طالبان کے 10 طاقتور رہنماء
طالبان کے 10 طاقتور رہنماء
افغانستان میں طالبان حکومت کے دس ایسے رہنماء جو طاقتور ترین رہنما سمجھے جاتے ہیں۔طالبان کا تنظیمی نظام بہت گہرا ، اور خفیہ ہے، اور کئی طاقتور ترین رہنماء ایسے بھی ہیں جنہیں ہم نہیں جانتے اور وہ منظر سے غائب ہیں، لیکن طاقت اور اختیار کا اہم حصہ ان کے پاس ہے۔
میڈیا اور انٹرنیٹ سے اپنے آپ کو دور رکھنا ہی طالبان کا وہ گر تھا جس کی وجہ سے بیس سال تک امریکا و یورپ اپنی پوری طاقت اور ٹیکنالوجی استعمال کرکے بھی ملاعمر سمیت کئی اہم شخصیات تک نا پہنچ سکی۔ جو چند شخصیات گرفتار ہوئیں وہ بھی زیادہ تر پاکستان اور ایران سے گرفتار ہوئیں۔
اس لیے ظاہری منظر نامے سے غائب شخصیات کے بارے آج بھی ہم زیادہ نہیں جانتے البتہ ظاہری منظر نامے پر موجود شخصیات میں سےطالبان کے 10 طاقتور رہنماء کے بارے آج کی اس ویڈیو میں بتایا جائے گا۔
10۔ قاری فصیح الدین فطرت
قاری فصیح الدین فطرت ، طالبان کے موجودہ چیف آف آرمی اسٹاف ہیں اور وزارت دفاع کے اہم ترین عسکری رہنما ہیں۔وہ 2021 میں طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد اس عہدے پر فائز ہوئے۔
ابتدائی زندگی اور تعلیم
قاری فصیح الدین فطرت کا تعلق افغانستان کے صوبہ بدخشان سے ہے۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم اپنے آبائی علاقے میں حاصل کی اور بعد ازاں پاکستان کے مدارس میں دینی تعلیم مکمل کی۔ ان کی دینی تربیت اور عسکری حکمت عملی میں مہارت نے انہیں طالبان کی صفوں میں نمایاں مقام دلایا۔ان کی خاص بات یہ ہے کہ قاری فصیح الدین پشتون نہیں ہیں بلکہ ازبک یا تاجک قبائل سے تعلق رکھتے ہیں، طالبان کے موجودہ دور حکومت میں شمالی علاقہ جات کو کنٹرول میں لینے کے لیے ان کا اہم کردار ہے۔
ان کی خدمات میں اہم کام یہ بھی ہے کہ انہوں نے بیس سالہ امریکی دور میں جب طالبان حکومت ختم ہوئی اور طالبان بکھر چکے تھے قاری فصیح الدین نے بڑی خاموشی اور تیزی کے ساتھ دو تین سال میں پورے افغانستان میں طالبان جنگجووں کی یونٹ سازی کرکے انہیں دبارہ منظم کیا اور عسکری کاروائیوں کو منظم انداز میں آگے بڑھایا۔
عسکری کیریئر
قاری فصیح الدین فطرت طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد وزارت دفاع میں اہم عہدوں پر فائز ہوئے۔ انہوں نے فوجی تربیت، عسکری حکمت عملی اور قومی سلامتی کے امور میں اہم کردار ادا کیا۔ ان کی قیادت میں، طالبان نے فوجی تربیت کے معیار کو بہتر بنایا اور ملک بھر میں فوجی ڈھانچے کی تنظیم نو کی۔
آپ حیران ہوں گے کہ چیف آف آرمی سٹاف کو دسویں نمبر پر کیوں رکھا؟ تو اس میں حیرانگی کی کوئی بات نہیں ہر ملک کا اپنا نظام ہوتا ہے، پاکستان میں آرمی چیف سب سے طاقتور ترین ہوتا ہے، لیکن افغانستان میں آرمی چیف سے بھی زیادہ طاقتور ترین لوگ موجود ہیں۔
