دارالعلوم دیوبند کو انگریز کا چندہ
دارالعلوم دیوبند، چندہ انگریز اور “جامعۃ الرشید کے مہتمم المعروف استاد صاحب”
تحریر مفتی ہارون الرشید قاسم
کچھ دنوں سے علمی دنیا میں ایک نیا فتنہ سر اٹھا رہا ہے — اور افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ فتنہ کسی دشمنِ دین کی طرف سے نہیں، بلکہ “جامعۃ الرشید کے مہتمم المعروف استاد صاحب” کی زبان سے پھوٹا ہے۔
فرمایا گیا کہ: “دارالعلوم دیوبند کو انگریز چندہ دیا کرتے تھے۔”
سبحان اللہ! یہ وہ جملہ ہے جو کسی مستشرق کے منہ سے نکلتا تو تعجب نہ ہوتا، مگر جب خود کو “خادمِ علم” کہنے والے اس کی تکرار کریں تو یہ صرف لاعلمی نہیں — بدنیتی ہے۔
دارالعلوم دیوبند کی بنیاد 1866 میں ایک مٹی کی مسجد میں رکھی گئی، جہاں فرش نہیں تھا، صرف چٹائیاں تھیں۔ اس وقت برصغیر میں انگریز اپنی سیاسی گرفت مضبوط کر رہے تھے، اور علماءِ حق کو پھانسیوں پر چڑھایا جا رہا تھا۔ انگریزوں کے ہاتھوں شہید ہونے والے مولانا احمد شہیدؒ، مولانا قاسم نانوتویؒ، مولانا رشید احمد گنگوہیؒ، مولانا فضل حق خیرآبادیؒ، مولانا فضلِ رسول بدایونیؒ — سب وہی قافلہ تھے جن کی علمی اولاد نے “دیوبند” کے نام سے ایک علمی قلعہ بنایا۔
یہ کہنا کہ “انگریز چندہ دیتے تھے” ایسا ہی ہے جیسے کہنا کہ بدر میں قریش نے مسلمانوں کو ہتھیار دیے تھے۔
تاریخ کے صفحات گواہ ہیں کہ دارالعلوم دیوبند کی بنیاد عوامی چندوں پر رکھی گئی — گاؤں گاؤں، قصبہ قصبہ، ایک ایک روپیہ جمع کر کے۔ استاد صاحب اگر واقعی “تحقیق” کے قائل ہیں، تو ذرا مولوی ذکاء اللہ کی تحریریں، شیخ الہند محمود حسنؒ کے خطوط، اور مولانا حسین احمد مدنیؒ کی یادداشتیں اٹھا کر دیکھیں۔
انگریز چندہ دیتے تو شیخ الہندؒ کو مالٹا کی جیل میں کیوں ڈالا جاتا؟
انگریز چندہ دیتے تو مولانا عبیداللہ سندھیؒ کو افغانستان اور ترکی کے دروازے کیوں کھٹکھٹانے پڑتے؟
انگریز چندہ دیتے تو “تحریکِ ریشمی رومال” کیوں بنتی؟
حقیقت یہ ہے کہ دارالعلوم دیوبند برصغیر کی واحد درسگاہ تھی جسے انگریز حکومت نے کبھی ایک پیسہ تک نہیں دیا — بلکہ اس کے بانیوں کو ریاست دشمن کہا، ان کے نام بلی لسٹ میں لکھے، اور ان کے طلباء پر نظر رکھی۔
یہ جو “استاد صاحب” آج کل تحقیق کے پردے میں طنز کی تلوار چلا رہے ہیں، ان کے ادارے کے بورڈ پر ذرا نظر ڈال لیجیے۔ وہیں جا کر پتا چلے گا کہ کس کے ساتھ “کارپوریٹ اسلام” کی فکری شراکت چل رہی ہے۔
انگریزوں کا چندہ دیوبند کو نہیں گیا تھا، مگر آج کے نیو لبرل اسلام کے کچھ خود ساختہ نمائندے ضرور سرمایہ داروں کے چندے سے چل رہے ہیں۔
دارالعلوم دیوبند نے کبھی انگریزوں سے چندہ نہیں لیا —
بلکہ انگریزوں کی تلواریں اپنے سینے پر سہیں۔
دارالعلوم دیوبند نے کبھی تاجروں کے چندے سے نظریہ نہیں بدلا
بلکہ نظریے کے لیے سب کچھ قربان کر دیا۔
افسوس یہ ہے کہ “جامعۃ الرشید کے مہتمم المعروف استاد صاحب” نے جس منبر سے یہ جملہ کہا، وہ منبر کبھی سچ کے لیے کانپتا تھا — آج سوشل میڈیا کے لائکس کے لیے بکتا ہے۔
تاریخ کا سبق یہی ہے کہ جو لوگ علمائے حق پر انگلی اٹھاتے ہیں، ان کی انگلیاں آخر کار خود کاٹ دی جاتی ہیں۔
دیوبند ایک مکتب نہیں — ایک مزاحمت ہے، ایک تحریک ہے، ایک روشنی ہے جو انگریز کے ظلم سے لے کر آج کے فکری انحراف تک، ہر اندھیرے کو چیرتی ہے۔
اور یاد رکھو استاد صاحب
دیوبند کو انگریزوں نے چندہ نہیں دیا، بلکہ دیوبند نے انگریزوں کی غلامی سے قوم کو آزاد کیا۔
#دارالعلوم_دیوبند #جامعۃ_الرشید #استاد_صاحب #چندہ_انگریز #فکری_تیزاب #تاریخی_جھوٹ #علمائے_حق
