علم الادویہ

0
804
علم الادویہ
علم الادویہ

قسط۔1

علم الادویہ

پیش لفظ

علم خواص الاشیا خداوند علیم و حکیم کا انسانیت پر ایک عظیم انعام ہے۔ پیدائش آدمؑ سے لے کر اس وقت تک اس علم سے انسان میں انسانیت اور آدمی میں آدمیت آئی اور یہ دنیا ارض جنت میں تبدیل ہوتی جا رہی ہے۔ یہ سب کچھ علم خواص الاشیا کی برکت ہے۔ اس سے ضروریات کا حاصل اور آرام حاصل ہوا اور کائنات کی تسخیر اور اس پر دسترس کی صورتیں پیدا ہو گئیں جو انسان اپنے توہمات سے اس کائنات کی عظیم مخلوقات اور ان کے بت پوجا کرتا تھا آج ان پر حکومت کرتا ہے۔ زمین پر فراٹے بھرتا ہے، پانی پر قبضہ کرتا ہے اور ہوا میں اڑتا ہے۔ ہزاروں میں آواز سن سکتا ہے بلکہ واقعات دیکھ سکتا ہے۔ اس نے چاند اور زہرہ تک اپنے خلائی جہاز بھیج دئیے ہیں اور خلا میں انسانوں نے کامیاب پرواز کی ہے۔ امید ہے بہت جلد ستاروں تک پہنچ جائے گا۔ علم خواص الاشیا کے بغیر یہ کامیابیاں ناممکن ہیں۔

علم خواص الاشیاء میں آج کل  اس قدر وسعت ہو گئی ہے کہ اس کے بے شمار شعبے بن گئے ہیں اس کا اندازہ اس طرح لگایا جا سکتا ہے کہ دنیا میں جس قدر علوم و فنون ہیں ان کے اپنے خواص الاشیاء قائم  ہیں۔ اس کا ایک شعبہ علم خواص الادویہ اور اغذیہ  ہیں۔ جس کا تعلق علم العلاج اور علم صحت کے ساتھ ہے جو علم و فن طب سے متعلق ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ علم خواص  الاشیاء کی ابتدا علم خواص  الادویہ سے ہوئی ہے۔ یہ سلسلہ ہزاروں سالوں سے چلا آتا ہے لیکن اس کو علمی و  فنی صورت یونانی تہذیب و تمدن اور عروج کے دور میں دی گئی۔  اس کے لئے معیار مقرر کئے گئے ، مشاہدات اور تجربات کئے گئے  اور ان کو کتابی شکل دی گئی۔ طب یونانی میں خواص الادویہ و اغذیہ معلوم کرنے کے لئے ان کی کیفیات اور مزاج مقرر کئے گئے اور پھر ان کو انسانی مزاج سے تطبیق دی گئی اس سے قبل آیورویدک دور میں بھی اسی قسم کا تحقیقاتی اور عملی کام کیا گیا۔ جب اسلامی دور آیا تو اس کے سامنے یونانی اور آیورویدک دونوں کے علمی اور تحقیقاتی کام تھے انہوں نے اس میں بہت زیادہ وسعت دے دی۔ اخلاط کے مزاج کے ساتھ مختلف اعضائے جسم کے مزاج مقرر کر کے اخلاط کو اعضاء کے ساتھ تطبیق دے دی گئی اور سب سے بڑا کام یہ کیا کہ امراض کو اعضاء  کے تحت قائم کیا اور علامات کو امراض کے تحت کر دیا۔ یہ ایک بہت بڑا کارنامہ تھا جس سے خواص الادویہ اور اغذیہ میں یقینی صورت پیدا ہو گئی ۔ اس کے بعد فرنگی طب کا دور  شروع ہوا اس کو سائنسی دور کہتے ہیں۔ اس میں ہر دوا ، غذا اور زہر کا تجربہ کیا گیا ، ساتھ ہی ساتھ خون اور اس کے اجزاء اور رطوبات کا تجزیہ کیا گیا۔ دوا اور اغذیہ کے اثرات کو خون اور اس کے اجزاء اور رطوبات سے تطبیق کی گئی پھر خون کا امراض و علامات کے ساتھ تعلق جوڑا گیا لیکن اسلامی دور میں جو تحقیقاتی کارنامے کئے گئے تھے ان سے آگے جانے کی بجائے ان کو نظر انداز کر دیا گیا اور جس حقیقت کے قریب اسلامی دور میں خواص الادویہ اور اغذیہ پہنچا فرنگی طب اس کو نہ سمجھ سکی اور راست سے بھٹک گئی، یعنی اخلاط کو اعضاء سے تطبیق نہ دے سکی۔ جس کے نتیجہ میں امراض و علامات کا تعلق اعضاء کی بجائے خون اور اس کے اجزاء و رطوبات سے قائم کر دیا گیا۔  اس طرح خواص  الادویہ اور اغذیہ کا یقینی اور بے خطا اثر ختم ہو گیا اور ظنی اور عطایا نہ صورتیں پیدا ہو گئیں۔ علم و فن طب پھر غیر علمی اور غیر یقینی ہو گیا۔

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ فرنگی طب نے اعضائے جسمانی کا تجزیہ  انسجہ (Tissues) تک کیا۔ چونکہ وہ امراض کو اعضاء کے ماتحت نہ کر سکے اس لئے انہوں نے  امراض کی پیدائش انسجہ پر نہ رکھی۔ یہ انسجہ ہی انسانی جسم کے بنیادی اعضاء یا ابتدائی اکائی ہیں۔ سب سے پہلے ان ہی پر ادویہ و اغذیہ اور زہروں کے اثر ات ہوتے ہیں۔ پھر ان سے مرکب اعضاء کے افعال میں عمل شروع ہوتا ہے۔ جس سے امراض یا ان سے شفا کی صورتیں پیدا ہوتی ہیں اور جب سے جراثیم کی تھیوری کا ظہور ہوا ہے، خواص الادویہ و اغذیہ اور زہروں کے اثرات کی بنیاد ان پر رکھ دی گئی ہے اور اس امر کو نظر انداز کر دیا گیا ہے کہ جسم میں جراثیم کی پیدائش اور ہلاکت ادویہ اور زہروں کے تحت نہیں ہے بلکہ اعضاء اور ان کی طاقت (Immunity)کے ماتحت ہے۔ مثلاً ہر روز نئی ادویات اور مجربات کی تلاش ہے مگر شفا الامراض دور ہوتی چلی گئی ہے اور جب تک فرنگی طب اعضاء کے افعال خصوصاً مفرد اعضاء کے تحت امراض کو تطبیق نہ دے قوت شفا(Cure Command) حاصل نہیں ہو سکتی۔ یہی وجہ ہے کہ فرنگی طب میڈیکل سائنس ہونے کے باوجود ناکام ہے اور ذہین طبقہ ان سے علاج کرانے کی بجائے طب قدیم سے علاج کراتا ہے۔ اسی کمال نے اس کو آج  تک زندہ رکھا ہوا ہے۔

ہومیوپیتھی اگرچہ مختصر طریقِ علاج ہے لیکن اس کے خواص الادویہ میں بے انتہا وسعت ہے اس میں امراض کے لئے بالضد اثرات و فوائد حاصل نہیں کئے جاتے بلکہ تندرست انسانوں کو ادویہ کھلا کر علامات حاصل کی جاتی ہیں۔ ہر قسم کے مشینی و کیمیائی اور کیفیاتی و نفسیاتی اثرات  حاصل کئے جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ چھوٹی چھوٹی علامات مثلاً دن رات اور روشنی و اندھیرے کی علامات میں کیا فرق ہے۔ حرکت  و سکون اور نیند  و بیداری کی حالت میں کیا فرق  ظاہر ہوتاہے۔ چونکہ ان کی علامات بھی مرکب اعضاء کے تحت پائی جاتی ہیں اس لئے ایک ایک علامت کے لئے متعدد ادویات کو مدنظر رکھنا پڑتا ہے۔ اگر یہ علامات مفرد اعضاء کے تحت ترتیب پا جائیں تو یقینی اور بے خطا علاج دنیا کے سامنے آ جاتا ۔ بہر حال ہومیوپیتھی طریق علاج میں کم از کم پچاس فی صدی یقینی اور بے خطا علاج ہے اور غلط دوا دینے میں اکثر نقصان نہیں ہوتا۔ اس لئے ایلوپیتھی سے بدرجہا بہتر علاج ہے۔

ان حقائق کی روشنی میں ہم نے علم الادویہ پر تقریباً بیس پچیس سال تک تحقیقات کیں اور اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ :

1۔ ادویہ کے خواص اعضاء خصوصاً مفرد اعضاء کے تحت حاصل کرنے چاہئیں۔

2۔مفرداعضاء  کے ردعمل  سے جو اثرات پیدا ہوتے ہیں ان کو حاصل کیا جائے۔

3۔  اخلاط اور خون میں جو کیمیائی تبدیلیاں پیدا ہوں ان کو حاصل کیا جائے۔4۔ اخلاط اور خون کی کیمیائی تبدیلیوں سے جو اثرات پیدا ہوتے ہیں ان کو بھی حاصل کیا جائے۔ یہ اولین اثرات کی تصدیق کرتے ہیں۔ کیفیاتی اور نفسیاتی افعال و اثرات کو الگ الگ بیان کیا جائے۔ ان کے علاوہ مختلف ماحول میں جو افعال واثرات میں فرق پیدا ہو جاتا ہے اس کو مدنظر رکھنا بھی ضروری ہے ۔

اس کتاب میں خواص الاشیاء کی تحقیقات کے عمومی اصول اور کلی قوانین کو پیش کیا گیا ہے تاکہ

1۔ معالجین میں صحیح ، یقینی، بے خطا افعال و اثرات اور خواص الادویہ و اغذیہ حاصل کرنے کاجذبہ پیدا ہو جائے۔

2۔ نسخہ نویسی میں غلطیاں نہ ہوں ۔

3۔ مجربات او ر مرکبات کے غلط اور صحیح ہونے کاعلم  حاصل ہو جائے۔

4۔ فرنگی طب کے غلط خواص الادویہ سے اجتناب برتا جائے ، جس سے قابل ترین معالج پیدا ہو کر علم و فن اور ملک و قوم کی خدمت کر سکتے ہیں۔

خواص الاشیاء میں جگہ جگہ امثال کے لئے ادویہ و اغذیہ لکھ دی گئی ہیں اور آخر میں تمام مشہور ادویہ اور اغذیہ کی تحریکات کو مفرد اعضاء کے مطابق پیش کر دیا ہے تاکہ جو لوگ نظریہ مفرد اعضاء سے واقف ہیں وہ پورے پورے طور پر مستفید ہو سکیں۔ یہ تحقیقات الادویہ کا حصہ کلیات ہے۔ دعا فرمائیں اللہ علیم و حکیم اس کے تکمیل کرنے کی طاقت عطا فرمائے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے میرا یہ کا م علم و فن طب میں ایک زبردست انقلاب ہے۔

خادم فن—— صابر ملتانی



مقدمہ

شرف انسانی

یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ انسان اشرف المخلوقات ہے۔ اس کا شرف اور فضیلت ملائکہ اور جنات سے بھی اعلیٰ ہے۔ یہ شرف اور فضیلت کیا ہے؟ اور اس کاکمال کیا ہے؟ اس کا جواب قرآن حکیم دیتا ہے۔جب ملائکہ کو حکم ہو ا کہ اللہ تعالیٰ آدمؑ کی تخلیق کرنا چاہتا ہے اور اس کو زمین پر اپنا خلیفہ مقرر کرے گا تو انہوں نے اللہ تعالیٰ سے عرض کی

قالواتجعل فیھا من یفسد فیھا ۔۔۔۔۔۔۔30/2

ترجمہ: کیا آپ ایسی شخصیت کو تخلیق دینا چاہتے ہیں جو زمین میں فسادکرے گی اور اس میں خون بہائے گی اور ہم آپ کی ہمیشہ تعریف کرتے ہیں اور آپ کی پاکی بیان کرتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے فرمایا

قال انی اعلم مالا تعلمون ۔30/2

ترجمہ: جو میں جانتا ہوں وہ تم نہیں جانتے۔

اللہ تعالیٰ نے صرف یہ جواب ہی نہیں دیا بلکہ دلیل کے طور پر عملی تجربہ بھی کرا دیا تاکہ ان کی پوری تسلی ہو جائے۔

و علمہ آدم کلھا۔۔۔۔۔۔۔31/2

ترجمہ: آدمؑ کو کل ناموں کا علم دیا اور ملائکہ کے سامنے پیش کیا گیااور دریافت فرمایا کہ اگر تم سچے ہو تو ان کے نام بتاؤ، ملائکہ نے جواب دیا۔

قالو سبحنک لا  علمنا۔۔۔۔۔32/2

ترجمہ: آپ کی ذات پاک ہے ہم کو اتنا ہی علم ہےجو آپ نے دیا ہے آپ ہی علم والے اور حکمت والے ہیں۔

جب آدم کو کہا گیاکہ وہ ان کو  نام بتائیں، جب انہوں نے وہ نام بتا دئیے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کیا میں نے نہیں کہا تھاکہ آسمان  اور زمین کی تمام پوشیدہ باتوں کو جانتا ہوں اور وہ بھی جانتا ہوں جو کچھ تم ظاہر کرتے ہو اور جو کچھ تم چھپاتے ہو۔ اس تجربہ کے بعد آدمؑ کی فوقیت کو قائم رکھنے کے لئے ایک اور مشاہدہ پیش کیا گیا۔

و اذ قلنا للملئکۃ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔34/2

ترجمہ: جب ملائکہ کو حکم دیا گیاکہ آدم ؑ کو سجدہ کرو، انہوں نے سجدہ کیا مگر ابلیس نے انکار کر دیا اور تکبر کیا اور وہ نہ ماننے والوں میں سے تھا۔

اس امتحان و تجربہ ومشاہدہ میں کامیاب ہونےکے بعدآدمؑ کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا “اے آدمؑ آپ  اور آپ کی بیوی جنت میں قیام کریں گے اور وہاں سے جس قدر اور جہاں سے چاہیں کھائیں مگر

ولا تقربو ھذا۔۔۔۔۔35/2

ترجمہ: اس درخت کے قریب مت جانا ظلمت میں گرفتار ہو جاؤ گے۔”

