Home Blog Page 101

قرآن کیوں نازل ہوا۔؟

قرآن کیوں نازل ہوا

(سیدعبدالوہاب شاہ)

سورہ بقرہ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:

شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِيْ اُنْزِلَ فِيْهِ الْقُرْاٰنُ هُدًی لِّلنَّاسِ وَبَيِّنٰتٍ مِّنَ الْهُدٰی وَالْفُرْقَانِ.

’’رمضان کا مہینہ (وہ ہے) جس میں قرآن اتارا گیا ہے جو لوگوں کے لیے ہدایت ہے اور (جس میں) رہنمائی کرنے والی اور (حق و باطل میں) امتیاز کرنے والی واضح نشانیاں ہیں‘‘۔البقرة، 2: 185

اللہ تعالیٰ نے رمضان کا تعارف قرآن کے ساتھ کرایا ہے، یعنی رمضان کی عظمت اور فضیلت اس وجہ سے ہے کہ اس میں قرآن نازل ہوا، ورنہ رمضان بھی باقی مہینوں کی طرح ایک مہینہ ہے۔اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ جس چیز نے رمضان کے مہینے کو عظیم بنا دیا وہ قرآن ہے تو قرآن کیا ہے۔؟ چنانچہ آگے کے چند الفاظ میں قرآن کا تعارف یوں کروایا کہ وہ انسانوں کو ہدایت دینے والی کتاب ہے۔

Nukta Colum 003 1

یعنی اللہ تعالیٰ قرآن کا تعارف ہدایت کے ساتھ کروارہے ہیں کہ یہ ہدایت کی کتاب ہے۔ قرآن کا یہ تعارف یعنی ہدایت کی کتاب ہونا صرف اسی مقام پر نہیں بلکہ قرآن کی مختلف سورتوں میں کئی مقامات پر آیا ہے۔

سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا ہمیں قرآن کا یہ تعارف ہے۔؟؟ عام طور پر عوام میں قرآن  کوایصال ثواب کی کتاب سمجھا جاتا ہے۔ یا برکت کی کتاب سمجھا جاتا ہے ، جب کوئی نئی دکان یا مکان بنایا جاتا ہے تو بچوں کو بلا کر ختم شریف پڑھ لیا جاتا ہے تاکہ برکت حاصل ہوجائے، یا کسی کے انتقال کے بعد ختم کرلیا جاتا ہے کہ ایصال ثواب ہوجائے۔یا پھر مختلف سورتوں کے من گھڑت فضائل کہ فلاں سورت کو اتنی بار پڑھنے سے کاروبار تیز ہوجائے گا۔ فلاں سورت کو بوتل میں بند کرکے کچن میں رکھنے سے کچن کبھی خالی نہیں ہوگا وغیرہ وغیرہ باتیں مشہور ہوچکی ہیں۔اور عام عوام میں قران کا یہی تعارف مشہور و معروف ہے اور لوگ قرآن کو اسی طرح کے کاموں کی کتاب سمجھتے ہیں۔حالانکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں قرآن کا یہ تعارف کہیں نہیں کروایا۔

ہمیں سوچنا چاہیے کہ جس سورت کو بوتل میں بند کرکے کچن میں رکھنے سے روزی میں برکت کا عقیدہ ہم اختیار کیے ہوئے ہیں کیا وہ سورت اس وقت نازل ہوئی تھی جب صحابہ کرام اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پیٹ پر کھانا نہ ہونے کی وجہ سے دو دو پتھر باندھے ہوئے تھے۔کیا جب حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اور دیگر اصحابہ صفہ کے طالبعلم بھوک سے بیہوش ہوجائے کرتے تھے، تو اللہ نے کوئی آیت یا کوئی سورت اس بیہوشی کو دور کرنے کے لیے نازل فرمائی کہ اس آیت کو اتنی بار ورد کرو، یا گلے میں لٹکاو تو ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی بیہوشی جسے لوگ مرگی سمجھتے تھے دور ہو جائے گی۔؟

اس آیہ کریمہ میں ’’ہدی للناس‘‘ کے الفاظ ہمیں پکار پکار کر یہ دعوت دے رہے ہیں کہ قرآن کے نزول کا مقصد کیا ہے۔ قرآن ہمیں کیوں عطا کیا گیا اور قرآن کو ہمارے لئے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے محفوظ کیوں کیا گیا۔ قرآن کے پڑھنے کی ہمیں ترغیب کیوں دی گئی۔ قرآن کے ایک ایک حرف کو پڑھنے پر دس نیکیوں کا وعدہ کیوں کیا گیا؟ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

من قرا حرفا من کتاب الله فله به حسنة والحسنة بعشر امثالها ولا اقول الم حرف ولکن الف حرف و لام حرف و ميم حرف.

جس شخص نے قرآن حکیم کا ایک حرف پڑھا اس کے لئے نیکی ہے اور یہ ایک نیکی دس نیکیوں کے برابر ہے میں یہ نہیں کہتا الم ایک حرف ہے بلکہ اس میں الف الگ حرف ہے لام الگ حرف ہے اور میم الگ حرف ہے۔ ہر ایک حرف پر ثواب دس نیکیوں کا ہے۔

(جامع ترمذی، فضائل القرآن)

قرآن کے الفاظ و کلمات کو پڑھنے پر اتنا زیادہ اجر و ثواب عطا کرنے کا وعدہ کیوں کیا گیا۔ ان ساری ترغیبات کی وجہ صرف اور صرف یہ ہے کہ ہم قرآن پڑھنے کی طرف راغب ہوجائیں اور قرآن پڑھتے پڑھتے اس سے ہدایت اخذ کرنے کی طرف متوجہ ہوجائیں۔ قرآن کے ذریعے ہم اپنے دین کو سیکھ لیں۔ قرآن کے ذریعے ہم اپنے مولا کو پالیں اور قرآن کے ذریعے اس کی توحید کی معرفت حاصل کرلیں اور قرآن کے ذریعے ہم اس کی بندگی کی حقیقت کو پالیں۔

یہ معاملہ صرف قرآن کا نہیں بلکہ اللہ کی جتنی بھی کتابیں ہیں ساری کی ساری دراصل ہدایت کے لیے ہی نازل ہوئی ہیں، چنانچہ تورات کے بارے ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَلَقَدْ اٰتَيْنَا مُوْسَی الْکِتٰبَ لَعَلَّهُمْ يَهْتَدُوْنَ.

’’اور بے شک ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو کتاب عطا فرمائی تاکہ وہ لوگ ہدایت پا جائیں‘‘۔المومنون، 23: 49

رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

ترکت فيکم امرين لن تضلوا ماتمسکتم بهما کتاب الله وسنة نبيه. (رواه مالک والحاکم عن ابی هريره رضی الله عنه)

’’میں تمہارے پاس دو چیزیں چھوڑے جارہا ہوں اگر تم انہیں تھامے رکھو گے تو کبھی گمراہ نہ ہوگے۔ ایک اللہ کی کتاب اور دوسری تمہارے نبی کی سنت‘‘۔

یہ حدیث مبارکہ بھی ہمیں اس حقیقت کی طرف متوجہ کرتی ہے کہ کتاب اللہ اور سنت رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تمسک میں ہی ہدایت ہے۔ جس نے کتاب اللہ کو اور سنت رسول  صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سختی سے پکڑ لیا وہ کبھی بھی گمراہ نہ ہوگا۔ وہ ہدایت پر ہی رہے گا۔

 لیکن اب سوال یہ ہے کتاب اللہ یعنی قرآن کا تمسک کیسے کیا جائے، قرآن کو مضبوطی سے کیسے پکڑا جائے۔؟ تو فرمایا:

وان تطيعوه تهتدوا.

