کہانی افغان مہاجرین کی
یہ وہ کہانیاں ہیں جو اکثر ہمارے کانوں تک نہیں پہنچتیں، وہ کہانیاں جو ہمیں کبھی نہیں سننے کو ملتیں۔ لیکن یہ کہانیاں حقیقت ہیں، یہ حقیقتیں وہ ہیں جو کبھی نہ ختم ہونے والی اذیتوں اور غموں کے ساتھ جڑی ہوئی ہیں۔ یہ کہانیاں ہیں مہاجرین کی۔
مہاجرین، وہ لوگ ہیں جو اپنے وطن سے ہجرت کرکے دوسرے ممالک میں پناہ لیتے ہیں۔ تاریخ میں ایسا کئی بار ہوا کہ جنگوں، قدرتی آفات، یا معاشی بحرانوں نے لوگوں کو اپنی زمین چھوڑنے پر مجبور کیا۔ ہم پاکستانی بھی ایسی صورتحال سے ایک بار گزر چکے ہیں۔ افغانستان کے لاکھوں مہاجرین، سیرین جنگ کی وجہ سے پناہ لینے والے لاکھوں شامی مہاجرین، اور عراق، یمن، اور سوڈان کے مہاجرین بھی اسی صورتحال سے دوچار ہوئے۔ دنیا بھر میں پاکستان ان ممالک میں سے ایک ملک ہے جہاں سب سے زیادہ افغان مہاجرین نے پناہ لی ہوئی ہے۔
مہاجرین وہ لوگ ہیں جو اپنی زمین کو چھوڑنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ کبھی یہ جنگ کی وجہ سے ہوتا ہے، کبھی قدرتی آفات، یا پھر معاشی بدحالی کی وجہ سے۔ ان کی ہجرت ایک جبری عمل ہوتا ہے۔ آج دنیا کے مختلف ممالک میں لاکھوں مہاجرین پناہ گزین ہیں، جن میں سے کئی ملکوں نے پناہ دینے کی ذمہ داری اٹھائی، جیسے پاکستان، ایران ترکی، لبنان، جرمنی وغیرہ۔
آج کل پاکستان میں افغان مہاجرین کا مسئلہ اپنے عروج پر ہے،آئیے آپ کو بتاتے ہیں افغان مہاجرین کی مختصر کہانی جو اذیتوں، غموں اور دکھوں سے بھری ہوئی ہے۔
سویت یونین کا حملہ
دسمبر ١٩٧٩ میں سویت یونین افغانستان پر حملہ آور ہو جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ سویت یونین کا اصل نشانہ افغانستان نہیں تھا، بلکہ پاکستان کے گرم پانیوں تک پہنچنا ان کا اصل مقصد تھا۔
لیکن اس مقصد کے راستے میں رکاوٹ افغانی بنے اور افغان قوم نے دس لاکھ انسانی جانوں کی قربانی دی، ایک کروڑ افغانی اپنے گھروں سے بے گھر ہوئے، انہوں نے ہجرت کی۔
ایسا بھی تو ہو سکتا تھا کہ افغانی مزاحمت ہی ناکرتے اورسب سے پہلے افغانستان کا نعرہ لگا کر روسی فوجیوں کو اسی طرح راہداری دے دیتے جیسے ہم نے کراچی پورٹ سے طور خم تک امریکی فوجیوں کو دی تھی۔ اور وہ کہتے آئیں: دریائے آمو کے اس پار سے داخل ہوں اور سیدھے کابل سے ہوئے ہوئے طورخم پر پہنچ جائیں۔ آگے آپ جانیں اور پاکستان جانے۔
لیکن تاریخ ہمیں کچھ اور بتاتی ہے۔ وہ روسی فوج جس کا خیال تھا ہم صبح کا ناشتہ کابل میں اور دوپہر کا کھانا پشاور میں کھائیں گے، افغانی اس کے آگے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن گئے۔
سویت یونین کے اس ایک دن کے پلان کو افغانیوں نے دس سال تک لمبا کردیا، اور ایک روسی فوجی کو بھی طورخم تک نہیں پہنچنے دیا۔
