Home Blog Page 92

اپنے بچوں کو سوشل سائنس پڑھائیں

بچوں کو سوشل سائنس پڑھائیں

(سیدعبدالوہاب شیرازی)

کامیاب ترین لوگ کیا پڑھتے ہیں

دنیا کے کامیاب ترین لوگ کیا پڑھتے ہیں؟ یا دنیا پر حکمرانی کرنے والے لوگ کیا پڑھتے ہیں؟ یہ وہ سوال ہے جس کا جواب اور اس پر کچھ تبصرہ آج کا میرا موضوع ہے۔دنیا میں کامیاب ترین رہنماوں کی 55فیصد تعداد ایسے لوگوں کی ہے جنہوں نے سائنسی علوم نہیں حاصل کیے، بلکہ ان کی کامیابی کا راز غیر سائنسی علوم تھے۔یہ بات میں اپنی طرف سے نہیں کہہ رہا بلکہ برٹش کونسل کی ایک تحقیق اور سروے کی رپورٹ ہے جو اس نے 30سے زائد ممالک کے 1700افراد پر کی۔تحقیق سے پتا چلا کہ نصف سے زائد 55 فیصد رہنماوں نے سوشل سائنس اور ہیو مینٹیز کا مطالعہ کیا تھا۔ ان میں سے 44 فیصد نے سوشل سائنس اور 11 فیصد نے ہیو مینیٹیز میں ڈگری حاصل کی تھی جبکہ جو لوگ سرکاری ملازمتوں پر فائز تھے، ان میں سوشل سائنس کے مطالعے کے امکانات زیادہ تھے، اسی طرح غیر منافع بخش تنظیموں سے وابستہ افراد ہیو مینٹیز کا پس منظر رکھتے تھے۔

حکمرانی کرنے والے

Nukta Colum 003 1
پولٹیکل سائنس اور سوشل سائنس یعنی سماجی علوم یا معاشرتی علوم وہ علوم ہیں جن میں ہم لوگ زیادہ دلچسپی نہیں لیتے۔ یہی وہ علوم ہیں جن کو پڑھ کر یا مہارت حاصل کرکے کچھ لوگ دنیا پر حکمرانی کررہے ہیں، چونکہ ان کو ان علوم کی اہمیت کا خود اندازہ ہے اسی لئے وہ اپنے بچوں کو بھی یہی علوم پڑھاتے ہیں۔ چنانچہ یہ بات حیرت سے کم نہ ہوگی کہ یورپ وغیرہ میں ڈاکٹری،انجینئرنگ وغیرہ سیکھنے یا پڑھنے کا اتنا زیادہ رجحان نہیں یہی وجہ ہے کہ پاکستان اور اس جیسے دوسرے ممالک کے ڈاکٹر اور انجینئرز دھڑا دھڑ یورپ ایکسپورٹ ہورہے ہیں۔ یورپ والوں کی نظر میں میڈیکل سائنس، الیکٹریکل سائنس، کمپیوٹر سائنس وغیرہ عام سے کام ہیں اسی لئے ان کاموں کے لئے وہ دوسرے محکوم ممالک سے لوگوں کو بلاکر ملازم رکھ لیتے ہیں۔ ان کے نزدیک ڈاکٹری ایک پیشہ ہے لہٰذا وہ اس پیشے والے کو تنخواہ پر رکھ لیتے ہیں جبکہ اپنے بچوں کو وہ سوشل سائنس،پولٹیکل سائنس پڑھاتے ہیں تاکہ ہمارے بچے حکمرانی کریں اور باقی لوگ ڈاکٹر،انجینئرز وغیرہ ہمارے ملازم ہوں اور ہمارے ماتحت رہ کر ہماری خدمت کریں۔ ہم اکثر سنتے رہتے ہیں کہ پنجاب یونیورسٹی سے فراغت حاصل کرکے پہلی تین پوزیشن حاصل کرنے والے لڑکوں کو بھاری تنخواہوں اور مراعات کی لالچ دے کر امریکا لے گیا۔ میرا ایک جاننے والا سپین میں رہتا ہے ایک دن فون پر بات ہورہی تھی اس نے کہا میرے دانت میں درد ہے آج ڈاکٹر کے پاس گیا تھا اس نے ٹوکن دے دیا ہے اب پندرہ دن بعد میری باری آئے گی پھر وہ چیک کرے گا اور دوا دے گا، اس نے بتایا یہاں ڈاکٹر بہت کم ہیں اس لئے چیک اپ کروانے کے لئے کئی کئی دن انتظار کرنا پڑتا ہے۔ جبکہ ہمارے پاکستان میں ہسپتالوں میں مریضوں کی لائنیں لگی ہوتی ہیں، اگر کسی مریض کو دس منٹ بھی انتظار کرنا پڑے تو منہ چڑھا لیتا ہے۔ہرسال ہزاروں پاکستانی میڈیکل،انجینئرنگ اور دیگر فنون میں اعلیٰ تعلیم سے فراغت کے بعد بڑی آسانی سے یورپ میں سیٹ ہوجاتے ہیں کیونکہ وہاں ان کی بہت ڈیمانڈ ہے وہاں کے مقامی لوگ ان چیزوں میں خود دلچسپی نہیں رکھتے وہ یہ کام دوسرے لوگوں سے لیتے ہیں، خود نگرانی اور ایڈمنسٹریشن کرتے ہیں۔ہمارے ملک میں بھی جو چند خاندان پچھلے ساٹھ ستر سال سے سیاست کرتے آرہے ہیں وہ بھی اپنے بچوں کو سوشل سائنس اور پولٹیکل سائنس ہی پڑھاتے ہیں کیونکہ ان کو بھی اس کی اہمیت کا اندازہ ہے۔
یہ علوم اصل میں تو ایک مسلمان کے لئے ضروری تھے، کیونکہ اللہ نے اسے زمین پر اپنا خلیفہ منتخب کیا تھا، نبی اللہ کے خلیفہ ہوتے تھے،اللہ کا آخری خلیفہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم تھے، پھر ان کے بعد نائبین تھے۔ لیکن مسلمانوں نے نبی کا نائب بننے میں دلچسپی لینا چھوڑ دی چنانچہ آج غیرمسلم اقوام دنیا پر حکمرانی کررہی ہیں اور مسلمان ان کی غلامی میں ان کی خدمت اور محکومی کی زندگی گزار رہے ہیں۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کوئی نبی ایسا نہیں ہوا جس نے بکریاں نہ چَرائی ہوں، صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ آپ نے بھی بکریاں چَرائی ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جی ہاں میں نے بھی بکریاں چرائی ہیں، میں قریش کی بکریاں چرایا کرتا تھا چند قیراط پر(مشکوة)۔ علماءنے اس کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ نبی نے آگے جاکر قوم کی قیادت کرنی ہوتی ہے، قوم کو لے کر چلنا ہوتا ہے، اس لئے اللہ تعالیٰ بچپن میں نبی سے بکریاں چروا کر اس کی تربیت فرماتے ہیں ، کیونکہ ایک چرواہا سینکڑوں بکریوں کو کنٹرول کرتا ہے کبھی کوئی بکری ایک طرف بھاگتی ہے کبھی دوسری طرف اسے بھاگ بھاگ کر ان کو کنٹرول کرنا ہوتا ہے اس طرح اس کی تربیت ہوتی ہے کہ انسانوں کے بے لگام ہجوم کو کس طرح اپنے کنٹرول میں رکھنا ہے۔

