ایران کی خطے میں تنہائی: خود ساختہ پالیسیوں کا نتیجہ
سید عبدالوہاب شاہ
ایران کی تنہائی کے اسباب
ایران کی پراکسی پالیسی: ایک مسلسل مداخلت
ایران نے گذشتہ چار دہائیوں سے اپنی خارجہ پالیسی کا محور “پراکسی جنگ” کو بنایا ہے۔ اس پالیسی کے تحت پاکستان میں شیعہ تنظیموں کی پشت پناہی کی گئی۔ افغانستان میں طالبان کے مقابلے میں ہزارہ گروپس کو سہارا دیا۔ عراق میں ایرانی حمایت یافتہ شیعہ ملیشیاؤں نے سنی آبادی پر دباؤ ڈالا۔ یمن میں حوثی باغیوں کو اسلحہ اور مالی معاونت دی گئی۔ شام میں بشار الاسد کی حکومت کو شیعہ عقیدے کی بنیاد پر مکمل عسکری و سیاسی مدد دی گئی۔ لبنان میں حزب اللہ جیسی طاقتور عسکری تنظیم کو پروان چڑھایا گیا۔ یہ تمام سرگرمیاں ایران کی فرقہ وارانہ اور نظریاتی توسیع پسندی کی نشاندہی کرتی ہیں۔
ایران خود تنہا ہو گیا
ان پالیسیوں کے نقصانات خود ایران کو بھگتنے پڑے، مسلم دنیا کا بڑا حصہ، خصوصاً سعودیہ، ترکی، پاکستان، مصر، اردن وغیرہ، ایران سے بدظن ہو گئے۔ عرب ریاستیں ایران کو ایک خطرناک انقلابی ریاست سمجھنے لگیں، جو شیعی انقلاب کو برآمد کرنا چاہتی ہے۔ او آئی سی جیسے پلیٹ فارمز پر ایران اکثر تنہا دکھائی دیتا ہے۔ خلیجی ممالک نے اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کر لیے، جس کا ایک سبب ایران کا خوف بھی تھا۔
پڑوسیوں سے تعلقات: موقع ضائع کر دیا
ایران نے پاکستان جیسے برادر اسلامی ملک کے ساتھ قریبی تعلقات قائم کرنے کے بجائے، فرقہ واریت اور سرحدی تنازعات کو ہوا دی۔ افغانستان سے دیرینہ لسانی اور مذہبی رنجشیں پالیں، حالانکہ ثقافتی و جغرافیائی قربت تھی۔ آذربائیجان آرمینیا جنگ میں آذربائیجان جو مسلم ملک کے اس کے بجائے آرمینیا غیرمسلم کا ساتھ دیا۔ آذربائیجان، ترکمانستان، اور ترکی جیسے ممالک سے بھی مشتبہ تعلقات رکھے۔ اگر ایران اپنے پڑوسیوں سے برابری، احترام اور عدم مداخلت پر مبنی پالیسی اپناتا تو آج یہ ممالک ایران کے ساتھ کھڑے ہوتے، مگر اس نے انہیں نظریاتی برتری کی جنگ میں جھونک دیا۔
داخلی استحکام کو قربان کیا گیا
ایران نے اربوں ڈالر اپنی پراکسیز پر خرچ کیے،جبکہ اس کے اپنے عوام مہنگائی، بیروزگاری، سیاسی دباؤ، اور عالمی پابندیوں کا شکار ہیں۔ ایران اگر یہ سرمایہ تعلیم، صحت، سائنس و ٹیکنالوجی، اور عوامی بہبود پر لگاتا، تو آج نہ صرف ایک مضبوط اندرونی ریاست ہوتا بلکہ دنیا کے لیے ایک قابلِ احترام طاقت بھی ہوتا۔ اب جب ایران پر اسرائیل کے حملے ہو رہے ہیں، تو کوئی مسلم ملک کھل کر ایران کی حمایت نہیں کر رہا۔ عوامی سطح پر ہمدردیاں تو ہیں، مگر ریاستی سطح پر ایران تنہا ہے۔ یہاں تک کہ روس اور چین جیسے اتحادی بھی مشروط خاموش حمایت سے آگے نہیں بڑھ رہے۔
