ملازمت کے نام پر دھوکہ دہی کرنے والوں کے خلاف آسان عدالتی کاروائی کا طریقہ

0
355

ملازمت کے نام پر دھوکہ دہی کرنے والوں کے خلاف آسان عدالتی کاروائی کا طریقہ

ملازمتوں کے نام پر پاکستان میں دو کام ایسے ہیں جن میں آنے والوں سے پیسہ وقت اور مزدوری اور کام تو لیا جاتا ہے لیکن اس کا صلہ نہیں دیا جاتا۔ بچارے ملازمت کے متلاشی نوجوانوں کو دھوکے سے لوٹنے والے ہندو یا یہودی نہیں ہوتے بلکہ اپنے محلے اور سوسائٹی میں حاجی صاب کہلاتے ہیں۔
ویسے تو اس طرح فریب کاری کرنے والے بہت سارے شعبے ہیں لیکن دو خاص طور پر مشہور ہیں جن کا ضررت ملازم کا اشتہار ہفتے کے سات دن اور سال کے بارہ مہینے اخبارات میں شائع ہوتا رہتا ہے۔
نکتہ
نکتہ
ایک ان میں سے کال سینٹر کی جاب ہے۔ کال سینٹر والوں کا کسی بھی کمپنی سے معاہدہ ہوتا ہے، اور یہ ان کی پراڈکٹ کی تشہیر کرتے اور انہیں نئے کسٹمر تلاش کرکے دیتے ہیں۔ اس کام کے لیے کچھ سافٹ ویئر کی مدد سے روزانہ ہزاروں لاکھوں لوگوں کو دنیا بھر میں کالز کی جاتی ہیں، اور اس سارے کام کو چلانے کے نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ چنانچہ کال سینٹر والوں کا اخبارات میں مسلسل اشتہار چلتا رہتا ہے کیونکہ انہوں نے ہر مہینے بچوں سے کام لے کر بغیر مزدوری دیے ان کو فارغ کرنا ہوتا ہے۔ اس اشتہار کی وجہ سے کال سینٹر میں روزانہ بیسیوں لڑکے نوکری کی تلاش میں آتے ہیں، یہ لوگ ان سولہ سے بیس سال کے ناتجربہ کار نوجوانوں کو بھاری تنخواہ اور کمیشن کے سبزباغ دکھا کر ملازمت پر رکھتے ہیں، جب ملازم آٹھ دس دن کام کر لیتا ہے تب اسے بتاتے ہیں کہ ابھی آپ کی اپائٹمنٹ نہیں ہوئی بلکہ تم اتنی سیل کرو گے تب اپائٹمنٹ ہوگی۔یہ بات پہلے دن نہیں بتائی جاتی، دس بارہ دن کام لینے کے بعد بتائی جاتی ہے یعنی اس کے دس دن کی مزدوری مار لی جاتی ہے۔پھر وہ بچارا سوچتا ہے اب دس دن تو کام کرلیا ہے اب آگے بھی کرلوں تاکہ تنخواہ تو مل جائے۔ چنانچہ جب پندرہ بیس دن کام کرنے کے بعد وہ مطلوبہ دس بیس سیلز پوری کرتا ہے تو تب اسے کہا جاتا ہے اب آپ کی تقرری ہو چکی ہے، یعنی یہ بیس دن فری میں اس سے کام لیا جاتا ہے مزدوری دبا لی جاتی ہے۔
پھر مہینے پورا ہونے پر کئی اور بہانے بنا کر جن کا پہلے ذکر یا معاہدہ نہیں کیا ہوتا مزید رقم کاٹ لی جاتی ہے، چنانچہ وہ نوجوان جو پچیس تیس ہزار کی آفر پر نوکری شروع کرتا ہے آخر میں پانچ سات ہزار پر اسے ٹرکا دیا جاتا ہے، جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ مہینہ پورا ہوتے ہی کام چھوڑ دیتا ہے، اور کال سینٹر والے بھی یہی چاہتے ہیں، کیونکہ اگلے مہینے انہوں نے نئے چالیس پچاس لڑکے اسی طرح فراڈ کرکے رکھنے ہوتے ہیں تاکہ ان سے کام لیا جائے اور مزدوری دبا لی جائے۔