’’اگر تم ان کی (رسول کی) اطاعت کرو تو ہدایت پاجاؤ گے‘‘۔النور،24: 54

گویا رسول کی اطاعت میں تمہارے لئے ہدایت کا سامان رکھ دیا گیا ہے۔اب رسول کی اطاعت تمہیں کیسے اختیار کرنی ہے۔ اس اطاعت کی عملی صورت یہ ہے کہ تم رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کہی ہوئی ہر بات کو، ہر حدیث کو، ہر فرمان کو اپنا عمل بنالو۔

رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس سے ہدایت حاصل کرنے کی پہلی صورت اطاعت رسول ہے ۔جبکہ  دوسری صورت کا بھی قرآن ذکر کرتا ہے اور وہ ہے اتباع رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَاتَّبِعُوْهُ لَعَلَّکُمْ تَهْتَدُوْنَ.

’’اور تم انہی کی پیروی کرو تاکہ تم ہدایت پاسکو‘‘۔الاعراف، 7: 158

یعنی جو خودکو اتباع رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پیکر بنائے گا وہ ہدایت یافتہ ہوگا۔

اطاعت اور اتباع میں معمولی سا فرق بھی ملاحظہ فرمالیں۔ اطاعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل پر چلنا ہے۔ جبکہ اتباع رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نقش قدم پر چلنا ہے۔ اطاعت میں عقل کا غلبہ ہوتا ہےاور اتباع میں دل کا غلبہ ہوتا ہے ۔اطاعت، رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قول و فعل  کی وجہ جانتی ہے۔جبکہ اتباع،  رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے قول فعل کی وجہ بھی نہیں جانتی۔

اطاعت میں محبت رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا غلبہ ہوتا ہے اور اتباع میں عشق رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا غلبہ  ہوتا ہے۔ اطاعت، رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شرعی اداؤں کو اختیار کرنے کا نام ہے اور اتباع، رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہر ادا کو اختیار کرنے کا نام ہے۔ اطاعت میں اپنی شخصیت کا احساس رہتا ہے اور اتباع میں رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شخصیت ہی باقی رہ جاتی ہے۔ اطاعت میں اپنے وجود کا خیال رہتا ہے۔ اتباع میں اپنا وجود بھی وجود مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم میں فنا کردیا جاتا ہے۔

رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع ہی انسان کو ’’لعلکم تهتدون‘‘ کا اعزاز بھی دیتی ہے اور ’’يحببکم الله‘‘ کا  بلند مقام بھی دیتی ہے۔ اس لئے ارشاد فرمایا:

قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اﷲَ فَاتَّبِعُوْنِيْ يُحْبِبْکُمُ اﷲُ وَيَغْفِرْلَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ.

’’ اے حبیب!) آپ فرما دیں: اگر تم اﷲ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو تب اﷲ تمہیں (اپنا) محبوب بنا لے گا اور تمہارے لیے تمہارے گناہ معاف فرما دے گا‘‘۔آل عمران، 3: 31

پھر قرآن نے جو دعویٰ اور چیلنج کیا ہے دنیا کی کوئی کتاب نہ اس طرح کا دعویٰ کرسکتی ہے اور نہ اس طرح کا چیلنج کرسکتی ہے۔ قرآن کا اعلان ہے:

اِنَّ هٰذَا الْقُرْاٰنَ يَهْدِيْ لِلَّتِيْ هِيَ اَقْوَمُ.

’’بے شک یہ قرآن درست منزل کی طرف ہدایت کرتا ہے۔بنی اسرائيل،17: 9

چنانچہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تم میرے بعد ہدایت پر ہی رہو گے۔ جب تک تم ایک ہاتھ میں قرآن اور دوسرے ہاتھ میں میری سنت و حدیث کو تھامے رہو گے۔

 قرآن سے تعلق توڑنا ہدایت سے تعلق توڑنا ہے۔ آج کے مسلمانوں نے قرآن کو قلباً اور ذہناً نہیں چھوڑا ہے بلکہ عملاً چھوڑا ہے۔ اسی کا شکوہ قیامت کے روز رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم امت کی بابت اللہ رب العزت کی بارگاہ میں یوں کریں گے۔

وَقَالَ الرَّسُوْلُ يٰـرَبِّ اِنَّ قَوْمِی اتَّخَذُوْا هٰذَا الْقُرْاٰنَ مَهْجُوْرًا.

’’اور رسولِ (اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم) عرض کریں گے: اے رب! بے شک میری قوم نے اس قرآن کو بالکل ہی چھوڑ رکھا تھا‘‘۔فرقان، 25: 30

قرآن سے ہدایت لینے کے لیے مسلسل اس کی تلاوت جاری رکھنا نہایت ضروری ہے اور قرآن ہی اس کا حکم دیتا ہے چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَاتْلُ مَآ اُوْحِيَ اِلَيْکَ مِنْ کِتَابِ رَبِّکَ

اس قرآن کی تلاوت کیا کرو۔’’جو آپ کے رب کی طرف وحی کیا گیا ہے‘‘۔الکهف، 18: 27

قرآن کی تلاوت اس لیے ضروری ہے کہ یہ انسانوں کو ہدایت کی طرف لے جاتی ہے، انسانوں کو بندگی اور اطاعت پر چلاتی ہے، اور اللہ کی طرف سے انعامات کا مستحق بناتی ہے۔ فرمایا:

وَّاُمِرْتُ اَنْ اَکُوْنَ مِنَ الْمُسْلِمِيْنَ. وَ اَنْ اَتْلُوَا الْقُرْاٰنَ ج فَمَنِ اهْتَدٰی فَاِنَّمَا يَهْتَدِيْ لِنَفْسِهِ.

’’اور مجھے (یہ) حکم (بھی) دیا گیا ہے کہ میں (اللہ کے) فرمانبرداروں میں رہوں۔ نیز یہ کہ میں قرآن پڑھ کر سناتا رہوں سو جس شخص نے ہدایت قبول کی تو اس نے اپنے ہی فائدہ کے لیے راہِ راست اختیار کی‘‘۔النحل، 27: 91 تا 92

اسی طرح تلاوت قرآن میں تسلسل بھی ضروری ہے، ایسا نہیں کہ کبھی جوش آیا تو تین سپارے پڑھ لیے اور پھر مہینہ بھر اٹھا کر دیکھا بھی نہیں، تلاوت تسلسل کے ساتھ ہو اگرچہ تھوڑی مقدار میں ہو، اسی لیے فرمایا:

فَاقْرَءُ وْا مَا تَيَسَّرَ مِنَ الْقُرْاٰنِ.

’’پس جتنا آسانی سے ہو سکے قرآن پڑھ لیا کرو‘‘۔المزمل، 73: 20

پھر اس تلاوت کا مقصد بھی محض تلاوت ہی نہیں ہونا چاہیے، بلکہ تلاوت کا مقصد حصول ہدایت اور احکامات کو سمجھ کر عمل کرنا ہونا چاہیے، اس بات کو سمجھانے کے لیے فرمایا:

اِنَّآ اَنْزَلْنٰهُ قُرْئٰنًا عَرَبِيًّا لَّعَلَّکُمْ تَعْقِلُوْنَ.

’’بے شک ہم نے اس کتاب کو قرآن کی صورت میں بزبانِ عربی اتارا تاکہ تم (اسے براہِ راست) سمجھ سکو۔‘‘يوسف، 12: 2

قرآن کی تلاوت اور قرآن کا مقصد بھی یہی ہے کہ لعلمکم تعقلون کہ قرآن کو سمجھا جائے۔

 دوسرے مقام پر فرمایا یہ قرآن اس لئے ہے تاکہ اس کے ذریعے لقوم يعلمون (حم السجده/ فصلت41/ 3) علم حاصل کیا جائے۔ اس قرآن کے ذریعے نئے نئے حقائق جانے جائیں۔

جولوگ اس قرآن کو بار بار پڑھتے ہیں اور اس قرآن کی کثرت کے ساتھ تلاوت کرتے ہیں ہم نے ان لوگوں کے لئے قرآن سے نصیحت حاصل کرنا  آسان کردیا ہے۔ ارشاد فرمایا:

وَ لَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ لِلذِّکْرِ فَهَلْ مِنْ مُّدَّکِرٍ.