ایران کے لیے اب بھی وقت ہے کہ فرقہ وارانہ پالیسیوں سے توبہ کرے۔ مسلم دنیا سے برابری اور احترام کے ساتھ تعلقات قائم کرے۔ پراکسی جنگوں کو ختم کرے اور سیاسی و معاشی ترقی کو ترجیح دے۔ اقوام متحدہ اور او آئی سی کے پلیٹ فارمز پر مفاہمتی کردار اپنائے۔ ایران آج جن مشکلات کا شکار ہے، وہ بڑی حد تک اس کی اپنی نظریاتی اور پراکسی پالیسیوں کا نتیجہ ہیں۔ اگر ایران نے اسلامی اخوت، ہمسائیگی کے حقوق اور بین الاقوامی اصولوں کا لحاظ رکھا ہوتا تو آج دنیا کی بڑی طاقتوں میں شمار ہوتا، اور آج جب اس پر جنگ مسلط ہوئی ہے، تو اس کے پاس دوستوں کی کمی نہ ہوتی۔
ایران کی تاریخ سے افغانستان کے لیے اہم سبق
وہ کام جو افغانستان کو نہیں کرنے چاہئیں (سبق عبرت)
طاقت کا ارتکاز صرف ایک شخصیت میں مت کریں
ایران میں “ولی فقیہ” (سپریم لیڈر) تمام طاقت کا مرکز ہے: فوج، عدلیہ، پارلیمان، وزارت خارجہ — سب اسی کے تابع ہیں۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جمہوری ادارے صرف برائے نام رہ گئے، اور سیاسی تنوع ختم ہو گیا۔ افغانستان میں اگر “امیر المومنین” کے ساتھ بھی ایک بااختیار، شفاف اور مشاورتی ادارہ قائم نہ کیا گیا تو تاریخ دہرائی جائے گی، اور نظام آمرانہ بن جائے گا۔ موجودہ امیرالمومنین بلاشبہ نیک متقی انسان ہیں لیکن مستقبل میں کون اس سیٹ پر بیٹھ جائے کچھ معلوم نہیں چنانچہ وہ آمرانہ اختیارات کا استعمال کرکے کچھ بھی کر سکتا ہے۔
نظریاتی سختی اور جبر سے ریاست مضبوط نہیں بنتی
ایران نے نظریاتی شدت پسندی، مخالف مکاتب فکر کی سرکوبی، اور آزادی رائے کو دبا کر داخلی مسائل پیدا کیے۔مذہب کی آڑ میں ہر مخالفت کو “کفر” یا “فساد” قرار دیا گیا، جس سے عوام میں بغاوت پیدا ہوئی۔اور ایسے لوگ ہی اسرائیل، امریکا کے لیے جاسوسی کرنے لگ گئے۔ طالبان کو چاہیے کہ وہ مذہب کو اخلاقی رہنمائی کے لیے استعمال کریں، نہ کہ جبر کے لیے۔ عوام کی رائے، مشورہ، اور سوالات کو دبانے سے فساد اور بغاوت جنم لیتی ہے۔
پراکسی اور خارجہ مداخلت سے گریز
ایران نے دوسرے ممالک میں “شیعہ پراکسیز” کے ذریعے اپنے اثر و رسوخ کو بڑھانا چاہا، جس سے خطہ بدامنی کا شکار ہوا۔ آج ایران پر الزامات ہیں کہ وہ دوسرے ممالک کی خودمختاری میں مداخلت کرتا ہے۔ افغانستان کو چاہیے کہ وہ اپنے نظریات دوسروں پر مسلط نہ کرے، نہ دوسرے ممالک میں سیاسی/مذہبی مداخلت کرے، بلکہ خود کو ایک پرامن ریاست کے طور پر پیش کرے۔
اقلیتوں اور خواتین کو نظرانداز نہ کرو
ایران میں اقلیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک کیا گیا۔ جس سے ملک میں اندرونی انتشار، بیرونی دباؤ، اور عالمی تنقید میں اضافہ۔ افغانستان کو شرعی حدود میں رہتے ہوئے خواتین کے حقوق اور تعلیم، اقلیتوں کے حقوق، اور نوجوانوں کو موقع دینا ہو گا۔