اس حوالے سے ہمیں صرف ایک بات یاد رکھنی چاہیے:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قیامت کے دن جن تین آدمیوں کے خلاف میں مدعی ہوں گا ان میں ایک وہ شخص ہوگا جو کسی کو مزدور رکھے اور اس سے پورا پورا کام لے مگر مزدوری پوری نہ دے (بخاری شریف)
یعنی اللہ کی عدالت میں مدعی اور دعوی دائر کرنے والے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہوں گے اور مدعی علیہ یعنی جس پر دعی دائر کیا جارہا ہے وہ ایسے لٹیرے ہوں گے، کیا وہ یہ عدالتی فیصلہ اپنے حق میں کروالیں گے۔؟
ملازمت کے نام پر دوسرا فراڈ بیرون ملک ملازمت کا ہوتا ہے، اس کا اشتہار بھی سال کے بارہ مہینے اخبارات میں چھپتا ہےروزانہ انٹرویو ہوتے ہیں۔ ان کا لوٹنے کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ اشتہار پڑھ کر روزانہ سینکڑوں لوگ ان کے آفس کا وزٹ کرتے ہیں، یہ ان کو ایک دن انٹرویو کے لیے بلاتے ہیں، چنانچہ انٹرویو والے دن اچھی خاصی رش لگ جاتی ہے اور ہر ایک کی خواہش ہوتی ہے میں ڈرائیور، کمپیوٹر آپریٹر ،پلمبر،الیکٹریشن وغیرہ کی جاب کے لیے سلیکٹ ہو جاوں حالانکہ کوئی ویزا نہیں ہوتا نہ ملازمت ہوتی ہے، بس اشتہارات کے زور پر چار پانچ سو بیروزگاروں کو بلالیا جاتا ہے، پھر ان سے انٹرویو فیس کے نام پر ہزار پندرہ سو روپے فی کس لیے جاتے ہیں، اور انٹرویو لے کر گھر بھیج دیا جاتا ہے ، ہم آپ کو تین دن بعد بتائیں گے۔ ظاہر تین دن بعد سب اکھٹے تو نہیں آتے سب کو الگ الگ بتا دیا جاتا ہے آپ انٹرویو میں فیل ہو گئے ہیں آپ نہیں سلیکٹ ہو سکے۔ چنانچہ یہ ڈرامہ پورا سال چلتا ہے اور روزانہ یہ لٹیرے لاکھوں روپے کماتے ہیں۔
ایسے لوگوں (آجر اور مزدور دونوں) کو اصل بدلہ تو آخرت میں ہی ملے گاالبتہ ان لٹیروں کے خلاف کاروائی کرنے کے لیے اپنے ضلع کی صارف عدالت میں درخواست دی جاسکتی ہے جہاں کیس دائر کرنے سے لے کر فیصلہ آنے تک کوئی فیس نہیں۔ صارف عدالت آپ کو انصاف اور مزدوری دونوں دلوائے گی اور لٹیروں کا لاکھوں روپے جرمانہ بھی کرے گی۔ صارف عدالت آپ کے قریب ترین کہاں ہے گوگل پر سرچ کرسکتے ہیں۔
 

یہاں چند احادیث اس حوالے سے ذکر کی جاتی ہیں

’’مزدور کو مزدوری پسینہ خشک ہونے سے پہلے دے دو‘‘ (ابن ماجہ)
جناب رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا
’’یہ تمہارے بھائی ہیں جن کو اﷲ نے تمہارے ماتحت بنادیا ہے ان کو وہی کھلاؤ جو خود کھاؤ‘ وہی پہناؤ جو خود پہنو ان سے ایسا کام نہ لو کہ جس سے وہ بالکل نڈھال ہوجائیں، اگر ان سے زیادہ کام لو تو ان کی اعانت کرو‘‘ (بخاری و مسلم)
حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اپنے ماتحتوں سے بدخلقی کرنے والا جنت میں داخل نہیں ہوسکتا (ترمذی)
آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ملازم اگر ستر بار غلطی کرے تب بھی اسے معاف کر دو‘‘
محنت کی عظمت بیان فرماتے ہوئے آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا
اس سے بہتر کوئی کھانا نہیں ہے، جو آدمی اپنے ہاتھوں سے کماکر کھاتا ہے۔ ( مشکٰوۃ)
حضرت داؤدؑ اپنے ہاتھوں سے اپنی روزی کماتے تھے اسی طرح حضرت موسٰیؑ کی مزدوری کا قرآن پاک میں جو ذکر ہے اس کا ذکر کرکے آنحضرت ﷺ نے فرمایا : انہوں نے آٹھ یا دس برس تک اس طرح مزدوری کہ کہ اس پوری مدت میں وہ پاک دامن بھی رہے اور اپنی مزدوری کو بھی پاک رکھا۔ (مشکٰوۃ )
آپ ﷺ نے ان چند انبیا کرامؑ ہی کا اْسوہ پیش نہیں کیا بلکہ ایک حدیث میں فرمایا: خدا نے جتنے انبیا بھیجے ہیں ان سب نے بکریاں چرائی ہیں۔ صحابہؓ نے دریافت کیا کہ یا رسول اﷲ ﷺ آپ نے بھی بکریاں چرائی ہیں۔ فرمایا ہاں میں بھی چند قیراطوں کے عوض اہل مکہ کی بکریاں چرایا کرتا تھا۔
(مشکٰوۃ باب الاجارہ)
ایک صحابیؓ نے آپ ﷺ سے پوچھا کہ کون سی کمائی سب سے زیادہ پاکیزہ ہے آپ ﷺ نے فرمایا اپنی محنت کی کمائی۔ (مشکٰوۃ)
بعض صحابہ کرامؓ رزق حلال کے لیے ہرقسم کی محنت و مشقت کرتے تھے۔ مختلف پیشوں سے اپنی روزی کماتے تھے۔ حضرت خباب بن ارتؓ لوہار تھے، حضرت عبداﷲ بن مسعودؓ چرواہے تھے، حضرت سعد بن ابی وقاصؓ تیرساز تھے، حضرت زبیر بن عوامؓ درزی تھے، حضرت بلا ل بن رباحؓ گھریلو ملازم تھے اور حضرت ابوبکرؓ کپڑا بیچتے تھے۔ صحابہ کرام ؓ کی اکثریت محنت کش اور مزدوروں پر مشتمل تھی۔
ازواج مطہراتؓ گھروں میں اْون کاتتی اور کھالوں کی دباغت کرتی تھیں۔ حضرت زینبؓ کھالوں کی دباغت کرتی تھیں۔ حضرت اسماء بنت ابی بکرؓ جانوروں کی خدمت اور جنگل سے لکڑیاں چن کر لا نے کا کام کرتی تھیں۔ کچھ صحابیاتؓ کھانا پکا کر فروخت کر نے کا م کرتی تھیں۔ کچھ دایہ کا کام کرتی تھیں، کچھ زراعت کرتی تھیں اور کچھ تجارت کرتی تھیں، کچھ خوش بو فروخت کرتی تھیں، کچھ کپڑا بنتی تھیں اور کچھ بڑھئی کا کام کرتی تھیں (بخاری)
حضرت عائشہؓ نے زینب بنت حجشؓ زوجہ رسول اکرمﷺ کے بارے میں فرمایا۔ ’’ وہ اپنی محنت سے کماتیں اور اﷲ کی راہ میں صدقہ کرتیں تھیں (صحیح مسلم )۔
