قسط نمبر 3 موکل، جنات قابو کرنا

0
732

موکل کیا چیز ہے۔؟

عملیات کی دنیا میں موکلات کا بھی بہت زیادہ چرچا ہے۔ بہت سارے لوگ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کے پاس یعنی ان کے قبضہ اور کنٹرول میں موکلات ہیں۔ یہاں تک کہ بعض لوگ ہزاروں موکلات کے قبضہ و کنٹرول میں ہونے کا دعویٰ بھی کرتے ہیں۔ موکل سے کیا مراد ہے؟ جب اس بات کو تلاش کرنے کی کوشش کی گئی تو پتا چلا جتنے منہ اتنی باتیں ہیں۔ بعض عاملین کا کہنا ہے موکل ہمزاد کو کہتے ہیں۔ بعض کا کہنا ہے موکل جن ہوتا ہے۔ جبکہ دیوبند مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے ایک عامل جو عالم دین بھی کہلاتے ہیں ان کا اپنی ایک ویڈیو میں کہنا ہے کہ موکل سے مراد فرشتے ہیں۔ اس بات کا مطلب یہ ہوا کہ جب یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ میرے قبضہ میں موکل ہیں تو گویا وہ یہ کہہ رہا ہوتا ہے کہ میرے قبضے میں فرشتے ہیں۔بہرحال زیادہ تر لوگوں کا خیال ہے ہمزاد یا قرین یعنی وہ جن جو ہر انسان کے ساتھ پیدا ہوتا ہے جس کا ذکر حدیث میں بھی ہے وہ موکل کہلاتا ہے، اور یہی وہ جن ہے جس کے ساتھ بعض غیرشرعی چلے کرکے رابطہ بنانے کی کوشش کی جاتی ہے اور یہ کبھی کبھی رابطے میں آ بھی جاتا ہے۔

نکتہ
نکتہ

جنات قابو کرنا

کیا جنات کو قابو کیا جاسکتا ہے یعنی مکمل طور پر اپنے کنٹرول میں کرنا کہ جو چاہیں اس سے کام لیں۔؟ تو اس سوال کا جواب یہ ہے کہ نہیں، ایسا نہیں ہوسکتا البتہ جنات سے لنک اور رابطہ تو بن جاتا ہے لیکن وہ مکمل طور پر قابو اور قبضے میں نہیں آتے۔ ویسے بھی شرعا یہ درست نہیں ہوسکتا کہ آپ جن پر قبضہ کر لیں اور جو چاہیں اس سے کام لیں، کیونکہ وہ بھی انسانوں ہی کی طرح اللہ کی ایک مکلف مخلوق ہے، جیسے کسی انسان کو غلام بنانا جائز نہیں اسی طرح کسی جن کو بھی غلام بنانا جائز نہیں ہوسکتا ۔ اس سلسلے میں کچھ تفصیل ہے جس کی وضاحت حضرت مفتی شفیع صاحب نے اپنی کتاب معارف القرآن میں کی ہے ۔ وہ فرماتے ہیں:

”خلاصہ یہ ہے کہ جنات کی تسخیر اگر کسی کے لیے بغیر قصد و عمل کے محض منجانب اللہ ہو جائے جیسا کہ سلیمان علیہ السلام اور بعض صحابہ کرام کے متعلق ثابت ہے تو وہ معجزہ یا کرامت میں داخل ہے۔ اور جو تسخیر عملیات کے ذریعہ کی جاتی ہے اس میں اگر کلمات کفریہ یا اعمال کفریہ ہوں تو کفر، اور صرف معصیت پر مشتمل ہوں تو گناہِ کبیرہ ہے، اور جن عملیات میں ایسے الفاظ استعمال کیے جائیں جن کے معنی معلوم نہیں ان کو بھی فقہاءنے اس بنا پر ناجائز کہا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ ان کلمات میں کفر و شرک یا معصیت پر مشتمل کلمات ہوں۔ قاضی بدرالدین نے ”آکام المرجان“ میں ایسے نامعلوم المعنی کلمات کے استعمال کو بھی ناجائز لکھا ہے، اور اگر یہ عمل تسخیر اسماءالہٰیہ یا آیاتِ قرآنیہ کے ذریعہ ہو اور اس میں نجاست وغیرہ کے استعمال جیسی کوئی معصیت بھی نہ ہو تو وہ اس شرط کے ساتھ جائز ہے کہ مقصود اس سے جنات کی ایذاء سے خود بچنا ،یا دوسرے مسلمانوں کو بچانا ہو یعنی دفعِ مضرت مقصود ہو، جلب منفعت مقصود نہ ہو کیونکہ اگر اس کو کسبِ مال کا پیشہ بنایا گیا تو اس لیے جائز نہیں کہ اس میں استرقاقِ حر یعنی آزاد کو اپنا غلام بنانا اور بلا حقِ شرعی اس سے بیگار لینا ہے جو حرام ہے واللہ اعلم (معارف القرآن: ۷/ ۲۶۶)۔

