Home Blog Page 3

اچھرہ واقعہ اور عربی حروف تہجی کا ادب و احترام

اچھرہ واقعہ اور عربی حروف تہجی کا ادب و احترام

عربی حروف تہجی کا احترام

(سید عبدالوہاب شاہ شیرازی)

دو دن قبل لاہور کے علاقہ اچھرہ میں ایک واقعہ پیش آیا، ایک خاتون ایسا لباس پہنے ہوئے بازار میں آئی جس پر قرآنی خط کے سٹائل میں عربی کے کچھ حروف اور جملے لکھے ہوئے تھے، یہ عربی حروف شلوار اور قمیص دونوں پر مکمل طور پر لکھے ہوئے تھے۔اس عورت کو دیکھ کر دو سمجھدار اشخاص نے اسے ایک کیفے ٹیریا میں بٹھا دیا اور کہا کہ آپ اس نازیبا لباس میں یہاں سے باہر نہ جائیں ہم پولیس کو بلاتے ہیں، اس عورت کے ساتھ اس کا خاوند بھی موجود تھا۔ چنانچہ پولیس کو فون کیا گیا، جتنی دیر میں پولیس آرہی تھی اتنی دیر میں اس کیفے ٹیریا کے باہر سینکڑوں لوگ جمع ہوگئے، چونکہ کیفے ٹیریا کا دروازہ بند کر دیا گیا تھا اس لیے باہر نئے آنے والے لوگوں میں یہ افواہ پھیل گئی کہ عورت نے شاید قرآنی آیات لکھا ہوا لباس پہنا ہوا ہے۔  ظاہر اس بات پر ہر وہ شخص جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان ہے اسے غصہ آنا فطری عمل ہے، ہاں جس کا دل سیاہ ہو چکا ہواور  رتی بھر ایمان بھی نہ ہو تو اس کے بارے کچھ نہیں کہا جاسکتا۔

جب پولیس موقع پر پہنچی جس میں ایک خاتون افسر بھی موجود تھیں انہوں نے سارا واقعہ نوٹس کرکے لوگوں کو بتایا کہ لباس پر قرآن کی آیات نہیں بلکہ صرف عربی کے جملے لکھے ہوئے ہیں، اس طرح اس خاتون افسر نے لوگوں کا غصہ ٹھنڈا کیا اور اس عورت کو برقعہ پہنا کر وہاں سے نکالا اور تھانے پہنچا دیا۔ بعد میں تھانے میں اس عورت نے ایک ویڈیو پیغام میں اپنی غلطی کا اعتراف کیا  کہ مجھے یہ حرکت نہیں کرنی چاہیے تھی۔

واقعات تو ہوتے رہتے ہیں، اچھے بھی اور برے بھی لیکن اس واقعہ کے بعد دین بیزار، دین دشمن ، دیسی لبرل اور سیکولرازم کا شکار سوشل میڈیا ایکٹوسٹ نے آسمان سر پر اٹھا لیا اور  عربی زبان، دین اسلام، اور ایمان والوں کا مذاق اور ان پر طنز اور جملے کسنا شروع کر دیے۔ احتجاج کرنے والے لوگوں کو جاہل اور انتہاء پسند کہا جانے لگا۔

یاد رکھیں! عربی حروف تہجی اور وہ بھی ایسے سٹائل اور خط میں جو قرآنی ہو اس کی قطعا حمایت نہیں کی جا سکتی، اور نہ اس کو جواز بنایا جاسکتا ہے۔ اس عورت کو دیکھ کر احتجاج کرنے والے جاہل نہیں بلکہ اس بیہودہ گندے اور کمینے عمل کی حمایت کرنے والے پرلے درجے کے جاہل، اجڈ اور دین بیزار ہیں، جو اپنے آپ کو نام نہاد روشن خیالی کے پردے میں چھپانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

کسی بھی زبان کے حروف تہجی کا بھی احترام ہوتا ہے اور ہم مسلمانوں کے ہاں عربی جو ہمارے نبی، ہمارے قرآن اور ہمارے دین کی زبان ہے ہمارے لئے بہت محترم ہے، ہم اس بات کی قطعا اجازت نہیں دے سکتے کہ کوئی شخص  ایسا لباس پہنے کہ اس لباس کی ایسی جگہوں پر قرآنی سٹائل میں حروف لکھے ہوں جہاں پیشاب اور گندگی بھی لگ سکتی ہے اور ان حروف کے اوپر پچھوڑا رکھ کر بیٹھنا بھی پڑتا ہے۔

جن  لوگوں کے ہاں عربی حروف تہجی کا احترام نہیں وہ بے شک احترام  نہ کریں کوئی زبردستی نہیں لیکن اس کی آڑ میں سیکولرازم کے نظریات یعنی ”دنیوی معاملات کو کسی بھی آسمانی دین و مذہب سے دور رکھیں” کی اجازت نہیں دی جاسکتی اور نہ ہی دین اسلام اور عربی زبان کی تضحیک کی اجازت دی جاسکتی ہے۔

زبان انسانی مقاصد کے حصول باہم رابطے، جذبات کے اظہار اور علم کے حصول کا ذریعہ ہے۔ یہاں تک کہ خدا سے ہمکلام ہونے کا ذریعہ بھی زبان ہی ہے۔ دنیا کی تمام حکومتوں، اداروں اور تعلیمی اداروں کا سارا نظام زبان ہی کی مرہون منت ہے۔