ان حقائق سے مندرجہ ذیل نتائج اخذ ہوتے ہیں۔1۔ آدمؑ کو خلافت زمین کے لئے تخلیق کیا گیا۔2۔ فرشتوں نے اعتراض کیا اور اس کی خرابیاں بیان کیں۔3۔ آدمؑ کو آسمانوں اور زمین کی تمام اشیاء کے ناموں کا علم دیا گیا۔4۔ فرشتوں کے سامنے کامیاب مقابلہ کیا گیا۔5۔ فرشتوں کو کہا گیا کہ آدمؑ کے متعلق جو کچھ وہ ظاہر کرتے ہیں اللہ تعالیٰ وہ سب کچھ جانتا ہے یعنی وہ فساد کرے گا اور خون بہائے گا اور جو کچھ وہ چھپاتے ہیں یعنی وہ آسمانوں اور زمین کی تمام اشیاء کے ناموں کا علم رکھتا ہے۔6۔ فرشتوں سے سجدہ کرا کے عملی طور پر اس کا شرف اور فضیلت تسلیم کرائی گئی۔7۔ ابلیس کو سجدہ کے لئے کہا مگر تکبر کی وجہ سے وہ اپنی یہ بے عزتی برداشت  نہ کر سکا اور انکار کر دیا۔8۔ آدمؑ کو جنت میں قیام کے لئے کہا گیا اور وہاں کی تمام اشیاء جن کے ناموں کا ان کو علم تھا کھانے کو کہا گیا مگرایک خاص درخت کے قریب جانے سے منع کیا گیا تاکہ اس سے ان پر ظلمت کا اثر نہ ہوجائے۔

ان حقائق سے ثابت ہوتا ہے کہ انسان کی جبلت میں نہ صرف علم الاشیاء ودیعت کر دیا گیا بلکہ زمین سے لے کر آسمانوں تک کا ان علم میں اس کی دسترس قائم ہے۔ جہاں تک وہ اس علم الاشیاء سے آگاہ ہوتا جائے گا اس کا مقام اور درجہ بلند ہوتا جائے گا۔ قرآن حکیم اور دیگر مذہبی کتب میں انسان کو کائنات اور زندگی کے مختلف شعبوں کا علم دیا گیا ہے اور ان کی حکمت ظاہر کی گئی ہے۔ اگربنظر غور دیکھا جائےتو پتہ چلتا ہے کہ دنیا میں جب سے کتب لکھنے کا سلسلہ شروع ہوا ہے ان میں صرف علم الاشیاء پر ہی لکھا گیا ہے۔ یہ علم انسان کی زندگی کے مختلف شعبوں سے متعلق ہو یا اس کی جبلت اور جذبات کے متعلق ہو یا دنیا یا کائنات کے متعلق ہو اس کا تعلق انسان کی ذات سے وابستہ ہے بلکہ کہا گیا ہے کہ اس کائنات میں بحر و بر اورہوا میں جو کچھ ہے سب انسان کے لئے مسخر کر دیا گیا ہے۔

اس تسخیر کائنات کا مقصد یہ ہے کہ جو کچھ بھی اس کائنات میں ہے انسان اگر چاہے تو وہ تعلیم و مشاہدہ اور قیاس و تجربہ سے وہ سب کچھ حاصل کر سکتا ہے۔ کائنات پر غلبہ اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب کہ کائنات کے متعلق پورا پورا علم ہو۔ یہ علم دو صورتوں سے حاصل ہو سکتا ہے۔ اول نبیوں کی خبروں اور پیغمبروں کے پیغام پر پورا  عبور حاصل کیا جائے۔ دوسرے انسانی علم و حکمت اور مشاہدہ و تجربہ کی تعلیم  اور نتائج پر مکمل دسترس حاصل کی جائے، اس کے بغیر زندگی اور کائنات کی تسخیر ممکن نہیں ہو سکتی۔

جاننا چاہیئے کہ نبی کی طرف علم و حکمت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ودیعت کیا ہوتا ہے ، مگر انسانی علم و حکمت اس کی تعلیمات و مشاہدات اور تجربات ہوتے ہیں۔ البتہ انسانی علم و حکمت میں انبیاء علم و حکمت کا بہت کچھ دخل ہوتا ہے۔ جوں جوں انسان علم الاشیاء پر عبور اور دسترس حاصل کرتا جاتا ہے، اسی کے مقام اور زندگی میں بلندی اور کمال پیدا ہوتا جاتا ہے، یہی  شرف انسانی ہے۔

علم الاشیاء اور فن علاج

زندگی اور دنیا کے ہر شعبہ میں جو رونق نظر آتی ہے اس کی زیادہ تر اہمیت علم الاشیاء ہے۔ لیکن علم العلاج میں اس کو غیر معمولی اہمیت حاصل ہے۔اس کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ علم العلاج کی بنیاد علم الاشیاء پر  قائم ہے۔ اگر کوئی انسان علم الاشیاء سے واقف نہ ہو وہ علم العلاج میں نہ صرف بے بہرہ ہے بلکہ کسی مرض کے لئے نہ کوئی تدبیر و حکمت عملی کر سکتا ہے اور نہ ہی غذا اور دوا تجویز کر سکتا ہے۔ طرہ یہ کہ وہ نہ حکیم کہلا سکتا ہے اور نہ ہی طبیب (ڈاکٹر) ہونے کا دعویٰ  کر سکتا ہے، اس لئے علم الاشیاء کو حکمت اور طب کے تمام  علوم و فنون میں فضیلت  حاصل ہے۔ اس لئے اس کا حصول علم و فن طب میں اولیت رکھتا ہے۔اس لئے علم الاشیاء کو حکمت اور طب  کے تمام علوم و فنون  میں فضیلت حاصل ہے۔ اس لئے اس کا  حصول علم و فن طب میں اولیت رکھتا ہے۔طب عملی و طب علمی، امور طبیہ و علم امراض ، اسباب و علامات ، علم العلاج و علم حفظانِ صحت، غذا  دوا اور زہر بلکہ کوئی شے بھی جو ان سب کا جاننا علم الاشیاء  میں شامل ہے۔چونکہ علم العلاج میں علم الادویہ کو انتہائی اہمیت حاصل ہےاس لئے اس کتاب میں بھی اکثر بحث علم الادویہ سے متعلق ہے لیکن حقیقت میں اس تحقیقات کا دائرہ علم الاشیاء تک پھیلا ہوا ہے۔

تاریخ علم الاشیاء

محققین علم تاریخ نے علم العلاج کی ابتدا کا جہاں تک کھوج نکالا ہے وہ اس سے زیادہ نہیں ہے کہ مقدس فن کی ابتدا پجاریوں  اور پادریوں سے شروع ہوتی ہے۔ کیونکہ ان لوگوں کے متعلق یہ روایت مشہور ہے کہ یہ بزرگ ہستیاں ہی قدرت کی طرف سے اس مشکل فن کو سمجھنے اور  استعمال کرنے کے لئے مقرر کی گئی ہیں لیکن فلسفلہ تاریخ کے ماہر جانتے ہیں کہ پیدائش انسانی کے ساتھ ساتھ امراض و علاج دنیا میں نمودار ہوئے، کیونکہ یہ ناممکن ہے کہ انسان نہایت قدیم ترین دور میں کیفیت و تاثرات دنیا سے محفوظ رہا ہو اور یہ تاثرات جب نظام جسم انسانی میں خلل پیدا کردیں تو انہی کا نام مرض ہے۔باقی رہا ان کا علاج یہ اس دور میں جس نوعیت کا  بھی ہو گا، بہر حال وہ علاج ہی تھا۔

قدیم حجری دور میں جہاں تک انسانی معلومات نے تحقیقات کی ہیں کہ وہ غاروں میں رہتے تھے، پتھرکے آلات استعمال  کرتے تھے، پتھروں سے شکار  کرتے اور انہی پتھروں کے برتنوں میں ہی کھاتے تھے۔ آہستہ آہستہ وہ لوگ غاروں سے نکل کر درختوں پر رہنے لگےاور اپنے جسم کو  سردی کی ٹھنڈک اور گرمی کی تیزی سےبچانے کے لئے درختوں کے پتوں سے اپنا جسم ڈھانپنے لگے۔ ان کا جسم جوسردی اور گرمی کاعادی تھااب برودت  اورحرارت سے متاثر ہونے لگا۔ مگراس خلل جسم کو انہوں نے  بد روحوں کا دخل تصور کیا جس کو وہ اپنی عاجزی اور گڑگڑاہٹ  سے رفع کرتے تھے۔لیکن اس عاجزی اور گڑ گڑاہٹ کو کسی اعلیٰ طاقت مثلاً سورج، چاند اور ستارے ، آگ ہوا اور پانی ، خوفناک جانور اور زہریلے حشرات الارض کے سامنے سجدوں اور پوجا کی شکل میں پیش کرتے۔ اگرچہ قدیم انسان اس تاثرات اور کیفیات کی حقیقت سے واقف نہ تھا لیکن ان کی طاقت سے اس کا بچنا مشکل تھا۔ اس لئے ان کو مافوق ا لانسان  سمجھ کر ان کی پوجا کرنا اوار سجدہ بجا لانا وہ اپنا فرض خیال کرتاتھا او ر یہی اس کے لئے ایک طریقہ علاج تھا۔ آج بھی جب کہ ہمارے سامنے خداوند لاشریک کا تصور ہے، ہم بھی اپنے جذبات کو انہیں پوجاپاٹ اور سجدوں سے اظہار کرتے ہیں۔ گویا یہ جذبات فطری اور انسانی جبلت میں شامل ہیں۔

کیا عقل سلیم ان چیزو ں سے انکار کر سکتی ہے کہ وہ لوگ شکار کے گوشت کی گرمی اور تیزی اور پھلوں کی سردی اور تسکین اور دیگر اشیاء کے اشیاء کے اثرات و کیفیات سے آگاہ نہ ہوں گے۔ جب کسی کا بچہ سردی میں بخار کی شدت سے بے چین ہو گا ، تو کیاان کے والدین نے کسی جانور کی تازہ تازہ گرم کھال پہنا کراس کی تکلیف اور بے چینی کا مداوانہ کیا ہوگا یا گرمیوں میں انسان نے اپنے آگ کی طرح جلتے ہو ئے جسم کو سکون کی خاطر پانی کے تالاب میں دھکیل نہ دیا ہو گا۔ اسی طرح ان لوگوں نے اپنے متاثر جسم یا دوسرے الفاظ میں امراض کو مختلف صورتوں میں رفع کرنے کی جدوجہد اور کوشش نہیں کی ہوگی۔ یہی عمل ان کا علاج تھا۔ یہیں سے ہم نہ صرف تاثرات علم الاشیاء بلکہ علم العلاج کی ابتدا کرتے ہیں۔

مندرجہ بالا ادراکات  نہ صرف قرین قیاس ہیں بلکہ عین انسانی فطرت کے مطابق ہیں ان سے انکار کرنا انسان کے اشراف المخلوقات ہونے سے انکار کرنا ہے۔ قادر مطلق نے انسان کی تکمیل کے بعد

لقد خلقنا الانسان فی احسنِ تقویم        4/95

کی سند عطا کی ۔ پھر کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ مالک کون ومکاں کی بہترین تخلیق اپنے گردوپیش کو سمجھنے کی کوشش نہ کرے یا اپنی آفات کو رفع کرنے کی کوشش نہ کرے جب کہ آج بھی ہم دیکھتے ہیں کہ ہر انسان ہر خوفناک اور دہشت ناک منظر سے بھاگنے کے لئے ہر لمحہ غیر شعوری طور پر مجبور ہے اور ہر دکھ اور مصیبت کے رفع کرنے کے لئے ہر گھڑی بے قرار و بے چین ہے۔ اس کے برعکس لذت  اور لطف کی طرف ہمہ تن سعی اور کوشش کرتا رہتا ہے بلکہ مسرت و انبساط کو حاصل کرنے کے لئے ہر قیمت خرچ کرنے کو تیار ہے۔بچہ پیدا ہوتے ہی اپنی ماں کی چھاتیوں کو تلاش کرتا ہے۔ نوجوان اپنی زندگی کی تسکین حسن و محبت میں محسوس کرتا ہے۔ ایک شباب رفتہ اور پس خوردہ انسان اپنی عاقبت سلامت روی میں پاتا ہے۔ انسان پر ہی منحصر نہیں ہے بلکہ اس قسم  کے شعور حیوانات میں بھی پائے جاتے ہیں۔ مثلاً بلی کتے کی شکل تو کیا آواز سن کر ہی بھاگ جاتی ہے اور چوہے کے لئے بلی کی “میاؤں” پیام اجل سے کم نہیں ہے۔

یہ تھا حیات انسان کی جدوجہد کا اولین دور اس کے بعد دوسرا دور پجاریوں اور پادریوں کے علاجات کا زمانہ ہے۔پادری اور پجاری مذہبی پیشوا کہلاتے تھے لیکن اگر حقیقت کا انتخاب کیا جائے اور واقعات کا تجزیہ کیا جائے تو وہ کون سے منظر دیکھنے سے اصلیت واضح ہو جاتی ہے کے کہ اس ابتدائی زمانے میں پجاریوں اور پادریوں کی ہستی بھی اس لئے وجود میں آئی کہ ان کو عوام کی تکلیف واہ درد کا درماں خیال کیا گیا ۔جس کے بعد انہوں نے عوام پر مصائب کے دفاع کے لیے مافوق الانسان طاقتوں کا تخیل کے ذہن میں پیدا کردیااور اسی طرح ہر دکھ اور ضرورت کے لیے الگ الگ مافوق الاسباب ہستیوں کو ایک ایک معبود تسلیم کیا گیا تھا جس سے انکی پوجا شروع ہوگی یہ تھاانسان کا اولین خدائی تخیل اس کےمدت مدید اور عرصہ بعد کے بہترین مدبرین زمانہ اور مصلحین وقت نے بے شمار طاقتوں اور  معبودوں کے بوجھ کو کم کرنے کے لئے  وحدہ لا شریک خدا کا تخیل پیش کیا پھر بعد کے حقیقت شناس و اور فطرت انسانی کے علمبردارو ں نے درس دیا اور زین نشین کرایا کہ کائنات کی تمام طاقتیں ما فوق الانسان اور معبود خیال کیا جاتا ہے اصل میں انسان ہی کیلئے بنائے ہیں  اور اس کے خدمت گزار ہیں۔