اسلام وہ پہلا دین ہے جس نے زندگی کے ہر شعبے میں راہ نما اصول وضع کیے۔ کھانے پینے کے آداب سے لے کر ایک حسین اور متوازن معاشرے کی بنیاد تک ہمیں ہر شعبے میں راہ نما اور زریں اصول نظر آتے ہیں جن پر عمل پیرا ہو کر ہم ایک حسین معاشرے کی بنیاد رکھ سکتے ہیں۔ لیکن دنیا میں دیگر مظلوم طبقات کے ساتھ مزدور بھی ہیں، جنہیں ہر دور میں تیسرے درجے کا شہری سمجھا گیا اور ان کے حقوق کی بدترین پامالی کی گئی۔ ایسے ہی استحصالی گروہ کو جناب رسالت مآب ﷺ نے خبردار فرمایا کہ
’’قیامت کے دن جن تین آدمیوں کے خلاف میں مدعی ہوں گا ان میں ایک وہ شخص ہوگا جو کسی کو مزدور رکھے اور اس سے پورا پورا کام لے مگر مزدوری پوری نہ دے‘‘ (بخاری)
سیدنا ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’جب تم میں سے کسی کا خادم اس کا کھانا لائے تو اگر وہ اسے اپنے ساتھ نہیں بٹھا سکتا ہو تو کم از کم ایک یا دو لقمے اس کھانے سے کھلا دے کیوںکہ اس نے کھانا پکاتے وقت اس کی گرمی اور تیاری کی مشقت برداشت کی۔
ایک اور موقع پر آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’ تمہارے کچھ بھائی ہیں جنہیں اﷲ تعالی نے تمہارے ہاتھوں میں دے رکھا ہے۔ اگر کسی ہاتھ میں اﷲ تعالیٰ نے اس کے بھائی کو دیا تو اس کو چاہیے جو کچھ خود کھائے وہی اپنے مزدور یا ملازم کو کھلائے جو خود پہنے وہی اسے پہنائے۔ اور ان کو اتنے کام کی تکلیف نہ دو کہ ان کے لیے مشکل ہو جائے اور اگر کوئی سخت کام ان پر ڈالو تو تم خود بھی ان کی مدد کرو۔ خادم اور نوکر کا یہ بھی حق ہے کہ اسے تحفظ ملازمت ہو‘‘۔
نبی کریم ﷺ اپنے خادموں کے کاموں میں ان کی مدد فرمایا کرتے تھے۔ اور اپنے خادموں کی کوتاہیوں کو نظر انداز فرما دیتے تھے۔
صحیح بخاری میں آپ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے ’’ کسی انسان نے اس شخص سے بہتر روزی نہیں کھائی جو خود اپنے ہاتھوں سے کما کر کھاتا ہے‘‘۔
خون پسینہ ایک کرکے حلال روزی کمانا عبادت اور رضائے خداوندی کے حصول کا بہترین ذریعہ ہے۔ اﷲ تعالیٰ پاکیزہ اور حلال روزی ہی قبول کرتا ہے۔ پاکیزہ اور حلال مال سے جو صدقہ، خیرات دیا جائے اﷲ تعالیٰ اسے قبول کرتا ہے۔ اس لیے ہمیں اپنی روزی محنت اور حلال طریقے سے حاصل کرنی چاہیے۔ کیوںکہ یہ زندگی کو بہتر بنانے میں مدد دیتی اور خوش گوار احساس عطا کرتی ہے۔ محنت کی حلال روزی کردار سازی کرتی، باعزت بناتی اور عزتِ نفس بڑھاتی ہے۔
