ٹی ٹی پی کے بدلتے ہوئے نظریات

ٹی ٹی پی کے بدلتے ہوئے نظریات

ٹی ٹی پی کی بدلتی حکمت عملی: نرم رویے، نظریاتی چیلنج اور داخلی انتشار

پاکستان میں دہشت گردی کے بدلتے منظرنامے میں تحریک طالبان پاکستان (TTP) ایک نئی حکمت عملی اور بیانیے کے ساتھ ابھر رہی ہے۔ جہاں ماضی میں یہ شدت پسند تنظیم خونریز حملوں، شہری ہلاکتوں اور خوف و ہراس کی علامت تھی، وہیں اب اس کی پالیسیاں، رویے اور نظریاتی بنیادیں تبدیل ہوتی نظر آتی ہیں۔ مقامی سطح پر رویوں میں لچک، حملوں کی شدت میں کمی، اور پاکستانی علماء سے فتووں کی تلاش — یہ تمام عوامل ایک بڑے سیاسی اور عسکری تناظر کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔

ٹی ٹی پی کے معاملات پر گہری نظر رکھنے والے معروف صحافی احسان اللہ محسود نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا کہ ٹی ٹی پی کا رویہ بدل رہا ہے ان کی پالیسی اور نظریہ بدل رہا ہے، وہ اب اس سوچ سے پیچھے ہٹ رہے ہیں کہ ہم اسلامی جہاد کر رہے بلکہ وہ اب روایتی قوم پرستی، قبائلی اور نسل پرستی کے نظریات کی طرف آرہے ہیں کیونکہ انہیں محسوس ہو رہے کہ اب عوام اور علماء میں ان کی مقبولیت ختم ہوتی جارہی ہے۔

نئی حکمت عملی: مقامی عوام سے نرم رویہ 

ٹی ٹی پی نے گزشتہ چند برسوں میں اپنی کارروائیوں میں نمایاں تبدیلی کی ہے۔ ماضی میں جہاں شہری ہلاکتیں معمول تھیں، اب شہریوں کو نشانہ بنانے کا رجحان کم ہو گیا ہے۔ جنوبی خیبر پختونخوا کے ضلع ٹانک کے ایک بزرگ، جنہوں نے سیکیورٹی خدشات کے باعث نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات کی، کہتے ہیں:

“اب وہ ہمیں تنگ نہیں کرتے۔ جب آتے ہیں تو خاموشی سے آتے ہیں اور چلے جاتے ہیں۔ اگر کوئی سرکاری ملازم قید ہو تو ہماری درخواست پر رہا بھی کر دیتے ہیں۔ یہ رویہ ماضی سے بالکل مختلف ہے، جب معمولی شک پر سینکڑوں مقامی عمائدین کو قتل کر دیا جاتا تھا۔”

یہ رویہ نہ صرف تنظیم کی سوچ میں تبدیلی کو ظاہر کرتا ہے بلکہ ایک سوچے سمجھے سیاسی ایجنڈے کی طرف بھی اشارہ ہے، جہاں مقامی حمایت حاصل کرنا اب ان کی حکمت عملی کا اہم جزو بن چکا ہے۔

اندرونی نظم و ضبط اور احتساب کی پالیسی

موجودہ ٹی ٹی پی امیر، مولوی نور ولی محسود، تنظیم کے اندر سخت نظم و ضبط اور داخلی احتساب پر زور دے رہے ہیں۔ تنظیم کے ضابطوں کی خلاف ورزی کرنے والے کمانڈرز کو یا تو معزول کیا جاتا ہے یا عارضی طور پر الگ کیا جاتا ہے، اور پھر وعدے کے بعد بحال کیا جاتا ہے۔ اس سے تنظیم کے اندر ایک نیا نظم دکھائی دیتا ہے جو عسکریت پسندی میں کم کم دیکھنے کو ملتا ہے۔

بڑے حملوں سے اجتناب اور افغان طالبان کا دباؤ

ٹی ٹی پی نے حالیہ برسوں میں بڑے پیمانے کے حملوں سے اجتناب کیا ہے۔ تنظیم کے قریبی ذرائع کے مطابق، اس کا مقصد شہری ہلاکتوں کو روکنا، افرادی قوت کو بچانا اور افغان طالبان پر ریاستی دباؤ سے بچنا ہے، جو ان کی خاموش حمایت کے لیے ایک اہم عنصر ہیں۔

مقامی ردعمل: لکی مروت میں امن کمیٹیوں کا قیام

ضلع لکی مروت میں ایک نیا رجحان دیکھنے میں آیا ہے، جہاں مقامی افراد نے طالبان کے خلاف امن کمیٹیاں تشکیل دینا شروع کر دی ہیں۔ پولیس اہلکاروں اور دیگر سرکاری ملازمین کے اغوا اور قتل نے عوام کو مجبور کیا ہے کہ وہ خود اپنے دفاع کے لیے قدم اٹھائیں۔ یہاں حکومتی ملازمتیں مقامی آبادی کے لیے مالی لحاظ سے زندگی کی ایک اہم بنیاد سمجھی جاتی ہیں۔

