تحقیقاتِ الامراض و العلامات

0
901

تحقیقاتِ الامراض و العلامات

پیش لفظ

تحقیقاتِ الامراض و العلامات کی اہمیت کااندازہ اس امر سے لگالیں کہ ان کے بغیر نہ ہی تشخیص صحیح ہوسکتی ہے اور نہ ہی کسی علاج میں کامیابی ہوسکتی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ شیخ الرئیس بوعلی سینا کے بعد امراض اور علامات پر کوئی تحقیقات نہیں ہوئیں اور اس کے بعد جو کتب حقیقت امراض اورعلامات پر لکھی گئی ہیں ان میں اسی کی نقل کی گئی ہے۔ اسی طرح ایورویدک میں چرک اورشسرت کے بعد ہزاروں سالوں میں ان کی معلومات پر اضافہ کیا ہوتا۔ البتہ انہوں نے جو کچھ لکھا ہے ان کو بھی پورے طورپر نہیں سمجھا گیا بلکہ ان میں خس وخاشاک اس قدر ملادیاگیاہے کہ ان کی اصل حقیقت بھی ان میں دب کرروپوش ہوگئی ہے۔ اب ان کی حقیقت اصل رنگ میں پیش کرنا نہ صرف مشکل بلکہ ناممکن ہوگیاہے۔ایورویدک کی تحقیقات کاکام تواس وقت ختم ہوگیاتھا جب سکندراعظم کی فتوحات کے ساتھ ہندوستان پر طبِ یونانی کی برتری قبول کرگئی اوربعد کے زمانوں میں خصوصاً اسلامی علوم و فنون کے انتہائی ترقی یافتہ دور میں طب یونانی کی ہندوستان میں بہت بڑھ گئی اور جب ہندوستان پر مسلمانوں نے صدیوں تک بادشاہی کی تو طب یونانی کاہرطرف غلبہ اور بول بالا ہوگیا جس کے ساتھ ہی ایورویدک یا تو کتب میں بند ہوگئی یاطب یونانی کے ساتھ ساتھ اس کابھی ذکر ہوتا رہا لیکن اس کی تحقیق و ترقی کا سلسلہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم ہوگیا۔ ایورودیک کی اصل زبان سنسکرت ہمیشہ کےلئے ختم ہوگی۔ ہندوستان کی نئی زبانوں میں نئے علم و فن اکٹھے ہوگئے۔ اب حالت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ ایورویدک زبان کا زندہ ہونا قطعاً ناممکن ہوگیا ہے ۔اس لئے ایورویدک کی تجدید کاسوال ہی ہمیشہ کے لئے ختم ہوگیاہے۔

تحقیقاتِ الامراض و العلامات

فرنگی طب اور ماڈرن سائنس کے عروج اور علوم و فنون کے دور نے طب ِ یونانی کے ساتھ بھی وہی سلوک کیا کو یونانی طب وحکمت اور علم و سائنس نے ایورویدک کے ساتھ کیاتھا۔ مگرانیسویں صدی کے آخیر تک مسلمانوں کی حکومت کے ساتھ ساتھ ہندوستان کے دیگر چھوٹے بڑے نوابوں، حکمرانوں اور راجوں ، مہاراجوں کے دور میں طبِ یونانی بہت حدتک زندہ رہی اور آج بھی وہ ز ندہ ہے کیونکہ اس کی روح یعنی اس کی زبان عر بی آج بھی زندہ زبانوں میں شامل ہے اور تقریباً نصف دنیا میں بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ البتہ یہ صحیح ہے کہ فرنگی طب اورماڈرن سائنس کی ترقی اور عروج کے بعد اس میں تحقیق اور ترقی کادور ختم ہوگیا ہے۔ان حقائق کے مدنظرہم نے عرصہ بیس پچیس سالوں سے طب یونانی میں تجدید کا سلسلہ شروع کیا تھا جس کی بنیاد کیفیات واخلاط کو بالمفرداعضاء پیش کیا گیا تاکہ فرنگی طب کا نہ صرف مقابلہ کیاجائے بلکہ ان کوان کی معلومات کے تحت غلط اور غیر علمی(Unscientific) ثابت کیا جائے جو ہم عرصہ پانچ سالوں سے بہت کامیابی کے ساتھ دنیا طب و حکمت اور جدیددور سائنس اور علم میں پیش کررہے ہیں۔

نظریہ مفرد کا مقصد صرف یہ ہے کہ طب یونانی کے علوم فنون کو جو کیفیات و اخلاط کی حدود میں بندہیں ان کو ماڈرن سائنس کی تدقیقی(Minute) تحقیقات جو ایٹمی دور کے منافع الاعضاء فزیالوجی کا سب سے بڑااور آخری کارنامہ ہے۔ اس کے مطابق اور اس کے رنگ میں پیش کرسکیں۔ اللہ کریم کا ہزار ہزار شکر ہے کہ اس نے ہمیں اس پیش کش اور تجدید طب میں انتہائی کامیاب اور کامران کیا ہے۔اس کتاب سے پہلے ہم تقریباً دس(10) کتب اسی نظریہ مفرد اعضاء انسجہ(Tissues)کے تحت پیش کرچکے ہیں جواللہ تعالیٰ کی کرم نوازی سے بے حد مقبول اور بے انتہا مفید ثابت ہوئی ہیں۔ یہ کتاب بھی انہی کی ایک کڑی ہے۔ نظریہ مفرداعضاء تو پہلے کئی بار بیان ہوچکاہے۔ اس کے تحت قابل اطباء اور فاضل معالجین امراض و العلامات کی حقیقت سے واقف ہو چکے ہیں۔ لیکن نوآموز اطباء اور طالب علموں کی سہولت کے ساتھ ساتھ تشخیص میں آسانیاں پیداکرنے کےلئے یہ تحقیقات الامراض و العلامات اور ان کے علاجات کی طرف اشارے پیش کئے گئے ہیں تاکہ علاج میں اور بھی یقینی اور بے خطا صورتیں پیداہوجائیں۔ اس کتاب پرجو محنت کی گئی ہے اس کا اندازہ ایماندار اور محقق ہلِ علم اور صاحبِ فن ہی لگا سکتےہیں اور وہی اس کی قدروقیمت کی داد دے سکتے ہیں۔

اس کتاب میں تحقیقاتِ الامراض و العلامات کے علاوہ تین باتوں کو خاص طورپر مدنظر رکھاگیاہے۔

1۔ بیرونی طورپرجسم انسانی کی تقسیم اور مفرداعضاء میں امراض کی ابتداکی حدود تاکہ مریض اگر جسم کے کسی مقام پرہاتھ رکھے تو فوراً پتا چل جائے کہ فلاں مفردعضو میں تحریک شروع ہوگئی ہے۔ یہ علم تشخیص میں اتنا بڑاکارنامہ ہے کہ اس کی مثال آج تک طبی دنیا پیش نہیں کرسکی اور آئندہ اس کی بنیادپر قابل قدر تحقیقات سامنے آسکتی ہیں۔

2۔تشخیص الامراض والعلامات میں ان کے فرق کو دلائل کے ساتھ بیان بیان کردیا گیا ہے تاکہ علاج میں غلط فہمی باقی نہ رہے اور یقینی طورپرمرض کورفع کیا جاسکے۔

3۔ علاج کوذہن نشین کرانےمیں بعض مشہور امراض و علامات کے علاجات کے اشارے لکھ دئیے ہیں تاکہ ان میں مشکلات پیش نہ آئیں۔ اگر ہم تمام امراض میں یہ صورت قائم رکھتے توکتاب کا حجم کم از کم دس گنا ہوتا جو اس قلیل وقت میں بالکل ناممکن ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ تفصیلی علاجات کے لئے دس گنا حجم بھی ناکافی ہے۔وما توفیقی الا بااللہ۔

مقدمہ

حکیمِ مطلق و خالق ِ ارض وسما اور قادر زندگی و کائنات کا لاکھ لاکھ شکرہےکہ اس نے ایسی کتاب لکھنے کی قوت عطا فرمائی جس کی علم و روشنی سے طبی دنیا نہ صرف محروم تھی بلکہ اس کے حقائق کے بغیر علم و فن طب کو سمجھنے کے لئے ظن و گمان اور پیچیدگی میں مبتلا تھی۔ اس کتاب میں حقیقت الامراض و علامات کا ایسا نقشہ پیش کردیاہے جس سے ہرمرض اور ہرعلامت نکھرکر نمایاں ہوگئی ہے اور کسی قسم کے شک و شبہ اور ظن و گمان کی ادنیٰ سی صورت بھی باقی نہیں رہی۔ ہر معالج جس کو فنِ طب کی مبادیات کا علم ہو اس سے پورے طورپرمستفیدہوسکتا ہے۔ اس کتاب کا سب سے بڑاکمال یہ ہے کہ ایسے زمانے میں لکھی گئی ہے جب کہ طبی دنیا میں فرنگی طب کا نہ صرف دوردورا ہے ۔بلکہ اس کاتمام دنیا پرقبضہ ہے۔ اس کتاب نے اس کی تحقیقات الامراض و علامات کو نہ صرف کُلُّھُمْ بدل دیا ہے بلکہ غلط قرار دے دیا ہے۔ اس کتاب کوپڑھنے کے بعد فرنگی طب کی بے بسی اور بے کسی طبی دنیا میں نمایاں طورپرروشن اور واضح ہوجائے گی۔ اس کے بعد طبی دنیا کبھی بھی اس کی تحقیقات کو صحیح مقام نہیں دے گی۔ جن لوگوں نے امراض اور علامات کی حقیقت کو سمجھنا ہے ان کے لئے لازمی امرہوگاکہ وہ اس کتاب کو اپنا رہنما بناکرعلم و فن طب کی روشنی حاصل کریں ورنہ طبی دنیا کے حقیقی علم سے محروم اور کامیابی سے دور رہیں گے۔

ہندوپاکستان میں صدیوں سے تحقیقات الامراض و علامات پر کوئی کتاب نہیں لکھی گئی۔ ایورویدک کاذکر تو بالکل بے سود ہے کیونکہ اس میں صدیوں سے علم ِ طب و فن میں کوئی کام ہی نہیں ہوا جہاں تک طبِ یونانی کا تعلق ہے اس میں ابنِ نقیس کی کتاب” شرح اسباب و علامات” کے بعد کوئی قابلِ قدر کتاب نہیں لکھی گئی۔ پھر بعد کے زمانوں میں اسی کتاب سے فارسی میں کتب لکھی گئیں اور بعد میں اسی کتاب کے اردو زبان میں تراجم ہوئے اور ہندو پاکستان کے تمام فرنگی طبیہ کالجوں (انگلوانڈین طبیہ کالج) جن میں طبِ یونانی کے ساتھ ساتھ فرنگی طب میں بھی پڑھائی جاتی تھی، شاملِ نصاب رہی۔”شرح اسباب و علامات” ایک انتہائی قابل قدر کتاب میں اسلامی طب کے دورِ کمال کی تمام تحقیقات، اسباب و علامات اور امراض و علاجات کے متعلق بیان کی گئی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بعد کے زمانوں میں اس سے بڑھ کر توکیا اس کے برابر بھی کوئی کتاب نہیں لکھی گئی۔ لطف کی بات یہ ہے کہ ایسی تحقیقاتی کتاب آج تک فرنگی طب(ماڈرن میڈیکل سائنس) بھی شائع نہیں کرسکی۔ یہی اس کاکمال ہے ان حقائق سے اندازہ لگا لیں کہ یہ کتاب طبی دنیا میں کس پائے کی قابل قدر کتاب ہے جس کی تفصیل کےلئے پھر اس سے دگنی تگنی کتاب لکھنے کی ضرورت ہے۔

جہاں تک اس کتاب کے حقائق کا تعلق ہےبہت سے مقام ایسے ہیں جہاں پراختلاف کیاجاسکتا ہے کیونکہ محقق میں مختلف ذہن اورجدا قسم کے نظریات غالب رہتے ہیں لیکن اس کتاب میں شرح اسباب وعلامات اور امراض و علامات میں ہمیشہ حقیقت تک پہنچنے کی کوشش کی گئی ہے مگر جن لوگوں نے ان کے اردو ترجمے کئے ہیں انہوں نے اس پرجوحاشیے لکھے ہیں ان میں بے حد خرابیاں کی ہیں۔ جن کی تفصیل طوالت کا باعث ہوگی۔ ہمارے سامنے اتنا عظیم کام ہے کہ ہم فی الحال ہر طبی مفیدہا غیر مفید کتاب کے حسن و قبح پربحث نہیں کرسکتے لیکن یہ خدمت بھی ہمارے ذہن میں محفوظ ہے۔

1857ء کی جنگ آزادی کے بعد جس میں ہندوستان کو بدقسمتی سے شکست ہوگئی تھی جس کا نام فرنگی طب نے غدر 1857ء رکھاتھا۔ اس کے بعد فرنگی نے جب اپنی حکومت مضبوط کرلی تو انہوں نے اپنے ملکی اور قومی علوم و فنون کی نشراشاعت کےلئے ہندوستان میں جگہ جگہ اپنے سکول اور کالج قائم کئے ان میں میڈیکل سکول اورکالج بھی قائم کئے گئے۔لیکن یہ وہ زمانہ تھا جب ملک میں زبان اردو اپنے پورے عروج پرتھی۔ وہی دور تھا جب مرزا غالب، مومن اور ذوق کاطوطی بولتا تھا اور اسی دور میں سرسیدؒ، ڈاکٹرنذیر احمد اور مولاناشبلی نعمانی نے اپنے علمی خزانوں سے ملک کومالامال کردیا۔ اس کے فوراً بعد ہی مولانا حالیؒ، مولانا محمد حسین آزاد اور اکبر الہ آبادی نے زبان اردو کی نوک پلک سیدھی کر دی۔اسی باکمال دور میں مولانا ابوالکلام آزاد اور حکیم الامت ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؒ جیسی باکمال شخصیتوں نے اپنی زبان، قوت اورعلم و فن کا لوہا دنیا بھر میں منوالیا۔ زبان کے اثر کی وجہ سے فرنگی حکومت مجبور تھی کہ ملک میں علوم وفنون کی اشاعت کو انگریزی فارسی اور عربی کی بجائے اردو زبان میں جاری کرے۔ تقریباً تمام ہندوستان میں علوم وفنون اردو زبان میں جاری کئے گئے اور اس مقصد کے لئے انگریزی کتب کے ترجمے کرکے ان کو نصاب میں داخل کیاگیا اور سالہا سال کی تعلیم کے بعد اردو زبان ہی میں امتحان لئے گئے اورکامیاب لوگوں کو فرنگی طب کی ڈگریاں دی گئیں اور ان کو ملازمتیں بھی عطا کی گئیں۔ وہ کتب جو نصاب میں داخل تھیں اب لائبریریوں میں موجود ہیں۔ پنجاب میں فرنگی طب کی بڑی درسگاہ میڈیکل سکول لاہور تھی جس کانام بعد میں کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج رکھا گیا۔ جو اب تک قائم ہے۔ تھوڑا عرصہ گزرا اس کی صد سالہ برسی منائی گئی ہے۔ اس درسگا ہ میں بھی اردو زبان میں فرنگی تعلیم دی جاتی ہے۔ اسی دور میں جو فرنگی کتب ترجمہ ہوئیں ان میں ڈاکٹر رحیم بخش کی طب رحیمی اور ڈاکٹر پنڈت بال کرشن کول کی میٹریا میڈیکا خاص طورپر قابلِ ذکر ہیں کیونکہ بعدم یں فرنگی یونانی(اینگلو یونانی طب) پر جو کتب لکھی گئیں وہ سب ان کی نقل ہیں یاچربہ کی گئی ہیں۔ڈاکٹر پنڈت بال کرشن کول کے میٹریا میڈیکا کا پہلاایڈیشن 1897ء میں شائع ہوا۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ انیسویں صدی کے آخرتک پنجاب کی اس فرنگی درسگا ہ میں فرنگی طبی تعلیم اردو زبان میں دی جاتی تھی اور اس طرح فرنگی طبی تعلیم کو مقبول بنانے کی سعی اور کوشش جاری تھی۔شایداسی جذبہ کے تحت کرنل بھولاناتھ نے اپنی کتاب “کتاب علم وعمل طب” لکھی۔ کوئی شک نہیں کہ تاریخی و تمدنی اور عملی و فنی تبدیلیوں کی حیثیت  سے یہ کتاب ایک سنگِ میل ہے جس میں معاشرہ کی تبدیلی پر خاص روشنی پڑتی ہے لیکن اس کتاب کا بڑا مقصد یہ تھاکہ طب یونانی کو ختم کردیاجائے کہ وہ اب قدیم ہوچکی ہے۔ فرنگی طب کامقابلہ نہیں کرسکتی۔جگہ جگہ طب قدیم پر زبردست اعتراض کئے گئے۔

یہ کتاب جناب مسیح الملک حکیم حافظ محمد اجمل خاں صاحب کے نام منسوب کی گئی ہے۔  اس کا جواب ضرور جناب مسیح الملک صاحب کودینا چاہیے تھا مگر نہیں دیاگیا۔ البتہ بعدکے زمانےمیں جناب حکیم کبیرالدین صاحب پروفیسر طبیہ کالج دہلی نے بعض اعتراضوں کے جوابات دئیے ہیں۔ لیکن وہ سب بے معنی ہوجاتے ہیں جب کہ انہوں نے اپنی کتاب “افادہ کبیر” کے آخر میں ایک ضمیمہ لکھ کر فرنگی طب کے بہت سے اعتراضوں کو صحیح سمجھ کردرست تسلیم کرلیا ہے جن کے جوابات ہم نے اپنی کتاب “فرنگی طب غلط طریقِ علاج ہے” میں دئیے ہیں۔  اب کرنل بھولاناتھ کی کتاب “علم و عمل طب” کے جواب کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ ہم نے تمام فرنگی طب کو غلط ثابت کردیاہے اور ان اکثر اعتراضات کے جواب اپنی طبی تصانیف میں جگہ جگہ دئیے ہیں جن سے وہ لوگ بے خبر ہیں جنہوں نے وہ پڑھ لی ہیں۔

کرنل بھولا ناتھ نے اپنی کتاب “علم و عمل ِ فن” میں طب یونانی پر خوفناک حملے کئے ہیں جواکثر غلط ہیں۔ لیکن حیرت کی بات یہ ہےکہ ان میں سے اکثر اعتراضات کو جناب حکیم کبیر الدین نہ صرف لاجواب ہوکر بلکہ صحیح سمجھ کراپنا گئے ہیں اور اپنی کتاب “افادہ کیبر” میں قدیم اور جدید نظریات کو بالمقابل لکھا ہےاور تعجب انگیز بلکہ درد ناک بات یہ ہے کہ طب یونانی کے وہ قانون جن پر اس کی بنیاد ہے اور پوری عمارت قائم ہے جن کے خلاف فرنگی طب نے لکھا ہے انہی فرنگی طب کے نظریات کو صحیح سمجھ کر قانونِ عصری میں تحقیقات طب یونانی کے نام سے لکھا گیاہے۔ اس کتاب پر جناب مسیح الملک حکیم حافظ محمد اجمل خاں صاحب، جناب حکیم محمدکبیر الدین صاحب، جناب حکیم محمد الیاس صاحب سابق پروفیسر طبیہ کالج دہلی اور جناب حکیم فضل الرحمنٰ صاحب سابق پروفیسر طبیہ کالج کے دستخط ثبت ہیں۔کرنل بھولا ناتھ کی کتاب “علم و عملِ فن” بیسویں صدی کے بالکل ابتدامیں لکھی گئی اور 1915ء میں شائع ہوئی جو طب قدیم کی تباہی کی زبردست کوشش تھی مگر اسی زمانے میں ایک دو ایسی شخصیتیں بھی ابھری جنہوں نے نہ صرف فن طب کو سہارا دیا بلکہ طب یونانی کی عزت رکھ لی۔یہ قابلِ عزت جناب حکیم فیروزالدین صاحب مالک ماہنامہ “الحکیم” لاہور اور جناب شمس الاطباء حکیم غلام جیلانی صاحب تھے جنہوں نے علم العلاج، علم الادویہ اور مجربات کے خزانے پیش کرکے وہ قابل قدر خدمات انجام دیں کہ پھر تباہ وبرباد اور فناہوتے ہوئے فنِ طب کوزندہ کردیا۔انہوں نے سب سے بڑاکام یہ کیاکہ فرنگی طب کے تحقیق شدہ علم اور فن کے مقابلے میں طب یونانی اور ایورویدک کے خزانے دنیا کے سامنے پیش کردئیے۔ طب قدیم کوفرنگی طب کے ساتھ علمی اور فنی حیثیت سے تطبیق دینے کی کوشش کی اور اپنے علمی و فنی کارناموں میں پورے طورپر کامیاب ہوئے اور ان کی اولاد اور متعلقین اسی انداز میں خدمتِ علم و فن کرتے رہے ہیں۔شمس الاطباء حکیم ڈاکٹر غلام جیلانی نے مخزن حکمت (گھرکاحکیم وڈاکٹر) جیسی کامیاب کتاب لکھی کہ اس کی تمام ہندوستان میں دھوم مچ گئی۔ شاید ہی کوئی حکیم اور ڈاکٹرہو جس نے اس کو خریدکر اپنے علم میں اضافہ نہ کیاہو بلکہ ہر صاحبِ علم نے اس کو خریدا۔ لطف کی بات یہ ہے کہ ملک کی ہربڑی لائبریری نے اس سے اپنی زینت بڑھائی۔ پنجاب یونیورسٹی نے اس کو ایک بہترین کتاب ہونے کا انعام دیا ارحکومتِ ہند نے ان کو خاں صاحب کا خطاب عطاکیا۔

اگر شمس الاطبا”مخزنِ حکمت” کےسوا اور کوئی کتاب نہ لکھتے تو بھی ان کی کامیابی کے لئے یہ کتاب کافی تھی۔ مگر انہوں نے اس پر بس نہیں کی۔ اس سے بھی زیادہ بہتر کتب لکھیں جن کا جواب آج تک نہیں لکھا گیا۔ مثلاً میٹریا میڈیکا (علم الادویہ)، علاج بالمفردادویہ، مخزن العلاج اور تشریح و افعال الاعضاء انسانی وغیرہ۔ جن کی کوئی آج تک کامیاب نقل نہیں کرسکا اور حقیقت ہے کہ جس خلوص اورمحنت سے وہ لکھی گئی ہیں ان کا جواب لکھنا واقعی مشکل ہے۔”مخزن ِ حکمت” کی کامیابی دیکھ کردوسرے لوگوں کے منہ میں پانی بھرآیااور اس انداز پر اور کتب لکھی گئیں جن میں ڈاکٹر نصیر الدین کی کتاب “خزائن الطب جدید”(گھرکاکامل طبیب) اور فرنگی شفاء الملک کی کتاب “جامع الحکمت” قابلِ ذکر ہیں۔ مگردونوں میں “مخزن الحکمت” والی خوبیاں کہاں۔ زمین و آسمان کا فرق ہے۔”خزائن الطب جدید” میں نہ کوئی ترتیب ہے اور نہ ہی اس کو عام کیاگیا ہے بلکہ فرنگی طب کے بوجھل مضامین کو بے ترتیبی سے اردو کا جامہ پہنایا گیا ہے۔ اس میں طب قدیم کے علم و فن کو اتنی اہمیت بھی نہیں دی جس قدر کرنل بھولاناتھ نے اپنی بدنام کتاب”علم و عملِ طب” میں دی۔ اس کے علاوہ علمی و فنی اور روزانہ زندگی کے مسائل کو کسی سلجھے ہوئے ڈھنگ سے بیان نہیں کیا گیا۔ اس لئے اس کتاب کی طرف کسی نے آنکھ اٹھاکر نہیں دیکھا اور یہ کتاب ردی اور کباڑ خانے میں پھینک دی گئی اور بے موت مرگئی۔ فطرت کا یہ ردعمل بھی صحیح تھا۔