موجودہ دور کی تبدیلی

موجودہ دور میں جس طرح ہر چیز نے ترقی کی ہے اسی طرح بکریاں چروا کر جو تربیت ہوتی تھی وہ بھی اب باقاعدہ ایک علم بن گیا، جو بڑے بڑے تعلیمی اداروں میں پڑھایا جاتا ہے۔اسی علم کو آج سوشل سائنس، پولٹیکل سائنس ،عمرانیات وغیرہ کا نام دیا جاتا ہے۔سمجھدار لوگ ان علوم میں مہارت حاصل کرکے لوگوں کے دل ودماغ اور وجود سے کام لیتے ہیں ۔سوشل سائنس اور سماجی علوم کی کئی شاخیں ہیں، بڑی بڑی کمپنیاں ایسے ماہرین کی خدمات حاصل کرکے اپنے کاروبار چلاتی ہیں، وہ ماہرین لوگوں کی نفسیات کے مطابق پروڈکٹ میں تبدیلیاں لاتے رہتے ہیں، اسی طرح ایڈورٹائزنگ کا شعبہ بھی ایسے ہی لوگ چلاتے ہیں۔ ہمارے ہاں دینی طبقہ جن کے اخلاص للٰہیت اور دینی خدمات میں کوئی شک نہیں، بدقسمتی سے ان علوم سے نابلد رہا۔ بلکہ میں یوں کہوں گا کہ ایک خاص سازش کے تحت اس طبقے کو باقاعدہ منظم منصوبہ بندی سے محروم رکھا گیا، اور اس کام کے لئے علماءکی سادگی سے بھرپور فائدہ اٹھایا گیا۔ جس طرح ایک تین چار سال کا بچہ ضدی ہوتا ہے، کبھی اسے کہیں دودھ پیو تو وہ کہتا ہے میں نہیں پیوں گا۔ پھر اسے کہو یہ دودھ نہیں پینا تو وہ کہتا ہے میں ضرور پیوں گا، اسی طرح علماءکو مرحلہ وار اس سٹیج پر لایا گیا کہ وہ ضد میں آگئے اور انہوں نے جدید علوم کو سیکھنے سکھانے سے انکارکردیا۔ جن لوگوں نے اس سٹیج تک لایا انہوں نے اس بات پر اور پکا کرنے کےلئے کئی حربے آزمائے، الٹے سیدھے کام کرکے علماءکو کہتے کہ یہ پڑھاو ، علماءضد میں آکر کہتے نہیں ہم نہیں پڑھائیں گے۔ چنانچہ اس طرح پچھلی دو صدیوں سے دینی طبقے کو بالکل دیوار سے لگا دیا گیا۔ اب چند سال ہوئے کہ دینی طبقے کو ہوش آیا اور انہوں نے کچھ نہ کچھ اس طرف توجہ کی ہے،لیکن ظاہر ہے اس کے نتائج برآمد ہونے میں چالیس پچاس سال تو لگیں گے، اگر یہ کام پچاس سال پہلے کیا ہوتا تو آج بڑے بڑے دینی ماہرین حکومت،فوج،عدلیہ اور دیگر اداروں میں قیادت کررہے ہوتے۔ان علوم سے ناواقفیت کا ایک نتیجہ یہ بھی ہے کہ علماءکو یہ لوگ اپنے اپنے مقاصد میں استعمال کرتے رہتے ہیں اور اس بات کا احساس تک علماءکو نہیں ہوتا، ویسے تو اس کی کئی مثالیں ہیں لیکن میں ایک مثال دیتا ہوں، چند سال قبل ایک چینل پر ایک طویل ڈرامہ قسط وار چلنا شروع ہوا، اس چینل نے روٹین کے مطابق اس کی ایڈورٹائزنگ کی یعنی ٹی وی، اخبارات وغیرہ میں۔ اس کے ساتھ ساتھ علماءکے ذریعے اس ڈرامے کی ایڈورٹائزنگ کرانے کا فیصلہ ہوا، چنانچہ چند لوگوں کوایسے مختلف علماءکے پاس بھیجاجو خطیب اور مقرر تھے، ان لوگوں نے مختلف شہروں میں علماءسے مل کر انتہائی نیازمندی سے کہاحضرت فلاں چینل پر ایک ڈرامہ شروع ہونے والا ہے، اس ڈرامے میں قرآن پاک کی توہین کی گئی ہے،آپ اس کے خلاف آواز اٹھائیں۔ چنانچہ خطیب صاحبان نے نہ تحقیق کی اور معلومات لیں، بس ایک سنی سنائی بات پر جمعے کی تقریروں میں مسجد کے ممبر ومحراب سے اس ڈرامے کی ایڈورٹائزنگ شروع ہوگئی،کہ فلاں ڈرامے کو بندکیا جائے، حکومت ایکشن لے، اب لوگوں میں بھی تجسس پیدا ہوا اور پورے ملک کی عوام اس ڈرامے کو دیکھنے لگی۔ ظاہر ہے اس ڈرامے میں ایسی کوئی بات نہیں تھی اس لئے حکومت یا عدلیہ کو کسی قسم کا ایکشن لینے کی ضرورت ہی نہیں پڑی۔
اگر ہم ان مفید علوم سے اسی طرح کنارہ کش رہے تو دوسرے لوگ ہمیں اسی طرح اپنے اپنے مقاصد میں استعمال کرتے رہیں گے۔ اگر ہم قوم کی قیادت کرنا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں قیادت کرنے علوم میں مہارت ،تعلیم اور تربیت بھی ضرور حاصل کرنی ہوگی۔ڈاکٹر محمد رفعت پروفیسر جامعہ ملیہ اسلامیہ لکھتے ہیں: مسلمان طلبہ کی ذمہ داری ہے کہ سماجی علوم کی اہمیت کو طبعی علوم سے کم نہ سمجھیں۔ ان علوم کو مغربی دنیا میں جس طرح ترتیب دیا گیا ہے اس کا تنقیدی جائزہ لیں۔ صحیح اور غلط تصور کائنات میں امتیاز کریں اور انسانی وجود اور کائنات کے اندر پھیلی ہوئی ان نشانیوں کا ادراک کریں جو درست تصور کائنات کی تصدیق کرتی ہیں۔ مغربی افکار پر تنقید کے ساتھ ان کی یہ ذمہ داری بھی ہے کہ مبنی برحقیقت تصور انسان و کائنات کے مطابق، معلومات کو ترتیب دیں اور نئی معلومات کی دریافت و تحقیق کا کام اس جذبے کے ساتھ انجام دیں کہ ایک صالح معاشرے کی تعمیر کرنی ہے جو ان عالم گیر قدروں پر استوار ہو جن کو انسان کی فطرت صالحہ پہچانتی ہے اور وحی الٰہی جن کی تصدیق کرتی ہے۔

تقسیم میراث کیلکولیٹر

inheritance calculator

ہرانسان نے بالاخر مرنا ہے، مرتے ساتھ ہی اس نے اپنی زندگی میں‌دنیا کا جو مال کمایا یا جمع کیا تھا اس پر وارث قابض ہوجائیں گے. بحیثیت مسلمان اللہ تعالیٰ‌نے ہمیں‌دنیا میں‌زندگی گزارنے کی پوری پوری رہنمائی اور گائیڈنس دی ہے. یہاں تک کہ مرنے والا مر جاتا ہے تو پیچھے رہ جانے والے وارثؤں کو بھی اللہ تعالیٰ نے اس مال میراث کو تقسیم کرنے کی پوری گائیڈنس دی ہے. تقسیم میراث‌کا قانون قرآن میں بیان ہوا ہے. لیکن بدقسمتی سے بہت کم لوگ میراث شریعت کے مطابق تقسیم کرتے ہیں. میراث کو تقسیم کرنے کا ایک خاص‌طریقہ ہوتا ہے جسے سمجھنا ہر کس و ناکس کی بات نہیں ، لیکن اب جدید دور اور جدید ٹیکنالوجی کی مددسے ہر پڑھا لکھا شخص ٹھیک ٹھیک شریعت کے مطابق بالکل درست تقسیم میراث‌کرسکتا ہے. بس اس کے لیے آپ کو کرنا یہ ہے کہ نیچے دیے گئے لنک پر کلک کرکے

