شلوار اور فرقہ واریت

شلوار اور فرقہ واریت 1

شلوار اور فرقہ واریت

تحریر: سید عبدالوہاب شاہ شیرازی

یہ ایک نہایت سنجیدہ اور غور طلب حقیقت ہے کہ قومی سطح پر جب بھی علماء اور دینی طبقے کا ذکر آتا ہے تو بعض ذمہ دار مناصب پر فائز افراد علمی مسائل کو اس انداز سے پیش کرتے ہیں جیسے یہی مسائل ملک میں فساد، تشدد اور فرقہ واریت کی اصل وجہ ہوں۔ حال ہی میں کنونشن سنٹر میں منعقدہ قومی علماء کانفرنس میں فیلڈ مارشل کا یہ کہنا کہ علماء اس بات میں الجھے ہوئے ہیں کہ شلوار ٹخنوں سے اوپر ہونی چاہیے یا نیچے، اور وزیر اعظم کا یہ جملہ کہ علماء آمین اونچی کہی جائے یا آہستہ اس میں الجھے ہوئے ہیں، اسی طرز فکر کی عکاسی کرتا ہے۔

نکتہ
نکتہ سید عبدالوہاب شیرازی

سب سے پہلی اور بنیادی بات یہ سمجھنے کی ہے کہ شلوار ٹخنوں سے اوپر یا نیچے رکھنے کا مسئلہ ہو یا آمین بالجہر اور آمین بالسر کا اختلاف، یہ سب راجح اور مرجوح کے مسائل ہیں۔ یہ فقہی اور علمی اختلافات ہیں جو صدیوں سے امت میں موجود ہیں۔ ان اختلافات کو ائمہ مجتہدین نے علمی بنیادوں پر بیان کیا، دلائل دیے، کتابیں لکھیں اور ایک دوسرے کے موقف کا احترام بھی کیا۔ یہ اختلاف نہ تو کبھی فساد کا سبب بنا، نہ اس پر کبھی سڑکیں بند ہوئیں، نہ پارلیمنٹ کی دیواروں پر شلواریں ٹانگی گئیں، نہ کروڑوں کی نشستیں ان مسائل پر خریدی اور بیچی گئیں، اور نہ ہی ان اختلافات کی بنیاد پر قتل و قتال ہوا۔

یہ حقیقت بھی فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ چند سال پہلے تک یہ مباحث زیادہ تر مدارس، مساجد، کتابوں اور علمی مجالس تک محدود تھے۔ یہ زبانی اور تحریری علمی گفتگو تھی، جس کا دائرہ مذہبی طبقے سے باہر شاذ و نادر ہی نکلتا تھا۔ آج کے دور میں تو یہ بحثیں بھی تقریباً ختم ہو چکی ہیں اور عام آدمی ان میں دلچسپی بھی نہیں رکھتا۔ اس کے باوجود انہیں فرقہ واریت کا عنوان دے کر پیش کرنا علمی دیانت کے خلاف ہے۔

یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر فرقہ واریت اصل میں ہے کیا۔ فرقہ واریت کا مطلب یہ نہیں کہ کسی مسئلے میں علمی اختلاف ہو۔ فرقہ واریت کا اصل مفہوم یہ ہے کہ لوگوں کو اس طرح گروہوں میں تقسیم کر دیا جائے کہ وہ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو جائیں، ملک و قوم کو جانی اور مالی نقصان پہنچائیں، ریاستی ادارے مفلوج ہو جائیں اور معاشرہ نفرت اور انتشار کا شکار ہو جائے۔

شلوار اور فرقہ واریت

اگر پچھلے بیس برس کی تاریخ پر نظر ڈال لی جائے تو صاف دکھائی دیتا ہے کہ شلوار اوپر یا نیچے کرنے پر، یا آمین اونچی یا آہستہ کہنے پر نہ کوئی قتل ہوا، نہ کسی کی گاڑی جلائی گئی، نہ درخت کاٹے گئے، نہ فوج، پولیس یا ایف سی کو سڑکوں پر لانا پڑا، نہ عمارتیں نذر آتش ہوئیں اور نہ ہی پولیس کی گولیوں سے لوگ مارے گئے۔ ان تمام بیس برسوں میں ایسے تمام واقعات کا تعلق سیاسی جماعتوں کے جھگڑوں، اقتدار کی کشمکش اور سیاسی مفادات سے رہا ہے۔

یہ سیاسی لڑائیاں تھیں جنہوں نے قوم میں حقیقی تفرقہ پیدا کیا۔ یہی وہ جھگڑے تھے جنہوں نے معاشرے کو اس نہج پر پہنچایا کہ باپ بیٹے کو گالیاں دیتا ہے اور بیٹا باپ کو، بھائی بھائی سے ناراض ہے، پڑوسی ایک دوسرے کے دشمن بن گئے ہیں، اور سوشل میڈیا سے لے کر گلی محلوں تک نفرت اور بدزبانی عام ہو چکی ہے۔ یہ سب کچھ نہ شلوار کے مسئلے سے پیدا ہوا، نہ آمین کے اختلاف سے، بلکہ یہ سب اقتدار کی سیاست اور ذاتی مفادات کی آگ سے بھڑکا۔

لہذا اگر واقعی فرقہ واریت اور انتشار کا خاتمہ مطلوب ہے تو اس کی درست تشخیص ضروری ہے۔ علمی اور فقہی اختلافات کو نشانہ بنا کر اصل اسباب سے توجہ ہٹانا مسئلے کا حل نہیں۔ علماء کے فقہی مباحث صدیوں سے علمی حدود میں رہے ہیں اور آئندہ بھی رہ سکتے ہیں، بشرطیکہ انہیں زبردستی سیاسی اور معاشرتی فساد کا عنوان نہ بنایا جائے۔ اصل ضرورت اس بات کی ہے کہ قوم کو نفرت اور تقسیم کی سیاست سے بچایا جائے، اور ہر طبقے کو اس کے دائرے میں ذمہ داری کے ساتھ کردار ادا کرنے کا موقع دیا جائے۔

اصل فرقہ واریت حکومت اور سیاسی پارٹیوں نے مچائی ہوئی ہے، جس سے قوم تقسیم در تقسیم ہو کر ٹوٹ چکی ہے۔ اس فرقہ واریت کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔

Related posts

Leave a Reply