دوسری کتاب فرنگی شفاء الملک حکیم محمد کی “جامع الحکمت” کو پوری کوشش سے مقابلے کےلئے لکھاگیا۔ اس کی لفظ بلفظ نقل کی گئی۔ مگر اس میں اہتمام یہ کیا گیا کہ طب قدیم کے علاج کو فرنگی طب سے مقدم رکھا گیا تاکہ طب قدیم کی نمائندگی کرے لیکن اہتمام کے سوا تمام کتاب کو فرنگی طب کے علوم وفنون کی جدید تحقیقات سے بھرکرنہ صرف کتاب کا ستیاناس کردیا بلکہ طب قدیم کے حقائق او ر خزانے کوتباہ برباد کرکے رکھ دیا۔ طب قدیم کے علم و فن کوکہیں ابھرنے کا موقع نہ دیاگیا۔بلکہ بعض جگہ طب قدیم کے بنیادی قوانین کوفرنگی طب سے تطبیق دے کران کو سہارا دینے کی کوشش کی گئی ہے اور یہ کوشش نہ صرف بھونڈی ہے بلکہ جگہ جگہ طبی مسائل کو غلط طریق سے پر بیان کرکے ان میں احساسِ کمتری پیداکردیاگیا ہے۔ جہاں تک ماہیتِ امراض واسباب اور علامات کا تعلق ہےفرنگی طب کی تحقیقات کو نہ صرف مقدم رکھا گیا ہے بلکہ اپنایاگیاہے۔ اس سلسلہ میں جراثیم کو بے حداہمیت دی گئی ہے۔ طب قدیم کے بنیادی قوانین کو قطعاً نظرانداز کردیاگیا ہے۔ اس لئے امراض کے علاج میں ذہن خودبخود فرنگی علاج کی طرف رجوع کرتا ہے۔ علاج میں جو مجربات خصوصاً طب قدیم سے لکھے گئے ہیں ۔ اول تو وہ بے معنی اور بے تعلق ہیں، دوسرے علم مجربات کی روسے بالکل غلط ہیں۔ہم نے ان کےمتعلق ایک بار لکھا تھا کہ فرنگی شفاء الملک اپنی اس کتاب سے جس قدر صحیح مجربات پیش کردیں ہم اتنے ہی روپے پیشِ خدمت کردیں گے۔ سب سے بڑا ظلم جو اس کتا ب میں نظرآیا ہے وہ مسئلہ غذا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس مسئلہ سے جناب شفاء الملک صاحب قطعاً نابلد ہیں۔ سرسے پیرتک کسی مرض کے متعلق صحیح غذا تجویز نہیں کی گئی۔ پڑھ کر ایسا لگتا ہے جو مریض بھی اس غذا کوکھائے گا یقیناً مرے گا۔ گویا کتاب لکھ کرنہ صرف ملک و قوم کی دولت کوتباہ و برباد کیا گیا ہے بلکہ ملک وقوم پر علاج وغذا سے ظلم کیاگیاہے۔ سب سے بڑا دکھ یہ معلوم ہوتا ہے کہ طب یونانی کے علم و فن کی عزت ووقار کوخاک میں ملایا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کتاب میں علمی وفنی دنیا ہی بالکل بدل گئی ہے۔ اس لئے اس کے مقبول ہونے کا سوال ہی پیدانہیں ہوتا۔ چونکہ فرنگی شفاء الملک طبیہ کالج لاہور کے پرنسپل رہے ہیں اس لئے وہ ان شاگرد اور طالب علموں کو مجبوراً خریدنی پڑتی تھی۔ لطف کی بات یہ ہے کہ کالج کے کورس میں علم العلاج کی حیثیت سے قبول نہیں ہوسکی اس کے علاوہ صاحب نے کوشش کی ہے کہ پنجاب یونیورسٹی یا حکومت اس پرکچھ انعام عطاکرے مگر انتہائی جدوجہد اور خوشامد میں بھی وہ اس سلسلہ میں ناکام ہوئے ہیں۔ آج بھی حقیقت روزِ روشن کی طرح ظاہرہے کہ مخزن حکمت کے مقابلہ میں اگر اس کتاب کورکھاجائے توکوئی اس کو نصف قیمت پر بھی خریدنے کو تیار نہیں ہے۔ فرنگی شفاالملک نے صرف یہی علمی کتاب پیش کی ہے جس کا حشر آپ کے سامنے ہے۔ باقی کتب تو صرف مجربات فروشی کے تحت لکھی گئی ہیں۔ جن کی قدروقیمت صرف تجارتی پہلو کے سوا اور کچھ نہیں ۔ تفصیل کے لئے ہماری کتاب “تحقیقاتِ فارماکوپیا”کا مطالعہ کرلینا کافی ہے۔

مخزن حکمت کی نقلیں دیگر طریقہ ہائے علاجوں نے بھی خوب کھلے دل سے کی ہیں۔ اس کوسامنے رکھ کر مخزن ایورویدک لکھی گئی۔ اسی طرح ہومیوپیتھی اور بائیوکیمک والوں نے ہومیوپیتھی علاج اور بایوکیمک علاج کے نام سے اس کی پوری پوری نقلیں کی۔ ثبوت کے طورپر جناب ڈاکٹر نظام الدین کی “علاج ہومیوپیتھی” اٹھاکردیکھی جاسکتی ہے۔ہومیوپیتھ معالجوں کو نقل کے لالچ نے اس قدر اندھا کردیاکہ وہ اس حقیقت کو بھول گئے کہ علامات کے علاوہ انہوں نے امراض کاتعین کرکے علاج لکھ ڈالے یعنی امراض و اسباب اور علامات لکھ کر نیچے ہومیوپیتھک اور بائیوکیمک کے علاج نقل کردئیے اور اس کا نام اپنے علم و فن کا کمال ظاہرکیاگیا اور کہیں بھی اختلاف ظاہر کرنے کی جرات نہ ہوسکی۔ ترتیب کو مدنظر رکھنابُرا نہیں ہے۔ لیکن نقل کرنا علم و فن کو ختم کر دیتا ہے۔ ان پر بس نہیں ہوئی۔ ان کے علاوہ دیگر طریقہ ہائے علاج ہومیوپیتھی، کروموپیتھی(رنگوں سے علاج)، ہائیڈروپیتھی(پانی اور بھاپ سے علاج)، سائیکوپیتھی(نفسیاتی تجزیہ سے علاج)، علاج بالغزاوغیرہ(جودراصل ہومیوپیتھی اور بائیوکیمک کی طرح طریقہ ہائے علاج نہیں ہیں بلکہ خواص الاشیاء اور علامات الاجسام لینے کے طریق ہیں۔ ان کے ساتھ پیتھی اور علاج کا نام لگاکران کو ایک جداگانہ طریق علاج بنا دینے کی کوشش کی گئی ہے)۔ سب نے مخزن ِ حکمت کی نقلیں حسبِ منشا کی ہیں۔ بہرحال مخزنِ حکمت جیسی قابلِ قدر کتاب کوخوبیوں کو بگاڑ کر رکھ دیااوراس طرح علم الامراض اور علم العلامات کی تحقیقات و کامیابی خصوصاً طب یونانی کے تحقیقاتی و تدقیقی اور علمی و فنی مقام کوختم کرکے رکھ دیا۔ نسبتاً پاک وہند میں علم و فن کی ترقی اور تجدید ہمیشہ کےلئے ابھرتی ہوئی برباد ہوگئی جس کی تجدید اور احیاء کے سب دروازے بند ہوگئے۔ جن کے کھلنے کی سب رائیں بندہوگئیں اور اس کے بعد علم وفن طب میں فرنگی طب کے جراثیم داخل ہوگئے جن سے ان میں تعفن اور فساد پیداہوگیا اور پھر وہ خرابی پیداہوئی کہ حق و باطل میں تمیز نہ رہی۔ اب اس کاصرف یہی علاج باقی تھا کہ مرغولے کو ختم کرکے ازسرنوعلم و فن طب میں احیاء و تجدید کی جائے جو دنیا کے سامنے اللہ تعالیٰ کی مہربانی سے ہم کررہے ہیں۔ اس کے تحت ہم تحقیقات الامراض و العلامات اور ان کا علاج پیش کررہے ہیں۔جو حقائق ہم پیش کررہے ہیں ان میں ذیل کے حقائق کو خاص طورپر مدنظر رکھاگیاہے۔

ماہیتِ امراض و علامات کی تحقیقات کو خاص اہمیت حاصل ہے، کیونکہ انہی پرتشخیص اور علاج کی بنیاد قائم ہے۔ ایورویدک ان کی ماہیت کی بنیاد پرکرتی اور دوشوں پر رکھتی ہے اور طبِ یونانی نے ان کی بنیاد کیفیات اور اخلاط پر رکھی ہے۔ ان دونوں میں کچھ زیادہ فرق نہیں ہے کیونکہ ایورویدک خون وات دوشوں اور پت کف سے الگ شمار کرتے ہیں اور طب یونانی میں چاروں کو اخلاط میں شریک کرتے ہیں اور انہی کے تحت دونوں طریق علاج میں امراض و علامات کی ماہیت بیان کردی ہے۔ فرنگی طب نے پرکرتی دوشوں اور کیفیات و اخلاط چھوڑ کر جراثیم اور خون کے اجزا کی کمی بیشی یا زیادہ سے زیادہ کسی عضو کی قوت(Immunity) کے تحت ماہیتِ امراض و علامات بیان کئے ہیں۔ ان کے تحت امراض و علامات کی طبعی وکیمیائی تبدیلیاں (Pathology) میں بیان کی جاتی ہیں۔

نظریہ مفرداعضاء کے تحت ہم نے ان پرکرتی دوشوں اور کیفیات و اخلاط کو اول مفرد اعضاء کے ساتھ تطبیق دی ہے اور پھر ان کے تحت امراض و علامات کی ماہیت اور حقیقت پر روشنی ڈالی ہے۔مثلاً ایورویدک کف کامقام دماغ اور اعصاب تسلیم کرتی ہے۔ اسی طرح طب یونانی کا قانون ہے۔ سرد ترمزاج دماغ اوراعصاب کا ہے۔ اسی طرح اول الذکر پت کامقام و جگر اورغدی ترشہ بیان کرتے ہیں اور ثانی الذکر جگرکامقام گرم خشک کہتے ہیں۔ اسی طرح باقی اعضاء کے متعلق ایورویدک اور طب یونانی کے تعین کئے ہوئے مقامات اور مزاج کو مقدم بنیاد قائم کردیاہے۔ یعنی مفرداعضاء کو ہی بنیاد(First Unit)قرار دے کر ان کے ماتحت ماہیت امراض و علامات بیان کرکے سہل طریق پر ذہن نشین کرادیاہے۔ ماڈرن میڈیکل سائنس (فرنگی طب نے بھی جسم انسان کی اصل چار قسم کے ٹشوز(انسجہ )تسلیم کئے ہیں۔جن کو اعصابی انسجہ(Nervous Tissues)، عضلاتی انسجہ (Muscular Tissues)،غدی انسجہ(Epithelial Tissues)اور الحاقی انسجہ(Connective Tissues)کہتے ہیں۔ ہم نے ان چاروں اخلاط سے تطبیق دے کران کی دودوکیفیات مقرر کردی ہیں۔ جن کو اس طرح سمجھ لیں۔1۔اعصابی انسجہ کا مزاج سردتر اور ان کو غذابلغم سے ملتی ہے۔2۔عضلاتی انسجہ جن کامزاج گرم تر اور ان کوغذاخون سے ملتی ہے۔3۔قشری انسجہ جن کو مزاج گرم خشک ہے اور ان کو غذا صفرا سے ملتی ہے۔4۔ الحاقی انسجہ جن کا مزاج سرد خشک ہے۔ ان کو غذا سودا سے ملتی ہے۔ اس طرح تمام کیفیات اور اخلاط کے نہ صرف مسائل حل ہوجاتے ہیں بلکہ ماہیت امراض و علامات اور تشخیص میں بے حد آسانیاں پیداہوجاتی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: ہوم پیج کی ایس ای او

ماڈرن میڈیکل سائنس (فرنگی طب) کا انسجہ(Tissues) کا علم تو ہے جس کا پہلا جزوحیوانی ذرہ یاخلیہ(Cell) ہے مگر فرنگی طب نے اس کو امراض و علامات کی بنیاد قرار نہیں دیا۔ یہ حقیقت سائنس تسلیم کرتی ہے کہ سیل جسمِ انسان میں اولین بنیاد اور جزو ہےاور انہی سے ٹشوز بن کرجسم ِ انسان تعمیر ہوا ہے۔ ہم نے انہی مفرداعضاء یابنیادی اعضاء کو ایورویدک اور طب یونانی سے تطبیق دے کرانہی کے تحت امراض و علامات کی ماہیت بیان کرکے اپنی تحقیقات پیش کی  ہیں۔اب اہل علم اور صاحبانِ فن کا کام ہےکہ وہ غورکریں کہ ہم اپنی تحقیقات میں کہاں تک کامیاب ہیں ۔ کیا اس سے دقیق اور بہتر امراض و علامات کے متعلق تحقیقات ہوسکتی ہیں۔آخر میں اس امرکی پھر تاکید کی جاتی ہے کہ یہ چھ صرف اعصابی، غدی اور عضلاتی تحریکیں ہیں اور ان کی تحلیل و تسکین کو نظریہ مفرداعضاء کے مطابق مدنظر رکھیں۔ اگرچہ ہم نے ہر تحریک کے امراض کے ساتھ ان کی تحلیل و تسکین کے امراض و علامات کی طرف تسلی بخش اشارے کردئیے ہیں۔ تقسیم امراض و علامت کو دوتین بار غورسے پڑھنے کے بعد ان کا پورا نقشہ نظریہ مفرداعضاء کے ساتھ ذہن نشین ہوگا اور یہی اس میں کامیابی کاراز ہے۔ وماتوفیقی الا باللہ العلی العظیم۔

صحت اور امراض

تعریف

صحت اور امرا ض کی اس وقت تک جو تعریف کی گئی ہے ان میں سب سے احسن تعریف شیخ الرئیس بوعلی سینا کی ہے “کہ جب مجراانسانی اپنی صحیح صورتوں پرکام کررہے ہوں ان کانام صحت ہے اور جب یہی مجرا انسانی اپنے صحیح افعال سرانجام نہ دے رہے ہوں ان کانام مرض ہے” اگرچہ اس تعریف کاتعلق بھی اعضاکے ساتھ مخصوص نہیں کیا گیا تاہم یہ تعریف بہت حد تک صحت اور مرض کی صورت کو بیان کردیتی ہے۔ اگر یہ تعریف یوں کردی جاتی کہ جب انسانی اعضاء اپنے صحیح افعال انجام دےرہے ہوں تو اس حالت کا نام مرض ہے اور جب اعضاء کے افعال اپنی صحیح حالت پر نہ ہوں تو اس حالت کانام مرض ہے تو اس تعریف سے صحت کا ایک صحیح تصور ذہن میں قائم ہوسکتا ہے کیونکہ جسم ِانسانی اعضاء سے مرکب ہے اور جن کے افعال غذا اور خون ِ انسانی پر قائم ہیں۔

تعریف علامات

علامت کی تعریف یہ کی جاتی ہے کہ وہ مرض کی دلیل بن سکے۔ جہاں تک اس تعریف کا تعلق ہے یہ بالکل صحیح ہے مگر یہ لازم ہے کہ علامت کو کبھی مرض قرار نہیں دینا چاہیے۔ اگر شیخ الرئیس بوعلی سینا کی تعریف مرض کو سامنے رکھا جائے تو علامت کی تعریف اس پر صادق آتی ہے۔ یعنی جسمِ انسان کے جو مجرا اپنے افعال انجام نہیں دے رہے ان سے جسمِ انسانی کی طرف جوصورتیں دلالت کرتی ہیں بس وہی علامات ہیں۔ مثلا نزلہ میں آنکھ، کان، ناک اور حلق کی سوزش، دردسر اورگلو، سردی یاگرمی اور خشکی یا تری کااحساس، قبض یا اسہال، ہاضمہ کی خرابی یا بھوک اور پیاس کی شدت، بدن کا بہت زیادہ سرد ہوجاتا یابخارکا چڑھ جانا، شدید صورت میں ناک اور حلق کے اندر سوجن یا نکسیر کاآنا، پیشاب کی زیادتی یا پیشاب کی سوزش، پسینہ کابندہوجاتا یا اس کازیادہ آنا، حرکت یاسکون سے اس میں زیادتی یا اس میں کمی پیداہوجاناوغیرہ وغیرہ یہ سب علامات ہیں۔ ان کو علامات ہی رہنا چاہیے۔ اس کوکبھی بھی مرض کا مقام نہیں دینا چاہیے۔ اگریہی علامات ان اعضاء کے ساتھ مخصوص کردی جائیں جن کے افعال کی خرابی سے نزلہ پیداہوتا ہےتو تشخیص مرض اور علاج مرض میں بہت زیادہ خرابیاں دورہوجائیں اور اس سےتشخیص آسان اور علاج سہل ہوجاتا ہے۔

جہاں تک امراض کا تعلق ہے کہ وہاں ایک سب سے بڑی خوبی ہے کہ تشخیص مرض کے وقت باوجود کہ کسی عضو میں مختلف امراض پیداہوتے ہیں پھر بھی ہر مرض میں اسی مرض کو کلی طورپر سامنے رکھا جاتا ہےمثلاً پیٹ میں نفخ ہویاقے، بھوک کی شدت ہویا بھوک بند، تبخیرہویا ہچکی، بس یہی کہا جائےگا کہ پیٹ میں خرابی ہے ان علامات میں اعضائے غذائیہ کی بہت کم تشخیص کی جائے گی۔ اگر کسی اہلِ فن نے پیٹ کی خرابی میں معدہ، امعاء جگر، طحال اور لبلبہ و دندان کی تشخیص کربھی لی تو اس کو بہت بڑا کمال خیال کیا جائے گا لیکن اس امرکی طرف کسی کادھیان نہیں جائے گاکہ معدہ و امعاء وغیرہ خود مرکب اعضاء ہیں اور ان میں بھی معدہ یا اعضاء کا درد، سوزش، ورم اور پھوڑا وغیرہ سامنے آتے ہیں۔ مگر یہاں پر بھی صرف معدہ کا مریض کہاجاتا ہے جو ایک مرکب عضو ہے۔ یہاں بھی معدہ کے مفرداعضاء کی طرف دھیان نہیں دیاجاتا حالانکہ معدہ کے ہر مرض کی علامات بالکل مختلف اور جداجداہیں مگر تشخیص ہے کہ کلی عضو کی ہورہی ہے اور علاج بھی کلی طورپر معدہ کا تجویزکیاجارہاہے۔ نتیجہ اکثر صفر نکلتا ہے اور پھرکوشش یہ کی جاتی ہے کہ کسی نیہ مرض کاوجود پیداکردیاجائے یا کسی نئی علامت کو مرض قرار دے دیا جائے پھرایسی صورت کو ایک کارنامہ شمارکیا جاتا ہے۔

جاننا چاہیے کہ جب معدہ کےاعصاب میں سوزش ہوتی ہے تواس کی صورتیں اور علامات معدہ کے عضلات کی سوزشوں سے بالکل جدا ہوتی ہیں۔ اس طرح جب معدہ کے غدود میں سوزش ہوتی ہو تواس کی علامات ان دونوں مفرداعضاء کی سوزشوں سے بالکل الگ الگ ہوتی ہیں۔ پھر سب کوصرف معدہ کی سوزش شمار کرنا تشخیص اور علاج میں کسی قدر الجھنیں پیداکردیتا ہے۔ یہی صورت معدہ کے درد، ورم اور پھوڑے میں بھی سامنے آجاتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ یورپ اور امریکہ کو بھی علاج میں ناکامیاں ہوتی ہیں اور وہ پریشان رہتے اور بے چین ہیں اور اس وقت تک ناکام رہیں گے جب تک علاج اور امراض میں کسی عضو کے مفرداعضاء کو سامنے نہیں رکھیں گے۔

علاج میں مفرداعضاء کو مدنظر رکھنا یہ ہماری جدیدتحقیق ہے جوسالوں کی محنت سے دنیا کے سامنے پیش کررہے ہیں۔ ہماری اس تحقیق کا نام ہے “نظریہ مفرد اعضاء(Simple Organ Theory)”۔اس نظریہ سے نہ صرف تشخیص میں بے حد آسانیاں پیداہوگئی ہیں بلکہ ہرمرض کا علاج یقینی صورت میں سامنے آگیا ہے۔ اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہےکہ ہر مرکب عضومیں جس قدر امراض پیداہوتے ہیں ان کی جداجدا صورتیں سامنے آجاتی ہیں ہر صورت ایک دوسری سے جداہیں۔ ان کی علامات جداہیں۔ فوراً پتا چل جاتا ہے کہ اس عضوکا کون ساحصہ بیمار ہے پھر صرف اسی حصہ کاآسانی سے علاج ہوجاتا ہے۔

اسی نظریہ مفرداعضاء کے تحت ہم نہ صرف جدید تقسیمِ امراض اور ماہیت امراض پیش کررہے ہیں بلکہ جدید تشخیص اور جدید علاج بھی سامنے لارہے ہیں۔یہ ایک ایسی تحقیق ہے جس کا علم نہ یورپ و امریکہ کو ہے اور نہ روس و چین اس سے واقف ہیں ۔ یہ فنِ طب میں ایک انقلاب ہے اور دنیا کاکوئی ملک اس نظریہ سے آگاہ ہوتو ہم اس کو چیلنج کرتے ہیں، ہم انشاء اللہ تعالیٰ اپنے اس جدید نظریہ علاج بالمفرداعضاء سے یورپ و امریکہ اور روس و چین کے طریقہ ہائےعلاج کو نہ صرف(Unscientific) ثابت کردیں گے بلکہ اس کے علم الادویہ اور جراثیم تھیوری کی خرابیوں کو بھی واضح کردیں گے اور بہت جلد دنیا طب کے صحیح طریقِ علاج سے واقف ہوجائے گی۔

جاننا چاہیے کہ یہ فرض کرلینا غلط ہے کہ تحقیق صرف یورپ، امریکہ اور روس و چین کا کام ہےاور ہمارا کام صرف ان کی نقالی ہے۔ بلکہ محنت کرنے سے ہرایک ملک وقوم ہر علم و فن میں تحقیق کرسکتے ہیں۔ یہ ہماری تحقیق اور تدقیق طب یونانی میں ہے اور یہ اسی علم و فن قدیم کے کارنامے ہیں۔ اچھاذہن اور ترقی پسند دماغ صرف یورپ و امریکہ اور روس و چین کے حصہ میں نہیں آیا۔ دیگر ممالک میں بھی یہ باتیں پیداہوسکتی ہیں۔آئندہ ہم اس نظریہ مفرداعضاء کے تحت تقسیمِ امراض، ماہیت امراض پیش کریں گے۔جو انشاء اللہ تعالیٰ طبی دنیامیں ایک بہت بڑا نقلابی کارنامہ ہوگااور انشاء اللہ تعالیٰ رہتی دنیا قائم رہے گا اور اس نظریہ مفرداعضاء سے علم و فن طب سے دنیا کے دیگرعلوم و فنون میں بھی روشنی اور راہنمائی ظاہرہوگی۔ اب اہل فن کافرض ہے کہ وہ میرے خیالات اور تحقیقات پر ایمانداری سے غورکریں اور اپنے ملک کی روشنی سے طبی دنیا کو منور کریں۔ اس حقیقت پر ہم پورے طورپرروشنی ڈال چکے ہیں کہ علاج میں سب سے بڑی خرابی کا باعث امراض و علامات کے فرق ، ماہیت امراض و تقسیمِ امراض کو صحیح طریق پرنہ سمجھ سکنا ہے جس سے تشخیص میں خرابیاں پیداہوئی ہیں اور ان سے بڑی خرابی علاج میں یہ ہوتی ہےکہ علاج کی ہزاروں سال کی تحقیقات کے بعد بھی تاحال انسانی جسم کی کل امراض اور کل علامات سامنے آچکی ہیں مگر ابھی تک ان کا سلسلہ ختم نہیں ہوا۔ ماڈرن سائنس(ایلوپیتھی) آئے دن نئے امراض کا انکشاف کرہی ہے۔ اسی طرح ہومیوپیتھی میں جب کسی نئی  دوا کا اضافہ ہوتا ہے تو نئی علامات سامنے آتی ہیں۔

سوال یہ پیداہوتا ہے کہ کیا واقعی جسمِ انسان میں فطرتاً اس قدر امرا ض اور علامات ہیں۔ جن سے تشخیص میں بے شمار مشکلات اور علاج میں بے حد دشواریاں پیداہوتی رہتی ہیں یا یونہی بے معنی بال کی کھال نکالی گئی ہے اور یوں بے وجہ یا بے سمجھے امراض میں طوالت دے دی گئی ہے۔ جہاں تک ہماری تحقیقات ہیں ہم بڑے اعتمادسے کہہ سکتے ہیں کہ نہ تو جسمِ انسانی میں اس قدر امراض ہیں اورنہ کثرت سے علامات پائی جاتی ہیں بلکہ تشریح کے چندخانوں کو باہمی ضرب دے کر اس قدر پھیلا دیاگیاہے کہ طالب علم تو رہے ایک طرف ماہرینِ فن بھی ان پرپورے طورپر قابونہیں پا سکتے۔ جس کی وجہ سے اکثر تشخیص میں غلطیاں اور علاج میں ناکامیاں سامنے آتی رہتی ہیں۔ جن کے حقائق اس طرح بیان کئے جاسکتے ہیں۔