Meeras Calculator

میراث کیلکولیٹر انسٹال کرنا ہے. اس کیلکولیٹر میں اردو انگلش دونوں زبانوں میں تقسیم میراث‌صرف دو سے تین منٹ میں‌کی جاسکتی ہے. مکمل طریقہ کار اسی لنک پر موجود ویڈیو میں بھی دیکھا جاسکتا ہے
میراث کیلکولیٹر یہاں سے ڈاون لوڈ کریں

طریقہ کار کی ویڈیو

طب لقمانی

Download

طب لقمانی عام جڑی بوٹیوں سے علاج

حکیم ونسیاسی لوگوں کے لئے تحفہ

حکیم غلام مصطفی حاصل پوری

ایئرفون کی عادت قوت سماعت سے محروم کردیتی ہے

آج کل اسمارٹ فونز کا استعمال بہت عام ہے اور اس کے اور دیگر آڈیو ڈیوائسز کے بہت زیادہ استعمال کے نتیجے میں ایک ارب سے زائد نوجوانوں کو قوت سماعت سے محرومی کے خطرے کا سامنا ہے۔
یہ بات عالمی ادارہ صحت نے اپنی نئی سفارشات میں کہی جس میں ڈیوائسز میں محفوظ والیوم لیول کے معیار کے حوالے تجاویز دی گئیں۔
عالمی ادارہ صحت اور انٹرنیشنل ٹیلی کمیونیکشن یونین نے ڈیوائسز تیار کرنے والی کمپنیوں اور آڈیو ڈیوائسز کے حوالے سے بین الاقوامی معیار کو جاری کیا۔
عالمی ادارے کا کہنا تھا کہ 12 سے 35 سال کے ایک ارب 10 کروڑ سے زائد افراد تیز آواز میں موسیقی یا ساﺅنڈ دیر تک سننے کے نتیجے میں خطرے کی زد میں ہیں۔
عالمی ادارہ صحت کے سربراہ نے کہ کہ دنیا کو پہلے ہی ٹیکنالوجی کے حوالے معلومات ہے کہ کس طرح قوت سماعت سے محروم ہونے سے کیسے بچا جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ متعدد نوجوان ائیرفون کے ذریعے تیز آواز میں موسیقی سن کر اپنی سماعت کو نقصان پہنچا رہے ہیں اور انہیں سمجھنا چاہئے کہ ایک بار جب سننے کی حس ختم ہوجائے گی تو وہ واپس نہیں آئے گی۔
اس وقت دنیا بھر میں 46 کروڑ سے زائد افراد قوت سماعت سے محروم ہیں مگر عالمی ادارے کا کہنا تھا کہ یہ واضح نہیں کہ ان میں سے کتنے آڈیو ڈیوائسز کے نتیجے میں اس کا شکار ہوئے ہیں۔
اس سے قبل نیویارک یونیورسٹی کی ایک تحقیق میں بھی بتایا گیا تھا کہ ائیرفون سننے کی حس سے محروم کرنے کا باعث بن سکتے ہیں۔
تحقیق کے مطابق جب ایئرفون لگائے جاتے ہیں تو یہ کان کے پردے کے کافی قریب ہوتے ہیں اور ان سے آواز کافی زیادہ دباوسے پردے سے ٹکراتی ہے۔
تحقیق میں بتایا گیا کہ اس کے نتیجے میں سننے کی حِس دباو یا تناﺅ کا شکار ہوتی ہے اور اس کو نقصان پہنچنا شروع ہوجاتا ہے۔
یہ بھی سامنے آیا کہ اگر آواز کی رینج کو 3 سے 6 ڈیسی بل تک بڑھایا جائے تو آواز کی شدت کانوں میں دوگنا زیادہ بڑھ جاتی ہے۔
محققین کا ماننا ہے کہ ایئرفونز کے استعمال کے نتیجے میں صرف ایک گھنٹے میں کان اپنی روزانہ کی آواز برداشت کرنے کی صلاحیت کا 60 فیصد حصہ استعمال کرلیتے ہیں

چائے کے فوائد

چائے کے فوائد tea benefits

کیا آپ کو چائے یا کافی پینا پسند ہے ؟ تو اس میں موجود ایک جز آپ کی صحت کے لیے بہت فائدہ مند ہے اور وہ ہے کیفین۔
امریکا کی جون ہوپکنز یونیورسٹی اسکول آف میڈیسین کی تحقیق میں بتایا گیا کہ یہ مشروبات صرف ذہنی طور پر مستعد نہیں کرتے بلکہ چائے اور کافی میں موجود کیفین صحت کے لیے بھی فائدہ مند ہے۔
اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے برٹش میڈیکل جرنل میں شائع ہوئے، یہاں آپ ماضی میں ہونے والی طبی تحقیقی رپورٹس میں سامنے آنے والے ان گرم مشروبات کے فوائد جان سکیں گے۔
کارکردگی کے لیے بہترین
کیفین کھلاڑیوں کو ہی نہیں بلکہ روزمرہ کے کاموں کے لیے بھی جسمانی صلاحیت کو بہتر بناتی ہے، ان مشروبات کے استعمال سے تھکاوٹ کے احساس کو ٹالنے میں مدد ملتی ہے جس کے لیے کیفین ایک کیمیکل adenosine کے ریسیپٹر کو بلاک کرتی ہے، جس کی وجہ سے لوگ عام معمول سے زیادہ وقت تک تھکے بغیر کام کرپاتے ہیں۔
مزید دیکھیں: چائے موت کے علاوہ ہر بیماری کا علاج ہے.
چربی گھلانے میں مددگار
کیفین جسم کے اندر حرارت پیدا کرتی ہے اور کیلوریز کو توانائی میں بدلتی ہے۔ ایک تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ سبز چائے میں موجود کیفین سے چربی تیزی سے گھلتی ہے، جسمانی وزن اور کمر کا گھیراﺅ بھی کم ہوتا ہے۔
جگر کے کینسر کا خطرہ کم کرے
چائے یا کافی کا استعمال جگر کے کینسر کی سب سے عام قسم کا خطرہ کم کرنے میں مدد دے سکتا ہے۔ ساﺅتھ ہیمپٹن یونیورسٹی کی تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ دن بھر میں ایک کپ کافی یا چائے میں موجود کیفین ہیپٹوسیلولر کینسر کا خطرہ 20 فیصد کم کرتی ہے، جبکہ 2 کپ پینے سے یہ خطرہ 35 فیصد تک کم ہوجاتا ہے۔
یاداشت بہتر کرے
جون ہوپکنز یونیورسٹی کی تحقیق میں بتایا گیا کہ کیفین طویل المعیاد یاداشت کو بہتر کرسکتی ہے، تحقیق میں بتایا گیا کہ یہ تو پہلے سے معلوم ہے کہ کیفین دماغی افعال کو بہتر بنانے کا اثر رکھتی ہے مگر پہلی بار جانا گیا ہے کہ یہ یادوں کو بھی مضبوط کرکے انہیں فراموش ہونے سے روکتی ہے۔
پارکنسن کا خطرہ کم کرے
ایک تحقیق میں بتایا گیا کہ کیفین کا استعمال رعشے یا پارکسنس امراض کا خطرہ کم کرتا ہے۔ تحقیق میں بتایا گیا کہ کافی پینے کے شوقین افراد میں پارکنسن امراض کا خطرہ اس مشروب سے دور رہنے والوں کے مقابلے میں 31 فیصد کم ہوتا ہے۔
دل کی صحت کے لیے بھی فائدہ مند
مختلف طبی تحقیقی رپورٹس میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ دل کی بے ترتیب دھڑکن کے شکار افراد اگر کیفین کا استعمال معمول بنائے تو اس مرض کی شدت میں 6 سے 13 فیصد تک کمی آتی ہے۔ اسی تحقیق میں یہ بھی دریافت کیا گیا کہ ایسے افراد جنھیں ہارٹ اٹیک کا سامنا ہوچکا ہو، اگر کیفین کا استعمال کریں، تو ان کی دھڑکن بہتر ہوتی ہے جبکہ دھڑکن کی بے ترتیبی کے مسائل بھی کم ہوجاتے ہیں۔
مزاج پر خوشگوار اثرات
کیفین اعصابی نظام کو متحرک کرتی ہے جس سے مزاج پر بھی خوشگوار اثرات مرتب ہوتے ہیں اور یہاں بھی وہ adensine کے اثر کو بلاک کرنے کا فائدہ ہوتا ہے۔ اس کیمیکل کے اثر کو بلاک کرنے سے کیفین ڈوپامائن وغیرہ کو متحرک کرتی ہے جو انسان کو اچھا محسوس کرنے میں مدد دیتے ہیں۔
ڈپریشن دور کرے
چائے یا کافی کا استعمال ذہنی مایوسی یا ڈپریشن کا خطرہ کم کرتا ہے، یہ دماغی میں ایسے نیوروٹرانسمیٹرز بننے کے عمل کو متحرک کرتی ہے جو مزاج کو خوشگوار کرکے ڈپریشن کا خطرہ کم کرتے ہیں۔
نوٹ: یہ مضمون عام معلومات کے لیے ہے۔ قارئین اس حوالے سے اپنے معالج سے بھی ضرور مشورہ لیں۔

