18 سال سے کم عمر کی شادی اور بلوغت کی تعریف

18 سال سے کم عمر کی شادی اور بلوغت کی تعریف 1

18 سال سے کم عمر کی شادی اور بلوغت کی تعریف

18 سال سے پہلےشادی پر پابندی: شرعی اصولوں پر ایک قانونی وار

تحریر: سید عبدالوہاب شاہ شیرازی

پاکستان کی حالیہ قومی اسمبلی نے ایک ایسا قانون منظور کیا ہے جس کے تحت 18 سال سے کم عمر لڑکی یا لڑکے کا نکاح کرنا جرم قرار دے دیا گیا ہے۔ اس قانون کے مطابق نہ صرف کم عمر افراد کا نکاح قابلِ سزا جرم ہوگا بلکہ اس میں شامل نکاح خواں، والدین اور دیگر ذمہ دار افراد کو بھی جرمانہ اور قید کی سزائیں دی جا سکتی ہیں۔

اس قانون کو بظاہر “چائلڈ پروٹیکشن” کے خوبصورت عنوان کے تحت پیش کیا گیا، لیکن اس کے اندرونی اثرات نہایت گہرے اور خطرناک ہیں، جن کا تعلق براہ راست اسلامی شریعت، پاکستانی آئین، انسانی فطرت اور سماجی اقدار سے ہے۔اصل قانون تو کئی سال پہلے بنا تھا جس میں بلوغت کی تعریف کو بدلا گیا تھا، ہم نے اسے قبول کیا تو آج اس کا پہلا نتیجہ یہ نکلا کہ 18 سال سے کم عمری میں نکاح پر پابندی لگا دی گئی۔

نکتہ
نکتہ سید عبدالوہاب شیرازی

شریعت کی نظر میں بلوغت کی حقیقت

اسلامی تعلیمات میں بلوغت کسی خاص عمر سے مشروط نہیں بلکہ جسمانی و فطری علامات سے متعین ہوتی ہے۔ قرآن و سنت اور فقہاء امت نے واضح طور پر بتایا ہے کہ:

لڑکی میں حیض (ماہواری) یا حمل کی صلاحیت،اور لڑکے میں احتلام (جنسی اخراج) یا دیگر علامات کا ظہور بلوغت تصور ہوں گیں۔

اگر یہ علامات ظاہر ہو جائیں تو وہ فرد بالغ شمار ہوتا ہے، خواہ اس کی عمر 12 سال ہو یا اس سے کم۔اور اگر کوئی علامت ظاہر نہ ہو تو فقہائے کرام کے اتفاق سے 15 قمری سال مکمل ہونے پر لڑکا یا لڑکی شرعاً بالغ تصور کیے جاتے ہیں۔یعنی اسلامی شریعت میں بلوغت کی تعریف عمر کی بجائے جسمانی علامات پر مبنی ہے، جیسے حیض، احتلام، یا دیگر فطری علامات۔ اگر یہ علامات ظاہر نہ ہوں تو پندرہ سال کی عمر میں بلوغت فرض کی جاتی ہے۔یہی وہ بلوغت ہے جس کے بعد نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج، جہاد، نکاح، حدود و تعزیرات، وراثت، مالی لین دین، معاہدات، گواہی، سب پر احکام لاگو ہوتے ہیں۔

ملکی قانون میں بلوغت کا تصور: شریعت سے تصادم

چند سال پہلے جو قانون بنا تھا اس میں بلوغت کی تعریف کو بدلا گیا تھا، یعنی شریعت نے بلوغت کو عمر کے ساتھ مقید نہیں کیا بلکہ علامات بتائی ہیں کہ یہ یہ علامات پیدا ہو جائیں تو لڑکا یا لڑکی بالغ تصور ہوں گے ورنہ نابالغ۔ اور اگر یہ علامات پندرہ سال تک ظاہر نا ہوں تو پندرہ سال والا لڑکا یا لڑکی بغیر علامات کے بھی بالغ ہی تصور ہوں گے۔

