بیوی دکھاؤ، پیسے کماؤ سوشل میڈیا کی ہیرا منڈی

بیوی دکھاؤ، پیسے کماؤ سوشل میڈیا کی ہیرا منڈی

 تحریر: مولانا سید عبدالوہاب شاہ شیرازی

ہیرا منڈی ختم نہیں ہوئی، بلکہ زمانے کی تبدیلی کے ساتھ اس میں بھی جدت آگئی ہے۔ ہیرا منڈی میں کیا ہوتا تھا؟ کوئی عورت اپنی بیٹی، یا کسی کی بیٹی کو نچوا کر پیسے کماتی تھی۔ پیسے والے لوگ عیاشی کر کے گفٹنگ کرتے تھے پیسے اچھالتے تھے۔ آج یہ کام سوشل میڈیا یوٹیوب، ٹک ٹاک کے ذریعے کیا جاتا ہے، بس فرق اتنا ہے کہ ہیرا منڈی میں بظاہر ڈیل کرنے والی ایک عورت ہوتی تھی، باپ اور بھائی نظر نہیں آتے تھے۔ لیکن سوشل میڈیا پر بیغیرتی نے تمام حدود کو کراس کر دیا ہے، اب شوہر اپنی بیوی، باپ اپنی بیٹی اور بھائی اپنی بہن کو پیش کرتا ہے، پیسہ کماتا ہے، اور اس پر ماشاءاللّٰہ بھی کہتا ہے۔ فیملی ولاگرز ہمارے معاشرے کا وہ ناسور ہیں جو آنے والی نسلوں کو تباہ کر رہے ہیں۔

میں نے کچھ عرصہ قبل فیس بک پر یہ پوسٹ لکھی تھی۔ میری آئی ڈی یا پیج سے تو یہ بہت زیادہ شیئر نہیں ہوئی البتہ دوسرے لوگوں نے اسے کاپی کرکے اپنے پیجز پر لگایا اور یہ پوسٹ بہت زیادہ وائرل ہوئی، ہزاروں شیئر اور لاکھوں لوگوں نے اسے پڑھا اور لائیک کیا۔میں نے سوچا اسے ذرا تفصیل سے لکھتے ہیں تاکہ معاشرے میں پھیلنے والی اس برائی کو مزید آشکارا کیا جائے۔

نکتہ سید عبدالوہاب شیرازی

سوشل میڈیا کی ہیرا منڈی

زمانہ بدلا، لباس بدلے، انداز بدلے، لیکن ذہنیت وہی رہی۔ جسے ماضی میں ہیرا منڈی کہا جاتا تھا، آج وہی تماشہ سوشل میڈیا کے مہذب نقاب میں جاری ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ کل کی ہیرا منڈی میں بدنامی سے بچنے کے لیے ماں، باپ اور بھائی پس پردہ رہتے تھے؛ آج یہ “فیملی ولاگرز” فخر سے سب کچھ کیمرے کے سامنے کر رہے ہیں۔کبھی ہیرا منڈی شہر کی شرمناک حقیقت ہوا کرتی تھی۔ آج وہی بازار، وہی تماشہ، وہی ذہنیت سوشل میڈیا پر اپنی پوری بے حیائی کے ساتھ جلوہ گر ہے، اور بدقسمتی یہ کہ اب اس کا انتظام خود “باپ، بھائی اور شوہر” سنبھال رہے ہیں۔جہاں پہلے طوائفوں کی نمائش ہوا کرتی تھی، آج وہاں “فیملی ولاگرز” بیوی کے میک اپ، بیٹی کے ڈانس، اور بہن کی سالگرہ کو “کانٹینٹ” بنا کر پیش کر رہے ہیں۔ وہی بے حیائی، بس اب “ماشاءاللّٰہ” کے کور میں لپٹی ہوئی ہے۔

 ہیرا منڈی کی پرانی کہانی

لاہور، دہلی، لکھنؤ سمیت برصغیر کے بڑے شہروں میں ایسی جگہیں موجود تھیں جہاں لڑکیاں رقص کرتیں، لوگ نوٹ نچھاور کرتے، اور پیچھے کوئی ماں یا دلالی کرنے والی عورت کمائی کا حساب رکھتی۔ ان بازاروں کو “بدکاری کے اڈے” کہا جاتا تھا، اور معاشرہ انہیں نفرت کی نگاہ سے دیکھتا تھا۔باپ اور بھائی کہیں پردے میں ہوتے تھے۔ وہاں کم از کم اتنی شرم ضرور باقی تھی کہ مرد خود اپنی بہن، بیٹی یا بیوی کو پیش نہیں کرتا تھا۔

آج کی نئی ہیرا منڈی: یوٹیوب، ٹک ٹاک، انسٹاگرام

اب تماشہ اور تماش بین، دونوں آن لائن ہو چکے ہیں۔ “بیوی نخرے دکھا رہی ہے”، “شوہر بیوی کو کھانا کھلا رہا ہے”، “بیٹی کا پہلا میک اپ”، “بہن کی شادی کی تیاری”  اور ان سب ویڈیوز میں ایک جیسے تھمب نیلز: بیوی کی مسکراہٹ، بیٹی کی قمیص، اور کیمرے کی چالاکی۔یہ وہی عریانی ہے، صرف پردۂ تہذیب اوڑھ کر۔ اب ماں بیٹی کو نہیں نچوا رہی، شوہر خود بیوی کو سجا کر، کھلا کر، رلوا کر پیش کر رہا ہے۔آج کے “ولاگرز” یوٹیوب، ٹک ٹاک، اور انسٹاگرام پر اپنی بیوی، بچوں اور نجی زندگی کو کیمرے کے سامنے پیش کر رہے ہیں۔ “بیوی سے مذاق”, “بیوی کی پہلی ساڑھی”, “بیٹی کا پہلا میک اپ”, “گھر میں شوہر کا غصہ”  یہ سب کچھ سکرین پر ہوتا ہے، اور لاکھوں لوگ اسے دیکھتے، انجوائے کرتے اور پیسے کمانے کا ذریعہ بنا دیتے ہیں۔

