اسرائیل کی امن دشمنی ہے

مغربی کنارے جانے سے روکنا اسرائیل کی امن دشمنی ہے: سعودی عرب

اسرائیل کی عرب وزرائے خارجہ کے مغربی کنارے کے دورے کی مخالفت: سعودی وزیرِ خارجہ کا شدید ردعمل

عمان: سعودی عرب کے وزیرِ خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان آل سعود نے کہا ہے کہ اسرائیلی حکومت کی جانب سے عرب وزرائے خارجہ کو مقبوضہ مغربی کنارے کے دورے سے روکنا اس کی شدت پسندی اور امن کے عمل سے کھلی دشمنی کا ثبوت ہے۔

اتوار کے روز اردن کے دارالحکومت عمان میں اردن، مصر اور بحرین کے وزرائے خارجہ کے ہمراہ ایک مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے شہزادہ فیصل بن فرحان نے کہا:
“اسرائیل کی طرف سے عرب رابطہ گروپ کے مجوزہ دورۂ مغربی کنارہ کی مخالفت، اُس کی شدت پسندانہ سوچ اور امن کی کسی بھی سنجیدہ کوشش کی کھلی مخالفت ہے۔”
انہوں نے مزید کہا کہ: “اسرائیل کے اس رویے سے ہمارا عزم مزید پختہ ہوا ہے کہ ہم عالمی سطح پر اپنی سفارتی کوششوں کو تیز کریں تاکہ اس تکبر اور غیرذمہ دارانہ طرزِ عمل کا مؤثر جواب دیا جا سکے۔”

فلسطینی حکام کے مطابق اسرائیل نے ہفتے کے روز واضح کیا تھا کہ وہ اس ملاقات کی اجازت نہیں دے گا جو اتوار کو مغربی کنارے میں طے شدہ تھی۔ اس دورے میں سعودی عرب، اردن، مصر، قطر اور متحدہ عرب امارات کے وزرائے خارجہ کی شرکت متوقع تھی، جب کہ ترکی اور عرب لیگ کے سیکریٹری جنرل کی شمولیت بھی طے تھی۔
یہ مجوزہ دورہ عرب دنیا کی طرف سے فلسطینی علاقوں میں بگڑتی ہوئی صورتِ حال پر تشویش اور یکجہتی کے اظہار کا حصہ تھا، تاہم اسرائیلی حکومت کی جانب سے اس کی مخالفت بین الاقوامی سطح پر تنقید کا باعث بن رہی ہے۔

اگر شہزادہ فیصل بن فرحان مغربی کنارے جاتے تو یہ کسی اعلیٰ سعودی عہدیدار کا غیرمعمولی دورہ تصور کیا جاتا جس کی حالیہ برسوں میں کوئی نظیر نہیں ملتی۔

اردن کے وزیر خارجہ ایمن الصفدی نے بھی اس فیصلے کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ’یہ اقدام اس بات کا ثبوت ہے کہ اسرائیل ایک منصفانہ اور جامع عرب اسرائیل تصفیے کے تمام امکانات کا خاتمہ کر رہا ہے۔‘

اس معاملے پر غور کے لیے فرانس اور سعودی عرب کی مشترکہ صدارت میں 17 سے 20 جون کو نیویارک میں ایک بین الاقوامی کانفرنس منعقد ہو رہی ہے جس کا مقصد فلسطینی ریاست کے قیام سے متعلق امور پر غور کرنا ہے۔

مصر کے وزیر خارجہ بدر عبدالعاطی نے کہا کہ اس کانفرنس میں غزہ میں ممکنہ جنگ بندی کے بعد سلامتی کے انتظامات اور یہودی بستیوں میں آبادکاری کے منصوبوں پر گفتگو کی جائے گی تاکہ فلسطینی اپنی زمین پر ہی رہیں اور اسرائیل کی ممکنہ بے دخلی کی کوششوں کو روکا جا سکے۔

اسرائیل پر اس وقت اقوام متحدہ اور متعدد یورپی ممالک کی جانب سے بھی دباؤ بڑھ رہا ہے جو اسرائیل-فلسطین تنازعے کے حل کے لیے دو ریاستی حل کی حمایت کرتے ہیں۔

Related posts

Leave a ReplyCancel reply