روسی فوج کے ظلم و سربریت کی داستانیں بے شمار ہیں، ان کے ہیلی کاپٹر کسی گاوں میں اترتے تھے، وہاں سے ایسی نوجوان خواتین کو اٹھاتے جن کے چہروں کو دوسرے گاوں والوں نے بھی کبھی نہیں دیکھا ہوتا تھا۔ انہیں ہیلی کاپٹر میں ڈالتے اور ہیلی کاپٹر اڑان بھرتا، ابھی ہیلی کاپٹر اس گاوں کے اوپر ہی ہوتا تھا کہ فضا میں ان خواتین کے کپٹرے اڑتے ہوئے اس گاوں پر آ گرتے تھے۔ کیا آپ تصور کر سکتے ہیں اس صورتحال میں ان لوگوں پر کیا گزرتی ہوگی۔
افغانیوں کی یہ مزاحمت اپنے لیے نہیں تھی، کیونکہ افغانستان کے خشک پتھریلے پہاڑوں پر روس کی دلچسپی کی کوئی چیز نہیں تھی وہ تو پاکستان کے گرم پانیوں تک پہنچنا چاہتا تھا۔ اسی ظلم و سربیت سے تنگ آکر وقت کے ساتھ ساتھ لاکھوں خواتین بچے اور بوڑھے اپنے پڑوسی ملک پاکستان اور ہجرت کرتے رہے۔ ایک اندازے کے مطابق دس سالوں میں چالیس سے پچاس لاکھ افغانیوں نے پاکستان اور تیس لاکھ اٖفغانیوں نے ایران کی طرف ہجرت کی۔
یہ ہجرت صرف ہجرت نہیں تھی بلکہ افغانی جوان اپنےبیوی بچوں اور بوڑھے والدین کو پاکستان کے مہاجر کیمپوں میں چھوڑ کر واپس اپنے ملک جاتے اور روسی فوج کے خلاف جہاد کرکے اپنی جان قربان کردیتے تھے۔
The Refugee Story: A Reality Everyone Must Understand
خانہ جنگی
١٩٨٩ میں روسی فوج شکست کھا کر واپس چلی گئی۔ اس کے بعد ایک دو سال افغانستان میں سکون سے گزرے اور حکومت سازی کا عمل شروع ہوا، لیکن جلد ہی حکومت حاصل کرنے کے لیے افغانستان کے مختلف گروہوں کے درمیان خانہ جنگی شروع ہوگئی۔ جس گروہ کے قبضے میں جو صوبہ تھا اس نے وہاں اپنی حکومت بنا لی۔ اس خانہ جنگی میں بھی کئی ہزار افغانی ہجرت کرکے پاکستان اور ایران آئے۔
چار پانچ سال تک کوئی مرکزی حکومت نہیں تھی، جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا قانون جاری تھا، افغانستان کے صوبے کم اور حکومتیں زیادہ تھیں، ایک علاقے سے دوسرے علاقے میں داخل ہونے کے لیے ہر ناکے پر ٹیکس دینا پڑتا تھا۔ اور یہ ٹیکس کبھی کسی عورت کی عزت کی قیمت پر بھی لیا جاتا تھا۔
تحریک طالبان
پھر ١٩٩٤ میں تاریخ ایک نیا موڑ لیتی ہے،ایک ناکے پر کسی عورت کی عزت لوٹی جاتی ہے جسے سن کر کسی مدرسے کا ایک طالبعلم جس کا نام عمر تھا ہاتھ میں کلاش کوف تھامے اس ناکے پر پہنچتا ہے اور ان غنڈوں کو برسٹ مار کر ڈھیر کردیتا ہے۔ جس پر علاقے کے لوگ سکھ کا سانس لیتے ہیں۔ کچھ دن بعد اسی طرح کے واقعے پر وہ اپنے ساتھ کچھ اور طالبعلموں کو لے کر ایک اور ناکے پر پہنچتا ہے اور ڈاکووں لٹیروں کا خاتمہ کردیتا ہے۔ اس طرح ایک انفرادی واقعے سے شروع ہونے والی یہ تحریک قومی تحریک بن جاتی ہے، جسے آج ہم افغان طالبان کے نام سے جانتے ہیں۔
