتھائی سے زیادہ نہیں کھانی چاہیئے۔دراصل یہ تینوں باتیں نہ صرف غلط فہمی پرمبنی ہیں بلکہ مکمل طورپر غلط ہیں۔اول تو خالی پیٹ کا تصورہی غلط ہے، عام طورپر خالی پیٹ اس کو کہتے ہیں جب انسان صبح سوکراٹھتا ہے لیکن سوکرصبح اٹھنے کے بعد ضرور نہیں ہے کہ انسان کی غذا پورے طورپر ہضم ہوچکی ہے اور پیٹ خالی ہوگیاہے۔ پیٹ خالی ہونے کی سب سے بڑی علامت یہ ہے کہ شدید بھوک لگ رہی ہواور پیٹ میں کوئی عارضہ بھی نہ ہو ، جب تک بھوک نہ لگے اور پیٹ بلکہ جسم اپنے اندر ہلکاپن محسوس نہ کرے اس وقت تک ہم اپنے پیٹ کوخالی نہیں کہ سکتے اور جب انسان کاپیٹ خالی نہ ہوگا اور اس کو شدید بھوک لگ رہی ہوگی تو پھر پیٹ خالی رہنے کا سوال ہی پیدانہیں ہوتا ، ہر شخص خود بخود کھانےپر مجبورہے اور بھوک ہی نہ ہواور نہ ہی پیٹ اور جسم ہلکا ہو اور جب سے بڑی بات یہ ہے کہ کھانے کی طلب اور خواہش نہ ہوتوپھر بلاضرورت کیوں کھایا جائے۔ چاہے عام دن ہوں یا وبائی ایام ایسی حالت میں کھانا بے حد مضر ہے، کیونکہ پیٹ میں غذاہے اوراس پر کھالیا گیا ہے۔ ایسی صورت میں امراض میں نہ گرفتار ہونے والاانسان بھی خود بخود وبامیں گرفتار ہوجائے گا۔ کیونکہ اول بدہضمی کا پیداہونا لازمی امرہے دوسرے دوران خون معدہ وامعاء کی طرف مصروف ہوجائے گا۔ جسم کی حفاظت نہیں کرسکے گا۔ تیسرے حرارت جسم خرچ ہوگی، چوتھےان خرابیوں کے باعث اعضائے رئیسہ مقابلہ یا وبا سے عاجز ہوجائیں گے۔ ان تمام امورکومدنظر رکھتے ہوئے اس امرکو ذہن نشین کرلیں کہ بغیر شدید بھوک نہ کھائیں۔ چاہے صبح کا وقت ہی کیوں نہ ہو، بلکہ صبح سےشام ہوجائےاور بھوک نہ ہو توغذاسے دور رہنا چاہیئے البتہ بھوک ہو اور کھایانہ جائے خصوصاً ایام وبا میں تو یہ بھی سخت مضر ہے۔ ایسی صورت میں جسم کمزوری محسوس کرتا ہے اور قوت مدافعت پریشان ہوجاتی ہے اور سب سے بڑی بات یہ ہےکہ دوران خون تیز ہوجاتا ہے اور بعض دفعہ اس لئے دل گھٹ جاتا ہے ۔ اس لئے شدید بھوک میں نہ کھانا بھی ویسا ہی مضر ہے جیسے شدید بھوک کے بغیر کھالینا خرابی صحت کا باعث ہے۔