یہاں ایک اور بات کو بھی سمجھ لیں، طالبان کے نظام حکومت میں صرف ایک عہدہ ایسا ہے جس عہدے میں طاقت ہے، اور وہ ہے امیر المومنین۔ اس عہدے پر جو بھی شخص ہو وہ سب سے زیادہ طاقتور ترین ہوتا ہے، چاہے اس کے پاس ذاتی حیثیت میں کچھ بھی نا ہو۔ جبکہ امیر المومنین کے عہدے کے علاوہ باقی جتنے بھی عہدے ہیں ان عہدوں کی وجہ سے کوئی بھی طاقتور نہیں کہلاتا، بلکہ ہر کوئی ذاتی حیثیت میں جو جتنا طاقتور ہے اسے اتنا طاقتور سمجھا جاتا ہے۔ اس کی مثال سراج الدین حقانی ہیں جن کے پاس عہدہ تو معمولی سا ہے لیکن طاقت آرمی چیف قاری فصیح الدین سے زیادہ ہے۔
9۔ ذبیح اللہ مجاہد
ذبیح اللہ مجاہد ، طالبان کے موجودہ حکومت کے ترجمان اور وزارت اطلاعات و ثقافت کے نائب وزیر ہیں۔ انہوں نے 7 ستمبر 2021 کو قائم مقام وزیرِ اعظم ملا حسن آخوند کی حکومت میں نائب وزیرِ اطلاعات و ثقافت کے طور پر ذمہ داریاں سنبھالیں۔ وہ طالبان کے سپریم لیڈر ملا ہیبت اللہ اخوندزادہ کے ذاتی ترجمان بھی ہیں۔
ابتدائی زندگی اور تعلیم
ذبیح اللہ مجاہد 1978 میں افغانستان کے صوبہ پکتیا کے ضلع گردیز میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم افغانستان کے مختلف مدارس سے حاصل کی اور بعد ازاں پاکستان کے دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک سے اسلامی فقہ میں تخصص حاصل کیا۔ انہوں نے طالبان کے مقامی جریدے کے دری زبان کے شعبے کے لیے مضامین لکھے اور بعد ازاں پشتو اور دری میں طالبان کے ریڈیو پروگرامز کی میزبانی کی۔
عسکری اور سیاسی کیریئر
ذبیح اللہ مجاہد نے 16 سال کی عمر میں طالبان کی صفوں میں شمولیت اختیار کی اور مختلف علاقوں میں لڑائی میں حصہ لیا۔ وہ 1996 میں پلِ خمری، بغلان میں احمد شاہ مسعود کی فوج کے ہاتھوںگرفتار ہو کر چھ ماہ قید میں بھی رہے۔ بعد ازاں، 2001 میں امریکی افواج کے ہاتھوں گرفتار ہو کر بگرام جیل میں تین سال سے زائد عرصہ گزارا۔ 13 ماہ بعد افغان حکومت کے تحت پلِ چرخی جیل منتقل ہونے کے بعد، انہیں افغان قوانین کے تحت مقدمہ چلایا گیا اور رہا کر دیا گیا۔ رہائی کے بعد، وہ دوبارہ طالبان کی صفوں میں شامل ہو گئے۔ 2007 میں طالبان کے سابق ترجمان محمد حنیف کی گرفتاری کے بعد طالبان کے ترجمان مقرر ہوئے۔
میڈیا میں کردار
ذبیح اللہ مجاہد طالبان کے ترجمان کے طور پر افغان اور بین الاقوامی میڈیا کے ساتھ رابطے میں رہتے ہیں۔ انہوں نے طالبان کی کارروائیوں کی ذمہ داری قبول کرنے کے علاوہ، 2017 میں مزارِ شریف میں فوجی اڈے پر حملے میں 140 سے زائد فوجیوں کی ہلاکت، 2019 میں نیشنل ڈائریکٹوریٹ آف سیکیورٹی (NDS) کے تربیتی مرکز پر حملے میں 100 سے زائد سیکیورٹی اہلکاروں کی ہلاکت، اور 2020 میں فوجی اڈے پر حملے میں 30 سیکیورٹی اہلکاروں کی ہلاکت کی ذمہ داری قبول کی۔