1۔جسم کے مشینی اور کیمیائی تعلق کو پورے طورپر نہ سمجھنا اور مختلف مقامات پر اس تعلق کوہمیشہ جداجدا خیال کرنا۔ اس تعلق کے مختلف مقامات پرجو امراض اور علامات پیداہوتی ہیں ان کو ہمیشہ جداجدا امراض اورعلامات خیال کرلینا مثلاً جگر کے فعل میں جب تیزی ہوتی ہے تو یہ مسلمہ امرہے کہ اس کی تیزی میں خون اس کی طرف زیادہ آنالازمی امر ہوگا۔2۔ خون کا اس طرف دباؤ بڑھ سکتا ہے۔ خون اس طرف اکٹھا ہوسکتا ہے۔3۔ خون کے دباؤ سے وہاں پر درد ہو سکتا ہے۔4۔ وہاں سوزش ہوسکتی ہے۔5۔ مقام گرم ہوسکتا ہے۔6۔وہاں پر ورم ہوسکتا ہے۔7۔ وہاں پر حرارت کی زیادتی سے تحلیل واقع ہوسکتی ہے۔ بالکل یہی صورتیں ا س وقت بھی ہوسکتی ہیں جب خون کا دباؤ دماغ کی طرف جائے۔ اگر ہم کسی ایک مقام پرعضو اور خون کے تعلق کوپوری طرح ذہن نشین کرلیں تو باقی مقام کے نقشے بھی پوری طرح سمجھ میں آسکتے ہیں۔ بالکل اسی طرح جب کسی عضو کی طرف خون کی کمی واقع ہویا وہاں پر خون کی بجائے رطوبت و بلغم(کف) کی زیادتی ہوتو اس کی جو صورت ہوگی وہی صورت دیگر اعضاء کی بھی ہوگی۔جہاں پرخون کی کمی یا رطوبت کی زیادتی پائی جاتی ہے ان تمام مشترکہ صورتوں کو ایک ہی مقام پر سمجھاجاسکتا ہے۔

2۔ علامات کو پوری طرح ذہن نشین نہ کرنا، اس کی کمی بیشی یا کچھ بدلی ہوئی صورت کوایک مختلف علامت خیال کرنامثلاً درد ایک علامات ہےوہ اگر مختلف اعضاء میں پائی جائے تو ان کو مختلف علامات خیال کرلینایاکسی عضو میں کمی بیشی یا شدت وخفت سے پایاجائےیااس کے کسی ایک حصہ میں محسوس ہویاایسا درد جیسے کوئی ہتھوڑامار رہاہویا ایسا ہوجیسے وہاں پر بہت بڑا بوجھ ہویاایسامعلوم ہوکہ وہ جگہ خالی خالی معلوم ہووہاں پر گرمی یا سردی کا احساس ہو بہرحال وہ ساری صورتیں دردکی ہوں گی۔ ان سے اسی مقام پر سمجھ لینا چاہیے اور ان کے فرق کوپورے طورپرذہن نشین کرلینا چاہیے ۔کسی طرح مختلف مقامات کے دوردوں میں ساتھ ہی ساتھ امتیاز کرلیناچاہیے۔ اس طرح ہرقسم کے درد کی تشخیص نہایت سہل اور علاج میں بے حد آسان ہوجاتا ہے۔۔

3۔ ایک ہی علامت کا مختلف اعضاء سے تعلق ہونے سے اس میں کمی بیشی کاپایاجانا مثلاً نزلہ ایک روزانہ ہونے والی علامت ہے۔ کبھی وہ انتہائی شدت سے بہتا ہے، کبھی کمی کے ساتھ گرتا ہے اور کبھی بند معلوم ہوتا ہے۔ بہرحال وہ بھی نزلہ میں شمار ہوتا ہے، کبھی اس کے ساتھ سرد رطوبت گرتی ہے، کبھی اس کے ساتھ جلن ہوتی ہے، گرم رطوبت ہے  کبھی دردسر ہوتا ہے یا سر بھاری ہوتاہے، کبھی بدن سرد اور کبھی شدید بخار پایاجاتا ہے، کبھی معمولی بخار اور جسم ٹوٹتا ہے، کبھی اس میں قبض پائی جاتی ہے اور کبھی ساتھ ہی اسہال شروع ہوجاتے ہیں ۔ بہر حال نزلہ ضرور ہوتا ہے۔ اس لئے ان تمام صورتوں کےساتھ نزلہ کو پورے طورپر ذہن نشین کرلینا چاہیے۔

یہ بھی پڑھیں: قسط ۔3 فارماکوپیا طب مفرداعضاء

ایک غلط فہمی کا ازالہ

نزلہ کے متعلق کہاجاتا ہے کہ وہ ابوالامراض ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس کو کسی صورت میں بھی مرض نہیں کہاجاسکتا۔ وہ صرف ایک علامت ہے جو صرف یہ ظاہرکرتی ہے کہ رطوبت حلق سے گر رہی ہے ۔1۔اگر یہ کہاجائے کہ مرض کی تعریف یہ ہے کہ وہ چند علامات کا مجموعہ ہے تو اس کا جواب یہ ہوسکتا ہے کہ نزلہ واحد علامت ہے اور اس کے ساتھ جودیگر علامات پائی جاتی ہیں وہ اکثر مختلف ہوتی ہیں۔ اس لئے اس کے کسی مجموعہ کا نام مرض رکھا جائےگا۔2۔ پھر صرف نزلہ ہی کو مرض کا نام کیوں دیاجائے اس کے ساتھ درد، سوزش، بخار، اسہال،قبض، بدہضمی وغیرہ جوپائےجاتے ہیں ان کو امراض کانام کیوں نہ دیاجائے۔3۔نزلہ کسی عضو کے فعل کی خرابی سے پیداہوتا ہے اس لئے مرض اس عضوکے فعل کوکہنا لازم ہے نہ کہ نزلہ جو اس عضو کے فعل کی خرابی پر دلالت کرتا ہے۔ یہی صورت قبض کی بھی ہے ۔ جس کو ام الامراض کہا گیا ہے۔ پس جاننا چاہیے کہ نہ ہی نزلہ ابوالامراض ہےاور نہ ہی قبض ام الامراض ہے۔ دونوں اپنی اپنی جگہ علامات ہیں۔

تحقیقاتِ الامراض اورعلامات

علم الامراض دراصل علم طب کی جان ہے۔ جب تک علم الامراض پر پورا عبور حاصل نہ ہواس وقت تک کوئی انسان پوری طرح معالج کہلانے کامستحق نہیں ہوسکتا۔علم طب کے تحت جس قدر بھی علوم کی تقسیم کی گئی ہے وہ چاہے علم الابدان ہو یا علم افعال الاعضاء یاعلم حفظانِ صحت تمام کے تمام اس کے گرد چکر کاٹتے ہیں۔جب تک علم الامراض کی پوری طرح واقفیت نہ ہو اس وقت تک حکمت کاپورا علم سمجھ میں نہیں بیٹھ سکتا اور نہ ہی صحت کی پوری پوری حفاظت ہوسکتی ہے اور اس سے بڑھ کر یہ امر ذہن نشین رکھیں کہ اس علم کے بغیر ہم کسی مرض کا پوری طرح علاج نہیں کرسکتے مثلاً ایک مریض کسی معمولی مرض کی شکایت کرتا ہے جیسے بدہضمی ۔ ظاہرمیں یہ مرض بالکل معمولی ہے۔ لیکن اہل ِ فن جانتے ہیں کہ اس مرض کا تعلق پورے نظام الغزا سے ہوتاہے۔ جو منہ سے لے کر مقعد تک پھیلاہوا ہے۔ اس میں منہ ، معدہ، امعاء، جگر، طحال اور لبلبہ وغیرہ شریک ہیں اور ان کے علاوہ دیگر نظام ہائے جسم کا بھی ا س پر اثر پڑتا ہے۔ جب تک نظامِ ہضم کی صحیح خرابی کا مقام اور سبب سامنے نہ آئےاس وقت تک اس معمولی بدہضمی کا صحیح معنوں میں علاج نہیں ہوسکتا۔ صرف ہاضم یا ملین یا مقوی معدہ ادویات استعمال کردینا علاج نہیں ہوگا۔البتہ اس کو عطایانہ علاج کہاجاسکتا ہے جو مریض پر ظلم ہے اور فن ِ طب کی بدنامی ہے۔علم الامراض کی حقیقت کو ذہن نشین کرنے سے قبل ضرور ی ہے کہ طالب علم کو علم تشریح، علم افعال الاعضاء اور افعال نظام ہائے جسم کا پوری طرح علم ہونا چاہیے۔ یعنی صحت کی حالت میں اعضاء کی صورت و مقام، اعضاء کے صحیح افعال اور نظام ہائے جسم کے حقیقی اعمال کی مکمل کیفیت کیسی ہوتی ہے۔ اس کے بعد جب اعضاء اور نظام ہائے جسم کے افعال و اعمال میں جہاں خرابی واقع ہوگی تو فوراً مرض کی ماہیت اور حقیقت ذہن نشین ہوجائے گی۔

علم الامراض کی تعریف

یہ ایک ایسا علم ہے جس سےہر مرض کی ماہیت اور حقیقت اس طرح ذہن نشین ہوجاتی ہےکہ مرض کی ابتدا، اس کی شکل و صورت، جسم کی تبدیلیاں ، خون میں تغیرات، خراب مادوں کی پیدائش اور اس کے انجام کا پورا نقشہ سامنے آجاتا ہے۔ اس علم کو انگریزی میں (Pathology)کہتے ہیں۔

ماہیت مرض عمومی

مرض بدن کی اس حالت کا نام ہے جب اعضائے بدن اور مجاری(راستے) اپنے افعال صحیح طورپرانجام نہ دے رہے ہوں۔ یہ صورت جسم کے تمام اعضاء اور مجاری یا کسی ایک عضو اور مجرا میں واقع ہوجائے تو مرض کہلائے گا۔ گویا ہر حالت مرض میں دو صورتیں سامنے آئیں گی۔ اول عضو کے فعل میں خرابی اور دوسرے خون میں تغیر پیداہوجائے گا۔ اول صورت کانام مرض کی مشینی (Mechanically)خرابی اور دوسری حالت کانام کیمیائی(Chemically) نقص ہوگا۔

مشینی افعال

مشینی افعال کے مطالعہ کے لئے دل، نظام ہائے جسم پھر مرکب اعضاء اور آخر میں مفرد اعضاء پر غورکرنے کے بعد ان کے افعال میں کمی بیشی اور ضعف کو مدنظر رکھنا چاہیے۔

کیمیائی اثرات

کیمیائی اثرات کے لئے اخلاط و کیفیات کے ساتھ ساتھ خون کی مخصوص حرارت، خون کے اجزائے ہوایہ اور خون کی رطوبت کی کمی بیشی اور تغیرات کا جاننا ضروری ہے تاکہ مشینی افعال کے ساتھ کیمیائی اثرات کے توازن کا اندازہ لگایا جاسکے۔

تقسیمِ امراض

تقسیم امراض کا مسئلہ بھی نہایت اہم ہے۔ تقسیم امراض میں اگر اس امرکو مدنظر رکھاجائےکہ امراض اور علامات کے درمیان فرق کردیا جائے تاکہ امراض اور علامات خلط ملط نہ ہوں ۔ جب بھی کوئی علامت سامنے آئے تو فوراً اس کا تعلق مخصوص مرض سے سمجھ کر اس مرض کے تحت اس کا علاج کردیاجائے۔ اس سے اصل مرض بھی رفع ہوجائے گا  اور درد دور ہوجائے گا۔بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ مرض ظاہر نہیں ہوتا اور علامات شدید ہوتی ہیں۔ا۔ اس سے پتا چلتا ہےکہ اصل مرض کا ازہر اندر ہے جس سے یہ مخصوص علامت پیداہورہی ہے۔2۔ ایک میں جس قدر علامات ہوں گی وہ تمام کی تمام ایک مرض کے تحت علاج پذیر ہوں گی۔ جیسے درد، ورم اور بخار۔3۔ایک ہی قسم کامختلف مقاموں کے مرض اور علامات کو ایک ہی مقام پر سمجھنےمیں بے حد آسانی ہوگی۔ تقسیم کی مزید تشریح کرنے سے قبل مناسب معلوم ہوتا ہے کہ استاذالاطباء حکیم احمد الدین صاحب موجد طب جدیدکاایک اقتباس پیش کیاکردیا جائے۔ انہوں نے بھی امراض اور علامات کی الجھن کو اچھی طرح محسوس کرکے اس کو مکمل کرنے کی کوشش کی ہے۔ اگرچہ وہ اس کو حل کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے تاہم ان کے بیان کاانداز تحقیق سے خالی نہیں ، لکھتے ہیں۔

“پیشتر اس کے کہ میں امراض اور ان کے علاج کا سلسلہ شروع کروں۔ میرے واسطے نہایت مشکل اور کٹھن کام درپیش ہے کہ میں سلسہ امراض کی ہر صورت کو کس طرز پر قائم کروں ۔ جس میں اختصار بھی مدنظر ہو اور سلسلہ امراض بھی نہ ٹوٹے۔ طب قدیم میں سلسلہ امراض بالعموم اعضاء کے سلسلہ کے ماتحت دیاجاتا ہے۔ مثلاً پہلے سر کے امراض پھر آنکھ، کان، ناک، سینہ، دل، معدہ، جگر اور امعاء وغیرہ کے امراض کو درجہ بدرجہ بیان کرتے ہیں۔ مگر اس میں نقص ہے کہ ایک ہی قسم کے بعض امراض جو مختلف اعضاء میں پیداہوسکتے ہیں ان کو بار بار بیان کرنا پڑتا ہے جیسے ورم سر غبارہ پہلے سر کے بیان میں اس کو ماشراء کے نام سے بیان کیا جاتا ہے۔ پھر شرائے لب کے بیان میں پھر جلدی امراض میں سر غبادیا زہرباد کے نام سے اسی طرح ورم رخو کی جگہ کو کئی جگہوں میں بیان کیا جاتا ہے۔ ایک ہی قسم کی پھنسیوں کو جب وہ سریر ہوں جیسے سعفہ وغیرہ تو یہاں اس کوالگ بیان کرنا پڑتا ہے پھر اور اعضاء میں پیداہوں تو ان اعضاء کے امراض میں ان کو دوبارہ سہ بارہ بلکہ کئی دفعہ بیان کرنا پڑتا ہے۔ پس اس سلسلہ کے طریق امراض میں ایک تو یہ نقص ہے کہ بے چارے طالب علموں کا اسماء الامراض کو یاد رکھنا محال ہوتا ہے۔ پھر چونکہ طالب علم ابھی نو آموز ہوتے ہیں۔ اس لئے ان کو الگ الگ مستقل امراض سمجھ لینے میں حق بجانب ہوتے ہیں اور کتاب خواہ مخواہ طویل ہوجاتی ہے۔ فہم و عقل طرح طرح کی پیچیدگیوں اور الجھنوں میں گھر جاتے ہیں۔ وغیرہ وغیرہ۔

ایلوپیتھک ڈاکٹر سلسلہ امراض کو بالعموم بعض خاص خاص اسباب پر متنوع اور منقسم کرتے ہیں مثلاً متعدی امراض الگ، غیر متعدی الگ پھر اعضاء کی مناسبت سے الگ۔ اس میں یہ نقص ہےکہ اکثر امراض چونکہ ایک دوسرے کے ساتھ مشابہت رکھتے ہیں لیکن ان کا بیان الگ الگ باب میں ہونے کی وجہ سے طلبا کےلئے دقت پیداہونے کا موجب ہوتا ہے مثلاً بعض قسم کےحمیات کاذکر تو متعدی امراض میں آجاتا ہے او ر بعض حمیات کاذکر دوسرے باب یعنی غیر متعدی امراض میں درج ہوتا ہے۔ بلکہ علاوہ ازیں بعض قسم کے حمیات کا ذکرالگ الگ اعضاء کے ابواب میں متفرق مقامات میں ملاتا ہے۔ اس طرح سے ان کومحنت زیادہ کرنا پڑتی ہےپھر حمیات ہی نہیں بلکہ اس طرح اکثر امراض میں تقسیم اور تفریق ہوکرکچھ کاکچھ بن جاتا ہے مثلاً ذیابیطس کا ذکر علامات ہائے امراض میں کرنے کی بجائےامراضِ خون میں کردیں گے۔ لیکن کثرتِ بول کا مرض آلات البول کے امراض میں جاکرکریں گے۔ نزلہ زکام وبائی کاذکر متعدی امراض میں کریں گے تو نزلہ زکام کاناک کے امراض کے بیان میں ، مرض بھس یعنی کمئ خون کا کچھ بیان تو امراضِ خون میں اور کچھ امراض متعدی یا جراثیمی کے بیان میں اور کچھ امراض ِ جگر کے بیان میں اور کچھ امراض گردہ کے بیان میں علیٰ ہذاالقیاس۔ عجیب قسم کا سلسلہ امراض انہوں نے باندھ رکھا ہے۔

پھرہومیوپیتھک والوں نے تواپنا سلسلہ ہی کوئی خاص نہیں رکھا بلکہ وہ تو ادویات کی علامات میں ہی امراض کی علامات کا تناسب قرار دے کر ایک عجیب بے ربط کتاب لکھ دیتے ہیں۔ اگرچہ مجبوراً ان کو امراض کے نام بھی لکھنے پڑتے ہیں مگر نہ توطبیبوں کی طرح اعضاء کو لیتے ہیں اور نہ ہی ڈاکٹروں کی طرح امراض کے اسباب پر سلسلہ باندھتے ہیں۔ بلکہ محض بے ربط اور متفرق طریق سے امراض کابیان کرتے ہیں کہ فہرستِ امراض کے ہوتے ہوئے بھی مطلوبہ مرض کابیان نہایت تلاش اور دقت سے ملتا ہے۔ (ہومیو علاج میں مرض کا کوئی تصورنہیں بلکہ سلسلہ علامات ہے اور علامتوں کا علاج کیاجاتا ہے۔ایڈیٹر)۔ علاج بالماء اور علاج بالشمس کے مصنفین تو سرے سے سلسلہ امراض کے قائل ہی نہیں ہیں۔ تاہم ان کوبھی مجبوراً کوئی نہ کوئی اوٹ پٹانگ سلسلہ بنانا ہی پڑتا ہے اور امراض کے نام بھی اگرچہ مجبوراً ان کو لکھنے پڑتے ہیں مگر بے ڈھنگ۔۔۔۔۔ پس اب مجھے یہ دقت درپیش ہے کہ اگر ہم بھی کسی ایک طب کی تقلید میں سلسلہ امراض قائم کریں۔ اول تو وہ تحصیل حاصل ہے پھر اس میں جو نقص ہیں وہ دورنہیں ہوسکتے۔ اس لئے اس مسئلہ پرمیں نے سالہاسال غور اور جانکاہی کے بعد ایک سلسلہ جدید طرز کاقائم کیا ہے۔ امید ہے کہ ناظرین اسے دیکھ کر بہت محظوظ ہوں گے۔”

جناب استاذ الاطباء حکیم احمد الدین صاحب موجد طبِ جدید نے مختلف طریقِ علاج کے تقسیمِ امراض کی خرابیاں اور نقص بیان کرنے کے بعد انہوں نے اپنانیا تقسیمِ امراض بیان کیا جو انہوں نے سالہاسال غور اور جانکاہی کے بعد قائم کیا تھا جو درج ذیل ہے۔ اگرچہ اس میں بھی مندرجہ بالااقسام کی خامیاں اور نقص ہیں جن کاذکرہم آئندہ کریں گے۔ تاہم ان کی جدت بھی قابلِ مطالعہ ہے، وہ لکھتے ہیں۔

“میں اس سلسلہ میں امراض کو بیان کرتا ہوں تاکہ ناظرین کو اس سلسلہ جدید کی نوعیت سمجھ میں آجائے۔ یاد رہے کہ جیسے انسان دو چیزوں سے مرکب ہے یعنی جسم اور روح سے ۔ اسی طرح امراض بھی کلی طورپر صرف دو ہی قسم کےہیں۔اول وہ جن کا اثر پہلے جسم پر نمودار ہوکر بعد میں روح یعنی طاقت پر پڑتا ہے جیسے ضربہ و سقطہ یا اورام ظاہری و باطنی اور جروحات وقروحات وغیرہ پیداہوکرافعال و قوائے انسانی میں خلل انداز ہوتے ہیں۔ دوسرا وہ جو جسم کے بظاہرمتغیر اور متبدل ہوئے بغیر ہی انسانی طاقتیں متبدل اور متغیر ہوجاتی ہیں اور اس طرح سے افعال الاعضاء میں خلل واقع ہوجاتاہے۔ پہلی قسم یعنی اعضاء کا تغیر و تبدل خون اور اسی کے دوران کی کمی بیشی سے پیداہواکرتا ہے۔ جس کا ذریعہ شریانیں اور وریدیں ہیں لیکن دوسری قسم یعنی طاقتوں میں تغیر و تبدل روح کی او ر اس کے دوران کی کمی بیشی سے پیداہوا کرتا ہے جس کا ذریعہ اعصاب ہیں۔ پس گویا دو قسم کے نظام بدنِ انسان میں قائم ہیں ایک کا نام دموی ہے اور دوسرا نظام اعصابی(عصبی) ہے۔

پس امراض بھی دو قسم کے ہیں۔ ایک امراض الاعضاء، دوم۔امراض القویٰ۔ گویا جس قدر بھی امراض کی تقسیم در تقسیم کرتے چلے جائیں۔ وہ یاتوامراض الاعضاء کے ذیل میں آئیں گے یاامراض القویٰ کے تحت۔لیکن اگر ہم تقسیمِ امراض کوصرف دو تک ہی محدود رکھیں تو اس چنداں فائدہ نہیں۔ کیونکہ پھر ایک قسم کی امراض میں بہت بڑی تعداد میں امراض کا ذکر کرنا پڑے گا جو مختلف ہئیات اور کیفیات ہونے کی وجہ سےدقیق الفہم رہیں گے اور تسہیلِ فہم کے لئے ان کو بہت سی اقسام پر منقسم کردیاجائے گا تو پھرتقریباًہر ایک مرض کی ایک الگ الگ قسم قرار دینی پڑتی ہے اور اختصار ملحوظ نہیں رہتا۔ اس لئے میں نے بہت ہی غوروفکر کے بعد تمام امراض کو موٹی موٹی آٹھ اقسام پر منقسم کردیا ہے۔ مگر یہ اقسام میں نے یونانیوں کی طرح اعضاء کے لحاظ سے مقرر نہیں کیں بلکہ نوعیت ِ مرض کے لحاظ سے مقرر کی ہیں اورپھرہر ایک نوع کو یونانیوں کی طرح تمام اعضاء پر منقسم کردیاہے۔ چنانچہ سب سے پہلی قسم دردوں کی قرار دی گئی ۔ کیونکہ درد جس کو عربی میں وجع یا الم کہتے ہیں ایک خاص نوع کی تکلیف ہےپس جب کوئی مریض اپنے معالج سے کہیں درد کی شکایت کرے تومعالج فوراً امراض الاوجاع کے باب میں مخصوص نظر سے غور کرے گا اور پھر ان میں سے خاص اسی فصل پر اس کی نظر رکھنی پڑے گا جس عضو میں درد ہونا مریض بیان کرے گا تواس طرح سے معالج کو تشخیص مرض میں بھی سہولت رہے گی۔ تعین ِ علاج میں آسانی رہے گی اور یہی ہمارا منشاء ہے۔

دوسری قسم امراض الاورام مقرر کی گئی ہے۔ اس باب میں وہ تمام امراض لکھے جائیں گی۔ جن میں کسی نہ کسی عضومیں ورم اور بثورات وغیرہ پیدا ہوکرباعث تکلیف ہواکرتے ہیں اور ہر قسم کے اورام کی علیحدہ علیحدہ فصل باندھی جائے گی۔ مثلاً اورام ملتہیہ یا اورام رخویا بثورات یا دملاد یا اورام خارشناک، اورام بلادرد، اورام المناک وغیرہ وغیرہ اور وہ تمام فصول سر سے لے کرپاؤں تک کے اورام پر حاوی ہوں گے اور اس میں یہ فائدہ ہوگا کہ طلباء کو ہرایک فصل کی ورم کی پیدائش، اسباب اور علاج خوب یاد رہے گا اور پھر وہ ورم جس عضو میں بھی پیدا ہو اس کے ذہن میں اس کاامالہ اور ماعلیہ فوراً آجائے گا اور تشخیص مرض اور تعین ِ علاج اس کے لئے آسان ہوجائےگا۔ تیسری قسم قروحات و جروحات کی مقرر کی گئی اور اس باب میں سرسے پاؤں تک تمام اعضاء بیرونی و اندرونی وغیرہ ہر قسم کے زخموں کو بیان کیا گیاہے۔چوتھی قسم صدمات خارجیہ کے امراض مقرر کئے ہیں۔ اس میں ہر ایک عضو پر بیرونی تصادم کا ذکر ہوگا مثلاً

