اقامت دین کی جدوجہد اور گناہگار رشتہ دار سے رویہ
تحریر: مولانا سید عبدالوہاب شاہ شیرازی
اسلام کا نظامِ زندگی صرف عبادت یا انفرادی اخلاق تک محدود نہیں بلکہ اجتماعی تعلقات کو بھی مضبوط بنیادوں پر استوار کرتا ہے۔
انسان کے سب سے قریبی تعلقات والدین، بہن بھائی، چچا، خالہ، ماموں اور دیگر اقرباء دراصل ایک خاندانی ادارہ تشکیل دیتے ہیں، جس کی حفاظت اور استحکام کو قرآن و سنت نے بڑی اہمیت دی ہے۔صلہ رحمی یعنی رشتہ داروں کے ساتھ بھلائی، تعاون اور محبت اسلام کے بنیادی اخلاقی اوامر میں شامل ہے۔

قرآنِ کریم میں صلہ رحمی کی تاکید
قرآن مجید میں بار بار قرابت داروں کے ساتھ حسنِ سلوک کا حکم دیا گیا ہے:
وَاعْبُدُوا اللَّهَ وَلَا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا ۖ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا وَبِذِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينِ۔ (النساء: 36)
“اللہ کی عبادت کرو، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ، اور والدین کے ساتھ بھلائی کرو، نیز قرابت داروں، یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ بھی۔”
یہ آیت واضح کرتی ہے کہ عبادتِ الٰہی کے فوراً بعد قرابت داروں کے ساتھ حسنِ سلوک کو بیان کیا گیا ہے، جو اس کے درجۂ اہمیت کو ظاہر کرتا ہے۔
اسی طرح ایک اور مقام پر فرمایا گیا:
وَآتِ ذَا الْقُرْبَىٰ حَقَّهُ وَالْمِسْكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ۔ (الروم: 38)
قرابت دار کو اس کا حق دو، اور مسکین و مسافر کو بھی۔
یہاں “حقہ” کا لفظ اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ رشتہ داروں کے ساتھ تعلق اور مدد کرنا صرف نیکی نہیں بلکہ ان کا واجب حق ہے۔
رشتہ داری توڑنا اللہ کی لعنت کا سبب
قرآن مجید میں صریح لفظوں میں رشتہ داری کاٹنے والوں پر لعنت کی گئی ہے:
فَهَلْ عَسَيْتُمْ إِنْ تَوَلَّيْتُمْ أَنْ تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ وَتُقَطِّعُوا أَرْحَامَكُمْ، أُولَٰئِكَ الَّذِينَ لَعَنَهُمُ اللَّهُ فَأَصَمَّهُمْ وَأَعْمَىٰ أَبْصَارَهُمْ۔ (محمد: 22-23)
تو کیا تم سے یہ امید رکھی جا سکتی ہے کہ اگر تم کو اختیار دیا جائے تو زمین میں فساد کرو گے اور رشتہ داریاں توڑ ڈالو گے؟ یہی وہ لوگ ہیں جن پر اللہ نے لعنت کی ہے اور ان کے کان بہرے اور آنکھیں اندھی کر دی ہیں۔
یہ آیت اس حقیقت کو بیان کرتی ہے کہ قطعِ رحمی فسادِ زمین کی علامت ہے، اور اللہ کی رحمت و ہدایت سے محرومی کا سبب بنتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: وحدت امت
یہ بھی پڑھیں: فرقہ واریت کی تعریف
یہ بھی پڑھیں: سیاسی فرقہ واریت
احادیثِ نبویہ میں صلہ رحمی کی فضیلت
1۔ رشتہ توڑنے والا جنت سے محروم: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ قَاطِعٌ۔ (صحیح بخاری: 5984، صحیح مسلم: 2556)
رشتہ توڑنے والا جنت میں داخل نہیں ہوگا۔ یہ حدیث قطعِ رحمی کے انجام کو نہایت واضح انداز میں بیان کرتی ہے۔
2۔ اصل صلہ رحمی کیا ہے؟: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
لَيْسَ الْوَاصِلُ بِالْمُكَافِئِ، وَلَكِنَّ الْوَاصِلَ الَّذِي إِذَا قُطِعَتْ رَحِمُهُ وَصَلَهَا(صحیح بخاری: 5991)
اصل صلہ رحمی کرنے والا وہ نہیں جو بدلے میں صلہ کرے، بلکہ وہ ہے جو قطع تعلقی کے باوجود رشتہ جوڑے۔
یہی دراصل صبر، حلم اور ایمان کی اصل علامت ہے۔
3۔ رزق و عمر میں برکت کا سبب: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
مَن سَرَّهُ أَنْ يُبْسَطَ لَهُ فِي رِزْقِهِ، وَيُنْسَأَ لَهُ فِي أَثَرِهِ، فَلْيَصِلْ رَحِمَهُ۔ (صحیح بخاری: 5985)
جو چاہتا ہے کہ اس کا رزق وسیع ہو اور عمر میں برکت ہو، اسے چاہیے کہ رشتہ داروں سے تعلق جوڑے۔
گناہگار رشتہ دار کے ساتھ سلوک
اگر کوئی رشتہ دار کبیرہ گناہ کا مرتکب ہو تو قرآن و سنت کا طریقہ یہ ہے کہ پہلے نصیحت، تبلیغ اور خیر خواہی کی جائے۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
ادْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ، فَإِذَا الَّذِي بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ عَدَاوَةٌ كَأَنَّهُ وَلِيٌّ حَمِيمٌ۔ (حم السجدہ: 34)
برائی کو بھلائی سے دفع کرو، پھر تم دیکھو گے کہ تمہارا دشمن بھی تمہارا دوست بن جائے گا۔
اسلام کا مقصد اصلاح ہے، سزا نہیں، لہٰذا جب تک اصلاح کی امید باقی ہو، بائیکاٹ کرنا درست نہیں۔
“ونترک من یفجرک” کا صحیح مفہوم
فقہاء نے واضح کیا ہے کہ “جو تم سے بے وفائی کرے، تم اسے چھوڑ دو” کا مطلب فوراً تعلق منقطع کرنا نہیں بلکہ جب تمام نصیحتیں، محبتیں اور سمجھانے کی کوششیں ناکام ہو جائیں، تب اصلاح کی نیت سے وقتی بائیکاٹ جائز ہے۔ یہ بائیکاٹ بھی دائمی نہیں بلکہ تادیب و تنبیہ کے لیے ہوتا ہے۔
نبی اکرم ﷺ کا عملی نمونہ
شعب ابی طالب کے سخت بائیکاٹ کے زمانے میں بھی خاندانی نظام کی مضبوطی نے رسول اللہ ﷺ کی بڑی مدد کی۔ بنو ہاشم اور بنو مطلب کے تمام افراد حتیٰ کہ غیر مسلم بھی اس بائیکاٹ کا حصہ بنے اور رسول اللہ ﷺ کا ساتھ دیا۔یہ واقعہ اس حقیقت کو نمایاں کرتا ہے کہ خاندانی یکجہتی اقامتِ دین کی طاقت ہے۔اسی طرح مدنی زندگی میں بھی انصار و مہاجرین کو بھائی بھائی بنانے کا یہی مطلب ہے کہ ان کو ایک خاندان بنا دیا، اور یہی بھائی چارہ اسلامی ریاست کی مضبوطی کی پہلی اینٹ ثابت ہوا۔
خاندانی ادارہ اقامتِ دین کا ستون
اسلامی تحریکات کے لیے خاندان بنیادی اینٹ کی حیثیت رکھتا ہے۔ جو شخص اقامت دین کی جدوجہد کے لیے اٹھتا ہے، اسے سب سے پہلے اپنے خاندان کو منظم اور مضبوط بنانا چاہیے۔ کیونکہ ایک ٹوٹا ہوا خاندان انسان کو کمزور کر دیتا ہے، اور ایک متحد خاندان اسے دعوت، خدمت اور مزاحمت میں سہارا دیتا ہے۔ لیکن اگر آپ اپنے خاندانی ادارے کو توڑ دیں گے، بھائی بھائی سے ناراض ہوگا، آپ کا خاندانی نظام درہم برہم ہو گا تو مشکل وقت میں باہر سے کوئی آپ کی مدد کو نہیں آئے گا۔ مضبوط خاندان آپ کی دینی اور اقامت دین کی جدجہد میں وہ معاونت دے سکتا ہے جو کوئی اور نہیں دے سکتا۔
قبائلی معاشروں کی مثال
آج بھی دنیا کے کئی قبائلی خطے اپنی مضبوط خاندانی ساخت کی بدولت بڑی طاقتوں کے دباؤ سے بچے ہوئے ہیں۔ ریاستیں اپنی تمام ترفوجی طاقت کے باوجود وہاں مکمل کنٹرول حاصل نہیں کر سکتیں کیونکہ خاندانی ادارہ اجتماعی دفاع کا نظام بن چکا ہے۔ اس کے برعکس ہمارے ملک کے بڑے شہروں کو ایک اے سی ، یا ڈی سی آسانی سے کنٹرول کر رہا ہے، کیونکہ یہاں مضبوط خاندانی نظام نہیں ہے۔ اسلام اسی مضبوط خاندانی نظام کو قائم رکھنا چاہتا ہے تاکہ امت ٹکڑوں میں بٹنے کے بجائے ایک مربوط جسم بنے۔ اس لیے اقامت دین کی جدوجہد کرنے والوں کو خصوصی طور پر رشتہ داری کا تعلق اور خاندانی ادارہ مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔
ساری بات کا خلاصہ یہ ہے کہ:
- کسی رشتہ دار سے کبیرہ گناہ سرزد ہو جائے تو فوراً بائیکاٹ کرنا درست نہیں۔
- پہلے خیر خواہی، نصیحت اور دعا کے مراحل پورے کیے جائیں۔
- اگر وہ باز نہ آئے تو اصلاح کی نیت سے وقتی فاصلہ رکھا جا سکتا ہے، تعلق منقطع نہیں۔
- قطعِ رحمی خود ایک کبیرہ گناہ ہے اور اللہ کی لعنت کا باعث ہے۔
- خاندانی نظام کی مضبوطی اقامتِ دین کی بنیاد ہے۔
- ایک مومن کا کردار محبت، حکمت، صبر اور اصلاح سے عبارت ہونا چاہیے۔
اللّٰہ تعالیٰ ہمیں قرآن و سنت کے مطابق صلہ رحمی کی توفیق دے، ہمارے خاندانوں کو مضبوط، متحد اور باہمی محبت کا گہوارہ بنائے، اور ہمیں اُن لوگوں میں شامل کرے جن کے بارے میں فرمایا گیا:
وَالَّذِينَ يَصِلُونَ مَا أَمَرَ اللَّهُ بِهِ أَنْ يُوصَلَ وَيَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ وَيَخَافُونَ سُوءَ الْحِسَابِ۔ (الرعد: 21)
اور وہ لوگ جو ان رشتوں کو جوڑے رکھتے ہیں جنہیں اللہ نے جوڑنے کا حکم دیا ہے، اور اپنے رب سے ڈرتے ہیں، اور سخت حساب سے خوف رکھتے ہیں۔