ان کے بارے ایک غیر مصدقہ بات یہ بھی مشہور ہے کہ وہ بیس سالہ امریکی دور میں ایک امریکی چھاونی میں بطور باورچی امریکیوں کے ملازمت بھی کرتے رہے، دن کو امریکی فوجیوں کے لیے کھانا پکاتے اور ملازمت کرتے تھے اور رات کو کسی خفیہ مقام سے طالبان کی کاروائیوں کی خبریں اور مضامین انٹرنیشنل میڈیا کو بھیجتے تھے۔عالمی میڈیا طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کے نام سے تو واقف تھا لیکن یہ کسی کو نہیں معلوم تھا کہ ان کے کچن میں کام کرنے والا باورچی ہی ذبیح اللہ مجاہد ہے۔
طالبان حکومت میں کردار
15 اگست 2021 کو طالبان کے کابل پر قبضے کے بعد، ذبیح اللہ مجاہد نے 17 اگست 2021 کو کابل میں ایک پریس کانفرنس میں پہلی بار عوامی طور پر شرکت کی۔ اس موقع پر، انہوں نے طالبان کے موقف کی وضاحت کی اور عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ افغانستان کے عوام کے حقوق کا احترام کریں۔
Top 10 Most Powerful Taliban Leaders | Key Power Holders in Afghanistan
8۔مولوی عبدالسلام حنفی
اس وقت مولوی عبدالسلام حنفی طالبان کے ایک اہم رہنما ہیں جو 7 ستمبر 2021 سے افغانستان کے قائم مقام وزیرِ اعظم محمد حسن آخوند کی حکومت میں معاون وزیرِ اعظم برائے انتظامی امور کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں۔
ابتدائی زندگی اور تعلیم
مولوی عبدالسلام حنفی 1969 میں افغانستان کے شمالی صوبہ جوزجان کے ضلع درزاب کے گاؤں گردان میں پیدا ہوئے۔ وہ ایک ازبک النسل افغان ہیں اور ابتدائی تعلیم اپنے آبائی علاقے میں حاصل کی۔ بعد ازاں، انہوں نے پاکستان کے مختلف مدارس میں دینی تعلیم حاصل کی، جن میں مفتی تقی عثمانی کا دارالعلوم کراچی بھی شامل ہے۔ مولوی حنفی نے اسلامی فقہ، منطق، ریاضی، کمپیوٹر سائنس، اور دیگر مضامین میں مہارت حاصل کی ہے۔ اس کے علاوہ، وہ اردو، پشتو، فارسی، عربی، انگریزی، ترکی، ازبک، اور ترکمانی زبانوں میں بھی ماہر ہیں۔
عسکری اور سیاسی کیریئر
طالبان کے پہلے دورِ حکومت (1996–2001) میں، مولوی حنفی نے نائب وزیرِ تعلیم کے طور پر خدمات انجام دیں۔ 2001 میں طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد، وہ طالبان کی قیادت میں شامل رہے اور مختلف عسکری اور انتظامی ذمہ داریوں کو نبھایا۔ 2007 سے 2008 تک، وہ جوزجان صوبے میں طالبان کی فوجی سرگرمیوں کے نگران تھے۔ 2015 سے 2021 تک، انہوں نے طالبان کے سیاسی دفتر میں نائب سربراہ کے طور پر خدمات انجام دیں اور قطر میں طالبان کے مذاکراتی عمل میں اہم کردار ادا کیا۔
موجودہ حکومتی کردار
7 ستمبر 2021 کو طالبان کی حکومت کے قیام کے بعد، مولوی عبدالسلام حنفی کو معاون وزیرِ اعظم برائے انتظامی امور مقرر کیا گیا۔ انہوں نے مختلف صوبوں کے علماء اور مقامی رہنماؤں سے ملاقاتیں کی ہیں اور ملک میں امن و امان، تعلیم، اور روزگار کے مواقع فراہم کرنے کے لیے اقدامات کیے ہیں۔