ذی العین قذی الانف قذی الاذن۔۔۔رض الانف رض الدی کسر ا لعظم۔ تعلق العلق فی الحلق۔

ہر قسم کا ضربہ و سقطہ اور ہر قسم کی سمیات حیوانی یامعدنی وغیرہ اور حرق النار اور حرق الشمس وغیر وغیرہ تک آجائیں گی۔ پانچویں قسم امراض الحمیات مقرر کی گئی ہے جس میں حمیٰ کی تعریف اور حمیٰ کی تمام اقسام خواہ وہ کسی عضو کے ساتھ تعلق رکھتی ہوں مذکور ہوں گی اور کوئی ایک قسم کا مرض بھی نہ چھوڑا جائےگا جس میں تپ ہوسکتا ہو خواہ عوارضات کے رنگ میں ہویا علامات کے رنگ میں۔چھٹی قسم امراض المجاری کی مقرر کی گئی ہے کیونکہ انسان کے دس مجاری ہیں جن میں سے آٹھ تو مرد عورت میں مشترک ہیں جیسے آنکھ، ناک، کان، حلق (سانس لینے کی نالی)، مبرز (پاخانہ کا راستہ)، میہول(پیشاب کا راستہ)، مساماتِ جلدیہ۔ مگر دو مجریٰ ایسے ہیں جو صرف عورتوں کے لئے خاص ہیں جیسے پستان اوررحم، اور ان میں سے جو چیزیں خارج ہوتی ہیں وہ تقریباً سولہ(16) قسم کی ہیں۔جیسے رینٹ، خون، پیپ، میل، بلغم، شیر، عرق(پسینہ)، صفرا، بول، پاخانہ، کرم، پتھری، ریگ، جنین، مشیمہ، منی اور مذی وغیرہ۔ ان خارج ہونے والی اشیاء میں سے بعض تو غیرمعتاد طبی ہیں۔ جیسے کرم، حصاۃ و رمل وغیرہ وہ تو خود ہی مرض ہیں۔ لیکن جو چیزیں معتادطبی کا حکم رکھتی ہیں ان کا اعتدال طبی سے کم و بیش ہونا مرض میں داخل ہوگا۔ پس اس باب میں نہ صرف اشیاء مخرجہ ومستخرجہ کا ہی ذکر ہوگا بلکہ اعتقان و امساک اور سیلان وجریان ہردو کاذکر ہوگا۔ بلکہ علاوہ ان کے خود مجاری کے تسدید و توسیع پذیر ہونے کے متعلق بھی ذکرہوگا۔ گویا جب ایک مریض معالج سے مجاری کے متعلق کوئی شکایت کرتا ہے خواہ وہ کسی چیز کے غیر معتاد اخراج کی شکایت کرےیاکسی معتاد چیز کے اخراج میں کمی بیشی کی شکایت ہوتومعالج کا ذہن اس باب میں امراض المجاری کی طرف فوراً منتقل ہوگا اور جس چیز یاجس عضو کا وہ نام لیتا ہے فوراً اسی فصل سے اس مرض کے اقسام، اسباب، علامات اور علاج کو تلاش کرلے گا۔

ساتویں قسم امراض القویٰ مقرر کی گئی ہے۔ اس میں نہ صرف حس و حرکت کی قوتوں کے متعلق ذکر ہوگا بلکہ اس میں وہ امراض مذکور ہوں گے جو انسانی قویٰ میں کسی نہ کسی طاقت کے ساتھ تعلق رکھ سکتے ہیں جیسے قوت، عقل، حافظہ، بینائی، شنوائی، تکلم، قوتِ بلیغ، تنفس، ہضم، باہ او ر تولید وغیر ہ وغیرہ۔اسی طرح تمام قوائے بدنی کی کمی بیشی جن جن امراض میں پائی جاتی ہے سب کا بیان اسی باب میں ہوگا اور تمام قسم کی مقوی یا مضعف ادویہ و اغذیہ کا ہر ایک عضو کے متعلق بیان کیا جائے گا اور ہر ایک قسم کی طاقت کی تیزی یا ضعف کی کیفیات مبرہن کی جائے گی۔آٹھویں قسم امراض المکروہات مقرر کی گئی ہے۔ یہ قسم ایسے امراض پرمشتمل ہوگی جن میں نہ توکسی طاقت میں کمی بیشی ہوتی ہے اور نہ درد و ورم اور نہ بخار وغیرہ ہوتا ہے بلکہ اس قسم کے تمام امراض سے طبیعت انسانی محض متنفر اور ناخوش ہوتی ہے گویا بغیر کسی تکلیف کے صرف فطرتاًاس کوناپسند کرتی ہے اور ان سے نجات حاصل کرنا چاہتی ہے جیسے منہ ناک وغیرہ سے بدبوکاآنا، جسم کے کسی حصہ کا قدرتی رنگ متغیر ہوجانا، بالوں کا بجائےسیاہ کے سفید یا سرخ وغیرہ ہوجانا، بالوں کا پیدانہ ہونا یااکھڑجانا، جلد پر مسے، چھائیاں وغیرہ کا پیداہونا، جسم کے کسی حصہ کا زیادہ خشک یا زیادہ تر رہنا، بدن پر سے چھلکے اترنا، یاجوئیں پڑجاناوغیرہ وغیرہ۔ اس باب میں عمومی باتیں ہوں گی جو حسن و زینت کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں۔

غرضیکہ تمام امراض کو ان آٹھ اقسام میں منقسم کردیا ہے۔ہماراارادہ تھا کہ تمام مشہورو معروف امراض کے اسماء ہرایک قسم کے ماتحت لکھ کردکھایاجاتا کہ کس طرح ہم نے تمام امراض کو آٹھ اقسام میں تقسیم کردیاہے۔ گویا دریا کو ایک کوزہ میں بند کردکھایا ہے۔مگر بوجہ خوف طوالت اس کی ضرورت نہیں سمجھی۔ نیز جبکہ ہرایک قسم پر ایک ایک مستقل کتاب لکھنے کاہماراارادہ ہے تو عنقریب سب لوگ دیکھ لیں گے کہ کس طرح سب کی سب امراض انہیں آٹھ اقسام کے اندرآگئی ہیں ۔فالحمد للہ علی احسانہ۔۔۔(کتاب الاوجاع)۔ مختلف طریق علاج میں جو تقسیم الامراض بیان کی گئی ہیں اس کا خلاصہ یوں سمجھ لیجیئے۔

1۔ طب یونانی میں تقسیم امراض بالاعضاء ہے اور اعضاء کی خرابی کی جو صورتیں سامنے آ سکتی ہیں۔ ان کے تحت ان کو تقسیم کیا گیا ہے۔جیسے کسی عضوکادرد و سوزش و سکون اور ضعف وغیرہ۔ اور یہی صورت تمام امراض میں قائم رکھی ہے۔ یہی صورتیں ایک وقت میں اگر امراض ہیں تودوسرے وقت میں علامات بن جاتی ہیں۔ گویا امراض اور علامات کا بین فرق کوئی نہیں ہے۔ پھر علامت یا مرض کبھی کیفیاتی ہے اور کبھی خلطی ہے۔ جن کی پھر چارچار صورتیں ہیں۔

2۔ایلوپیتھی (فرنگی طب) میں تقسیم امراض کوبالاعضاء ہی بیان کیاگیاہے اس میں اعضاء کی خرابی کی صورتیں بھی بالکل ویسی ہی بیان کی گئی ہیں۔ ان میں بھی امراض اور علامات کو خلط ملط کردیا گیا ہے۔ البتہ اس میں کیفیاتی اور خلطی کی بجائے متعدی اور غیر متعدی میں تقسیم کرکے اول ایک کے تحت تمام اعضاء امراض اور علامات کو گنوایا گیا ہے، بعد میں دوسرےکے تحت یہی سلسلہ شروع کردیاگیا ہے۔ اگر بنظرغوردیکھا جائے تویہ تقسیم یہی ختم نہیں ہوتی بلکہ آگے بھی بڑھتی ہے۔ مثلاً 1۔متعدی امراض کو پھر جسم ِانسان کے چودہ(14)عناصرکی کمی بیشی کے تحت۔2۔ غذائی اجزاء; پروٹین اجزاء (لحمیہ)، فیٹس(اجزائے دہنیہ)، کاربوہائیڈریٹس(اجزائے شیریں و نشاشتہ(علیحدہ احیاطین) کی کمی کے تحت۔ خیال رہے یہاں کمی بیشی کو کبھی مدنظر نہیں رکھا گیااگر چہ اس کا ہونا امکانات میں ہے۔3۔ آب وہوا کی خرابی کے تحت ، منشیات اور تہذیب و تمدن کے اثرات کے تحت وغیرہ وغیرہ۔

ہومیوپیتھی اور بایوکیمک میں امراض کا تعین ہی ختم کردیا گیاہے۔وہاں جسم کی ہر کیفیت اور صورت کو صرف علامات کہا گیا ہے اور چندعلامات کے مجموعے جو کسی ادویہ کے تحت جمع کئے گئے ہیں گویا مرض سمجھے جاسکتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں یوں سمجھ لیں دنیا بھر میں جس قدر اشیاء ہیں چاہے وہ اغذیہ ہیں چاہے ادویہ وہ سب علامات کے مجموعے ہیں اور امراض کہے جاسکتے ہیں۔4۔ علاج الماء و علاج باللوں اور تجزیہ نفس و موسیقی وغیرہ میں صرف نظریہ کے علاوہ اور ان کا ذاتی کچھ نہیں ہے۔ بلکہ سب کچھ طب یونانی سے مستعار لیا ہوا ہے۔5۔ طب جدید شاہدروی میں پہلے امراض کو دوحصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔اول قسم جسمانی امراض دوسری قسم روحانی، پھر اول قسم کے امراض کو دورانِ خون کی کمی بیشی سے تعلق کردیا ہے اور دوسری قسم کا تعلق اعصاب سے ظاہر کردیا گیاہے۔ ساتھ ہی اول قسم کے امراض اعضاء اور دوسری قسم کے امراض قویٰ کو بھی ظاہر کیا گیا ہے۔ اس تقسیم کے بعد پھر امراض کو آٹھ حصوں میں تقسیم کیاگیا ہے۔1۔امراض اوجاع(دردوں کے مرض)۔2۔امراض الاورام۔3۔قروحات و جروعات ۔4 ۔صدمات ِ خارجیہ۔5۔امراضِ حمیات۔6۔امراج المجاری۔7۔امراضِ قویٰ۔8۔ امراض المکروہات۔

تمام طریقہ ہائے تقسیم الامراض کے اجمال کے بعد اب ہم ان پر نقدونظر اور تبصرہ کے ذریعے اس کے حسن و قبح کو اجاگر کرتے ہیں۔تا کہ اہلِ فن اور معالجین کے سامنے حقیقی صورت آجائے۔ پھر صحیح تقسیم الامراض پیش کریں گے۔  جس سے نہ صرف فن کی شکل سامنے آجائے گی بلکہ ہماری تحقیقات اور نظریہ مفرداعضاء کی خوبیوں کا اندازہ ہو سکے گا۔تقسیم الامراض سے قبل مناسب معلوم ہوتا ہےکہ اول مرض اور علامت کا فر ق کرلیا جائےکیونکہ یہی وہ مقام ہے کہ جہاں معالج سے غلطیاں سرزد ہوتی ہیں۔ دیکھا گیاہے کہ جب کوئی معالج کسی علامت کو مرض قرار دے کر اس کو رفع کرنے کی کوشش کرتا ہےتو وہ اس کے لئے مجربات تلاش کرتا ہے جب کسی ایک نسخہ سے آرام آنے کی صورت نظرنہیں آتی تو دوسرا اور تیسرا مجرب نسخہ تلاش اور استعمال کرتا ہےاور تقریباً ہمیشہ ناکام رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کسی ایک طریقِ علاج کے حامل کواپنے طریقِ علاج کے مجربات میں ناکامی ہوتی ہے تو وہ دیگر علاج کے مجربات کی طرف رجوع کرتا ہے۔ اسی لیے فنِ طب کے حامل یونانی مجربات کے علاوہ ایلوپیتھی(علاج بالضد) کے مجربات کے بعد ہومیوپیتھی (علاج بالمثل) تک ، مجربات بلکہ علاج بالماء علاج بالون اور بالتجزیہ نفس سے گزر کرتعویذ گنڈا اور جھاڑ پھونک تک کر گزرتے ہیں۔ اگر ان کے سامنے پوری پوری ماہیت اور حقیقت (پیتھالوجی) ہوتو وہ پھر صحیح معنوں میں وہی دوا اور مجرب نسخہ استعمال کرتا ہے جو اس مقصد کےلئے نہ صرف مفید ہوتا ہے بلکہ اکسیر کادرجہ رکھتا ہے۔

جاننا چاہیے کہ ایک مرض کے لئے کبھی بھی متعدد اور مختلف اقسام کے نسخے اور ادویات نہیں ہوسکتیں چاہے وہ علاج بالمثل یا علاج بالضد ہو، ہمیشہ ایک ہی قسم کی دوا مفیدہوتی ہے۔ افسوس ہے کہ علم الادویہ سے بہت ہی کم لوگ واقف ہوتے ہیں۔ ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ہے اور جو لوگ واقف بھی ہوتے ہیں ان میں اکثریت ایسے اہلِ فن کی ہے جو ماہیتِ مرض (Pathology) کا صحیح طورپر جاننا تورہا ایک طرف مرض اور علامت میں فرق نہیں جانتے۔ یہی وجہ ہےکہ بڑے بڑے جگادری قسم کے معالج، غدار لیڈر قسم کے اطباء اور تاجر قسم کے دوا فروش صرف دولت، شہرت ور کوٹھی اور کار کے سر پر اپنا پراپیگنڈ ا کرتے ہیں۔کوئی اپنے آپ کو شفاء الملک کہلوا کر خوش ہوتا ہے اور کوئی رئیس الاطباء لکھ کرلذت لیتا ہے۔ جہاں تک فن کو سمجھنے ، ماہیتِ مرض کو جاننے اور خواص الاشیاء کے علم رکھنے کا تعلق ہے۔ وہ بالکل کورے اور خالی ہیں۔ اسی لئے وہ انگریزی، ہومیوپیتھی اور دیگر طریقِ علاج کی ادویات انہی اصولوں پر استعمال کرتے ہیں۔ اگر ان میں قابلیت ہوتی تو ان ادویات کو اپنے قوانین اور اصولوں پر ڈھال لیتے ، مگر ان میں ان باتوں کو سمجھنے کی قابلیت نہیں ہے۔

مثلاً شورہ، بادیان اور دارچینی کے جو افعال و اثرات ہیں وہ کسی دوسری دوا کے نہیں ہیں، اگر قریبی ادویات کے افعال و اثرات پر نظر کی جائے جیسے جماداتی نمک اور حیوانی نمک وغیرہ تو ان میں بھی بین فرق نظر آئے گا۔ یہی صورت امراض میں اعضاء کے اندر پائی جاتی ہے۔ ان میں جو بھی اعضاء میں صورت پائی جاتی ہے وہ یقیناً دیگر صورت سے مختلف ہوگی۔ اس لئے ہر صورت جو علیحدہ علیحدہ ذہن نشین کرنا چاہیے تاکہ علاج کے دوران میں اعضاء کے افعال کو اعتدال پر لایاجاسکے۔

طب یونانی میں امراض کی تقسیم

طب یونانی میں امراض کی تقسیم اول دو صورتوں میں کی گئی ہے۔1۔ امراضِ مخصوصہ۔2۔امراضِ عامہ۔امراض مخصوصہ میں سر سے لے کرپاؤں تک ہرایک عضوکے جداجداامراض بیان کئے گئے ہیں جیسے سر کے امراض، آنکھ کے امراض، کان کے امراض، ناک اورمنہ کے امراض وغیرہ وغیرہ اور امراض عامہ میں بخار، خرابئ خون، پھوڑے پھنسیاں اور جوڑ کے درد وغیرہ۔ امراض مخصوصہ میں تو کچھ نہ کچھ اعضاء کا تعلق نظرآتا ہےلیکن امراض عامہ میں تو کسی عضو کا تصور تک پیدانہیں ہوتا۔ جہاں تک امراض مخصوصہ میں اعضاء کا تعلق نظرآتا ہے وہ بھی برائے نام ہے کیونکہ امراضِ سر میں جس قدر بھی امراض بیان کئےجاتے ہیں۔جیسے دردسر، دوران سر، ضعف دماغ، شقیقہ، اعصابہ، ورم دماغ، سوزش دماغ، فالج، لقوہ، خدر، مرگی، اختناق الرحم اور نزلہ وغیرہ تمام سارے سر یا دماغ سے متعلق نظر آتے ہیں۔ بعض ماہرینِ فن نے ورم اور سوزشِ دماغ میں دماغ کےساتھ غشائے دماغ اور حجابِ دماغ کا بھی ذکر کیا ہےاور بعض محققین نے شرکی امراض کے تحت دماغی امراض بیان کئے ہیں جیسے خصیہ، دل ، جگر اور معدہ و کلیہ کی خرابیوں سے دماغی امراض ۔ اسی طرح رحم اور خصیہ کی خرابیوں سے دماغی امراض کاذکر کیاہے مگر کسی جگہ یہ پتا نہیں کہ سر اور دماغ کے امراض میں کون سے حصہ دماغ، غشاٰ اورحجاب میں تکلیف ہے؟ ان کے مخصوص اسباب و علامات کیا ہیں؟ دیگر اعضائے جسم خصوصاً اعضائے رئیسہ سے ان کاکیا تعلق ہے؟ شرکی امرا ض میں یا دیگر امراض میں سے مرض کی ابتدا ہوتی ہے یا دماغ کی طرف سے ان اعضاء کی طرف خرابی پہنچ جاتی ہے۔ یہی صورت آنکھ، کان ،ناک اور منہ وغیرہ میں بھی قائم ہے۔

اصل حقیقت

حقیقت یہ ہے کہ سر، آنکھ، کان ، ناک اور منہ وغیرہ جس قدر بھی اعضاء سرسے پاؤں تک چلے جاتے ہیں ان سب کو ایک قسم کے ٹھوس اعضاء سمجھ لیاجائے گا۔اگرچہ تشریح الابدان اور منافع الاعضاء میں رگ وپٹھا اور غشاء و حجاب کو جداجدا بیان کیا جاتا ہے مگر ماہیتِ امراض اور علاج الامراض میں پورے کےپورے عضو کوسامنے رکھاجاتا ہے۔ گویا کسی طریقِ علاج اور ماڈرن سائنس نے نظامِ اعصابی کی طرح نظام غشاء، نظام حجاب یا عضلات اور نظامِ غدد کے باہمی تعلق اور ان کے امراض کا ذکرکیا ہے؟ بالکل نہیں! یہی وجہ ہے کہ سر سے پاؤں تک کے ہئیت امراض کویقینی طورپر بیان نہیں کیاگیا۔ جب ماہئیت امراض یقینی نہیں ہیں توعلاج الامراض کیسے یقینی ہوسکتا ہے۔

دردِ سر

ہم یہاں صرف سر کے ایک ہی مرض دردِ سر کو لیتے ہیں جس کی اقسام بیسیوں نہیں، سینکڑوں ہیں اگر غور کریں توپتا چلتا ہےکہ شاید ہی کوئی ایسا مرض ہوجس میں دردسر نہ ہوتا ہو۔ اسی طرح ہومیوپیتھی علم الادویہ سے پتا چلتا ہے کہ شاید ہی کوئی ایسی دوا ہوجوسر پراثرانداز نہ ہوتی ہو گویا ہرمرض اور ہردوا بلکہ غذاکے استعمال کا اثر سرپرپڑتا ہے۔ اسی لئے اکثر اہلِ فن نے سردرد کو مرض قرار دیاہی نہیں بلکہ اس کوصرف علامت تک مخصوص کردیاہے جوقطعاً غلط ہے۔بہرحال سر میں کئی اعضاء ہیں ان میں سے کسی میں تکلیف ہوگی توسردرد ضرورہوگا۔ یہ امرجداہےکہ اس کے اسباب اور عوارض کیا ہیں؟ مقامی ہے یاشرکی، مشینی ہوگایاکیمیائی۔ بہرحال درد توسرمیں ضرورہوگا۔ اس کو نظرانداز کیسے کیاجاسکتاہے۔ دردسر صرف اس صورت میں نظرانداز ہوسکتاہے جب ہم سر کےاعضاء اوران کے افعال سے واقف نہ ہوں۔ اس کا نتیجہ ظاہرہے کہ اس کا علاج پھر اسپرین اور ساریڈان وغیرہ کے سوا کیا ہوسکتا ہے۔

مجھے یاد ہے کہ ایک بار میرے بے حد قابل احترام دوست حکیم سید فضل حسین شاہ صاحب نے ایک مضمون لکھاتھا تو انہوں نے انہوں نے طب یونانی میں درد سر کی ہزار قسم بیان کی تھیں اور ان کے مقابلے میں طب جدید کی صرف دو اقسام کے دردِ سر کا ذکر کیاتھا۔ ایک عصبی اور دوسرا دموی، ایک طرف اس قدر کثرت اور دوسری طرف یہ قلت اور تیسری طرف درد سر سے بالکل انکار۔ غرض یہ وہ گورکھ دھندہ ہے کہ اس میں جب کوئی پھنس جاتا ہے تو اول نکلتا نہیں اور جب نکل جاتا ہے یعنی دردِ سر سے انکار کردیتا ہے تو پھر صرف فرنگی ادویات یامنشی اور مخدر ادویات جن میں حب شفا، برشعشا اور معجون فلک سیر سےمریض کے ہوش و حواس کو گم کر دیتا ہے مگر دردِ سر اپنی جگہ قائم رہتا ہے۔ کبھی جلاب پر جلاب دے کرمادہ کوخارج کردیتا ہے اور کبھی مقویات دے کرخون کوپیداکرتا اور بڑھاتا ہے تاکہ طاقت سے دردِسر رفع ہوجائے مگر دردِ سرہے کہ جن کی طرح ایسا چمٹ جاتا ہے کہ بیس بیس سال تک قائم رہتا ہےاور اگر دوروں کی شکل اختیار کرلےتو عمر نہیں جاتاپھر نہ کسی پیرفقیرکومانتا ہے اور نہ تعویزگنڈے کااثر ہوتا ہے بلکہ جتنے بھی جادوٹونے رکواسی قدر زیادہ ہوجاتا ہے۔

امراض وعلامات کا فرق

اس وقت تک دنیام میں جس قدر طریقِ علاج ہیں ان میں طب یونانی ہویاایورویدک یا ایلوپیتھی یا طب جدید شاہدروی سب میں مرض اور علامت کا صحیح فرق پیش نہیں کیا گیا۔ ان سب میں اگر ایک موقع پر ایک صورت کو اگر مرض کہا گیا ہے تو دوسرے موقع پر اسی کو علامت بنا دیا گیاہے مثلاً مطلق درد یا درد سر کسی اور جسم کے درد کو ایک وقت مرض کاعنوان دیا گیا ہے۔ دوسرے کسی مرض میں ان دوردوں میں سے کسی کو علامت قرار دیاگیاہے۔ طالب علم جس اس صورت کو دیکھتا ہے تو پریشان ہوتا ہے کہ وہ درد کو مرض قرار دے یا علامت ہی سمجھنے پر اکتفا کرے، پھر باربار سر سے پاؤں تک مختلف اعضاء کے تحت مختلف صورتوں اور مختلف کیفیات میں یہی درد کبھی مرض قرار دیا جاتا ہے اور کبھی علامت بنا کرظاہر کیا جاتا ہے۔پھرسرسے لے کر پاؤں تک ہر درد کی ماہیت جدا، اصول علاج الگ اور علاج کی صورت علیحدہ فرض دردکا سمجھنا اور اس کا علاج ایک معمہ بن کررہ جاتا ہے۔ یہی صورت ورم بخاراور ضعف میں پائی جاتی ہے۔ پھر درد ، ورم اور بخار کی اقسام میں جو کمی بیشی کے لحاظ سے بھی ہیں۔ حاد مزمن کے تحت بھی کی گئی ہیں۔شرکی اور غیرشرکی صورتوں میں بھی بیان کی گئی ہیں۔ان کے علاوہ ایسی صورتیں بھی ہیں جو دراصل انہی درد، ورم اور بخار کی اقسام ہیں لیکن ان کو کہیں مستقل طورپرمرض لکھ گیا ہے اور کہیں علامت بیان کیا گیا ہے۔ اس لئے ان کے اصولِ علاج اور علاج کی صورتیں ان سے بالکل جدا اور الگ ہیں۔ حالانکہ ان کے اصول علاج اور ادویات میں کوئی فرق نہیں ہے۔ مثلاً سوزش، خارش، کسی مقام کی بے چینی اور لذت وغیرہ۔