اللہ تعالیٰ بھی انسانوں کو کسی زبان میں ہی مخاطب کرتا ہے، انسانی تاریخ میں مختلف علاقوں اور مختلف ملکوں میں اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو ان کی مختلف زبانوں سے مخاطب کیا اور ہدایات دیں۔ لیکن سب سے آخر میں پیغمبر آخرالزمان حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد پر آخری کتاب قرآن اور آخری دین، دین اسلام کے لیے اللہ تعالیٰ نے عربی زبان کا انتخاب کیا۔

چنانچہ اسلام کی پوری تاریخ میں مسلمانوں نے عربی زبان کو ایک خدائی نشانی سمجھتے ہوئے ہمیشہ اس کا احترام کیا۔دین اسلام نے عربی زبان کو بعض عبادات میں اتنا ضروری قرار دیا کہ عربی زبان کے بغیر وہ عبادت اللہ کے ہاں قابل قبول ہی نہیں قرار پاتی۔  اسی وجہ سے مسلمانوں کا عربی سے رشتہ ہمیشہ ادب و احترام والا رہا ہے۔

جس طرح کسی بھی ملک ، حکومت اور سلطنت کی ایک قومی زبان ہوتی ہے اور اس سلطنت کے تمام امور اسی زبان میں سرانجام پاتے ہیں اور اس ملک میں اس زبان کو خصوصی احترام والا مقام ملتا ہے، اسی طرح دونوں جہاں کے بادشاہ، خالق و مالک اللہ رب العزت کی حکومت اور سلطنت کی زبان عربی ہی ہے،  جسے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنے ارشادات میں بیان کیا ہے۔

اعلیٰ حضرت مولانا  امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

”ہمارے علماء تصریح فرماتے ہیں کہ نفسِ حروف قابلِ ادب ہیں اگرچہ جدا جدا لکھے ہوں جیسے تختی یا وصلی پر، خواہ ان میں کوئی برا نام لکھا ہو جیسے فرعون ، ابوجہل وغیرہما تاہم حرفوں کی تعظیم کی جائے اگرچہ ان کافروں کا نام لائقِ اہانت و تذلیل ہے۔حروفِ تہجی خود کلام اللہ ہیں کہ ہُود علیہ الصَّلٰوۃ و السَّلام پر نازل ہوئے۔“ (فتاویٰ رضویہ،(ج 23،ص 336، 337)

ادب احترام بہت بڑی چیز ہوتی ہے، عربی زبان تو کیا اردو زبان کے حروف تہجی کا بھی احترام ضروری ہے چہ جائیکہ کوئی ان حروف کی بے ادبی کا کوئی سامان پیدا کرے۔ چونکہ اچھرہ واقعہ میں پورے لباس (شلوار، قمیص) پر کچھ جملے لکھے ہوئے تھے جو واضح طور پر بے ادبی کے زمرے میں آتا ہے بالکل غلط فعل تھا۔ہمارے لیے حجت سعودیہ کا کوئی برینڈ یا کمپنی نہیں بلکہ دین اسلام کی تعلیمات اور اکابرین اسلام کا عمل ہے۔چنانچہ اس واقعہ کے رونما ہونے سے بہت پہلے ہی ہمارے علماء اور جامعات نے ایسے فتاویٰ صادر کر دیے تھے جن میں ایسے لباس کی کراہت اور ممانعت کو بیان کیا ہے۔ مندرجہ ذیل میں دیوبندی اور بریلوی مکتبہ فکر کے دو فتاویٰ پیش کیے جاتے ہیں جن میں اس عمل کو برا کہا گیا ہے۔

بنوری ٹاون کا فتوی:

سوال

کیا اس طریقے کے کپڑے پہننا صحیح ہے، جن پر اردو رسم الخط یا حروف تہجی بنے ہوئے ہوں؟

جواب

حروفِ تہجی  قابلِ احترام ہیں، اس لیے ان حروف کو ایسی جگہ لکھنا جس سے اس کی بے ادبی کا اندیشہ ہو درست نہیں ہے، یہاں تک کہ فقہاء کرام نے ذکر کیا ہے کہ اگر تیر کے نشانہ کی جگہ (ہدف) پر ابوجہل، فرعون وغیرہ کا نام لکھا تو بھی اس پر تیر کا نشانہ لینا مکروہ ہے، اس لیے ان حروف کی حرمت ہے۔

لہذا پہننے کے کپڑوں پر اگر حروف تہجی پرنٹ ہوں تو  اس میں بعض صورتوں میں تو  بے  ادبی کا صدور   اور بعض میں اس کا اندیشہ  موجود ہے، مثلاً قمیص وغیرہ پر اگر حروف پرنٹ ہوں تو اگرچہ ظاہر میں بے ادبی نہیں ہے، لیکن اندیشہ ہے کہ دھلنے میں یا بعد میں پرانے ہونے کی صورت میں پھینکنے پر بے ادبی ہوگی، اور اگر شلوار یا پائجامہ پر یہ حروف ہوں تو اس میں بے ادبی ہونا ظاہر ہے، اس لیے ایسے کپڑوں کے استعمال سے اجتناب کرنا چاہیے۔

البتہ اگر کپڑے پر کتابت کا مقصد  انہیں فریم وغیرہ کرا کر (جیسا کہ آیۃ الکرسی وغیرہ لکھی جاتی ہے) اونچی جگہ لگانا ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔

 فتاوی ہندیہ میں ہے:

’’إذا كتب اسمَ ’’فرعون‘‘ أو كتب ’’أبو جهل‘‘ على غرض، يكره أن يرموه إليه؛ لأن لتلك الحروف حرمةً، كذا في السراجية‘‘. (٥/ ٣٢٣، ط: رشيدية)

وفیه أیضاً:

’’ولو كتب القرآن على الحيطان و الجدران، بعضهم قالوا: يرجى أن يجوز، و بعضهم كرهوا ذلك مخافة السقوط تحت أقدام الناس، كذا في فتاوي قاضيخان‘‘.