7۔ امیر خان متقی
امیر خان متقی ایک افغان سیاستدان اور طالبان تحریک کے سینئر رہنما ہیں، جو ستمبر 2021 سے افغانستان کی اسلامی امارت کے قائم مقام وزیر خارجہ کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں۔
ابتدائی زندگی اور تعلیم
امیر خان متقی 26 فروری 1971 کو افغانستان کے صوبہ ہلمند کے ضلع نادعلی کے زرغون گاؤں میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق پشتون قوم کے سلیمان خیل قبیلے سے ہے، اور ان کے آبا و اجداد کا تعلق پکتیا صوبے سے تھا۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم مقامی مسجد اور اسکول میں حاصل کی۔ کمیونسٹ ثور انقلاب اور سوویت یونین کی مداخلت کے باعث ان کا خاندان پاکستان ہجرت کر گیا، جہاں انہوں نے افغان مہاجرین کے مدارس میں دینی تعلیم حاصل کی۔ بعد ازاں، انہوں نے پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا میں واقع دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک سے اعلیٰ دینی تعلیم مکمل کی۔
سیاسی کیریئر
امیر خان متقی نے اپنے سیاسی سفر کا آغاز مولوی محمد نبی محمدی کی تنظیم سے کیا، لیکن بعد میں طالبان تحریک میں شامل ہو گئے۔ 1996 سے 2001 تک، طالبان کی پہلی حکومت کے دوران، وہ وزیر اطلاعات و ثقافت اور وزیر تعلیم کے عہدوں پر فائز رہے۔ اس کے علاوہ، وہ اقوام متحدہ کی زیر قیادت مذاکرات میں طالبان کے نمائندے کے طور پر بھی شریک رہے۔
2001 سے 2021 تک، جب طالبان اقتدار سے باہر تھے، امیر خان متقی نے تحریک کے ثقافتی کمیشن کے رکن، ترجمان، سیاسی دفتر کے رکن اور دوحہ میں مذاکراتی ٹیم کے رکن کے طور پر خدمات انجام دیں۔ انہوں نے طالبان کے امیر ملا ہیبت اللہ اخوندزادہ کے چیف آف اسٹاف اور تحریک کی رہنمائی و بھرتی کمیشن کے سربراہ کے طور پر بھی کام کیا۔
حالیہ کردار
15 اگست 2021 کو کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد، امیر خان متقی نے غیر طالبان سیاستدانوں، جیسے عبداللہ عبداللہ اور حامد کرزئی، سے حکومت سازی کے حوالے سے مذاکرات کیے۔ 7 ستمبر 2021 کو، انہیں افغانستان کے قائم مقام وزیر خارجہ کے طور پر مقرر کیا گیا۔ اس حیثیت میں، انہوں نے متعدد بین الاقوامی دورے کیے اور مختلف ممالک کے وزرائے خارجہ سے ملاقاتیں کیں۔
6۔ملا عبدالغنی برادر
ملا عبدالغنی برادر ، طالبان تحریک کے بانی اراکین میں سے ایک اور افغانستان کی موجودہ عبوری حکومت میں پہلے نائب وزیر اعظم کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں۔
ابتدائی زندگی اور تعلیم