’’اور بے شک ہم نے قرآن کو نصیحت کے لیے آسان کر دیا ہے سو کیا کوئی نصیحت حاصل کرنے والا ہے؟‘‘۔القمر، 54: 22

یہ قرآن ہماری انفرادی اجتماعی اور بین الاقوامی زندگی کے لئے بھی تذکرہ و نصیحت ہے۔

 انفرادی زندگی کے لئے اس طرح کہ ان ھذہ تذکرۃ (المزمل:19) یہ قرآن نصیحت ہے۔

 اور اجتماعی  زندگی کے لئےاس طرح کہ انہ لذکر لک ولقومک۔ یہ قرآن آپ کے لئے اور آپ کی پوری قوم کے لئے بھی نصیحت ہے ۔

اور بین الاقوامی زندگی کے لئے اس طرح کہ ان هوا الا ذکر للعلمين (انعام: 91) یہ قرآن تمام عالم کے لئے نصیحت و ہدایت ہے۔

قرآن محض تلاوت (بغیر سمجھے) کے بجائے تفکر اور تدبر پر زور دیتا ہے اور جھنجھوڑتے ہوئے یوں بیان کرتا ہے:

اَفَـلَا يَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ اَمْ عَلٰی قُلُوْبٍ اَقْفَالُهَا.

’’کیا یہ لوگ قرآن میں غور نہیں کرتے یا ان کے دلوں پر تالے (لگے ہوئے) ہیں‘‘۔محمد، 47: 24

 قرآن اپنے ماننے والوں کو جھنجھوڑتا ہے کہ قرآن کو سمجھنا ہے تو تفکر فی القرآن کا عمل اختیار کرو۔ قرآن کو جاننا ہے تو تدبر فی القرآن کا وظیفہ اپناو، قرآن میں فہم حاصل کرنا ہے تو تذکیر بالقرآن پر عمل کرو، قرآن سے ہدایت لینی ہے تو تمسک بالقرآن پر کاربند ہوجاو۔ قرآن سے قول و فعل اور خلق و سیرت کی خیرات اور روشنی لینی ہے تو تلاوت بالقرآن کو اپنا معمول بناو۔ اقوامِ عالم میں عزت اور رفعت کے ساتھ جینا ہے تو ہدیات بالقرآن کو اپنا قومی وملی شعار بناو۔

قرآن یہ سبق بھی دیتا ہے کہ تم کلمہ پڑھنے کے بعد بھی قرآن کے بغیر کچھ نہیں، ۔ تم سے پہلے یہود و نصاریٰ کی بھی ساری عظمتیں تورات اور انجیل پر عمل کرنے سے وابستہ تھیں۔ اس حقیقت کو قرآن میں یوں فرمایا گیا:

قُلْ يٰـاَهْلَ الْکِتٰبِ لَسْتُمْ عَلٰی شَئٍ حَتّٰی تُقِيْمُوا التَّوْرٰةَ وَالْاِنْجِيْلَ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَيْکُمْ مِّنْ رَّبِّکُمْ.

’’فرما دیجیے: اے اہلِ کتاب! تم (دین میں سے) کسی شے پر بھی نہیں ہو، یہاں تک کہ تم تورات اور انجیل اور جو کچھ تمہاری طرف تمہارے رب کی جانب سے نازل کیا گیا ہے (نافذ اور) قائم کر دو‘‘۔المائدة، 5: 68

اس لئے تمہاری ساری عزتیں ، تمہاری ساری عظمتیں ، تمہاری ساری رفعتیں، تمہاری ساری فضیلتیں اور بلندیاں قرآن سے ہیں۔

قرآن تمہاری شناخت ، تمہاری پہچان ، تمہارا عمل ، تمہارا قول ، تمہاری سیرت ہے۔ اور قرآن سے تمہاری شخصیت ، تمہاری وحدت ، تمہاری اجتماعیت ،اور تمہاری زندگی ہے ۔قرآن ہی  میں تمہاری انفرادی اور اجتماعی زندگی کی عزت وابستہ ہے بصورت دیگر تمہار اقبال کے اس شعر کا مصداق ہوگا۔

وہ معزز تھے زمانے میں مسلماں ہوکر
اور ہم خوار ہوئے تارک قرآن ہوکر

آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم قرآن کی طرف لوٹنے کا عہد کریں، قرآن سے اپنا  اطہ مضبوط کریں۔ قرآن سے ہی فکر حاصل کریں، قرآن سےہی تزکیہ نفوس کریں، قرآن کو کتاب ہدایت جانیں، قرآن سے اپنی انفرادی زندگی سنواریں اور قرآن سے اپنی اجتماعی زندگی کی اصلاح کریں، قرآن کو رسول اللہ کا زندہ معجزہ جانیں اور قرآن کی زندہ فکر کو اپنائیں۔

آپریشن سے بچوں کی پیدائش کا خطرناک کھیل

آپریشن سے بچوں کی پیدائش کا خطرناک کھیل

(سید عبدالوہاب شیرازی)

حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش مٹی سے ہوئی۔ پہلے ایک پتلا بنایا گیا اور پھر اس میں روح پھونک دی گئی۔ پھر آدم علیہ السلام کی پسلی سے حضرت حواء علیہاالسلام کی پیدائش ہوئی۔ پھر جب دونوں دنیا میں آئے تو ان سے آگے انسانی نسل پھیلی اور بچوں کی پیدائش ایک خاص عمل کے بعد عورت کے رحم سے ہوتی رہی۔ آج سے  دس ہزار سال قبل حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر آج سے تقریبا چندسال قبل تک بچوں کی پیدائش اسی فطری طریقے سے ہوتی رہی جو ہزاروں سال سے نہ صرف انسانوں بلکہ تمام جانداروں،  دوسری مخلوقات اور جانوروں میں جاری و ساری ہے۔

لیکن اب اچانک سے پاک وہند میں یہ تبدیلی آئی اور پھر بہت زیادہ عام ہوگئی کہ ستر فیصد بچوں کی پیدائش آپریشن سے ہورہی ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ باقی تمام مخلوقات مثلا کتا، بلی، بکری، بھینس وغیرہ وغیرہ ہر ایک کے ہاں بچے کی پیدائش اسی فطری طریقے سے ہورہی ہے جیسے پہلے ہورہی تھی ایک واحد انسان ہے جسے قصائی نما ڈاکٹروں نے اپنی پیسے کی ہوس، لالچ اور محبت نے اس غلط راستے پر زبردستی ڈال دیا ہے۔

ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ آج کل کی خوراک اتنی ناقص ہے کہ جس کی وجہ سے زچہ و بچہ کی صحت اس قابل نہیں ہوتی کہ آپریشن کے بغیر پیدائش ہوسکے۔ لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ناقص خوراک کا معاملہ صرف انسانوں کے ساتھ ہی ہے یا جانور بھی ناقص خوراک ہی کھا رہے ہیں، آج کی گائے اور بھینسیں بھی یوریا اور کیمیکلز سے تیار کردہ گھاس کھا رہی ہیں، کتیا اور بلی بھی فارمی مرغیوں کی ہڈیا اور گوشت کھا رہی ہیں لیکن ان کو تو آپریشن کی ضرورت پیش نہیں آتی آخر انسان کوہی کیوں زبردستی آپریشن پر مجبور کیا جارہا ہے۔