جو قانون بنایا گیا اس میں شریعت کے اس اصول کو دو اعتبار سے بدلا گیا:

١۔ علامات کو بالکل مسترد کر دیا گیا۔

٢: پندرہ سال کو ١٨ سال کردیا گیا۔

اس تبدیلی پر خاموشی کا پہلا نتیجہ آج یہ نکلا کہ اب نکاح پر نا صرف پابندی لگائی گئی ہے بلکہ اس کی سزائیں بھی مقرر کی گئی ہیں۔ پاکستان میں کئی سال قبل بنائے گئے قانون میں بلوغت کی شرعی تعریف کو تبدیل کرکے یوں گویا قانون نے اعلان کر دیا کہ جسے شریعت بالغ سمجھتی ہے، وہ ریاست کی نظر میں اب بھی بچہ ہے!

پاکستان پینل کوڈ کی متعلقہ شقیں

پاکستان پینل کوڈ سیکشن 82 کے تحت سات سال سے کم عمر بچوں کو فوجداری ذمہ داری سے مستثنیٰ قرار دیا گیا تھا۔ تاہم، 2016 میں “Criminal Law (Second Amendment) Act 2016” کے ذریعے اس میں ترمیم کی گئی، جس کے بعد یہ حد بڑھا کر دس سال کر دی گئی۔اسی ترمیم کے تحت، سیکشن 83 میں بھی تبدیلی کی گئی، جس کے مطابق دس سے چودہ سال کے بچے اگر “کافی سمجھ بوجھ” نہ رکھتے ہوں تو ان پر فوجداری ذمہ داری عائد نہیں کی جا سکتی۔

سیکشن 299 کے تحت “بالغ” کی تعریف:  “بالغ” سے مراد وہ شخص ہے جس کی عمر اٹھارہ سال مکمل ہو چکی ہو۔

جیووینائل جسٹس سسٹم ایکٹ 2018 (JJSA 2018)

یہ قانون 18 مئی 2018 کو منظور ہوا، جس میں “بچہ” کی تعریف درج ذیل ہے: “بچہ” سے مراد وہ شخص ہے جس کی عمر اٹھارہ سال سے کم ہو۔

اس قانون کے مطابق، اٹھارہ سال سے کم عمر افراد کو خصوصی قانونی تحفظات دیے جاتے ہیں، اور ان کے مقدمات خصوصی عدالتوں میں چلائے جاتے ہیں۔

اسی تبدیلی کا پہلا عملی نتیجہ اب سامنے آیا ہے کہ 18 سال سے کم عمر افراد کے نکاح پر پابندی عائد کر دی گئی ہے، اور اس پر سزا بھی رکھی گئی ہے۔ گویا شریعت کی اجازت کے باوجود نکاح ایک مجرمانہ عمل بن گیا ہے۔

نکاح پر پابندی کے شرعی، قانونی اور معاشرتی نقصانات

یہ قانون صرف “کم عمری کی شادی” کو نہیں روکتا بلکہ ایک پورے شرعی، سماجی اور اخلاقی نظام کو متاثر کرتا ہے۔ ذیل میں اس کے چند اثرات پر روشنی ڈالی جا رہی ہے:

1۔ شریعت کے بنیادی احکام کی نفی

اسلام میں نکاح نہ صرف جائز بلکہ ترغیب دیا گیا عمل ہے، خاص طور پر اس وقت جب لڑکا یا لڑکی اپنی جنسی و فطری خواہش کو کنٹرول کرنے سے عاجز ہوں۔ یہ قانون ایسے بالغ نوجوانوں کو نکاح سے روک کر انہیں زنا یا ناجائز تعلقات کی طرف دھکیلتا ہے، جو کہ نہ صرف اخلاقی فساد بلکہ معاشرتی انتشار کا باعث ہے۔