ان تمام ادوارمیں خصوصاً نہایت قدیم  میں علم العلاج اس سے زیادہ ترقی نہیں کرسکتا تھا۔یہ علم خواص الاشیاء کی طرف تم بڑھنا شروع ہوگیا لڑکی وہ صرف کیفیات تک محدود رہا یعنی سورج اور آگ میں گرمی ہے پانی اور زمین میں ٹھنڈک ہے اسی طرح گوشت گرم اور مقوی ہے اور پھل ٹھنڈے اور تسکین دیتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ آج بھی عوام کو رہے ایک طرف اچھے اچھے شہری بھی اشیاء کے خواص بیان کرتے ہوئےگرم سرد اور خشک وترسے زیادہ اور کچھ نہیں جانتے اور کچھ نہیں سمجھ سکتے۔ ان کا علم بھی سنا سنایا اور اکثر غلط ہوتا ہے

زمانہ قدیم میں علاجات کی اہمیت اس سے زیادہ کچھ نہ تھی کہ کسی نے جو کچھ بتا دیا کرلیا گیا یا کسی چیز کا اتفاقاً علم ہوگیا یا زیادہ سے زیادہ خوابوں سے کچھ آگاہی مل گئی اس کو علاج کا مداوا بنا لیا وغیرہ  وغیرہ۔ انہی معلومات کی پجاری یا تو خود حفاظت کرتے یا کھدواکر بچوں کے گلے میں یا مندروں کے اندر محفوظ رکھتے تھےجو ضرورت کے وقت کام میں لائے جاتے تھےہزاروں سالوں تک یہ سلسلہ چلتا رہانئی نئی معلومات عدم سے وجود میں آتی رہی لیکن یہ سب کچھ خواص اشیاء سے آگے نہ بڑھا اور وہ بھی اٹکل پچو تھا بہرحال ہم اس کو بھی ایک خاص نوعیت کا علاج بھی کہہ سکتے ہیں یہ بھی ایک دور تھا جس نے آنے والے زمانے کے لیے قابل قدر مواد بہم پہنچایا۔

اس دور کے بعد جو دور شروع ہوا ۔ اس کو ہم علمی وعملی اور  سائنٹیفک دور کہیں گے کیونکہ اس دور میں علم خواص الاشیاء یعنی علم الادویہ اور علم الاغذیہ کو بہت حد تک باقاعدہ اور اصول کےتحت کیا گیا۔یعنی ادویات کی کیفیات کا تعین کیا گیا اور ہر مرض کے لئے جدا جدا ادویہ مقرر کی گئیں۔تاریخ اس حقیقت سے تو خاموش ہےکہ اس حقیقت پسندی کی ابتداء کیونکر ہوئی۔ البتہ اس دور میں ہمیں ایسی ہستی نظر آتی ہےجس نے اس فن کی ترقی اور اصلاح میں بے حد سعی کی اس کو ہم صحیح معنوں میں فن کا مصلح، موجد اور بانی طب کہیں گے۔یہ شخص قبل مسیح پیدا ہوا اور حکیم بقراط(Hippocrates)کے نام سے شہرت حاصل کی۔شاید اس لئے  تاریخ دان اس کے سر پر سہرا رکھتے  ہیں کہ یہی پہلا شخص ہے جس نے طب کو علمی و فنی اور باقاعدہ صورت دی اور کتابوں میں بند کیا۔ یہ شخص یونان کا رہنے والا تھا۔ اس دور میں کیفیات ادویات کے ساتھ ساتھ امراض کو اخلاط کی کمی بیشی اور خرابی کے ساتھ تطبیق دے دیا گیا۔پتہ  چلتا ہے کہ بقراط علم الادویہ سے خوب واقف تھا۔اور وہ ان کے بالمثل خواص سے بھی فوائد حاصل کرلیتا تھا۔

اس کے بعد ایک زبردست دور شروع ہوا جب یونان میں علم و فن کا زبردست چرچا ہوا اور اس خاک سے قابل قدر اور مایہ ناز طبیب پیدا ہوئے۔ جنہوں نے شاندار کارنامے سر انجام  دئیے اس فن کی عمارت کو بقراط کی بنیادوں  پر لیکن بہت حد تک ترقی کے ساتھ مکمل کرنے کی کوششیں کی گئیں۔

اس کے بعد “حکیم جالینوس” امام طب شمار کئے جاتے ہیں۔ اس دور میں علم الادویہ کے مزاج مقرر کئے گئے۔ ان کے درجات مقرر کئے گئے۔ اخلاط کے ساتھ ان کو تطبیق دے دی گئی۔ یہ سب اتنے بڑے کارنامے ہیں جو رہتی دنیا تک یادگار رہیں گئے۔ شاید اسی لئے اسلامی دور میں بھی اس علم و فن کانام نہیں بدلا۔ اب تک اس کو طب یونانی کہتے ہیں۔حقیقت میں یہ کوئی چھوٹا کام نہیں ہےکہ ادویہ کو اخلاط کے ساتھ تطبیق دے دی جائے۔ آج بھی ان کے اصول بہت حد تک صحیح ہیں اور اکثر ادویہ کے خواص و علم وہی معلوم ہوتے ہیں جو ہزاروں سال قبل مقرر کئے گئے تھے۔

اس دور کے بعد اسلامی زمانے میں طب یونانی کی عمارت کو تکمیل تک پہنچا کر اس پر رنگ و روغن کیا گیا۔ یعنی خواص الاشیاء میں ترمیم و تنسیخ کی گئی۔ بعض ادویات کے مزاجوں اور درجات پر بحثیں کی گئیں۔ علم الادویہ میں جو جدتیں ہوئیں وہ قابل قدر اور شاندار ہیں یعنی ہر دوا اور غذا کے افعال و اثرات اور خواص کی پوری پوری تحقیق، ان کی شناخت بلکہ تصاویر تیار کی گئیں۔ دستیاب ہونے کے مقام، موسم، حفاظت کے اصول، ان کی تیاری کے طریقے، نسخہ نویسی، مرکبات، مجربات، اکسیرات اور زہروں کے تریاقات پر بڑی بڑی طویل کتب لکھی گئیں۔ مفردات کے علاوہ مرکبات اور دوا سازی پر بھی جدا جدا کتب لکھی گئیں۔ بے شمار قرابادینیں آج بھی ان کی تحقیقات کا شاہد ہیں۔ لطف کی بات یہ ہے کہ ان کے مقرر کئے ہوئے خواص اور اصول آج بھی ہمیں فائد ہ پہنچا رہے ہیں۔ بے شک آج کچھ نظریات بدل چکے ہیں لیکن جن قوانین اور اصول پر انہوں نےطب کو قائم کیا انہوں نے اس کو انتہائی کمال تک پہنچا دیا تھا۔ اس دور میں شیخ الرئیس بوعلی سینا اور حکیم رازی کو امامت کا درجہ دیتے ہیں۔

یونانی اور اسلامی دور میں زہروں سے بہت حد تک اجتناب برتا گیا لیکن ہند میں آیورویدک نے دل کھول کراس کی داد دی۔آیورودیک کا علم الادویہ یونانی علم الادویہ زیادہ بہتر اور کامیاب ہے۔ اس میں ادویہ کے خواص پر زیادہ چھان بین کی گئی ہے۔لیکن افسوس اس کا علم الادویہ، تتوں ، پرکتیوں اور دوشوں سے آگے نہیں بڑھا۔ یعنی انہوں نے تمام آیورویدک  میں ادویات اور اعضاء کے تعلق کو کہیں بیان نہیں کیا۔ یہ تو انہوں نے ضرور بتا دیاکہ دوش کہاں پیدا ہوتے ہیں۔کس کس عضو میں چلے جاتے ہیں۔  اسی طرح یہ بھی بیان کر دیاکہ وایوکا اثر  دخل کہا ں کہاں ہے، پت کا چنچل پن کیا رنگ لاتا ہے اور کف کے اثرات کیا کیا ہیں وغیرہ وغیرہ۔ مگر افسوس ہے کہ ادویات کو امراض سے تطبیق دینے کی کوشش اور ادویات کو بالاعضاء بالکل نہیں کیا گیاہے۔ اس لئے ان کے خواص الاشیاء میں کسی حد تک کیمیائی اثرات تو نظر آتےہیں، مشینی اثرات کا کہیں پتا نہیں چلتا۔ اس لئے بالفعل اثرات نہ ہونے سے علم الادویہ محدود ہو گیا ہےاور بعد کے زمانے میں بھی صاحب علم، اہل فن اورباکمال ہستیوں نے نہ اس ضرورت  کو سمجھا اور نہ اس کی اصلاح کی۔ اس وجہ سے اس کا ارتقاء علم و فن ختم ہو گیا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے جدید کتب میں طب یونانی اور فرنگی طب کے خواص الادویہ نظر آتے ہیں۔ یاد رکھیں جب کوئی علم و فن اپنے اصول و قوانین چھوڑ کر دیگر علوم و فن کے اصول و قوانین قبول کر لیتاہے تو اس کا اپنا فن برباد اور فنا ہو جاتا ہے۔ یہی انتہا ہے جس سے فلاح و ارتقاء ختم ہو جاتا ہے۔

ہمیں اس سے انکار نہیں ہے کہ ویدک، یونانی  اور اسلامی دور میں علم الادویہ پر زبردست کام کیا کیا۔ہزاروں ادویات شامل کی گئیں، بڑے بڑے اصول مقرر کئے گئے۔ اگر ان ادوار میں یہ کوششیں نہ ہوتیں تو آج فن اس بلندی پر نہ ہوتا۔ جو کچھ انہوں نے کیا وہ تمام جان جوکھوں میں ڈال کر کیا۔ شب و روز کی محنت سے نہ صرف فن علم الادویہ بلکہ اس کے کئی شعبوں کو تکمیل تک پہنچایا۔ مگر افسوس کہ بعد کے آنے  والی نسلوں نے نہ تو اس سے کماحقہ استفادہ کیا اور نہ آئندہ تحقیق و تدقیق کا سلسلہ قائم رکھا۔ جس سے یہ روز بروز تنزل کی طرف چلا گیا۔

یہ قانون قدرت ہے کہ جب کوئی قوم اصول و تمدن و معاشرت اور قانون سیاست و زندگی چھوڑ دیتی ہے اور انا وقت بجائے جدوجہد کے آرام کوشی  اور عیش پرستی میں صرف کرتی ہےتووہ قوم روز بروز نگہبت کی کھائیوں میں گر پڑتی ہے۔ یہاں تک کہ تحت الثریٰ تک پہنچ جاتی ہے۔ اس وقت کوئی دوسری قوم اس کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھا کراس کو اپنا غلام بنا لیتی ہے۔ پھر غلام قوم کا اپنا نہ علم رہتا ہے نہ فن، بلکہ آہستہ آہستہ  اس کی یہ ذہنیت بن جاتی ہے کہ اپنے حقائق چھوڑ کر حاکم قوم کے لٹریچر، آرٹ اور سیاست کو صحیح اور بہترین شے تصور کرنا شروع کر دیتی ہے۔

مشرقی اقوام کی کمزوریوں اور ناچاکیوں سے ناجائز فوائد حاصل کرکے مغربی اقوام نے ان پر قبضہ کر لیا اور مشرق کا کوئی ایسا ملک نہیں تھا جس پر ان کا بالواسطہ یا بلاواسطہ قبضہ نہ ہو گیا ہو۔ ساتھ ہی انہوں نے مشرق کی دولت اور خزانوں کے ساتھ ساتھ مشرقی علوم و فنون کے خزانے خالی کر دئیے اور جو کچھ بچا اس کو جلا کر خاک کر دیا اور ساتھ ہی ان تمام ممالک میں اپنی تجارتی منڈیاں قائم کر دیں۔ ان کی حکومت کی وسعت کا یہ عالم تھا اس میں سورج کبھی غروب نہیں ہوتا تھا لیکن ان کے ظلم و استبداد نے ان کی حکومت کی جڑیں کھوکھلی کر دیں اور ساتھ ہی مشرقی اقوام بیدار ہو گئیں اور مسلسل جدوجہد اور کوشش سے تمام مشرق کو مغرب سے خالی کرا لیا مگر ابھی تک مغربی ذہن مشرق میں کار فرما ہے۔ امید ہے بہت جلد یہ ذہن بھی ختم ہو جائے گا۔

مغرب نے  جس ذہن سے اقوام مشرق کو قابو کر رکھا ہے اس کا نام سائنس رکھا ہے۔ سائنس کو ایک خوفناک دیو کی شکل میں پیش کیا ہے۔ لیکن حقیقت میں سائنس کوئی خوفناک شے نہیں ہے بلکہ تجرباتی اور مشاہداتی علم کا نام ہے۔ یہ کوئی بُری شے نہیں ہے لیکن مغرب کا یہ ظلم ہے کہ صرف اپنی بات کو سائنس کہتا ہے اور دنیا بھر کی کسی حقیقت اور قانون فطرت کو تسلیم کرنا تو کیا وہ سننا بھی گوارا نہیں کرتا۔ لیکن وہ دن بھی انشاء اللہ جلد آئے گا کہ وہ مسلمہ حقائق اور فطری قوانین کے سامنے سر جھکا دے گا۔ طوالت کی وجہ سے واقعات کو نظر انداز کر دیا ہے۔مغرب نے جو سائنس پیش کی ہےہم اس کی قدر کرتے ہیں یہ ایک معیاری علم و فن ہےاس سے ہم کسی شے اور عمل کےحسن و قبح کو پرکھ اور سمجھ سکتے ہیں اور اسی کی مدد سے ہم فرنگی طب کے صحیح اور غلط ہونے کے اندازہ کر سکتے ہیں۔ ہم نےاس کی روشنی میں فرنگی طب کا مطالعہ کیا ہےلیکن افسوس اس کی اپنی سائنس ہی اس کو غیر اصولی اور غیر علمی ثابت کرتی ہے۔ اس لئے ہم نے اس پر ایک کتاب “فرنگی طب غیرعلمی اور غلط ہے” لکھی ہے چونکہ یہاں بحث تحقیقات ادویہ پر ہے اس لئے فرنگی علم الادویہ کی تحقیقات پیش کی جاتی ہیں۔

