الحاد مناظرہ پرانی اصطلاحات نیا اسلوب

الحاد مناظرہ پرانی اصطلاحات نیا اسلوب مدارس کے طلباء متوجہ ہوں مفتی شمائل ندوی جاوید اختر

الحاد مناظرہ پرانی اصطلاحات نیا اسلوب

مفتی شمائل عبد اللہ ندوی اور جاوید اختر کی ڈیبیٹ

برصغیر کے مدارسِ عربیہ کے لیے ایک “عملی لرننگ کیس اسٹڈی”

20 دسمبر 2025 کو مفتی شمائل عبد اللہ ندوی صاحب اور جاوید اختر صاحب کے درمیان ہونے والی علمی ڈیبیٹ محض ایک وقتی مناظرہ نہیں تھی، بلکہ برصغیر کے تمام مدارسِ عربیہ کے طلبہ، اساتذہ اور ذمہ داران کے لیے ایک مکمل Learning Case Study کی حیثیت رکھتی ہے۔

یہ الحاد مناظرہ اس حقیقت کا عملی ثبوت ہے کہ جدید فکری سوالات یا الحادی شبہات کا جواب دینے کے لیے ہمیں کسی مستعار فکر کی ضرورت نہیں ہے۔ اس مکالمے میں جو دلائل پیش کیے گئے، وہ کوئی نئی یا مغربی ایجاد نہیں تھے، بلکہ یہ وہی منطقی و کلامی مباحث تھے جو آپ نے بارہا درسِ نظامی کی معتبر کتابوں میں پڑھے ہیں۔

بنیادی فرق: قدیم جوہر اور جدید قالب اس گفتگو کا امتیاز یہ تھا کہ:

 قدیم عربی اصطلاحات کو جدید انگریزی Terminology میں ڈھالا گیا۔  روایتی اسلوبِ بیان کو عصری اسلوب اور مؤثر Presentation کے ساتھ پیش کیا گیا۔  مدارس کے علمی ورثے کو پورے اعتماد اور ترتیب کے ساتھ جدید فہم کے مطابق واضح کیا گیا۔

یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اگر مدارس کا طالب علم اپنے نصاب پر گرفت مضبوط رکھے اور اسے وقت کی زبان میں بیان کرنے کا ملکہ پیدا کر لے، تو وہ الحادی فکر اور جدید شکوک کا بھرپور علمی تعاقب کر سکتا ہے۔

الحاد مناظرہ میں استعمال ہونے والی منطقی و کلامی اصطلاحات

ذیل میں وہ اصطلاحات درج ہیں جنہیں مفتی صاحب نے مہارت کے ساتھ استعمال کیا، تاکہ طلبہ کو احساس ہو کہ یہ سب ان کے روزمرہ کے اسباق کا حصہ ہیں:


کلامی و منطقی اصطلاح

انگریزی متبادل (English Terminology)
علت و معلولCause and Effect
تسلسلِ عللInfinite Regress
دلیلِ امکانArgument from Contingency
واجب الوجودNecessary Being
ممکن الوجودContingent Being
حدوثِ عالمCreatedness of the Universe
حدوثِ زمان و مکانContingency of Time and Space
قِدمِ ذاتِ باری تعالیٰEternity of God
دلیلِ سلمیStep-wise Logical Argument
بارِ ثبوت (مدعی پر)Burden of Proof
خلطِ مبحثRed Herring
جذباتی استدلالAppeal to Emotion
مغالطہ / قیاسِ سفسطیFallacy / Fallacious Argument
دلیلِ اکثریتAppeal to Majority
عدمُ العلم بالشیءLack of Knowledge
عدمُ الشیءNon-existence
نفیِ لزومNo Necessary Implication
علمِ سابق (تقدیر)Divine Foreknowledge
جبر و اختیارDeterminism vs Free Will

علمی ورثہ اور کتابی حوالہ جات

یہ تمام مباحث ہماری درسی کتب: منطق، علمِ کلام، انتباہاتِ مفیدہ، شرح تہذیب، قطبی، اور شرح عقائدِ نسفی وغیرہ میں پہلے سے موجود ہیں۔ یہ ڈیبیٹ ہمیں بتاتی ہے کہ اصل بنیاد اور کتابیں وہی مستند اور پرانی ہیں، نیا صرف اسلوب اور پیشکش کا انداز ہے۔



الحاد مناظرہ پرانی اصطلاحات نیا اسلوب مدارس کے طلباء متوجہ ہوں مفتی شمائل ندوی جاوید اختر ڈیبیٹ
الحاد مناظرہ پرانی اصطلاحات نیا اسلوب مدارس کے طلباء متوجہ ہوں مفتی شمائل ندوی جاوید اختر ڈیبیٹ

