اقوام متحدہ کی چھٹی۔ چین نے اپنی اقوام متحدہ بنا دی
چین کا نیا عالمی ثالثی ادارہ: عالمی عدالتی نظام پر عدم اعتماد کا اعلان
✍ تحریر: نکتہ گائیڈنس ڈیسک
دنیا ایک نئے عالمی عدالتی دور میں داخل ہو رہی ہے، جہاں مغربی تسلط، دہرا معیار اور انصاف کے نام پر سیاسی کھیل کھل کر بے نقاب ہو چکے ہیں۔ اقوام متحدہ اور عالمی عدالت انصاف (International Court of Justice – ICJ) جیسی عالمی تنظیمیں ایک عرصے سے انسانی حقوق، قانون، عدل اور امن کے خواب دکھا رہی تھیں، مگر حقیقت میں ان کا کردار طاقتوروں کے مفادات کے تحفظ سے آگے نہیں بڑھ سکا۔
اقوام متحدہ کی بے بسی، عالمی عدالت کی خاموشی
گزشتہ ایک سال کی عالمی صورتحال کو اگر بغور دیکھا جائے تو غزہ میں اسرائیلی بربریت، یمن کی تباہی، کشمیر کی خاموش قتل گاہ، اور روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی جیسے واقعات ہمارے سامنے موجود ہیں۔ مگر کیا کبھی اقوام متحدہ نے ان مظلوموں کو حقیقی انصاف فراہم کیا؟ کیا عالمی عدالت انصاف نے ان ظالموں کے ہاتھ روکے؟ افسوس کہ جواب “نہیں” ہے۔
غزہ میں اسرائیل کے ہاتھوں ہزاروں بچوں، عورتوں اور معصوموں کی شہادت کے بعد دنیا کی نظریں اقوام متحدہ اور ICJ کی طرف تھیں۔ مگر نہ صرف یہ ادارے خاموش رہے، بلکہ امریکہ اور یورپ کی حمایت یافتہ پالیسیوں نے ظالم کو مزید جری بنا دیا۔ عالمی عدالت انصاف میں جنوبی افریقہ کی جانب سے اسرائیل کے خلاف دائر کردہ مقدمے کو سنجیدگی سے لینے کے بجائے صرف علامتی کارروائیاں کی گئیں۔

چین کا تاریخی اقدام: متبادل عالمی عدلیہ کی بنیاد
ایسے ہی پس منظر میں 30 مئی 2025 کو چین نے ایک نیا بین الاقوامی ثالثی ادارہ “International Organization for Mediation (IOMed)” ہانگ کانگ میں قائم کرنے کا اعلان کیا۔ اس فورم کو عالمی عدالت انصاف کا متبادل ادارہ تصور کیا جا رہا ہے، جس میں شروع میں 31 ممالک نے شرکت کی جن میں پاکستان، انڈونیشیا، کمبوڈیا، لاؤس، سربیا جیسے ممالک شامل ہیں۔
یہ ادارہ نہ صرف بین الاقوامی تنازعات کے حل کے لیے ثالثی کا کردار ادا کرے گا بلکہ اسے ایک نئے غیر مغربی عدالتی نظام کے طور پر بھی دیکھا جا رہا ہے، جہاں انصاف صرف طاقتوروں کے لیے نہیں بلکہ مظلوموں کے لیے بھی ہوگا۔
End of American United Nations | China & Pakistan Create Their Own United Nations
ہانگ کانگ: انصاف کا نیا عالمی مرکز
ہانگ کانگ کو یہ ادارہ قائم کرنے کے لیے منتخب کرنا خود ایک علامتی پیغام ہے۔ مغرب ہانگ کانگ کو “آزادی کے لیے خطرہ” قرار دیتا ہے، مگر چین نے اسے ایک عالمی قانونی مرکز بنانے کا فیصلہ کر کے دنیا کو یہ باور کروایا ہے کہ اب انصاف مغرب کی اجارہ داری سے آزاد ہوگا۔ اس اقدام کی قیادت چینی وزیر خارجہ وانگ یی نے کی، جس میں بین الاقوامی تنظیموں، ثالثی اداروں اور سفیروں نے شرکت کی۔
ایک متوازن نظامِ انصاف کی طرف قدم
اس نئے ادارے کے قیام کا مقصد صرف سیاسی نہیں بلکہ ایک نیا غیر جانبدار، متوازن، اور انسانی بنیادوں پر مبنی انصاف کا نظام قائم کرنا ہے۔ چین اور اس کے اتحادی ممالک سمجھتے ہیں کہ مغربی عدالتی نظام اپنے مفادات کے تابع ہو چکا ہے۔ اب دنیا کو ایک ایسا پلیٹ فارم درکار ہے جہاں:
- انصاف مہیا کیا جائے، تاخیر نہ ہو
- کمزور ممالک کی بات سنی جائے
- مظلوم اقوام کو طاقتور ریاستوں کے ظلم سے بچایا جائے
- ثالثی کے ذریعے جنگ سے پہلے مسئلہ حل کیا جائے
نئی عالمی صف بندی: مغرب بمقابلہ مشرق؟
یہ اقدام دنیا میں ایک نئے عالمی عدالتی بلاک کے آغاز کی نوید دے رہا ہے۔ ماہرین کے مطابق اگر یہ ادارہ کامیابی سے اپنی خدمات سر انجام دیتا ہے، تو بہت سے ترقی پذیر اور اسلامی ممالک اس میں شمولیت اختیار کریں گے، اور یوں مغربی سیاسی و عدالتی اجارہ داری کو ایک بڑا چیلنج درپیش ہوگا۔
انصاف کی نئی امید یا نئی سرد جنگ؟
چین کا یہ قدم ایک انقلابی تبدیلی کی بنیاد ہو سکتا ہے۔ اقوام متحدہ اور عالمی عدالت انصاف کی مسلسل ناکامیوں کے بعد، دنیا کو اب ایک متبادل، خودمختار اور عملی عدالتی نظام کی ضرورت ہے۔ اگر یہ نیا ثالثی ادارہ واقعتاً غیر جانبداری اور دیانت داری سے کام کرے، تو یہ مستقبل میں ظلم کے شکار مظلوموں کے لیے انصاف کا نیا سورج ثابت ہو سکتا ہے۔