فرنگی طب یا سائنس نے آیورویدک اور طب یونانی کی تحقیقات کے خلاف یہ ثابت کیا ہے کہ تت اور ارکان پانچ یا چارنہیں ہیں بلکہ تقریباً ایک سو دس ہیں اور ہر عنصر(Element) مرکب نہیں ہے۔ ادویہ کا چار اخلاط کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ چار اخلاط میں صرف خون ہی ایک ایسی خلط ہےجو بارہ چودہ عناصرسے مرکب ہے۔ کسی دوا کا مزاج تسلیم نہیں کیا۔ بلکہ ان کی گرمی سردی سے انکار کر دیا اور ادویہ کے خواص بالخاصہ تسلیم کئے گئے۔ البتہ ادویات کے اثرات کو اعضاء پر تسلیم کیا گیا مگر امراض کی تحقیقات میں جب سے جراثیم کی تحقیقات ہوئی ہے اس وقت سے جراثیم کش ادویات کی تلاش اور ریسرچ میں دن رات ایک کرکے ان کی خصوصیات جداجدا بیان کی گئیں۔ ادویات کے الکلائڈ تیار کئے گئے۔ ایک ایک دوا کو پھاڑ کر دس دس بلکہ بیس بیس الکلائڈ نکالے گئے۔ ہر ایک کے علیحدہ علیحدہ فوائد بیان کئے گئے۔ پھر ان کو  ملا کر عجیب و غریب کیمیائی مرکبات تیار کئے گئے۔ غرض خواص الاشیاء میں انتہا تک کام کیا گیا۔ جہاں تک رفع امراض کا تعلق ہےخاطر خواہ نتائج نہ حاصل ہوئے بلکہ نئے امراض پیدا ہو گئے۔

ایلوپیتھی (علاج بالضد) کے برعکس یورپ ہی کے ایک ڈاکٹر نے جس کا نام کرسچن فریڈرک سیمویل ہانمن(1542-1755) تھا۔ ہومیوپیتھی (علاج بالمثل) کا قانون پیش کیا۔اس نے تحقیق کیا کہ ادویہ جوعلاج بالضد کے قانون پر دی جاتی ہیں ان میں خرابیاں ہیں۔(1)۔ اگر کسی کوصحیح دوا بھی دے دی جائے تو ضروری نہیں کہ مرض رفع کر دے لیکن اس کے مقابلے میں اس دوا کےنقصانات جو دیگر اعضاء پر ہیں وہ اس کے فائدے سے بہت زیادہ ہیں، اگر دوا صحیح نہیں تو پھر مریض پر انتہائی ظلم ہے۔(2)۔ دوا کی مقدارجس قدر زیادہ ہوگی  اسی قدر زیادہ مریض کی زندگی کو اجیرن بنا کر موت کی طرف دھکیل دے گی۔(3)۔ آج تک جو خواص الادویہ معلوم کئے گئے ہیں وہ مریضوں پر تجربات کئے گئے ہیں اور تندرست لوگوں کو کھلا کران کے اثرات کو نوٹ نہیں کیا گیا۔(4)۔ جسم انسان کے چند غیر طبعی افعال کو روکنے کی کوشش کی گئی ہے لیکن چھوٹی چھوٹی اور نہایت ضروری علامات کو نہ دیکھا اور نہ سمجھا گیا اور نہ ہی  ان کو رفع کرنے کی کوشش کی گئی وغیرہ وغیرہ۔ڈاکٹر ہانمن نے اپنے ہزاروں تجربات کے بعد ثابت کیا کہ ادویات کو بالضد کی بجائے بالمثل مگر قلیل مقدار میں استعمال کرانا چاہیے۔ وہ اس طرح کہ تندرست انسان میں کوئی دوا جو علامات رونما کردے۔ اگر کسی مریض میں وہ علامات پائی جائیں تو وہی دوا اصول کےساتھ اس مریض کو دی جائے۔ ایک تو مرض یقینی طور پر رفع ہوگا۔ دوسرے ہمیشہ کےلئے مرض دور ہوگا۔ تیسرے مریض کے اندر کوئی نیا مرض پیدا ہوگا۔ چوتھے اگر دوا غلطی سے صحیح نہ بھی دی گئی ہو تو نقصان کا اندیشہ نہیں۔ اس پر طرہ یہ کہ ادویات کی مقدار قلیل اور ذائقہ شیریں۔ ہر شخص بلکہ بچے اور عورتیں بھی بغیر حیل و حجت کھانے کو تیار ہیں۔ وغیرہ وغیرہ۔

یہ تھا ایک زبردست انقلاب جو علم الادویہ میں پیدا کیا گیا اور تقریباً ہر دوا کے خواص اسی طرح تندرست انسانوں پر تجربہ کرکے معلوم کئے گئے۔ ہزاروں جانیں تلف ہوئیں لیکن دنیا میں خواص الادویہ کا ایک نیا نظام قائم کر دیا گیا جس سے روزانہ ہزاروں لوگوں کو شفا ہونے لگی۔ اب تک یہ سلسلہ جاری ہے کوئی شک نہیں کہ خواص الادویہ کا یہ قانون قابل قدر ہےلیکن اس میں یہ دقت ہے کہ ہر دوا کی تمام خصوصاً چھوٹی چھوٹی علامات کا ذہن میں حاضر رکھنا ضروری ہےاور سب سے مشکل امر یہ ہے کہ ایک ایک علامت بے شمار ادویہ میں پائی جاتی ہے جس سے دوا تجویز کرنے میں سخت پریشانی ہوتی ہے۔ بہرحال یہ علم الادویہ ایلوپیتھی سے بدرجہا بہتر اور مفید ہے۔ (الکوحل اور شوگر آف ملک کے کم ازکم مقدار میں استعمال کرنے سے کئی امراض خبیثہ جنم لیتے ہیں اوریہ دونوں ہومیوپیتھی کے جزواعظم ہیں ، اس لئے ہومیوپیتھی ایک اصلاح طلب طریق علاج ہے۔ ایڈیٹر)

خواص الادویہ کے متعلق استاد الاطباء حکیم احمد دین موجد طب جدید شاہدرہ نے ایک خاص نظریہ پیش کیا اگرچہ وہ جدید تو نہیں ہے لیکن وہ ایک قانون کی حیثیت ضرور رکھتا ہے اور ایک حقیقت کا اظہار ہے، جس کا اختصار یہ ہے کہ دنیا کے تمام طریق علاج امراض کی حقیقت بیان کرنے میں مختلف نظریات رکھتے ہیں مگر آخر کار ان کا تعلق اعضاءکی خرابی کے ساتھ جوڑ دیتے ہیں اور تسلیم کرتے ہیں کہ جب تک اعضآء کے افعال میں کمی بیشی واقع نہ ہو تو امراض کی صورت پیدا نہیں ہوتی تو پھر خواص الاشیاء کے اثرات کو دوشوں اور اخلاط کی خرابی یا جراثیم کی پیدائش اور روح کے بیمار ہونے میں کیوں تلاش کیا جائے۔ بہتر نہیں کہ خواص الاشیاء کا تعلق سیدھا اعضاء کے ساتھ قائم کر دیا جائے۔ کیونکہ ہر دوا کسی نہ کسی عضو پر اثر انداز ہوتی ہے اور اس کے فعل میں افراط و تفریط یا قوت اور تسکین پیدا کر دیتی ہے۔ اس طرح دوا کے صحیح اور یقینی خواص حاصل ہو سکتے ہیں۔

جہاں تک خواص الاشیاء کا تعلق بالاعضاء ہے واقعی قابل تعریف ہےمگر انہوں نے نمونے کے طورپر کوئی عملی کام پیش نہیں کیا۔ انہوں نے اپنی زندگی میں کم و بیش چالیس ادویہ کے خواص پیش کئے ہیں جو شائع ہو چکے ہیں۔ لیکن اس کی صورت آیورویدک اوار یونانی طب ، ایلوپیتھی اور ہومیوپیتھی کے بالکل مطابق ہے۔ انہوں نے  کہیں بھی یہ نہیں لکھا کہ فلاں دوا کے استعمال سے فلاں عضو کے فعل میں کمی بیشی ہوئی ہے اس لئے فلاں مرض کے لئے مفید ہے۔ البتہ انہوں نے زہروں کو بے تکلفی سے استعمال کرنے کی دعوت دی ہے جو طب یونانی میں گناہ کے مترادف ہے۔ مثلاً سم الفار، بیش اور اذاراقی جیسے خوفناک اور تیز و نقصان رساں زہروں کو بغیر مدبر کئے برتنے کا مشورہ دیا ہے اور تاکید کی ہےکہ مدبر کرنا نہ صرف توہم میں داخل ہے بلکہ ان کے اثرات کو کم اور ضائع کرنا ہے۔ اگرچہ یہ سب کچھ سائنس کی دنیا میں پہلے موجود تھالیکن خواص الاشیاء کے اثرات کو اعضاء کے افعال کے تحت حاصل کرنا فن میں ایک انقلاب کی دعوت تھی۔ یہ انقلاب صرف ایک اشارہ تھا۔ اس میں نہ تفصیلات تھیں اور نہ ہی کوئی کام کا نمونہ تھا۔ طرہ یہ ہے کہ اس میں خوبیاں اور نقصان تھا اس کا کہیں ذکر نہیں تھا۔ بہرحال یہ اشارہ ایک سنگِ میل ہے جہاں پر غوروفکر کی کئی راہیں مل سکتی ہیں۔

جہاں تک نظریہ افعال الاعضاء کے تحت خواص الاشیاء لینے کا تعلق ہےاس میں کئی شکال اور خرابیاں ہیں جن میں سے تین بہت ہی اہم ہیں۔

اعضاء کے افعال کے علاوہ جس میں خون بھی شامل ہے جو ایک مرکب محلول ہےجس پر ہر غذا اور دوا کا اثر ضرور پڑتا ہے جس سے ان میں کیمیائی تبدیلی بھی ضرور پیدا ہوجاتی ہے اس طرح خون کے سارےمرکب اور خاص طور پر دوشوں، اخلاط اور اس میں روح (Vital Force) کار فرما ہے، کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ جب کسی کیفیت، مزاج اور دوش و خلط کی دوا یا غذا استعمال کرتے ہیں تو خون میں ان کا نمایاں اثر پڑتا ہےتو لازم آتا ہے کہ اعضاء کے مشینی افعال کے ساتھ خون کے کیمیائی اثرات کا جاننا بھی نہایت ضروری ہے، جن کے بغیر خواص الاشیاء مکمل نہیں ہو سکتے۔
جہاں تک اعضاء کا تعلق ہے، اعضاء دو قسم کے ہیں۔ ایک مفرد اعضاء جیسے اعصاب و عضلات اور غدد۔ نظریہ افعال الاعضاء کے تحت خواص الاشیاء مرکب اعضاء کے تحت لیے گئے ہیں۔نظریہ افعال الاعضاء کے تحت خواص الاشیاء میں مفرداعضاء کا کہیں ذکر تک نہیں ہے۔اس لئے اس نظریہ سے مکمل خواص الاشیاء حاصل کرنا نہ صرف مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے۔
خواص الاشیاء میں افعال کے صرف دو خیال بیان کئے گئے ہیں، اول افرط یعنی عضو کے فعل میں تیزی جو تحریک سے پیدا ہوتی ہے، دوسرے تفریط یعنی عضو کے فعل میں کمی جو اس کے سکون سے پیدا ہوتی ہے، لیکن اس کے علاوہ ہر عضو کا ایک فعل اور بھی ہے جس کو ضعف کہتے ہیں۔ تسکین اور ضعف میں یہ فرق ہے کہ تسکین سردی سے پیدا ہوتی ہے اور ضعف گرمی سے پیدا ہوتا ہے جو عضو کی جسم میں تحلیل قائم ہوجاتی ہے۔ تحلیل کا ذکر فرنگی طب میں بھی نہیں ہے۔

ان تمام مباحث کا اختصار یہ ہے کہ ایورویدک اور طب یونانی میں خواص ، کیفیات اور مزاج کے تحت لئے گئے ہیں اور ایلوپیتھی اور ہومیوپیتھی میں خواص الاشیاء مشینی اور کیمیائی دونوں صورتوں سے حاصل کئے جاتے ہیں ۔ فرق یہ ہے کہ ایلوپیتھی میں بالضد لئے گئے ہیں اور ہومیوپیتھی میں بالمثل حاصل کئے گئے ہیں ۔ لیکن دونوں میں مفرداعضاء کی بجائے مرکب اعضاء کو مدنظر رکھا گیا ہے۔ اس طرح صحیح اور حقیقی خواص الاشیاء حاصل نہیں ہو سکتے اور علاج میں یقینی اور بے خطا نہیں ہو سکتا۔ اس لئے اس وقت تک خواص الاشیاء غیر یقینی اور نامکمل ہے اور علاج الامراض ظنی بن کر رہ گیا ہے۔

جاننا چاہیے عرصہ تیس سالوں تک خواص الاشیاء پر تحقیقات کرنے کے بعد ، میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ صحیح  اور یقینی و بے خطا خواص الاشیاء اس وقت تک حاصل نہیں ہو سکتے جب تک ان کے اثرات مفرد اعضاء  کے تحت حاصل نہ کئے جائیں اور ان ہی مفرداعضاء  کے عمل و ردعمل کے کیمیائی اثرات کوخون کے اندر مطالعہ نہ کیا جائے۔ ساتھ ہی خون کے کیمیائی اثرات کا اعضاء کے ساتھ تعلق نہ جوڑ دیا جائے اس طرح فعلی (Mechanically) سے خلطی(Chemically) اثرات کا پتا چلتا ہے پھر خلطی سے فعلی اثرات کا پتا چلتا ہے اور دونوں قسم کے اثرات سے ایک ہی قسم کے نتائج حاصل ہوتے ہیں۔ اس تسلسل کو سمجھنے کے بعد صحیح ، یقینی اور بے خطا خواص الاشیاء حاصل ہو سکتے ہیں۔ اس طرح حاصل کئے ہوئے افعال و اثرات خواص و فوائد سے علاج میں ظنی صورتیں ختم ہو جاتی ہیں۔ اس طرح فن علاج پر زبردست دسترس پیدا ہو جاتی ہے۔ صحیح مرکبات اور یقینی و بے خطا مجربات وجود میں آ سکتے ہیں۔ اسی طرح کے خواص الاشیاء کا علم و فن طب میں ایک زبردست انقلاب ہے۔ یہ انقلاب نظریہ مفرد اعضاء اللہ تعالیٰ کا ایک عظیم انعام ہے۔ ہم نے اسی کے تحت خواص الاادویہ اور اغذیہ بیان کئے ہیں۔