( الباب الخامس في آداب المسجد، و ما كتب فيه شيئ من القرآن، أو كتب فيه اسم الله تعالى، ٥/ ٣٢٣، ط: رشيدية)

 فقط والله أعلم

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 بریلوی مکتہ فکر کا فتویٰ

کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان شرع متین اس بارے میں کہ ایسا لباس جس پر کچھ تحریر ہو جیسے آجکل کچھ برینڈ اپنے کپڑوں پر مختلف تحریریں ،شاعری وغیرہ چھاپتے ہیں، اس کو پہننا شرعاکیسا ہے ؟

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق وا لصواب

ایسا لباس جس پر کچھ تحریر ہو خواہ وہ سادہ تحریر ہو یا شاعری وغیرہ ،اسے پہننا منع ہے کہ اس میں حروف تہجی ( جن سے کلام بنتا ہے )کی بے ادبی کے کئی پہلو موجود ہیں۔اور حروف تہجی کا ادب کرنے کا کہا گیا ہے۔ دنیا میں جتنی بھی زبانیں ہیں وہ الھامی (اللہ تعالیٰ کی طرف سے اتاری گئی)ہیں اور ان کا ادب ضروری ہے ۔

تفسیر کبیر میں امام فخرالدین الرازی فرماتے ہیں:

”الغات كلها توقيفية“

ترجمہ:(دنیا میں بولی جانے والی) تمام زبانیں الھامی ہیں۔(التفسیر الکبیر،الجزالثانی،سورت البقرہ،آیت31،جلد1،صفحہ396،مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ)

واللہ اعلم

کتبہ

غلام رسول قادری مدنی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

#اچھرہ #نکتہ

سیکولرزم كا تعارف اور تباہ کاریاں

سیکولرزم كا تعارف اور تباہ کاریاں

سید عبدالوہاب شاہ شیرازی

یٰٓــاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَآفَّۃً

اسلام اور سیکولرازم

سیکولرازم كا معنی

آکسفورڈ میں سیکولر ازم کا معنی

Worldly, not connected with religious or spiritual matters

دنیاوی۔ یعنی مذہبی یا روحانی معاملات سے منسلک نہیں۔
ورڈلی کا مطلب ہے اس دنیا سے متعلق
سیکولرزم (Secularism) کا اُردو معنیٰ دنیویت ہے۔ سیکولر زم ’ایسی دُنیویت کو کہتے ہیں جس کا آخرت یا دین سے کوئی تعلق نہ ہو۔ سیکولر انسان ’وہ ہوتا ہے جو اپنی زندگی میں کسی آسمانی دین کو دخیل نہ سمجھے‘۔ سیکولر نظریہ ’وہ ہے جوکسی آسمانی دین یا مذہبی پیشوائیت کا پیش کردہ نہ ہو۔‘

آکسفورڈ کے 95 کے ایڈیشن میں سیکولرازم کی تعریف اس طرح کی گئی ہے:

The belief that laws and education should be based on facts and science.

ان قوانین اور اس تعلیم پر یقین رکھنا جوفیکٹ اور سائنس پر مبنی ہونی چاہیے۔( یعنی جو حواس خمسہ ، یا تجربات میں آئے)

انسائیکلو پیڈیا آف برٹانیکا کے مطابق :

Secularism, any movement in society directed away from otherworldliness to life on earth.

’’سیکولرزم ایک اجتماعی تحریک ہے جس کا مقصد لوگوں کو آخرت کی توجہ سے یکسر ہٹا کر فقط دنیا کی طرف متوجہ کرنا ہے۔ ‘‘

امریکی انسائیکلوپیڈیا کے مطابق :

Secularism is most commonly thought of as the separation of religion from civil affairs and the state and may be broadened to a similar position seeking to remove or to minimize the role of religion in any public sphere.

سیکولرازم کو عام طور پر شہری معاملات اور ریاست سے مذہب کی علیحدگی کے طور پر سمجھا جاتا ہے اور اسے کسی بھی عوامی شعبے میں مذہب کے کردار کو ہٹانے یا کم کرنے کی کوشش کرنے کے لیے اسی طرح کی پوزیشن تک وسیع کیا جا سکتا ہے۔
یعنی ’’سیکولرزم ایک ایسا اخلاقی نظام ہے جو آسمانی ادیان سے ہٹ کر اپنے اُصول وقواعد رکھتا ہے۔ ‘‘

سیکولرزم کا معنی عربی میں یوں کیا جاتاہے:
فصل الدين عن شؤون الدولة او فَصْلُ الدِّیْنِ عَنِ الدَّوْلَةِ اَوِ الْمُجْتَمِعِ
یعنی دین کو معاشرہ یا ریاست سے جدا کرنا۔ یا معاشرہ اور ریاست کو دین کے علاوہ کسی چیز پر اُستوار کرنا۔ یا دین کو عملی زندگی سے الگ کرنا اورعملی زندگی کو غیر دینی بنیادوں پر قائم کرنا۔