تاریخ طب

Download

تاریخ طب حکیم سید محمد حسان نگرامی

بچے کی پیدائش کے بعد ماؤں کے جھڑتے بالوں کا قدرتی علاج

بچے کی پیدائش کے بعد ماؤں کے لیے ایک نئی زندگی کا آغاز ہوتا ہے۔ زندگی میں آنے والی اس خوشگوار تبدیلی کے ساتھ جہاں خود کو ڈھالنا بہت ضروری ہے وہیں اپنا خیال رکھنا ہرگز نہیں بھولنا چاہیے۔ زیادہ تر نئی مائیں حمل کے مرحلے کے بعد اپنی جلد پر زیادہ دھیان نہیں دیتیں اور گرتے بالوں کا بھی خیال نہیں رکتھیں۔
دراصل جب بچے کی پیدائش ہوتی ہے تو ماؤں میں اسٹروجن میں کمی ہونے لگتی ہے اور اسی لیے بال گرنا شروع ہوجاتے ہیں۔
یہاں ہم آپ کو ایسے 5 طریقے بتائیں گے جو گرتے بالوں کی شکایت دُور کرنے میں مددگار ثابت ہوسکتے ہیں۔
مزید پڑھیے: پتے کی پتھری کاخطرہ کم کرنے والی غذائیں

انڈے کی سفیدی
اپنے سر میں انڈے کی سفیدی میں 3 چمچ زیتون کا تیل ملا کر لگائیں۔ یہ ایک بہترین کنڈیشنگ ٹریٹمنٹ ہے، اس مکسچر سے آپ کے بال نہ صرف نرم و ملائم ہوں گے بلکہ اس سے بالوں کی بہتر نشو و نما بھی ہوگی۔
میتھی دانہ
اگر یہ کہا جائے کہ میتھی دانہ گرتے بالوں کے لیے ایک جادوئی چیز ہے تو غلط نہیں ہوگا۔ آپ کو کرنا صرف اتنا ہے کہ میتھی دانوں کو پوری رات کے لیے پانی میں بھگو دیجیے اور اگلے دن اس پانی کو سر اور بالوں پر لگائیں اور 2 گھنٹوں کے لیے چھوڑ دیجیے۔ اس پانی سے نہ صرف آپ کے بالوں کی صحت بہتر ہوگی بلکہ خشکی بھی ختم ہوجاتی ہے۔
دہی
دہی بالوں کے لیے ایک بہترین ٹانک اور کنڈیشنر ہے۔ دہی کو اچھی طرح پھینٹ کر اسے سر پر لگائیے اور 10 منٹ کے لیے چھوڑ دیجیے اور پھر کمال دیکھیے۔
ناریل کا دودھ
ناریل کے تیل سے تو سب واقف ہیں جو گرتے بالوں کو روکنے میں مدد کرتا ہے۔ تاہم کئی لوگ یہ نہیں جانتے ہیں کہ اگر ناریل کے دودھ کو باقاعدگی کے ساتھ سر اور بالوں پر لگایا جائے تو اس سے نہ صرف گرتے بالوں میں کمی آتی ہے بلکہ بال لمبے بھی ہوتے ہیں۔
بھنگرہ
False daisy یا بھنگرہ آپ کو آس پاس کی نرسری یا گارڈن سے مل سکتی ہے۔
بھنگرہ کے مٹھی بھر پتوں کو پیس کر پیسٹ بنالیجیے اس کے بعد یا تو اسے سیدھا بالوں میں لگائیے یا پھر دودھ میں ملا کر لگائیے، دونوں میں سے چاہے کوئی بھی طریقہ اپنائیں، اثر کمال کا ہوگا۔

مدینہ یونیورسٹی میں داخلہ لینے کا طریقہ

مدینہ یونیورسٹی میں داخلہ لینے کا طریقہ

admission madinah university

جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں مرد حضرات کے لیے داخلہ اوپن ہے ۔
*تعلیم بھی اور 27000-25000 روپے ماہانہ وظیفہ بھی*
*وظیفہ یاب (غیر سعودی) طلبہ کے لیے گریجویشن کے مرحلے میں داخلے کی درخواست تعلیمی سال 1440-1441 کے لیے جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں داخلہ کے متعلق معلومات*
*بمع Videos*
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
*وظیفہ یاب طلبہ کو دی جانے والی خصوصی سہولیات*

1. داخلے کے وقت اور ہر تعلیمی سال کے آخر میں سفر کے ٹکٹ کا انتظام
2. ماہانہ وظیفہ (840 ریال)
3. ممتازطلبہ کے لئے نمایاں کارکردگی کا وظیفہ (1000 ریال سالانہ)
رہائش، کھانا، میڈیکل، جامعہ سے مسجد نبوی تک نمازوں(مغرب اور عشاء) کے لیے اور عمرے کے سفر میں بسوں کا انتظام، ثقافتی، تربیتی اور ورزشی سہولیات سے فائدہ اٹھانے کا اختیار۔

*مختصر تعارف*

جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ مندرجہ ذیل شعبہ جات میں گریجویشن اور تمام خصوصی مضامین میں ماسٹر اور ڈاکٹریٹ کی سندیں عطا کرتی ہے.
*سائنسی تعلیم کے شعبہ جات*
شعبہ ریاضی، شعبہ كيمسٹری، شعبہ فزكس، شعبہ کمپیوٹر سائنس، شعبہ انفارمیشن سسٹم، شعبہ انفارمیشن ٹیکنالوجی، شعبہ سول انجینئرنگ، شعبہ الیکٹریکل انجینئرنگ، شعبہ میکینکل انجینئرنگ
*دینی تعلیم کے شعبہ جات*
شعبہء فقہ، شعبہء اصول فقہ، شعبہء قضاء وشرعی سیاست، شعبہء عقیدہ، شعبہء دعوت، شعبہء اسلامی تاریخ، شعبہء تربیت، شعبہء قراءات، شعبہء تفسیر، شعبہء فقہ، شعبہء فقہ ومصادر سنت، شعبہء علوم الحدیث، شعبہء لغویات، شعبہء بلاغت وادب.