صابر ملتانی۔ 15 اکتوبر۔ 1967

تحقیقات علم الادویہ

علم العلاج اور فن معالجات میں علم الادویہ کو جو اہمیت حاصل ہے اس کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس علم کے بغیر علاج  و معالجہ بے کارہو  کر رہ جاتا ہے۔ گویا یہ ایک بہت بڑا رکن ہے۔ اگر اس عمارت کا یہ رکن نہ رہے تویہ عمارت قائم نہیں رہ سکتی۔ حقیقت یہ ہے کہ علاج و معالجہ کی تاریخ اور ابتدا علم الادویہ ہی سےشروع ہوتی ہے۔ جوں جوں تہذیب و تمدن اور ثقافت میں نشوو ارتقاء ہوتا رہا، علم الادویہ کے ساتھ ساتھ علم العلاج اور اس کی دیگر شاخیں علم و فن کی صورتیں اختیار کرتی گئیں۔ گویا علم الادویہ کی حیثیت علاج ومعالجہ میں ام العلوم طب کی ہے۔ان حقائق سے ثابت ہوتا ہے کہ جو لوگ علم العلاج اور فن معالجہ میں کمال حاصل کرنا چاہیں ان کے لئے لازم ہے کہ علم الادویہ کے کلیات و جزئیات اور اثرات و افعال پر مکمل دسترس حاصل کریں۔علم الادویہ جس کی تاریخ ہزاروں سالوں پر پھیلی ہوئی ہے، اب اس میں اس قدر وسعت پیدا ہوگئی ہےکہ وہ سہولت تقسیم کے لئے کئی حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے، جن میں مندرجہ ذیل قابل ذکر ہیں۔

معرفت الادویہ: جس میں ادویات کی پہچان، مقام پیدائش و دستیابی اور موسم کا مطالعہ شامل ہے۔
حفاظت الادویہ: ادویہ کے مؤثراجزا کا حاصل کرنا، خشک کرنا، ان کو محفوظ رکھنا، تازہ ادویہ کے رُب اور روغن وغیرہ تیار کرنا اور ادویہ کی تاثیر کی مدت مقرر کرنا۔
کلیات الادویہ: ادویات کے اثرات و افعال کے اصول اور قوانین کلیہ کا تعین کرنا، ان کی اصطلاحات کا وضع کرنا، کلیات و اصطلاحات کے تحت ادویات کی تقسیم کرنا۔
خواص و فوائد: ادویات کے فعلی و کیمیائی اور بالخاصہ خواص و فوائد، ادویہ کے امزجہ، کیفیات اور درجات۔ امراض جن ادویات مفید ہیں۔
تعین ادویات: ایسے اصول جن کے تحت ادویات کا اعضاء امراض اور علامات کے ساتھ تعین کرنا اور نسخہ نویسی۔
ادویہ سازی: اس میں عرق، شربت، سفوف و حبوب، اطریفل و معجون، لعوق، یاقوتی، جوارش وخمیرہ، اچار و چٹنی، روغن و عطر، جوہر و ست، کشتہ و سوختہ اور تیزابات دیگر کیمیائی اعمال وغیرہ۔

تحقیقات علم الادویہ میں ہم نہ صرف ان تمام شعبہ جات کو مدنظر رکھیں گے بلکہ ان کے ساتھ طب قدیم کے علم الادویہ کو پورے طور پر ذہن نشین کرانے کے ساتھ فرنگی طب کی غلطیاں، خرابیاں اور گمراہیاں بھی بیان کرتے جائیں گے۔ چونکہ اس تقسیم اور شعبہ جات میں اہم حصہ کلیات الادویہ کا ہے، اس لئے اول اس پر اپنی تحقیقات پیش کی جاتی ہیں۔

کلیات الادویہ

علمی حقائق میں کلیات کو بے حد اہمیت حاصل ہے۔ کیونکہ ان کے تحت ایسے قوانین و قاعدے اور اصول ترتیب پا جاتے ہیں جن کا استخراج و استنباط اور قیاس سے ہزاروں جزئیات نہ صرف ذہن نشین ہو تے ہیں بلکہ استعمال ادویہ اور نسخہ نویسی میں بے حد آسانیاں پیدا ہو جاتی ہیں۔ کلیاتِ ادویہ میں سب سے اہم صورت ان کی تاثیرات و کیفیات اور امزجہ و درجات الادویہ کاجاننا ہے۔ ان کے تعین کے بعد ہی ادویات کے افعال و خواص پر یقین کیا جاسکتا ہے۔ جو لوگ علم الادویہ سے واقف نہیں ہوتے وہ کتب میں سے تاثیرات و افعال، خواص و فوائد اور کیفیات اور امزجہ کے متعلق معلومات حاصل کر سکتے ہیں اور سمجھ سکتے ہیں، لیکن تعین ادویات اور نسخہ نویسی   میں ان کو  مکمل دسترس حاصل نہیں  ہو سکتی کیونکہ اس علم سے جو تربیت “حکم اور حدث” کی پیدا ہوتی ہے وہ صرف جان لینے سے پیدا نہیں ہوتی بلکہ علم و فن میں کلیات و جزئیات کے جاننے کے بعد ہی حاصل ہوسکتی ہے۔

جاننا چاہیے کہ علم و فن طب کو حکمت اور اطباء کو حکماء کے نام صرف اس لئے دئیےجاتے ہیں کہ اس علم و فن غوروخوض اور سوچ و فکر بہت زیادہ ہے اور جب تک اطباء میں غوروفکر کا ملکہ پیدا نہ ہو وہ حکیم کہلانے کا مستحق نہیں ہو سکتا۔ حکیم کو ہر قدم پر منٹ منٹ کے بعد غوروفکر کرکے کلیات سے جزئیات اور جزئیات سے کلیات قائم کرنے پڑتے ہیں۔ اسی طرح ہر تصور کی تصدیق کرنی پڑتی ہے، جو لوگ یہ خیال کریں کہ جو دوا یا نسخہ یا مقدار و خوراک لکھ دئیےگئے ہیں ان کو بغیر غوروفکر کے استعمال کرلیا جائے یہ صحیح نہیں ہے۔ کیونکہ مریض کے مزاج و عمر، ماحول و مقام، موسم، آب و ہوا اور مرض کی شدت و خفت کے لحاظ سے دوا اور مقدار میں کمی بیشی اور طریق استعمال میں اختلاف کرنا لازمی ہے۔ اسی طرح نسخہ نویسی اور تجویز ادویات کے وقت بھی ہزاروں ادویات میں سے کسی ایک یا چند پر صحیح طور پر حکم لگانا ہی حکمت ہے۔ علم کلیات الادویہ سے ہی یہ حکم و حدیث اور کمال پیداہوتا ہے۔

ادویات کے اثرات و افعال

خالقِ زندگی اور کائنات نےاس دنیا میں اس قدر اشیاء پیدا کی ہیں کہ ان کا شمار بالکل ناممکن ہے۔ ہم نے ان کو موالیدِ ثلاثہ (جمادات، نباتات اورحیوانات) کی قید میں بند کر دیا ہے۔ لیکن پھر ان  کی اس قدر اقسام ہیں کہ ان کا قلم بند کرنا انتہائی مشکل ہے۔ لیکن حکیمِ مطلق نے انسان کو ایسی قوت اور قدقرت عطا کی فرمائی ہے کہ وہ  نہ صرف ان تمام کے خواص و فوائد معلوم کرلیتا ہے بلکہ ایسے اصول وقوانین اور کلیات تیار کر لیے ہیں کہ جن کی مدد سے موالیدِثلاثہ کی بے شمار تقسیم در تقسیم اقسام کو بھی جان لیتا ہے اور ان کے خواص وفوائد پر پورے طور پر  حاوی ہو جاتا ہے۔

انسان کی زبردست قوتیں

انسان کے اندر قدرت نے جو غیر معمولی قوتیں رکھی ہیں جہاں تک میرا مطالعہ اور معلومات ہیں ، میں دعوی ٰ سے کہہ سکتا ہوں کہ ان قوتوں کے متعلق ابھی تک انسان کوپورا علم نہیں ہے کہ یہ قوتیں کیا ہیں اور کیسے پیدا ہوتی ہیں اور ان میں کون کون  سے اعضاء کام کرتے ہیں بلکہ اگر یہ کہا جائےکہ انسان کا تصور ان کے متعلق بے حد تک غلط ہے۔ جہاں تک ماڈرن سائنس کا تعلق ہے وہ تو ان کی حقیقت سے بالکل بے خبر ہے۔

احساس و ادراک اور قیاس

انسان کی زبردست قوتوں میں سے احساس و ادراک اور قیاس تین خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ احساس اور ادراک کو ایک ہی معنوں میں استعمال کیا گیا ہےبلکہ بعض لوگ تو قیاس کو بھی انہی کے ساتھ استعمال کرلیتےہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان میں بہت زیادہ فرق ہے۔ بلکہ اس قدر فرق ہے ۔جیسے زمین و آسمان میں فرق ہے۔ گویا ایک دوسرے سے بالکل جدا معنی دیتے ہیں۔ اس امر میں کوئی شک نہیں ہے کہ کہ ز بان میں معنی کا تعین انسان کا ذاتی کیا ہوا ہے۔لیکن جو ماہر لسانیات ہیں وہ خوب جانتے ہیں کہ ہر معنی کے بیان اور تعین میں مناسبت اور سلسلہ کا تعلق ضرور ہوتا ہے اور جب کبھی اس سلسلہ کی کڑیاں ملائی جاتی ہیں تو حقیقت معلوم کرکے بے حد حیرت ہوتی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ الفاظ کے ہیر پھیر(صَرف) میں بڑی قوت ہے۔ جب کسی لفظ کا مادہ نکال کر اسی کی کئی کئی ممکن صورتیں بنائی جاتی ہیں تو ہر صورت اپنے اندر ایک جدا قوت رکھتی ہے۔ الفاظ میں اس طرح کے ہیر پھیر تو تقریباً ہر بڑی زبان میں پائے جاتے ہیں لیکن عربی زبان میں یہ خزانہ بہت زیادہ ہے۔ دل تو یہ چاہتا تھا کہ  الفاظ کے ہیرپھیر اور طاقت پر کچھ روشنی ڈالی جاتی۔ لیکن طوالت مدنظر اس کو نظر انداز کرتے ہیں اور ذیل میں احساس و ادراک اور قیاس کی قوتوں کو بیان کیاجاتا ہے۔

احساس و ادراک اور قیاس کا فرق

بادی النظر میں تینوں الفاظ کے معنی علم اور جاننا ہے لیکن حقیقت میں ان الفاظ سے حصول علم اور جاننے کے طریق میں اتنا فرق ہے کہ جب تک انسان ان کی حقیقت سے واقف نہ ہو ان سے صحیح طور پر استفادہ حاصل نہیں کر سکتا بلکہ ان کے غلط استعمال سے ان کے فوائد سے محروم رہتا ہے۔ چونکہ اکثر لوگ ان کے صحیح معنوں سے واقف نہیں ہوتے اس لئے ان کو ایک دوسرے کی جگہ استعمال کر لیتے ہیں۔ خصوصاً احساس اور ادراک کے معنوں کا فرق بہت کم لوگ جانتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے ان الفاظ میں اس قدر علم و حکمت اور مذہب کے خزانے پوشیدہ ہیں جن کا مقابلہ بہت کم الفاظ سے کیا جاسکتا ہے۔ان کی حقیقت جاننے کے بعد ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے کشف کے پردے اٹھا دئیے گئے ہیں اور نور کے دروازے کھول دئیے گئے ہیں۔ ان الفاظ کو سمجھ لینے کے بعد نہ صرف معنی اور مضمون ہاتھ باندھے نظر آتے ہیں  بلکہ یہ بھی فوراً پتا چل جاتا ہے کہ ان کا تعلق کس قسم کے علم سے ہے۔ یعنی انسان فوراً اندازہ لگا سکتا ہے کہ حاصل شدہ علم الہامی اور لافانی ہے یا تجرباتی و مشاہداتی ہے یا انسان نے اپنے اجتہاد و ثقافت سے ان کی حقیقت کو پا لیا ہے۔ اگر انسان انہی الفاظ کے اصول اور تعین پر غوروفکرکرے تو الفاظ کی حقیقت کی ایک اچھی بھلی تاریخ بن سکتی ہے اور سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ انسان نبوت اور بشریت کے  علوم کا فرق کر سکتا ہے۔ کیونکہ علم بشریت، تجربات و مشاہدات اور اجتہاد و ثقافت سے آگے نہیں بڑھ سکتا لیکن علم نبوت الہامی و لدنی  اور وجدانی ہوتا ہے۔

احساس و ادراک اور قیاس کے متعلق یہ تعارف اس لئے کرایا ہے کہ انہی کی وساطت سے نہ صرف علم الادویہ میں تحقیقات ہو سکتی ہیں بلکہ زندگی و کائنات اور مابعد الطبیعات کی حقیقت سے بھی آگاہی ہو سکتی ہے۔ اسی کے ذریعے انسان نفسیات اور روحانیات کی منزلیں آسانی سے طے کرسکتا ہے۔ لیکن اس امر کو ہمیشہ مدنظر رکھیں کہ علم و حکمت صرف جاننے سے حاصل نہیں ہوسکتا بلکہ فکر و عمل سے اس پر قبضہ کیا جاسکتا ہے۔ کوئی انسان اس وقت تک صحیح معنوں میں عالم وفاضل اور حکیم و طبیب نہیں بن سکتا جب تک و یقین و فکر اور عمل کا جذبہ و استعداد پیدا نہ کرے۔ صرف علم بغیر عمل  و فکرکے بے معنی ہے اور جلد ضائع ہونے والا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہزاروں علماء و فضلاء  اور حکماء اطباء میں حقیقت شناس صرف انگلیوں پر گنے جاتے ہیں۔ سچ تو یہ کہ علم و فن اور حکمت کا حق بھی وہی ادا کرتے ہیں۔

علمی دنیا میں ایک نیا راز

علم و حکمت اور جاننے پہچاننے کے متعلق آج تک یہ سمجھا جاتا ہے کہ ان کا تعلق دماغ اور اعصاب کےساتھ ہے لیکن ایسا نہیں ہے۔ بلکہ علم و حکمت اور جاننے پہچاننے میں جس قدر دماغ و اعصاب کا ہے اسی قدر تعلق دل و جگر کا بھی ہے۔ کیونکہ تحقیقات سے پتا چلتا ہے کہ جاننے کا تعلق اگر دماغ کے ساتھ ہے تو سمجھنے کا تعلق دل کے ساتھ ہے اور فائدہ اٹھانے کا تعلق جگر کے ساتھ ہے ۔ یہ سارے اسرار و رموز احساس و ادراک اور قیاس میں پنہاں ہیں جن کا ہم تفصیل سے ذکر کریں گے تاکہ انسان حقیقت اشیاء سے پورے طور پر آگاہ ہو جائے۔ جس سے وہ دنیائےعلم و حکمت اور مذہب کی خدمت کر کے ا س میں انقلاب پیدا کر سکتا ہے۔