رزق طیّب صحت کا ضامن ہے۔ اسلام نے مثبت طور پر رزق حلال کی جدوجہد کی ترغیب دی ہے اور اسے ہر مسلمان پر فرض کیا ہے۔ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’جب تم فجر کی نماز پڑھ لو تو اپنی روزی کی تلاش سے غافل ہوکر سوتے نہ رہو‘‘ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’جو شخص دنیا کو جائز طریقے سے حاصل کرتا ہے کہ سوال سے بچے اور اہل و عیال کی کفالت کرے اور ہمسائے کی مدد کرے تو قیامت کے دن جب وہ اٹھے گا تو اس کا چہرہ چودھویں کے چاند کی طرح روشن ہوگا‘‘۔
اسلام نے حصول رزق کے ان تمام ذرایع کو ممنوع اور حرام قرار دیا ہے جو ظلم و زیادتی اور دوسروں کی حق تلفی پر مبنی ہوں۔
اﷲ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں ارشاد فرمایا: ترجمہ ’’ اور جو لوگ سونا اور چاندی جمع کر رکھتے ہیں اور اﷲ کی راہ میں اس کو خرچ نہیں کرتے پس ان کو دردناک عذاب کی خوش خبری سنا دیجیے‘ جس دن دوزخ کی آگ دہکائیں گے اس مال پر پھر اس سے ان کے ماتھے اور کروٹیں اور پیٹھیں داغیں گے (کہا جائے گا) یہ ہے جو تم نے جمع کر رکھا تھا اپنے واسطے‘ اب مزا چکھو اپنے جمع کرنے کا‘‘۔
اسلام دینِ فطرت ہے۔ یہ دین مکمل ضابطہ حیات ہے جس نے اپنے ماننے والوں کی زندگی کے ہر میدان میں راہ نمائی کی ہے۔ معاشرے میں کوئی بھی فرد ہو، اس کی کوئی بھی حیثیت ہو، اسلام میں ہر کسی کے حقوق مقرر ہیں۔ درحقیقت دنیا میں انسانی حقوق کی بنیاد رکھنے والا مذہب ہی دینِ اسلام ہے۔ جب تک معاشرہ ان حقوق و فرائض کی پابندی کرتا رہتا ہے، امن و آتشی کا گہوارہ ہوتا ہے۔ محنت کرکے کما کر کھانا والے کی معاشرے میں عزت و احترام ہوتا ہے۔
اسلام نے مزدور کی سماجی حیثیت، عزت اور مقام کو بلند کیا۔ اسلام ان لوگوں کو پسند کرتا ہے جو محنت کرکے اپنی روزی کماتے ہیں۔ اسلام نے ان لوگوں کی شدید مذمت کی ہے جو محنت کیے بغیر دولت جمع کرتے اور محنت کشوں کا استحصال کرتے ہیں۔ سب سے پہلے اسی دین نے ہی مزدور کو وسیع اور جامع ترین حقوق دیے۔ یہی دین مزدورں کے حقوق کا سب سے بڑا علم بردار ہے۔
نبی اکرم ﷺ نے حرام طریقے سے رزق کمانے والوں کے متعلق فرمایا: ’’وہ آدمی جو حرام ذریعے سے مال جمع کرتا ہے وہ خوش نہ ہوگا، اگر وہ اسے خیرات بھی کرے گا تو وہ ہرگز قبول نہ کی جائے گی اور جو باقی رہے گا وہ جہنم کے لیے زادِراہ ثابت ہوگا۔‘‘ خطبہ حجۃ الوداع جو انسانی حقوق کا منشور ہے۔ اس موقع پر آپ ﷺ نے فرمایا ’’اپنے غلاموں کے معاملے میں اﷲ سے ڈرو، ان سے بہتر سلوک کرو، جو خود کھاؤ انھیں کھلاؤ، جو خود پہنو انھیں پہناؤ، ان کے ساتھ نرمی کا سلوک کرو‘‘۔