2۔ گناہ کو قانونی تحفظ

اگر سترہ سال 364 دن کا لڑکا یا لڑکی زنا کریں تو عملی طور پر وہ سب کچھ ہوگا جو جماع کرنے سے ہوتا ہے، یعنی مکمل ہمبستری، حمل کا ٹھہرنا، باکرہ نا رہنا، وغیرہ لیکن ملکی قانون کی رو سے یہ بڑا جرم نہیں کہلائے گا، کیونکہ یہ دو بچوں سے سرزد ہونے والا فعل ہے ۔ اگر دو نوجوان، جو جسمانی طور پر بالغ ہیں، نکاح کے بجائے ناجائز تعلق قائم کریں تو چونکہ وہ 18 سال سے کم عمر ہیں، قانون انہیں بالغ تسلیم نہیں کرتا، اس لیے ان پر زنا کا مقدمہ بھی نہیں چل سکتا، حد یا تعزیر کا نفاذ بھی نہیں ہو سکتا، اور نہ ہی وہ سزا کے مستحق ہیں۔ گویا شریعت جس فعل کو گناہ اور قابلِ سزا جرم قرار دیتی ہے، قانون اسے بچوں کی “چپل حرکت” کہہ کر معاف کر دیتا ہے۔

3۔ نوجوانوں کے حقوق کی خلاف ورزی

ایک اعتبار سے یہ انسانی حقوق کی بھی خلاف ورزی ہے کہ ایک انسان کا یہ حق ہے کہ وہ اپنی نفسانی خواہش کو پورا کرنے کے لیے نکاح کرے لیکن یہ قانون تین سال سے آٹھ سال تک اسے روکے رکھتا ہے اور اسے نکاح کی  اجازت نہیں دیتا۔ایک ایسا لڑکا جو جسمانی، ذہنی اور جنسی طور پر بالغ ہے، لیکن 18 سال سے کم عمر ہے، اگر وہ اپنی شرعی اور فطری ضرورت پوری کرنے کے لیے نکاح کرنا چاہے تو ریاست اسے منع کرتی ہے۔ صرف منع ہی نہیں بلکہ اس کے نکاح کے بندوبست میں شامل والدین، نکاح خواں، اور گواہوں کو سزا بھی دیتی ہے۔ یہ گویا فطرت اور دین دونوں سے بغاوت ہے۔ نوجوانوں سے ان کا ایک بنیادی حق چھینا جا رہا ہے۔

4۔ گواہی، وراثت اور بیع و شراء پر اثرات

جب قانون کسی کو بالغ ہی نہ مانے تو پھر اس کی گواہی کیسے قابل قبول ہو؟ اگر کوئی بچہ قتل، زنا یا چوری کا چشم دید گواہ ہو لیکن 18 سال سے کم ہو تو اس کی گواہی غیر معتبر قرار دی جائے گی، حالانکہ شریعت میں بالغ (جسمانی علامات کی بنیاد پر) کی گواہی قابل قبول ہے۔

اسی طرح شریعت کے مطابق بالغ فرد اپنی جائیداد کا مالک ہو سکتا ہے، خرید و فروخت کر سکتا ہے، معاہدہ کر سکتا ہے، ہبہ اور وصیت کر سکتا ہے، مگر ملکی قانون میں 18 سال کی عمر سے پہلے یہ تمام معاملات غیر مؤثر ہیں۔

دینی نظام کے لیے ایک سنگین خطرہ

یہ قانون صرف نکاح تک محدود نہیں، بلکہ شریعتِ اسلامی کے پورے ڈھانچے کو بے اثر کرنے کا راستہ ہے۔ اگر ہم نے بلوغت کی یہ قانونی تعریف قبول کر لی تو کل کو:

