فرقہ واریت کی تعریف

فرقہ واریت کی تعریف

فرقہ واریت کی تعریف

ایک علمی، دینی اور فکری وضاحت

تحریر: سید عبدالوہاب شاہ

دنیا بھر میں “فرقہ واریت” ایک ایسا لفظ بن چکا ہے جسے بعض اوقات غیر شعوری طور پر اور کبھی دانستہ طور پر دینی طبقات کو بدنام کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ لیکن اصل سوال یہ ہے: فرقہ واریت دراصل ہے کیا؟ کیا ہر اختلاف فرقہ واریت ہوتا ہے؟ کیا موجودہ فقہی مسالک اور دینی تنظیمیں فرقے ہیں؟ اس مضمون میں ہم ان تمام سوالات کا مدلل جواب دینے کی کوشش کریں گے۔

فرقہ واریت کی صحیح تعریف

فرقہ واریت کا مفہوم یہ ہے:

“ایسی باتوں میں اختلاف کرنا جہاں دین نے اختلاف کی گنجائش ہی نہ چھوڑی ہو، یا ایسی باتوں میں اختلاف کی گنجائش نہ دینا جہاں دین نے اختلاف کی اجازت دی ہو۔”

یعنی اگر کوئی شخص دینی عقائد یا اعمال میں ایسی بات پیش کرے جس کی شریعت میں کوئی اصل موجود نہ ہو، تو یہ فرقہ واریت ہے۔ اسی طرح جہاں دین نے اجتہاد اور فقہی رائے کی گنجائش دی ہو، وہاں سختی کرنا بھی فرقہ واریت ہے۔

حدیثِ مبارکہ کی روشنی میں

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

“میری امت 73 فرقوں میں بٹ جائے گی، ان میں سے 72 جہنم میں ہوں گے اور ایک جنت میں جائے گا۔”
پوچھا گیا: یا رسول اللہ! وہ نجات پانے والا کون ہے؟
آپ ﷺ نے فرمایا: “وہ جو میرے اور میرے صحابہ کے طریقے پر ہو (ما أنا عليه وأصحابي)”۔

یہ حدیث واضح کرتی ہے کہ نجات پانے والا گروہ وہ ہے جو سنتِ نبوی اور صحابہ کے راستے پر قائم ہو۔

فقہی مسالک اور تنظیمیں فرقے نہیں ہیں

ہمارے معاشرے میں بعض لوگ یہ گمان کرتے ہیں کہ:

  • فقہی مسالک جیسے حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی یا
  • دینی تنظیمیں جیسے تبلیغی جماعت، جماعت اسلامی، جمعیت علمائے اسلام، تنظیم اسلامی وغیرہ

فرقہ واریت کا شکار ہیں۔ حالانکہ یہ سب “ما أنا عليه وأصحابي” کے دائرے میں آتے ہیں۔ یہ فرقے نہیں بلکہ سنتِ رسول کے مختلف اجتہادی اور عملی پہلو ہیں۔

اختلاف کی دو اقسام

1. جائز اختلاف (اختلافِ تنوع):

جیسے:

  • نماز کے طریقے میں معمولی فرق (رفع یدین، آمین بالجہر وغیرہ)
  • داڑھی کے انداز میں مختلف روایات کی پیروی

ایسے اختلاف کو فقہی تنوع کہتے ہیں اور یہ فرقہ واریت نہیں کہلاتا۔

2. ناجائز اختلاف:

جیسے:

  • نماز کا انکار کرنا
  • زکوٰۃ، حج، روزہ کو غیر ضروری کہنا
  • احادیث کا انکار کرنا
  • یہ سب فرقہ واریت کے زمرے میں آتا ہے کیونکہ ان معاملات میں دین نے کسی اختلاف کی اجازت نہیں دی۔

خلفائے راشدین اور علمی خلافت

نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

“میرے بعد بہت اختلاف ہوں گے، تو تم میری سنت اور میرے خلفائے راشدین کی سنت کو لازم پکڑنا۔”

شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کے مطابق آپ ﷺ کی خلافت تین طرح کی ہے:

  1. سیاسی خلافت
  2. علمی خلافت — جس کے نمائندہ امام ابوحنیفہؒ، امام شافعیؒ، امام مالکؒ، امام احمد بن حنبلؒ ہیں۔
  3. باطنی خلافت

لہٰذا ہمیں علمی خلافت کے ائمہ کی پیروی کرنی چاہیے تاکہ فتنوں سے محفوظ رہیں۔

اصل فرقہ واریت کے اسباب

  1. انکارِ حدیث — صرف قرآن کو ماننا اور حدیث کو مسترد کرنا۔
  2. سیکولرازم — دین کو زندگی کے دیگر شعبوں (سیاست، معیشت، معاشرت) سے الگ کرنا۔
  3. لبرل ازم و روشن خیالی — جو دین کی بنیادی تعلیمات کو فرسودہ تصور کرتا ہے۔
  4. میڈیا کا کردار — جو اصل فتنہ چھوڑ کر دینی طبقات پر الزام لگا دیتا ہے۔

خلاصہ کلام یہ کہ:

  • فرقہ واریت کا مطلب ہرگز اجتہادی اختلافات نہیں۔
  • اصل فرقہ واریت تب شروع ہوتی ہے جب دین کی بنیادی اور قطعی باتوں سے انکار کیا جائے یا ان میں من مانی کی جائے۔
  • نجات یافتہ گروہ وہی ہے جو سنتِ نبوی اور صحابہ کرام کے راستے پر قائم ہو۔
  • فقہی مسالک اور دینی جماعتیں اگر سنت اور شریعت کے دائرے میں کام کر رہی ہیں تو وہ ہرگز فرقہ نہیں۔

Related posts

Leave a Reply