اسلام مزدور اور محنت کشوں کو اﷲ کا دوست قرار دیتا ہے۔ بدقسمتی سے ہم اﷲ کے ان دوستوں کے دشمن بن بیٹھے ہیں اور خودفریبی یہ ہے کہ ہم سے اﷲ راضی رہے گا ۔ ہمیں اپنی مزدور دشمی کی بد روش سے باز آجانا چاہیے ، اگر ہم نے کسی بھی محنت کش کے حقوق غصب کیے تو رب کائنات کے غضب سے نہیں بچ پائیں گے۔
محنت کش: اﷲ کا دوست
حضور اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’ محنت کش اﷲ کا دوست ہے‘‘
اگر انسان کی محنت خدا کے قرب اور دوستی کا وسیلہ اور ذریعہ ہے تو پھر کسی بھی انسان کی بے کاری اور سہل پسندی کا کوئی جواز باقی نہیں رہتا۔ ہر انسان اپنی جگہ اہمیت کا حامل، اور عقل و شعور سے مزین ہے۔ سب انسان باہم رشتۂ اخوت و مساوات میں جڑے ہوئے ہیں اور انسانیت میں کسی بھی قسم کی تقسیم اور طبقات کا وجود انسانی عظمت و شرف کی حد درجے پامالی کا مظہر اور فطرت کے لازوال اصولوں کے منافی ہے۔
لیکن دور حاضر کا یہ المیہ اور کس قدر بد قسمتی ہے کہ آج ہم محنت کی عظمت سے ناآشنا اور بے خبر ہیں۔ جس کا بین ثبوت یہ ہے کہ سماج میں محنت و مشقت کے دھنی افراد کو حشرات الارض جتنی اہمیت بھی نہیں دی جاتی اور ان محنت کشوں کی محنت اور ثمرات پر گلچھرے اڑانے والے سرمائے کے پجاریوں کو سر آنکھوں پر بٹھایا جاتا ہے۔
جس کا ردعمل یوں ہوتا ہے کہ محنت کی عظمت کا انکار سامنے آتا ہے۔ محنت کی حوصلہ شکنی اور محنت کش کی تحقیر اور استہزا کا چلن عام ہوجاتا ہے۔ لوگ محنت سے جی چرانے لگتے ہیں اور اس طرح کے معاشرے اجتماعی طور پر زوال کا شکار ہوجاتے ہیں۔ جب کہ اس کے مقابلے میں محنت کی عظمت ایک عالم گیر صداقت اور مسلمہ اصول ہے، جس کو اپنانے والی اقوام مسلسل آگے بڑھتے ہوئے عالمی قیادت کی دعوے دار ہیں اور جن اقوام کے ہاں یہ اصول جڑ نہیں پکڑ سکا وہ اپنے ہاں قدرتی خزانوں اور وسائل سے انجان دوسروں کی دست نگر ہیں۔
ہمیں اگر عزت سے جینا ہے تو اپنے دست یاب قدرتی وسائل اور افرادی قوت پر تکیہ کرکے انہی کو بحق قوم اور انسانیت بروئے کار لانا ہوگا۔ اسی طرح مقتدر طبقات کو یہ التزام بھی کرنا ہے کہ عوام کو بلا امتیاز عزت کے ساتھ روٹی بھی میسر آئے اور ساتھ ہی ان کے لیے باعزت روزگار کے مواقع بھی پیدا کرنے ہوں گے۔
اور پھر پوری قوم تقسیم اور طبقات سے اوپر اٹھ کر اجتماعیت، مساوات اور عدل کی اساس پر محنت کی عظمت کو لازم پکڑے اور خود کفالت اور اجتماعی ترقی کے اہداف کو پانے کے لیے کمر بستہ ہوجائے اور اس طرح سرمائے کے مقابلے میں محنت کو بنیادی اور کلیدی اہمیت دے کر زراعت، صنعت اور تجارت میں اسلام کے عادلانہ اصولوں کے عین مطابق آجر اور اجیر کے بنیادی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنایا جاسکتا اور اک نیا جہان تخلیق کیا جاسکتا ہے۔ جہاں جبر ہو اور نہ کوئی جابر و مجبور اور نہ ہی بندۂ مزدور کو تلخیٔ ایام کے سامنے گھٹنے ٹیکنے کے باعث معذور ہونا پڑے۔