سوزش دراصل ورم کی ابتدائی صورت ہے یعنی جب تک جسم کے اندر یا باہرکہیں سوزش پیدانہ ہو تو ورم کبھی نہیں ہو سکتا۔ خارش بھی سوزش کی ایک صورت ہے۔ لیکن اس سے خفیف ہوتی ہےاور بے چینی وغیرہ درد کی ابتدائی صورتیں ہیں۔ ان کےحالات اور علاج کو درد کے تحت سے ذہن نشین کرنا چاہیے۔ مگر ایسا نہ کرنے سے امراض و علامات کا ایسا دور چلادیا گیا ہے کہ علم تشخیص نہ صرف ایک معمہ بن گیا ہے بلکہ روزبروز یہ معمہ ایک بھول بھلیاں بنتا جارہا ہے۔ یورپ اور امریکہ کے سائنسدان اور ڈاکٹر ایسی بال کی کھال اتارتے ہیں کہ نہ تو بال ہی نظرآتا ہے اور نہ کھال۔ ان کو اگر کوئی شے نظرآتی ہے تو وہ جراثیم ہیں۔ ان کے نزدیک جراثیم ہی مرض ہیں۔ یہی جراثیم سے مرض اور یہی جراثیم علامات بن کر رہ گئے ہیں۔اور سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ یہی جراثیم ایک وقت میں ایک مرض قرار دئیے جاتے ہیں اور دوسرے وقت میں ان کو علامات میں شمارکرلیا جاتا ہے۔ گون کاکس اور نمونو کاکس اگر ایک وقت میں مرض شمار ہوتے ہیں تو یہ جراثیم بعض دیگر امراض میں علامات بن جاتے ہیں۔ اسی طرح مرض ، سبب اور علامت کے سب امتیاز ختم کردئیے گئےہیں۔

جن امراض میں فرنگی طب کو جراثیم نظر نہیں آتے ہیں مثلاً بواسیر، یرقان اور استسقاء یا لقوہ، فالج اور ضعف اعصاب، اسی طرح جریان، احتلام اور سرعت انزال، عورتوں میں طمث کی خرابی، سیلان اور عقر وغیرہ بے شمار امراض اور علامات پائی جاتی ہیں۔ جراثیم کا سایہ نظر نہیں آتا۔ وہاں فرنگی ڈاکٹر سخت پریشان ہوتےہیں اور آئیں بائیں شائیں باتیں کرتے ہیں۔طب یونانی میں امراض کی تقسیم میں یہاں تک مبالغہ کیا گیا ہے کہ کیفیات اور نفسیات و مادی اثرات کو بھی امراض کا نام دے دیا گیا ہےمثلاً سردی لگ جانا، خوف کھانا، غم لگ جانا، مرضِ عشق کو تو بے حد اہمیت ہے۔ مادی امراض کا توا یک مستقل باب ہےجس میں نشہ آور اشیاء اور زہریلی ادویہ کے نام پر امراض کو موسوم کیا گیا ہے۔ خاص طورپر زہرکھانے کے بعد زہریلی ادویات کوسامنے رکھ کرعلاج کیاجاتاہے۔ امراض کی صورت میں صداع قمری اور ذیابیطس شکری وغیرہ خاصی اہمیت رکھتی ہیں۔ اس پر بس نہیں بلکہ زہریلے جانوروں اور حشرات الارض کے زہریلے اثرات کوانہی کے ناموں سے موسوم کیاجاتا ہے۔سانپ کاڈسنا، داء الکلب اور آگے بڑھیں تو مریض کے ظاہری علامات پر امراض کے نام رکھ دئیے گئے ہیں۔مثلاً جوع البقر، صرع وغیرہ۔ یہ ایک طویل بحث ہے جس کی تفصیل پر ضخیم کتاب لکھی جاسکتی ہے۔جہاں تک ایلوپیتھی کا تعلق ہے اس نے بالکل طب یونانی کی پیروی کی ہے۔ صرف کیفیاتی اور اخلاطی نام چھوڑکر ان کی جگہ جراثیمی نام اختیار کرلئے ہیں۔ ان کے علاوہ وٹامنی امراض کا اضافہ کردیاہے مثلاً بیری اور ریکٹس وغیرہ۔ باوجود یہ کہ ماڈرن میڈیکل سائنس کا دعویٰ ہے۔ اس نے بے حد ترقی کرلی ہے۔مگر ذرا غور سے دیکھا جائے تو ہر جگہ 90 فیصدی طب یونانی کی پیروی کررہی ہے۔ علم الامراض ہو یاعلم الادویہ ہر جگہ ایلوپیتھی چھائی ہوئی ہے۔ اگرایلوپیتھی میں جرات ہوتی تو علم الامراض میں طب یونانی کے چنگل سے نکل جاتی۔جوکچھ اوپرلکھا گیاہے اس سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ ایلوپیتھی یقیناً طب یونانی کی کاربن کاپی ہے اور آج تک اس سلسلے میں ذرا بھر تحقیقات اور جدت سے کام نہیں لیاگیا۔

ایلوپیتھی کواپنی تحقیقات اور ریسرچ کا دعویٰ ہے اور وہ پتھالوجی پر ناز کرتی ہے۔ ا س کو چاہیے کہ وہ امراض کے نام اعضاء  کےافعال پر رکھتی کیونکہ پیتھالوجی کا مقصد بھی یہ ہےکہ وہ اعضاء کے افعال میں جو تبدیلیاں ، تغیرات اور کمی بیشی  پیداہوتی ہے ان کو بیان کرتی ہے۔ مگروہ ایسانہ کرسکی۔ پھر بُری طرح ناکام ہے اور تقلید اعمیٰ پرمجبورہوکر طب یونانی کی پیروی کررہی ہے۔ نیز امراض وعلامات کے وہی نام ہیں جوطب میں ہزاروں سال پہلے کے رکھے ہوئے ہیں۔ ایلوپیتھی میں جہاں تک امراض و علامات کے فرق کا تعلق ہے وہ اس میں بالکل ناکام ہے جیساکہ ہم اوپر ذکر کرچکے ہیں۔  جس کےثبوت میں ہم ہومیوپیتھی کی علامات پیش کرسکتے ہیں کہ اس میں ان تمام امراض کو علامات بیان کیا گیاہے جو بہت حد تک صحیح ہے۔ ہومیوپیتھی امراض کا تعین نہیں کرتی کیونکہ ان کے اصول میں صرف ادویات کا جمع اور حاصل کرنا ہی علاج کے لئے نہ صرف کافی ہے بلکہ ان کے اصول کے مطابق صحیح ہے۔ کیونکہ ہرعلامت کے ساتھ جومریض کو دکھ دے رہی ہے چند دیگر علامات بھی ضرورہوتی ہیں جو اکثر ہمیشہ مختلف ہوتی ہیں۔ اس لئے کسی ایک علامت کو سامنے رکھ کرعلاج کرنا یاکسی مرض کاتعین کردینا صحیح اور یقینی علاج کے لئے کافی نہیں ہے۔حقیقت یہ ہے کہ امراض اور علامات کا سلسلہ وسیع ہے جس کونہ توطب یونانی اورآیورویدک نے حل کیا اور نہ ہی ایلوپیتھی اور ہومیوپیتھی نے ان کے متعلق فیصلہ کن صورت اختیارکی ہے ۔ یہ مسئلہ اس وقت تک حل نہیں ہوسکتا جب تک مرض اور علامت کا صحیح فرق نہ بیان کردیاجائے۔

امراض و علامات کے تعین میں خرابی

صحیح اور یقینی علاج کے لئے امراض اور علامات میں امتیاز کرنا اور ان کا صحیح تعین نہایت ضروری ہے مگر یہ تعین میں خرابی اور ان میں نمایاں امتیاز نہ ہونا علاج میں غیر یقینی ظنی صورت پیداکردیتا ہے لیکن صدیوں سےاس کی طرف توجہ نہیں دی گئی بلکہ اس کی بجائے انہی غیر یقینی اور بے معنی علامات کے لئے بہترسے بہترمعالجات اور ادویات کی تلاش کرنے کی کوششیں کی گئیں جن میں اکثر یاتوناکامیاں ہوئی ہیں یا عارضی علاج کی صورتیں پیداہوئی ہیں اور وہ بھی صرف مخدرات اور مسکنات سے کام لیا گیاہے۔ جہاں تک حقیقی علاج اور مکمل شفا کا تعلق ہے اس سے دنیائے طب بہت حد تک بے بہرہ ہے اور جہاں کہیں بھی کوئی ایک آدھ علامت( مرض نہیں) کا تسلی بخش علاج مل سکا ہے اس میں باقاعدہ علم العلاج کا دخل نہیں بلکہ قدرت کی طرف سے اچانک بخشش ہوگئی یا فطرت کاکوئی سربستہ اسرار منکشف ہوگیاہے جس کو آج تک غیر سائنسی اور غیر عقلی کہاگیا ہے، جیسے آتشک میں پارہ کے اثرات اور خارش میں گندھک کے خواص کے تحت علاج سمجھ لیاگیاہے۔

امراض وعلامات میں امتیاز اور تعین نہ کرنے میں خرابی کی وجوہات

جب بھی کسی مریض میں کوئی تکلیف دہ علامت پیداہوئی اس کو مرض سمجھ لیا گیا اور اس علامت کو جسم انسانی کے کسی نظام سے متعلق نہ کرنے کےبغیر ہی اس کاعلاج شروع کردیا گیا مثلاً جب پیٹ میں درد ہوا تو اس کوکسی دوا سے دور کرنے کی کوششیں کی گئی۔جس طرح بھی ہوا آرام آگیامگر جب اسی مرض میں یا کسی اور مرض میں یہی دوا دی گئی توآرام کی صورت پیدانہ ہوئی۔ پھر ان کے لئے دیگر ادویات تجربات میں لائی گئیں۔ اگر ان میں سے کسی ایک سے آرام ہوگیا توپھراس دوا سے دوسری جگہ آرام کی صورت حاصل نہ ہوئی ۔ یہی سلسلہ ابھی تک چلاآرہاہے۔ یہی صورت دیگر علامات جیسے ورم، بخار اور نزلہ وغیرہ میں پائی جاتی ہے۔ مزمن علامات میں توعلاج کی صورتیں نہ صرف افسوس ناک ہیں بلکہ دردناک ہیں ۔ گویا آج تک کا فن بالکل ناکام ہے۔حقیقت یہ ہے کہ ان علاجات میں ناکامی کی صورتوں کو یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ پیٹ میں یا جسم میں کسی اور مقام پر درد یا دیگر علامات یا امراض کی صورتیں نہ صرف مختلف ہوا کرتی ہیں۔ اس لئے ایک ہی دوا سے آرام نہیں ہوسکتا مگر ان مختلف صورتوں کی طرف توجہ نہ دی گئی اور نہ غور کیاگیا ہے۔ کیا یہ حققیت غورطلب نہیں ہےکہ۔ 1۔درد کی مختلف صورتیں کیوں پیداہوتی ہیں۔2۔ ایک ہی عضومیں جداجداقسم کے درد کیسے نمودار ہوجاتے ہیں۔

آخر یہ فرق کیوں؟

صدیوں سے ہم ایک زبردست مشکل میں گرفتارہیں مگر ہم نے اس کی طرف نہ توجہ دی ہے اور نہ حقیقت معلوم کرنے کی کوشش کی ہے کہ زیادہ سے زیادہ یہ کیا ہے کہ اپنے علم العلاج میں کسی نئی علامت یا نئے امراض کا اضافہ کردیاہے مگر علامت کی حقیقت اور ایک عضو میں مختلف اقسام کی ایک نوعیت کی علامات کوتحقیق کرنے کی کوشش نہیں کی ہے۔

مرض اورعلامت کی تحقیق

آخر یہ حقیقت تو مسلمہ ہے کہ جسم کے کسی مقام کی کوئی علامت چاہے وہ درد ہویاورم، بخارہویانزلہ، مواد کا گرنا یا رک جانا، کسی عضو کی خرابی سے ہوگایاخون کی خرابی سے ہوگا جس کو ہم کیمیائی یامشینی کے آسان نام دے سکتے ہیں۔ یہ مشینی خرابی جس سے اعضاء کے افعال میں نقص واقع ہوجاتا ہے اس کی جس قدر بھی صورتیں ہوسکتی ہیں وہ تمام بہرحال ایک ہی قسم کی ہوں گی ان کو ایک ہی جگہ پر ایک دفعہ سمجھ لینا چاہیے ، نہ کہ ہربارہرعلامت کونئے سرے سے سمجھنے کی کوشش کی جائے مثلاً ہم معدہ کوسامنے رکھتے ہیں۔ پھر اس کے مشینی آلات کو دیکھتے ہیں ۔ اس میں تین ہی صورتیں پیداہوں گی۔1۔ اس کے فعل میں اعتدال سے زیادہ تیزی آجائے گی۔2۔اعتدال سے کمی ہوجائے گی۔3۔ اس کے جرم میں خرابی واقع ہوجائے گی۔چوتھی صورت اور کوئی نہیں ہے۔ اب ہم کیوں نہ اس کی تیزی کی علامات کو آخر تک نوٹ کرلیں ۔ اسی طرح اس کے فعل میں کمی کی علامات کو بھی نوٹ کرلیں اور جرم (عضوکے جسم میں خرابی کے نقائص کو بھی نوٹ کرلیں)۔ بس اس طرح ہم اس کی ہرخرابی کو علامات کی صورت میں درج کرلیں۔ پھر جب بھی ہم کو پیٹ کی کوئی علامت نظر آئے گی۔ ہم اسی کے اس فعل یا جرم کی خرابی کے تحت ہمیشہ اس کودرست اعتدال پرلے آئیں گے اور اس طرح ہم یقینی علاج کےقریب پہنچ جائیں گے اورہم کومکمل کامیابی ہوگی۔یہی صورت کیمیائی تغیرات میں بھی قائم کرسکتے ہیں مثلاً کیفیات اور اخلاط کی خرابی اور کمی بیشی یا خون کے عناصر کی کمی بیشی یا جراثیم اور زہریلے مواد کی خرابی سے اس مقام یا عضو میں جو خرابیاں اور علامات پیداہوسکتی ہو سکتی ہیں ا ن سےہم پورے طورآگاہ ہوں توپھر کوئی وجہ نہیں کہ جسم کے کسی مقام یا عضو کے کیمیائی اور مشینی تغیرکی علامات ہم سے رہ جائیں اور ہم ان کو یقینی طورپردوریا رفع نہ کرسکیں۔

مرض اور علامات کی حقیقت

مندرجہ بالا حقائق کومدنظر رکھتے ہوئے بھی ہمیں اول مرض اور علامت کا فرق مدنظر رکھنا پڑے گا۔ جس کی صورت یہ ہو گی کہ اعضاء اور ان کے طبعی افعال کی خرابیوں کو چاہے وہ مشینی ہوں یاکیمیائی (اگرچہ دونوں لازم و ملزوم ہیں) امراض کے تحت رکھاجائے گا مثلاً ذات الریہ(نمونیا)، ذات الجنب (پلورسی)، دل کاپھیل جانا(Enlargement of the Heart)یا د ل کاسکڑجانا(Conjunction of the Heart)اور ان کے علاوہ جو دیگر صورتیں ہمراہ ہوں گی جیسے بخار، ضعف، اسہال اور قبض ان کو علامات میں شمار کیاجائےگا اگر چہ ذات الریہ اور ذات الجنب بھی امراض کے صحیح نام نہیں ہیں کیونکہ ان کے ساتھ درد، کھانسی، بخار اور بلغم کی علامات سامنے آ جاتی ہیں۔ لیکن صرف سمجھانے کی خاطر مثالیں پیش کردی گئیں ہیں کیونکہ ذات الریہ اور ذات لجنب شش کا ورم اور غشائے شش کی سوزش ہیں اور دونوں ایک دوسرے سے متضاد امراض ہیں، اگرچہ اکثر اطباء وید اور ڈاکٹران کو ایک اقسام کے امراض خیال کرکے ایک ہی طرح کا علاج کرتے ہیں۔

ان حقائق کو سامنے رکھ کر غورکریں کہ کیا دنیا بھرکے کسی طریقِ علاج نے ماہیتِ امراض، نام، تقسیم، تشخیص، اسباب اور علامات پر اس اصول سے روشنی ڈالی ہے؟ نہیں! ہرگز نہیں انشاءاللہ تعالیٰ ہم آئندہ صفحات میں اسی اصول کے تحت اول دیگر طریق علاج کا تجزیہ کریں گے اور پھر اس اصول کو بیان کرکے اس کے تحت امراض اور علامات کی حقیقت اور تجزیہ بیان کردیں گے۔ جس کے بعد انشاء اللہ تعالیٰ یقینی صورت میں سامنے آ جائے گا اور یہ فن علاج میں ایک زبردست انقلاب ہوگا جس کی مثال نہ کوئی دوسرا طریق علاج اور نہ ماڈرن سائنس پیش کرسکے گی۔

ہومیوپیتھی میں تقسیم امراض

ہومیوپیتھی میں سرے سے ہی امراض کا ذکر ہی نہیں ہے۔ پھراس میں ماہیت امراض، نام امراض، تقسیم امرا ض اور تشخیصِ امراض کاسلسلہ ہی پیدانہیں ہوتا اور اس کے ساتھ علم اسباب کی ضرورت ہی ختم ہوجاتی ہے۔ البتہ علامات کاذکر ضرور ہے مگر یہ علامات مرض کی نہیں ہیں بلکہ ان ادویات کی ہیں جو ایک تندرست جسم پر کھلاکرحاصل کرلی ہیں۔ یعنی ہر دوا کے استعمال میں تندرستی سے لے کر موت تک جوعلامات پیداہوتی ہیں انہی کوعلاج میں مدنظر رکھا جاتا ہے۔ گویا ہر دوا کے ساتھ ایک مجموعہ علامات ہے جب تک یہ مجموعہ مکمل نہیں ہوتا اس وقت تک صحیح علاج تقریباً ناممکن ہے۔

برخلاف علاج بالمثل کے علا ج بالضد میں ہرمرض کے لئے علامات کا ایک مجموعہ مقرر ہےجن کو سامنے رکھ کرماہیتِ امراض، نام امراض، تقسیمِ امراض اور تشخیصِ امراض کی جاتی ہے۔ علاج بالمثل اور علاج بالضدمیں فرق یہ رہ جاتا ہے۔  اول الذکر علامات کودوا کے نام پراکٹھاکرکے علاج کرتے ہیں اور ثانی الذکرعلامات کو مرض کے نام پر یک جا کرکے تشخیص کرتے ہیں۔ جس کے بعد علاج کی صورت آتی ہے البتہ دوا دینے کے سلسلے میں علاج بالمثل میں وہی دوا قلیل صورت بلکہ تقلیل صورت میں اس مریض کودیتے ہیں جن میں اس دوا کی مماثلت میں علامات پائی جاتی ہیں اور علاج بالضد میں تشخیص مرض کے بعد ایسی ادویات استعمال کرتے ہیں جو اس کے بالضد اور اس کورفع کرنے والی ہوتی ہیں مثلاً ناک اور حلق سے رطوبت کے گرنے کونزلہ و زکام کہتے ہیں۔ یہ ایک علامت ہے اس کے ساتھ دیگر علامات بھی پائی جاتی ہیں مثلاً کبھی رطوبت پانی کی طرح پتلی ہوتی ہے ، کبھی گاڑھی اور کبھی اس قدر گاڑھی کہ اخراج نہیں پاسکتی۔ سر میں گرانی، چھینکیں، ناک اور حلق میں جلن، ناک اور حلق میں سوزش، کبھی ناک اور حلق میں سوجن، کبھی درد اور کبھی بخار، کبھی بدن ایک دم سرد، کبھی رطوبات بالکل سفید، کبھی زرد رنگ کی، کسی کے ساتھ خون اور نکسیر کا پھوٹنابھی شامل ہوتاہے، کبھی رطوبات میں سخت بدبو، کبھی کان کی نالی میں اور ناک تک میں درد معلوم ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ کبھی بہراپن اور آنکھوں میں سرخی اور سوزش پیداہوجاتی ہے۔ علاج بالضد کے سلسلہ میں آیورویدک، طب یونانی اور فرنگی طب میں ان تمام امراض کو نزلہ زکام کہیں گے۔ مگر علاج کرتے وقت ان کے اسباب کو مدنظررکھ کراس کی اقسام کی تشخیص کرنے کے بعد اس کا علاج کریں گے۔ اقسام کے سلسلہ میں ایک وید صاحب وات ، پت اورکف کومدنظر رکھیں گے اور ایک طبیب خون، بلغم ، صفرا اور سودا کی تقسیم کرکے علاج کا سلسلہ جاری کرے گا اور فرنگی طب کاماہرنزلہ و زکام کے جراثیم کو ہی فناکرنے کی کوشش کرے گا۔ چاہے وہ جراثیم ٹی بی، ملیریا اورٹائیفائیڈکے ہوں۔ مگر وہ نزلہ زکام کو فناکرنا اپنا فرض کرلے گا۔ لیکن وہ یہ خیال نہیں کرے گا کہ نزلہ وزکام ایک علامت ہے(مرض نہیں ہے)۔ علاج بالمثل اور علاج بالضد کے اس فرق سے صاف پتا چلتاہے کہ اول الذکرکی علامات ادویات کے گرد چکر کاٹتی ہیں اور آخر الذکر کی علاماتِ امراض کے گرد اکٹھی کی جاتی ہیں۔ بہرحال دونوں طریقِ علاج علامات کے مجموعہ ہی سے تشخیص اور علاج کرتے ہیں۔ جومعالج بھی چاہے گا اور ماہر علاج بالمثل ہویاحامل علاج بالضد علامات کے کسی صحیح مجموعہ کوقابوکرے گا۔ اسی کی تشخیص اور علاج یقیناً کامیاب ہوگا ورنہ دونوں ناکام ہوں گے اور ان کا علاج غیر صحیح کہاجاسکتاہے۔

ظاہر ہے ہومیوپیتھی میں امراض کا تصور نہیں ہے۔ اگر غور سے دیکھاجائے تو ان کے ہاں بھی وہی امراض کی صورت ہے جو ایلوپیتھی میں ہے۔ صرف ان کو علم ِامراض سے ناواقفیت کی وجہ سے اس کی حقیقت کا تصورکادھوکاہے۔ کیونکہ اول ہومیوپیتھ جب علاج شروع کرتاہے اور مریض کی جوعلامات اکٹھی کرتاہے تو ان میں مریض جس علامت کی شدت یاتکلیف بیان کرتاہے جو اس کی بنیادی تکلیف ہے اس کووہ معالج اختیارکرکے اس کومرکزی نقطہ بتاتا ہے۔ پھر مریض کی دیگر علامات کو اس کے گرد اکٹھاکرکے اس کےلئے ددوا تجویز کرتاہے یعنی یہ دیکھتاہے کہ یہ علامات کس دوا میں پائی جاتی ہیں۔ بالکل وہی صورت بالضد کاماہر بھی کرتا ہے کہ مریض کی بنیادی علامات کے ساتھ اس کی دیگر علامات کواکٹھاکرتاہے اور مرض کی ایک صورت قائم کرکے پھران علامات کو رفع کرنے کے لئے دوا تجویز کرتا ہے۔ فرق صرف یہ رہ جاتا ہے علاج بالمثل کاماہر بالمثل دوا استعمال کرتا ہے اور علاج بالضد کاماہر علاج بالضد کے اصول پر ان علامات کے اثرات کو دور کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ جہاں تک امراض کا تعلق ہے دونوں میں ایک سی صورت ہے یعنی ماہر علامت شدت کے وقت کی صورت (بنیادی صورت) کو سامنے رکھ کرباقی علامات کو اس کے گرد اکٹھاکردیتاہے۔ علاج بالمثل کا معالج بھی تشخیص ضرورکرتاہے وہ مرض کانام نہیں رکھتا۔ سیدھی دوا تجویز کردیتا ہے اور  اسی دوا کومرض کانام دے دیتاہے۔ گویا دونوں ایک ہی کام کرتے ہیں۔ ایک مرض کے نام کوتسلیم نہیں کرتااگرچہ مریض کی ہر تکلیف کومرض قرار دیتاہے اور دوسرا مرض کوتسلیم کرتاہے اور اس کی اقسام کی تشخیص کرکے اس کاعلاج کرتا ہے گویا دونوں ایک عمل کومختلف زایوں سےکرتے ہیں۔ اس سے ثابت ہوا کہ علاج بالمثل میں بھی امراض ہیں البتہ ان کا نام ادویات کے نام پر ہے یعنی آرسینک کی بیماری، بیلاڈونا کی بیماری اور کچلہ کی بیماری۔ گویا دنیا میں جس قدر ادویات ہیں اسی قدر امراض کی اقسام ہیں۔