یہ بھی پڑھیں

قسط نمبر7 سکل اینڈ بونز

قسط نمبر8 مسلمان اور عملیات کی دنیا

قسط نمبر12 رشتہ نہ ملنے کے مسائل

جنات قابو کرنا ناممکن ہے۔

میرے خیال میں جنات کو قابو کرنا ممکن بھی نہیں کیونکہ قرآن پاک کی سورہ ص کی آیت نمبر35 میں حضرت سلیمان علیہ السلام کی ایک دعا ہے:

قال رب الغفرلی وھب لی ملکا لا ینبغی لاحد من بعدی، انک انت الوھاب

ترجمہ: حضرت سلیمان علیہ السلام نے دعا کی کہ اے میرے رب مجھے معاف فرما دے اور مجھے ایسی سلطنت عطا فرما جو میرے بعد کسی کو نہ ملے، بیشک تو بڑا ہی بخشنے والا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے ان کی اس دعا کو قبول فرمایا اور آپ کو جو کچھ عطا فرمایا جو بعد میں کسی کو نہیں دیا اس کا ذکر اسی سے اگلی آیت میں ہے:

فسخرنا لہ الریح تجری بامریہ رخاءحیث اصاب۔والشیطین کل بناءوغواص۔ وآخرین مقرنین فی الاصفاد۔ ھذا عطاونا فامنن او امسک بغیر حساب۔

تو ہم نے تابع کردیاسلیمان کے لیے ہوا کو، جو اس کے حکم سے نرمی کے ساتھ چلتی تھی، جدھر وہ پہنچنا چاہتا تھا۔اور سرکش جنوں کو بھی ہم نے اس کے تابع کر دیا ہر طرح کے معمار اور غوطہ خور۔اور بہت سے دوسرے جنوں کو جو زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں۔یہ ہماری بے حساب بخشش ہے پس احسان کرو یا روک لو۔

ان آیات سے پتا چلتا ہے تسخیر عناصر اور تسخیر جنات حضرت سلیمان علیہ السلام کی اس دعا کا نتیجہ تھا جو انہوں ان الفاظ کے ساتھ مانگی تھی کہ میرے بعد کسی کو نہ ملے۔ لہٰذا آج یہ دعویٰ کرنا کہ ہم تسخیر جنات کرلیتے ہیں جنات کو تابع کرلیتے ہیں یہ من گھڑت سی بات ہے۔ اس حوالے سے ایک روایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی ہے:

 عن ابی ہریرة عن النبی سلی اللہ علیہ وسلم قال: ان عفریتا من الجن تفلت علی البارحة او کلمة نحوھا لیقطع علی الصلاة، فامکننی اللہ منہ، فاردت ان اربطہ الی ساریة من سواری المسجد حتی تصبحوا وتنظروا الیہ کلکم، فذکرت قول اخی سلیمان: رب ھب لی ملکالاینبغی لاحد من بعد۔ قال روح فردہ خاسئا۔ (بخاری و مسلم)

 ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ گذشتہ رات ایک سرکش جن اچانک میرے پاس آیا۔ یا اسی طرح کی کوئی بات آپ نے فرمائی، وہ میری نماز میں خلل ڈالنا چاہتا تھا۔ لیکن اللہ تبارک و تعالیٰ نے مجھے اس پر قابو دے دیا اور میں نے سوچا کہ مسجد کے کسی ستون کے ساتھ اسے باندھ دوں تاکہ صبح کو تم سب بھی اسے دیکھو۔ پھر مجھے اپنے بھائی سلیمان کی یہ دعا یاد آ گئی ( اے میرے رب! مجھے ایسا ملک عطا کرنا جو میرے بعد کسی کو حاصل نہ ہو )۔ راوی حدیث روح نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شیطان کو ذلیل کر کے دھتکار دیا۔(بخاری 461۔ مسلم1209)

یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چاہتے تو اسے ستون سے باندھ سکتے تھے لیکن آپ نے بھی سلیمان علیہ السلام کی دعا کا پاس رکھا۔ لہذا آج اگر کوئی جنات کو قابوکرنے کا دعویٰ کرتا ہے تو گویا وہ یہ کہنا چاہتا ہے کہ سلیمان علیہ السلام والی حکومت مجھے بھی مل گئی ہے۔

بعض عاملین کا کہنا ہے ہم کوئی غیر شرعی عمل نہیں کرتے بلکہ جائز طریقے سے جنات کے ساتھ دوستی لگاتے ہیں اور ان سے کام لیتے ہیں۔ میرے خیال میں یہ بھی درست نہیں ہے کیونکہ جیسے ہم انسانوں میں ہر طرح کے لوگ ہوتے ہیں مثلا نیک بھی ہوتے ہیں بد بھی ہوتے ہیں۔ اللہ کے ولی اور دین کا کام کرنے والے بھی ہوتے ہیں اور گھٹیا کام کرنے والے بھی ہوتے ہیں۔ باالکل ایسے ہی جنات کا بھی معاملہ ہے ان میں نیک بھی ہوتے ہیں اور برے اور گھٹیاکام کرنے والے بھی ہوتے ہیں۔ ہم اگر انسانوں کو دیکھیں تو یہاں جو نیک اور ولی اللہ اور دین کا کام کرنے والے ہیں وہ ایسے گھٹیا کاموں میں نہیں پڑتے بلکہ وہ ایک نارمل زندگی گزارتے ہیں اللہ کے دین کا کام کرتے ہیں جیسے مثلا مفتی تقی عثمانی، مفتی رفیع عثمانی، مفتی منیب الرحمن، حاجی عبدالوہاب رحمہ اللہ وغیرہ وغیرہ ہر مسلک کے بڑے بڑے علماءجو علم میں بھی بڑے ہیں اور تقوے و دینداری میں بھی بڑے ہیں، وہ ان عملیات کے چکروں میں نہیں پڑتے۔ بالکل ایسے ہی جنات میں سے بھی جو نیک ہوتے ہیں وہ ان چکروں میں نہیں پڑتے ۔ اب لامحالہ انسانوں میں بھی چھوٹی سوچ، گھٹیا اور لالچی ذہن رکھنے والے اس کام میں پڑتے ہیں اور اُدھر سے جنات میں بھی گھٹیا اور شیطانی ذہن رکھنے والے جن ہی ان چکروں میں پڑتے ہیں، چنانچہ ان کا آپس میں رابطہ ہو جاتا ہے اور پھر یہ کچھ اس کی مانتے ہیں اور کچھ اپنی منواتے ہیں اور کام کرتے ہیں۔

اہم سوال اور اس کا جواب

یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر جنات تابع اور قابو نہیں ہوتے تو پھر کچھ عامل جادوگر لوگوں کی بعض باتیں کیسے بتا دیتے ہیں، مثلا کسی کو اس کا نام بغیر پوچھے بتا دیتے ہیں یا کچھ اور باتیں بتا دیتے ہیں۔؟