آج بالعموم سرکاری اور نجی سطح پر مزدور کا حق محنت پورا ادا نہیں کیا جاتا جس کے باعث مشقت کے باوجود محنت کش کو ضروریات زندگی حاصل نہیں ہوپاتیں۔
نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’مزدور کی مزدوری اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کرو‘‘ (ابن ماجہ)
استحصال یہ بھی ہے کہ مزدور کو حقیر سمجھا جائے۔ حالاںکہ تمام انبیا اور برگزیدہ ہستیوں نے مختلف پیشے اختیار فرمائے اور خود نبی اکرمؐ نے مزدوری، تجارت، گلہ بانی اور پتھر اٹھانے جیسی مشقتیں بحسن و خوبی سرانجام دیں۔
مدینہ منورہ میں سعدؓ ایک مال دار صحابی تھے۔ جنھیں لوگوں نے کسی جگہ اپنی دولت، معاشرتی رتبے اور فضیلت کا ناروا اظہار کرتے ہوئے دیکھا۔ اس کی اطلاع آپؐ کو پہنچی تو آپؐ نے بلاکر فرمایا:
’’سعدؓ! کیا یہ مال جس پر تم فخر کرتے ہو، یہ تمہارے زور بازو کا صلہ ہے؟ ہرگز نہیں یاد رکھو! تمہاری امتیازی اور مالی حیثیت کا اصل ذریعہ معاشرے کے محنت کش اور غریب لوگ ہیں۔ یوں مت اتراؤ اور اپنی مال داری کا ذکر کرتے ہوئے محنت کش طبقے کی کبھی تحقیر نہ کرو۔‘‘
نبی اکرمؐ نے ہمیشہ غریب، محروم اور محنت کش لوگوں کا غیر معمولی خیال رکھا۔ مدینہ میں ایک مزدور صحابیؓ پسینے میں شرابور کھڑے تھے کہ حضورؐ کا گزر ہوا۔ مزدور صحابیؓ کو دیکھا اور پیچھے تشریف لاکر اپنے دست مبارک اس کی آنکھوں پر رکھ دیے۔ آپؐ کی خوش بو سے صحابیؓ سمجھ گئے کہ اس خوب صورت ڈھب سے اظہار محبت کرنے والے کون ہیں؟
اس لیے جان بوجھ کر اس مزدور نے اپنے پسینے سے تر جسم کو آپؐ کے ساتھ جوڑ دیا اور جب تک اس صحابیؓ کا دل خوش نہیں ہوگیا آپؐ اس کی پسینہ کی بو کے باوجود اس کے ساتھ چمٹے رہے۔ ایک اور مزدور کے مشقت سے نشان زدہ ہاتھوں کو دیکھ کر آپؐ نے بے اختیار چوم لیا۔
آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم محض رسمی طور پر سال میں ایک دفعہ ’’یوم مزدور‘‘ منانے سے چند قدم آگے بڑھیں۔ ہمیں اپنے زوال کو عروج و اقبال میں بدلنے کے لیے ماہ و سال کے تمام صبح و شام بندۂ مزدور کے نام کرنے ہوں گے اور اﷲ کے اس دوست کے پسینے کی بو اک اعلیٰ ترین خوشبو کی مانند اپنے اوپر چھڑکنا ہوگی اور محنت کش کی دست بوسی کا راز جان کر آقائے دو جہاں ؐ کی اس عظیم سنت کا احیا کرنا ہوگا۔
(سید عبدالوہاب شیرازی)

Leave a Reply