  1. رمضان میں کھلے عام روزہ توڑنے  والے 17 سال کے آدمی پر کوئی سزا نہ ہوگی، کیونکہ وہ بچہ ہے۔
  2. نماز نہ پڑھنے والا بھی قابلِ مؤاخذ نہ ہوگا، کیونکہ بالغ نہیں۔
  3. زکوٰۃ اور حج کی شرعی فرضیت بھی 18 سال کی عمر سے مشروط کر دی جائے گی۔
  4. لڑکی کا پردہ، نکاح، وراثت، گواہی سب کچھ صرف ایک سیکولر “عمر کی لکیر” پر منحصر ہو کر رہ جائے گا۔

جب ہم نے کچھ عرصہ قبل بلوغت کی تعریف کے بدلنے کے قانون کو قبول کیا تھا  تو  چند سال بعد آج ہمیں نکاح سے روکا جا رہا ہے، کل کو اسی طرح مزید کئی چیزوں کو تبدیل کرنے کی کوشش ہو سکتی ہے، مثلا صلوۃ، صوم، زکوہ، حج کی نا صرف تعریف بدلی جاسکتی ہےکہ صلوۃ بمعنی دعا ہے، زکوۃ بمعنی ٹیکس ہے وغیرہ۔

قانون سازی کے نام پر شریعت کا حلیہ بگاڑنے کی کوشش

اس قانون کی اصل خرابی یہ ہے کہ اس نے دین اسلام کے ایک واضح اصول — علاماتِ بلوغت — کو نظر انداز کر کے ایک مغربی تصور (Legal Majority at 18) کو بنیاد بنایا۔ پھر اسی تعریف کے سہارے شریعت کے کئی شعبوں پر حملہ کیا گیا۔ اس لیے یہ محض ایک قانونی ترمیم نہیں بلکہ شریعتِ اسلامی کے خلاف ایک فکری و قانونی بغاوت ہے۔

ہمیں کیا کرنا چاہیے؟

علما، وکلاء، قانون دان اور دین پسند طبقات کو اس پر متحد ہو کر آواز بلند کرنی چاہیے۔عدالت میں اس قانون کے خلاف رٹ پٹیشن دائر کی جانی چاہیے کہ یہ نہ صرف اسلامی احکام سے متصادم ہے بلکہ آئینِ پاکستان کی شق 227 کے بھی خلاف ہے۔ عوام کو اس قانون کے نقصانات سے آگاہ کیا جائے اور فکری سطح پر اسلامی اصولوں کی وضاحت کی جائے۔ہم یہ نہیں کہتے کہ جس میں بلوغت کی علامات ظاہر ہوں اس کی ضرور شادی کر دی جائے بلکہ جیسے شریعت نے اسے اوپن چھوڑا ہے اسے اسی طرح اوپن چھوڑا جائے تاکہ ہر مسلمان اپنی ضرورت، مجبوری اور دیگر عوامل کو دیکھ کر اپنے اور اپنے بچوں کے بہتر مفاد کو مدنظر رکھ کر فیصلہ کرے، سب کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنا غیر مناسب ہے اور ناجائز ہے۔

اہم نکتہ

 یاد رکھنے اور نکتے والی بات یہ ہے کہ شریعت میں اصل علامات ہیں چاہے وہ بارہ سال میں ظاہر ہوں یا پندرہ سال میں۔ عمر محض اندازہ ہے کہ علامات ظاہر نہیں ہوئی تو عمر پندرہ  قمری سال بلوغت تصور ہوگی۔ جبکہ اس قانون میں علامات کو یکسرمسترد کرکے عمر کو بھی پندرہ سے بڑھا کر 18 سال عمر کو مقرر کر دیا گیا ہے۔ 15قمری سال، شمسی کیلنڈر کے حساب سے 14 سال7 مہینے بنتے ہیں۔ گویا حکومت نے 18 سال عمر مقرر کرکے تین سال چھ مہینے اضافہ کردیا ہے۔یہ بھی اس صورت میں جب ہم پندرہ سال کو بلوغت قرار دیں ورنہ شارع نے تو نو سال،اور بارہ سال میں بھی بلوغت رکھی ہے۔

Related posts

Leave a Reply