ریاستی سطح پر کمزور ردعمل

پاکستان اس وقت شدید سیاسی اور سماجی تقسیم کا شکار ہے۔ اس داخلی انتشار کا فائدہ دہشت گرد تنظیمیں اٹھا رہی ہیں، جنہیں ماضی میں ہونے والے آپریشنز کے برعکس، اب وسیع عوامی اور سیاسی حمایت حاصل نہیں۔ کئی انسداد دہشت گردی آپریشنز محض سیاسی اتفاقِ رائے نہ ہونے کی وجہ سے مؤخر یا ترک کر دیے گئے ہیں۔

افغان طالبان کی شمولیت اور انکار

پاکستانی حکام کے مطابق، افغان طالبان کے کئی جنگجو بھی ٹی ٹی پی کے ساتھ شامل ہو کر پاکستان میں حملے کر رہے ہیں، حالانکہ افغان عبوری حکومت مسلسل اس کی تردید کرتی ہے۔ پاکستانی انٹیلیجنس نے حالیہ مہینوں میں طالبان کی تنظیموں میں بڑی سطح پر دراندازی کی ہے اور سرحدی علاقوں میں کئی اہم جنگی یونٹس کو نشانہ بنایا گیا ہے۔

بیانیے کی جنگ: مولوی نور ولی محسود کے بیانات

ٹی ٹی پی کے امیر نور ولی محسود نے حالیہ دنوں میں دو اہم بیانات جاری کیے:

1. آڈیو بیان: علماء کو چیلنج

اُمَر میڈیا کے ذریعے جاری ایک آڈیو بیان میں انہوں نے پاکستانی علماء، خاص طور پر مولانا فضل الرحمٰن، مفتی تقی عثمانی اور مولانا طیب طاہری سے مطالبہ کیا کہ وہ شرعی دلائل سے ثابت کریں کہ ٹی ٹی پی کی جدوجہد ناجائز ہے۔ اگر وہ یہ ثابت کر دیں تو وہ جدوجہد ترک کرنے اور معافی مانگنے کو تیار ہیں۔ بصورتِ دیگر، وہ علماء سے مطالبہ کرتے ہیں کہ حکومت کی حمایت نہ کریں اور خاموش رہیں۔

یہ بیان دراصل علماء کو شرعی دباؤ میں لانے کی کوشش ہے تاکہ انہیں “خوارج” کہنے سے روکا جا سکے۔

2. ویڈیو بیان: آپریشنل احتیاط اور افغان طالبان کو ہدایت

اپنے ویڈیو بیان میں محسود نے ٹی ٹی پی جنگجوؤں کو آپریشنل احتیاط کی سختی سے تاکید کی — خاص طور پر موبائل فونز اور نقل و حرکت کے حوالے سے — تاکہ پاکستانی انٹیلیجنس ان کی نقل و حرکت پر قابو نہ پا سکے۔

ساتھ ہی، انہوں نے افغان طالبان کو ہدایت دی کہ وہ ٹی ٹی پی میں شمولیت اختیار نہ کریں، کیونکہ “ہمارے پاس افرادی قوت کافی ہے۔” تاہم، انہوں نے مالی، زبانی (خطابات و بیانات) اور قلمی (میڈیا) مدد کی اپیل ضرور کی۔ انہوں نے افغان عبوری حکومت کی غیر مسلم ممالک سے سفارتی تعلقات کی پالیسی کی بھی حمایت کی، اسے “اسلامی امارت کی مضبوطی” قرار دیا۔

نظریاتی محاذ پر تنزلی

ٹی ٹی پی کے لیے سب سے بڑا نظریاتی چیلنج یہ ہے کہ اب وہ علماء کی وہ حمایت کھو چکی ہے جو کبھی ان کے لیے بنیاد فراہم کرتی تھی۔ ماضی میں 500 علماء کے فتووں نے ان کی جدوجہد کو جہاد کا درجہ دیا تھا، لیکن اب وہی مکتبِ فکر کے علما ان کی کارروائیوں کو “شریعت کے خلاف” قرار دے چکے ہیں۔ نور ولی محسود خود ایک عالم دین ہیں، مگر ان کی اپیلوں کو علماء کی طرف سے مسلسل رد کیا جا رہا ہے۔

بدلے ہوئے چہرے کے پیچھے پرانا ایجنڈا؟

تحریک طالبان پاکستان آج مختلف حکمت عملی، بیانیے اور انداز میں سامنے آ رہی ہے۔ یہ بدلا ہوا رویہ صرف وقتی حکمت عملی ہے یا گہری نظریاتی تبدیلی؟ اس سوال کا جواب آنے والا وقت دے گا۔ لیکن ایک بات واضح ہے کہ ریاستی کمزوری، سیاسی تقسیم، اور عوامی بےیقینی کی اس فضا میں شدت پسند گروہ نئے امکانات کی تلاش میں ہیں — چاہے وہ “نرم رویہ” ہو، یا “بیانیے کی جنگ”۔

Related posts

Leave a ReplyCancel reply