*داخلے کی شرطیں*

تعليمى وظيفے کے امیدوار کا ان شرطوں پر پورا اترنا ضروری ہے:
1- طالبعلم مسلمان اور اچھی سیرت وکردار کا مالک ہو, *میٹرک پاس ہو،* میٹرک کی سند کسی سرکاری اسکول یا (جامعہ میں) منظور شدہ مدرسے کی ہو، *سند حاصل کئے ہوے پانچ سال سے زیادہ کا عرصہ نہ گذرا ہو،* طبی لحاظ سےصحیح (تندرست) ہو، تعليمى وظيفے کے امیدوار کی *عمر پچیس سال سے زیادہ نہ ہو*، قرآن کریم کی فیکلٹی میں داخلے کا خواہش مند پورے قرآن کریم کا حافظ ہو، تعلیم کے لئے لازماً مکمل طور پر اپنے آپ کو فارغ رکھے، اگر سکنڈری کی سند مملکت سعودی عرب کی ہے تو قدرات عامہ کے امتحان کی سند بھی حاصل کرچکا ہو.
جامعہ میں داخلے کی درخواستیں قبول کرنے کے لئے کوئی دفتر یا نمائندہ نہیں ہے اور نہ ہی کوئی فیس ہے۔ طالب علم کو چاہیے کہ وہ بذات خود آن لائن درخواست پیش کرے، اور درخواست پیش کرنے کی کاروائی مکمل ہونے کے بعد دیے جانے والے نمبر کی حفاظت کی ذمہ داری بھی خود اٹھائے داخلے کی درخواست میں درج معلومات پر اسی وقت بھروسہ کیا جا ئےگا جب ان کے ثبوت کے طور پر متعلقہ دستاویز بھی پیش کئے جائیں. جعلی دستاویز پیش کرنے والا سزا کا مستحق ہوگا اور اس کا داخلہ ختم کردیا جائے گا. *داخلہ شدہ طالب علم کو جامعہ کے ویب سائٹ سے، پھر متعلقہ ائیر لائنز سے رجوع کرنے پر ٹکٹ نمبر دیا جائے گا.*
کاغذی اقرار ناموں، وعدوں اور تنبیہات کی طرع طالب علم اس کی الیکٹرانک فائل میں موجود تمام الیکٹرانک اقرار ناموں، وعدوں اور تنبیہات کا بھی پابند ہوگا.

*داخلے کے لیے مطلوبہ کاغذات*

• میٹرک کی تعلیمی سند اور مارکس شیٹ
• کریکٹر سرٹیفکیٹ
• برتھ سرٹیفکیٹ
• پاسپورٹ
• شناختی کارڈ
• (6*4) سائز کی ایک صاف اور تازہ فوٹو
• فوٹو لازماً کھلے سر، بغیر چشمے اور سفید پس منظر کے ساتھ ہو
• دیے گئے نمونے کے مطابق، کسی قابل اعتماد طبی مرکز سے دی گئی تازہ طبی رپورٹ، جو اعضاء اور حواس کے صحیح سالم ہونے اور متعدی بیماریوں میں مبتلا نہ ہونے کی وضاحت کرے یہاں دبائیے
• جس ملک میں طالب علم رہ رہا ہو اس کے کسی اسلامی ادارے یا جامعہ کی جانی پہچانی دو اسلامی شخصیات کے طرف سےدیے ہوے تعارفی خط جن میں طالب علم کے حالات ، نمازوں کے اہتمام اور اسلامی آداب کی پابندی کا بیان ہو
• (جو پیدائشی مسلمان نہ ہو اس کے لئے) اسلام میں داخل ہونے کی سند
-کاغذات کی فوٹوز منسلک کئے بغیر درخواست بھیجنا ممکن نہیں ہے
-درخواست مکمل ہوجانے اور اس کا نمبر مل جانے کے بعد اس میں تبدیلی نا ممکن ہے
*جامعہ کی ویب سائٹ :*
www.iu.edu.sa
*داخلہ بھیجنے کا مكمل طريقه كار (video tutorial)*

*انٹرویو کے بعد درخواست کی تکمیل کا طریقہ کار*

*درخواست کے مختلف 8سٹیٹس اور ان کے متعلق معلومات*


*داخلہ بھیجنے کے لیے لنک* :

https://admission.iu.edu.sa/WelcomePortal.aspx
*مزید تفصیلات کے لیے ، یہ لنک دیکھیں* :
http://forum.mohaddis.com/threads/26242
گزارش ہے کہ تھوڑی کوشش کرکے ان لنکس کا وزٹ کرلیں، تحریر کو پڑھ لیں، اور ویڈیوز دیکھ لیں، امید ہے ذہن میں ابھرنے والے سوالات کا جواب مل جائے گا، اگر پھر بھی کوئی اشکال باقی ہو، یا آپ بیان کردہ معلومات میں کوئی اضافہ یا تصحیح کرناچاہتے ہوں،تو رابطہ کیجیے۔
گزارش یہ ہے کہ اس پوسٹ کو دیگر ان لوگوں تک بھی پہنچا دیں، جن کے لیے یہ پوسٹ مفید ہوسکتی ہے۔

پیشاب کی نالی میں سوزش کی عام وجوہات

پیشاب کی نالی میں سوزش کافی تکلیف دہ مرض ہوتا ہے جس کے بارے میں بات کرتے ہوئے کافی لوگ ہچکچاتے بھی ہیں۔
اس سوزش یا یو ٹی آئی کی علامات واضح ہوتی ہیں بلکہ انہیں بیماری کے آغاز پہلے ہی پہچانا جاسکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: آپریشن سے بچوں کی پیدائش کا رجحان
مگر یہ مرض لاحق کیسے ہوتا ہے ؟ تو اس کی بھی چند وجوہات ہوتی ہیں، جن سے اکثر افراد لاعلم ہوتے ہیں۔
ویسے تو خواتین میں اس کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے مگر مردوں کو بھی اس کا سامنا ہوسکتا ہے۔
اس کی سب سے عام وجوہات درج ذیل ہیں۔

مزید پڑھیں : ناشتے کے اصول
قبض
اکثر قبض رہنا مثانے کے لیے خالی ہونا بھی مشکل بنا دیتا ہے، جس کے نتیجے میں اس نالی میں بیکٹریا کی تعداد تیزی سے بڑھنے لگتی ہے جو کہ انفیکشن کا باعث بنتے ہیں۔ اسی طرح ہیضہ یا بدہضمی بھی پیشاب کی نالی میں سوزش کا خطرہ بڑھانے والے امراض ہیں۔
ذیابیطس کو کنٹرول نہ کرنا
جب بلڈ شوگر زیادہ ہوتی ہے تو یہ اضافی شوگر پیشاب کے راستے خارج ہوتی ہے، جو کہ بیکٹریا کی نشوونما کے لیے ماحول سازگار بنا دیتا ہے اور متاثرہ فرد کو تکلیف دہ مرض کا شکار۔ یعنی ذیابیطس کے مریضوں کو اس حوالے سے بہت زیادہ احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے۔
پیشاب روکے رکھنا
اگر آپ پیشاب کو کئی، کئی گھنٹے روکے رکھتے ہیں تو یو ٹی آئی کے لیے بھی تیار رہنا چاہئے، کیونکہ ایسا کرنے پر بیکٹریا پھیل جاتا ہے اور اس کی نشوونما تیزی سے ہونے لگتی ہے۔
جسم میں پانی کی کمی
بہت زیادہ پانی پینا نہ صرف پیاس سے نجات دلاتا ہے بلکہ یو ٹی آئی سے بھی تحفظ دیتا ہے، خاص طور پر گرمیوں میں اگر مناسب مقدار میں پانی کا استعمال نہ کیا جائے تو اس سوزش کا امکان بڑھ جاتا ہے۔
گردوں کی پتھری
گردوں میں جمع ہونے والی منرلز کا یہ مجموعہ بھی پیشاب کی نالی میں سوزش کا خطرہ بڑھاتا ہے، کیونکہ ایسا ہونے سے پیشاب کی نالی میں بلاکنگ ہوتی ہے جو بیکٹریا کی نشوونما بڑھاتی ہے۔