ہمارے خیال میں اس سارے معاملے میں سوائے پیسے کی ہوس کے اور کچھ نہیں۔ دراصل آج کا ڈاکٹر ، ڈاکٹر بنا ہی زیادہ پیسہ کمانے کے لئے ہے۔ ذرا سوچیے، والدین اپنے بچے کو کیوں ڈاکٹر بناتے ہیں، کیا ان کے ذہن میں ذرا بھی یہ تصور ہوتا ہے کہ میرا بچہ یا بچی انسانیت کی خدمت کرے گا؟ نہیں بالکل نہیں۔ والدین یہی سوچ کر ڈاکٹر بناتے ہیں کہ پیسہ زیادہ کمائے گا۔ تو پھر ظاہر ہے اس کا نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ وہ کہنے کو تو ڈاکٹر ہوتا ہے لیکن اصل میں انسانیت کو ذبح کرنے والا قصائی۔

آج کوئی بھی خاتون پیدائش کے وقت ہسپتال یا کلینک جاتی ہے تو فورا اسے نفسیاتی طور پر اتنا ہراساں کردیا جاتا ہے کہ وہ آپریشن کروانے پر مجبور ہوجاتی ہے۔چونکہ آپریشن کروانے پر اچھے خاصے پیسے مریض کی جیب سے نکلوائے جاسکتے ہیں اس لیے ڈرا دھمکا کر آپریشن کرنے پر راضی کرلیا جاتا ہے۔

عالمی طور پر آپریشن کروانا اچھا تصور نہیں کیا جاتا۔کیونکہ اس طرح زچہ و بچہ دونوں طرح طرح کی بیماریوں اور عمر بھر کے لئے کئی طرح کے مسائل سے دوچار ہوجاتے ہیں۔

سائنسدانوں نے جدید تحقیق کے بعد بتایا ہے کہ جو بچے آپریشن کے ذریعے پیدا ہوتے ہیں ان کے 5سال کی عمر تک پہنچنے سے پہلے ہی موٹاپے میں مبتلا ہونے کے امکانات نارمل طریقے سے پیدا ہونے والے بچوں کی نسبت 50 فیصد زیادہ ہوتے ہیں۔اس کے علاوہ ان بچوں کو دمہ لاحق ہونے کا امکان بھی زیادہ ہوتا ہے۔رپورٹ کے مطابق سائنسدانوں نے ماں کے آپریشن کے ذریعے بچہ پیدا کرنے کا نقصان بتاتے ہوئے کہا کہ جو خواتین آپریشن کے ذریعے بچہ پیدا کرتی ہیں آئندہ ان کا اسقاط حمل ہونے اور ان کے بانجھ ہونے کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے۔اس تحقیق میں یونیورسٹی آف ایڈنبرا کے سائنسدانوں نے دونوں طریقوں سے پیدا ہونے والے ہزاروں بچوں اور ان کی ماﺅں کی صحت کا ریکارڈ حاصل کرکے اس کا تجزیہ کیا اور نتائج مرتب کیے۔

عالمی ادارہ صحت نے آپریشن کے ذریعے پیدائش کو اس کے نقصان دہ اثرات کے باعث زچگی کا ناپسندیدہ طریقہ قرار دیا ہے۔ اور 10 سے 15 فیصد سالانہ سٹینڈرڈ شرح مقرر کی ہے۔ لاہور میں قائم پنجاب کے سب سے بڑے سرکاری ہسپتال سر گنگا رام میں ہر سال لگ بھگ 24 ہزار بچوں کی پیدائش ہوتی ہے۔ ہسپتال کے اعداد و شمار کے مطابق ان میں سے 50 فیصد بچوں کی پیدائش آپریشن کے ذریعے ہو رہی ہے۔

ڈاکٹروں کے مطابق سی سیکشن محض اس صورت میں کیا جانا چاہیے جب ماں اور بچے کی جان کو خطرہ لاحق ہو کیونکہ جب پیٹ کاٹ دیا گیا تو اس میں انفیکشن ہو سکتا ہے زخم جلدی نہیں بھرتا۔ کبھی خون نہیں رکتا اور کبھی پیٹ میں مستقل درد کی شکایت ہو جاتی ہے۔ پہلی اولاد آپریشن سے ہونے کے باعث امکان بڑھ جاتا ہے کہ ہر بار آپریشن ہی کرنا پڑے گا جس سے ان کی صحت پر انتہائی نقصان دہ اثرات پڑتے ہیں۔ اس کے علاوہ سی سیکشن کے عمل میں بچے اور ماں کی صحت کو تین گنا زیادہ رسک ہوتا ہے۔

پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے سابق جنرل سکریٹری اور معروف گائیناکالوجسٹ ڈاکٹر شیر شاہ سید کا کہنا ہے کہ آپریشن میں اضافے کی ایک وجہ زیادہ سے زیادہ پیسہ کمانا ہے، ” بعض اوقات کوئی انفیکشن ہوجاتا ہے اور ڈاکٹر محسوس کرتا ہے کہ اپریشن پہلے کر دینا زیادہ مناسب ہے تو آپریشن کر دیا جاتا ہے، ایک وجہ یہ بھی ہوتی ہے کہ نارمل ڈیلوری کی جائے تو دس ہزار روپے مل جاتے ہیں لیکن اگر آپریشن کیا جائے تو اس سے تیس ہزار سے ایک لاکھ تک مل جاتے ہیں ، اس لئے بعض ڈاکٹر یہ کام کر ڈالتے ہیں۔ اور بعض آپریشن اس لئے ہوتے ہوں گے کہ جونئیر ڈاکڑز کو سیکھایا جا سکے۔

ڈاکٹر عائشہ خان کہتی ہیں کہ یہ بات درست ہے کہ آپریشن سے بہت سی پیچدگیاں پیدا ہوتی ہیں ، جیسا کہ مختلف قسم کے انفکشن، وقت سے پہلے پیدائش، خواتین کا بانجھ پن، اندرونی زخم، خون کی بیماریاں، بچے کو سانس کی بیماریاں،بچے کا وزن کم ہونا،اور بعض اوقات تو اموات بھی ہوجاتی ہیں۔
ان کے بقول ایک خاتون کا دو سے تین بار آپریشن کے ذریعے بچے کی پیدائش اس کی صحت کے لئے انتہائی مضر ہے۔ ان کا خیال ہے کہ سیزیرئن کیسزمیں اضافے کی بڑی وجہ ملک میں کثیر تعداد میں پرائیویٹ ہسپتال اور زچہ و بچہ کے مراکز ہوسکتے ہیں، جن میں بیشتر اوقات تعینات طبی عملہ ذیادہ پیسے کمانے کی خاطر بچوں کی پیدائش کے لئے آپریشن ہی تجویز کرتا ہے ۔ ڈاکٹر عائشہ سمجھتی ہیں کہ حکومت کو غیر ضروری آپریشنز کے خلاف اقدامات اٹھانے چائیں تاکہ لوگوں کے ساتھ ناانصافی کا خاتمہ ممکن ہو۔

ڈارک ویب کیا ہے؟

ڈارک ویب کیا ہے

(عبدالوہاب شیرازی)

ہم جو انٹر نیٹ استعمال کرتے ہیں اس میں کوئی بھی ویب سائٹ اوپن کرنے کے لئے تین بار WWW لکھناپڑتا ہے۔ جس کا مطلب ہے ورلڈوائڈ ویب، اسے سرفس ویب ، اور لائٹ ویب بھی کہا جاتا ہے۔ لیکن آپ کے لئے سب سے حیرت انگیز بات یہ ہوگی کہ دن رات استعمال کر کرکے بھی جس انٹر نیٹ کو ہم ختم نہیں کرسکتے یہ کل انٹر نیٹ کا صرف چار پانچ فیصد ہے۔ باقی کا 95٪ انٹر نیٹ عام لوگوں کی آنکھوں سے اوجھل ہے۔

اب آپ کے ذہن میں سوالات پیدا ہوئے ہوں گے کہ:

یہ پچانویں فیصد انٹر نیٹ ہماری آنکھوں سے کیوں اوجھل ہے؟ ہم اسے کیوں نہیں دیکھ سکتے؟ اس اوجھل انٹر نیٹ کی عظیم دنیا میں کیا کیا چھپا ہوا ہے؟ عام لوگوں سے اسے کیوں چھپایا ہوا ہے؟ وہاں کیا کیا جاتا ہے؟ تو آج کی اس تحریر میں ان سوالات کے جوابات پر بات ہوگی۔

ورلڈ وائڈ ویب کو ٹم برنرزلی نے 1989 میں ایجاد کیا اور 6اگست 1991 کو باقاعدہ منظر عام پر لایا۔ پھر یہ ٹیکنالوجی گولی کی رفتار سے ترقی کرتے کرتے یہاں تک پہنچ گئی۔اس طرح پوری دنیا سمٹ کر ایک کمپیوٹر کی سکرین پر اکھٹی ہوگئی۔ویب کے فوائد سے انسانیت مستفید ہونے لگی، بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ اس کی محتاج بن کر رہ گئی۔ ویب کی تیز رفتاری کی وجہ سے دستاویزات کی منتقلی اور خط وکتاب ای میل کی شکل میں تبدیل ہوئی گئی۔ اور کمپنیوں اور اداروں نے اس کا استعمال شروع کردیا۔

ایک طرف پوری دنیا اس نعمت سے مستفید ہورہے تھی تو دوسری طرف ڈیوڈ چام نے ایک مضمون بعنوان Secutity without identification لکھا۔ جس میں انہوں نے خبردار کیا کہ ورلڈ وائڈ ویب کے حد سے زیادہ استعمال کی وجہ سے لوگ اپنی معلومات کی نگرانی سے محروم ہوتے جارہے ہیں۔لوگوں کو یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ ان کی معلومات درست ہیں، یا پرانی ہیں۔ چنانچہ جس خدشے کا اظہار ڈیوڈ چام نے کیا تھا آج ہر کوئی یہ جانتا ہے کہ گوگل، فیس بک سمیت دیگر ویب سائٹس اپنے یوزر کے بارے اتنا کچھ جانتی ہیں کہ اس کے قریبی دوست یا سگے بھائی بھی نہیں جانتے ہوں گے۔ چنانچہ انہی سورسز کو استعمال کرتے ہوئے دنیا کے خفیہ اداروں نے جاسوسی کا جال بھی بچھا دیا۔

یہاں سے انٹر نیٹ کی دنیا میں ایک نیا موڑ آتا ہے، اور حکومتیں یہ سوچنا شروع کردیتی ہیں کہ انٹر نیٹ پر ڈیٹا کے تبادلے کی سیکورٹی کے لئے کوئی نظام ہونا چاہیے تاکہ کوئی اسے چوری نہ کرسکے۔چنانچہ اس مقصد کے لئے امریکی نیوی کے تین ریسرچر نے یہ بیڑا اٹھاتے ہوئے Onion Routing کا نظام پیش کرتے ہیں۔ اس نظام کو اس طرح بنایا گیا تھا کہ کوئی بھی شخص کسی کے ڈیٹا کو چرا نہیں سکتا تھا اور نہ ہی بغیر اجازت کے ویب سائٹ کو اوپن کرسکتا تھا۔ لیکن حیرت انگیز طور پر بڑی تبدیلی اس وقت آئی جب امریکی نیول ریسرچ لیبارٹری نے اس نظام کو اوپن سورس کردیا۔ یعنی ہر کسی کو اس سے مستفید ہونے کی اجازت دے دی۔جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ دنیا بھر کے جرائم پیشہ لوگوں نے اس نظام کو اپنے گھناونے جرائم کے لئے استعمال کرنا شروع کردیا۔اور اسی کا نام ڈارک ویب ہے۔

اس ساری بات کو سمجھانے کے لئے میں آپ کو ایک تصویر دکھاناچاہتا ہوں،

 اس تصویرمیں برف کا ایک پہاڑ سمندر میں کھڑا نظر آرہا ہے، اس کا تھوڑا سا حصہ باہر ہے، اسے آپ ورلڈ وائڈ ویب یعنی وہ انٹر نیٹ سمجھ لیں جسے ہم استعمال کرتے ہیں۔

پھر ایک بڑا حصہ زیر آپ نظر آرہا ہے اسے ڈیپ ویب کہا جاتا۔ پھر اس سے بھی بڑا حصہ مزید نیچے گہرائی میں نظر آرہا ہے، اسے ڈارک ویب کہا جاتا ہے۔ پھر ڈارک ویب میں ریڈ رومز ہوتے ہیں۔بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی بلکہ اس برف کے پہاڑ سے نیچے جو سمندر کی تہہ ہے اسے مریاناز ویب کہا جاتا ہے جس تک رسائی دنیا کے عام ممالک کی حکومتوں کی بھی نہیں ہے۔

اب میں ویب کے ان چاروں حصوں کی تھوڑی تھوڑی تشریح کرکے سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں۔

1۔ ورلڈ وائڈ ویب وہ انٹر نیٹ ہے جسے ہم اپنے کمپیوٹر یا موبائل پر استعمال کرتے ہیں، اوراچھی طرح جانتے ہیں۔

2۔ اس سے نیچے ڈیپ ویب ہے۔ یہ انٹر نیٹ کا وہ حصہ ہوتا ہے جس تک رسائی صرف متعلقہ لوگوں کی ہوتی ہے، اور یہ عام طور پر مختلف کمپنیوں اور اداروں کے استعمال میں ہوتا ہے۔ جیسے بینکوں کا ڈیٹا یا مثلا آپ یوفون کی سم اسلام آباد سے خریدتے ہیں اور پھر کراچی میں جاکر دوبارہ سم نکالنے کے ان کے آفس جاتے ہیں تو وہ اپنا انٹر نیٹ کھول کر آپ کی تفصیلات جان لیتے ہیں کہ آپ واقعی وہی آدمی میں جس کے نام پر یہ سم ہے۔ یہ سارا ڈیٹا ڈیپ ویب پر ہوتا ہے، چنانچہ یوفون والے صرف اپنا یوفون کا ڈیٹا اوپن کرسکتے ہیں کسی اور کا نہیں اسی طرح ہر کمپنی کی رسائی صرف اپنے ڈیٹا تک ہوتی ہے۔

3۔ پھر ڈیپ ویب سے نیچے باری آتی ہے ڈارک ویب کی۔ یہ انٹر نیٹ کا وہ حصہ ہوتا ہے جہاں تک کسی کی رسائی نہیں ہوسکتی ، سوائے اس کے جس کے پاس ڈارک ویب کی ویب سائٹ کا پورا ایڈریس ہو۔ عام طور پر ڈارک ویب کی ویب سائٹس کا ایڈرس مختلف نمبر اور لفظوں پر مشتمل ہوتا ہے اور آخر میں ڈاٹ کام کے بجائے ڈاٹ ٹور، یا ڈاٹ اونین وغیرہ ہوتا ہے۔یہاں جانے کے لئے متعلقہ ویب سائٹ کے ایڈمن سے رابطہ کرنا پڑتا ہے، جو آپ سے رقم وصول کرکے ایک ایڈریس دیتا ہے۔ جب آپ پورا اور ٹھیک ٹھیک ایڈریس ڈالتے ہیں تو یہ ویب سائٹ اوپن ہوتی ہے۔ لیکن یاد رکھیں گوگل یا عام براوزر پر یہ اوپن نہیں ہوتی ، یہ صرف TOR پر ہی اوپن ہوتی ہے۔ اور یہ بھی یاد رکھ لیں کہ ان ویب سائٹ کو اوپن کرنا یا دیکھنا بھی قانونا جرم ہے، اگر آپ کے بارے صرف اتنا پتا چل جائے کہ آپ نے ڈارک ویب پر وزٹ کیا ہے تو اس پر آپ کی گرفتاری اور سزا ہوسکتی ہے۔