دوسری غلط فہمی یہ کہ زود ہضم اور لطیف اغذیہ کھانی چاہئیں جیسے چاول، دلیا، ڈبل روٹی، پھل، دودھ اور شوربا چپاتی وغیرہ حقیقت یہ ہےکہ لطیف وثقیل غذا کا مسئلہ ہی غلط سمجھا گیا ہےکیونکہ ہمیشہ لطیف اغذیہ کے مقابلے میں مقوی اغذیہ کو مثلا گھی والی روٹی، حلوا ،مٹھائیاں، زیادہ گھی والے چاول، پلاؤ زردہ، سوئیاں اور کیک پیسٹری وغیرہ جیسی۔ لیکن جاننا چاہیئے کہ کل چھ ذائقے ہیں۔1۔شیریں۔2۔پھیکا۔3۔نمکین۔4۔چرپرا۔5۔ترش۔6۔تلخ۔ اور ان سب کی تقسیم تین صورتوں پرہو گی۔1۔کھاری۔2۔ نمیکن۔3۔ترش۔ دیکھا یہ ہےکہ امراض کس قسم کے ہیں اور جسم میں کس صورت کی کمی پائی جاتی ہے اور جس چیز کی کمی ہواس کوپورا کرنا چاہیئےاور اس کے مطابق اغذیہ تجویز کرنی چاہئیں تاکہ جسم میں صحت اور طاقت پیداہو۔ان حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے جو معالج زود ہضم اور لطیف کے نام پر چاول ، دلیا، ڈبل روٹی، ساگودانہ، پھل ، دودھ اورشوربا چپاتی وغیرہ۔ تو غور کریں کہ اس میں غذا کی تمام صورتیں قائم ہیں یعنی ان میں کھاری، ترشی اور نمکین ہر قسم کی اغذیہ شریک ہیں غور کریں کہ مرض کے مطابق صورت ہوگی تو لازمی امر ہے کہ مرض بڑھے گا۔ اس لئے لطیف اور زود ہضم اغذیہ کو امراض کی صورتوں اور کیفیات کے مطابق ترتیب دیں۔صرف اتنا ہی کہہ دیناکہ وبائی ایام میں لطیف اور زود ہضم اغذیہ کھانا مفید ہوں گی۔ جاننا چاہیئے کہ نزلہ زکام وبائی کے ایام میں ایسی اغذیہ نہ دیں جن میں کھاری پن ہو بالکل منع ہیں اور جن میں ترشی ہو وہ مفید ہیں، نمکین بھی مفید ہیں۔

تیسری غلط فہمی یہ ہے کہ غذاچوتھائی کھانی چاہیئے تاکہ معدہ پر بوجھ نہ پڑے اور جلدہضم ہوجائے، یہ نظریہ بھی گذشتہ دونوں نظریات کی طرح غلط فہمی پر مبنی ہے۔ کیونکہ غذاکی مقدار کے متعلق یہ اصول یاد رہیں۔کہ معدہ کے حجم کے مطابق غذا ہونی چاہیئے، عام طورپر دو گرام کی روٹی ہوتی ہے اور ایک متوسط انسان اگر شدید بھوک کے وقت کھائے توتین آسانی سے کھا لے گا اگر احیتاط مطلوب ہے تو تین کی بجائے دو کھا لےگا۔ بس یہ غذا کھانے کا بہترین طریقہ ہے کہ تین کی بھوک ہو تو دو کھا لیں اسی نسبت سے چاول، دلیا اور دیگر اقسام کی اغذیہ بھی کھاسکتے ہیں اگر دو سے زیادہ کھانا چاہیں تو نسبت یہی ہونی چاہیئے کہ تیسراحصہ بھوک چھوڑ دیں مگر دو سے کم نہ کھائیں۔ اگر کم کھانے کی عادت ہو تو اس میں کم ازکم تیسرا حصہ غذا چھوڑ دیں مگر کوشش کریں کہ اس قدر بھوک ہوکہ دو روٹیاں کھائیں اور ایک روٹی کی بھوک باقی رہنی چاہیئے ۔ وغیرہ۔