ملا عبدالغنی برادر 1963 یا 1968 میں افغانستان کے صوبہ ارزگان کے گاؤں یتیمک میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق پشتون قوم کے پوپلزئی قبیلے سے ہے۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم مقامی مدارس میں حاصل کی۔ 1980 کی دہائی میں سوویت-افغان جنگ کے دوران، انہوں نے مجاہدین کے ساتھ مل کر سوویت افواج کے خلاف لڑائی میں حصہ لیا۔ اسی دوران ان کی ملاقات ملا محمد عمر سے ہوئی، جو بعد میں طالبان کے امیر بنے۔
طالبان تحریک کی بنیاد اور ابتدائی کردار
1994 میں، ملا برادر نے ملا عمر کے ساتھ مل کر طالبان تحریک کی بنیاد رکھی۔ تحریک کے قیام کا مقصد افغانستان میں بدامنی، بدعنوانی اور جنگی سرداروں کے ظلم و ستم کا خاتمہ تھا۔ طالبان نے جلد ہی افغانستان کے بڑے حصے پر قبضہ کر لیا اور 1996 میں کابل پر کنٹرول حال کیا۔ طالبان کی پہلی حکومت (1996-2001) کے دوران، ملا برادر نے نائب وزیر دفاع کے طور پر خدمات انجام دیں اور مختلف فوجی کارروائیوں کی قیادت کی۔
گرفتاری، رہائی اور سیاسی کردار
2001 میں امریکی قیادت میں طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد، ملا برادر پاکستان میں روپوش ہو گئے اور تحریک کی قیادت پاکستان سے جاری رکھی۔ 2010 میں، انہیں کراچی میں ایک مشترکہ امریکی-پاکستانی کارروائی کے دوران گرفتار کیا گیا۔ آٹھ سال بعد، 2018 میں، امریکی درخواست پر انہیں رہا کیا گیا تاکہ وہ قطر میں طالبان کے سیاسی دفتر کی قیادت کر سکیں۔ انہوں نے دوحہ میں امریکی حکام کے ساتھ مذاکرات کی قیادت کی، جس کے نتیجے میں 29 فروری 2020 کو امریکہ-طالبان معاہدہ طے پایا، جس میں امریکی افواج کے انخلا کا منصوبہ شامل تھا۔
حالیہ کردار اور موجودہ حیثیت
15 اگست 2021 کو کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد، ملا برادر افغانستان واپس آئے۔ 7 ستمبر 2021 کو، انہیں عبوری حکومت میں پہلے نائب وزیر اعظم برائے اقتصادی امور مقرر کیا گیا۔ انہوں نے افغانستان میں اقتصادی منصوبہ بندی اور بین الاقوامی امداد کے حصول کے لیے اہم کردار ادا کیا۔ جون 2022 میں، انہوں نے کابل میں علما اور قبائلی عمائدین کی ایک بڑی کانفرنس کی صدارت کی، جس میں طالبان حکومت کو تسلیم کرنے اور افغان اثاثوں کی بحالی کا مطالبہ کیا گیا۔
بین الاقوامی شناخت
ملا برادر کو طالبان کا معتدل چہرہ سمجھا جاتا ہے۔ ان کی قیادت میں طالبان نے امریکہ کے ساتھ مذاکرات کیے اور بین الاقوامی سطح پر اپنی شناخت بنائی۔ 2021 میں، ٹائم میگزین نے انہیں دنیا کے 100 بااثر افراد کی فہرست میں شامل کیا۔
5۔ سراج الدین حقانی
سراج الدین حقانی ایک اہم افغان طالبان رہنما اور حقانی نیٹ ورک کے سربراہ ہیں۔ وہ طالبان کی عبوری حکومت میں وزیر داخلہ کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں۔ ان کا شمار طالبان کی قیادت میں بااثر شخصیات میں ہوتا ہے۔