اس کا جواب یہ ہے کہ انسان کا ہمزاد یعنی وہ جن جو ہر انسان کے ساتھ ہوتا ہے اس کے ساتھ لنک پیدا کرنے کے لیے بعض چلے کیے جاتے ہیں بعض ایسی عملیات ہیں جن کے ذریعے بعض اوقات ہمزاد سے لنک قائم ہوجاتا ہے۔اور پھر اس ہمزاد کے ذریعے کچھ باتیں ادھوری سی معلوم کی جاتی ہیں، اور لوگوں کو بتائی جاتی ہیں۔ جنات کے ساتھ اس طرح کا لنک پیدا کرنے اور دوستی لگانے کے لیے کچھ ایسے کام کیے جاتے ہیں جن کی شریعت میں گنجائش نہیں بلکہ بعض اوقات کفر بھی کرنا پڑتا ہے تب جاکر وہ شیطان جن خوش ہوتا ہے اور کچھ لنک قائم کرلیتا ہے۔ خاص طور پر دو کام کرنے پڑتے ہیں، ایک انسانیت کی تذلیل، دوسرا دین کی توہین۔ یہ دو کام کرنے کے بعد ہی شیطان جن کے ساتھ دوستی کا تعلق پیدا ہوتا ہے، اور پھر اس سے کام لینے کے لیے باربار ایسے کام کرنے پڑتے ہیں۔ یہاں ایک اور اہم سوال پیدا ہوتا ہے شیطان انسانیت کی تذلیل کیوں کروانا چاہتا ہے؟ تو دراصل بات یہ ہے کہ انسان اور شیطان کا جھگڑا شروع ہی اس بات سے ہوا تھا کہ اللہ نے فرمایا: ولقد کرمنا بنی آدم۔ ہم نے بنی آدم کو فضیلت بخشی ہے، تو شیطان نے اس بات کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا اور کہا میں افضل ہوں کیونکہ انسان مٹی سے اور میں آگ سے بنا ہوں۔ چنانچہ آج بھی جو لوگ شیطان جن سے دوستی لگانا چاہتے ہیں وہ اس وقت تک دوستی کا تعلق نہیں پیدا کرسکتے جب تک اپنے آپ کو ذلیل نہ کریں۔ چنانچہ یہ عملیات سیکھنے اور اس میں مہارت پیدا کرنے اور جادوگر بننے کے لیے ناپاک رہنا پڑتا ہے۔ پاخانے اور گندگی میں رہنا پڑتا ہے۔

 مجھے خود کراچی سے ایک خاتون کا وائس میسج آیا اور اس نے کہا میں اچھے گھرانے کی عورت ہوں لیکن میری شادی ایک ایسے شخص سے ہوئی ہے جو گٹر کا ڈھکن کھول کر گٹر کے اندر چلاجاتا ہے اور کئی کئی گھنٹے گٹر میں بیٹھا رہتا ہے، کبھی کمرے کی لائٹیں بند کرکے موم بتیاں جلاکر کئی کئی گھنٹے بیٹھا رہتا ہے۔سعودی پولیس نے کسی کی شکایت پر ایک گھر پر چھاپہ مارا تو وہاں دیکھا ایک شخص پاخانے کے ڈھیر میں لیٹا ہوا ہے۔ غسل خانے میں نہانے کا جو ٹب ہوتا ہے پہلے کئی دن تک وہ اس میں پاخانہ جمع کرتا رہا اور پھر اس میں لیٹ کر چلہ شروع کردیا۔ یہ سب کچھ شیطان جن اس لیے کرواتا ہے تاکہ انسان گندگی میں لیٹ کر اپنے آپ کو ذلیل کرے۔

 عملیات اور جادو سیکھنے والے اپنے کورس کے دوران دوسرا بڑا کام دین اور قران کی توہین کا کرتے ہیں۔ نعوذبااللہ قرآن کو جوتا بنا کر پہنتے ہیں، گندگی میں پھینکتے ہیں، اپنی کسی محرم عورت مثلاماں،بہن یا بیٹی کے ساتھ زنا کرتے ہیں، تب جاکرشیطان جن دوستی کا تعلق قائم کرتا ہے۔