امیر ہونے کا نسخہ

سیدعبدالوہاب شیرازی
یہ خواہش تو ہر ایک کے دل میں ہوتی ہے کہ میں امیر ہوجاوں۔ امیر ہونے کا نسخہ ایک اعتبار سے نہایت آسان بھی ہے اور ثابت قدمی دکھانے کے اعتبار سے نہایت مشکل بھی۔تو لیجئے چند واقعات ملاحظہ کریں اور پھرہوجائیں امیرترین۔
اس وقت دنیا کی امیر ترین قوم یہودی ہیں، وہ ہمیشہ اپنے مال میں سے 20% نکال کر خیرات کرلیتے ہیں، چونکہ اللہ کا یہ قانون دنیا میں سب کے لئے برابر ہے کہ خرچ کرنے والے کو 10 گنا منافع ملے گا، اسی وجہ سے ان کو اتنا فائدہ ہوتا ہے کہ وہ دنیا کی امیر ترین قوم ہیں۔یہ بات بڑی عجیب سی ہے کہ صرف ایک کروڑ یہودی دنیا کی 60 پرسنٹ دولت کے مالک ہیں جب کہ سات ارب انسان 40 پرسنٹ دولت پر تصرف رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ انٹرنیشنل پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے اہم ترین 90فیصد ادارے ان کے ہیں مثلاآئی ایم ایف،نیویارک ٹائمز، فنانشل ٹائمز، واشنگٹن پوسٹ، ریڈرزڈائجسٹ، سی این این، فاکس ٹی وی، وال سڑیٹ جرنل، اے ایف پی، اے پی پی، سٹار ٹی وی کے چاروں سٹیشن سب یہودیوں کی ملکیت ہیں۔ شائد ہم میں سے چند ایک نے ہی اس بات پر غور کیا ہوکہ یہودیوں کی دن دوگنی رات چوگنی دولت بڑھنے کا راز کیا ہے؟عقدہ یہ کھلا کہ ہزاروں سال سے یہ قوم اس بات پر سختی سے قائم ہے کہ ہر یہودی اپنی آمدنی کا 20 فیصد لازمی طور پر انسانی فلاحی کاموں پر خرچ کرتا ہے۔ ابھی حال ہی میں فیس بک کے مالک نے اپنی بیٹی کی پیدائش کی خوشی میں اپنی دولت میں سے 45ارب ڈالر خیرات کرلئے۔