ابتدائی زندگی اور تعلیم
سراج الدین حقانی دسمبر 1979 میں افغانستان یا پاکستان کے علاقے شمالی وزیرستان میں پیدا ہوئے۔ وہ جلال الدین حقانی کے بیٹے ہیں، جو سوویت-افغان جنگ کے دوران ایک معروف مجاہد کمانڈر تھے۔ سراج الدین نے ابتدائی تعلیم اپنے والد سے حاصل کی اور بعد ازاں خیبر پختونخوا کے ضلع نوشہرہ میں واقع دارالعلوم حقانیہ میں تعلیم حاصل کی ۔
عسکری اور سیاسی کیریئر
سراج الدین نے اپنے والد کی وفات کے بعد حقانی نیٹ ورک کی قیادت سنبھالی، جو طالبان کا ایک طاقتور ذیلی گروپ ہے۔ انہوں نے کئی مہلک حملوں کی منصوبہ بندی اور قیادت کی، جن میں امریکی اور اتحادی افواج کے خلاف کارروائیاں شامل تھیں۔ ان کے خلاف امریکی حکومت نے 10 ملین ڈالر کا انعام مقرر کیا تھا، جو مارچ 2025 میں ختم کر دیا گیا۔
7 ستمبر 2021 کو، طالبان کی عبوری حکومت کے قیام کے بعد، سراج الدین حقانی کو وزیر داخلہ مقرر کیا گیا۔ اس حیثیت میں، وہ افغانستان کی پولیس فورس اور دیگر سیکیورٹی اداروں کی نگرانی کر رہے ہیں، جن کی تعداد 230,000 سے زائد بتائی جاتی ہے۔
4۔ ملا محمد یعقوب مجاہد
ملا محمد یعقوب مجاہد ، طالبان کے بانی ملا محمد عمر کے بڑے بیٹے ہیں اور موجودہ عبوری افغان حکومت میں وزیر دفاع کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں۔ وہ طالبان کی قیادت میں ابھرتے ہوئے نوجوان رہنما کے طور پر جانے جاتے ہیں، جنہوں نے حالیہ برسوں میں تحریک کے عسکری اور سیاسی ڈھانچے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
ابتدائی زندگی اور تعلیم
ملا یعقوب 1990 میں افغانستان کے صوبہ ارزگان کے گاؤں یتیمک میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق پشتون قوم کے ہوتک قبیلے سے ہے، جو غلزئی قبیلے کی ایک شاخ ہے۔ انہوں نے ابتدائی دینی تعلیم پاکستان کے شہر کراچی کے مختلف مدارس میں حاصل کی۔
عسکری اور سیاسی کیریئر
2016 میں، ملا یعقوب کو طالبان کی عسکری کمیشن کے نائب سربراہ کے طور پر مقرر کیا گیا، جہاں وہ افغانستان کے 15 صوبوں میں عسکری کارروائیوں کے نگران تھے۔ اسی سال، انہیں طالبان کی اعلیٰ قیادت کی شوریٰ “رہبری شوریٰ” میں شامل کیا گیا۔
2020 میں، انہیں طالبان کے عسکری کمیشن کا سربراہ مقرر کیا گیا، جو تحریک کے تمام عسکری امور کی نگرانی کرتا ہے۔
7 ستمبر 2021 کو، طالبان کی عبوری حکومت کے قیام کے بعد، ملا یعقوب کو وزیر دفاع مقرر کیا گیا۔ اس حیثیت میں، وہ افغانستان کی مسلح افواج کی تنظیم نو اور عسکری حکمت عملیوں کی قیادت کر رہے ہیں۔
بین الاقوامی روابط اور نظریات
ملا یعقوب کو طالبان کے معتدل دھڑے کا حامی سمجھا جاتا ہے۔ وہ مذاکرات کے ذریعے مسائل کے حل کے حامی ہیں اور بین الاقوامی تعلقات، خصوصاً بھارت اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ، بہتر بنانے کے خواہاں ہیں۔