شیطان کے نام پر انسانی جان کی قربانی

 اسی طرح یہ چیزیں سیکھنے اور جنات سے دوستی لگانے کے لیے تیسرا بڑا کام شیطان کے نام پر انسانی جان کی قربانی پیش کرنا ہوتی ہے۔ اس مقصد کے لیے کسی نابالغ بچے یا بچی کے ساتھ جنسی زیادتی کرکے اس کا گلا دبا کر اسے قتل کرنا ہوتا ہے۔ چنانچہ ہمارے معاشرے میں آئے روز اس قسم کے واقعات رونما ہوتے ہیں کہ کوئی بچہ یا بچی اغواءہوجاتی ہے پھر کچھ دنوں کے بعد اس کی لاش ملتی ہے، معائنہ اور پوسٹ مارٹم کرنے پر پتا چلتا ہے پہلے اس کے ساتھ جنسی زیادتی کی گئی تھی اور پھر گلا دبا کر ماردیا گیا۔ حالانکہ ہمارے ملک میں بڑی عمر کی خواتین کے ساتھ بھی زبردستی جنسی زیادتی کے واقعات بھی ہوتے ہیں لیکن وہاں قتل نہیں ہوتا ۔ ہم یہ سنتے رہتے ہیں کہ فلاں علاقے میں دو بندوں نے فلاں عورت کے ساتھ زبردستی زیادتی اور فرار ہوگئے۔ جبکہ نابالغ بچے بچی کے ساتھ زیادتی کا جو بھی واقعہ ہوتا ہے اس میں گلا دبا کر مار دیا جاتا ہے، حالانکہ اگر محض زیادتی مقصود ہوتی تو زیادتی کرنے کے بعد فرار ہوجاتے لیکن یہاں ایسا نہیں ہوتا کیونکہ یہاں گلادبا کرمارنا ضروری شرط ہوتی ہے۔

جنات سے کام لینا

 پہلی بات تو یہ کہ ایسا ممکن نہیں، اگر ممکن ہوتا تو یہ عاملین اور جادوگر ملکوں کے وزیراعظم اور صدور کو اتار کر خود تختہ حکومت پر بیٹھ جاتے، جب دل کرتا جن کو حکم کرتے آرمی چیف اور چیف جسٹس کو غائب کردیتے، بنگالی اور ہندوستانی اب تک جنوں کے ذریعے پاکستان کو تہس نہس کرکے رکھ دیتے۔ یا افغان طالبان جو بلاشبہ اس دور کے ولی اللہ ہیں ان کو بیس سال امریکا کے ساتھ جنگ نہ کرنی پڑتی اوروہ نیک جنوں کو حکم کرتے اور امریکا کی اینٹ سے اینٹ بجا دیتے۔

اس راستے پر چلنا شرعا جائزبھی نہیں ہوسکتا کیونکہ اگر ہم سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور سیرت صحابہ کو دیکھیں تو ہمیں وہاں بھی ہمیں ایسا کچھ نظر نہیں آتا، مکہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ نے کتنی تکلیفیں اٹھائی لیکن کبھی جنوں سے کام نہیں لیا، بڑی بڑی جنگیں لڑی، زخم کھائے شکست ہوئی فتح ہوئی، شہادت ملی قیمتی جانیں قربان ہوئیں،ایک ایک فتنے کو ختم کرنے کے لیے چالیس چالیس ہزار صحابہ نے قیمتی جانیں قربان کردیں لیکن کبھی کسی جن کو نہیں کہا کہ تم اس فتنے کو ختم کردو۔ غزوہ خندق کے موقع پر پیٹ پر پتھر تو باندھ دیے لیکن جنوں سے یہ کام نہیں لیا کہ ہم جنگ میں مصروف ہیں چلو تم اتنا کام ہی کردو کہ ہمارے لیے کھانے پینے کا بندوبست کر دو۔

فہرست پر واپس جائیں

Leave a Reply