سیکولرازم میں دو طرح کی فکریں

اس وقت دنیا میں سیکولرازم میں دو طرح کی سوچیں یا فکریں پائی جاتی ہیں۔ ایک ہے کیپٹل سیکولرازم، اور دوسری ہے سوشلسٹ سیکولرازم۔

جہاں تک تعلق ہے سوشلسٹ سیکولرازم کا تو وہ پوری انسانی زندگی سے دین اور مذہب کو نکال رہے ہیں۔ یعنی ان کا کہنا ہے کسی بھی آسمانی دین ومذہب کا انسانی زندگی کے کسی بھی گوشے سے تعلق نہیں ہونا چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکا کے مقابلے میں چین میں دین اسلام پر چلنا زیادہ دشور ہے۔وہاں مسجد بنانا اور دینی تعلیم کے اجتماعات کرنا بہت مشکل کام ہے۔

جبکہ کیپٹل ازم کے ماننے والے انسانی زندگی کے انفرادی گوشوں میں کچھ حد تک دین و مذہب کی آزادی دیتے ہیں۔ یعنی ان کے نزدیک انفرادی زندگی میں لوگوں کو اس بات کی اجازت ہے کہ وہ جو چاہیں عقیدہ رکھیں، جس کی اور جیسے چاہیں عبادت کریں، اور جیسے مرضی رسومات ادا کریں۔ یہی وجہ ہے کہ یورپ و امریکا میں مساجد بھی بن سکتی ہیں اور عبادت کرنے پر بھی کوئی پابندی نہیں ہے۔

اسی طرح بعض یورپی ممالک عورت کے پردہ کومعاشرت کا حصہ قرار دیتے ہوئے اسے مذہبی علامت سمجھتے ہیں اور اس پر پابندی لگاتے ہیں، جبکہ کچھ یورپی ممالک اسے معاشرت کا حصہ نہیں سمجھتے بلکہ انفرادی زندگی کا معاملہ سمجھتے ہوئے پابندی کے قائل نہیں ہیں۔

کیا سیکولر ازم کا نظریہ نیا نظریہ ہے؟

عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ سیکولرازم نظریہ شاید نیا نظریہ ہے، حالانکہ یہ بات غلط ہے۔ جیسا کہ ہم پہلے یہ جان چکے ہیں کہ سیکولرازم کی بنیاد آخرت کی نفی، اور کسی بھی آسمانی دین و مذہب کی عدم مداخلت پر رکھی گئی ہے، تو یہ دنوں نظریات ہمیں نزول قرآن کے زمانے میں مشرکین مکہ میں بھی نظر آتے ہیں۔بلکہ اس سے پہلے نمرود و فرعون کے زمانے میں بھی ہمیں یہ نظریہ قرآنی واقعات میں نظر آتا ہے۔بس فرق اتنا ہے کہ اس وقت سیکولرازم لفظ موجود نہیں تھا، چند صدیاں قبل یورپ میں یہ لفظ اس نظریے پر بولا جانے لگا۔
قرآن کی وہ تمام آیات جو تصور آخرت، قیامت، حساب،جنت و جہنم ، وجود رب، حاکمیت رب، اور رسالت کے بارے ہیں ، یہی دراصل سیکولرازم کا رد کرتی ہیں۔

سیکولر دنیا کا انسانوں کے لیے اصول

سیکولر ریاستوں نے آج کی دنیا میں یہ اصول بنا لیا ہے کہ آپ چاہے ایک خدا مانیں یا دو مانیں یا کئی خدا مانیں انہیں کوئی اعتراض نہیں، بس آپ خدا کو کری ایٹر Creator یعنی خالق مانیں ، یا معبود یعنی عبادت کے لائق مانیں اس سے آگے نہیں۔اگر آپ اس سے آگے بڑھے یعنی خدا کو خالق ہونے کے ساتھ ساتھ Lord یعنی رب بھی ماننا شروع کردیا تو آپ ایکسٹریمسٹ یعنی انتہاء پسند اور بنیاد پرست کہلائیں گے۔ آسان الفاظ میں یوں سمجھیں کہ سیکولر یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ہمیں آپ کے مسلمان ہونے پر کوئی اعتراض نہیں بلکہ آپ کے انتہاء پسند اور ایکسٹریمسٹ ہونے پر اعتراض ہے۔

رب ماننے کا مطلب ہے وہ آقا اور حاکم ہے، لہذا غلام کی اپنی مرضی نہیں ہوتی، غلام اپنے آقا کی مرضی سے ہی سوتا بھی ہےاورجاگتا بھی ہے، اسی کی مرضی سے اٹھتا بھی ہے اور بیٹھتا بھی ہے،وہ کماتا بھی اس کی مرضی سے ہے اور خرچ بھی اس کی مرضی سے کرتا ہے، جو کماتا ہے اس کا مالک بھی وہی آقا ہوتا ہے۔اس کے فیصلے بھی آقا ہی کرتا ہے۔ آقا اگر غلام پر سختی یا تنگی کرے تو کوئی پوچھنے والا نہیں اور نہ غلام کو اعتراض کرنے کا حق ہے۔

