ائمہ مساجد کی پرسان حالی

0
297
حامد حسن
حامد حسن

ائمہ مساجد کی پرسان حالی

ایک مفتی صاحب ہیں لاہور کی ایک پوش سوسائٹی میں امام مسجد اور مدرس ہیں، یہ مسجد انتہائی لگزری اور عالیشان ہے، اس مسجد کے مقتدین میں 70 فیصد سے زیادہ لوگ امیر ترین ہیں، ہر سال حج اور چار پانچ عمرے تو کر ہی لیتے ہیں۔۔۔
اس عالیشان لگزری مسجد کے امام و خطیب مفتی صاحب پچھلے 3 سال سے یہاں خدمات سرانجام دے رہے ہیں، اس سے قبل کوئی امام مسجد ہذا میں ایک سال سے زیادہ نہیں گزار سکا، امامت، خطابت، نکاح، جنازہ، دَم، ختم،مسجد کی صفائی ستھرائی، سیکورٹی وغیرہ سب امام صاحب کے ذمہ داریوں میں شامل ہیں۔۔۔
پچھلے سال ان مفتی صاحب سے رابطہ ہوا انہوں نے اپنے معاشی حالات اور پریشانیوں کا ذکر کیا، مفتی صاحب نے بتایا کہ تنخواہ بہت کم ہے، لیکن بات سمجھ نہیں آرہی تھی کہ کیسے ہوسکتا ہے اتنی عالیشان مسجد کے امام صاحب کی اتنی قلیل تنخواہ ہو، محسوس ہوا کہ حضرت غلط بیانی کر رہے ہیں لیکن تحقیق کرنے پر معلوم ہوا کہ واقعی ان کی تنخواہ بہت قلیل ہے۔۔۔
ان مفتی صاحب سے عرض کی کہ حضرت! کمیٹی، انتظامیہ یا مقتدیوں سے گلے شکوے سے بہتر ہے آپ فارغ اوقات میں کوئی کام کریں، گھر بیٹھے آن لائن سیٹ اپ بنا لیں فجر سے ظہر، عشاء کے بعد اور دو نمازوں کے درمیانی اوقات میں کوئی نہ کوئی کام کریں اضافی آمدنی ہوگی تو آسانی ہوجائے گی۔۔۔
ان کو کمپوزنگ کا کام سیکھنے کی ترغیب دی، مفتی صاحب نے لیپ ٹاپ خریدا،انتہائی شوق اور لگن سے ایک ڈیڑھ ماہ لگا کرکمپوزنگ اور پروف ریڈنگ سیکھی۔۔۔
اردو بازار کے ایک دوست بھائی منہاس سے بات کروا کر ان کو کمپوزنگ کا کام دلایا، کمپوزنگ، پروف ریڈنگ، اور ٹرانسلیشن کا کام شروع کر دیا تو ایک دو ماہ بعد معقول آمدن آنا شروع ہوگئی۔۔۔۔
ان مفتی صاحب نے بتایا کہ کمیٹی انتظامیہ کے امیر صاحب کو کسی طرح میری شکائت ہوگئی کہ میں فارغ اوقات میں کام کرتا ہوں، امیر صاحب نے مفتی صاحب کے گھر کا جائزہ لینے کے بہانے ساتھ گھر گئے اور کمپیوٹر اور کاغذی موا دیکھ کر پوچھا کہ مفتی صاحب یہ کیا ہے؟ مفتی صاحب نے فرمایا کہ فارغ اوقات میں کتابوں کی کمپوزنگ وغیرہ کرتا ہوں۔۔۔
بس پھر کیا تھا کہ امیر صاحب کا ایک دم پارہ ہائی ہوگئے غصے سے بپھر گئے۔۔ اور مفتی صاحب کی بہت زیادہ بے عزتی کر دی۔۔۔ سخت باتیں اور ڈانٹ پلائی کہ ایک مفتی اور امام مسجد ہوکر گھر میں کمپیوٹر رکھا ہوا ہے۔۔۔ اور انٹرنیٹ بھی لگوایا ہے لاحول و ولا قوۃ الا باللہ۔۔۔ انتظامیہ اور شوریٰ کی اجازت کے بغیر کوئی اور کام کرنے کی جرائت اور ہمت کیسے ہوئی۔۔۔؟؟؟