احساس کی حقیقت

احساس سے ایسا علم حاصل ہوتا ہے جو ہمیں حواس خمسہ ظاہری سے پہنچتا ہے۔ یعنی دیکھنا، سننا، چکھنا، سونگھنا اور چکھنا۔ جو حواس خمسہ ظاہری ہیں ان سے جو معلومات اور علم حاصل ہوتاہےوہ سب ہمارے احساسات ہیں۔ ہمارے تجربات و مشاہدات اور کتب کے پڑھنے سے جو علوم حاصل ہوتے ہیں یہ سب احساس کے ذریعہ حاصل ہوتے  ہیں۔ اگرچہ ان میں ایسے علوم کی شمولیت بھی ہوتی ہے جو ہم ادراکات سے حاصل کر چکے ہیں۔ لیکن فی الوقت تجربہ و مشاہدہ اور پڑھنا احساس میں شامل ہوتاہے۔ مثلاًقرآن حکیم اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اور وحی کے ذریعہ نازل ہوا ہے اورحدیث شریف کلام الہی کی حکمت کا اظہار اور الہام ہے۔ لیکن ایسی کتب جن میں  زندگی کے تجربات اور مشاہدات کاذکر ہو، آیات اور حدیث میں لکھی ہوں تو ان کو پڑھنا بھی ہمارے  احساس کے تحت ہو گا۔ گویا ہماری تہذیب و تمدن، علم و حکمت اورتجربات و مشاہدات اور اخلاق و سیاست سب کچھ مذہبی رنگ میں رنگے گئے ہیں اور یہی ہماری ثقافت اور کلچر ہیں۔ لیکن یہ  یاد رہے کہ وحی، الہام، وجدان اور لدنی علوم بذاتِ خود کبھی احساس کے ذریعے حاصل نہیں ہو سکتے ان کو صرف ادراک ہی کیا جا سکتا ہے۔

ادراک کی حقیقت

ادراک سےایسا علم  حاصل ہوتا ہےجو حواس ِ خمسہ باطنی سے حاصل ہوتا ہے (جس کی تفصیل آگے آئے گی) اسے نطق اور نفس ناطقہ بھی کہتے ہیں۔ اسی کو مجازاً روح انسانی کہا جاتا ہے۔ دراصل ترقی یافتہ صورت بھی نفس مطلق ہی انسان میں نفس ناطقہ کہلاتی ہے اور ادراک نفس ناطقہ کی دو قوتوں میں ایک  قوت ہے۔ دوسری کو قوت تحریک کہتے ہیں۔ نفس ناطقہ ایک جوہر بسیط ہے جس کی حکومت انسان کے تمام قویٰ اور اعضائے جسمانیہ پر ہے۔ وہ مدرک عالم ہے اس لئے عرض نہیں ہے کیونکہ کسی عرض کا دوسرے  عرض کے ساتھ قیام ایک ایسا امر ہے کہ عقل سلیم اسے تسلیم کرنے سے قاصر ہے۔وہ مدرک کلیات ہےاس لئے اس کو جسم یا جسمانی نہیں کہا جا سکتا  کیونکہ کلی اگر کسی جسم میں قائم ہوتو پھر اس کی کلیت قائم نہیں رہتی اور وہ محدود ہو جاتا ہے۔

انسان کو ایک ایسی خاصیت حاصل ہے جو دیگرموجودات کو حاصل نہیں ہے۔ اس کو نطق کہتے ہیں اس لئے وہ ناطق (Speaker) کہلاتا  ہے۔ ناطق سے مراد نطق بالفعل نہیں ہے کیونکہ جو آدمی گونگا ہو گا اس میں نطق بالفعل نہ ہوگا۔ بلکہ نطق سے مراد ادراک علم ومفعولات اور قوت تمیز ہے جس سے جسم انسان میں بالواسطہ قویٰ اور آلات تصرف اور تدبیر عمل میں آتی رہتی ہے لیکن ہم اس کو اپنے کسی احساس سے محسوس نہیں کر سکتے یہی نفس ناطقہ ہے جس سے انسان کو فضیلت اور شرف حاصل ہے اور اسی لئے اس کو اشرف المخلوقات کہتے ہیں۔یہی فضیلت اور شرف جب اپنے کمال پر ہوتا ہے تو مقام نبوت اور جب ختم نبوت ہوتی ہے تو حسن جمال اور حکمت و عقل اپنے انتہا پر ہوتی ہے۔ یہی ادراک ہے جو ادنیٰ شخصیت سے لے کر ختم نبوت تک اپنے اپنے مقام پر نورو معرفت اور علم وحکمت کو سمجھتا ہے، علم و عقل دونوں مختلف چیزیں ہیں۔ کسی شخص میں عقل زیادہ ہوتی ہے اور کسی میں علم زیادہ ہوتا ہے۔ہر شخص میں دونوں کا توازن بالکل مشکل ہے۔ صرف نبوت اور خصوصاً ختم نبوت میں علم و عقل کا نہ صرف کمال ہوتا ہے بلکہ انتہائی توازن ہوتا ہے۔ بس اس حقیقت کو لازم کر لیں کہ جو علم ادراک سے حاصل ہوتا ہے، وہ کسی احساس سے نہیں ہو سکتا۔ اس لئے صرف تجربہ ومشاہدہ اور عقل کی لِم و حکمت میں کوئی حیثیت نہیں ہے۔ علم و حکمت کے حصول کا بہت بڑا ذریعہ ادراک اور نبوت ہیں، جن میں وجدان، الہام، وحی اور علم لدنی حاصل ہوتا ہے۔

قیاس کی حقیقت

قیاس سے ایک ایسا علم حاصل ہوتا ہےجس سے احساس اور ادراک کی روشنی میں اندازہ لگایا یا گمان کیاجاتا ہے۔ یہ علم ایک قسم کی اٹکل اور اندازہ ہے۔ اس کی پوری پوری مطابقت(Accuracy) حاصل نہیں ہوتی۔ لیکن یہ بھی ایک اندازِ علم ہے۔ جس سے ایک چیز کو دوسری چیز کے مقابل کرکےا ندازہ لگا کر ان میں برابری پیدا کی جاتی ہے۔دراصل فکر اسی علم سے پیدا ہوتا ہے اور عقل اسی سے جلا پاتی ہے۔ اسی علم کی روشنی میں ہم حکم لگاتے اور فیصلے کرتے ہیں۔ یہ ایک ایسا علم ہے جس کے لئے انبیاء نے اپنے لئے دعائیں کی ہیں۔ رب جعلنی حکم و علم۔ دراصل حکمت اور عدالت کی بنیاد اسی علم پر ہے۔ چونکہ دونوں کا شرف  و فضیلت مسلمہ ہے اس لئے علم قیاس کی اہمیت واضح ہے۔

اسلام میں قیاس کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ مذہبی حیثیت سے کسی مسئلہ کے بارے میں جب کتاب و سنت اور اجماع امت میں کوئی فیصلہ نہ ملے تو فقہا اپنی عقل اور رائے کو کام میں لاکربقید شرائط مخصوص جو حل معلوم کریں اسے قیاس کہتے ہیں۔ دنیاوی حکومتوں کے قوانین بھی اسی قیاس پر بنتے ہیں اور عدالتوں کےفیصلے بھی اسی پر ہوتے ہیں۔ علم طب میں امراض کی تشخیص و تجویز اور ادویات کے افعال و اثرات اسی کے مطابق متعین اور مقرر کئے جاتے ہیں۔ فلسفہ کی یہ جان ہے۔ منطق میں ہر تصور کی تصدیق اسی سے عمل میں آتی ہے۔ گویا احساس و ادراک اگر منبع علم ہیں تو قیاس مخزن حکمت ہے۔قیاس دراصل حجۃ (دلیل) کی ایک قسم ہے جو علم منطق میں اقسام در اقسام تقسیم ہو جاتا ہے جن کا ذکر یہاں  غیر ضروری ہے۔ احساس و ادراک اور قیاس کی بالفعل تشریح درج ذیل ہے۔

احساس و ادراک اور قیاس کی بالفعل تشریح

روح انسانی

روح کوئی ایسی چیز نہیں جس کو ہم آنکھوں سے دیکھ اور ہاتھوں سےچھو سکیں، یا اس کو کسی دیگر حس سے معلوم کر سکیں بلکہ جس طرح آفتا ب و مہتاب کو ان کی روشنی سے پہچانا جاتا ہے یا دھویں کو دیکھ کر جان لیا جاتا ہے کہ وہاں آگ روشن ہے یا پرندوں کو اڑتے دیکھ کر اندازہ لگا لیا جاتا ہے کہ اس جگہ پانی ضرور ہوگااسی طرح روح کا علم بھی اس کے مظاہراور آثار کے ذریعہ سے حاصل ہوتا ہے۔

جب انسانی روح ادراک اور نطق سے کام لیتی ہے تو اس کو نفس ناطقہ کہتے ہیں اور جب تزکیہ  و اصلاح ِنفس جسم کی طرف راغب ہوتی ہے تو اس کوقوت مدبرہ بدن کہتے ہیں اور اپنے کمال و ارتقاء کی طرف رجوع کرتی ہے تو اس کو جوہر مجرد کہتے ہیں جس کا تعلق روح کل سے ہوتا ہے جس کو فلاسفہ عقل فعال بھی کہتے ہیں۔ جب کمال ارتقاء حاصل ہوجاتا ہے تو مقام خلافت الہیہ کا ہے جہاں انسان کا مرتبہ ملائکہ سے بھی افضل ہوتا ہے۔ یہ مقام احسن التقویم ہے اور اس طرف توجہ نہیں ہے تو پھر مقام اسگل السافلین ہے۔ یہی روح امر ربی ہے جس کا ذکر ہم نے تحقیقات اعادہ شباب میں کیا ہے۔اسی کو مذہبی روح کہتے ہیں۔(روح کی تشریح و تفصیل طوالت کی وجہ سے چھوڑ دی جاتی ہے)۔

روح طبی

علم و فن طب میں جس روح کی بحث کی جاتی ہے اس کو طبی روح کہتے ہیں۔ طب میں روح ان لطیف بخارات کو کہتے ہیں جو اخلاط کے لطیف حصہ سے پیدا ہوں، جیسے اعضاء اخلاط کے کثیف حصہ سے بنتے ہیں۔ طبی روح کا علم بھی اس کے مظاہر اور آثار کے ذریعہ سے حاصل ہوتا ہے۔ یہ اظہار انسانی نفس اپنے جذبات کے ذریعہ کرتا ہے۔ جس کے ذرائع قویٰ انسانی ہیں جو تین ہیں اس لئے روح طبی جب اپنے افعال انجام دیتی ہے تو اس کی تین صورتیں پیدا ہو جاتی ہیں۔

روح حیوانی جس کا مقام قلب ہے۔
روح طبی جس کا مقام جگر ہے۔
روح نفسانی جس کا مقام دماغ ہے۔

انسانی نفس کے جذبات کا اظہار روح طبعی کے حرکت کی دلیل ہے۔

فرنگی طب روح کے علم سے بے خبر ہے

فرنگی طب اور سائنس میں کسی قسم کی روح کا تصور نہیں ہے۔ ان کےہاں روح کے لئے دو لفظ ہیں۔اول(Soul) جو جوہر کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ دوسرے (Spirit) جو ست کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ان دونوں سے مذہبی روح یا طبی روح کا اظہار نہیں ہوتا۔ نطق  ادراک اورجوہر مجرد کے مظاہر اور آثار تو کہیں دور دور بھی معلوم نہیں ہوتے۔ البتہ وائٹل فورس ایک ایسا تصور ہے جو قوت مدبرہ کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔

جہاں تک روح طبی  اور اس کی اقسام کا تعلق ہے وہ اس کی قائل نہیں ہے اور نہ ہی اس امر کی قائل ہے کہ یہ ارواح جسم انسان میں کچھ افعال انجام دیتی ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس انکار کے برعکس وہ گیسز(Gases)(لطیف بخارات) کے قائل ہیں اور یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ یہ لطیف بخارات خون میں بھی پائے جاتے ہیں جو وہاں پر اہم مقاصد انجام دیتے ہیں۔ ا ن امور سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ تصور طب قدیم سے ان تک پہنچا ہے، ان کا اظہار مختلف قویٰ کی صورتوں میں کیا جاتا ہے۔ جن کے بالمقابل نام یہ ہیں۔

قوتِ طبعی، جو قوت جسم میں غذا اور نشوونما کا کام انجام دیتی ہے اس کو نیچرل فورس(Natural Force) کہتے ہیں او ر اس کا مقام جگر ہے۔
قوتِ نفسانی، جو قوت جسم میں احساسات اور تحریکات کا باعث ہوتی ہے اس کو مینٹل فورس(Mental Force)کہتے ہیں اور اس کا مقام دماغ ہے۔
قوتِ حیوانی ، جو قوت جسم میں حرکات و افعال قائم رکھتی ہے اسے اینیمل فورس(Animal Force)کہتے ہیں اور اس کا مقام دل ہے۔

البتہ یہ جان لینا ضروری ہے کہ دراصل یہ تینوں قوتیں ایک ہی قوت کے تین مظہر ہیں۔ لیکن مقام اور افعال کی مناسبت سے ان کی تقسیم کر دی گئی ہے کیونکہ قدرت نے ہر عضوکے افعال میں اس کی ایک جبلت(Instinct) پیدا کر دی ہے جس پر وہ قائم اور رواں ہے۔

نفس انسانی

`نفس ایک ایسی قوت ہے جو روح اور جسم کے تعلق کو قائم رکھتی ہے جس کا حاصل خون ہے۔ نفس کی تیزی اور سستی سے جذبات میں جو افراط و تفریط پیدا  ہوتی ہے یہ اثرات خون میں نہیں ہیں۔ یہ اثرات ان اعضاءکے افعال ہیں جن میں قوتِ نفس خو ن کی وساطت سے تحریک پیداکرتی ہے۔ نفس کے احساس سے وہاں کے عضو میں تحریک پیدا ہوتی ہےتو قوت مدبرہ وہاں پر خون کو زیادہ یا کم کر دیتی ہے جس سے وہاں کے اعضاء  کے افعال پر اثر پڑتا ہے۔ پھر ان کے افعال کی کمی بیشی کے ساتھ جذبات میں تیزی یا سستی واقع ہو جاتی ہے۔ جاننا چاہیے کہ نفس جب کسی مناسب یا مخالف شے کا ادراک اور احساس کرتا ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ مناسب کو حاصل کرنا اور مخالف سے بچنا چاہتا ہے تو اس وقت اپنی نفسانی قوتوں کو حرکت میں لاتا ہے اور یہ مسلمہ امر ہے کہ نفسانی قوتیں ارواح کے تابع ہیں جن کا حامل خون ہے۔ گویا ارواح خون کی حرکت کے بغیر اور خون نفسانی قوتوں کے بغیر عمل نہیں کر سکتا۔ اسی عمل کا نام نفسانی حرکت سکون ہے۔