اگر کوئی اپنے عقیدے کے مطابق کسی شخص کو اپنا بڑا مانتا ہے تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں، مثلا مسلمان محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اگر بڑا مانتے ہیں تو سیکولرز کو اس پر کوئی اعتراض نہیں، سیکولرازم کا اصول یہ بتاتا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ گریٹ مین مان سکتے ہیں لیکن اس سے آگے یعنی رسول ماننا یہ ایکسٹریمسٹ ہونے کی نشانی ہے۔ کیونکہ رسول ماننے کی صورت میں ان ہدایات پر عمل کرنا ضروری ٹھہرتا ہے جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے۔ لہذا بڑا اور عظیم ضرور مانو، انہیں صادق و امین بھی مانو، انہیں اخلاق حسنہ کے اعلی منصب پر بھی مانو، انہیں مہربان، رحم دل بھی مانو ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔ بس یہاں تک ہی رہو، انہیں رسول مطیع ماننے کی اجازت نہیں۔

سیکولرازم کی عملی صورتیں:

سیکولر سیاست:

سیکولرازم میں سیاست کی مثال جیسے مغربی نام نہاد جمہوری نظام ، جو خالصتا سرمایہ دارانہ بنیادوں پر کھڑا ہے، جو جتنا زیادہ سرمایہ دار ہے اتنا ہی اس کے پاس سیاسی نظام میں آگے نکلنے کے مواقع ہوتے ہیں۔ ایک کونسلر سے لے کر سنیٹر تک صرف وہی لوگ آگے آسکتے ہیں جو زیادہ سرمایہ لگا سکتے ہیں۔ جمہوری نظام کی دوسری خرابی یہ ہے کہ قانون بنانے یعنی حلال و حرام ، جائز و ناجائز ٹھہرانے کا اختیار پارلیمان کے پاس ہوتا ہے، اور پارلیمان میں سرمایہ دار، جاگیردار، اور دین بیزار لوگوں کی اکثریت ہوتی ہے، جو پیسے کے زور پر یہاں آکر بیٹھ جاتے ہیں۔

سیکولر معاشرت :

جیسے مرد وزَن کی مغربی مساوات ،حقوقِ نسواں کے مغربی تصورات، میرا جسم میری مرضی کے نعرے اور عورتوں کی آزادی کی تحریکیں، اور مردوں کی مردوں سے شادی، عورتوں کی عورتوں سے شادی کے قوانین وغیرہ۔

سیکولر معیشت:

جیسے مغربی سرمایہ دارانہ نظام ۔ جس میں یہ تصور دیا جاتا ہے کہ انسان جو کماتا ہے وہ اس کا مالک ہے وہ اسے جیسے چاہے کمائے اور جیسے چاہے خرچ کرے، انسان پر نہ کمانے میں کوئی قدغن ہونی چاہیے اور نہ خرچ کرنے میں کوئی قدغن ہونی چاہیے۔

سیکولر تعلیم :

جو دینی اہداف وطریق کار سے آزادہو، جو وحی کو حجت تسلیم نہ کرے۔ چنانچہ اس مقصد کے لیے متحدہ ہندوستان میں لارڈ میکالے نے یہاں ایک نیا تعلیم نظام متعارف کروایا اور پھر آہستہ آہستہ اسے یہاں نافذ کردیا، اس نظام تعلیم سے مرحلہ وار دین و مذہب کو خارج کردیا گیا۔اگر اسلامی ممالک میں چند ایک چیزیں باقی بھی رکھیں تو وہ اس حیثیت سے جیسے تاریخ واقعات ہوتے ہیں۔

سیکولرازم کے معاشرے پر اثرات کے چار مراحل:

1۔ فرد کی سطح پر:

جب کوئی فرد مکمل طور پر اپنی توجہ دنیا تک محدود کر لیتا ہے، اور دین سے بیگانہ ہو جاتا ہے، تو تصور آخرت اس کے ذہن سے غائب ہو جاتا ہے، اور اگر باالفرض تصور آخرت موجود بھی ہو تو اس پر ایسا یقین نہیں ہوتا جیسا اس بات پر کہ میں اپنا ہاتھ آگ میں دوں گا تو وہ ضرور جلے گا، یا میں زہر کا پیالہ پیوں گا تو ضرور مروں گا۔
چنانچہ ایسا شخص نام کا مسلمان ہوتا ہے، کبھی نماز بھی پڑھ لیتا ہے، روزہ بھی رکھ لیتا ہے، لیکن دین کے حقیقی تصور سے دور ہوتا ہے۔ اسے دین کی باتیں سننے اور دین کا کام کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔

2۔ معاشرے کی سطح پر :

مندرجہ بالا سوچ والے بہت سے افراد پیدا ہوجائیں تو ان ہی سے معاشرہ وجود میں آتا ہے اور پھر انفرادی کے ساتھ ساتھ معاشرے کے اجتماعی معاملات میں بھی سیکولرازم آجاتا ہے۔ چنانچہ لوگ دین اسلام کی ان تعلیمات کو کوئی اہمیت نہیں دیتے جو معاشرے کی بہتری کے لیے اسلام نے دی ہوتی ہیں، مثلا مرد وزن کے اختلاط پر پابندی، پردہ، میاں بیوی کے احکام، بچوں کی تعلیم و تربیت سے متعلق اسلام کی ہدایات، قومیت، وطنیت کی نفی وغیرہ۔

3۔ معیشت کی سطح پر:

جب سیکولرازم کا وائرس افراد میں پیدا ہوتا ہے تو اس کے اثرات پھر ان کی معاشی زندگی میں بھی نظر آتے ہیں، چنانچہ لوگ دولت کو اپنا مال سمجھتے ہوئے یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ میں جیسے چاہوں کماوں اور کمانے کے بعد جیسے چاہوں خرچ کروں۔ وہ قرآن میں آنے والے ان خدائی الفاظ ” مما رزقناکم” کو بھول جاتے ہیں، جن کا مفہوم ہے کہ ہمارے پاس جو کچھ بھی ہے وہ اللہ کی دین ہے، وہی مالک ہے، ہمارے پاس یہ امانت ہے، لہذا امانت میں ہماری مرضی نہیں چلے گی بلکہ مالک کی مرضی چلے گی۔ چنانچہ سود جیسے لعنت بھی کاروبار بن جاتی ہے، رشوت، کرپشن، دھوکہ دہی، زخیرہ اندوزی، اور زکوۃ کی عدم ادائیگی گناہ نہیں لگتی۔

4۔ ریاست کی سطح پر:

جب سیکولرازم افراد میں سرایت کرتا ہے تو اس کے اثرات جیسے معاشرت اور معیشت پر پڑتے ہیں ایسے ہی اس کے اثرات لوگوں کی سیاسی زندگی میں بھی نظر آتے ہیں۔جیسے کوئی بیمار شخص بیماری سے صحت مند تو ہونا چاہتا ہے لیکن نہ پرہیز کرتا ہے اور نہ دوائی کھاتا ہے ایسے ہی سیکولر وائرس کا شکار مسلمان نہ اسلامی ریاست کے لیے کوشش کرتا ہے اور نہ سیکولرازم کی علمبردار پارٹیوں سے کنارہ کشی اختیار کرتا ہے۔
یہ بات با لکل واضح ہے کہ اسلام میں سیکو لرزم کی دونوں اقسام کی کوئی گنجائش نہیں۔ہر وہ فکر جو اپنی مبادیات اور تطبیقا ت میں دینی نہ ہو، وہ دین مخا لف ہے۔ چنا نچہ اسلام اور سیکولرزم دو ایسے نقیض ہیں جو کبھی اکٹھے نہیں ہو سکتے اور اُن کے درمیان کوئی واسطہ نہیں۔

اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے !

یاد رکھیں اسلام دین ہے، اور دین نظام حیات کو کہا جاتا ہے۔ یعنی اسلام محض کلمہ پڑھنے، قرآن ناظرہ سیکھنے،اور برکت کے لیے گھر میں رکھنے کا نام نہیں۔ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے، جس میں انسانی زندگی کے تمام گوشوں چاہے وہ انفرادی ہوں یا اجتماعی سب کے لیے مکمل رہنمائی اور اصول موجود ہیں۔ اسلام میں دین اور دنیا الگ الگ نہیں ہیں، اسلام دنیا کے تمام شعبوں میں بھی داخل ہے۔

اسلام اور سیکولرزم

سیکولرزم کئی اعتبار سے اسلام کے منافی ہے:

1۔سیکولرازم تصور عبادت کے منافی ہے۔

اسلام نے ہمیں جو تصور عبادت دیا ہے، سیکولرازم اس کے بالکل منافی ہے۔ اسلام کا تصورت عبادت محض چند عبادات تک محدود نہیں بلکہ زندگی کا ہر لمحہ عبادت ہے۔ کیونکہ عبادت کا لفظ عبد سے بنا ہے اور عبد کا معنی غلام ہے، عبادت کا مطلب ہوا اللہ کی غلامی میں آنا، جسے اردو میں بندگی رب کہا جاتا ہے۔ یعنی آدمی کی زندگی کا ہر لمحہ اللہ کی مرضی کے ساتھ گزرے، اس کا عبادت کرنا، سونا، جاگنا، کاروبار کرنا، رسومات ادا کرنا وغیرہ کوئی کام اللہ کی منشاء کے خلاف نہ ہو۔ یعنی دنیا کا ہر وہ کام جو اللہ کی رضا کے لیے کیا جائے وہ عبادت ہی ہے چاہے وہ کاروبار ہو یا سیاست، معاشرت ہو یا معیشت، رسومات ہوں یا وطن و قوم کی خدمت۔
اس کے برعکس سیکولرازم اجتماعی معاملات یعنی معاشرت، معیشت اور سیاست میں دین اور دینی تعلیمات کا یکسر انکار کرتا ہے۔

2۔ سیکولرزم حاکمیت رب کے تصور کے خلاف ہے:

اسلام ہمیں حاکمیت رب کا تصور دیتا ہے، یعنی ہمارا کوئی بھی معاملہ ہو چاہے وہ انفرادی زندگی سے متعلق ہو یا اجتماعی زندگی سے متعلق اس میں حاکمیت اور آخری فیصلہ رب کا ہی ہوگا۔ خاص طور پر ریاستی امور اور نظام قانون و انصاف میں فیصلے رب کے بتائے ہوئے قانون کے مطابق ہوں گے۔ کوئی قانون قرآن و سنت کے اصولوں کے خلاف نہ بن سکتا ہے اور نا نافذ ہو سکتا ہے، کسی کے پاس یہ اختیار نہیں کہ وہ حلال و حرام کے اختیار کا مالک بن جائے اگرچہ وہ کروڑوں لوگوں کی منتخب کردہ پارلیمنٹ ہی کیوں نہ ہو۔

اس کے برعکس سیکولرازم میں جمہوری نظام ہے جس میں عوام کے منتخب کردہ نمائندوں کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ جو چاہیں قانون بنائیں اور جو چاہیں قانون ختم کردیں، کیونکہ وہ جمہور کے نمائندے ہیں۔یہ تصور حاکمیت عوام کا تصور ہے جو قرآن کے حاکمیت رب کے تصور کے بالکل منافی ہے۔