علاج بالضد میں مرض کی ایک تعریف یہ کی جاتی ہے کہ وہ چند علامات کا مجموعہ ہوتا ہے اور اکثر وہی علامت پیشِ نظر ہوتی ہے جو شدید ہوتی ہے اوراس کو مرض کانام دے کر اسباب کے تحت اس کی تشخیص کرلی جاتی ہے پھر اس کاعلاج کردیاجاتاہے۔ اسباب کیفیاتی ہوں یا نفسانی یامادی زہریلے انہی کودور کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ جس میں اکثر ایک ہی تجویز کامیاب ہوجاتی ہے۔ لیکن ہومیوپیتھی میں مرض کی شدت و خفت، کیفیاتی و نفسیاتی اثرات، بے چینی ، درد، سوزش و ورم، حرکت و سکون، صبح و شام، اندھیرا اور روشنی کے اثرات کے تحت اکثر علامات جلد جلد بدل جاتی ہیں۔ اس لئے وہاں پرہر گھڑی نئی تجویزکی ضرورت ہوتی ہے تاکہ صحیح دوا کے تعین کے قریب پہنچاجاسکے۔ یہی وجہ ہے کہ ہزاروں ادویات یعنی امراض کا صحیح تعین کرناایک بے حد مشکل اور انتہائی محنت طلب تشخیص ہے۔ جس سے علاج دشوار اور غیریقینی بن جاتا ہے۔

علاج بالمثل میں مرض کے تصور کی ایک صورت مریض کی شدید علامات ہے جس کے گردباقی علامات اکٹھی کرلی جاتی ہیں اور دوسری صورت ادویات خود امراض کا تصور پیش کرتی ہیں۔ جن میں ہر دوا اپنے اندر سینکڑوں علامات رکھتی ہے۔ جس میں مرض شدید اور نمایاں اور بعض میں خفیف اور پوشیدہ ہوتا ہے اور ادویات کے خواص بھی انہی علامات کے تحت یاد رہتے ہیں۔ تیسری صورت ایک اور بھی ہے جو زہریلےمادوں کے تحت تقسیم کردی گئی ہے تاکہ علاج کے دوران بے شمار ادویات یا علامات کچھ سہولت کے ساتھ ذہن نشین ہوسکیں اور علاج کسی حد تک یقین کے ساتھ کیا جا سکے۔ وہ صورت یہ ہے کہ ڈاکٹر ہانمن نے جسمِ انسان میں تین قسم کے مادوں کو تسلیم کیا ہےکہ اول ان تین قسم کے زہریلے مادوں میں سے کوئی زہریلا مادہ انسان کے جسم میں پیداہوتا ہے اور بڑھتا ہے پھر اس سے دیگرعلامات ظاہر ہوتی ہیں البتہ یہ تمام علامات ایک خاص قسم(Category)کی ہوتی ہیں۔ جن میں انہی زہریلے مادوں کے اثرات نمایاں ہوتے ہیں۔ ان تین زہریلے مادوں کے نام یہ ہیں۔1۔ سفلس۔2۔ سورا۔3۔ سائیکوسس۔

ہومیوپیتھی کی کتب میں ان کی کوئی تفصیلی تشریح نہیں ہے۔ البتہ ان کی علامات بیان کردی گئی ہیں۔ بعض ماہرین نے ان کا ترجمہ۔1۔آتشکی مادہ۔2۔بواسیری مادہ۔3۔ سوزاکی مادہ سے کیا ہے۔ لیکن اس ترجمہ سے ان کی حقیقت پر صحیح روشنی نہیں پڑتی۔ یہاں ہمارا مقصدیہ ظاہر کرنا ہےکہ ہومیوپیتھی بھی امراض کے تصور سےخالی نہیں ہے۔ یعنی علامات کے مجموعے (Group)ضرور تیارکرنے پڑتے ہیں۔ چاہے شدید اور تکلیف دہ علامات کے تحت تیار کئے جائیں۔ چاہے ادویات کے نام پر اکٹھے کئے جائیں۔ زہریلے مادوں پر ان کی تقسیم کی جائے۔ تاکہ علاج معالجہ میں سہولت پیداہو۔ یہ حقیقت ہے کہ امراض کے تحت علاج کرنے میں بے حد سہولت ہے کیونکہ ان کے تحت علامات کے چھوٹے بڑے گروپ تیار ہوجاتے ہیں۔ادویات کی کمی بیشی اور تبدیلی ایک جدا صورت ہے مگر امراض کی شکل اختیار کرنا اپنی جگہ مسلمہ حقیقت ہے۔ مثلاً ٹی بی، فالج، تشنج یاآتشک ، بواسیر اور سوزاک میں نمایاں علامات میں سے ہیں۔ جبب بھی کوئی ہومیوپیتھ ان علامات کا علاج کرے گا۔ یہ ناممکن ہے کہ ان کو مدنظر نہ رکھے۔ ان سب کے ساتھ دیگر مخصوص علامات پائی جاتی ہیں جن کو سامنے رکھ کرعلاج بالمثل اور علاج بالضد دونوں کے ماہرین علاج کرتے ہیں۔ اب آسانی سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ دونوں طریقہ ہائے علاج کے معالج اکثر علامات کی ہی تشخیص اور علاج مدنظر رکھتے ہیں۔

ہمارے سامنے ماہیتِ امراض، تشخیصِ امراض اور نام امراض کا جو سلسلہ ہے ان سب سے بالکل جدا ان سب سے آسان اور یقینی ہے ہم نے سالہا سال غوروفکر اور تحقیقات کے بعد یہ نتائج اخذ کئے ہیں۔ ان میں یہ پتا چلاہے کہ ہر بار علامات کو قابو کرنا یا امراض کے تحت علامات کااکٹھا کرنا یا چند علامات کے مجموعے کو امراض کہہ دیناتشخیص اور علاج میں دشواریاں پیداکردیتاہے کیونکہ اکثر صورتوں میں علامات بدلتی رہتی ہیں اور معالج یقینی طورپر ان کے متعلق کلی حکم نہیں لگاسکتا۔ اسی لئے علاج معالجہ ظنی صورت بن کررہ گیا ہے۔ جب تک معالج کو پورے طورپریقین نہ ہوکہ فلاں علامات کس مرض کی ہیں جو کسی اور مرض میں پیدانہیں ہوسکتیں اس وقت تک اس کا علاج یقینی طورپرکامیاب نہیں ہوگا اور اسی یقین کو حاصل کرنے کےلئے اب تک فن ِ علاج میں تحقیقات اور ریسرچ کا سلسلہ جاری ہے۔

جاننا چاہیے کہ انسانی جسم ایک مشین ہے جس میں چند پرزے لگے ہوئے ہیں جن کو ہم اعضاء کہتے ہیں۔ جب ان اعضاء کے افعال میں کوئی خرابی واقع ہوتی ہے تو غیر طبعی علامات پیداہوتی ہیں جوجسمِ انسانی میں تکلیف اور دکھ کا باعث ہوتی ہیں۔ چونکہ ان علامات کا تعلق انسانی اعضاء کے ساتھ ہے۔ اس لئے ہم کوبھی ان علامات کو اعضاء کے ساتھ مخصوص کردینا چاہیے۔ اس کی صورت یہ ہونی چاہیے کہ اعضاء کی خرابی کی جس قدر صورتیں ہوسکتی ہیں مثلاً عضوکے فعل میں تیزی یا سستی یاضعف اور ان کے مدارج وغیرہ مثلاً تیزی سے خارش، سوزش اور ورم ان کو امراض کے نام دے دینے چاہئیں اور ہر مرض کے ساتھ جوعلامات مخصوص ہوں ان کو انہی امراض کے تحت مخصوص کردیناچاہیے۔ اس طرح تشخیص میں سہولت اور علاج میں آسانیاں پیداہوجاتی ہیں۔ اس سے بھی ایک قدم آگے جانا چاہتے ہیں کہ ان علامات اور امراض کا تعلق صرف جسم کے عام اعضاء کے ساتھ نہیں جوڑنا چاہیے بلکہ ان اعضاء کا تعلق اعضائے رئیسہ تک قائم کردینا چاہیے تاکہ تشخیص اور علاج کے دوران ہمارے سامنے کم از کم امراض اور علامات یادوسرے الفاظ میں کم از کم اعضاء باقی رہ جائیں۔ اعضائے رئیسہ چونکہ تین ہیں اس لئے ہمارے سامنے بے حدسہولتیں پیداہوسکتی ہیں۔

ہم نے اس امرکی واضح اور تفصیل کے تشریح کی ہے کہ تمام طریقہ ہائے علاج میں امراض کی تقسیم کوبالاعضاء بیان نہیں کیاگیا۔ اس لئے ان کے اکثر امراض کی ماہیت میں اختلاف پایاجاتا ہے۔ علاج بالضد میں زیادہ سے زیادہ مرض کی یہ تعریف کی جاتی ہےکہ چند علامات کا مجموعہ کانام مرض ہے مگر اس میں ہمیشہ یہ پریشانی رہتی ہے کہ ایک وقت میں ایک مجموعہ علامات کانام مرض ہے اور دوسرے وقت وہی مرض ایک علامت کی صورت میں بیان کیاجارہاہے۔ پھر یہ علامات ہوں یاامراض کیفیات یااخلاط اور جراثیم کے تحت تقسیم ہوجاتے ہیں اور جہاں تک ان کا اعضاء سے تعلق ہے وہ صرف ایک ترتیب کو مدنظر رکھتے ہوئے سرتا پاؤں تک بیان کردئیے جاتے ہیں۔ گویا اعضاء کے افعال اور ان کےکیمیائی تغیر کا اس میں کوئی دخل نہیں ہے۔ علاج بالضد کے برعکس علاج بالمثل میں تمام علاجات کو ایک دوا کے گرد اکٹھا کردیاجاتا ہے ۔ گویا ہر دوا ایک مرض ہے۔ دنیا میں جس قدر ادویات ہیں اسی قدر امراض ہیں اور جوں جوں نئی ادویات کے خواص و افعال تحقیق ہوتے جائیں گے اسی قدر نئے امراض اور نئی علامات ظہور میں آتے جائیں گے۔ گویا امراض اور علامات کے لئے کوئی قید نہیں ہے اور وہ قیامت تک پیداہوتے رہیں گے۔

اسی طرح علاج بالضد میں بھی امراض اور علامات کی اس قدر کثرت اور بہتات ہے کہ وہ سب تقریباً شمار سے باہر ہیں۔ پھر ان سب کی کوئی ترتیب اور سلسلہ قائم نہیں کیا گیا اور نہ وہ کسی نظام کے تحت بیان کی گئی ہیں۔ آیورویدک اور طب یونانی میں تو ان کی مزید تحقیق اور پیدائش ختم ہوچکی ہے مگر ایلوپیتھی میں آئے دن نئے نئے امراض تحقیق اور پیداہوہورہے ہیں۔ خداجانے یہ سلسلہ کہاں جاکرختم ہو۔ البتہ ان نئی تحقیقات اور پیدائشِ امراض کے سلسلہ سے یہ پتا ضرور چلتاہے کہ ایلوپیتھی تاحال انسانی امراض یا علامات کو پورے طورپر احاطہ تحریر میں نہیں لایاگیا۔ گویا یہ طریقہ علاج ابھی تشنہ کام ہے۔

ایلوپیتھی میں تقسیمِ امراض

فرنگی طب میں تقسیم امراض کے لئے نہ کوئی بنیادی قاعدہ ہے اور نہ کوئی اصولی طریق ہے۔ جب تمام کی تمام فرنگی طب کسی نظام اور کلیہ کے ماتحت نہیں ہے تو پھر تقسیم ِ امراض باقاعدہ اور اصولی کیسے ہوسکتے ہیں۔ ہرآنے والے دور میں  مختلف نظریات کے تحت تقسیمِ امراض کی گیا ہے اور اس وقت تک ا س میں امراض کاسلسلہ جاری رہے گا جب تک تمام طب کو کسی ایک نظام یا قانون اور کلیہ کے تحت منظم اور باقاعدہ نہیں کیاجائے گا۔فرنگی طب کی ایک تقسیم الامراض طب یونانی کی پیروی میں ہے کہ امراض کو بلحاظ وسعت تقسیم کیاہے۔ اول امراض ِ عام(General Diseases)اس میں سے ایسے امراض بیان کئے گئے ہیں جن کااثر ایک ہی جیسا تمام جسم پر پڑتا ہے۔مثلاً درد، اورام اور رسولیاں وغیرہ۔ دوسرے امراضِ مقامی(Local Diseases) ایسے امراض جن کاتعلق خاص خاص اعضاء کے ساتھ مخصوص ہے۔ پھر ان کو سرسے لے کر پاؤں تک مقامی طورپرتقسیم کیا ہے مثلاً شش کے امراض، قلب کے امراض اور جگرکے امراض وغیرہ۔

1۔تقسیم امراض بلحاظ علامات

یہ تقسیمِ امراض تین حصوں میں کی گئی ہے۔ اول امراض حادہ(Acute Diseases)جن میں علامات کے اندر شدت پائی جاتی ہے مگران کا وقفہ دیرپا نہیں ہوتا، دوسرے امراضِ خفیفہ(Sub -Acute Diseases)ان کی علامات میں خفت پائی جاتی ہےاور زیادہ مہلک اور زوردار نہیں ہوتے۔ تیسر ے امراض مزمنہ(Chronic Diseases)ایسے امراض جوہفتوں، مہینوں بلکہ سالوں تک ستاتے رہتے ہیں۔ پھر ان کوسرسے لے کرپاؤں تک بالاعضاء بیان کیاگیا ہے تاکہ ترتیب قائم رہے۔‫

2۔تقسیمِ امراض بلحاظ انحداثِ مرض

اس تقسیم الامراض کی بھی تین صورتیں ہیں۔اول امراض الافراد(Sporadic Diseases)ایسے امراض جو فرداً فرداً متعدد اشخاص میں پائے جائیں۔ دوسرے امراضِ وبائیہ(Epidemic Diseases)امراض کی ایسی صورت میں بیک وقت کثیر تعداد میں لوگ مبتلا ہوجائیں۔۔ تیسرے امراض مکانی(Endemic Diseases)ایسے امراض ہیں جو خاص خاص مقام پر پائے جائیں مگر ہر علاقہ میں نہ پائیں جائیں۔ پھر ان کی تقسیم سر تا  پاؤں کی گئی ہےتاکہ ترتیب قائم رہے۔

3۔تقسیمِ امراض بلحاظ حملہ مرض

اس تقسیم الامراض کی پانچ صورتیں بیان کی گئی ہیں۔1۔معیادی۔2۔غیر معیادی۔3۔ نوبتی۔ 4۔خلقی۔ 5۔اتفاقی۔پھر ہر ایک قسم کوسر تا پاؤں برائے ترتیب تقسیم کردیاگیاہے۔

4۔ تقسیمِ امراض جراثیمی

اس تقسیمِ امراض کی دو صورتیں ہیں۔1۔متعدی۔2۔غیر متعدی۔ یہاں بھی وہی سرتاپا ترتیب الگ الگ بیان کی گئی ہیں۔

5۔ تقسیم الامراض کیمیائی

اس تقسیم الامراض کی بھی دو صورتیں ہیں۔1۔تغیر عنصری:ایسے امراض جن کے خون کے کیمیائی عناصرمیں کمی اور خرابی پیداہوجائے۔2۔غیر تغیرِ عنصری: وہ امراض جن میں خون کے کیمیائی عناصر میں تغیرپیدانہ ہو۔ ان میں بھی سرتاپاکی تقسیم قائم رکھی گئی ہے۔

6۔تقسیم الامراض خودربینی

اس تقسیم الامراض کی دو ہی صورتیں ہیں۔1۔ ایسے امراض جن کی تبدیلیاں خوردبین سے دیکھی جاسکتی ہیں۔ 2۔غیرخوردبینی تبدیلیاں: ایسے امراض کی تبدیلیاں بغیر خوردبین دیکھی جاسکتی ہیں۔

مندرجہ بالا تقسیم الامراض جو فرنگی طب میں کی جاتی ہے وہ یہیں پرختم نہیں ہوجاتی بلکہ موسمی خرابیاں، حیاتینی نقائص، غذائی خرابیاں اور اس کی کم بیشی بحیثیت مقدار اور بحیثیت طاقت وغیرہ کے تحت بھی سر تا پاامراض کی الگ الگ تقسیم کی جاتی ہے۔ ان بے شمارامراض کے علاوہ یورپ اور امریکہ میں آئے دن نئے نئے امراض پیداہوتے رہتے ہیں۔ تقریباً عرصہ ساڑھے تین سو سال سے یہ سلسلہ قائم ہےاور خداجانے فرنگی طب کی تحقیقات برائے امراض تجدیدہ کب تک قائم رہے۔ ظاہر میں تو یہ نظر آتا ہے کہ ان کاتقسیم ِ امراض کا مسئلہ لامتناہی ہے جوشاید کبھی نہ ختم ہو سکے۔

قابلِ غور بات یہ ہے کہ طب کا ایک طالب علم اس امراض اور ان کی اقسام در اقسام پر کس طرح حاوی ہوسکتا ہے اور اگر یہ فرض بھی کرلیں کہ عمر کے ایک بڑے حصہ میں آکروہ اس قسم الامراض اور ان کی بے شمار اقسام کو سمجھنے کی دسترس حاصل کرلے گا۔ پھر سوال یہ پیداہوتا ہےہر مرض کے بے شمار اسباب اور علامات ہیں ان پر کیسے قابوپائے گا۔ اگر بفرضِ محال وہ یہاں تک بھی کامیاب ہوجاتاہے تو پھر اصولِ علاج اور علم الادویات جو ایک بحرِ بے کنار ہے ان کی کس طرح تکمیل کرےگا۔ ان علوم کے علاوہ حفظانِ صحت، تشریح و منافع الاعضاء ، جراحی، عورتوں اور بچوں کے امراض ان کے علاوہ ہیں۔ ان امور سے ثابت ہوا کہ فرنگی ڈاکٹر جن کی ایلوپیتھی کسی نظام اور کلیہ کے تحت بیان نہیں کی گئی علم الامراض کیاعلم العلاج کے شعبہ پر دسترس حاصل نہیں کر سکتے۔ ہاں یہ تسلیم کرناپڑتا ہے کہ وہ ایک بار امتحان کی خاطر پڑھ ضرور لیتے ہیں اور امتحان کے بعد ان کا اکثر علم بے معنی اورفضول ہوکررہ جاتا ہے۔

جاننا چاہیے انسانی دماغ کی تشکیل کچھ اس قسم کی ہوئی ہے کہ اس میں وہ باتیں محفوظ رہتی ہیں جن کا تعلق ایک دوسرے سے وابستہ ہوتاہے کہ ایک کے بعددوسری اور تیسری پھر چوتھی بات خودبخود دماغ میں پیداہوتی جائے یہ صورت اسی حالت میں ہی قائم رہ سکتی ہے جب علم اور فن کسی ایک نظام یاکسی قانونی کلیہ میں منسلک ہوں جیسے درخت کو بے شمار پتوں، شاخوں اور پھولوں پھلوں کوہم ایک جڑ سے باہم پیوستہ دیکھتے ہیں۔اور اگر کوئی چاہے تو جڑکے تنوں کے ساتھ بڑی شاخوں اور چھوٹی شاخوں کوبڑی سہولت سے اپنے ذہن میں رکھ سکتا ہے۔ اگر وہ اس قاعدہ کے علاوہ ایسے درخت کی بڑی چھوٹی شاخوں اور مقام وحدود اربعہ کویاد کرنا چاہے تو یہ ایک مشکل کام ہوگا۔ فرنگی طب ایک ایسا ہی درخت ہےجس کی کوئی جڑ نہیں ہے بلکہ جداجداشاخوں و پتوں اور پھلوں و پھولوں کو اکٹھا کرنے کی کوشش کی گئی ہے جس پرکوئی بڑے سے بڑا ڈاکٹر پورے طورپرقادر نہیں ہوسکے گا۔ اس صورت میں مخلوقِ خدا اور دنیا کا ان سے فائدہ حاصل کرنا بے حد مشکل ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ جہا ں فرنگی طب میں امراض کو کسی بنیادی اور قانون کلی کے تحت بیان نہیں کیاگیا وہاں پر کسی مرض کو کسی دیگرمرض کے تحت رکھنے کی کوشش نہیں کی گئی ہے۔ سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ جسم انسان کے اندر جو نظامات کام کررہے ہیں جیسے نظامِ بولیہ، نظامِہ ہوائیہ، نظامِ غذائیہ، نظامِ ہوائیہ اور نظامِ دمویہ، نظامِ عصبی، نظامِ غدی اور نظامِ عضلاتی کے ساتھ ان امراض کاکیا تعلق ہے اور جہاں تک اعضائے رئیسہ کا تعلق ہے ان کو ان امراض سے قطعاً جوڑا ہی نہیں گیا۔ یہی وجہ ہے کہ جب جسم میں کوئی مرض پیداہوتا ہے تو اس کی علامات کو جدا جدادیکھا اور علاج کیاجاتا ہے اور یہ تشخیص میں سب سے بڑی غلطی کا باعث بن جاتا ہے۔

اگر امراض کو انسان کے بنیادی نطام اور قانونِ کلی کے تحت مطالعہ کرنے کے ساتھ ساتھ جسم انسان کے نطامات اور اعضائے رئیسہ سے تعلق قائم کردیاجائے تو اس کاسب سے بڑافائدہ یہ ہوتا ہے کہ ان نظامات اور اعضائے رئیسہ میں سے جس کسی میں خرابی ہوگی اس نظام اور عضوِ رئیس کے تمام متعلقہ نظام اور اعضاء میں اس مرض کااثر ہوگا۔ بس وہی اس مر ض کی صحیح علامات ہوں گی۔ اس صورت میں امراض اور علامات آپس میں منسلک ہوجائیں گی اور تشخیص میں بے حد آسانیاں ہو جائیں گی اور وہ تشخیص یقینی ہوجائے گی۔

فرنگی طب نے امراض کو جومتعدد صورتوں کے تحت تقسیم کیاہے۔ کسی ایک مرض کی ایک ڈاکٹر کچھ تشخیص کرتاہے تو دوسراڈاکٹر ایک مختلف تشخیص کادعویٰ کرتاہے۔ نتیجہ ظاہر ہے کہ جس کثرت سے تشخیص کی صورتیں سامنے آئیں گی اسی قدر مختلف علاج تجویز ہوں گے۔ اس صورت میں کسی مریض کا اپنی بیماری سے نجات حاصل کرلینا ایک معجزہ سے کم نہیں ہے۔ جوکچھ ہم نے بیان کیا ہے اگر اس میں مغالطہ ہوتو ہم ڈاکٹرزکو چیلنج کرتے ہیں کہ مندرجہ بالاتقسیم ِ امراض کی صورتوں کوسامنے رکھ کریاجواصل وہ پسند فرمائیں پہلے بیان کردیں۔ پھر اس کے تحت امراض کی تشخیص کی تشریح کردیں۔ ہم چیلنج کرتےہیں کہ وہ کبھی بھی کسی ایک مرض کی تشخیص کامیابی سے نہیں کرسکیں گے۔ جن کو اپنے فن پراعتماد ہووہ میدان میں ہمارے دعویٰ کو غلط کرسکتے ہیں۔

فرنگی طب کی علمی کم مائیگی

فرنگی طب کو اپنی طبی سائنس (Medical Science) پر بہت ناز ہے لیکن جب ایک محقق ان کی علمی اور سائنسی کتب کو دیکھتاہے تو ان کی فاش غلطیوں کے ساتھ ساتھ ان کی بے علمی اور جہالت کو دیکھ کر افسوس کرتا ہے کہ ایک طرف اپنی سائنس کے اتنے لمبے چوڑے دعوے اور دوسری طرف اندر سے یہ کھوکھلاپن، ایک طرف یہ شوراشوری اور دوسری طرف یہ بے نمکی، جب کسی فرنگی ڈاکٹر سے یہ پوچھاجائے یہ کیابات ہے تو شرم سے گردن جھکا کر آئیں بائیں شائیں کرنے لگتے ہیں۔