اس انداز سے غذاکھانے کا یہ فائدہ ہے کہ اگر اعضاء اغذیہ کو پورے طورپر غذا ملے تو غذا کی مقدار کا بڑا اثر پڑتا ہے اور وہ مشینی طورپر بھی اپنے افعال صحیح انجام دیتی ہے اس کے دباؤ سے پیٹ پر بوجھ پڑے گا۔ اجابت اچھی طرح دباؤ کے ساتھ ہوگی اور امعاء پوری طور پر صاف ہوں گی اور غذا ہضم ہونے پر پوری مقدار میں خون بنے گا اور ہاضمہ آسانی سے خراب نہیں ہوگا، اگر غذا چوتھائی کھائی جائے، اول تو کھانے والا خود اچھی طرح اندازہ نہیں لگا سکتا، اگر کھائے گا بھی تو قبض ہوجائے گا۔دو روز کی قبض کے بعد ہاضمہ خراب ہوجائے گا اور انسان کمزوری بھی محسوس کرے گا اس لئے چوتھائی غذا کھانا نقصان دہ ہے۔ان حقائق سے ثابت ہوا کہ ۔1۔ غذا ہر حال میں شدید بھوک کے وقت کھانی چاہیئے، جب تک بھوک نہ ہو۔خالی معدہ نہیں کہا جا سکتا چاہے انسان صبح سوکر کیوں نہ اٹھاہو۔ 2۔ غذا میں لطیف و زود ہضم اور ثقیل و دیر ہضم کا تصوراس وقت تک بے معنی ہے جب تک صورت غذا ضرورت جسم اور نوعیت مرض کو نہ دیکھ لیا جائے ورنہ ہر غذانقصان رساں ہوسکتی ہے۔3۔ غذا ہمیشہ مقدار معدہ کے حجم کے مطابق کھانے چاہیئے۔ البتہ اس میں تیسرا چوتھاحصہ بھوک باقی ہوتو چھوڑ دینا چاہیئے۔ کم خوراک مثلاً دو نوالے کھانا کوئی غذا نہیں ہے۔ اول تو کم غذا اس وقت کھائی جاتی ہےجب بھوک ہی نہیں ہوتی ، دوسرے یہی کم غذااندر جاکربدہضمی کا باعث بنتی ہےجس کانتیجہ خوفناک امرض کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔

وبائی امراض میں غذا
1۔ وبائی ایام میں غذاکی اہمیت بہت زیادہ ہے کیونکہ جسم انسانی غذاپر قائم ہے جو بدل مایتحلل کی صورت پیداکرتی ہے چونکہ وبائی ایام میں آب و ہوا اور فضا میں فساد و تعفن کے باعث جسم و روح انسانی پر عمل ِ تحلیل شدت اختیار کرلیتا ہے اس لئے ہر شخص خصوصاً مریض کی غذا میں خاص طورپر یہ اہتمام کرنا چاہیئےکہ عمل تحلیل کم ہواور بدل مایتحلل زیادہ پیداکیا جائے۔ ان دونوں مقاصد کو پوراکرنے کے لئے اغذیہ ہمیشہ مقوی ہوں کہ اس سے عمل تحلیل کم واقع ہوتا ہے اور شدید بھوک کے وقت دی جائیں تاکہ جلد جلد بدل ما یتحلل تیارکرلیا کریں۔2۔ اغذیہ ضرورت جسم کے مطابق ہونی چاہئیں۔ یعنی کیفیاتی اور اخلاطی طورپر جسم میں جن صورتوں اور چیزوں کی کمی ہو ان کوپوراکیا جائے تاکہ مرض اور ماحول کا مقابلہ ہوسکے۔3۔ اغذیہ میں یہ اہتمام ہوناچاہیئےکہ اغذیہ ہمیشہ وبائی امراض کے لئےبالخاصہ مفیدہوں۔یعنی ان کے کھاری پن و ترشی اور نمکینی کو ضرور مدنظر رکھیں۔اگر ضروریات جسم کیمیائی تقویت کوقائم رکھتی ہیں تو غذا بالخاصہ امراض کے لئے مفید ہونا مشینی صورت کوصحیح قائم رکھتا ہے۔