پھر ڈارک ویب پر ریڈ رومز ہوتے ہیں۔ یعنی ایسے پیچز ہوتے ہیں جہاں لائیو اور براہ راست قتل و غارت گری اور بچوں کے ساتھ زیادتی دکھائی جاتی ہے، ایسے لوگ جن کے پاس پیسہ زیادہ ہوتا ہے، اور ان کی فطرت مسخ ہوچکی ہوتی ہے وہ اس قسم کے مناظر دیکھنے کے عادی ہوتے ہیں، چنانچہ وہ ان ریڈ رومز میں جاتے ہیں وہاں ہر چیز کی بولی لگتی ہے، مثلا زیادتی دکھانے کے اتنے پیسے، پھر زندہ بچے کا ہاتھ کاٹنے کے اتنے پیسے، اس کا گلا دبا کر مارنے کے اتنے پیسے ، پھر اس کی کھال اتارنے کے اتنے پیسے وغیرہ وغیرہ۔

اس کے علاوہ ہر قسم کی منشیات، اسلحہ اور جو کچھ آپ سوچ سکتے ہیں وہ آپ کو وہاں بآسانی مل جاتا ہے۔ یہاں تک کہ وہاں ریٹ لگے ہوتے ہیں کہ فلاں لیول کے آدمی کو قتل کروانے کے اتنے پیسے مثلا صحافی کے قتل کے اتنے پیسے، وزیر کو قتل کرنے کے اتنے پیسے، سولہ گریٹ کے افسر کو قتل کرنے کے اتنے پیسے وغیرہ۔اسی قسم کی ایک ویب سائٹ سلک روڈ کے نام سے بہت مشہور تھی جسے امریکی انٹیلی جنس نے بڑی مشکل سے ایڑی چوٹی کا زور لگا کر ٹریس کرکے2015 میں بلاک کیا تھا۔

4۔ Marianas web مریاناز ویب۔ یہ انٹرنیٹ کی دنیا کا سب سے گہرا حصہ ہے۔ حقیقی دنیا میں سمندر کا سب سے گہرا حصہ مریاناز ٹرنچ کہلاتا ہے اسی لیے اسی کے نام پر اس ویب کا نام بھی یہی رکھا گیا ہے۔ نیٹ کے اس حصے میں دنیا کی چند طاقتور حکومتوں کے راز رکھے ہوئے ہیں، جیسے امریکا، اسرائیل اور دیگر دجالی قوتیں وغیرہ۔ یہاں انٹری کسی کے بس کی بات نہیں، یہاں کوڈ ورڈ اور کیز کا استعمال ہی ہوتا ہے۔

ایک سب سے اہم بات یہ بھی سن لیں کہ ڈارک ویب پر جتنا کاروبار ہوتا ہے وہ بٹ کوائن میں ہوتا ہے، بٹ کوائن ایک ایسی کرنسی ہے جو کسی قانون اور ضابطے میں نہیں آتی اور نہ ہی ٹریس ہوسکتی ہے، کسی کے بارے یہ نہیں جانا جاسکتا کہ اس کے پاس کتنے بٹ کوائن ہیں۔ ڈارک ویب پر اربوں کھربوں ڈالرز کا یہ غلیظ کاروبار ہوتا ہے۔

اب آخر میں اس سوال کا جواب جو اس سارے معاملے کو پڑھ کر آپ کے ذہن میں پیدا ہوا ہوگا کہ اس ویب پر پابندی ہی کیوں نہیں لگا دی جاتی۔؟ تو بات یہ ہے کہ جیسے پستول یا کلاشن کوف ہم اپنی حفاظت اور سیکورٹی کے لئے بناتے ہیں، چھری سبزی کاٹنے کے لئے بنائی جاتی ہے، اب اگر کوئی اس چھری کو اٹھا کر کسی کے پیٹ میں گھونپ دے تو قصور چھری کا نہیں بلکہ اس کے استعمال کا ہے، چھری پر اگر پابندی لگادی جائے تو تمام انسانوں کا حرج ہوگا لہٰذا اس کا حل یہی ہے کہ جو اس کا غلط استعمال کرے اسے عبرت کا نشان بنا دیا جائے اور باقی لوگوں کو پہلے سے ہی بتا دیا جائے کہ بھائی اس کا غلط استعمال آپ کی دنیا و آخرت برباد کرسکتا ہے۔

علماء کے زیرنگرانی چلنے والے  اداروں کا المیہ

علماء کے زیرنگرانی چلنے والے ادارے پنجاب قران بورڈ کا المیہ

سید عبدالوہاب شیرازی

اسی لئے تو کہا جاتا ہے کہ الیکشن میں اگر ساری سیٹیں بھی علماء جیت جائیں پھر بھی اسلام نہیں آسکتا کیونکہ نظام وہی ہوگا۔ اور الیکشن جیت کر نظام بدلا نہیں جاسکتا کیونکہ الیکشن اس نظام کو چلانے والوں کا انتخاب کرنے کے لئے ہوتے ہیں نہ کہ نظام بدلنے والوں کو منتخب کرنے کے لئے۔ لہٰذا ایسی ہر کوشش بوٹوں تلے روند دی جائے گی۔

موجودہ نظام میں جس طرح ہرادارہ نہایت ابتری اور بدحالی کا شکار ہے اسی طرح پنجاب میں ایک ادارہ پنجاب قرآن بورڈ کے نام سے کئی سالوں سے کام کررہا ہے اور ایک خبر کے مطابق سالانہ کروڑ روپے بجٹ میں اس ادارے کو دیے جاتے ہیں، اس ادارے کو چلانے والے  چندعلماء  ہیں جن میں ہر مسلک کا کوئی نہ کوئی نمائندہ شامل ہے، جس کے چیئرمین قرآن بورڈ پنجاب مولانا غلام محمد سیالوی ہیں۔

فہرست یہاں دیکھیں

Toggle

 یہ ادارہ سالانہ کروڑوں روپے ہڑپ کرجاتا ہے لیکن جس مقصد کے لئے اسے بنایا گیا ہے وہ مقصد ابھی تک حاصل نہیں کیا جاسکا۔ ادارے کا مقصد قرآن مجید کی پرنٹنگ وغیرہ کے امور کی نگرانی کرنا ہے، اور غیرمعیاری کاغذ پر پرنٹنگ کی روک تھام کرنا وغیرہ بہت سارے امور دیکھنا اس ادارے کی ذمہ داری ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ غیر معیاری کاغذ پر قران کی پرنٹنگ کا کام اسی طرح جاری وساری ہے جس طرح پہلے تھا، جس کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ قرآن کا نسخہ جلد بوسیدہ ہوکر خراب ہوجاتا ہے اور بے حرمتی کا خطرہ رہتا ہے۔

دوسری نہایت ہی اہم چیز

جس کی طرف آج میں توجہ دلانا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ سورہ نساء میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

أَلَمْ تَرَ‌ إِلَى الَّذِينَ أُوتُوا نَصِيبًا مِّنَ الْكِتَابِ يُؤْمِنُونَ بِالْجِبْتِ وَالطَّاغُوتِ

کیا آپ نے ان لوگوں کو دیکھا جنہیں کتاب دی گئی ہے وہ ایمان رکھتے ہیں جبت پر اور طاغوت پر۔

اس آیت کی تفسیر میں مفسرین نے “جبت” کے بارے لکھا ہے کہ ہر وہ چیز جو بے اصل اور بے حقیقت ہو، وہمی اور خیالی ہو جیسے، کہانت، فال گیری، ٹونے ٹوٹکے، شگون اور مہورت اور تمام دوسری وہمی وخیالی باتیں  اس میں شامل ہیں۔ چنانچہ حدیث میں آیا ہے:

النیاقۃ والطرق والطیر من الجبت۔ یعنی جانوروں کی آوازوں سے فال لینا ، زمین پر جانوروں کےنشانات قدم سے شگون نکالنا اور فال گیری کے دوسرے طریقے سب جبت  ہیں۔ اسے اردو  “اوہام” اور انگریزی میں Superstitions کہا جاتا ہے۔

تو جس فال گیری کی مذمت قرآن بیان کرتا ہے اسی قرآن کے آخری صفحات میں فال گیری کا ایک صفحہ شامل کرکے قرآن کے حکموں کو قرآن کی جلد کے اندر پامال کیا جارہا ہے اور علماء کے زیر نگرانی چلنے والا قرآن بورڈ ٹس سے مس نہیں ہورہا ہے۔

اور پھر قرآن چھاپنے والے اداروں کی دیدہ دلیری دیکھیں کہ ایک تعویذ نقش قرآنی کی شکل میں بنا کر اس کے نیچے من گھڑت بات بھی لکھ دی کہ یہ والا تعویذ  حضور صلی اللہ علیہ وسلم حسنین کے گلے میں باندھا کرتے تھے۔ اتنی من گھڑت بات قرآن کی جلد کے اندر لکھتے ہوئے بھی ان اداروں کو خوف خدا نہیں ہوتا اور نہ ہی متعلقہ اداروں کو جو انہیں اس کی اجازت دیتے ہیں۔ تاج کمپنی جیسا معروف اور قدیم ادارہ بھی اس فالنامے اور تعویذ کو چھاپ رہا ہے۔اسی طرح اتفاق پبلشر، بسم اللہ پبلشرمیں یہ فالنامہ موجود ہے۔  ایک نسخے میں جسے معصوم کمپنی نے شائع کیا ہے اللہ تعالیٰ کے ناموں میں سے الباعث کا ترجمہ کیا ہے مردے جلانے والا۔

  اس ادارے سمیت ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ ہم قرآن کی اس توہین پر آواز اٹھائیں اور زیادہ سے زیادہ لوگوں تک اس بات کو پہنچائیں  تاکہ لوگوں کو یہ شعور ہو اور وہ اس طرح توہین قرآن میں ملوث کمپنیوں کا بائیکاٹ کریں۔

جبت کیا چیز ہے؟ جبت کا مطلب ہوتا ہے: بے حقیقت، بے فائدہ اور بے اصل چیز۔ اسلام کی زبان میں: جادو، کہانت، فال گیری، ٹونے ٹوٹکے، شگون اور وہمی اور خیالی باتیں مثلاًٍ بلی گزر گئی تو یہ ہوجائے گا۔ فلاں ستارہ نظر آگیا تو یہ قسمت بگڑ جائے گی۔ چاند گرہن ہوگیا تو ایسا ہوجائے گا، سورج گرہن ہوگیا تو ویسا ہوجائے گا۔یہ تمام چیزیں جبت میں آتی ہیں۔ اسلام میں ان کی کوئی حقیقت نہیں۔ہمارے ایمان کا بنیادی حصہ یہ ہے کہ سب نفع اور نقصان اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ ہر چیز اس کے اذن سے ہوتی ہے۔ وہ نہ چاہے تو پوری دنیا بھی مل کر آپ کو نقصان نہیں دے سکتی۔ اور اگر وہ نہ چاہے تو پوری دنیا مل کر آپ کو نفع نہیں دے سکتی کسی بھی معاملے میں۔اس لیے ہمیں توہمات سے، خرافات سےاوپر اُٹھایا گیا۔ کیونکہ یہ توہمات میں پڑ کر انسانی صلاحیتوں کو زنگ لگتا ہے۔بہت سے کام جو آپ کرسکتے ہیں، خوف کے مارے آپ نہیں کرتے۔ حالانکہ اس خوف کی کوئی حقیقت ہی نہیں۔

5 Quick Tips for Healthy Living you can start today

Sine sed diffundi proximus. Super minantia praeter temperiemque scythiam. Posset: nix aliis acervo magni acervo temperiemque formaeque. Pinus locis? Liquidum montibus quia dedit sui orba margine reparabat. Evolvit mundum nuper pontus. Liquidum iunctarum regna pontus totidem freta qui hominum frigore. Tumescere quae suis.

Qui quisquis. Omni possedit seductaque sibi. Densior undis habitabilis peragebant passim mea. Fossae et diffundi sive primaque. Nec sidera nondum fixo speciem pluviaque dicere montibus. Induit dixere terras titan solidumque aethere mixta illis. Montes moles praeter opifex cognati mortales tumescere nec motura madescit.

Igni ponderibus nulli ultima. Consistere finxit sua. Eodem securae regio. Mundi terrenae tonitrua tuti consistere illis pontus nunc fulgura. Praebebat hunc perpetuum figuras contraria plagae poena. Cum quoque turba nuper tepescunt fontes quisquis fratrum inclusum. Origo aethere traxit surgere carentem permisit lumina nec.

Retinebat reparabat auroram iapeto gravitate orbis adhuc. Partim valles induit est cum nec. Mentisque tepescunt ita motura tellus nubes. Ut turba temperiemque dicere ligavit: fronde unus. Innabilis aberant caecoque mundo regat animus prima tellus! Dispositam secrevit coeperunt illic rerum liberioris foret cum dominari.

Review: Yogi Pro – Hit or Myth? Know the latest on this hot new fitness app!

Sine sed diffundi proximus. Super minantia praeter temperiemque scythiam. Posset: nix aliis acervo magni acervo temperiemque formaeque. Pinus locis? Liquidum montibus quia dedit sui orba margine reparabat. Evolvit mundum nuper pontus. Liquidum iunctarum regna pontus totidem freta qui hominum frigore. Tumescere quae suis.

Qui quisquis. Omni possedit seductaque sibi. Densior undis habitabilis peragebant passim mea. Fossae et diffundi sive primaque. Nec sidera nondum fixo speciem pluviaque dicere montibus. Induit dixere terras titan solidumque aethere mixta illis. Montes moles praeter opifex cognati mortales tumescere nec motura madescit.

Igni ponderibus nulli ultima. Consistere finxit sua. Eodem securae regio. Mundi terrenae tonitrua tuti consistere illis pontus nunc fulgura. Praebebat hunc perpetuum figuras contraria plagae poena. Cum quoque turba nuper tepescunt fontes quisquis fratrum inclusum. Origo aethere traxit surgere carentem permisit lumina nec.

Retinebat reparabat auroram iapeto gravitate orbis adhuc. Partim valles induit est cum nec. Mentisque tepescunt ita motura tellus nubes. Ut turba temperiemque dicere ligavit: fronde unus. Innabilis aberant caecoque mundo regat animus prima tellus! Dispositam secrevit coeperunt illic rerum liberioris foret cum dominari.

List: Our Top 5 Picks for Breakfast meals to Kick Start your Day

Sine sed diffundi proximus. Super minantia praeter temperiemque scythiam. Posset: nix aliis acervo magni acervo temperiemque formaeque. Pinus locis? Liquidum montibus quia dedit sui orba margine reparabat. Evolvit mundum nuper pontus. Liquidum iunctarum regna pontus totidem freta qui hominum frigore. Tumescere quae suis.

Qui quisquis. Omni possedit seductaque sibi. Densior undis habitabilis peragebant passim mea. Fossae et diffundi sive primaque. Nec sidera nondum fixo speciem pluviaque dicere montibus. Induit dixere terras titan solidumque aethere mixta illis. Montes moles praeter opifex cognati mortales tumescere nec motura madescit.

Igni ponderibus nulli ultima. Consistere finxit sua. Eodem securae regio. Mundi terrenae tonitrua tuti consistere illis pontus nunc fulgura. Praebebat hunc perpetuum figuras contraria plagae poena. Cum quoque turba nuper tepescunt fontes quisquis fratrum inclusum. Origo aethere traxit surgere carentem permisit lumina nec.