ماہیت، امراض کے سمجھنے میں بھی ان کے ہاں بے حد غلطیاں ، بے علمی اور حقیقت سے ناواقفیت کے بے شمار نمونے نظر آتے ہیں۔ انشاء اللہ تعالیٰ ہم ان کی ادنیٰ ادنیٰ غلطی بھی معاف نہیں کریں گے، بال کی کھال نکالیں گے اوراندی کی چندی کردیں گے۔ امراض کا تعین اس وقت تک جس طرح کیاگیاہے وہ فرنگی طب اور ماڈرن سائنس کی بے علمی(Unscientific)اور جہالت پر دلالت کرتا ہے۔ ایک طرف انسانی جسم کی تشریح اور افعال کو کیسہ تک بیان کردیا ہے مگر دوسری طرف امراض کا تعین کرتے وقت صرف مرکب اعضاء کو سامنے رکھا گیا ہےمثلاً اگر معدے اور امعاء میں خرابی ہویامثانہ اور سینہ میں نقص ہوتو معدہ و امعاء اور مثانہ و سینہ کی مناسبت سے امراض کا تعین کیاگیا ہے اور اسی مناسبت سے نام رکھے گئے ہیں۔جیسے دردِ معدہ، ورمِ امعاء، سوزشِ مثانہ اور سینہ کی جلن وغیرہ۔ حالانکہ معدہ و امعاء اور مثانہ و سینہ اور دیگر تمام اسی قسم کے اعضاء مفرد اعضاء سے مرکب ہیں اور یہ مفرداعضاء سب کے سب مختلف اقسام کی بافتوں سے (Tissues)اور کیسوں(Cells) سے ترتیب پاکرترکیب پاتے ہیں او ر ہر مفرد عضو کے افعال دوسرے عضو سے اسی طرح مختلف ہیں جس طرح ان کے کیسے(Cells)الگ الگ ہیں۔ ایک وقت میں ان میں سے کسی ایک میں تحریک یا سوزش ہوتی ہے۔ سب میں نہ بیک وقت تحریک ہوتی ہےنہ سوزش اور سب سے بڑی بات یہ ہےکہ ان سب کے افعال میں افراط و تفریط یا ضعف بیک وقت ایک ہی جیسا نہیں ہوتا مثلاً اگر معدہ کے عضلات میں سوزش ہوگی تو معدہ کے اعصاب و غدد میں اس وقت تک سوزش نہیں ہوگی۔ لیکن فرنگی طب معدہ اور دیگر مرکب اعضاء میں سے کسی میں اگر سوزش تسلیم کرے گی تو اس کے تمام مفرداعضاء میں بیک وقت تسلیم کرے گی جو قطعاً ناممکن ہے۔ جس کے ثبوت میں ہم ان کے غلط تجربات کی تفصیل بیان کریں گے جوانہوں نے مینڈکوں پر کئے ہیں اور غلط نتائج حاصل کئے ہیں۔ ایسی صورت میں ہم کیسے کہ سکتے ہیں کہ ان کا تعین امراض صحیح ہے اور سوزش وغیرہ کے متعلق انہوں نے جو کچھ لکھا ہے وہ صحیح ہے یا ان کے تجربات درست ہیں یا ان کی تحقیقات فطرت کے مطابق اور علمی (Scientific)ہیں۔

فرنگی طب کے غلط تجربات

فرنگی طب میں سوزش کی ماہیت(Pathology)بیان کرنے میں بالکل اندھے پن سے کام کیاگیاہے۔ وہاں نسیجی تبدیلیوں ، کیمیائی اثرات اور اعضاء کے افعال کوان کی اپنی حیثیت سے جداجدا کرکے بیان نہیں کیاگیا۔ مگر چاہیئے تویہ تھا کہ کیسہ سے شروع کیاجاتاکہ وہ بذاتِ خود ایک حیوانی ذرہ ہے۔ اس میں احساس ہے۔ غذائی نظام ہے اور قوت و ضعف کے اثرات کے ساتھ ساتھ زندگی اور موت کی صورتیں بھی نظرآتی ہیں۔ اس کی زندگی اور افعال کو اول اس کی ذاتی نسیجی پھراسی بافت سے بنے ہوئے مفردعضو کو سامنے رکھاجاتا اور پھر کیسہ سے لے کر مفردعضو تک کی تبدیلیوں کی مناسبت اور فرق کو بیان کیاجاتا۔ پھر جو امراض یاعلامات کی صورتیں پیداہوتیں ان کوبیان کیاجاتا۔ مگر فرنگی طب اور ماڈرن میڈیکل سائنس کاپورا علم ان باتوں سے خالی ہے جس کے ثبوت میں ہم ان کی کتب پیش کرسکتے ہیں۔

سوزش سے متعلق فرنگی طب کے غلط تجربات

فرنگی طب میں سوزش کو سمجھنے کے لئے زیادہ سے زیادہ خوردبین کے نیچے کسی سوزش ناک مقام کو رکھا جاتا ہے اور اس میں جو تبدیلیاں ہوتی ہیں ان کو نوٹ کیا جاتا ہے۔ اس مقصد کے لئے زیادہ تر مینڈک سے کام لیاجاتا ہےمثلاً مینڈک کے نیچے کو پھیلاکر اس پر کوئی بیرونی محرک لگاکر اول سوزش پیداکرتے ہیں پھر ان تبدیلیوں کامطالعہ کرتے ہیں۔ لیکن تبدیلیوں کا پورا علم اس وقت ہوسکتاہےجب کہ پہلے بغیر سوزش کے تندرست مقام کابھی مطالعہ کیا جائے۔ غرض اس کی تبدیلیوں میں خون کی کمی بیشی، رفتار میں سستی اورتیزی، سرخ اور سفید دانوں کاخون کی رومیں بہنا اور الگ ہونا، خون کی نالیوں کا پھیلنا اور سکڑنا، کیسہ اور نسیج کی اندرونی و بیرونی تبدیلیاں، وہاں پر لمف اور رطوبت کاگرنا، اس میں انقباض اورانبساط کاپیداہونا، ان کا بڑھنا اور زندگی کے اثرات کاقائم رہنایامردہ ہوجانا ۔ غرض کہ تجربات میں اس قسم کے نتائج حاصل کئے جاتے ہیں۔ مگر یہ طریقِ کارغلط ہے۔ کیونکہ اس صورت میں اول ٹشوپر تجربات کررہاہےوہ بافت عصبی ہےیاعضلاتی یاکوئی اور ہےاور ہر ایک میں باہمی فرق کیا ہےدوسرے خون کی نالیوں کے پرت بھی مختلف پرتوں سے تیار ہیں۔ ان کا انقباض و انبساط کس بافت سے متعلق ہے اور خون کی رفتار پر تیزی و و سستی کا اثر کس بافت کے انقباض و انبساط سے پڑتا ہے۔ تیسرے تجربات سے جو نتائج حاصل کئے گئے ہیں وہ محرک تیزابی اثر رکھتا ہے یاکھاری یا نمکینی اثرات کاحامل ہے۔ ہرایک تجربات ایک دوسرے سے جدا ہوں گے۔ یہ اور اسی قسم کے اور کئی حقائق ہیں جن کانہ فرنگی طب کو علم ہے اور نہ کتب اور تجربات میں ذکرپایاجاتاہے اور ان حقائق سے ثابت ہوتاہے کہ ان کے تجربات غلط اصولوں پرمبنی ہیں۔اور ان کے نتائج بھی صحیح نہیں ہیں۔طرہ یہ کہ اگر ہم کسی جراثیم کوبھی سوزش کا محرک تسلیم کر لیں تو پھر یہ تسلیم کرناپڑے گا کہ نمونیہ(ذات الریہ، (پلورسی)ذات الجنب، ٹی-بی(سل دق) کے جراثیم اپنے اندر مختلف نوعیت رکھتے ہیں یا ان کے اثرات مختلف اقسام کی بافتوں پرہوتے ہیں یا وہ مختلف مقامات پراثرانداز ہوتے ہیں یاان کے زہر بالکل مختلف اقسام کے ہوتے ہیں۔ پھر ہرقسم کی سوزش کےایک ہی جیسے نتائج کیسے ہوسکتے ہیں۔

ہماری مشکلات

ہماری مشکلات میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہم کو بیک وقت دوکام کرنے پڑتے ہیں یعنی ڈبل رول(Double Roll)اداکرناپڑتا ہے، ایک طرف اپنی تحقیقات کو پیش کرنا اور دوسری طرف فرنگی طب کی غلطیوں اور خرابیوں کو راستہ میں سے دورکرنا تاکہ جہاں پر اہل علم اور صاحبِ فن ہماری تحقیقات سے مستفیدہوں وہاں پر وہ فرنگی طب کی غیرعلمی معلومات سے بھی آگاہ ہوتے رہیں تاکہ صحیح علم و فن حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ فرنگی طب کی وجہ سے جو ان کو احساسِ کمتری پیداہوگیا ہے وہ بھی دور ہوتا جائے۔

اس دوگونا مشکل کے ساتھ ساتھ سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ ہمارے اکثر حکما اور اطباء کا طبقہ علمی تحقیقات سے مناسبت نہیں رکھتا۔اس کو نہ فن عزیز ہے اور نہ ملک و قوم کی برتری کا جذبہ ہے۔ خودی، خودداری اور خوداعتمادی کے اسرار و رموز سے بہت دور ہے۔ وہ پیٹ کا بندہ ہےم جائز وناجائز دولت چاہتا ہے۔ چاہے وہ ملکی ادویات کوفروخت کرکے ملے، چاہے وہ فرنگی ادویات کے فروخت کرنے سے حاصل ہو۔ اکثر صرف اس لئے مخالفت کرتےہیں کہ کیوں ان کے غلط طریقِ کار سے روکا جاتا ہےجس سے انہوں نے بڑی دولت کمائی ہے اور لکھوکھہا روپیہ جمع کرلیا ہے۔ لیکن ہمیں کسی دولت مند اوردشمنِ فن کی پروا نہیں ہے ہمیں صرف اپناکام جاری رکھنا ہے ناصرف ایسے غلط قسم کے بے غیرت و زرپرست لوگوں کو چیلنج کرتے رہیں گے بلکہ ان کو ننگا کرکے دنیا میں پیش کرتے رہیں گےتا کہ دوسروں کے لئے عبرت ہو۔

نزلہ کاغلط تصور

ایورویدک میں نزلہ کو کف دوش کے تحت بیان کردیاگیاہےجو وید سمجھ اور فہم رکھتے ہیں وہ اس طرح سمجھتے ہیں کہ دوشوں میں کمی بیشی واقع ہوگئی یا دوش کے مقام بدل گئے ہیں۔ بہر حال اس میں کف و دوش کی زیادتی ضرور تصورکریں گے، چاہے وات اور پت کی خرابی اور مقامات کی تبدیلی بھی ان کے سامنے ہو۔ ان مقامات کی تبدیلی کو صرف ایک اچھا وید ہی سمجھ سکتاہے۔ ہم نے طوالت کومدنظر رکھتے ہوئے تفصیل کو نظرانداز کردیاہے۔ افسوس اچھا وید دس ہزار میں بھی مشکل سے نظرآتا ہے لیکن پھر بھی نزلہ کا صحیح اور یقینی تصور ذہن نشین نہیں ہوتا۔

طبِ یونانی میں نزلہ کو دماغی امراض میں لکھا گیاہے اور اطبا کے خیال میں دماغ سے نزلہ گرتاہے، جو حقیقت ہے۔ اگرچہ فرنگی طب کی پیروی میں کہاجاتاہے کہ نزلہ دماغ سے نہیں گرتاہے کیونکہ دماغ سے ناک میں کوئی راستہ نہیں ہے۔ مگر افسوس ان اطباء پرہے کہ انہوں نے اپنے صحیح علم کوناقص خیال کرتے ہوئے فرنگی طب کے غلط علم کو قبول کرلیا۔

جاننا چاہیے کہ نزلہ دماغ ہی سے گرتا ہے۔ اول اس پردلیل یہ ہے کہ سر نزلہ میں درد کرتا ہے۔ دوسری دلیل یہ ہے کہ دورانِ خون سر کی طرف زیادہ ہوتاہے۔ تیسری دلیل یہ ہے کہ مزمن نزلہ میں ضعفِ دماغ لاحق ہوجاتاہے اور اگر یہ کہاجائے کہ دماغ سے کوئی راستہ ناک اور گلے کی طرف نہیں آتا تو ان بھلے لوگوں کو کون سمجھائے کہ دماغ اور ناک کے درمیان جو جالی دار ہڈی ہے اس میں سے شریانیں اور اعصاب ناک میں آکر پھیلتے ہیں۔ یہ صحیح ہے کہ دماغ سے رطوبت نہیں گرتی مگر رطوبت گرنے کا فعل تو عروقِ شعریہ کے بعد ہوتاہے جو ناک اور حلق میں پھیلی ہوئی ہیں۔ جب دماغ خون سے آرہاہو اور عروقِ شعریہ بہ تعلق غشائے مخاطی اور غدد رطوبات یا بلغم کی صورت میں خارج ہورہاہے تو پھربھلایہ نزلہ دماغی امراض میں شامل ہوا کہ نہ ہوا۔ یہ ایک الگ ہماری تشخیص ہے کہ ہم نزلہ کو مرض نہیں علامت کہتے ہیں۔ جادو وہ جو سرچڑھ کربولے۔ تسلیم کرنا پڑے گا کہ نزلہ دماغ سے گرتاہے۔ یہ امر بھی یاد رہے کہ جب نزلہ لاحق ہوتاہے اس وقت دماغ کو پوری غذا خون کی میسر نہیں آتی۔ یہ بھی صحیح ہے کہ بعض قابل اطباء نزلہ کی ایک صورت شرکی بھی رکھتے ہیں۔ اسی صورت میں دل، جگر، معدہ اور گردہ کواسباب میں شمار کرلیتے ہیں۔ بہرحال نزلہ کاصحیح تصورپھر بھی ذہن نشین نہیں ہوتا۔ اس لئے نزلہ کوعسرالعلاج امراض میں شمار کیاگیاہے۔ شائد ہی کوئی کامل طبیب اور ماہر فن ہوجو اس امرکادعویٰ کرے کہ وہ نزلہ پر پوری طرح قابو رکھتاہے۔ فرنگی طب اس مرض کا باعث جراثیم قرار دیتی ہے۔ جن سے ناک اور گلے میں سوزش پیداہوجاتی ہے پھر زکام اور نزلہ شروع ہوجاتاہے۔

اول تو فرنگی طب کا نظریہ جراثیم غلط ہے کیونکہ جراثیم سبب واصلہ نہیں ہیں بلکہ سبب بادیہ اور سابقہ ہیں ۔ جب تک جراثیم عفونت اور عضومیں سوزش پیدانہ کریں نزلہ کی صورت پیدانہیں ہوسکتی۔ یہ ان کاسبب سابقہ ہےنہ کہ واصلہ اور بادیہ صورت میں جب تک کیفیاتی اور نفسیاتی طورپرقوتِ مدافعت اور قوت مدبرہ بدن(Vital Force)کمزور نہ ہو جراثیم اپنا اثر پیدانہیں کرسکتے۔ دونوں صورتوں یعنی کیمیائی(Chemical)اثرہو یا میکانکی (Mechanical)عضوی خرابی مقدم ہے۔ اس سے مرض پیداہونے میں جراثیم کا تصوراور جرم کش ادویات کا استعمال دونوں بے سود ہیں اور دلائل کے طورپر ہم تجربہ پیش کرسکتے ہیں کہ فرنگی طب نزلہ اور زکام کے علاج میں بالکل ہی ناکام ہے۔ نزلہ زکام کا بہاؤ روک دینا اور سوزش و جلن کو دورکردینا کوئی علاج نہیں ہے۔یہ بات افیون اور دیگر منشی و مخدر ادویات کے ساتھ ایک خوراک سے روکی جاسکتی ہیں۔ ان کے علاوہ اسپرین اور دیگر پین کل(Pain Killer)ادویات کی چند خوراکوں سے روکاجاسکتاہے لیکن جہاں تک ان کے مستقل علاج کا تعلق ہے، فرنگی بالکل ناکام ہے۔

دوسری فرنگی طب کی سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ وہ نزلہ زکام میں کیفیاتی اور نفسیاتی اثرات کی قائل نہیں ہے۔ لیکن تجربہ بتاتا ہے کہ کیفیاتی ونفسیاتی اثرات بھی اپنےاندر شدید اثرات رکھتے ہیں۔ جہاں جراثیم کا تصور بھی ذہن میں نہیں گزرسکتا مثلاً اگر کوئی فرنگی ڈاکٹر ان شدیداثرات کوتسلیم نہیں کرتا تو ہم ان کوایک تجربہ کی دعوت دیتے ہیں یعنی کسی تندرست انسان کو گرم گرم چائے پلاکربرف کے ٹھنڈے پانی سےغسل کرادیں اور نتیجہ دیکھیں۔ اسی طرح  شدید غم و غصہ اور خوف کی حالت میں بھی نزلہ زکام لاحق ہوجاتے ہیں۔ تجربہ شرط ہے۔

تیسری سب سے اہم بات یہ ہے کہ فرنگی طب نزلہ زکام کی رطوبت کے بہاؤ(Flu) کو ایک ہی قسم کی رطوبت سمجھتی ہے جوجراثیم کے اثرات سے اخراج پانا شروع ہوجاتی ہے اس وقت اس کی کیفیت اور ہوتی ہے جب غشائے مخاطی میں سوزش ہوتی ہے اس وقت صورت اور ہوتی ہے اور جووہاں کے عضلات میں سوزش ہوتی ہےتو حالت ہی کچھ اور ہوتی ہےکہ گویا آج تک ماڈرن میڈیکل سائنس جسمِ انسان کے مفرداعضاء کے اثرات اور علامات سے بالکل ناواقف اور نابلدہے۔ کوئی ڈاکٹر یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ فرنگی طب اس قسم کی تشخیص اور تحقیقات سے باخبر ہے۔

استاذ الاطباء حکیم احمد دین صاحب نے زکام، نزلہ کو غشائے مخاطی کے فعل کی زیادتی لکھا ہے۔ یہ بالکل فرنگی طب کاشاہدروی ماڈل ہے۔ اس میں جراثیم سے انکار ضرور ہے مگر جراثیم کے سبب سے انکار نہیں ہے۔ گویا ایک خوبصورت دھوکاہے۔ اس کے علاوہ اس میں کیفیاتی، نفسیاتی اور رطوبت کی تخصیص بالکل نہیں پائی جاتی۔ بالکل وہی اعتراضات  جو فرنگی طب پرکئے گئے ہیں ان پر بھی وارد آتے ہیں۔ اس لئے اس طریقِ علاج میں نزلہ زکام پر کچھ روشنی نہیں پڑتی۔ اس میں یہ نکتہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ انہوں نے غشائے مخاطی کے سلسلہ میں ترشی کاذکر کیاہے لیکن ترشی کااثر غشائے مخاطی کی بجائے عضلات پرپڑتا ہے۔ اس فرق کو صرف وہی ماہرِ فن سمجھ سکتے ہیں جو افعال الاعضاء کے عالم ہیں۔

نزلہ کی تشخیص

اگر نزلہ پانی کی طرح بے تکلف رقیق ہے تو یہ اعصابی (دماغی) نزلہ ہے۔ یعنی اعصاب کے فعل میں تیزی ہے اس کا رنگ سفیداور کیفیت سرد ہوگی۔ اس میں قارورہ کا رنگ بھی سفید ہوگا۔2۔ اگر نزلہ لیسدارجو ذرا کوشش ، تکلیف اور جلن سے خارج ہورہا ہے تو یہ غدی(کبدی) نزلہ ہے۔ یعنی جگر کے فعل میں تیزی ہو گی، اس کا رنگ عام طورپرزردی مائل اور کیفیت گرم و تیز ہوگی۔ اس میں قارورہ کا رنگ زرد یا زردی مائل ہوگا گویا نزلہ حار ہے3۔ اگر نزلہ بندہو تو اور انتہائی کوشش اور تکلیف سے بھی اخراج کانام نہ لے۔ ایسا معلوم ہوکہ جیسے بالکل جم گیا ہےاورگاڑھاہوگیا ہے تویہ نزلہ عضلاتی (قلبی) ہوگا یعنی اس میں عضلات کے افعال میں تیزی ہوگی۔ا س کارنگ عام طورپرمیلایا سرخی سیاہی مائل اور کبھی کبھی زیادہ زور لگانے سے خون بھی آجاتا ہے۔ اول صورت میں جسم میں رطوبات سرد(بلغم) کی زیادتی ہو گی۔ دوسری صورت میں صفرا(گرمی خشکی) کی زیادتی ہوگی۔ تیسری صورت میں سوداویت (سردی خشکی) اور ریاح کی زیادتی ہوگی اور انہی اخلاط و کیفیات کی تمام علامات پائی جائیں گی۔

گویا نزلہ کی یہی تینوں صورتیں ہیں، ان کو ایسی مقام پرذہن نشین کرلیناچاہیئے چوتھی صورت کوئی نہ ہوگی۔ البتہ ان تین صورتوں میں کمی بیشی اور انہتائی شدت ہو سکتی ہے۔ انتہائی شدت کی صورت میں انہی اعضاء کے اندر درد یا سوزش  یا ورم پیدا ہوجائے گا۔ انہی شدید علامات کے ساتھ بخار ، ہضم کی خرابی، کبھی قے، کبھی اسہال، کبھی پیچش اور کبھی قبض ہمراہ ہوں گے۔ لیکن یہ تمام علامات انہی اعضاء کی مناسبت سے ہوں گی۔ اس طرح کبھی معدہ و امعاء اور سینہ کے انہی اعضاء میں کمی بیشی اور شدت کی وجہ سے بھی ان کی خاص علامات کے ساتھ ساتھ نزلہ کی بھی یہی علامات پائی جائیں گی۔ جن کا اوپر ذکر کیا گیا ہے۔

نزلہ کے معنی میں وسعت

نزلہ کے معنی ہیں گرنا۔اگراس کے معنی کوذراوسعت دے کراس کے مفہوم کو پھیلا دیاجائے توجسم انسان کی تمام رطوبات اورمواد کونزلہ کہہ دیاجائے توان سب کی بھی اس نزلہ کی طرح تین ہی صورتیں ہوسکتی ہیں اوران کے علاوہ چوتھی صورت نظر نہیں آئے گی مثلاً اگرپیشاب پر غور کریں تو اس کی تین صورتیں یہ ہوں گی۔ (1)۔اگراعصاب میں تیزی ہوگی توپیشاب زیادہ اوربغیرتکلیف کے آئے گا۔ (2)۔اگرغددمیں تیزی ہوگی توپیشاب میں جلن کے ساتھ قطرہ قطرہ آئے گا۔ (3)۔اگرعضلات میں تیزی ہوگی توپیشاب بندہوگا یابہت کم آئے گا۔ یہی صورتیں پاخانہ پربھی وارد ہوں گی۔ (1)۔اعصاب میں تیزی ہوگی تواسہال۔ (2)۔غددمیں تیزی ہوگی توپیچش۔ (3)۔عضلات میں تیزی ہوگی توقبض پائی جائے گی۔ اس طرح لعاب،دہن۔آنکھ،کان اورپسینہ وغیرہ ہرقسم کی رطوبات پر غورکرلیں۔البتہ خون کی صورت رطوبات سے مختلف ہے،یعنی اعصاب کی تیزی میں جب رطوبات کی زیادتی ہوتی ہے تو خون کبھی نہیں آتا۔جب غددمیں تیزی ہوتی ہے توخون تکلیف سے تھوڑاتھوڑاآتاہے۔جب عضلات کے فعل میں تیزی ہوتی ہے توشریانیں پھٹ جاتی ہیں اوربے حد کثرت سے خون آتا ہے ۔اس سے ثابت ہوگیاکہ جب خون آتاہے تورطوبات کااخراج بندہوجاتاہے اور اگر رطوبات کااخراج زیادہ کردیاجائے توخون کی آمدبندہوجائے گی۔ نظریہ مفرداعضاء کے جاننے کے بعداگرایک طرف تشخیص آسان ہوگئی ہے تودوسری طرف امراض اورعلامات کاتعین ہوگیاہے اب ایسا نہیں ہوگاکہ آئے دن نئے نئے امراض اورعلامات فرنگی طب تحقیق کرتی رہے اوراپنی تحقیقات کادوسروں پررعب ڈالتی رہے بلکہ ایسے امراض و علامات جوبے معنی صورت رکھتے ہوں وہ ختم کردئیے جائیں گے جیسے وٹامنی امراض،غذائی امراض اورموسمی امراض وغیرہ وغیرہ۔پس ایسے امراض اورعلامات کاتعلق کسی نہ کسی اعضاء سے جوڑنا پڑے گااورانہی کے افعال کوامراض کہناپڑے گا۔گویاکیمیائی اوردموی تغیرات کوبھی اعضاء کے تحت لاناپڑے گا۔ دموی اورکیمیائی تغیرات بھی اپنے اندر حقیقت رکھتے ہیں لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیاجاسکتا کہ جسم انسان میں خون کی پیدائش اوراس کی کمی بیشی انسان کے کسی نہ کسی عضوکے ساتھ متعلق ہے اس لئے جسم انسان میں دموی اورکیمیائی تبدیلیاں بھی اعضائے جسم کے تحت آتی ہیں۔اس امر میں کوئی شک نہیں ہے کہ جسم میں ایک بڑی مقدارمیں زہریلی ادویات اوراغذیہ سے موت واقع ہوجاتی ہے لیکن ایسے کیمیائی تغیرات بھی اس وقت تک پیدا نہیں ہوتے جب تک جسم کاکوئی عضو بالکل باطل نہ ہوجائے۔ جاننا چاہیے کہ انسان تین چیزون سے مرکب ہے (1)جسمBody۔(2) نفسVital Force ۔(3)۔روح Soul ۔نفس اورروح کاذکربعدمیں ہوگا۔اول جسم کوبیان کرناضروری ہے۔انسانی  جسم  تین  چیزوں سے مرکب ہے(1)بنیادی اعضاءBasic Organs۔ (2) حیاتی اعضاءLife Organs ۔(3)۔خونBlood ان کی مختصر سی تشریح درج ذیل ہے۔