بے حیائی کے بدلے ڈالر

ہر ویڈیو کے نیچے لاکھوں ویوز، ہزاروں کمنٹس، اور سُپر چیٹس کی بھرمار۔ یوٹیوب کی تنخواہ، ٹک ٹاک کی گفٹس، برانڈز کے اسپانسر  سب کچھ اس “پیش کش” پر مبنی ہے کہ “ہم اپنی بیوی، بیٹی، بہن کو تمہارے دیکھنے کے لیے لائے ہیں”۔ اور پھر اس پر فخریہ جملے: “ماشاءاللّٰہ، ہماری فیملی بہت مشہور ہو گئی ہے”۔یہ سب کچھ اب صرف تفریح یا یادگار لمحے محفوظ کرنے کے لیے نہیں ہوتا، بلکہ مکمل کاروبار ہے۔ اس “عریانی” کے بدلے ڈالر ملتے ہیں، برانڈ ڈیلز آتی ہیں، اور لوگ خوشی سے کہتے ہیں:”الحمدللہ ہماری ویڈیوز وائرل ہو رہی ہیں!۔

اسلام کا مؤقف:

اسلام نے عورت کو ستر قرار دیا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

“المرأة عورة، فإذا خرجت استشرفها الشيطان”(ترمذی: 1173)

“عورت پردے کی چیز ہے، جب وہ باہر نکلتی ہے تو شیطان اسے جھانکتا ہے”

اور فرمایا:

“من سنّ في الإسلام سنة سيئة فعليه وزرها ووزر من عمل بها”(مسلم: 1017)

“جس نے اسلام میں بُری روایت قائم کی، اس پر اس کا گناہ اور جو اس پر عمل کرے اس سب کا گناہ ہوگا”

قرآن مجید میں صاف حکم ہے:

“وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنٰی ۖ إِنَّهُ كَانَ فَاحِشَةً وَسَاءَ سَبِيلًا”(بنی اسرائیل: 32)

“زنا کے قریب بھی نہ جاؤ، بے شک وہ بے حیائی ہے اور بہت بُرا راستہ ہے”

یہاں “قریب نہ جاؤ” کے حکم میں نظر، بات، اشارہ، عکس، لباس، اور رویے سب آ جاتے ہیں۔

خاندانی نظام کی تباہی

جو اولاد یہ سب بچپن سے دیکھے گی، کل وہ کیا سوچے گی؟ عزت، غیرت، شرم، حیاء یہ الفاظ صرف کتابوں تک رہ جائیں گے۔ باپ جو بیوی کو سوشل میڈیا پر بیچ کر پیسہ کمائے، وہ بیٹی کے کردار پر کیسے غیرت کرے گا؟جو بچہ روز دیکھتا ہے کہ ماں باپ اپنی نجی زندگی کو دوسروں کے لیے نمائش بنا رہے ہیں، اس کے لیے شرم، حیاء اور غیرت جیسے الفاظ بے معنی ہو جاتے ہیں۔ وہ کل کو اسی کلچر کو “نارمل” سمجھے گا۔

ذمہ دار کون ہے؟

وہ ناظرین جو ان ویڈیوز کو دیکھتے اور پسند کرتے ہیں، وہ اس بازار کے خاموش خریدار ہیں۔وہ  پلیٹ فارمز جنہوں نے اخلاق سے گرے مواد کو “ٹرینڈنگ” میں ڈالا ہوا ہے۔ وہ  علماء و مفکرین جو اگرچہ حق بولتے ہیں، مگر اس مسئلے پر منظم آواز نہیں اٹھا رہے۔ ہمیں کیا کرنا ہے؟ بطور ناظر ان ولاگز کو فالو اور پروموٹ کرنا بند کریں۔ بطور سوشل میڈیا صارف اپنی فیملی کی عزت کو “کانٹینٹ” نہ بنائیں۔بطور دینی و سماجی رہنما اس فتنے کے خلاف اجتماعی آواز بلند کریں۔

 ابھی وقت ہے

اگر ہم نے اب بھی خاموشی اختیار کی، تو وہ وقت دور نہیں جب غیرت، عزت، شرم اور حیاء جیسی قدریں صرف پرانی کتابوں میں پائی جائیں گی۔ وقت ہے کہ سوشل میڈیا کی اس “ہیرا منڈی” کے خلاف باقاعدہ تحریک چلائی جائے۔ فیملی ولاگز اور بیوی کو دکھا کر پیسہ کمانے کی لعنت ہمارے معاشرے کے لیے ایک خاموش زہر ہے۔ ہمیں اس کے خلاف آواز بلند کرنا ہوگی، اپنی فیملی کو اس دلدل سے نکالنا ہوگا، اور نوجوانوں کو احساس دلانا ہوگا کہ عزت پیسوں سے نہیں، حیاء سے بنتی ہے۔

Related posts

Leave a ReplyCancel reply