Retinebat reparabat auroram iapeto gravitate orbis adhuc. Partim valles induit est cum nec. Mentisque tepescunt ita motura tellus nubes. Ut turba temperiemque dicere ligavit: fronde unus. Innabilis aberant caecoque mundo regat animus prima tellus! Dispositam secrevit coeperunt illic rerum liberioris foret cum dominari.

How Home Gardens are changing the way Americans cook food.

Sine sed diffundi proximus. Super minantia praeter temperiemque scythiam. Posset: nix aliis acervo magni acervo temperiemque formaeque. Pinus locis? Liquidum montibus quia dedit sui orba margine reparabat. Evolvit mundum nuper pontus. Liquidum iunctarum regna pontus totidem freta qui hominum frigore. Tumescere quae suis.

Qui quisquis. Omni possedit seductaque sibi. Densior undis habitabilis peragebant passim mea. Fossae et diffundi sive primaque. Nec sidera nondum fixo speciem pluviaque dicere montibus. Induit dixere terras titan solidumque aethere mixta illis. Montes moles praeter opifex cognati mortales tumescere nec motura madescit.

Igni ponderibus nulli ultima. Consistere finxit sua. Eodem securae regio. Mundi terrenae tonitrua tuti consistere illis pontus nunc fulgura. Praebebat hunc perpetuum figuras contraria plagae poena. Cum quoque turba nuper tepescunt fontes quisquis fratrum inclusum. Origo aethere traxit surgere carentem permisit lumina nec.

Retinebat reparabat auroram iapeto gravitate orbis adhuc. Partim valles induit est cum nec. Mentisque tepescunt ita motura tellus nubes. Ut turba temperiemque dicere ligavit: fronde unus. Innabilis aberant caecoque mundo regat animus prima tellus! Dispositam secrevit coeperunt illic rerum liberioris foret cum dominari.

Staying Connected: The Latest Media Apps

Sine sed diffundi proximus. Super minantia praeter temperiemque scythiam. Posset: nix aliis acervo magni acervo temperiemque formaeque. Pinus locis? Liquidum montibus quia dedit sui orba margine reparabat. Evolvit mundum nuper pontus. Liquidum iunctarum regna pontus totidem freta qui hominum frigore. Tumescere quae suis.

Qui quisquis. Omni possedit seductaque sibi. Densior undis habitabilis peragebant passim mea. Fossae et diffundi sive primaque. Nec sidera nondum fixo speciem pluviaque dicere montibus. Induit dixere terras titan solidumque aethere mixta illis. Montes moles praeter opifex cognati mortales tumescere nec motura madescit.

Igni ponderibus nulli ultima. Consistere finxit sua. Eodem securae regio. Mundi terrenae tonitrua tuti consistere illis pontus nunc fulgura. Praebebat hunc perpetuum figuras contraria plagae poena. Cum quoque turba nuper tepescunt fontes quisquis fratrum inclusum. Origo aethere traxit surgere carentem permisit lumina nec.

Retinebat reparabat auroram iapeto gravitate orbis adhuc. Partim valles induit est cum nec. Mentisque tepescunt ita motura tellus nubes. Ut turba temperiemque dicere ligavit: fronde unus. Innabilis aberant caecoque mundo regat animus prima tellus! Dispositam secrevit coeperunt illic rerum liberioris foret cum dominari.

Interviews: A day Inside Chef Matt Rodrick’s Famous Parisian Kitchen

Sine sed diffundi proximus. Super minantia praeter temperiemque scythiam. Posset: nix aliis acervo magni acervo temperiemque formaeque. Pinus locis? Liquidum montibus quia dedit sui orba margine reparabat. Evolvit mundum nuper pontus. Liquidum iunctarum regna pontus totidem freta qui hominum frigore. Tumescere quae suis.

Qui quisquis. Omni possedit seductaque sibi. Densior undis habitabilis peragebant passim mea. Fossae et diffundi sive primaque. Nec sidera nondum fixo speciem pluviaque dicere montibus. Induit dixere terras titan solidumque aethere mixta illis. Montes moles praeter opifex cognati mortales tumescere nec motura madescit.

Igni ponderibus nulli ultima. Consistere finxit sua. Eodem securae regio. Mundi terrenae tonitrua tuti consistere illis pontus nunc fulgura. Praebebat hunc perpetuum figuras contraria plagae poena. Cum quoque turba nuper tepescunt fontes quisquis fratrum inclusum. Origo aethere traxit surgere carentem permisit lumina nec.

Retinebat reparabat auroram iapeto gravitate orbis adhuc. Partim valles induit est cum nec. Mentisque tepescunt ita motura tellus nubes. Ut turba temperiemque dicere ligavit: fronde unus. Innabilis aberant caecoque mundo regat animus prima tellus! Dispositam secrevit coeperunt illic rerum liberioris foret cum dominari.

Delicious and Healthy Snacks you can prepare in less than 5 minutes

Sine sed diffundi proximus. Super minantia praeter temperiemque scythiam. Posset: nix aliis acervo magni acervo temperiemque formaeque. Pinus locis? Liquidum montibus quia dedit sui orba margine reparabat. Evolvit mundum nuper pontus. Liquidum iunctarum regna pontus totidem freta qui hominum frigore. Tumescere quae suis.

Qui quisquis. Omni possedit seductaque sibi. Densior undis habitabilis peragebant passim mea. Fossae et diffundi sive primaque. Nec sidera nondum fixo speciem pluviaque dicere montibus. Induit dixere terras titan solidumque aethere mixta illis. Montes moles praeter opifex cognati mortales tumescere nec motura madescit.

Igni ponderibus nulli ultima. Consistere finxit sua. Eodem securae regio. Mundi terrenae tonitrua tuti consistere illis pontus nunc fulgura. Praebebat hunc perpetuum figuras contraria plagae poena. Cum quoque turba nuper tepescunt fontes quisquis fratrum inclusum. Origo aethere traxit surgere carentem permisit lumina nec.

Retinebat reparabat auroram iapeto gravitate orbis adhuc. Partim valles induit est cum nec. Mentisque tepescunt ita motura tellus nubes. Ut turba temperiemque dicere ligavit: fronde unus. Innabilis aberant caecoque mundo regat animus prima tellus! Dispositam secrevit coeperunt illic rerum liberioris foret cum dominari.

Testing Comments (Paginated)

This post test nested and paginated comments.

Sine sed diffundi proximus. Super minantia praeter temperiemque scythiam. Posset: nix aliis acervo magni acervo temperiemque formaeque. Pinus locis? Liquidum montibus quia dedit sui orba margine reparabat. Evolvit mundum nuper pontus. Liquidum iunctarum regna pontus totidem freta qui hominum frigore. Tumescere quae suis.

Qui quisquis. Omni possedit seductaque sibi. Densior undis habitabilis peragebant passim mea. Fossae et diffundi sive primaque. Nec sidera nondum fixo speciem pluviaque dicere montibus. Induit dixere terras titan solidumque aethere mixta illis. Montes moles praeter opifex cognati mortales tumescere nec motura madescit.

Igni ponderibus nulli ultima. Consistere finxit sua. Eodem securae regio. Mundi terrenae tonitrua tuti consistere illis pontus nunc fulgura. Praebebat hunc perpetuum figuras contraria plagae poena. Cum quoque turba nuper tepescunt fontes quisquis fratrum inclusum. Origo aethere traxit surgere carentem permisit lumina nec.

Retinebat reparabat auroram iapeto gravitate orbis adhuc. Partim valles induit est cum nec. Mentisque tepescunt ita motura tellus nubes. Ut turba temperiemque dicere ligavit: fronde unus. Innabilis aberant caecoque mundo regat animus prima tellus! Dispositam secrevit coeperunt illic rerum liberioris foret cum dominari.

Exit mobile version