لاہور میں ایک ہسپتال ہے شائد آپ میں سے کسی نے دیکھی ہو، اس ہسپتال کا نام ہے منشی ہسپتال۔یہ ہسپتال جس شخص نے بنایا اس کا نام منشی محمد تھا یہ نہایت ہی غریب شخص تھا ، بازار میں کھڑا ہوکر کپڑا بیچا کرتا تھا، اسے کسی نے بتایا تم اپنے مال میں سے کچھ فیصد مقرر کرکے مستحق لوگوں پر خرچ کرو بہت فائدہ ہوگا، چنانچہ اس نے 4فیصد مقرر کردیئے اور ہر مہینے اپنے منافع میں سے 4فیصد خرچ کرتا رہا ، کچھ ہی عرصے بعد اس کا کاروبار بڑھنے لگا ، پھر دیکھتے ہی دیکھتے وہ فیکٹری کا مالک بن گیا وہ اسی طرح چار فیصد خرچ کرتا رہا اور ایک وقت وہ بھی آیا کہ اس کی آمدن کا چار فیصد کروڑوں میں نکلنے لگا،چنانچہ اس نے کروڑوں روپے مالیت کی ایک ہسپتال بنائی، جنرل ضیاالحق نے اس کا افتتاح کیا ، وہ ہسپتال آج بھی لاہور میں منشی ہسپتال کے نام سے فلاحی کام کررہی ہے۔
میرے ایک جاننے والے نے بھی اسی طرح کا فیصلہ کیا کہ میں اپنی تنخواہ میں سے باقاعدگی کے ساتھ پانچ فیصد خرچ کروں گا چنانچہ اس نے اپنے جیب پرس کے ایک خانے میں ٹرسٹ قائم کیا، بال پن کے ساتھ اس پر ٹرسٹ بھی لکھ دیا اور پھروہ اپنی تنخواہ جو اس وقت 8000ہزار تھی اس میں سے ہر مہینے 5فیصد نکال کر کسی مسجد مدرسے یا غریب کو دینے لگا ، وہی آٹھ ہزار جن سے اس کے اپنے ذاتی اخراجات پورے نہیں ہوتے تھے ان میں اتنی برکت ہوگئی کہ اس نے گھر والوں کو بھی دینا شروع کردیا ، کچھ عرصہ کے بعد وہاں سے کام چھوڑ کر ایک اور جگہ پر گیا وہاں اس کی تنخواہ صرف چھ ہزار مقرر ہوئی یعنی آٹھ سے دو ہزار کم، لیکن وہ پانچ فیصد دیتا رہا اللہ نے ان چھ ہزار میں اتنی برکت رکھی کہ پہلے تو آٹھ ہزار سے اپنے ذاتی خرچے پورے نہیں کرسکتا تھا لیکن اب ایک سال بعد مہنگائی کے باوجود صرف چھ ہزار میں نہ صرف اپنے بلکہ اپنے بیوی بچوں کے تمام اخراجات پورے کرنے لگا۔اس دوران اسے کیا کیا اور کیسے کیسے فائدے ہوئے وہ بیان نہیں کرسکتا اس سے متاثر ہو کر اس نے پانچ فیصد کو بڑھا کر 10 فیصد کردیا جس سے مزید مجھے فائدہ ہونا شروع ہوا، پھر ایک سال کے بعد اس نے مزید اضافہ کر کے 20 فیصد کردیا اور اب الحمداللہ میں ہر ماہ باقاعدگی کے ساتھ 20 فیصد اپنی آمدن میں سے فورا نکال لیتا ہے۔اس کا کہنا ہے مجھے احساس ہے کہ میں ابھی بھی کوئی کمال نہیں کررہا کیونکہ 20 فیصد تو یہودی بھی خرچ کرتے ہیں انشااللہ میرا عزم ہے کہ عنقریب میں بحیثیت مسلمان ہونے کے یہودیوں کو پیچھے چھوڑوں گا۔
لاہور کے ایک نوجوان نے 1997میں ایم ایس سی کیا، پھر وہ جاب کے سلسلے میں بہت پریشان تھا، اسلام آباد میں ایک روحانی بزرگ کے پاس دعا کروانے کے لئے حاضر ہوا، انہوں نے اس نوجوان سے کہا بیٹا دو کام کرو، ایک تو کوئی چھوٹا موٹا کاروبار شروع کرو اور دوسرا اس کاروبار میں اللہ کو اپنا پارٹنر بنالو، یہ کام مردوں کا ہے ، صرف عزم با لجزم رکھنے والا مرد ہی کر سکتا ہے اگر کاروبار کے نیٹ پرافٹ میں پانچ فیصد اللہ تعالیٰ کا شیئر رکھ کر اللہ تعالی کے بندوں کو دے دیا کریں اور کبھی بھی اس میں ہیرا پھیری نہ کریں تو لازما آپ کا کاروبار دن رات چوگنی ترقی کرتا رہے گا۔یہ 1997 کا سال تھا ،اس کے پاس صرف ایک ہزار روپیہ تھا ، اس نے کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلایا بلکہ اسی ایک ہزار روپے سے اس نے بچوں کے پانچ سوٹ خریدے اور انار کلی بازار میں ایک شیئرنگ سٹال پر رکھ دیے۔دو دن میں تین سو روپے پرافٹ ہواتھا تین سو روپے میں سے اس نے پانچ پرسنٹ اللہ تعالی کی راہ میں دے دیئے تھے۔پھر اور سوٹ خریدتا اور اصل منافع میں سے پانچ پرسنٹ اللہ تعالی کے نام کا شیئر مخلوق پر خرچ کرتارہا۔ یہ پانچ پرسنٹ بڑھتے بڑھتے چھ ماہ بعد 75 روپے روزانہ کے حساب سے نکلنے لگے یعنی روزانہ کی آمدنی تقریبا سات سو روپے ہو گئی ایک سال بعد ڈیڑھ سو روپے ، تین سال بعد روزانہ پانچ پرسنٹ کے حساب سے تین سو روپے نکلنے لگے۔ جسکا مطلب یہ ہے کہ تین سال بعد اسے روزانہ چھ ہزار بچنا شروع ہو گئے تھے۔ اب سٹال چھوڑ کر اس نے تین کروڑ روپے کی دوکان لے لی تھی۔اس نے بتایا کہ روزانہ میری آمدن کا پانچ فیصد ایک ہزار نکل آتا ہے جو خلق خدا پر خرچ کر دیتا ہے۔گویا اب آمدنی روزانہ بیس ہزار روپے ہے یہ بھی بتایا کہ اللہ تعالی کے ساتھ ” بزنس” میں اس نے آج تک بےمانی نہیں کی۔
ایک محاورہ ہے ” دن دوگنی رات چوگنی ترقی کرنا” آیئے جائزہ لیتے ہیں کہ دنیا کے امیر ترین افراد کا کیا وطیرہ ہے۔
٭51 سالہ ٹی وی میزبان ” اوہراہ دنفرے ” ایک ارب تیس کروڑ ڈالر کی مالک ہے وہ سالانہ ایک لاکھ ڈالر بے سہارا بچوں کی فلاح وبہبود پر خرچ کرتی ہے۔
٭ اٹلی کے سابق وزیراعظم “سلویابرلسکونی” اپنے ملک کے سب سے امیر اور دنیا کے دس امیر ترین افراد کی فہرست میں شامل ہیں۔ مشہور زمانہ فٹبال کلب ” اے سی میلان” انہی کی ملکیت ہے۔ وہ دس ارب ڈالر کے مالک ہیں ، سالانہ تقریبا پانچ کروڑ ڈالر غریب ملکوں کو بھیجتے ہیں۔
٭ بل گیٹس دس سال تک دنیا بھر کا امیر ترین شخص رہا، اس کی دولت کا اندازہ 96 ارب ڈالر لگایا گیا ہے، وہ اپنی آرگنائزیشن “بل اینڈ اگیٹس فاونڈیشن” کے پلیٹ فارم سے سالانہ 27 کروڑ ڈالر انسانی فلاحی کاموں پر خرچ کرتے ہیں۔
٭ مشہورومعروف یہودی ” جارج ساروز” دس ارب ڈالر سے زائد کے مالک ہیں ہر سال دس کروڑ ڈالر انسانی فلاحی اداروں کو دیتے ہیں۔
انفاق فی سبیل اللہ قرآن کی ایک خاص اصطلاح ہے جو تقریبا ہر سپارے میں آپ کو نظر آئے گی۔قرآن حدیث میں اللہ کے راستے میں خرچ کرنے کی بہت زیادہ ترغیب دی گئی ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :اے ایمان والو جو رزق ہم نے تمہیں دیا ہے اس میں سے خرچ کر لو اس دن کے آنے سے پہلے جس دن نہ بیع ہوگی نہ دوستی کام آئے گی اور نہ ہی کوئی سفارش۔یعنی قیامت سے پہلے پہلے ہمارے دیئے ہوئے رزق میں سے کچھ خرچ کرلو کیونکہ قیامت کا دن ایسا دن ہے کہ وہاں دنیا کی طرح خرید وفروخت نہیں ہوگی کہ آپ پیسہ لگا کر کسی کو خرید لو اور وہ تمہاری جان بچا لے ، نہ ہی وہاں دنیا کی طرح دوستیاں کام آئیں گیں اور نہ ہی سفارشیں چلیں گیں۔ایک اور جگہ فرمایا:اللہ تعالیٰ سود کو گھٹاتا ہے اور صدقات کو بڑھاتاہے۔ یعنی سود سے بظاہر کتنا ہی مال بڑھتا رہے مگر انجام کار نقصان ہوگا، اور صدقات سے بظاہر کتنا ہی مال کم ہوتا رہے مگر اللہ تعالیٰ اس آدمی کے مال کو بڑھاتے ہیں۔اللہ کے راستے میں خرچ کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ دنیا میں دس گنا فائدہ دیتے ہیں اور آخرت میں ستر گنا منافع ملے گا۔
ایک بار مدینے میں قحط آگیا بازاروں سے بھی غلہ ختم ہوگیا، لوگ سخت پریشان تھے، اچانک لوگوں نے دیکھا کہ 1200 اونٹ غلے کے مدینے کی منڈی میں آگئے لوگ حیران تھے کہ کس تاجر کا مال ہے ، پھر پتا چلا کہ یہ مال حضرت عثمان کا ہے جو انہوں نے شام سے منگوایا ہے ، چنانچہ مدینے کے تمام تاجر مال خریدنے کے لئے آگئے ، بولی لگنا شروع ہوئی کسی نے کہا ہم 40 روپے من کے حساب سے لیں گے، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ کم ہے ، دوسرے تاجر نے کہا میں 50 روپے من کے حساب سے لوں گا حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا کم ہے الغرض بولی بڑتی رہی اور بالاخر ایک جگہ پر آکر تمام تاجر خاموش ہوگئے اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے کہنے لگے اس سے زیادہ بولی تو کوئی تاجر نہیں دے گا آپ کو کتنا منافع چاہئے؟حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے جواب دیا جس تاجر سے میں نے سودا لگایا ہوا ہے وہ مجھے دس گنا منافع دے گا اور آخرت میں ستر گنا دے گا یہ کہہ کر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے سارا مال لوگوں میں فری تقسیم کردیا۔
حضرت موسیٰ علیہ اسلام کے زمانے میں دو بھائی تھے جنہیں ایک وقت کا کھانا میسرآتا تھاتو دوسرے وقت فاقہ کرنا پڑتا تھا۔ ایک دن انہوں نے حضرت موسیٰ علیہ اسلام کی خدمت میں عرض کیا:آپ جب کوہ طور پر تشریف لے جائیں تو اللہ تعالیٰ سے عرض کریں کہ ہماری قسمت میں جو رزق ہے وہ ایک ہی مرتبہ عطا کر دیا جائے تاکہ ہم پیٹ بھر کر کھالیں” چنانچہ بارگاہ الہیٰ میں دعا قبول ہوئی اور دوسرے دن انسانی شکل میں فرشتوں کے ذریعے تمام رزق دونوں بھائیوں کو پہنچا دیا گیا۔انہوں نے پیٹ بھر کر تو کھایا لیکن رزق خراب ہونے کے ڈر سے انہوں نے تمام رزق اللہ تعالیٰ کے نام پر مخلوق خدا میں تقسیم کر دیا۔ اگلے دن پھر ملائکہ کے ذریعے انہیں رزق مہیا کر دیا گیاجو کہ شام کو پھر مخلوق خدا میں تقسیم کر دیا گیا اور روزانہ ہی خیرات ہونے لگی۔ حضرت موسیٰ علیہ اسلام نے بارگاہ خداوندی میں عرض کیا: یا باری تعالی ان دونوں بھائیوں کی قسمت میں تو تھوڑاسا رزق تھا۔ پھر یہ روزانہ انہیں بہت سا رزق کیسے ملنے لگ گیا؟۔ندا آئی موسیٰ جو شخص میرے نام پر رزق تقسیم کر رہا ہے اسے میں وعدے کے مطابق دس گنا رزق عطا کرتا ہوں۔ یہ روزانہ میرے نام پر خیرات کرتے ہیں اور میں روزانہ انہیں عطا کرتا ہوں۔
اگر کسی کو یہ توفیق مل جائے تو اس عمل کو برقرار رکھنے کے لئے دو باتیں ضروری ہیں، ایک ریاکاری سے بچیں اور دوسری تکبر سے بچیں کیونکہ انسان کے دل میں خیال آتا ہے کہ میرا پیسہ بہت لوگوں میں تقسیم ہورہا ہے ، چنانچہ شیطان دل میں تکبر پیدا کرتا ہے اور پھر یہ نعمت چھین لی جاتی ہے۔

امراض خاص اپنا علاج خود کریں

Download

Amraz-e-Khas Apna Ilaj Khud Karain

دالیں کن امراض سے بچاتی ہیں.

