اسلام آباد سی ڈی اے کا محکمہ ختم کر دیا گیا۔

اسلام آباد سی ڈی اے کا محکمہ ختم کر دیا گیا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کا بڑا فیصلہ: سی ڈی اے کی تحلیل اور بلدیاتی اختیارات کی واپسی

اسلام آباد:

اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایک تاریخی فیصلے میں کیپیٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) کو تحلیل کرنے اور اس کے تمام اختیارات و اثاثہ جات میٹروپولیٹن کارپوریشن اسلام آباد (ایم سی آئی) کو منتقل کرنے کا حکم جاری کر دیا ہے۔

یہ فیصلہ جسٹس محسن اختر کیانی نے ہفتے کے روز تفصیلی تحریری فیصلے میں جاری کیا، جس میں واضح کیا گیا ہے کہ سی ڈی اے کا وجود اب قانونی، انتظامی اور آئینی طور پر غیر ضروری ہو چکا ہے کیونکہ اسلام آباد میں بلدیاتی نظام اسلام آباد لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2015 کے تحت فعال ہو چکا ہے۔

سی ڈی اے کا کردار ختم، اختیارات ایم سی آئی کو منتقل ہوں گے

عدالت نے کہا کہ سی ڈی اے کا قیام ایک عبوری ضرورت کے تحت 1960 میں ہوا تھا تاکہ دارالحکومت کی منصوبہ بندی، آبادکاری اور ترقیاتی ڈھانچہ قائم کیا جا سکے، لیکن اب جب کہ دارالحکومت ایک مکمل شہری شکل اختیار کر چکا ہے، اس کے انتظامی اور بلدیاتی امور کا اختیار منتخب بلدیاتی نمائندوں کو ملنا چاہیے۔

فیصلے میں لکھا گیا:

“اسلام آباد کا نظام اب منتخب بلدیاتی حکومت کے سپرد کیا جائے تاکہ عوامی نمائندگی کے تحت شفاف اور جواب دہ طرزِ حکمرانی ممکن ہو۔”

ٹیکسز کا غیر قانونی نفاذ بھی کالعدم

عدالت نے جون 2015 کے اس نوٹیفکیشن کو بھی کالعدم قرار دے دیا جس کی بنیاد پر سی ڈی اے نے پیٹرول پمپ، سی این جی اسٹیشنز، اور ہاؤسنگ سوسائٹیوں سے رائٹ آف وے (Right of Way) اور ڈائریکٹ ایکسس چارجز وصول کیے تھے۔

عدالت نے اس اقدام کو غیر قانونی اور بلا اختیار قرار دیتے ہوئے کہا کہ:

“سی ڈی اے کے پاس نہ کوئی آئینی اختیار تھا اور نہ ہی کوئی قانونی جواز کہ وہ ایسے چارجز عائد کرے۔”

مزید یہ کہ عدالت نے حکم دیا کہ سی ڈی اے ان چارجز کے تحت جو بھی رقم افراد یا اداروں سے وصول کر چکا ہے، وہ واپس کی جائے۔

حکومت کو سی ڈی اے ختم کرنے کے لیے اقدامات کا حکم

فیصلے میں وفاقی حکومت کو ہدایت کی گئی کہ وہ سی ڈی اے کو ختم کرنے اور اس کے تمام امور ایم سی آئی کے حوالے کرنے کے لیے مناسب قانونی اور انتظامی اقدامات کرے۔

عدالت نے یہ بھی واضح کیا کہ بلدیاتی حکومت کے بغیر ٹیکس کا نفاذ غیر آئینی ہے اور ہر شہری کو مقامی نمائندگی کے تحت شفاف اور جواب دہ نظام تک رسائی حاصل ہونی چاہیے۔

پس منظر: سی ڈی اے کا قیام اور ارتقاء

یاد رہے کہ سی ڈی اے کا قیام 14 جون 1960 کو ہوا تھا، اور اس کا بنیادی مقصد اسلام آباد کے ماسٹر پلان کے تحت آبادکاری، زمین کی تقسیم، ترقیاتی منصوبہ بندی اور دیگر انتظامی معاملات کی نگرانی تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ سی ڈی اے کو صفائی، پانی، سڑکوں کی مرمت جیسے بلدیاتی امور بھی تفویض کر دیے گئے، جو کہ 2015 میں ایم سی آئی کو منتقل کر دیے گئے تھے، مگر اختیارات کی مکمل منتقلی کبھی مؤثر طریقے سے نہ ہو سکی۔

نکتہ نظر (ادارتی تبصرہ):

یہ فیصلہ پاکستان کے آئینی، بلدیاتی اور شہری حقوق کے تناظر میں ایک انقلابی قدم ثابت ہو سکتا ہے۔ اگر واقعی سی ڈی اے تحلیل کر دی جاتی ہے اور اختیارات منتخب نمائندوں کو منتقل ہوتے ہیں تو یہ نہ صرف مقامی حکومت کی بالادستی کو مضبوط کرے گا بلکہ وفاقی دارالحکومت کے شہریوں کو براہِ راست جواب دہ اور شفاف حکمرانی کا حق بھی دے گا۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ آیا حکومت اس عدالتی فیصلے پر کس قدر سنجیدگی اور دیانتداری سے عمل کرتی ہے، یا ہمیشہ کی طرح فائلیں پھر کسی دراز میں بند ہو کر ماضی کا قصہ بن جائیں گی۔

سی ڈی اے ختم ہونے کے ممکنہ فوائد

1. منتخب نمائندوں کو اختیار ملے گا

عوام کے ووٹ سے آنے والے بلدیاتی نمائندے فیصلے کریں گے، جس سے شفافیت، جواب دہی اور جمہوری عمل کو تقویت ملے گی۔

2. بلدیاتی نظام مضبوط ہو گا

ایم سی آئی ایک آئینی ادارہ ہے جس کے ذریعے صفائی، پانی، سڑکوں کی مرمت جیسے کام مؤثر انداز میں چل سکتے ہیں۔

3. اختیارات کا ارتکاز ختم ہو گا

سی ڈی اے ایک طاقتور، غیر منتخب ادارہ تھا؛ اس کے ختم ہونے سے طاقت کی غیر فطری مرکزیت ختم ہو گی۔

4. غیر قانونی ٹیکسوں کا خاتمہ

عدالت نے رائٹ آف وے اور ڈائریکٹ ایکسس جیسے چارجز کو غیر قانونی قرار دیا، جن کا بوجھ عوام پر تھا۔

5. عوامی خدمات میں بہتری کی توقع

بلدیاتی نمائندے عوامی مسائل سے قریب تر ہوتے ہیں، اس لیے وہ عملی اقدامات زیادہ بہتر انداز میں کر سکتے ہیں۔

6. شفاف مالیاتی نظام

ایم سی آئی کے ذریعے اخراجات اور آمدن کا آڈٹ زیادہ آسان ہو گا، جبکہ سی ڈی اے کے مالی معاملات اکثر مبہم رہتے تھے۔

Related posts

Leave a ReplyCancel reply