تاکید
اس امر سے بالکل نہ گھبرائیں کہ مریض نے کافی عرصہ سے غذا نہیں لی یامریض شدت سے غذا طلب کررہا ہے ۔ مگر اس کے معدہ میں شدید مرض اور نقص ہے اور غذابن کردی گئی ہے۔ ایسی صورت میں دوائیں غذاکی شکل میں مثلاً جوارشیں، چٹنیاں، خمیراجات، لعوق اور یا قوتیاں دے سکتے ہیں جن سے نہ صرف بھوک بند ہوجاتی ہےبلکہ قوت قائم رہتی ہے۔ اسی طرح دوائے غذا کی صورت بھی مفید ہوسکتی ہے۔ مثلاً مربہ جات، رب، عرقیات اور چائے کا جوشاندہ (قہوہ) وغیرہ اسی طرح دیگر اشیاء کے جوشاندے بھی دئیے جاسکتے ہیں۔

نزلہ زکام وبائی میں مفید اغذیہ
غذا کے متعلق یہ قانون ذہن نشین کرلیں کہ جو بھی اشیاء دی جائیں وہ قلیل الاجزاء اور کثیرالاغذیہ ہوں۔ یہ ایک اہم مسئلہ ہے اس کوسمجھنے کی بے حدضرورت ہے کہ کون سی اشیاء کثیر الاغذیہ ہیں اور کون سی اشیاء قلیل الاغذیہ ہیں۔ جاننا چاہیئے کہ جو اشیاء جسم انسان میں خمیر کم پیداکریں یا صالح خمیر پیداکریں وہی اشیاء کثیر الاغذیہ ہیں۔ ایسی اشیا ء وہی ہوسکتی ہیں جن میں حرارت کی زیادتی ہومثلاً گوشت انڈے اور دودھ وغیرہ۔ چونکہ ان میں ریاحی عناصر ہوتے ہیں اس لئے کوشش کی جائے کہ ان کی تیاری میں ایسی صورتیں پیداکی جائیں کہ ان کے ریاحی عناصربھی زیادہ سے زیادہ کم کر دئیے جائیں مثلاً گوشت کے شوربے یا ان کے نچوڑ(جوس) تیار کرلئے جائیں۔اسی طرح گوشتوں میں بھی ایسے گوشت لئے جائیں جن میں حرارت کی زیادتی ہو جیسے پرندوں کے گوشت جن میں تیتر، بٹیر اور مرغ کے چوزے قابل ذکر ہیں۔پرندوں کے گوشت کے بعد بکری کے گوشت میں تمام گوشتوں سے زیادہ حرارت ہے۔ اس کے بعد بھیڑ، گائے اوربھینس کے گوشت ہیں۔ گویا جس قدر بھاری بھر کم جانور ہو گا اس میں حرارت کی کمی ہوگی۔گوشت کے بعد انڈوں کے شوربے بھی بے حد مفیدہوسکتے ہیں۔ اسی طرح مچھلی کا شوربہ مفیدہے۔ دودھ کی صورت میں اس کو پھاڑ کرصرف دودھ کاپانی شہد میں ملاکردیاجاسکتا ہے۔ اس صورت میں دودھ نہ صرف خمیر سے خالی ہوتا ہے بلکہ دفع خمیر نقص ہوتاہے۔