٣۔سیکولرزم آسمانی ادیان کو برحق نہیں سمجھتا:

سیکولرازم کی بنیاد ہی دین و مذہب کی نفی اور سائنس و فیکٹ سے ثابت شدہ چیزوں پر ہے۔ چنانچہ ہر وہ چیز جو سائنس اور فیکٹ یا حواس خمسہ اور تجربات کی گرفت میں نہیں آتی سیکولرازم اس کا انکار کرتا ہے۔
جبکہ اس کے برعکس دین اسلام کی بنیاد ہی غیب پر ایمان لانا ہے۔ چنانچہ ہمارا ایمان اس وقت تک مکمل نہیں جب تک ہم اس بات کا اقرار نہیں کرلیتے:
آمَنْتُ بِاللهِ وملائكته وَكُتُبِه وَرُسُلِه وَالْيَوْمِ الْاخِرِ وَالْقَدْرِ خَيْرِه وَشَرِّه مِنَ اللهِ تَعَالى وَالْبَعْثِ بَعْدَالْمَوْتِ
اللہ پر ایمان، فرشتوں پر ایمان، کتابوں پر ایمان، آخرت پر ایمان، اچھی بری تقدیر پر ایمان اور مرنے کے بعد دبارہ زندہ ہونے پر ایمان۔

www.NuktaGuidance.com  www.EislamicBook.com

کیا سیکولرازم نیا نظریہ ہے

کیا سیکولرازم نیا نظریہ ہے

کیا #سیکولرازم نیا نظریہ ہے؟ سیکولرازم کا ایک اہم اصول کیا ہے؟

The Main Principle of Secularism || Is Secularism A New Ideology

 

سیکولرازم کی تعریف اور معنی 

سیکولرازم کی تعریف اور معنی 

سیکولر ازم کا معنی اور تعریف کیا ہے؟ کیا اسلامی سیکولرازم بھی ہوتا ہے؟

Definition of Secularism ► 

 

 

سیکولرازم کی غلط فہمی

سیکولرازم کی غلط فہمی

سیکولر ازم کی غلط فہمیاں۔ کیا سیکولرازم لادینیت کا نام ہے؟

شاہ بلوط ریں کا پھل

شاہ بلوط ریں

شاہ بلوط کے پھل کوپشتو میں پرگڑے یا سیڑے چیڑے ، جبکہ ہندکو زبان میں ریں کہا جاتاہے ۔انگریزی میں chestnut یا Acorns بھی کہتے ہیں۔ ہندی میں سیتاسپاری ،سندھی میں شاہ بلوط

ماہیت۔

یہ ہمیشہ سبز رہنے والا ایک عظیم الشان پہاڑی درخت ہے۔جس  کی لکڑی بہت سخت جان ہوتی ہے جس سے فرنیچر بھی بنایا جاتا ہے۔ اس کے پھل گول ہوتے ہیں۔جس کو شاہ بلوط کہاجاتا ہے۔اورکچھ کے پھل لمبوترے ہوتے ہیں۔اسی کو سیتاسپاری بھی کہاجاتاہے۔

شاہ بلوط ریں
chestnut Acorns

رنگ۔

تازہ سبز ہوتا ہے جبکہ خشک زردی مائل سفید ۔

ذائقہ۔

ایک قسم شیریں ہوتی ہے جبکہ  دوسری قسم تلخ ہوتی ہے۔

مقام پیدائش۔

بلوط کے درخت عموماًبرفانی علاقوں میں زیادہ پیداہوتے ہیں۔یہ کوہ ہمالیہ میں دریائے سندھ کے کناروں سے لے کر نیپال تک پائے جاتے ہیں۔ پاکستان میں ہزارہ ڈویژن، اور شمالی علاقہ جات میں پایا جاتا ہے۔

مزاج۔

شیریں کا مزاج سرد خشک درجہ دوم ہے، جبکہ تلخ کا مزاج سرد خشک درجہ سوم  ہے۔

افعال۔

قابض ،حابس خون ،مجفف غذائے ناقص

یہ بھی پڑھیں: بلیک بیری پھل

استعمال۔

تازہ بلوط کو آگ میں بریاں کرکے نمک کے ہمراہ یا بغیر نمک کے کھاتے  ہیں۔

قابض حابس ہونے کی وجہ سے جریان ومنی مزی سیلان الرحم جریان خون اسہال اور پیچش میں استعمال کرتے ہیں۔تقطیرالبول ،سلسل البول  ادرار بول ،بول فی الفراش کے امراض کو دور کرنے کیلئے ناگرہ موتھ یا دیگر ادویہ کے ہمراہ سفوف بناکر کھلاتے ہیں۔

بلوط کو جلا کرقلاع (منہ کے زخم ) اور قضیب و خصیوں کے زخموں پر باریک پیس کر چھٹرکتے ہیں۔تازہ زخموں پر چھڑکنے سے ان کو جلد خشک کرتاہے۔نفث الدم سحج ،قروح امعاء اور پرانے دستوں میں جوش دے کر پلاتے ہیں۔سیلان رحم میں کھانے کے علاوہ بطور فرزجہ بھی مستعمل ہے

اس کے سارے اجزاءسردخشک ہوتے ہیں۔لہٰذا سیلان الرحم جریان منی اورمذی کیلئے اکسیر ہے۔

نفع خاص۔

قابض و حابس خون ،

مضر۔

مولد سودا اور حلق کیلئے سدہ پید ہ کرتاہے۔

مصلح۔

شکرقند۔

بدل۔

گلناز(گل انار)