ڈیبیٹ (الحاد مناظرہ) کا اصل پیغام

یہ مکالمہ الحاد مناظرہ مدارسِ اسلامیہ کے لیے ایک واضح پیغام ہے کہ ہماری علمی روایت آج بھی فکری چیلنجز کا جواب دینے کی پوری صلاحیت رکھتی ہے۔ شرط صرف یہ ہے کہ:

  •  اس علمی سرمایے کو عصری زبان دی جائے۔
  •  پورے اعتماد کے ساتھ میدانِ عمل میں اترا جائے۔
  •  موجودہ فکری ماحول اور مخاطب کی نفسیات کو سامنے رکھا جائے۔

اگر ان پہلوؤں پر توجہ دی جائے، تو مدارس کا طالب علم محض منبر و محراب تک محدود نہیں رہے گا بلکہ جدید فکری ایوانوں میں بھی اسلام کی حقانیت کا علم بلند کرے گا۔

یہ بھی پڑھیں: بچوں کو الحاد (ایتھی ایزم) سے کیسے بچائیں؟

یہ بھی پڑھیں: سیکولرازم کا تعارف

مدارس کے طلبہ کے لیے عملی لائحہ عمل (Action Plan)

مذکورہ بالا الحاد مناظرہ سے حاصل ہونے والے اسباق کو اپنی علمی زندگی کا حصہ بنانے کے لیے طلبہ درج ذیل نکات پر توجہ دیں:

1. اصطلاحات کا دو لسانی مطالعہ (Bilingual Mastery):

صرف عربی اصطلاح رٹنے پر اکتفا نہ کریں، بلکہ دورانِ مطالعہ ان کے انگریزی متبادلات تلاش کریں۔ مثلاً جب آپ ’واجب الوجود‘ پڑھیں تو ذہن میں رکھیں کہ اسے فلسفے کی دنیا میں Necessary Being کہا جاتا ہے۔ اس سے آپ کا مطالعہ بین الاقوامی معیار کے مطابق ہو جائے گا۔

2. درسی کتب کو ’فکری ہتھیار‘ کے طور پر پڑھنا:

’شرح تہذیب‘ یا ’شرح عقائد‘ کو صرف امتحان پاس کرنے کے لیے نہ پڑھیں، بلکہ یہ سوچ کر پڑھیں کہ یہ کتابیں ملحدین کے اعتراضات کے خلاف آپ کی ڈھال ہیں۔ کتاب میں موجود ہر دلیل کو موجودہ دور کے کسی نہ کسی فکری سوال پر منطبق کرنے کی کوشش کریں۔

3. جدید منطقی مغالطوں (Logical Fallacies) کی پہچان:

اکثر ملحدین اور جدید پسند حضرات علمی دلیل کے بجائے ’مغالطوں‘ (Fallacies) کا سہارا لیتے ہیں۔ طلبہ کو چاہیے کہ وہ فنِ منطق کے ساتھ ساتھ جدید Informal Fallacies کا مطالعہ کریں تاکہ وہ دورانِ گفتگو فوراً پہچان سکیں کہ سامنے والا کہاں ’خلطِ مبحث‘ (Red Herring) کر رہا ہے اور کہاں ’جذباتی اپیل‘ (Appeal to Emotion) کا سہارا لے رہا ہے۔

4. تحریر و تقریر میں عصرِ حاضر کا اسلوب:

اپنی گفتگو میں ثقیل اور قدیم اردو کے بجائے سادہ، واضح اور علمی زبان استعمال کریں۔ مفتی شمائل صاحب کی طرح اپنے لہجے میں ٹھہراؤ، شائستگی اور اعتماد پیدا کریں، کیونکہ “اندازِ بیاں” ہی اکثر حق کو دلوں میں اتارنے کا سبب بنتا ہے۔

5. مطالعہ کا دائرہ وسیع کریں:

نصابی کتب کے ساتھ ساتھ حضرت تھانویؒ کی “انتباہاتِ مفیدہ” اور موجودہ دور میں لکھی گئی اسلام اور سائنس/فلسفہ کے تقابل پر مبنی کتابوں کا مطالعہ لازمی رکھیں۔

مدارس کے طلبہ یہ یقین رکھیں کہ ان کے پاس جو “علمی مواد” ہے، وہ دنیا کا بہترین مواد ہے۔ ہمیں صرف اس کی Packing بدلنی ہے، Product (علم) وہی رہے گا۔ جب ہم اپنی قدیم علمی جڑوں سے جڑ کر جدید زبان میں بات کریں گے، تو ان شاء اللہ کوئی بھی باطل نظریہ اسلام کے سامنے نہیں ٹک سکے گا۔

Related posts

Leave a Reply