وہ کام جو افغانستان کو کرنا چاہئیں (مثبت سبق):
خود احتسابی اور شورائیت کا فروغ
ایران نے ولی فقیہ کو تنقید سے بالاتر رکھا، جس سے غلطیاں دہرائی جاتی رہیں ۔اور اصلاح پیچھے چلی گئی۔ افغانستان کو چاہیے کہ امیر یا قیادت کے ساتھ ایک فعال مجلسِ شوریٰ یا پارلیمان ہو، جہاں فیصلے مشورے سے ہوں، اور ہر ادارہ جوابدہ ہو۔
معیشت اور تعلیم کو اولیت دیں
ایران نے معیشت پر توجہ کے بجائے عسکری وسعت اور مذہبی نظریاتی پھیلاؤ پر اندرون و بیرون ملک بھاری سرمایہ خرچ کیا۔عوام کی فلاح پسِ پشت چلی گئی، نتیجہ مہنگائی، بیروزگاری، کرپشن۔اور پھر یہ بیروزگاری، کرپشن نے اپنے ہی شہریوں کو اسرائیل، امریکا کا ایجنٹ بنا دیا اوروہ جاسوسی کرنے لگے۔ طالبان حکومت اگر واقعی استحکام چاہتی ہے تو اسے معاشی ترقی، تعلیم، زراعت اور صنعت کو ترجیح دینی ہوگی۔اور ایران کی طرح مذہبی پراکسی کے راستے پر چلنے سے اجتناب کرنا ہوگا۔
خواتین اور نوجوانوں کی تعلیم پر توجہ دیں، بالخصوص خواتین کی تعلیم، کیونکہ ایک مرد کی تعلیم ایک فرد کی تعلیم ہوتی ہے اور ایک عورت کی تعلیم پورے خاندان کی تعلیم ہوتی ہے۔ جس گھر میں مرد پڑھا لکھا ہو اور عورت ان پڑھ ہو تو اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں ہوتی کہ بچے پڑھ سکیں گے یا نہیں، لیکن جس گھر میں عورت پڑھی لکھی ہو وہاں اولاد لازما تعلیم یافتہ ہوتی ہے۔
عالمی تنہائی سے بچنے کی کوشش کریں
ایران نےنا صرف امریکہ اور مغرب سے شدید تصادم کی پالیسی اپنائی،بلکہ پڑوسی ممالک سے بھی دشمنی مول لی۔ جس کا نتیجہ عالمی تنہائی، پابندیاں، اور معاشی زوال کی صورت میں نکلا۔ افغانستان کو چاہیے کہ وہ غیر جانبدار، سفارتی اور متوازن خارجہ پالیسی اپنائے۔ تمام ہمسایہ ممالک سے اچھے تعلقات رکھے، اور عالمی اداروں سے تعلقات بنائے۔
نوجوانوں کو ساتھ لے کر چلیں
ایران کی نئی نسل حکومت سے بیزار ہے کیونکہ ان کے نظریات اور ضروریات کو نہیں سنا گیا۔ طالبان کو چاہیے کہ وہ نوجوانوں کی تعلیم، ٹیکنالوجی، ترقی، اور عالمی رابطے کی خواہشات کو سمجھے اور ان کا مثبت استعمال کرے۔
خلاصہ کلام یہ کہ: ایران کی تاریخ افغانستان کے لیے ایک آئینہ ہے۔ اگر طالبان حکومت وہی راستہ اپنائے گی تو وہی انجام بھی پائے گی: عوام کی بے زاری، عالمی تنہائی، اندرونی بغاوت، اور معاشی تباہی۔ لیکن اگر افغانستان نے:مشورے، تحمل، عدم مداخلت، تعلیم، معیشت اور ہمسائیگی پر مبنی پالیسی اپنائی، اور قیادت کو خادم بنایا، حکمران نہیں، تو افغانستان ایک نیا، خودمختار، باوقار اسلامی ماڈل بن کر دنیا میں نمایاں ہو سکتا ہے۔