صرف دو سال میں افغان طالبان کابل پر بھی قبضہ کر لیتے ہیں اس طرح ٨٠ فیصد افغانستان ان کے قبضے میں آجاتا ہے اور ایک مضبوط مرکزی حکومت قائم ہو جاتی ہے۔ اس حکومت کے قائم ہونے کے بعد ملک میں مجموعی لحاظ سے امن قائم ہو جاتا ہے اور محدود تعداد میں مہاجرین کی واپسی کا عمل بھی شروع ہو جاتا ہے۔
امریکی حملہ
لیکن ٢٠٠١ میں امریکا افغانستان پر حملہ کردیتا ہےاور ایک مہینے تک افغانستان کی فضاوں سے لاکھوں ٹن بارودی مواد کے بم گرائے جاتے ہیں جس کے نتیجے میں ایک بار پھر لاکھوں مہاجرین ایران اور پاکستان کا رخ کرتے ہیں۔
کہنے والے تو اب بھی کہتے ہیں افغانستان ایک بہانہ تھا، پاکستان اصل نشانہ تھا۔ اگر یہ بات درست ہے تو پھر ہمیں یہ بھی ماننا پڑے گا کہ ان مہاجرین کی قربانیاں پاکستان کے لیے ہیں۔
پھر ٢٠٢١ کا سال آتا ہے اور امریکا افغانستان سے نکل جاتا ہےاور ایک بار پھر وہاں طالبان کی حکومت آجاتی ہے اور مکمل امن قائم ہو جاتا ہے۔ طالبان کی حکومت آنے کے بعد ایسے افغانی جو بیس سال امریکی فوج کی خدمت کرتے رہےانہیں خطرہ لاحق ہو جاتا ہے کہ اب افغان حکومت ہمارا محاسبہ کرے گی، اس ڈر سے وہ پھر ایران اور پاکستان کا رخ کرتے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں پاکستان نے پچھلے چالیس سالوں میں اپنے پڑوسی افغانوں ٹھکانا دیا، اور ان کے لیے کسی قسم کی رکاوٹ کھڑی نہیں کی۔ یہ ان کا پڑوسی ہونے کا حق بھی تھا اور مسلمان بھائی ہونے کا حق بھی تھا جسے پورا کیا گیا۔
اب پاکستان چاہتا ہے افغان مہاجرین اپنے ملک واپس لوٹ جائیں کیونکہ وہاں اب امن اور مرکزی حکومت قائم ہو چکی ہے۔ افغان حکومت بھی چاہتی ہے افغانی واپس اپنے ملک آئیں ، لیکن جو لوگ یہاں سیٹل ہو چکے ہیں، ان کو واپس جانا مشکل لگتا ہے اور یہ ایک فطری چیز ہے۔ ہم بھی جب اپنے ہی ملک میں ایک شہر سے دوسرے شہر ہجرت کرکے وہاں سیٹل ہو جاتے ہیں تو اپنے آبائی گاوں شفٹ ہونا بھی نا صرف مشکل بلکہ محال ہو جاتا ہے۔
اس لیے اس وقت ان مہاجرین کو طعنے دینے، ان کے ساتھ ہتک آمیز سلوک کرنے کے بجائے عزت و احترام اور حوصلے کے ساتھ انہیں ان کے ملک بھیجنا ہی وہ واحد حل ہے جس سے ہمارا مسئلہ بھی حل ہو گا اور ان کا مسئلہ بھی حل ہوگا۔
اگر ہم انہیں بے عزت کرکے دھکے مار کر نکالیں گے تو ہماری وہ ساری خدمات پانی میں بہہ جائیں گیں جو چالیس سال سے ہم دے رہے تھے۔ یہ مہاجرین ٹرکوں میں بھر بھر کر ہم ڈی پورٹ تو کر دیں گے لیکن یہ ہمیشہ کے لیے ہمارے دشمن بن جائیں گے۔ اس لیے عالمی اداروں، اقوام
متحدہ، این جی اوز، افغان حکومت کے ساتھ مل کر ایسا پلان تیار کرنے کی ضرورت ہے جس کے تحت مہاجرین بھی واپس چلے جائیں اور ہمارے تعلقات بھی خراب نا ہوں۔