اگر ایسی عمدہ غذائیں میسر نہ ہوں تو دیگر اغذیہ میں مصالحہ جات ڈال کران کوگرم اور زود ہضم بنایا جاسکتا ہے۔ مثلاً سبزی کے شوربہ جات جن میں نخود ، پالک، ٹماٹر وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ طاقت کے لئے بعض قسم کے حریرےاور حلوہ جات بھی دئیے جا سکتے ہیں۔ غرض اشیاء میں حرارت کی زیادتی جہاں کثیرالاغذیہ ہیں۔ وہاں پر زود ہضم بھی ثابت ہوتی ہیں۔ ہمیشہ امراض میں غذاکے مسئلہ کو اسی قانون کے تحت ترتیب دینا چاہیئے۔ فرنگی طب میں غذاکامسئلہ بے حد ناقص ہے۔ وہ ہر غذا میں جو کسی تندرست انسان کے لئے ہویا مریض کے لئے ، غذاکے تمام اجزاء پر زور دیتاہے یعنی اس کی تحقیقات کے مطابق ہر غذا میں پروٹین(اجزائے لحمیہ)، فیٹ(چکنائی)، کاربوہائیڈریٹ(نشاستہ)،سالٹ(نمکیات)،واٹر(پانی)اور اگر پانچوں اجزاء کے ساتھ وٹامن حیاتین کا ہونا ضرورہے۔ مگر فرنگی طب اس حقیقت کوہمیشہ نظر انداز کرجاتی ہےکہ ہر شخص میں کسی نہ کسی جز کی زیادتی ضرور ہوتی ہے اور کسی نہ کسی وٹامن کا اثر غالب ہوتا ہے اس مریض کو ایسی اغذیہ ملنی چاہئیں جن کی کمی پائی جائے لیکن ان کے ہاں ایسا کوئی قانون نہیں ہے۔ اس غذا کے غلط استعمال سے ان کے اکثر مریض نقصان اٹھاتے ہیں یا نقصان میں رہتے ہیں ان کی اس خرابی کو ہسپتالوں اور فرنگی ڈاکٹروں کے مطبوں میں جاکرمشاہدہ کیاجا سکتا ہے۔ جہاں تک وٹامن اور کچی سبزیوں کے استعمال کاتعلق ہے تو یہ ایک طویل بحث ہے۔ یورپ اور امریکہ اس سے خود ناواقف ہیں۔ امریکہ سے غذا کے مسئلہ پر بحث و تمحیث میں ہم نے اس مسئلہ پر روشنی ڈالی ہے اور ان کو چیلنج کیا ہے کہ وہ وٹامن اور سبزیوں کے متعلق بطوراغذیہ کچھ نہیں جانتے اگر جانتے ہیں تو ہمارا چیلنج قبول کریں۔ دوسرے یہ بھی چیلنج کیاہے جہاں تک غذا میں خواص اشیاء کا تعلق ہے اس میں ان کاعلم نا مکمل اور غلط ہے اس کے متعلق بھی ان کو چیلنج کیا ہے۔ بہت جلد انشاء اللہ تعالیٰ وہ مضامین کتابی صورت میں شائع کریں گے۔ وما توفیقی الا باللہ۔

حفاظت صحت زمانہ وبا

چونکہ ہوا میں بالذات یا بالغرض اکثر حالات میں فساد پیداہوکر وبا پھیلتی ہے اور اگر دیگر اسباب مذکورہ سے وباکا ظہور ہوا ہے۔ تاہم ہواکافساد اور اس کے جوہر کا بگڑ جانا بہت ہی قریب ہوتا ہے۔ لہذا نہایت اہتمام کے ساتھ ہوا کی اصلاح کی جانب اپنی ہمتوں کو مصروف اور ارادوں کومستحکم کرنا چاہیئے اور صفائی و مقام سکونت و نشست و برخواست و حرکت و سکون و غسل وحمام و عوارض نفسانی یعنی غم و غصہ و فکر و سردر وغیرہ میں وبا کے زمانہ میں ایک خاص قسم کی تبدیلی ہونی ضروری ہے۔ چنانچہ ان تبدیلیوں کی تشریح کی جاتی ہے۔

اگر وبا شروع ہوگئی ہے یا شروع ہونے کا احتمال ہے تو فوراً مکانات کو کوڑا کباڑ اور اشیائے متعفنہ و سریع الفساد وغیرہ سے صاف کرکے مکانات کے کمروں اور دالانوں اور شہ نشینوں وغیرہ کو اور مکانات کے گزرگاہوں کو مثلاً دہلیز وغیرہ کے درودیوار کو اور چھت کوشورمٹی وغیرہ سے صاف کرکے قلعی یا صاف مٹی سے لپنا چاہیئے(یعنی ہر قسم کی گندگی کو دور کرنا لازمی ہے تاکہ ماحول اور اردگرد کی تمام جگہیں صاف ستھری ہوجائیں)۔ اگر ہوا میں برودت و تری کا غلبہ ہو۔ مثلاً برسات یا سرما کے فصل میں تو مکانات کے درجوں میں اور کمروں وغیرہ میں اور نیز دہلیز یا گزرگاہوں میں انگیٹھیوں میں آگ روشن کرکے رکھ کر ایک روز گندھک کی تدخین (دھواں دینا) کی جائے اور دوسرے روز عود یابالچھڑ یا ناگرموتھا یا چہل چہلیرہ کی جس کو اشنہ کہتے ہیں کی تبخیر کی جائے۔