(1) ۔بنیادی اعضاء۔Basic Organs

ایسے اعضاء ہیں جن سے انسانی جسم کاڈھانچہ تیارہوتاہے جن میں مندرجہ ذیل تین اعضاء شریک ہوتے ہیں۔ (1)ہڈیاںBones ۔(2)رباطLigaments ۔(3)۔اوتارTendons۔

(2) ۔حیاتی اعضاءLife Organs۔

ایسے اعضاء ہیں جن سے انسانی زندگی اوربقاقائم ہے۔یہ تین قسم کے ہیں۔(1) اعصاب ۔ Nerves ان کامرکزدماغ(Brain)ہے۔ (2)غدد۔Glands جن کامرکزجگر (Liver) ہے۔عضلات(Muscles) جن کامرکزقلب (Heart)ہے۔گویادل،دماغ اورجگرجواعضائے رئیسہ ہیں وہی انسان کے حیاتی اعضاء ہیں۔

(3) ۔خون۔Blood:

سرخ رنگ کا ایک ایسا مرکب ہے جس میں لطیف بخارات(Gases)،حرارت (Heat) اور رطوبت(Liquid)پائے جاتے ہیں۔یاہوا،حرارت اورپانی سے تیارہوتا ہے۔ دوسرے معنوں میں سودا، صفرااوربلغم کاحامل ہوتاہے۔ان کی تفصیل آئندہ بیان کی جائے گی۔اس مختصرسی تشریح کے بعد جانناچاہیے کہ قدرت نے ضرورت کے مطابق جسم میں اس کی ترتیب ایسی رکھی ہے کہ اعصاب باہر کی جانب اورہرقسم کے احساسات ان کے ذمہ ہیں ۔ اعصاب کے اندرکی طرف غددہیں اورہرقسم کی غذا جسم کومہیاکرتے ہیں۔غددسے اندرکی جانب عضلات ہیں اورہرقسم کی حرکات ان کے متعلق ہیں۔ یہی تینوں ہرقسم کے احساسات ،اغذیہ اورحرکات کے طبعی افعال انجام دیتے ہیں۔

غیرطبعی افعال

حیاتی اعضاء کے غیرطبعی افعال صرف تین قسم کے ہیں۔(1)ان میں سے کسی عضومیں تیزی آ جائے یہ ریاح کی زیادتی سے پیداہوگی۔(2)۔ان میں سے کسی عضومیں سستی پیداہوجائے یہ رطوبت یابلغم کی زیادتی سے پیداہوگی۔(3)ان میں سے کسی عضومیں ضعف پیداہوجائے یہ حرارت کی زیادتی سے پیداہوگا۔ یاد رکھیں چوتھا کوئی غیرطبعی فعل واقع نہیں ہوتا۔اعضائے مفردکاباہمی تعلق جاننانہایت ضروری ہے کیونکہ علاج میں ہم ان ہی کی معاونت سے تشخیص،تجویزاورعلامات کورفع کرتے ہیں۔ان کی ترتیب میں اوپریہ بیان کیاگیاہے کہ اعصاب جسم کے بیرونی طرف یااوپرکی طرف ہیں اور ان کے نیچے یابعدمیں غددکورکھاگیاہے اورجہاں پرغددنہیں ہیں وہاں ان کے قائم مقام غشائے مخاطی بنادی گئی ہیں اوران کے نیچے یابعدمیں عضلات رکھے گئے ہیں اورجسم میں ہمیشہ یہی ترتیب قائم رہتی ہے۔افعال کے لحاظ سے بھی ہرعضو میں صرف تین ہی افعال پائے جاتے ہیں (1)۔عضوکے فعل میں تیزی پیداہوجائے توہم اس کوتحریک کہتے ہیں۔ (2)۔عضوکے فعل میں سستی نمودارہوجائے توہم اس کوتسکین کہتے ہیں۔ (3)۔عضوکے فعل میں ضعف واقع ہوجائے توہم اس کوتحلیل کی صورت قراردیتے ہیں۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ ہر عضومیں ظاہرہ دو ہی صورتیں ہوتی ہیں۔اول تیزی اوردوسرے سستی ۔ لیکن سستی دوقسم کی ہوتی ہے۔ اول سستی سردی یابلغم کی زیادتی اوردوسرےسستی حرارت کی زیادتی ہے ۔ اس لئے اول الذکرکانام تسکین رکھا جاسکتاہے۔اورثانی الذکرکی سستی کوتحلیل ہی کہنا بہترہے۔کیونکہ حرارت اورگرمی کی زیادتی سے ضعف پیدا ہوتاہے۔اوریہ بھی ایک قسم کی سستی ہے۔لیکن چونکہ ضعف حرارت اورگرمی کی زیادتی سے پیداہوتاہے اوراس میں  جسم یاعضوگھلتاہے اور یہ صورت مرض کی حالت میں آخرتک قائم رہتی ہے بلکہ صحت کی بحالی میں بھی ایک ہلکے قسم کی تحلیل جاری رہتی ہے۔اس لئے انسان بچپن سے جوانی،جوانی سے بڑھاپے اور بڑھاپے سے موت کی آغوش میں چلاجاتاہے۔اس لئے اس حالت کانام تحلیل بہت مناسب ہے۔ ساتھ ہی اس امرکوبھی ذہن نشین کرلیں کہ یہ تینوں صورتیں یاعلامات تینوں اعضاء اعصاب،غدداور عضلات میں کسی ایک میں کوئی حالت ضرورپائی جائے گی۔ البتہ ایک دوسرے میں بدلتی رہتی ہیں اور اس غیرطبعی بدلنے ہی سے مختلف امراض پیداہوتے ہیں اورانہی کی طبعی تبدیلی سے صحت حاصل ہوجاتی ہے۔اعضاء کی اندرونی تبدیلیوں کوذیل کے نقشہ سے آسانی کے ساتھ سمجھاجاسکتاہے۔

نتیجہعضلاتغدداعصابنام اعضاء

جسم میں رطوبات یعنی بلغم کی زیادتی

تسکینتحلیلتحریکدماغ
جسم میں حرارت یعنی صفراکی زیادتیتحلیلتحریکتسکینجگر
جسم میں ریاح یعنی سوداکی زیادتیتحریکتسکینتحلیلدل

گویا ہر عضو میں یہ تینوں حالتیں یا علامات فرداًفرداً ضرور پائی جائیں گی۔یعنی (1۔اگراعصاب میں تحریک ہے وغددمیں تحلیل اورعضلات میں تسکین ہوگی ۔نتیجۃًجسم میں رطوبات بلغم یاکف کی زیادتی ہوگی۔ (2۔اگرغددمیں تحریک ہوگی توعضلات میں تحلیل اوراعصاب میں تسکین ہوگی۔نتیجۃًجسم میں حرارت صفراویت کی زیادتی ہوگی۔ (3۔اگرعضلات میں تحریک ہوگی تواعصاب میں تحلیل اورغددمیں تسکین ہوگی۔نتیجۃ جسم میں ریاح سوداویت کی زیادتی ہوگی۔ یہ تمام جسم اور اس کے افعال کی اصولی (Systematic) تقسیم ہے۔ اس سے تشخیص اور علاج واقعی آسان ہوجاتا ہے۔ گویا اس طریقہ کوسمجھنے کے بعد علم طب ظنی نہیں رہتا بلکہ یقینی طریقِ علاج بن جاتا ہے۔

نزلہ کی حقیقت

نزلہ کی ماہیت وتقسیم اور تشخیص و علامات پر ہم گزشتہ مضمون میں روشنی ڈال چکے ہیں اور باربار بلکہ تاکیداً بھی لکھ چکے ہیں کہ نزلہ اور زکام کوئی مرض نہیں ہےبلکہ امراض کی علامات ہیں۔ اس کی مختلف صورتوں کو اس کے اسبابِ واصلہ کے تحت بیان کیاگیاہے تاکہ سمجھنے میں بے حد سہولتیں اور علاج میں آسانیاں ہوں یعنی نزلہ کی علامت کے لئے تین ہی اسباب واصلہ ہوسکتے ہیں۔1۔ نزلہ دماغی۔2۔نزلہ کبدی۔3۔نزلہ قلبی۔جن کوہم سہولت کےلئے ۔1۔نزلہ اعصابی۔2۔نزلہ غدی۔3۔ نزلہ عضلاتی کے نام دیتے ہیں۔ کیونکہ جسم میں یہی مفرداعضاء پھیلے ہوئے ہیں۔ دل ، دماغ اور جگر تو ان کے مرکز ہیں۔ اگر نام مرکز کے تحت رکھے جائیں تو تشخیص میں غلط فہمی پیداہونے کاامکان نہیں ہوسکتا ہے۔ان کی علاماتِ فارقہ بیان کردی ہیں جس سے ثابت ہوتا ہےان کے علاوہ نہ نزلہ کی کوئی صورت ہے اور نہ کوئی اس کا اور سبب پایاجاتاہے۔

اسبابِ واصلہ کی اہمیت

امراض و علامات کو رفع کرنے کے لئے یعنی علاج کے لئے اسباب کاجاننابے حد ضروری ہے۔ کیونکہ بغیر اسباب کے سمجھےعلاج کرنا اندھیرے میں تیر چلانا ہے اور اسی کو عطایانہ علاج کہتے ہیں۔ طب یونانی میں تین اسباب ہیں۔1۔ بادیہ ۔2۔  سابقہ ۔3۔ واصلہ۔ اسباب واصلہ کوعلاج میں بے حد اہمیت حاصل ہے۔ اسباب واصلہ وہ اسباب ہیں جن کے بعد امراض و علامات نمودار ہوتی ہیں یعنی اسباب واصلہ اور امراض و علامات آپس میں ایسے ملے جلے رہتے ہیں کہ ان کے درمیان کوئی فاصلہ نہیں رہتا مثلاً جسم میں کہیں مادہ کا رکنا بغیر کسی عضو کے فعل کی خرابی کے ناممکن ہے۔ بخار بغیر تعفن اور ورم و سوزش، دوران خون کی انتہائی کمی بیشی کے یقیناً مشکل ہے۔ اسی طرح بغیر مادہ کے رکنے، خمیر و تعفن کے بغیر جراثیم کا پیداہونا بالکل انہونی بات ہے۔

گویا اسبابِ واصلہ کالازم ہونا انتہائی ضروری ہے۔ مگر اسبابِ واصلہ کی عملی صورت اسبابِ بادیہ اور سابقہ سے قائم ہے۔ اسباب ِ بادیہ کیفیاتی اور نفسیاتی اثراتہیں اور اسبابِ سابقہ مادی اور خلطی صورتیں ہیں اور انہی کیفیات اور اخلاط پر طب یونانی کی بنیادیں قائم ہیں۔جب ان صورتوں اور اثرات کو نظرانداز کر دیاجائےگا۔ طب یونانی کی عمارت دھڑام سے نیچے گرپڑےگی۔جو لوگ فرنگی طب کی پیروی میں بغیر کیفیات اور اخلاط کے تعین کے علاج کرتے ہیں وہ نہ صرف طب یونانی سے اپنی جہالت کاثبوت دیتے ہیں بلکہ فنِ علاج کی حقیقت سے بھی ناواقف ہیں۔جہاں تک جراثیم کے نظریہ کاتعلق ہےوہ اسبابِ سابقہ و بادیہ میں شمار ہوسکتے ہیں جو بغیر اسبابِ واصلہ کےعمل کے بے معنی ہوکررہ جاتے ہیں۔ یعنی جب تک اعضاء کے افعال درست ہیں کوئی مادہ یا جراثیم نقصان نہیں پہنچاسکتا کیونکہ ایسی صورت میں اعضاء جسم کو بیماراور خراب ہونے سے بچا لیتے ہیں۔ کیفیات کے اثرات کو سمجھنے کے لئے صرف اس قدر کافی ہےکہ انتہائی سردی کے موسم میں کسی نمونیاکے مریض کا علاج کھلے میدان میں بغیر آگ اور گرم کپڑوں کے نہیں ہوسکتا، چاہے جس قدر بھی گرم ادویہ اور انجکشن دئیے جائیں۔ نمونیہ میں اولین شرط یہ ہے کہ مریض کے کمرے اور ماحول کو گرم کرلیاجائے تاکہ وہ اس کے جسم میں غیر معمولی حرارت قائم ہوجائے۔ ان حقائق سے ثابت ہواکہ علاج میں اسباب خصوصاً اسباب واصلہ کو مدنظر کھنا نہایت ضروری ہے اور یہ اسباب واصلہ سے صرف اعضاء کے افعال میں خرابی ہوسکتی ہے۔ جیساکہ شیخ الرئیس نے لکھا ہے کہ جب مجراِ جسم میں خرابی واقع ہوتی ہےتو اس حالت کو مرض کہتے ہیں۔

نزلہ اور طب مفرداعضاء

نزلہ کی حقیقت کو نظریہ مفرداعضاء کے تحت بیان کیا گیاہےجس سے اس کی ماہیت و تقسیم اور تشخیص و علامات میں آسانیاں پیداہوگئی ہیں۔ وہاں پر اس کاعلاج یقینی اور بے خطاہوگیاہے۔ اسی طرح ہم اس کو طب مفرداعضاء کے تحت دیگر  علامات خصوصاً سوزش و ورم اور بخار کاذکر کریں گے۔

طب مفرد اعضاء(Simple Organ Theory)ایک بالکل نظریہ ہے۔ جو کم وبیش بیس(20) سال کی جدوجہد کانتیجہ ہے۔اس طب سے نہ یورپ و امریکہ واقف ہے ، نہ ہی روس اور نہ دنیاکاکوئی اور ملک اس سے آگاہ ہے۔ گزشتہ ہزاروںسالوں کی طبی تاریخ جو بابل و نینوا اور چین و ہندوستان سے شروع ہوتی ہے۔ جن کے اثرات اور تہذیب مصر وشام سے گھومتی پھرتی اور چکر کاٹتی ہوئی یونان کے فلسفیانہ مدرسوں اور رومن امپائر کے بقعہ نور ایوانوں میں صدیوں پھلتی پھولتی اور بڑھتی رہی۔ پھرایران کی زمین کو عملی و فنی اور ثقافتی حیثیت سے آباد و شاداب کرتی ہوئی عربی اور اسلامی دور میں ارتقائی بلندیوں پر پہنچ کر اپنے کمال کو پہنچی۔ مگر کسی دور اور زمانے میں بھی اس طب مفرداعضاء کوکہیں اشارے اور کنائے سے بھی بیان نہیں کیاگیا۔ آج بھی یورپ، امریکہ اور روس کی تحقیقات علمی اور سائنسی معلومات اس کمال پر پہنچ چکی ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ پھر بھی ان کے علم العلاج میں اس نظریہ یا طب کاادنیٰ سا اشارہ بھی نہیں پایاجاتا۔ گویہ یا نظریہ و طب بالکل طبع زاد اور صحیح معنوں میں جدید ہے۔

علم الامراض کی مشکلات

ہزاروں سالوں سے علم العلاج میں جو تحقیقات و تدقیقات اور تجدیدو اضافت ہوتے چلے آئے ہیں اور آج بھی جب کہ اس دور کو تحقیقات و تجربات کے اعتبار سے علم و فن اور سائنس کا سب سے بڑادور کہتے ہیں یہی سلسلہ جاری ہے ۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ یورپ ، امریکہ ، روس اور چین کی اس قدر علمی و فنی اور سائنسی تجرباتی بیداری اور دولت کے امراض اور ان کی تشخیص کا مسئلہ یقینی طورپر حل نہیں ہوسکا۔ اس لئے آج بھی دنیا امراض کی مصیبت اور عذاب میں مبتلا ہے۔ اللہ کریم و حکیم کی انتہائی کرم فرمائی اور حکیمانہ راہنمائی ہے ۔ یہ مسئلہ ہماری ذات سے حل ہوا ہے۔اگر کسی صاحب کواس دعویٰ میں مبالغہ ہوتوہم چیلنج کرتے ہیں کہ دنیا بھر میں آج سے لے کر ہزاروں سال کے قدیم زمانہ تک اگر کسی نے ماہیتِ امراض اور تشخیص الامراض کے مسئلہ کواس آسانی اور سہولت سے حل کیاہوتووہ تاریخ اور کتب میں ایسا ثبوت پیش کریں۔ نزلہ کی علامت میں ہم نے جس وضاحت اور تشریح کے ساتھ روشنی ڈالی ہے۔ یہ آج تک کی طبی تاریخ میں نظر نہیں آئے گی۔ ہم انشاء اللہ تعالیٰ باقی امراض اور علامات پر اسی تشریح اور تفسیر کے ساتھ روشنی ڈالیں گے۔

علم الامراض کی اہمیت

جاننا چاہیے کہ فنِ طب میں ترقی اور کامیابی اسی صورت میں ہوسکتی ہے جب کہ معالج امراض کی ماہیت او ر اس کی باریکیوں سے پوورے طورپر آگاہ ہوں۔ عسرالعلاج اور پیچیدہ امراض پر اسی صورت میں دسترس ہوسکتی ہے جب کہ اس کی حقیقت اور اصلیت کو عام فہم زبان میں سمجھایا جاسکے۔ لیکن عام طورپردیکھاگیاہے کہ اول ماہیتِ امراض کو صحیح طورپر بیان نہیں کیاگیا۔ یونہی بے معنی باتوں کا ذکرکردیاگیا ہے اوردوسرے اگر کہیں تھوڑا بہت کیا گیاہے وہاں لکیر کے فقیر کی طرح ایسی جناتی زبان میں لکھ دیاگیاہے جو طالب علم کی سمجھ سے باہر ہوتی ہے اور وہ اس کوصرف زبانی رٹ لیتاہے اور حقیقت و اصلیتِ مرض تک نہیں پہنچتا۔ تیسرے وہ کچھ بھی ماہیت مرض کے متعلق سمجھاجاتاہے نہ اس پر غوروفکر کیاجاتاہے اور نہ ہی ان کو تجربات میں لایاجاتا ہے۔ نتیجہ صرف یہ نکلتا ہے کہ ماہیتِ مرض کی بجائے نام مرض ذہن میں رہ جاتا ہے۔ مجربات اور ادویات سے علاج کردیاجاتاہے۔

ماہیتِ امراض اور تشخیصِ امراض کے متعلق جوکچھ لکھ دیتے ہیں۔ ہمارے سامنے پوری فرنگی طب ہے اور ہماری کوشش یہی ہے کہ اس کی خامیوں اور غلطیوں کو سامنے لاتے جائیں جس سے ایک طرف غلط اور ان سائنٹیفک علم سےنفرت ہوتی جائےاور دوسری طرف صحیح علم سامنے آتاجائے۔ ان دونوں صورتوں سے بہت اچھی طرح فن سمجھ آسکے گا۔ یہ بات ذہن نشین کرلیں کہ جو کچھ ہم لکھ رہے ہیں وہ آیورویدک اور طب یونانی کی روشنی میں لکھ رہے ہیں۔ جس میں ہم نے تقریباً پچیس(25) سال میں تحقیق کی ہے۔ بعض لوگ جو اعتراض کرسکتے ہیں کہ آیورویدک اور طب یونانی دراصل فرنگی طب سے مختلف طریق علاج ہیں۔ پھر اول الذکر سے ثانی الذکر کی غلطیاں کیسے نکل سکتی ہیں۔

علمی اور فنی علاج میں یکسانیت

جاننا چاہیے کہ اول علم طب ایسے علم کانام ہے جس سے جسم کی حالت صحت اور حالتِ مرض کا پتاچلتا ہے۔ جس کاموضوع جسم انسان ہے۔ دوسرے صحت اس حالت کانام ہے جب اعضائے جسم انسانی اپنے افعال انجام دے رہے ہوں او ر مرض اس حالت کانام ہے جب اعضائے جسم انسانی اپنے افعال صحیح نہ دے رہے ہوں۔ گویا حالت اعضائے جسم انسانی صحت اور مرض کی حالت میں فطری طورپر ہر طریق علاج میں بالکل ایک ہی صورت پر پائی جائیں گی۔ اس حالت کو چاہے کوئی دوش سے سمجھ لے یاکوئی اخلاط و مزاج کی کمی بیشی سے نمایاں کردے یا کوئی جراثیم کے اثرات سے واضح کردے۔ بہرحال اعضاء کے افعال اور حالت سب صورتوں میں بالکل ایک ہی ہوں گی۔ایسی صورت میں ہر طریق کی غلطیاں اور غیر علمی باتیں فوراً سامنے آجاتی ہیں۔ بہرحال اگر کسی معالج یا ماہر فن کو کوئی اعتراض ہوتو ہم اس کا ہر گھڑی جواب دینے کو تیار ہیں۔

مگرایسے اعتراض اہل علم اور صاحب فن نہیں کرسکتے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ علم الامراض ایسے علم کانام ہے جس سے انسان کی غیر طبعی حالت میں اعضاء کی ہئیت و ترکیب اور ترتیب و افعال نہیں کیا کیا تبدیلیاں رونما ہوگئی ہیں۔بالکل اس طرح جیسے علم تشریح اور الابدن ، علم منافع الاعضاء ہر عضو کی طبعی ساخت اور اس کے طبعی افعال سے بحث کرتے ہیں۔ کسی طریق علاج کاحامل اور ماہر جب ان علوم پر بحث کرے گا تو نتائج فطرتاً ایک ہی قسم کے ہونے چاہئیں۔جب طبعی حالت میں بحث اور نتائج یکساں ظاہر ہوتے ہیں تو غیر طبعی حالت میں بحث اور نتائج کیسے بدل سکتے ہیں۔ بلکہ اس علم سے ہم کو یہ بھی پتا چلتا ہے کہ کیوں اور کس طرح امراض پیداہوتے ہیں۔اور امراض پیداہوکر ان کی کیا شکل و صورت ہوتی ہے۔1۔ ہمارے سامنے دواسباب ہوتے ہیں جن سے امراض جسم میں داخل ہوتے ہیں۔2۔ امراض کی پیدائش کے دوران جسمِ انسانی میں کس طرح تبدیلیاں پیداہوتی ہیں۔3۔ کیا شکل و صورت سے امراض کی حالت میں اعضائے جسم و صورت افعال سامنے آجاتے ہیں تاکہ حالت صحت اور مرض کابین فرق واضح ہوکر سامنے آجائے۔ یہ تمام ایسی صورتیں ہیں کہ علمی و سائنسی اور تجرباتی طورپر کسی بھی طریق علاج کے حامل اور ماہر میں کچھ فرق نہیں ہوسکتا۔ البتہ سمجھنے اور الہام و تفہیم میں ضرور فرق ہے۔ ہمارا دعویٰ ہے کہ علم الامراض کو سمجھنے اور سمجھانے کے دیگر طریق ہائے علاض خصوصاً فرنگی طب نے اور دیگر علم طب(Medical Science)کے علوم میں جو غلطیاں اور خرابیاں کی ہیں ان کی طرف ہم بڑے شدومد کے ساتھ توجہ دلاتے ہیں تاکہ فرنگی طب کی برتری اور فوقیت کا تصور اور احساس کمتری(Inferiority Complex)ختم ہوجائے۔ طرہ یہ ہے کہ ہم ہر قسم کے اعتراضات کے ہر گھڑی جوابات دینے کو تیار ہیں۔

Qanoon Mufrad Aza, Tibb e Sabir, Hakeem Sabir Multani, Health, قانون مفرد اعضاء, حکیم صابر ملتانی, طب و صحت, طب صابر,

Leave a Reply