یہ ایک بہت بڑی غلط فہمی ہے کہ نفس کا حرکت سکون تسلیم کیا جاتا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ نفس میں حرکت و سکون کبھی پیدا نہیں ہوتا کیونکہ نفس اپنا مقام نہیں بدلتا، یہ مجازاً کہا جاتا ہے۔ جذبات کااظہار تو اعضاء کے افعال  میں افراط و تفریط سے ہوتا ہے اور ہر عضو کے ساتھ چند جذبات مخصوص  ہیں۔ البتہ نفس کے انفعالات  اورتاثرات خون اور روح میں ضرور حرکت پیدا کر دیتے ہیں۔ بالفاظِ دیگر یہ انفعالات اور تاثرات دراصل باعث حرکت ہیں۔ حرکت  و سکون نفسانی  بدن کے لئے ویسا ہی ضروری ہے جیسا کہ حرکت و سکون بدنی کیونکہ بدنی حرکت و سکون کا دارومدار خواہشات اور جذبات نفسانیہ پر ہے۔ مثلاً شوق کے وقت طلب کی حرکت اور نفرت کے وقت فرار کی صورت، غصے کے وقت مقابلےکی حالت اور اسی طرح خوف کے وقت چہرے کا سفید ہوجانا اور جوش کے وقت چہرے کا سرخ ہو جانا۔ یہ کچھ خون اور روح کے زیر اثر ہے۔ اس کے برعکس نفسیاتی سکون کی ضرورت  اس لئے ہے کہ رو ح اور خون کو نسبتاً آرام حاصل ہوتا کہ وہ زیادہ تحلیل نہ ہو۔ نفس کے مظاہر اور تاثرات کا اندازہ اس ہوا و ہوس اور خواہش و جذبہ سےکیا جاسکتا ہے جو کسی عضومیں تحریک کی شدت سے پیدا ہوتا ہے۔ ان کا روکنا ان اعضاء میں سکون کا نام نہیں ہے بلکہ ان کی تحریکات کو سکون کے عضو میں منتقل کرتا ہے۔ یہ سب کچھ ارواح کے قویٰ میں تحریک دینے سے عمل میں آتا ہے۔

قویٰ کی تعریف

قویٰ نفس ناطقہ کی ان تحریکات کو کہتے ہیں جن طبی روح کے افعال صادر ہوں ۔ ان کی تین اقسام ہیں۔1۔ قوت طبعی۔ 2۔ قوت حیوانی۔3۔ قوت نفسانی۔ان سب کی تعریفیں گزر چکی ہیں۔ چونکہ ہم نے احساس و ادراک  اور قیاس کی تشریح بالفعل بیان کرنی ہے اس لئے ہم یہاں صرف قوت نفسانی کی تشریح اور افعال بیان کریں گے۔ قوت طبعی اور قوت حیوانی کی تشریح اور افعال اس مقام پر بیان کریں گے جہاں پر اس کی ضرورت لازم ہو گی تاکہ سمجھنے میں سہولت رہے۔

قوت نفسانی

قوت نفسانی ایک ایسی قوت ہے جو جسم انسان میں احساس، ادراک اور قیاس سے علم و معلومات حاصل کرتی ہے اور ضرورت کے وقت حرکت کے لئے تحریک کرتی ہےاور اس کی ضرورت اس لئے ہے کہ حیوان اور انسان مضر چیزوں سے فرار حاصل کر سکے اور نفع بخش چیزوں کے قریب آسکے۔ یہ ظاہر ہے کہ ان تحریکات کے لئے مفید و مضر باتوں کا احساس و ادراک اور قیاس ضروری ہے اس لئے اس کی اقسام بھی دو ہیں۔ اول قوت مدرکہ (ادراک کرنے والی قوت)دوم محرک (تحریک دینے والی قوت) پھر قوت مدرکہ کی دو قسمیں ہیں۔ اول  مدرکہ ظاہر اور دوم مدرکہ باطنی۔

اقسام مدرکہ ظاہری

قوت مدرکہ ظاہری پانچ ہیں۔ ان کو حواس خمسہ ظاہری(Five Senses) بھی کہتے ہیں۔ ان کا کام یہ ہے کہ یہ باہر کی معلومات دماغ کی اندرونی قوتوں تک پہنچاتے ہیں۔ یہ حواس خمسہ ظاہری حسب ذیل ہیں۔1۔ قوت باصرہ (دیکھنے کی حس)۔2۔قوت سامعہ( سننے کی حس)۔3۔قوت شامہ(سونگھنے کی حس)۔4۔ قوت ذائقہ( چکھنے کی حس)۔5۔قوت لامسہ(چھونے کی حس)۔

اقسام مدرکہ باطنی

قوت مدرکہ باطنی جو پانچ ہیں جن کو حواس خمسہ باطنی بھی کہتے ہیں ایسی قوت ہے جو ایسے تاثرات کا ادراک کرتی ہے جن کوحواس خمسہ ظاہر محسوس نہیں کر سکتے۔ البتہ وہ حواس خمسہ ظاہر احساسات کو محفوظ رکھتی ہے تاکہ بوقت ضرورت ان کو ذہن کے سامنے پیش کرسکے۔ یہ حواس خمسہ باطنی حسب ذیل ہیں ۔

1۔ حسِ مشترک

وہ قوت باطنی ہے جو حواس خمسہ ظاہری کی احساس کی ہوئی چیزوں کو ضرورت کے وقت دوبارہ بغیر ان کی موجودگی کے،  محسوس اور تصور کرتی ہے۔ اس کا مقام مقدم دماغ کا پہلا (اگلا) حصہ ہے۔

2۔ قوتِ خیال

وہ قوت ہے جو حسِ مشترک کے خزانے کا کام کرتی ہے یعنی اس کے تمام احساسات خزانہ خیال میں محفوظ رہتے ہیں۔

3۔ قوتِ متصرفہ

اس کو متخیلہ اور مفکرہ بھی کہتے ہیں۔ ایسی قوت ہے کہ اگر وہ حسِ مشترک کے احساسات کا اظہار کرے تو اس کو متخیلہ کہتے ہیں اور اگر قوت واہمہ کے ادراکات کا اظہار کرے تو اس کو قوتِ مفکرہ کہتے ہیں۔ اس کا مقام دماغ کا درمیانی حصہ ہے۔

4۔ قوتِ واہمہ

وہ قوت ہے جو ان معانی کا ادراک کرتی ہے جن کوحواس خمسہ ظاہر ادراک نہیں  کر سکتے مثلاً کسی لفظ کے معنی جاننا جیسے اللہ تعالیٰ کے معنی خدائے بزرگ و برتریا کسی شخص کے متعلق یہ گمان کہ فلاں دوست یا دشمن ہے، اس کا مقام مؤخر دماغ کا مقدم حصہ ہے۔

5۔ قوتِ حافظہ

وہ قوت ہے جو وہم کے ادراکات کرتی ہے۔اس کا مقام مؤخر دماغ کا مؤخر حصہ ہے۔

احساسات کی بالفعل تشریح

جوکہ ہمارے احساسات و حواس خمسہ ظاہری محسوس کرتے ہیں وہ خزانۂ خیال میں محفوظ رہتے ہیں اور ضرورت کے وقت حسِ مشترک ذہن کے سامنے پیش کرتی رہتی ہے لیکن خزانہ خیال میں صرف ہمارے مشاہدات ہی نہیں رہتے بلکہ ہمارے تجربات تصدیقات اور قیاسات بھی محفوظ رہتے ہیں۔

تجربات

جاننا چاہیئےکہ مشاہدات تو ہماری مفرد معلومات ہیں۔ یعنی ہر مشاہدہ کسی نہ کسی حواسِ ظاہری سے دماغ تک پہنچتا ہے۔ بعض بیک وقت ایک شے سے کئی مشاہدات بھی ذہن میں پہنچ جاتے ہیں۔ جیسے گلاب کے پھول کی خوشنما رنگت ،خوشبو پتوں کی رگڑ کی خاص آواز، اس کی نرمی اور ذائقہ مگر یہ سب مفرد معلومات ہیں۔لیکن جب ہم مختلف اقسام کے رنگوں اور خوشنمائیوں اور خوبصورتیوں کا امتزاج کرتے ہیں ، اسی طرح مختلف ذائقوں ، خوشبوؤ ں اور نرمی و سختی کو ترتیب دیتے ہیں یا ان سب کے اثرات انسانی جسم یا حیوانات و نباتات ا ور جمادات پر دیکھتے ہیں تو وہ مرکب معلومات ہیں جن کوہم تجربات کہتے ہیں۔ گویا تجربات ہماری ایک ہی قسم یا مختلف اقسام کی حسی معلومات ہیں جو ترکیب و ترتیب اور عمل میں لانے سے نتائج پیدا ہوتے ہیں۔ اسی طرح تجربات در تجربات معلومات حاصل ہوتی ہیں۔ یعنی ہمارے ایک تجربہ سے ایک خاص قسم کے نتائج حاصل ہوئے۔ یہی سلسلہ تجربات در تجربات زندگی میں جاری رہتا ہے اور علم حکمت میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ جس قسم کی انسانی معلومات ہوتی ہیں ویسےہی نتائج اخذ ہوتے ہیں۔بعض دفعہ ان تجربات میں ہمارے ملی اور روایاتی اثرات بھی شریک ہوجاتے ہیں۔ ایسے تجربات ہماری تہذیب و تمدن کہلاتے ہیں اور جب ہمارے تجربات میں مذہبی، اخلاقی اور ملی اثرات شامل ہوتے ہیں تو ان تجربات کو ہم ثقافت(Culture)کہتے ہیں۔

علم طب میں تجربات کا تعلق اشیاء اور بدن انسان سے ہے اس لئے ہمارے تجربات ادویات کو بدن انسان کے اندر یا باہر اددویات استعمال کر کے  ان کے نتائج حاصل کرنا ہے۔ بعض وقت  اشیاء کی تیزی اور زہریلے پن کی وجہ سے ہم ان کے اول تجربات حیوانات پر بھی کر لیتےہیں۔ خاص طور پرایسے حیوانات جن کے مزاج انسانی مزاج سے زیادہ قریب ہیں لیکن مقصد انسانی جسم کےلئے نتائج حاصل کرنا ہے۔ بعض دفعہ اشیاء کواشیاء میں  شامل کرکے بھی تجربات حاصل کرتے ہیں۔ مقصد یہ ہوتا ہے اس شے کی کیفیات و نفسانی اثرات اور مزاج اور افعال الاعضاء کے فوائد و خواص حاصل کئے جائیں۔ ان تجربات اشیاء کی صورت نوعیہ کو خاص طور پر مدنظر رکھا جاتا ہے کیونکہ اس کے نتیجے میں اس دوا کے بالخاصہ اثرات و افعال کا علم ہوتا ہے۔

شرائط تجربہ

تجربات کے لئے تین اصولوں کو مدنطر رکھنا ضروری ہے۔

تجربہ کرنے والے علم و فن طب کو جاننے کے ساتھ ساتھ جسم انسان کی تشریح اور منافع الاعضاء  کو جاننے والا ہو۔ علم کیمیائی اور طبیعات سے واقف ہو تاکہ تجربات کے نتائج کو سمجھ سکے۔
تجربات جسم انسان پر کئے جائیں یا ایسے جانوروں پر کئے جائیں جن کا مزاج جسمِ انسان کے قریب تر ہو۔
تجربات، مشاہدات اور معلومات میں اعضاء کے افعال کے ساتھ ساتھ خون کے کیمیائی تغیرات کو بھی حاصل کرنا چاہیئے۔

حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ اشیاء پر تجربات کرنا چاہیں اور وہ اگر معالج نہ ہوں یا جسم انسان کی ماہیت اور منافع الاعضاء  سے بے خبر ہوں ۔ اسی طرح وہ علم کیمیا اور طبیعات سے واقف نہ ہوں تو ایسے لوگوں کے تجربات اپنے اندر کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔ کیونکہ تجربات کی صورت میں ایک معالج کے ذہن میں ہی تجربات کے لئے تصورات پیدا ہو سکتے ہیں جن کی تصدیقات کے لئے وہ علم تشریح الابدان اور علم منافع الاعضاء کو قیاسی طورپر سامنے رکھتا ہے۔ پھر علم کیمیااور طبیعات کے دلائل کے ساتھ تصدیقات حاصل کرتا ہے، کبھی جزئیات نکالتا ہے، کبھی کلیات بناتا ہے، کبھی استنباط کرتا ہے اور کبھی استخراج کرتا ہے۔ لیکن اس کے اندر یہ خوبیاں نہ ہوں تو اس کے تجربات کو سمجھنا اور حکم لگانا بے معنی ہوگا۔ چونکہ ادویات و اغذیہ اور دیگر اقسام کی ادویات کا تعلق جسم انسان کے ساتھ ہوتا ہے یا اسی کے لئے تجربات مخصوص ہوتے ہیں ۔ اس لئے تجربات بدن انسان پر ہی کرنے چاہییں تا کہ مطابق اثرات و افعال کا علم حاصل ہو۔

اگر ادویات زہریلی یا خطرناک ہوں یا اس کا ذائقہ و بو دیگر محسوسات تکلیف دہ اور قابل نفرت ہوں تو تجربات انسان کی بجائے حیوانات پر کرنے چاہییں۔ لیکن تجربات کے لئے ایسے حیوانات منتخب کئے جائیں جن کا مزاج انسانی مزاج کے قریب ہو یعنی انسانی مزاج اعتدال کے قریب ہے اور باقی مخلوقات کا مزاج انسان کے مقابلہ میں اعتدال سے بعید ہے۔انسان سے قریب مزاج بندر، بن مانس  اور لنگور کا ہے۔ لیکن ان کے علاوہ کسی دیگر حیوان پر تجربات مطلوب ہوں تو اول ان کے مزاج کا تعین کر لینا چاہیئے تاکہ کیفیات اور اخلاط کی کمی بیشی کا صحیح اندازہ ہو سکے۔ انسان یا جن حیوانات پر تجربے کئے جائیں وہ صحت مند ہوں ان کی عمروں کو مدنظر رکھیں کیونکہ بچپن میں رطوبت زیادہوتی ہے، جوانی میں حرارت بکثرت پائی جاتی ہے  اور بڑھاپے میں ان دونوں چیزوں کا فقدان ہوتا ہے۔ ان کی غذا اور ماحول کا مناسب ہونا بھی انتہائی لازم ہے کیونکہ جہاں بھی کیفیات اور مزاج میں مخالفت پیدا ہوگی، تجربات میں فرق پیدا ہوجائے گا۔