3۔ملا محمد حسن آخوند
ملا محمد حسن آخوند ، طالبان کے موجودہ قائم مقام وزیرِ اعظم ہیں اور ان کا شمار تحریک کے بانی ارکان میں ہوتا ہے۔ انہوں نے 7 ستمبر 2021 کو طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد وزیرِ اعظم کے طور پر ذمہ داریاں سنبھالیں۔ ان کی قیادت میں طالبان نے افغانستان میں حکومت قائم کی۔
ابتدائی زندگی اور تعلیم
ملا حسن آخوند 26 مارچ 1949 کو افغانستان کے صوبہ قندھار کے ضلع پنجوائی کے گاؤں پشمول میں پیدا ہوئے۔ وہ پشتون قوم کے بابر قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں اور احمد شاہ ابدالی کے نسل سے ہیں، جو جدید افغانستان کے بانی سمجھے جاتے ہیں۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم افغانستان میں حاصل کی اور بعد ازاں پاکستان کے مختلف مدارس میں دینی تعلیم مکمل کی۔ ان کی شخصیت زیادہ تر مذہبی رہنما کی حیثیت سے جانی جاتی ہے، اور وہ طالبان کے روحانی رہنما ملا محمد عمر کے قریبی ساتھی تھے۔
عسکری اور سیاسی کیریئر
ملا حسن آخوند نے 1996 سے 2001 تک طالبان کے اقتدار میں مختلف اہم عہدوں پر فائز رہے، جن میں وزیرِ خارجہ اور نائب وزیرِ اعظم شامل ہیں۔ انہوں نے طالبان کی قیادت میں اہم فیصلوں میں حصہ لیا۔
2001 میں امریکی قیادت میں ہونے والی فوجی کارروائی کے بعد، ملا حسن آخوند پاکستان کے شہر کوئٹہ میں طالبان کی قیادت کے شوریٰ (رہباری شوریٰ) کے رکن کے طور پر سرگرم رہے۔ انہوں نے اس دوران طالبان کی نظریاتی اور سیاسی رہنمائی فراہم کی۔
2۔ ملا خیر اللہ خیر خواہ
ملا خیر اللہ خیر خواہ کی بائیوگرافی کے بارے میں عمومی طور پر دستیاب معلومات کافی محدود ہیں، کیونکہ طالبان کے کئی رہنماوں کی تفصیلات عوامی سطح پر مکمل یا واضح طور پر دستیاب نہیں ہوتیں۔
تعارف
ملا خیر اللہ خیر خواہ طالبان تحریک کے ایک اہم کمانڈر اور رہنما ہیں۔ وہ طالبان کے اندر عسکری اور سیاسی دونوں شعبوں میں سرگرم رہے ہیں۔ انہیں طالبان کے قیادت میں قابلِ اعتماد اور تجربہ کار شخصیت سمجھا جاتا ہے۔
عسکری اور سیاسی کردار
ملا خیر اللہ خیر خواہ نے طالبان کی مختلف عسکری کارروائیوں میں حصہ لیا اور بعد ازاں وہ طالبان کی قیادت میں مختلف ذمہ داریاں ادا کرتے رہے ہیں۔ ان کا نام طالبان کی اندرونی یعنی خفیہ تنظیمی ڈھانچے اور قیادت میں اکثر سامنے آتا ہے، خاص طور پر افغانستان میں امن عمل اور طالبان کی سیاسی حکمت عملیوں میں ان کا کردار اہم سمجھا جاتا ہے۔
طالبان حکومت میں کردار
افغانستان میں طالبان کی حکومت کے قیام کے بعد، ملا خیر اللہ خیر خواہ مختلف سرکاری یا حکومتی عہدوں پر فائز ہو تے ہیں، لیکن ان کے عہدے یا سرکاری منصب کی تفصیلات عام طور پر طالبان کے اندرونی معاملات کی نوعیت کی وجہ سے کم سامنے آتی ہیں۔