گندھک کی تبخیر سےہوا کے اجزائے ردی الجواہر معدوم ہوجائیں گے اور آخر الذکر اشنہ کی تبخیر سے ہوا میں نفاست پیدا ہوجائے گی اور تدفین و تدبیر اس طورہونا چاہیئے کہ حتی الامکان اشیائے سوختہ کا دھواں کمروں اور دالانوں اور مکان کی دہلیز اور گزرگاہوں کے درو دیوار اور چھت میں اچھے طور پر سرایت کرجائے اوراس غرض کی تکمیل بایں طور سے ہو جائے گی کہ کمروں کے درودیوار بند کردئیے جائیں یا کوئی اورایسی تدبیر کی جائے جس کی وجہ سے ایک دم سے دھواں باہر کی جانب خارج نہ ہوجائے اور تبخیر ایک گھنٹہ تک ہرکمرے یا دالان یا گزگاہ میں ہونا چاہیئے اور ہر گاہ کہ تبخیر موقوف کی جائے تو بعد موقوفی کے پندرہ بیس منٹ تک اس مقام پر بلااشد ضرورت جانا مناسب نہیں ہے۔ اس لئے کہ ممکن ہے کہ بعض مزاج اس تبخیرکے اثر سے مکدر ہوجائیں اور نیز بنظراصلاح ہوا ایک کمرہ یا ایک مقام پر بہت سے آدمیوں کی نشست و سکونت ہرگز نہ چاہیئے۔ اس لئے مجمع انسان و حیوان کا بوجوہ مذکور ہوا کے لئے نہایت ہی بُری چیز ہے خصوصاً وبا کے زمانہ میں مجمع مذکور نہایت ہی خطرناک ہوجاتاہے۔

وبا کے زمانہ میں حرکات و سکون بدنی کی ہدایت

قبل اس کے حرکات و سکون کے قواعد نہایت شرح و بسط کے ساتھ جو تندرستوں کوعمل میں لانا چاہئیں ہم بیان کرچکے ہیں مگر قواعد مذکور کا عمل میں لانا اسی زمانہ تک محدود ہیں کہ جب فساد ہوایا وبانہ ہو لیکن جب کہ امراض وبائیہ شروع ہوں یا ہوائے فاسد کی وجہ سے مختلف امراض کی یورش ہو تو اس حالت میں حرکت و سکون کے احکام میں ایک تبدیلی عظیم پیداکرنے کی ضرورت واقع ہو جاتی ہے۔ المختصر یہ کہ وبا کے زمانہ میں حرکات قویہ اور ریاضت نہایت درجہ مضر ہے بلکہ سکون و راحت کی نہایت ضرورت ہے۔ اس لئے کہ حرکات اور ریاضت سے مسامات بدن کی تقتیح ہوتی ہےاور متواتر سانس کے ذریعہ سے ہوا بھی زیادہ جسم میں داخل ہوتی ہےاور بدن کی رطوبات بھی تحلیل ہوتی ہیں اور یہ امور اجسام انسان میں وبا کی تاثیرات پیدا کرنے کے لئے نہایت قوی اور خوفناک موثرات ہیں۔ چنانچہ اس وجہ سے کثرت بیداری بھی زمانہ وبا میں مضر ہے۔ اس لئے کہ بیداری بوجہ خروج اور ارواح قویٰ و حرارت کی جانب خارج بدن کی کلیۃٌ حرکت و ریاضت سے مشابہ ہیں۔ پس زیادہ جاگنے سے بھی وہی نتائج پیداہوں گے جو حرکات قویہ اور ریاضت سے حاصل ہوتے ہیں اور اگر ریاضت اور حرکات غیر معمولی کے ترک پر کسی وجہ قدرت نہ ہوتواس میں قلت و کمی تو ضرور ہی ہونی چاہیئے۔ بجز اس کے کہ کوئی اور اسباب ایسے پیدا ہوجائیں کہ جن کی وجہ سے حرکات قویہ اور ریاضت کی ضرورت ہو۔