مفتی صاحب نے صفائی دینے کی کوشش کی تو حکم صادر ہوگیا کہ اگر یہاں رہنا ہے تو یہ سب کام چھوڑنے پڑیں گے۔۔۔ اور آئندہ مسجد کی خدمت کے علاوہ دنیا کا کوئی دوسرا کام کرنے کی قطعاً اجازت نہیں اگر پتہ چلا کہ مسجد کے علاوہ بھی کوئی مصروفیت ہیں تو فوراً سے قبل مسجد سے اخراج کر دیا جائے گا۔۔۔
اطلاعاً عرض ہے کہ امیر صاحب کے اپنے بچے جو مفتی، اور عالم ہیں ان کے پاس دنیا کی ہر عیاشی موجود ہے، امیر صاحب کی کوٹھی میں کیبل، نیٹ، ڈش سب لگا ہوا ہے اور کوٹھی کے باہر جلی حروف میں “ہذامن فضل ربی” بھی لکھا ہوا ہے۔۔۔۔
———–
ہمارے معاشرے میں عمومی طور پر امام مسجد کو خدائی فوجدار کا درجہ دیا جاتا ہے، یہ طبقہ نہ خود ترقی کرے اور نہ ہی ان کی اولاد کو ترقی کرنے کا حق ہے۔۔۔
کروڑوں روپے کی مساجد، تعمیر اور آرائش پر ماہانہ لاکھوں خرچ ہوں گے مگر امام مسجد کو مختصر تنخواہ میں گزارہ کرنے کا حکم ہے۔۔۔
ہر سال نئی کارپٹ، اے سی، ہیٹر، رنگ و روغن اور آرائش پر لاکھوں لگ سکتے ہیں مگر امام مسجد کی تنخواہ میں اضافہ ممکن ہی نہیں۔۔۔
یہ حکم شاہی لکھا جا چکا ہے کہ امام مسجد جب بھی تنخواہ میں اضافے کا مطالبہ کرے اسے فوراً مسجد سے نکال دئے جانے کی دھمکی کافی ہے، کیوں کہ مسجد کے وظیفے کے علاوہ کوئی اور حل اور جگہ تو ہے نہیں لہذا یہ طبقہ اسی لائق ہے کہ اس کو دَبا کر رکھا جائے۔۔۔
اس طبقہ کو قناعت، صبر اور شکر کے فضائل سنائے جاتے ہیں، اکابرین اور بزرگانِ دین کے قصے سنا کر مطمئن کر دیا جاتا ہے، جنت میں تمام سہولیات اور اعلیٰ درجات کی تلقین اور خوشخبری سنا کر اس جہاں کی تیاری کی ترغیب دے دی جاتی ہے۔۔۔
اگر کوئی امام مسجد یا مدرس ہمت کر کے مسجد کی خدمت کے علاوہ کوئی دوسرا کام کرنے کی غلطی کر لے تو اسے بوریا بستر سمیت مسجد سے نکال دیا جاتا ہے۔۔۔ (الا قلیل)
———–
ایسے آئمہ مساجد اور مدرسین سے جو معاشی حالات کی وجہ سے پریشان ہیں تنخواہ میں کمی اور معاملات کی وجہ سے رنجیدہ ہیں ان سے گزارش ہے کہ امامت، خطابت، تدریس کے ساتھ ساتھ فارغ اوقات میں کوئی کام کریں۔۔۔
لیکن اگر مسجد انتظامیہ کمیٹی، مدرسہ مہتممین کی طرف سے تدریس، امامت خطابت کے علاوہ کوئی دوسرا کام کرنے کی اجازت نہیں ہے تو پھر کوئی دوسرا کام کبھی نہ کریں۔۔۔
دو صورتیں ہیں
اول یہ کہ قانون کی پاسداری کریں قناعت صبر شکر سے وقت گزاریں، اور انتظامیہ کمیٹی اور مدرسے کی برائیاں، غیبتیں، گلے شکوے کرنے سے گُریز کریں۔۔۔
دوسرا یہ کہ اگر گزارہ نہیں ہوتا معاشی حالات بد سے بدتر ہیں تو پھر بجائے گلے شکوے اور غیبتیں کرنے کے اپنے کام کی ترتیب بنا لیں۔۔۔
وما علينا إلا البلاغ

Leave a Reply