1۔ ملا ہیبت اللہ اخوندزادہ
ملا ہیبت اللہ اخوندزادہ افغان طالبان کے موجودہ امیر اور افغانستان کے سپریم لیڈر ہیں، جنہوں نے 2016 میں ملا اختر منصور کی شہادت کے بعد طالبان کی قیادت سنبھالی۔ ان کی قیادت میں طالبان نے 2021 میں کابل پر قبضہ کیا، جس کے بعد وہ افغانستان کے اعلیٰ ترین حکمران بنے۔
ابتدائی زندگی اور تعلیم
ملا ہیبت اللہ اخوندزادہ 1957 یا 1961 میں افغانستان کے صوبہ قندھار کے ضلع پنجوائی میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق پشتون قوم کے نورزئی قبیلے سے ہے۔ ان کے والد، مولوی محمد اخوند، ایک معروف دینی عالم اور مقامی مسجد کے امام تھے۔ سوویت یونین کے افغانستان پر حملے کے بعد، ان کا خاندان پاکستان کے شہر کوئٹہ ہجرت کر گیا، جہاں انہوں نے دینی تعلیم حاصل کی اور “شیخ الحدیث” کا لقب حاصل کیا۔ 1980 کی دہائی میں، انہوں نے حزب اسلامی خالص کے ساتھ سوویت افواج کے خلاف جہاد میں حصہ لیا۔
طالبان میں کردار
طالبان کی 1996 سے 2001 کی حکومت کے دوران، ملا ہیبت اللہ نے قندھار اور کابل میں شریعت عدالتوں کے جج کے طور پر خدمات انجام دیں۔ 2001 میں طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد، انہوں نے طالبان کے شرعی نظام کے سربراہ کے طور پر کام کیا اور کوئٹہ میں ایک مدرسہ بھی چلایا، جہاں سے کئی طالبان رہنما فارغ التحصیل ہوئے۔
طالبان کے امیر کے طور پر تقرری
مئی 2016 میں، ملا اختر منصور کی امریکی ڈرون حملے میں شہادت کے بعد، ملا ہیبت اللہ کو طالبان کا نیا امیر مقرر کیا گیا۔ ان کی تقرری طالبان علما کی کونسل نے کی۔ ان کی مذہبی ساکھ اور غیر متنازعہ شخصیت نے طالبان کے مختلف دھڑوں کو متحد رکھنے میں مدد کی۔
افغانستان کے سپریم لیڈر کے طور پر کردار
15 اگست 2021 کو طالبان کے کابل پر قبضے کے بعد، ملا ہیبت اللہ افغانستان کے سپریم لیڈر بنے۔ انہوں نے قندھار سے حکومت کی قیادت کی اور متعدد سخت گیر احکامات جاری کیے، جن میں پردے کے سخت اصول، اور منشیات کی پیداوار پر پابندی شامل ہیں۔
طالبان کے سپریم لیڈر ملا ہیبت اللہ اخوندزادہ نے اپنے عہدیداروں اور کمانڈروں کو متعدد شادیوں سے گریز کرنے کی ہدایت کی ہے۔ یہ ہدایت 9 جنوری 2021 کو جاری کی گئی تھی، جس میں کہا گیا تھا کہ اگر دوسری، تیسری یا چوتھی شادی کی ضرورت نہ ہو تو ان سے اجتناب کیا جائے، کیونکہ یہ “غیر ضروری اور مہنگی” ہیں۔
ذاتی زندگی اور موجودہ حیثیت
ملا ہیبت اللہ ایک گوشہ نشین شخصیت کے حامل ہیں اور عوامی سطح پر شاذ و نادر ہی نظر آتے ہیں۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کے دو بیویاں اور گیارہ بچے ہیں،۔ وہ جدید ٹیکنالوجی سے گریز کرتے ہیں اور زیادہ تر خطوط کے ذریعے طالبان حکام سے رابطہ رکھتے ہیں۔