تجربات کے آسان طریقے

انسان پر تجربات کرنا تو حکومت کے لئے بھی مشکل ہے کیونکہ تجربات کےلئے قیمتاً انسان حاصل کرنا انتہائی مشکل ہے، پھر ایک تجربہ کےلئے کئی کئی انسانوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ جب تک انسان میں فن پر قربان ہونے کا جذبہ پیدا نہ ہو ایسے تجربات انتہائی مشکل ہیں۔ حیوانوں پر تجربات کرنے کے لئے بھی حکومت کی امداد کے بغیر کچھ نہیں ہو سکتا۔ البتہ ایک آسان طریقہ ایسا ہے جس سے سہولت کے بغیر قیمتی تجربات ہو سکتے ہیں۔ لیکن یہ تجربات عام معالج نہیں کر سکتے بلکہ فاضل معالج ہی کرسکتے ہیں، کیونکہ وہی اس کے اہل ہیں۔

تجربات بالفعل عمل

جس دوا کا تجربہ کرنا مطلوب ہو اس کا مفرد ہونا ضروری ہے بلکہ مفرد دوا جن عناصر یا اجزا سے مرکب ہو ان کا جاننا بھی ضروری ہے۔ اگر کوئی دوا مرکب ہو تو لازم ہے کہ اس مرکب میں جو مفرد ادویات ہیں ، ان کے وہ پورے طور پر تجربہ شدہ ہوں یعنی ان کے افعال و اثرات اور خواص و فوائد کا پورا پورا علم ہوتاکہ مرکب دوا کے تجربات میں راہنمائی کریں۔ ان کو ذیل کے اصولوں پر تجربات کریں۔

تجربے کے لئے مطلوبہ دوا کے افعال و اثرات اور خواص و فوائد کو دو تین مستند طبی کتب سے مطالعہ کرکے ان کے مزاج و کیفیات اور اخلاط کو سمجھنے کے بعد ان کا بالاعضاء تعین کرنا چاہیئے۔
اپنے تعین کرنے کے بعد افعال و اثرات اور خواص و فوائد کو آیورویدک، ایلوپیتھی اور ہومیوپیتھی کے ساتھ تطبیق دینے کی کوشش کریں۔ جہاں جہاں اختلاف پائیں ان کو نوٹ کریں اور اختلاف کی وجہ معلوم کریں۔
یہ معلوم کریں کہ طب یونانی کے علاوہ دیگر طریق علاج میں یہ دوا کن کن امراض و علامات میں استعمال کی گئی ہے؟ ا ور کن کن مقداروں میں دی گئی ہے؟ اور جن امراض و علامات میں دی گئی ہے ان کاتعلق اس عضو یا ان اعضاء کے ساتھ جن کے لئے ہم نے تعین کیا ہے اور مختلف مقداروں میں یا کم از کم اور زیادہ سے زیادہ مقداروں میں استعمال کرنے سے کیا کیا فرق بیان کئے گئے ہیں؟ مثلاً ہم نے ایک دوا کی کیفیات و مزاج اور اخلاط کا تعین کرنے کے بعد اس کے اثرات دماغ و اعصاب پر متعین کئے ہیں ، یعنی اس سے اعصاب کے فعل میں تیزی پیدا ہو جاتی ہے۔ مختلف مقداروں میں ان کے افعال و اثرات میں کمی بیشی پیدا ہو جاتی ہے۔ ساتھ ہی اس امر پر غور کریں کہ دماغ  و اعصاب کے بعد اس کااثر دل پر پڑتا ہے یا جگر پر اور وہ کس قسم کا ہے؟ نظریہ مفرد اعضاء کے تحت اس طرح غور کریں کہ اگر کوئی دوا محرک اعصابی ہے تو وہ اعصابی غدی ہے یا اعصابی عضلاتی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ جو ادویات اعصابی ہیں وہ یقیناً غدی محلل اور عضلاتی مسکن ہوں گی۔
اس تعین کے بعد اس دوا کا سفوف تیار کرلیں۔ اگر تلخ ہو تو گولیا ں تیار کرلیں اور قابل حل ہے تو اس کا محلول بھی تیار کرلیں پھر اس کا استعمال اس اندازہ میں کریں کہ دنیا میں کوئی انسان ایسا نہیں ہے جس کے کسی نہ کسی عضو رئیس کی طرف دوران خون تیز نہ ہو اس لئے پہلے دوا کو قلیل مقدارمیں اسی تحریک کے لئے دیں جو اس میں پائی جاتی ہیں۔ مثلاً دوا میں اعصابی تحریکات پائی جاتی ہیں تو اسی قسم کے تندرست انسان میں دیں۔ پھر اس حد تک بڑھا کر دیں کہ اس کے لئے  تکلیف کاباعث نہ ہو، جب یقین ہو جائے کہ واقعی اس سے تندرست  انسان کے عصبی نظام میں تیزی پیدا ہو گئی ہے تو پھر اس کسی ایسے مریض کو قلیل مقدار سے لے کر اس حد تک استعمال کرائیں کہ اس کی تکلیف میں اضافہ نہ ہو اس کے مرض اور علامت میں بھی حسب منشا اضافہ ہونے پر یقین ہو جائے گاکہ واقعی دوا کے افعال و اثرات صحیح ہیں۔ بعض دفعہ قلیل مقدار میں دوا دینے سے طبیعت مدبرہ بدن مرض کو رفع کر دیتی ہے۔ ایسے میں آرام آجانے پر زیادہ سے زیادہ مقدار میں دوا دے کراثرات اور افعال کو مرتب کرلیں۔

محرک اعصاب دوا اس قسم کے مریض کے تحریک پر استعمال کرانے کے بعد پھر ایسے ہی تندرست اور مریض انسان پر استعمال کرائیں  جن کے اعصاب میں تسکین سادہ ہو، پھر ایسے مریض پر جس کے اعصاب میں تسکین  متعفنہ ہو ، افعال و اثرات نوٹ کرلیں۔ مقدار خوراک کا فرق بھی دیکھ لیں۔لیکن اس طرح مریض کا مرض رفع ہوجاتا ہے۔ ایسی صورت میں دوا جاری رکھیں اور مقدار زیادہ سے زیادہ بڑھا دیں لیکن اس حد تک کہ قابل برداشت ہو، پھر دوا کے افعال واثرات کا مطالعہ کریں کہ واقعی اس میں اعصابی تحریک کی صورت پیدا ہوگئی ہے۔ اس طرح دوا کے افعال و اثرات مرتب ہو جائیں گے اور مریض کا شفا یا ب ہونا سب سے بڑا ثبوت ہے۔

ان تجربات میں بیک وقت ایک دو انسان نہیں ہونے چاہییں بلکہ کوشش کرنی چاہیئے کہ متعدد انسان زیر تجربہ ہوں۔۔۔۔۔ تاکہ ان افعال و اثرات کے ساتھ ساتھ خواص و فوائد بھی مرتب کر سکیں۔ مثلاً اس اعصابی دوا کا سر سے لے کر پاؤں تک کے اعصاب میں کن کن پر زیادہ اور شدید اثر پڑتا ہے اور کن پر کم پڑتا ہے۔یہی اس کی بالخاصہ صورت ہو گی اور اسی حصہ جسم کے اعصاب کے لئے وہ دوا مخصوص کر دی جائے گی اگرچہ ضرورت کے وقت ہم اس سے دیگر اعضاء کے اعصاب میں بھی تیزی پیدا کر سکتے ہیں مگر وہ خاص عضو زیادہ متاثر ہو گا۔ ایسے تجربات بے حد احتیاط سے کئے جاتے ہیں۔

اسی طرح  دوا کے افعال و اثرات بیرونی طور پر بھی حاصل کرنے چاہییں مثلاً تندرست مقام پر دوا کا سفوف ملیں یا اس کا خیساندہ اور جوشاندہ ڈالیں۔ تیل میں ملا کر مالش کریں۔ اسی طرح مریض مقام مثلاً درد، ورم  اور سوزش و زخم پر اس کے اثرات و افعال حاصل کریں، جو دوا آنکھ، کان اور ناک کے لئے بھی اثرات رکھتی ہو تو وہاں پر بھی استعمال کریں اور نتائج نوٹ کرتے جائیں۔ اس طرح کے تجربات جن ادویات پر کئے جاتے ہیں تو ا س سے یقینی بے خطا خواص و فوائد حاصل ہو جاتے ہیں۔

اس امر میں کوئی شک نہیں کہ بعض انسان نازک مزاج ہوتے ہیں اور بعض سخت طبع اور بعض جنگلی قسم کے انسان، جن کے مزاج کی شدت حیوانات سے بھی زیادہ ہوتی ہے۔ اسی طرح بچوں کے مزاج میں تری  گرمی (اعصابی غدی)غالب ہوتا ہے۔ جوانوں میں گرمی خشکی(غدی عضلاتی) کا مزاج غالب ہوتا ہے۔ اسی طرح بوڑھوں میں سردی خشکی(عضلاتی اعصابی)کا مزاج غالب ہوتا ہےاور عورتیں مردوں سے زیادہ نازک ہوتی ہیں اور ان کا مزاج زیادہ تر غدی رہتا ہے ،چاہے وہ غدی اعصابی ہو یا غدی عضلاتی۔ اعصابی بہت کم ہوتا ہے اور عضلاتی بالکل نہیں ہوتا۔ اس لئے ہر ایک پر ادویات کے تجربات کرتے ہوئے دوا کی مقدار اور خوراک کو ضرور مدنظر رکھنا چاہیئے، اسی طرح غلطی نہیں پیدا ہوتی اور نتائج صحیح حاصل ہوتے ہیں۔

تجربات میں کیمیائی اثرات

مندرجہ بالا تجربات مشینی اور فعلی ہیں لیکن ہر دوا و غذا او ر شے کا ایک اثر کیمیائی بھی ہوتا ہے۔ اگر  چہ کیمیائی اثرات بھی مشینی و فعلی اور اعضائی ہوتے ہیں۔ لیکن جب تک کیمیائی اثرات خون میں غالب نہ ہوں تو کسی عضو میں فعلی اثرات کیسے کر سکتے ہیں۔ بس ہر دوا و غذا اور شے جو اپنے اثرات خون میں شامل کر تی ہے جیسے اجزاء عناصر اور ارکان  خون ہیں۔ پس یہی کیمیائی اثرات ہیں مثلاً کبھی خون میں کسی دوا ، غذا اور شے سے صفرا و حدت بڑھ جاتی ہے۔ کبھی خون کی زیادتی و جوش بڑھ جاتا ہے۔ کبھی بلغم و رطوبت اور رکت بڑھ جاتی ہے۔ کبھی خون میں سودا و غلظیت  اور ریاح کی زیادتی ہو جاتی ہے۔کبھی کھاری پن اور کبھی ترشی زیادہ ہو جاتی ہے۔ فعلی اور کیمیائی اثرات کا فرق یہ ہے کہ فعلی اثر وقتی ہوتا ہے اور کیمیائی اثر دائمی اور مستقل ہوتا ہے۔ مرض اور شفا اس وقت تک مستقل نہیں ہوتے  جب تک کیمیائی اثرات غالب نہ ہو جائیں ۔ کیمیائی اثرات کے بعد ہی بالخاصہ اثرات پیدا ہوتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: شیزو فرینیا

کیفیاتی اور نفسیاتی تجربات

ادویہ و اغذیہ اور اشیاء کے تجربات میں جسم کے فعلی و کیمیائی اثرات ہی کافی نہیں ہیں بلکہ کیفیاتی  اور نفسیاتی خواص و فوائد کا جاننا اور سمجھنا بھی ضروری ہے۔ ایک طرف ایسے خواص اور فوائد انسانی مزاج و جذبات اور فطرت کا اظہار کرتے ہیں اور دوسری طرف تشخیص امراض میں ہماری راہنمائی کا کام دیتے ہیں مثلاً بعض ادویات و اغذیہ اور اشیاء کے استعمال میں انسان گرمی و سردی اور تری و خشکی کا اظہار کرتا ہے۔ لیکن ظاہرہ طور پر جسم پر ایسی کوئی کیفیت نہیں پائی جاتی ۔ گویا جسم کے اندر مرض ضرور محسوس کرتا ہے۔ اسی طرح اس کے برعکس بعض دفعہ انسان ظاہری طور پر ان کیفیات کی تکالیف کا انکار کرتا ہے لیکن ظاہرہ جسم میں وہ کیفیات  شدت سے پائی جاتی ہیں۔ گویا اندرونی جسم میں مریض کو ایسی کوئی تکلیف نہیں ہے۔ اسی طرح کبھی بھوک پیاس شدید ہوجاتی ہے اور کبھی بند ہو جاتی ہے، کبھی بھوک پیاس ہوتی ہے مگر کھایا پیا  نہیں جاتا، کبھی کھایا پیا جاتا ہے مگر فوراً قے ہو جاتی ہے، کبھی کھانے پینے کے نام سے جی متلاتا ہے، کبھی بھوک ہوتی ہے ، پیاس نہیں ہوتی اور کبھی پیاس  ہوتی ہے مگر بھوک نہیں ہوتی وغیرہ وغیرہ۔

اسی طرح کبھی مریض تازہ ہوا، ٹھنڈے پانی اور کھلی فضا طلب کرتا ہے اور اکثر اپنا منہ خاص طور پر سوتے میں کھلا رکھتا ہے، کبھی ٹھنڈٰی ہوا اور پانی سے گھبراتا ہے اور اپنے آپ کو کمرے میں بند کرلیناپسند کرتا ہے۔ کبھی گھنٹوں خاموش بیٹھا رہتا ہے یا ایک ہی حالت میں پڑا رہتا ہے۔ کسی عضو کو حرکت دینا پسند نہیں کرتا، کبھی بے چین نظر آتا ہے کسی پہلو قرار نہیں آتا، اٹھتا ہے ، بیٹھتا ہے، کبھی گھنٹوں چلتا ہے یا بیٹھے اور لیٹے ہوئے اپنے کسی نہ کسی عضو کو حرکت دیتا ہے۔

Leave a Reply