ہر سال 10 فروری کو دالوں کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ آج ساری دنیا میں دالوں کی روزمرہ خوراک میں اہمیت اور افادیت کو اجاگر کیا جائے گا۔
اس دن کو منانے کا مقصد عوام الناس کو یہ شعور دینا ہے کہ مختلف دالیں غذائی ضروریات پوری کرنے کے ساتھ ساتھ ماحول دوستی کا حق بھی ادا کرتی ہیں کیونکہ ان کے پودوں کو اگنے کے لیے کھادوں کی ضرورت نہیں ہوتی۔ یہ پودے نہ صرف (ماحولی نظام) ecosystems بلکہ عالمی سطح پر مختاف گرین ہاؤس ایفیکٹ کوبرقرار رکھنے میں بھی بھرپور مدد کرتے ہیں۔
دالوں کی ان خوبیوں کی وجہ سے اقوام متحدہ کے 68ویں جنرل اسمبلی نے 2016ء کو دالوں کے سال کے طور پر منانے کا فیصلہ کیا۔ دالوں میں پروٹین (لحمیات) کی موجودگی کی وجہ سے انھیں گوشت کا نعم البدل کہا جاتا ہے یعنی جو افراد گوشت خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے وہ مختلف دالیں کھا کر گوشت کی کمی پوری کر سکتے ہیں۔
دالوں میں پروٹین، فائبر، آئرن، زنک، فاسفورس، فولیت اور بی۔وٹامن کی وافر مقدار اس بات کی ضمانت ہے کہ یہ مکمل غذائیت کی حامل ہیں۔
کسانوں کے لیے دالیں اگانا ایک منافع بخش کاروبار ہے کیونکہ دالوں کی کاشت میں کسانوں کو کھاد اور کیڑے مار ادویات کی زیادہ ضرورت پیش نہیں آتی لہزا یہ ماحول دوست فصل ہے۔
قیمت میں سستی ہونے کی وجہ سے دالیں عام آدمی کی قوت خرید میں ہیں۔ غریب سے غریب شخص بھی دال روٹی کھلا کر ابنے خاندان کو پال سکتا ہے۔
پاکستان میں عام دستیاب دالوں میں مونگ، چنا، ماش، مسور، لال اور سفید لوبیا وغیرہ شامل ہیں۔ پاکستان کے تقریبا ہر دوسرے فرد کی پسندیدہ غذا دال چاول ہے۔
دالوں کو روزمرہ خوراک میں شامل کرنا اچھی صحت کی ضمانت ہے۔ دسترخوان پر زیرے اور لہسن کے تڑکے والی دال کھانے والوں کی بھوک اور بڑھا دیتی ہے۔ میرے بچپن کی یادوں میں سخت گرمی کی دوپہر میں نانی کے ہاتھ کے بنے دال چاول پودینے کی چٹنی اور پیاز کی سلاد کا مزہ ابھی بھی تازہ ہے۔
10 فروری یعنی دالوں کا عالمی دن میرے ساتھ قارئین کو بھی بچپن کی حسین وادیوں میں لے جائے گا۔ اس دن کی مناسبت سے دالوں کے فوائد سے خود بھی اٹھائیں اور اپنے عزیزوں کو بھی شعور دیں کہ وہ اپنی خوراک میں دالوں کے استعمال سے چست اور متحرک زندگی گزار سکتے ہیں۔
دالوں کے استعمال کے چند فوائد بھی ضرور جان لیں۔
بانجھ پن سے تحفظ
ختلف طبی تحقیقی رپورٹس میں یہ بات سامنے آچکی ہے کہ جو خواتین نباتاتی پروٹین سے بھرپور غذاﺅں کا استعمال کرتی ہیں، ان میں بانجھ پن کا خطرہ دیگر کے مقابلے میں کم ہوتا ہے۔ دالوں سے فرٹیلائزیشن کا عمل آسان ہوتا ہے جو حمل ٹھہرنے کے امکانات بڑھاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: کس عمر میںبلڈپریشر چیک کروانا چاہیے

جسمانی توانائی بڑھائے
دالوں میں فائبر (نشاستہ یا ریشے دار غذا)کی مقدار کافی زیادہ ہوتی ہے تو یہ ہضم سست روی سے ہوتی ہیں، جس سے جسم اور دماغ کو زیادہ وقت تک توانائی کی سپلائی جاری رہتی ہے۔ اسی طرح فائبر نیند کے لیے بھی مددگار جز ہے جس سے بھی جسمانی توانائی کی سطح بہتر ہوتی ہے۔
جسمانی وزن قابو میں رکھے
ٹورنٹو کے لی کا شینگ نالج انسٹیٹوٹ کی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ روزانہ 130 گرام دالوں کا استعمال جسمانی وزن میں کمی کے لیے فائدہ مند ثابت ہوتا ہے جبکہ جسم میں خراب کولیسٹرول کی سطح میں بھی کمی آتی ہے۔ محققین کا کہنا ہے کہ جسمانی وزن میں کمی دیگر اشیاءکا استعمال ترک کیے بغیر ہوتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اکثر لوگ دالوں کا استعمال کم کرتے ہیں تاہم جسمانی وزن کو مستحکم رکھنے کے لیے اس کے استعمال کو یقینی بنایا جانا چاہئے۔
پتے میں پتھری کا خطرہ کم کرے
گوشت کم کھا کر زیادہ توجہ دالوں، بیج وغیرہ پر دینا پتے کے افعال کے لیے بہتر ثابت ہوتا ہے، کیونکہ چربی والا سرخ گوشت پتے میں ورم کا باعث بن سکتا ہے (اگر بہت زیادہ کھایا جائے)۔ چربی والی غذائیں جیسے تلے ہوئے پکوان، پنیر، آئسکریم اور گوشت کا اعتدال میں رہ استعمال کرنا بھی پتے کی صحت کے لیے بہتر ہے۔
بلڈ پریشر کنٹرول کرے
دالوں کا استعمال بلڈ پریشر کی شرح میں جان لیوا اضافے کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ کینیڈا کی مینٹوبا یونیورسٹی کی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ مسور کی دال کا استعمال خون کی رگوں کی صحت پر بھی مثبت اثرات کرتا ہے۔تحقیق کے مطابق دالوں کا استعمال دوران خون کی خرابیوں اور بلڈ پریشر کیخلاف انتہائی فائدہ ثابت ہوتا ہے، کیونکہ خون کی رگوں کا نظام درست رہنے سے ہائی بلڈ پریشر کا خطرہ خودبخود کم ہوجاتا ہے۔ تحقیقی ٹیم کے قائد ڈاکٹر پیٹر زردکا کا کہنا ہے کہ اس تحقیق کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ دالیں خون کی رگوں میں تبدیلیاں لاکر ان کو پہنچنے والے نقصانات کی مرمت کردیتی ہیں۔
ذیابیطس کا خطرہ کم کرے
کینیڈا کی Guelph یونیورسٹی کی تحقیق میں بتایا گیا کہ دال کھانا نظام ہاضمہ اور شوگر کے دوران خون میں اخراج کی رفتار سست کرتا ہے۔تحقیق میں بتایا گیا کہ ہفتہ وار بنیادوں پر چاول یا آلو کا کم جبکہ دالوں کو زیادہ کھانا بلڈشوگر کی سطح 35 فیصد تک کم کردیتا ہے۔ تحقیق کے مطابق دال کھانے سے ہائی بلڈ شوگر کے شکار افراد ذیابیطس ٹائپ ٹو کا شکار ہونے سے بچ جاتے ہیں کیونکہ یہ غذا انسولین کی مزاحمت کے خلاف جدوجہد کرتی ہے۔

Exit mobile version