حفاظت صحت زمانہ وبا
امتناع حرکت سے یہ بات لازم نہیں آتی ہے کہ معمولی کاروبار کے لئے بھی حرکات ممنوع ہوجائیں۔ وبا کے زمانہ میں اہل خاص و عام کو علاوہ نماز پنج گانہ اکثر اوقات نماز نوافل پڑھنا نہایت ہی فائدہ مندہوگا۔ اس لئے نماز نوافل سے مسرت روحانی بھی یقیناً حاصل ہوتی ہے اور حرکات معتدلہ کا بھی فائدہ پہنچتا رہے گا۔ زمانہ وبامیں مسہل و قے و فصد و جماع سے نہایت پرہیز چاہیئے۔ اس لئے کہ یہ چیزیں بدن میں حرکات قویہ پیداکرتی ہیں اور ان سے ارواح و رطوبات بدن کا اخراج ہوتا ہے۔ لہذا زمانہ وبا میں ان امور کا ارتکاب نہایت ہی پر خطر معاملہ ہے۔

وبا کے زمانہ میں سکون و حرکت روحانی کی ہدایت
قبل اس کے کہ ہم روحانی علاج کی بحث میں دلائل ثابت کر چکے ہیں کہ بدن کی تاثیرات نفس(روح) پر اور نفس کی تاثیرات بدن پر فوری طورپرواقع ہونا یقینی ہے۔ اسی بناپرہمیں یہ تحریر کرنا ضروری ہے کہ وبا کی حالت میں غم و غصہ و الم و خوف و فکر وغیرہ عوارض نفسانیہ کا عارض ہونا ایک خطرناک معاملہ ہے جوحرکات نفسانی کی تفاصیل کی بحث دیکھنے سے عمدہ طورسے ثابت ہوجائے گا۔ البتہ حرکات نفسانی سے مسرت اور ابتہاج(خوشی) ایک ایسی نفسانی کیفیت ہے کہ جس کے حصول کی اکثر حالات وامراض خصوصاً وبا کے زمانہ میں ضرورت ہوتی ہے۔ لہذا ایام وبا میں غم و غصہ و فکر و خوف اور وہم سے جس طرح سے ممکن ہو آزاد رہنا چاہیئے اگرچہ امور مذکور کا عارض ہوناامور اختیاریہ سے نہیں ہے مگر تاہم تدبیرات سے اور عقل کی جانب رجوع کرنے سے ان میں کمی آجانا یا بالکل زائل ہوجانا ممکن ہے۔ وبا کے زمانہ میں اکثر آدمیوں کی طبائع پر توہم و خوف و ہراس غالب ہوتا ہے۔ اس کے لئےے بہترین تدبیریہ ہے کہ امور ،صرعہ صدر یعنی مراتب حفظ صحت کی پابندیاں کرکے اپنے آپ کو بالاخر فانی اور فتنی شمارکرکے اپنے قلب کو حقد(کینہ) و حسد و بغض و نفسانیت و قسادت قلبی(سنگ دلی) وغیرہ ملکات ردیہ سے باز رکھے۔ اور اکثر ان کتابوں کا مطالعہ کرتا رہے کہ جن میں سلف صالحین اور انبیاء اکرام کا تذکرہ ہو۔

Qanoon Mufrad Aza, Tibb e Sabir, Hakeem Sabir Multani, Health, قانون مفرد اعضاء, حکیم صابر ملتانی, طب و صحت, طب صابر,

Leave a Reply