مقدارخوراک۔

دوسے تین گرام جوشاندہ نوماشہ گرام تک۔

مرکب۔

معجون ماسک البول ،معجون ممسک ومقوی ،سفوف مقوی مثانہ یہ تقطیرالبول سلسل البول بول الفراش میں قابل اعتماددواءہے۔

chestnut Acorns

شاہ بلوط یعنی ریں کے دیگر فوائد

جلدی امراض کا علاج: شاہ بلوط کے پتے جلدی امراض، اندرونی جلن، سوجن اور دل کی کئی بیماریوں کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔

دل کے امراض: شاہ بلوط کا پھل دل کے امراض اور شوگر میں انتہائی مفید کردار ادا کرتا ہے۔یہ معدہ کو مضبوط رکھنے کے لئے اور بلڈ پریشر کوکنٹرول کرنے میں کافی مفیدہے۔اسکے علاوہ زہنی توازن کو درست اور ہڈیوں کو مضبوط رکھنے میں بھی کافی مفید ہے۔ زخم پر اسکا پوڈر ڈالنے سے زخم فوری طور پر ٹھیک ہو جا تاہے۔

کولیسٹرول کو کنٹرول کرے: شاہ بلوط کولیسٹرول کی مقدار کو کنٹرول کرتا ہے، جبکہ بلڈ غلوکوز پر بھی اس کا مثبت اثر پڑتا ہے۔ یہ آہستہ آہستہ توانائی مہیا کرتا ہے۔ ٹائپ 2 ذیابیطس والے افراد کی غذا میں یہ ایک اثاثہ ثابت ہواہے۔اس میں موجود فیٹی ایسڈ امراض قلب کے خطرے کو محدود کرنے میں مدد کرتے ہیں۔

نظام ہضم کو بہتر بنائے: شاہ بلوط میں کاربوہائیڈریٹ بڑی مقدار میں پائے جاتے ہیں، جو نظام ہضم کو درست کرنے میں انتہائی معاون ہوتے ہیں۔ کھلاڑیوں کیلئے یہ ایک بہت اچھی اور متوازن غذا ہے، جو آہستہ آہستہ توانائی فراہم کرتی رہتی ہے۔

جانوروں کی خوراک: گلہریاں خاص طور پر ان پھلوں کو گرمیوں میں اپنے بلوں میں جمع کرتی رہتی ہیں تاکہ سردیوں میں بطور خوراک کام لایا جا سکے۔ دوسرے بے شمار پرندے اور جانور بھی اس پھل کو کھاتے ہیں۔

یہ باقی تمام خشک پھلوں کی نسبت زیادہ موثر اور کئی طبی خواص کا حامل پھل ہے۔ شاہ بلوط وٹا میں A, ،B اور C، کیلشیم اور فاسفورس سے بھرپور خوراک ہے۔ چکنائی، پروٹین اور نشاستہ جات کی وافر مقدار کے ساتھ ساتھ انتہائی کم کولسٹرول کی مقدار کا حامل پھل ہے۔

chestnut Acorns Oil

تصویر میں acorns oil pic کو آپ دیکھ سکتے ہیں۔ جو تقریبا 20 ڈالرز میں ایک بوتل فروخت ہوتا ہے ۔

کیا جنات کنٹرول میں آسکتے ہیں

کیا جنات کنٹرول میں آسکتے ہیں

Can the giants come under control ⭐️ Syed Abdulwahab Shah

 

ہمزاد موکل قرین

ہمزاد موکل قرین

ہمزاد موکل قرین کون ہے، کیا ہمزاد کو قابو کیا جاسکتا ہے؟ ہمزاد اور موکل کا تعارف

How to contact a ghost Hamzad || Nukta

 

رزق میں برکت کاروبار میں ترقی کے لیے چار کام ضروری

رزق میں برکت کاروبار میں ترقی کے لیے چار کام ضروری

 

Four things are essential for growth in business 

 

چور چوری کر کے اپنا ہی رزق کھاتا ہے

ہرپریشانی کا علاج بندش کا توڑ پارٹ25

ہرپریشانی کا علاج

بندش کسی قسم کی ہو، کاروبار کی بندش، رشتوں کی بندش وغیرہ اس بندش اور پریشانی کا اصل علاج کیا ہے۔؟

 

سوزاک کا علاج ● सुज़ाक

سوزاک کا علاج

سوزاک کی بیماری کیا ہے، اور اس کا گھریلو دیسی علاج کیا ہے۔؟

سوزاک احتیاطی تدابیر

• ذاتی صفائی یقینی بنائیں۔

• بیت الخلا استعمال کرنے کے بعد صفائی ولوا سے پاخانے کے سوراخ کی طرف (یعنی آگے سے پیچھے) کی طرف کریں۔

• ہمبستری کے حوالے سے بھی صفائی کا خیال رکھیں، ہمبستری کرنے کے بعد مثانے کو خالی کریں۔

• صابن، مائع صابن، وجائنل ڈوچ اور ایسی اشیا سے پرہیز کریں جن میں خوشبو ہوتی ہے

• بہت زیادہ تنگ اور کسے ہوئے ٹراؤزر اور زیر جامہ، بشمول پینٹیز پہننے سے گریز کریں۔

• بہت زیادہ پانی پیئں۔

پیشاب روکنے کی عادت ترک کریں

• ابتدائی تشخیص اور علاج کے لیے خبردار رہیں

Exit mobile version